پہلا سوال: ’طلوعِ اسلام‘ بابت ماہ جون 1957ء میں چھپا ہے کہ ہر نبی صاحب کتاب تھا، یہ صحیح ہے یا غلط؟
جواب: یہ بالکل غلط ہے، ہر نبی صاحبِ کتاب نہیں تھا۔ اگر ہر نبی صاحبِ کتاب ہوتا تو موسیٰ علیہ السلام و ہارون علیہ السلام کو دو کتابیں ملتیں، حالانکہ دونوں کو ایک ہی کتاب ملی تھی اور وہ تورات تھی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَاٰتَینٰہُمَا الکِتٰبَ المُستَبِینَ
(سورت الصفات 37 آیت 117)
’ہم نے ان دونوں کو (یعنی موسیٰ و ہارون کو) روشن کتاب دی۔‘
اس کے علاوہ فرمایا:
اِنَّاۤ اَنزَلنَا التَّورٰٮۃَ فِیہَاہُدًی وَّنُورٌ یَحکُمُ بِہَا النَّبِیُّونَ الَّذِینَ اَسلَمُوا لِلَّذِینَ ہَادُوا
(سورت المائدۃ 5 آیت 44)
’ہم نے تورات اُتاری اس میں ہدایت اور روشنی تھی۔ اسی تورات سے متعدد انبیاء جو اپنے رب کے مطیع تھے یہودیوں کو حکم دیا کرتے تھے۔‘
اس آیت سے صاف ظاہر ہو گیا کہ متعدد انبیاء ایک ہی کتاب کے مطابق فیصلے کیا کرتے تھے اور احکام نافذ کرتے تھے۔ اب اگر ہر نبی صاحبِ کتاب ہوتا تو یہ متعدد انبیاء یہود کو اپنی اپنی کتاب کے ذریعے سے حکم دیتے تھے، جو ان انبیاء پر قطعاً نازل ہی نہیں ہوئی تھی۔
آپ لوگوں کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ اس بحث کا مقصد کیا ہے؟ اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ تورات کے علاوہ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر وحی نازل ہوئی، انجیل کے علاوہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر وحی ہوئی، قرآن مجید کے علاوہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر وحی نازل ہوئی۔ دیکھو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَاِذ قَالَ مُوسیٰ لِقَومِہٖۤ اِنَّ اللّٰہَ یَامُرُکُم اَن تَذبَحُوا بَقَرَۃً
(سورت البقرۃ 2 آیت 67)
’اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ اللہ تم کو حکم دیتا ہے کہ گائے ذبح کرو۔‘
اس آیت سے لے کر:
فَقُلنَا اضرِبُوہُ بِبَعضِہَا
(سورت البقرۃ 2 آیت 73) تک پانچ قول اللہ کے ہیں، اگر یہ اقوالِ الٰہی تورات میں مذکور ہوتے تو سوال و جواب کی نوبت نہ آتی، تورات میں قوم دیکھ لیتی اور گھڑی گھڑی سوال و جواب نہ کرتی۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
قَالَ اللّٰہُ اِنِّی مُنَزِّلُہَا عَلَیکُم فَمَن یَّکفُر بَعدُ مِنکُم فَاِنِّیۤ اُعَذِّبُہٗ عَذَابًا لَّاۤ اُعَذِّبُہٗۤ اَحَدًا مِّنَ العٰلَمِینَ
(سورت المائدۃ 5 آیت 115)
