اس نے جب ذرا ہوش پکڑا تو وہ لاڑ کانہ میں تھی۔ کہتے ہیں کہ اس کے لوگ ’گیا‘سے تعلق رکھتے تھے ۔ وہ ’گیا‘ جہاں ’راج کمار گوتم سدھا رتھ ‘کو پیپل کے ایک پیڑ کے نیچے گیان کی روشنی ملی تھی۔ دل ہی دل میں وہ ’گیا‘ سے، ’گوتم سدھارتھ ‘ (بدھا ) سے ’پیپل کے پیڑ ‘ سے، ’ روشنی ‘ سے اپنا رشتہ جڑا پاکر بہت خوش ہوتی۔ لاڑکانہ ہی میںاس کی عزیز ترین سہیلی روپا من چندانی کے گھر میں گوتم بدھا کی تین خوب صورت مورتیاں دیکھنے کو ملی تھیں۔ اس میں ایک پیتل کی اور دو کانسی کی بنی ہو ئی تھیں۔ بہانے بہانے سے وہ روپا کے گھر جاتی اور دیر دیر تک ان تینوں مورتیوں کو دیکھا کرتی اس گھرانے کی بڑی عور تیں اس کو دوسری مورتیوں سے بھی متعا رف کراتی رہتیں۔ اس گھر کی دوسری منزل کے ایک گو شے میں چھو ٹا سا خوب صورت مندر بنا ہوا تھا۔ اس مندر میں رادھے اور کرشنا ایک دوسرے سے جڑے ہوئے کھڑے بہت پیارے لگتے، لیکن اس نے کبھی بھی کسی مور تی کے آ گے ہاتھ نہیں جوڑے اور نہ ماتھا ٹیکا۔ یہ اور بات ہے کہ سب سے آنکھ بچا کر وہ بیٹھے ہوئے بدھا کی پیتل کی بنی ہوئی مورتی کو پرنام کرلیتی۔ کیوںکہ وہ ’گیا‘ کے تھے، اس کے اپنے ’گیا‘ کے۔ رادھے کرشنا کی جَپ ہوتی تو وہ شامل ہو جاتی اور کچھ سمے کے لیے خود رادھا بن جاتی۔ اسے یہ بھی یقین تھا کہ اگر وہ راج کمار سدھارتھ کی بیوی ہوتی تو وہ راج محل کو چھوڑ کر مارے مارے نہ پھرسکتے۔ اور اگر وہ نکلتے بھی تو اس کو اور بچے کو ساتھ لے کر نکلتے۔ ان تمام احساسات سے آ میز خیالات کے ساتھ ساتھ وہ اپنے مسلمان ہو نے کو فراموش نہیں کرتی۔ اپنے سیّد ہونے، اور بی بی فاطمہ سے اپنے رشتے پر مان بھی کرتی رہتی۔
اس کو لاڑکانہ بے حد پسند تھا۔ لاڑکانہ سندھ کا بڑا شہر نہ تھا، لیکن تھا بے حد پیارا۔ اس شہر کا مرتبہ سندھ کے بڑے بڑے شہروں سے بڑا تھا، دنیا بھر کے سیّاح جو موہن جو دڑو آتے وہ لاڑکانہ بھی آتے۔ موہن جو دڑو ہزا روں سال قبل کی تہذیب کا نمائندہ تھا۔ وہ لاڑکانہ کا جڑواں شہر تھا۔ لاڑکانہ کے جام (امرود) اور بیر اس کے من بھاتے تھے۔ لاڑکانہ میں جیسی کھاکھراں (نمکین کھجور) گلیوں میں آواز لگا کر فروخت ہوتیں ایسی سندھ کے کسی شہر میں دستیاب نہ ہو تیں۔ اسے پھولوں اور باغات سے والہانہ لگائو تھا۔ اور لاڑکانے کے دونوں بڑے باغ جناح باغ اور گیان باغ تو اس کے کلیجے کے ٹکڑے تھے۔ جناح باغ کے گلاب کے قطعات اور گیان باغ کا داستانی ماحول اور جنگل سی بے ترتیبی اور پھیلائو اس پر جادو سا کردیتے۔ اور وہ چھوٹاسا تالاب جو قریبی نہر سے رسائو کے سبب گیان باغ میں مو جود ہوگیا تھا، اس کی زندگی سے ہم رشتہ تھا۔ اس کے ذہن کے گوشے گوشے میں اس کی نمود تھی۔ گیان باغ کے اسی تالاب میںکنول کے ایک پھول کے نظارے میں گم ہو کر وہ تالاب میں گر پڑی تھی اور قریب تھا کہ پانی میں پھیلی ہوئی گنجان بیل میں پھنسی پھنسی اپنی جان گنوا دیتی کہ دو مضبوط بازوئوں نے اسے بالوں اور شانوں سے پکڑ کر باہر کھینچ نکالا۔ وہ مضبوط بازو اور ہاتھ ڈاکٹر سائیں کے تھے۔
تالاب کے کنارے عورتوں اور بچوں کا مجمع لگا تھا، جس میں اس کی ماں، بہن، ایک چھوٹا بھائی، اسکول کی ہم جماعت لڑکیاں، ایک ادھیڑ عمر کی ٹیچر اور نیم مجذوب بزرگ خاتون اللہ والی ماسی شور پکار مچا رہی تھیں، لیکن کوئی تالاب میں کود کر اس کو باہر نکالنے کی ہمت نہیں کر رہا تھا۔ ٹیچر اور ایک لڑکی جو تیرنا جانتی تھیں، انھوں نے ا پنی سینڈلیں اتارلی تھیں، لیکن جھیل میں اترنے کے لیے قوتِ ارادی کو مجتمع کرنے کی کوشش میں مصروف تھیں کہ اچانک ڈاکٹر سائیں آسمان سے ٹپکے اور آن کی آن میں اسے باہر نکال لے آئے۔ عورتوں، لڑکیوں، اور بچوں، بچیوں کے اس مجمعے کے وہ تنہا مرد تھے۔ وہ پانی میں بری طرح شرابور تھے۔ پانی ان کے گھنے نیم گھونگرالے بالوں میں چھپا چھپ بھرا ہوا تھا اور ان کے چاروںجانب سے چمک دار موتیوں کی مانند قطرہ قطرہ لڑی لڑی ٹپک رہا تھا۔ اس وقت، اس جگہ، اس ماحول میں وہ کوئی یونانی دیوتا یا پھر کرشن کنھیّا لگ رہے تھے، وہ بھی گوپیوں کے درمیان۔ اس نے اپنی جان بچانے والے اس دیوتا کو آنکھ بھرکے نہیں دیکھا تھا، جب بھی نہیں جب وہ جھیل سے باہر اس کو زمین پر عورتوں اور لڑکیوں کے سپرد کر رہے تھے۔ شاید اس سمے وہ اپنی جان بچانے والے کو اس لیے بھی نہ دیکھ سکی ہو کہ پانی اس کی بینائی میں حائل تھا، لیکن اس کے بدن نے ان کی مضبوط پکڑ کو جگہ جگہ محسوس کر لیا تھا۔ کون اس سے واقف تھا کہ اس سمے کیا ہو گزرا تھا۔
حنا کو اس کے لوگوں کے سپرد کرکے اور ضروری ہدایات دے کر ڈاکٹر سائیں زوّار حسین، عورتوں، لڑکیوں اور بچوں، بچیوں سے معمور اس منظر سے رخصت ہوگئے۔ لیکن کچھ ہی دیر بعد ان کا ڈرائیور التو (الطاف) وہاں پہنچ گیا۔ اس نے زور سے آواز لگائی، ’’ڈاکٹر زوّار سائیں نے گاڑی بھیجی ہے۔ ڈوبنے والی مائی اور اس کے ایک دو آ دمیوں کو گھر چھوڑنے کے لیے۔‘‘
ڈرائیور تھوڑی دور جاکر کھڑا ہو گیا تھا۔ اللہ والی ماسی نے زور سے آواز لگائی، ’’چریا کیا بولے جارہا ہے۔ ڈوبنے والی مت بول، ڈوبنے سے بچنے والی بول۔ سچے رب سائیں کے حکم سے تیرے شیر دل سائیں نے ہی تو اسے ڈوبنے سے بچا یا ہے و رنہ کچی عمر میںہی وہ اللہ کو پیاری ہو جاتی۔ بے چاری۔‘‘
’’سلام ماسی! تو نے مجھے پہچانا نہیں— ماں التو آں— تیرا ہم سایہ، قلندر بخش جو پتر۔‘‘
’’اچھا تو قلندر بخش کا چھورا التو ہے۔ تو ڈرائیور کب سے بن گیا رے۔‘‘
التو ہنستے ہوئے، ’’یہی، کوئی ایک آدھ سال سے جب سے ڈاکٹر سائیں نے دواخانہ کھولا۔‘‘
ڈرائیور اور اللہ والی ماسی کی کچہری کے دوران حنا، والدہ، بہن اور ایک بھائی کے ساتھ گاڑی میں سوار کرا دی گئی۔ کسی نے ایک بڑی سی چادر پکڑا دی جس کو تہ در تہ موڑ کر گاڑی کی عقبی نشست پر اس طرح بچھا دی گئی کہ حنا کے کپڑے گاڑی کو کم سے کم آلودہ کریں۔ گاڑی کا یہ سفر منٹوں میں طے پاگیا۔ حنا اپنے گھر اتار دی گئی۔ ماں اور بہن نے اسے سہارا دیا۔ سیٹ پر رکھی چادر جو گیلی ہوچکی تھی اٹھا دی گئی۔ گاڑی ڈاکٹر زوّار حسین کے گھر کی طرف روانہ کر دی گئی جو حنا کے گھر سے زیادہ دور نہ تھا۔
گھر پہنچ کر حنا غسل خانے میں گئی۔ وہاں اس نے گیلے کپڑے اتارے، ماں نے گرم پانی کی بالٹی رکھی ہوئی تھی۔ اس نے اپنے بدن کو اور سر کو صابن سے مل مل کر صاف کیا۔ اور گرم گرم پانی اپنے جسم پر ڈالا۔ نہانے کے دوران اسے کئی بار یہ خیال آیا، اگر ڈاکٹر زوّار اسے نہ بچاتے تو شا ید اس کو غسلِ میت دلوانے کی تیاری ہو رہی ہوتی۔ موت کے خیال سے ہی وہ خوف زدہ ہو جاتی۔
اس نے اپنے جسم کو ایک بڑی سی چادر میں لپیٹا اور غسل خانے سے باہر آگئی۔ اس سے پہلے کہ وہ خشک کپڑے پہنے اس کی ماں مٹی کی ایک سکوری میں جلتے کوئلے اور انگاروں پر عود اور لوبان ڈال کر لے آئی۔ عود اور لوبان کی خوش بوئوں کا دھواں چھوڑتی ہوئی سکوری کو اور اس کے بدن کو کچھ سمے کے لیے پوری طرح ڈھانپ دیا گیا۔ دھویں سے اس کا دم گھٹ رہا تھا لیکن اس کے بدن کو گرمی کی ہلکی ہلکی قابلِ برداشت نشاط انگیز سینک لگ رہی تھی۔ تھوڑی دیر کے بعد اس نے کپڑے پہن لیے۔ ماں نے سرسے پائوں تک اس پر محبت بھری نظر ڈالی اور سوچنے لگی، لڑکیاں کتنی جلدی بڑی ہوجاتی ہیں۔ اور پھر عوداور لوبان کی دھواں مارتی سکوری لے کر گھر کے کونے کونے کو دھواں دینے کمرے سے باہر نکل گئی۔ ماں کے باہر نکلتے ہی حنا نے کمرے کی اندر سے چٹخنی لگائی، بال سنوارے، آنکھوں کو کجلایا، ابھی ماں نے اسے مکمل میک اپ سے دور رکھا تھا۔ وہ خود بھی لب و رخسار کو لال کرنے کے حق میں نہیں تھی۔ اس نے اپنے آپ کو آئینے میں دیکھا، آج مجھے نئی زندگی ملی ہے۔ اس خیال کے آتے ہی ڈاکٹر زوّار اس کے سامنے آگئے۔ اگر وہ مجھے نہ بچاتے تو….. اتنے میں دروازہ کھٹکھٹایا گیا۔ دروازہ کھولا تو باجی اور چھوٹے کو گرم گرم ہر یرے کا پیالہ لیے ہوئے پایا۔ حنا کوہریرہ پسند نہیں تھا، لیکن اسے پینا پڑا وہ بھی بھر پیالہ۔ اتنے میں ماں ایک مرتبہ پھر اس کے کمرے میں آئیں، حنا کو پیار سے لپٹایا، اس کی پیشانی کو بوسہ دیا، دونوں ہاتھ پھیلاکر شکرِرب کیا۔ ڈاکٹر کو اور اس کے پورے خاندان کو دعائیں دیں، حنا کو بستر پر لٹا کر ٹانگوں پر ہلکا سا لحاف ڈالا اور باجی اور چھوٹے کے ساتھ کمرے سے باہر چلی گئیں۔ سب کے جاتے ہی اس نے اپنے زندہ بچ جانے پر اللہ میاں کی بارگاہ میںدل کی گہرائیوں سے شکر گزاری پیش کی ۔ ڈاکٹر زوار کو بھی یاد کیااوردل ہی دل میں ان کا شکریہ بھی ادا کیا۔
ڈاکٹر زوّار شاہ نے ڈائو میڈیکل کالج کر اچی سے حال ہی میں ایم بی بی ایس کیا تھا۔ ہائوس جوب ختم ہوتے ہی لاڑکانہ آکر کلینک شروع کردی۔ حنا سوچ رہی تھی ڈاکٹر زوّار شاہ گیان باغ میں اس وقت کیا کر رہے تھے جب وہ ڈوب رہی تھی۔
ضرور کوئی بیرونی سیّاح موہن جو دڑو ایئر پورٹ پر اترا ہو گا۔ ہزاروں سال پہلے کے مرحوم و مدفون شہر کی سیر کے بعد ہر سیاح کی فطری خواہش ہوتی کہ وہ قریبی زندہ شہر لاڑکانہ بھی دیکھے۔ اس کے لیے ایک دو ٹیکسی، موہن جو دڑو کے گیسٹ ہائوس اور سیاحوں کے ہو ٹل کے آس پاس موجود ہوتیں۔
اس سوچ سے وہ پوری طرح مطمئن نہیں ہوئی اور سوچا، وہ مجھے بچانے کے لیے وہاں اس وقت موجود تھے اور ان کو وہاں ہونا ہی تھا۔‘‘ ایسا سوچنا حنا کو اچھا لگا اور وہ اطمینان کی نیند سوگئی۔
اس کے بعد وہ جاگتی، سوتی رہی اور اسی سونے جاگنے میں وہ دلہن بنی اور بدا ہو کر ڈاکٹر زوّار کی ہوگئی۔ دونوں کی عمروں میں آٹھ دس سال کا فرق تھا۔ وہ اپنے شوہر کو ڈاکٹر سائیں کہتی اور اس کی زبان سے اچھا بھی لگتا۔ کچھ دن ڈاکٹر زوّار نے اس کو نام سے پکارنے کے لیے کہا لیکن— ڈاکٹر زوّار حنا کو موقعے موقعے سے حنا، جانم، سائیں کی جان اور جانے کیا کیا کہتے۔