’اللہ تعالیٰ نے فرمایا، میں تم پر خوان نازل کروں گا۔ پھر اس کے بعد تم میں سے جس نے کفر کیا اس کو ایسی سخت سزا دوں گا کہ تمام عالَم میں سے کسی کو اتنی سخت سزا نہیں دی ہو گی۔‘
اب اگر انجیل میں یہ اللہ کا قول ہوتا تو حواری یہ نہ کہتے کہ:
ہَل یَستَطِیعُ رَبُّکَ اَن یُّنَزِّلَ عَلَینَا مَآئِدَۃً مِّنَ السَّمَآءِ
(سورت المائدۃ 5 آیت 112)
’کیا تیرا رب آسمان سے ہم پر خوان اُتار سکتا ہے؟‘ اور حضرت عیسیٰ یہ نہ فرماتے کہ: قَالَ اتَّقُوا اللَّہَ(سورت المائدۃ 5 آیت 112) ’اللہ سے ڈرو۔[ بالکل اسی طرح ہمارے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر قرآن نازل ہوا اور اس کے علاوہ وحی نازل ہوئی۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم جب تک مکہ شریف میں تشریف رکھتے تھے اس وقت تک کعبہ کی طرف سجدہ کرتے رہے، حالانکہ اس زمانے کے متعلق قرآن میں کہیں نہیں ہے کہ کعبہ کی طرف سجدہ کرو۔ علیٰ ہذا قرآن کی تنزیلی ترتیب کی تبدیلی اور تعدادِ ازواج بغیر وحی محال ہے۔ تفصیلات گذشتہ صفحات میں پیش کی جاچکی ہیں۔
دوسرا سوال: جب یہ ثابت ہو گیا کہ ہر نبی صاحبِ کتاب نہیں ہے، تو پھر اس آیت کی کیا توجیہ ہے:
فَبَعَثَ اللّٰہُ النَّبِیّٖنَ مُبَشِّرِینَ وَمُنذِرِینَ وَاَنزَلَ مَعَہُمُ الکِتٰبَ
(سورت البقرۃ 2 آیت 213)
’اللہ نے انبیاء کو خوشخبری دینے کے لئے اور ڈرانے کے لئے بھیجا ہے اور ان کے ساتھ کتاب نازل کی؟
جواب: پوری آیت یہ ہے کہ:
کَانَ النَّاسُ اُمَّۃً وّٰحِدَۃً فَبَعَثَ اللّٰہُ النَّبِیّٖنَ مُبَشِّرِینَ وَمُنذِرِینَ وَاَنزَلَ مَعَہُمُ الکِتٰبَ
(سورت البقرۃ 2 آیت 213)
’دنیا میں لوگوں کی ایک ہی جماعت تھی یعنی دو گروہ نہ تھے۔ پھر اللہ نے انبیاء ڈرانے اور خوشخبری دینے کو بھیجے اور ان کے ساتھ کتاب نازل کی۔‘ یہاں لفظ ’کتاب‘ کا ہے، کتابوں کا نہیں ہے۔ ’اور ان کے ساتھ کتاب نازل کی‘ کے یہ معنی نہیں ہیں کہ ان میں سے ہر ایک کے ساتھ کتاب نازل کی۔ یعنی مَعَہُمُ کے معنی مَعَ کُلِّ وَاحِد مَعَہُم نہیں ہیں۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے کہ:
وَلَقَد کَرَّمنَا بَنِیۤ اٰدَمَ وَحَمَلنٰہُم فِی البَرِّ وَالبَحرِ وَرَزَقنٰہُم مِّنَ الطَّیِّبٰتِ وَفَضَّلنٰہُم عَلیٰ کَثِیرٍ مِّمَّن خَلَقنَا تَفضِیلًا
(سورت بنی اسرائیل 17 آیت 70)
’ہم نے بنی آدم کو عزت دی اور ان کو خشکی اور تری میں سواری دی اور ان کو پاکیزہ روزی دی اور ان کو اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت دی۔‘
ان کو خشکی اور تری میں سواری دی، کے یہ معنی ہرگز نہیں ہیں کہ ان میں سے ہر ایک کو سواری دی، اسی طرح پاکیزہ روزی ان میں سے ہر ایک کو نہیں دی گئی۔ نیز ان میں سے ہر ایک کو اکثر مخلوق پر فضیلت نہیں دی گئی، کیونکہ ان میں سے کافر کے لئے فرمایا:
أُولٰئِکَ ہُم شَرُّ البَرِیَّةِ
(سورت البینۃ 98 آیت 6)
’یہ کافر بد ترین خلائق ہیں۔‘ کسی مخلوق سے افضل نہیں ہیں۔ بالکل اسی طرح ’ان کے ساتھ کتاب نازل کی‘ کے یہ معنی نہیں ہیں کہ ان میں سے ہر ایک کے ساتھ کتاب نازل کی، کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو جتنے نبی ہوتے اتنی ہی کتابیں ہوتیں۔
اور اُوپر ہم بیان کر چکے ہیں کہ موسیٰ اور ہارون علیہم السلام دونوں کو ایک ہی کتاب ملی تھی۔ بلکہ اس کے یہ معنی ہیں کہ ان انبیاء میں سے کسی ایک جماعت یا فرد کے ساتھ کتاب نازل کی اور یہ طریقہ تکلم ہر زبان میں ہوتا ہے۔ مثلاً فوجی کے ساتھ توپ خانہ بھیج دیا، برات کے ساتھ جہیز بھیج دیا، فلاں پارٹی کے ساتھ کھانا بھیج دیا اس کے یہ معنی ہیں کہ ہر جوجی ہر براتی یا ہر فرد کے ساتھ توپ خانہ یا جہیز یا کھانا بھیج دیا۔ بالکل اسی طرح انبیاء کے ساتھ کتاب بھیجنے کے یہی معنی ہیں کہ ان میں سے کسی ایک جماعت یا ایک فرد کے ساتھ کتاب بھیج دی۔ اور اس معنی پر لفظ کتاب کا واحد لانا دلالت کر رہا ہے۔ اگر کتاب کی جگہ کُتب کا لفظ ہوتا تو ممکن تھا کہ ہر ہر واحد کے ساتھ کتاب ہوتی۔
تیسرا سوال: منکرینِ حدیث نے صفحہ 58 پر لکھا ہے کہ غلام احمد قادیانی نے اس خیال کو پھیلایا تھا کہ نبی بے کتاب کے بھی ہوتا ہے؟
جواب: مسلمانوں کا بالاجماع اور بالاتفاق یہ عقیدہ ہے کہ نبی صاحبِ کتاب بھی ہوتا ہے اور بے کتاب بھی، اسی عام عقیدے کے پیش نظر قادیانی نے دعویٰ کیا۔ اگر یہ عام عقیدہ نہ ہوتا تو دعویٰ کرتے ہی لوگ اس کی فوراً تکذیب کرتے اور اس کی طرف متوجہ نہ ہوتے۔ مطلب یہ ہے کہ قادیانی نے اس خیال کی تعمیم نہیں کی، بلکہ اس سے قبل تمام مسلمانوں میں یہی عقیدہ تھا یعنی نبی بے کتاب کے بھی آیا کرتا تھا۔
چوتھا سوال: صفحہ 58 پر کہا ہے جو وحی کتاب کے علاوہ تھی وہ وحی کتاب کی طرح کیوں نہیں محفوظ رکھی گئی؟
جواب: محفوظ رکھنے کے دو طریقے ہیں؛ ایک لکھنا، دوسرے مشق کرانا۔ چونکہ وحی غیر کتاب میں اعمال کی تفصیل تھی اس لئے ان کو لکھوایا نہیں بلکہ ان کی مشق کرا دی، کیونکہ اعمال کا لکھنا اتنا مقصود نہیں ہے جتنا ان کا کرنا مقصود ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ’نماز اس طرح پڑھو جس طرح مجھے پڑھتا ہوا دیکھو‘ اسے صرف لکھ کر دیے جاتے تو نماز کی مشق نہیں ہو سکتی تھی۔ ہر شخص کو روز نماز اور اکثر ضروری اعمال کی مشق ہو گئی اس لئے وحی غیر کتاب عملاً محفوظ ہے۔ اور اللہ کا وعدہ سچا ہے جو اس نے کہا کہ:
اِنَّا نَحنُ نَزَّلنَا الذِّکرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُونَ
(سورت الحجر 15 آیت 9)
’ہم ہی نے نصیحت اور ذکر کو نازل کیا اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔‘ تو جس طرح سے قرآن تلاوتاً محفوظ ہے اسی طرح سے وحی غیر کتاب یعنی حدیث عملاً محفوظ ہے۔ ہر شخص جانتا ہے کہ صبح کے فرضوں سے قبل دو سُنتیں ہیں، مغرب کے بعد دو ہیں، ظہر سے پہلے پیچھے چھ سُنتیں ہیں، عشاء کے بعد دو سُنتیں اور تین وتر ہیں، مسواک سُنت ہے، نکیریں کا سوال و جواب حق ہے وغیرہ وغیرہ۔
غرض کہ وحی غیر کتاب کے مضامین عملی طور پر اب تک محفوظ ہیں۔ قرآن کے حافظ تو ایک فیصدی بھی نہیں ملیں گے لیکن حدیث کو عملاً محفوظ رکھنے والے حُفاظ قرآن سے بہت زیادہ ہیں۔ اس کے علاوہ وحی غیر کتاب کونہ لکھنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وحی غیر کتاب انبیاءِ سابقین میں نہیں لکھی جاتی تھی، اس کی دلیل یہ ہے:
وَاُوحِیَ اِلیٰ نُوحٍ اَنَّہٗ لَن یُّؤمِنَ مِن قَومِکَ اِلَّا مَن قَد اٰمَنَ
(سورت ھود 11 آیت 36)
’نوح پر یہ وحی ہوئی کہ اب تیری قوم میں سے کوئی ایمان نہیں لائے گا، جو لانے تھے لا چکے۔‘ یہ وحی غیر کتاب ہے کیونکہ کتاب اصلاحِ قوم کے لئے ہوتی ہے اور یہ وقت اصلاح کا نہیں مایوسی کا ہے۔ اب کوئی ایمان نہیں لا سکتا ایسی صورت میں ایمان اور نیک عمل کے لئے کتاب بھیجنا بے سود تھا لہذا یہ وحی غیر کتاب ہے۔ اور اس آیات کے بعد اور بھی وحی ہوئی اور آخر میں کہا کہ:
مَا کُنتَ تَعلَمُہَا أَنتَ وَلَا قَومُکَ مِن قَبلِ ہَٰذَا
(سورت ھود 11 آیت 49)
’اس سے پہلے نہ تو جانتا تھا ان خبروں کو نہ تیری قوم جانتی تھی۔‘ اور چونکہ سارے عالَم کی طرف بھیجا گیا ہے۔ اس وقت نبی اور سارا جہاں ان وحیوں سے بے خبر تھا اس سے قبل بھی سب لوگ بے خبر تھے، اگر یہ وحی لکھی ہوئی ہوتی تو اس سے قبل کوئی نہ کوئی قوم با خبر ہوتی۔ اس سے پتہ چل گیا کہ متقدمین انبیاء کا دستور نہ تھا کہ وہ وحی غیر کتاب کو لکھواتے۔
اس کے علاوہ ہم پوچھتے ہیں کہ قرآن کو نبی نے کس وجہ سے لکھوایا؟ نبی پر وحی ہوئی تھی کہ قرآن کو لکھوا دو یا انہوں نے اپنی رائے سے لکھوایا؟ بس یہی دو صورتیں ہیں کہ یا وحی سے لکھوایا یا اپنی رائے سے لکھوایا۔ قرآن میں کسی جگہ بھی یہ حکم نہیں ہے کہ قرآن کو لکھو، جہاں ہے یہی ہے کہ پڑھو، سُنو کہیں یہ نہیں ہے کہ لکھو، لہذا اگر وحی سے لکھو یا تو یہ وہی وحی جو غیر قرآن ہے۔ قرآن کے لکھوانے کی وحی ہوئی قرآن کو لکھوایا حدیث کے لکھنے کی وحی نہیں ہوئی، حدیث کو نہیں لکھوایا۔ اور اگر اپنی رائے اور مرضی سے قرآن کو لکھوایا تو بیشک اپنی رائے اور اپنی مرضی سے حدیث کو نہیں لکھوایا، دونوں جگہ رائے کارفرما ہے۔ (اس کی تفصیل پچھلے صفحات میں موجود ہے) نیز ممکن ہے کہ قرآن کو اس وجہ سے لکھوایا ہو کہ اس کے الفاظ کے ساتھ معجزہ متعلق تھا اور چونکہ وہ دعویٰ دائم ہے، لہذا دلیل اور معجزہ بھی دائم ہونا چاہئے۔ حدیث کے الفاظ کے ساتھ معجزہ متعلق نہیں ہے اس وجہ سے اس کو نہیں لکھوایا۔
پانچواں سوال: صفحہ 58 پر منکرِ حدیث نے کہا کہ:
وَمَا یَنطِقُ عَنِ الہَوٰۤی
(سورت النجم 53 آیت 4) کے یہ معنی نہیں ہیں کہ جو کچھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم بولتے تھے وہ سب وحی ہوتا تھا، بلکہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا کچھ بولنا وحی نہیں تھا؟ منکرِ حدیث نے اس آیت سے ثابت کیا ہے:
قُل اِن ضَلَلتُ فَاِنَّمَاۤ اَضِلُّ عَلیٰ نَفسِی وَاِنِ اہتَدَیتُ فَبِمَا یُوحِیۤ اِلَیَّ رَبِّیۤ
(سورت سباء 34 آیت 50)
’ان سے کہہ دو کہ میں اگر غلطی کرتا ہوں تو یہ غلطی میری اپنی وجہ سے ہوتی ہے یا اس کا وبال میرے اُوپر پڑتا ہے، اگر میں سیدھے راستے پر ہوتا ہوں تو یہ وحی کی بناء پر ہوتا ہے، جو میرا رب میری طرف بھیجتا ہے۔‘
سوال یہ ہے کہ یہ کہنا کہ نبی کا کچھ نطق وحی ہے اور کچھ وحی نہیں ہے اور اس پر اس آیت سے استدلال صحیح ہے یا نہیں؟
جواب: یہ استدلال بالکل غلط ہے اور یہ ترجمہ بھی غلط ہے۔ ترجمہ صحیح یہ ہے ’ان سے کہہ دو کہ اگر میں غلطی کروں اور گمراہ رہوں، تو اس غلطی کرنے اور گمراہ ہونے کی صورت میں اس غلطی اور گمراہی کا ضرر میری ہی جان پر پڑے گا‘ غلطی کرنے اور گمراہ ہونے کی تقدیر پر یہ کہلوایا جا رہا ہے۔ حضور واقعی غلطی تو نہیں کرتے تھے اور گمراہ نہیں ہوتے تھے۔
’تقدیر‘ کے معنی یہ ہیں کہ فرض کرو میں گمراہ ہو جاؤں تو اس صورت میں میری گمراہی کا ضرر میری ہی جان پر پڑے گا۔ یہاں ’اِن‘ کا لفظ ہے جو تقدیر اور فرض کے لئے ہے تحقیق نہیں ہے۔ یعنی گمراہی مفروض اور فرضی اور تقدیری ہے نہ کہ تحقیقی۔ جیسے:
اِن کُنتَ فِی شَکٍّ
(سورت یونس 10 آیت 94) اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ ’تو شک میں واقعی ہے‘ بالکل اسی طرح اِن ضَلَلتُ کے یہ معنی نہیں ہیں کہ ’میں واقعتاً گمراہی میں ہوں‘ بلکہ معنی یہ ہیں کہ بفرض محال اگر میں گمراہی میں ہوں تو اس تقدیر پر میری گمراہی کا وبال میری جان پر پڑے گا۔ لہذا اس آیت کا یہ مطلب لینا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے عمل کا کوئی حصہ گمراہی کا بھی تھا کفر صریح ہے۔ اور اس کی مثال سورت مومن میں ہے:
اِن یَّکُ کٰذِبًا فَعَلَیہِ کَذِبُہٗ
(سورت المومن 40 آیت 28) ’اگر موسیٰ جھوٹا ہے تو اس کے جھوٹ کا وبال اسی پر پڑے گا۔
وَاِن یَّکُ صَادِقًا یُّصِبکُم بَعضُ الَّذِی یَعِدُکُم
(سورت المومن 40 آیت 28) ’اور اگر وہ سچا ہے تو جس عذاب کا اس نے وعدہ کیا ہے وہ کچھ نہ کچھ تم کو پہنچ کر رہے گا۔‘ اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ موسیٰ علیہ السلام معاذ اللہ! کچھ جھوٹا ہے اور کچھ سچا ہے۔ بالکل اسی طرح:
قُل اِن ضَلَلتُ فَاِنَّمَاۤ اَضِلُّ عَلیٰ نَفسِی وَاِنِ اہتَدَیتُ فَبِمَا یُوحِیۤ اِلَیَّ رَبِّیۤ
(سورت سباء 34 آیت 50) ہے جس طرح وہاں تقسیم صدق و کذب میں نہیں ہے اس طرح یہاں ہدایات و ضلالت میں تقسیم نہیں ہے۔
تو یہ ترجمہ کرنا کہ اگر میں غلطی کرتا ہوں تو یہ غلطی میری اپنی وجہ سے ہوتی ہے، یہ بالکل غلط ہے۔ اور اس سے یہ معنی نکالنے کہ نبی غلطی کرتا ہے تو اپنی طرف سے کرتا ہے اور سیدھے رستہ پر چلتا ہے تو وحی سے چلتا ہے یہ غلط ہے، کفر ہے، جہالت ہے۔ بلکہ مطلب یہ ہے جو کچھ میں کہتا ہوں اگر یہ میری اپنی طرف سے ہے تو اس کا وبال مجھ پر ہے اور اگر یہ میری اپنی طرف سے نہیں ہے اور قطعاً میری اپنی طرف سے نہیں ہے، تو پھر قطعاً یہ میرے رب کی وحی سے ہے۔ اس آیت کا یہ مطلب ہے، نہ یہ کہ کچھ میری اپنی طرف سے ہے اور کچھ وحی سے ہے۔
اب ہم کہتے ہیں، بولو کیا کہتے ہو؟ تمہارے کہنے کے مطابق نبی اپنی وجہ سے غلطی کرتا ہے، آیا تمہارے نزدیک نبی نے غلطی اپنی طرف سے اپنی وجہ سے کی یا نہیں کی؟ اگر کی، تو قطعی اس آیت کی رُو سے نبی پر اس غلطی کا وبال ہے اور ایسا کہنا قطعی کفر ہے۔ اور اگر نبی نے اپنی وجہ سے غلطی نہیں کی، تو سارا کا سارا معاملہ تمام اقوال و افعال نبی کے بالوحی ہیں اور یہی ہم کو ثابت کرنا ہے۔
اس کے بعد ہم کہتے ہیں کہ سورت النجم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
مَا ضَلَّ صَاحِبُکُم وَمَا غَوَىٰ
(سورت النجم 53 آیت 2)
’تمہارا سردار نہ گمراہ ہے نہ کج راہ ہے۔‘ اب اس آیت یعنی اِن ضَلَلتُ فَاِنَّمَاۤ اَضِلُّ کے کیا معنی ہوئے؟ جب کہ صاف طور پر قرآن نے کہہ دیا کہ تمہارا سردار ضال نہیں ہے، پھر نبی اپنی وجہ سے یا اپنی طرف سے کونسی ضلالت کرتا ہے؟ لہذا اگر نبی ضلالت کرے گا تو تمام نظامِ شریعت باطل ہو جائے گا۔ اور مسلمان کے منہ سے نعوذ باللہ! یہ کلمہ کیونکر نکل سکتا ہے، نبی ضلالت کرتا ہے؟ نبی کے متعلق فرمایا:
عَلَىٰ صِرَاطٍ مُستَقِیمٍ
(سورت یٰس 36 آیت 4) ’سیدھے رستے پر ہے۔‘