شادی میں ڈاکٹر زوّار کے لوگوں نے بڑی اڑچنیں لگائی تھیں۔ ان کے خاندان میں شادی کے لائق لڑکیوں کی کمی نہیں تھی، اس لیے خاندان سے باہر ڈاکٹر زوّار کی شادی کا کوئی جواز نہیں بنتا تھا، لیکن بظاہر یہ نہ ہوسکنے والی شادی ہوکر رہی۔
حنا اپنے ڈاکٹر سائیں کو کیوں نہ چاہتی، کیوں نہ ان کی پرستش کرتی۔ ڈاکٹر سائیں نے اپنے خاندان کے چھوٹے بڑوں سے کھلی جنگ لڑ کر اسے اپنا بنایا تھا۔ حنا ان کی سوئمبر میں جیتی ہوئی عورت تھی۔ وہ ڈاکٹر کو اپنا مالک اور آقا خیال کرتی تھی،لیکن ڈاکٹر زوّار نے اس کو اپنی رانی، اپنی ملکہ کا درجہ دیا تھا اور اپنے پورے خاندان میں اسے اور اس کے گھر والوں کو عزت دلوائی تھی۔
حنا اپنی شادی شدہ زندگی سے اندر ہی اندر خوف زدہ تھی۔ حنا کی ماں اور بہن بھی خدشات سے گھری رہتی تھیں۔ شہر کے لوگوں نے ڈاکٹر زوّار کی غیرمعمولی محبت کو دیکھ کر حنا کو جادوگرنی مشہور کر دیا تھا۔ حنا تھی بھی بلا کی خوب صورت۔ کچھ عرصے پہلے تک لاڑکانہ میں دو لڑکیوں کے چرچے تھے ایک روپا من چندانی، دوسری حنا۔ روپا من چندانی کو کسی مہان وڈیرے کے بیٹے نے راتوں رات چارپائی سمیت اٹھوا لیاتھا۔ روپا من چندانی کے روپ کے چرچے ہی باقی رہ گئے تھے— روپا کی پراسرار گم شدگی سے حنا کو اپنی بچپن کی سہیلی سے جدائی کا غم سہنا پڑا اور شہر کی لڑکیوں نے کھل کریہ کہنا شروع کر دیا، ’’روپا کے بعد حنا کا نمبر ہے۔‘‘ یہ حقیقت بھی تھی، لیکن ڈاکٹر زوّار کا خاندان بے حد طا قت ور تھا شاید اسی سبب سے وہ محفوظ رہی۔ کبھی کبھی حنا اپنی خوش بختی پر ناز کرتی کہ وہ روپا من چندانی جیسے المیے سے بچ گئی اس کی بدولت جس نے اسے ڈوبنے سے بچایا۔ ڈاکٹر سائیں جو اس کی زند گی میں فرشتۂ عافیت و طمانیت کے روپ میں داخل ہوئے۔ اسے ایک محبت بھری گھریلو زندگی دی۔ وہ ڈاکٹر سائیں اور اپنے دو بچوں ایک بیٹا اور ایک بیٹی کے ساتھ خوب صورت اور پُرسکون زندگی گزار رہی تھی۔ جب ڈاکٹر سائیں باہر ہوتے تو وہ ان کا پیار بھرا انتظار کرتی۔ بیٹا اس پر اور بیٹی ڈاکٹر سائیں پر گئی تھی۔
ڈاکٹر سائیں کبھی کبھی کسی بیرونی سیّاح کو لاڑ کانہ کی سیر کرا کے موہن جو دڑو ائیر پورٹ چھوڑتے تھے۔ ایک دن ایسے گئے کہ جنازے کی شکل میں لوٹے۔ اس کو ان کی موت کا یقین ہی نہیں ہوتا تھا، تین دن، تین رات وہ ان کا انتظار کرتی رہی، اس کو یقین تھا کہ وہ اپنی لحد سے باہر آجائیں گے۔ اس کے لیے وہ رو رو کر، گڑگڑاکر دعا ئیں بھی مانگتی۔ چوتھے دن جب فجر پڑھ کروہ مصلّے پر بیٹھی ڈاکٹر سائیں کا تصور کر رہی تھی تو اس کا تصور ایک مر کزِ ارتکاز پر مجتمع ہوگیا۔ اس نے سنا تھا گوتم سدھارتھ کو بھی گیان اسی انداز سے حاصل ہوا تھا۔ وہ پیپل کے نیچے دھیان لگائے بیٹھے تھے کہ اچانک ان کا، پیپل کے پیڑ، اس کے پتے پتے کا، ان کے بدن کا، دھرتی کا، آسمانوں کا اور شاید پوری کائنات کا وجود ان کی آ نکھوں کے سامنے ایک نقطے پر سمٹ آیا تھا۔ تب ان کو روشنی نصیب ہوئی۔ حنا کو تجلی تو کیا ملتی یہ ضرور ہوا کہ ڈاکٹر سائیں پورے کے پورے اس کے سامنے آکھڑے ہوئے۔ ان کے ہو نٹوںپر ان کی مخصوص مسکراہٹ تھی۔ حنا کی نگاہوں نے اس مسکراہٹ کو اپنی گرفت میں کیا لیا ڈاکٹر زوّار سارے کے سا رے اس کے اندر سما گئے، اس کے پورے وجود میںان کی آ واز گونج اٹھی، ’’حنا میں تم سے جدا نہیں ہوا، ہمارا ساتھ انتہا کو چھو چکا ہے، ہم ایک ہیں، اکائی کی حد تک ایک۔ ہم ایک ہیں، ہم ایک ہیں۔‘‘ آخری جملہ دو مر تبہ دہرا کر آ واز بند ہوگئی۔ مصلّے پر بیٹھے ہی بیٹھے وہ شانت ہوگئی۔ جب اٹھی تو وہ زندگی سے بھر پور تھی۔ اچھے برے ہر مرحلے سے نبرد آزمائی کے لیے تیار۔
اب حنا ایک مرتبہ پھر جی اٹھی تو ڈاکٹر سائیںکی آ وازیں قدم قدم پر اس کی رہبری کرنے لگیں۔ جس مرحلے پر بھی وہ کسی غفلت میں مبتلا ہوتی تو ڈاکٹر سائیں کی آ واز اسے چونکا دیتی۔ کوئی اہم معاملہ ہو کہ غیر اہم معاملہ آوازہر بھول چوک سنوار دیتی۔ اور تواور وہ بغیر دودھ پیے سونے کے لیے لیٹتی تو آواز اسے کھڑا کر دیتی اور جب تک وہ دودھ نہ لے، لیٹنے نہیں دیتی۔ دودھ پینا حنا کے لیے لازمی تھا ورنہ اس کے معدے میں السر کی تکلیف تازہ ہو جاتی۔ دوپہر کے کھانے کے بعد ڈاکٹر سائیں کی آوازاس کو تھوڑی دیر کے لیے لیٹنے پر مجبور کردیتی۔ شام پانچ بجنے کے ساتھ ہی وہ آواز اسے ٹریڈ مل پر واک کرنے پہنچا دیتی۔ حنا واک کرنے کے معاملے میں بہت سست واقع ہوئی تھی۔ روز و شب کے معمولات میں ڈاکٹر سائیں کی آوازیں غیرمعمولی طور پر داخل رہتیں اور اس کی جانب سے کسی بڑی فروگزاشت کے امکان کا خاتمہ کر دیتیں۔ ایک مر تبہ ڈاکٹر سائیں کی آواز نے اسے آگاہ کیا کہ وہ کرم داد (ڈرائیور) کو کھانا دینا بھول گئی تھی۔ وہ گھر کے نوکروں کو اپنے سے پہلے کھانا کھلانے کے قائل تھے۔ اگر ڈرائیورکو کھانا دینے میں حنا سے غفلت ہو جاتی تو وہ خود ٹرے تیار کرکے نوکر کے ہاتھ بھجوا دیتے تھے۔ ایک مرتبہ بیٹی کو کہیں سے لوٹنے میں غیرمعمولی تاخیر ہو گئی، گھر بھر میں وہ بولائی بولائی پھرتی رہی، ڈاکٹر سائیں کی آواز نے کہا، ’’گل ناز کو فون کرو۔‘‘ حنا نے چونک کر سوچا آخر اس کے اپنے ذہن میں فون کرنے کاخیال کیوں نہ آیا۔ ایک شب وہ سر کے شدید درد میں سو نے کے لیے لیٹی تو آ واز نے کہا، ’’سر کے درد کی گولی لے لو ورنہ تمام رات اذیت میں بسر کروگی۔‘‘ اور یہ تو جیسے طے شدہ بات تھی کہ جب بھی وہ اپنی روز کی دوائی لینا بھول جاتی تو اس کو آواز وقت پر یاد دلا دیتی۔ ایک دن جائیداد کے سلسلے میں وکیل صا حب حنا سے ملنے آئے تو بات چیت نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئی۔ وہ دوسرے دن آنے کا کہہ کر چلے گئے۔ حنا ا بھی اسی سوچ میں مبتلا تھی کہ اس مسئلے کا حل کیسے نکالا جائے کہ آواز نے اس کی رہبری کی، ’’نصیر سے بات کرو۔‘‘ نصیر ڈاکٹر زوّار کے چھوٹے بھائی تھے۔ جائیداد کی دیکھ بھال ان ہی کے ذمّے تھی۔ ڈاکٹر سائیں جائیداد کے ہر معاملے میں ان سے ہی مشورہ کر تے تھے۔ کچھ دن سے وہ اپنی بیٹی گل ناز کے لیے آئے ہوئے رشتے کے سلسلے میں پریشان تھی کہ کیا جواب دے؟ ایک دن آواز نے اس سے کہا، ’’لڑکا جب تک فائنل نہ کر لے کوئی بات نہ کرو اور گل ناز کی پسند کو اوّلیت دو۔‘‘
حنا، ڈاکٹر سائیں کی آوازوں کے ساتھ اپنی زندگی سے نمٹتی رہی۔ حا لات بگڑتے بگڑتے بھی سنبھل جاتے۔ وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ دونوں بیٹا، بیٹی بھی کامیاب زندگی کی جانب پیش قدمی کرچکے تھے۔ اس نے ڈاکٹر سائیں کی آوازوں کا ذکر کسی سے نہیں کیا تھا۔ پھر ایک دن اس نے اپنے احتیاط کے باہر قدم رکھ دیا۔ اور امریکا سے آئی ہوئی اپنی عزیز ترین دوست سے اس کا ذکر کر دیا۔ اس نے پہلا سوال یہی کیا، ’’یہ آوازیں تم تک کہاں سے آتی ہیں؟‘‘
حنا اس کا تشفی بخش جواب نہ دے سکی۔ دیر تک پہلو بدلتی رہی پھر بولی، ’’شاید میرے اپنے اندر سے۔‘‘
اس کی دوست ڈاکٹر عالیہ نیویارک کی مشہور نیورو فزیشن تھی۔حنا کے سلسلے میں وہ ایک دم سنجیدہ ہو گئی۔ اور ان آوازوں کو ڈاکٹر زوّار سائیں سے متعلق کرنے کے خیال کو یکسر مسترد کر تے ہو ئے زور دیا کہ وہ جلد سے جلدکسی اچھے Psychiatrist سے رجوع کرے۔
جب حنا نے اس کو یقین دلایا کہ ’’ان آوا زوں نے برسوں اس کی درست رہبری کی ہے اور وہ ان آوازوں کی رفاقت سے دست بردار ہو نا نہیں چاہتی۔ اس کی زندگی کے سارے بڑے بڑے ٹارگٹ حاصل ہوگئے ہیں۔ اسے زندگی سے مزید کچھ نہیں چاہیے۔‘‘ ڈاکٹر عالیہ جو خود بھی ریٹائرمنٹ کی جانب جا رہی تھیں، حنا کی اس منطق سے بھی متأثر نہیں ہوئیں۔ ڈاکٹر عالیہ کو خدشہ تھا کہ آج نہیں تو کل حنا اپنا ذہنی توازن کھو دے گی۔ وہ اَڑ گئیں کہ ایک دو روز میں وہ حنا کو لے کر کراچی جائیں گی ا ور کسی اچھے Psychiatrist سے مشورہ کریں گی۔ مجبوراً حناکو راضی ہونا پڑا۔
اس نیم رضا مندی کے فیصلے کے بعد ڈاکٹر سائیں کی آوازوں کا سلسلہ بند ہوگیا۔ یوں بھی گھرمیں اسلام آباد، کراچی اور حیدر آ باد سے بہ یک وقت کئی خاندان اس کے گھر پر ٹوٹ پڑے تھے۔ موہن جو دڑو دکھانے اور پھر لاڑکانہ کی مکمل سیر کے سلسلے شروع ہوگئے۔ ایک ہی وقت میں اتنے سارے بچے اکھٹے ہوگئے کہ حنا کا دماغ الٹ گیا۔ بچوں کی فوج کے ساتھ وہ گیان باغ گئی تو وہاں بچوں کے لیے جھولے پڑے ہو ئے تھے۔
عورتیں اور بچے جھو لوں کے علا قے میں جمع تھے کہ ڈاکٹر سائیں کی آواز آئی۔ آواز ایک لمبے وقفے کے بعد آ ئی تھی، ’’تالاب نہیں دیکھو گی، اس کو بھی بہت ترقی دے دی گئی ہے‘‘ وہ بغیر کسی کو بتائے تالاب کی سمت چل پڑی جب کہ گیان باغ آنے سے قبل اس نے خود سب سے وعدہ لیا تھا کہ کوئی بھی تالاب کی طرف نہیں جائے گا۔
تا لاب کے قریب پہنچ کر اس نے دیکھا واقعی جوہڑ نما جو چیز تھی وہ ایک خوب صورت تالاب میں بدل گئی تھی۔ تا لاب میں اس سمے کنو ل کے پتوں پر پانی کی بوندیں موتیوں جیسی لگ رہی تھیں۔ بے شمار ہری ہری تھالیں تھیں جن پر چھوٹے بڑے موتی لڑھک رہے تھے۔ ابھی وہ ان کو دیکھ ہی رہی تھی کہ تالاب کے دوسرے کنارے کی جانب دو کنول کے پھول نظر آئے۔ ان پھولوں کو دیکھ کر وہ سکتے میں آگئی ۔
’’حنا یہ پھول نہیں— ہم ہیں— ہم دونوں— اس سے قبل جو تم ڈوبنے جارہی تھیں وہ صحیح سمے نہیں تھا— اب آگیا ہے صحیح سمے۔‘‘
حنا کی نظریں دونوں کنول کے پھولوں پر تھیں۔ آواز صاف صاف ادھر سے ہی آئی تھی۔ حنا کو پتا بھی نہیں چلا کب اس کے قدم آگے بڑھے، بڑھتے گئے۔
جب حنا کا بے جان بدن پا نی سے باہر لایا گیا تو اس کے چہرے پر وہ مخصوص دہشت نہیں تھی جو عموماً ڈوب کر مرنے والے لوگوں کے چہرے پر پائی جاتی ہے۔