بس مطلب یہ ہے جو کچھ بھی میں کہتا ہوں، اگر یہ میری اپنی طرف سے ہے تو قطعاً اس کا وبال میری جان پر ہے، یعنی وبال میری اپنی طرف سے کہنے پر معلّق ہے۔ اس کی ایسی مثال ہے جیسے کوئی کہے کہ اگر زید پتھر ہو گا تو وہ بے جان ہو گا اور زید کا پتھر ہونا محال ہے، اس شرطِ محال پر جزا مرتب ہے۔ اسی طرح یہ بات ہے کہ اگر میں غلطی کرتا ہوں یعنی میرا غلطی کرنا محال ہے، کیونکہ یہ محال وبالِ جان ہے اور میرے اُوپر کوئی وبال نہیں ہے، لہذا میرا غلطی کرنا محال ہے۔ ایسی غلطی وہ لوگ کیا کرتے ہیں جو ابتدائی قوانینِ علم سے بھی بے خبر ہوتے ہیں۔ لہذا آیت شریفہ کے یہ معنی ہوئے جو کچھ بھی میں کہتا ہوں اگر یہ میری اپنی طرف سے ہے اور میں نے غلط طریقے پر اس کو خدا کی طرف منسوب کیا ہے تو بیشک اس کا وبال میری جان پر ہے۔ اور اگر جو کچھ میں کہتا ہوں میری اپنی طرف سے نہیں ہے تو قطعاً یہ اللہ کی وحی سے ہے۔ غور کرو۔
چھٹا سوال: (صفحہ 59) اسی مقام پر منکرِ حدیث نے کہا ہے کہ اس حقیقت کی تشریح میں قرآن میں کئی واقعات ایسے مذکور ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے حضور سے کہا ہے کہ آپ نے ایسا کیوں کہا؟ مثلاً سورت توبہ میں ہے: عَفَا اللّٰہُ عَنکَ (سورت التوبۃ 9 آیت 43) ’اللہ تجھے معاف کرے۔‘ تو انہوں نے کیوں اجازت دی؟ اب سوال یہ ہے کہ حضور کی جب ہر بات وحی سے تھی تو پھر یہ تادیب کیسی؟ یعنی پہلے خود ہی وحی کی اور پھر پوچھا ایسا کیوں کیا؟
جواب: اللہ تعالیٰ کو ہر وقت حق ہے جو چاہے کہے اور جو چاہے کرے۔ اللہ تعالیٰ کو خوب معلوم ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے تثلیث کی تبلیغ نہیں کی اور پھر ان سے پوچھا کہ کیا تو نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو بھی اللہ کے علاوہ معبود قرار دو؟ اللہ کو خوب معلوم تھا کہ انہوں نے یہ بات ہرگز نہیں کہی، پھر بھی اللہ تعالیٰ نے ان سے پوچھا۔ اللہ تعالیٰ نے اعلان کر دیا:
إِنَّکَ لَمِنَ المُرسَلِینَ، عَلَىٰ صِرَاطٍ مُستَقِیمٍ
(سورت یٰس 36 آیات 3 -4)
’بیشک تو رسولوں میں سے ہے سیدھے رستے پر ہے۔‘
اللہ نے اعلان کیا:
وَمَا یَنطِقُ عَنِ الہَوَىٰ
(سورت النجم 53 آیت 3) ’تمہارا صاحب نہ گمراہ ہے نہ کج راہ ہے۔‘
ان دونوں آیتوں سے ظاہر ہو گیا کہ نبی نے کوئی گناہ نہیں کیا، اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
لِّیَغفِرَ لَکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّمَ مِن ذَنۢبِکَ وَمَا تَاَخَّرَ
(سورت الفتح 48 آیت 2) ’تاکہ تیرے اگلے پچھلے گناہ معاف کر دے۔ اللہ کو حق ہے کہ وہ یہ کہہ دے کہ اس نے تیرے گناہ معاف کر دیئے۔‘ حالانکہ اللہ نے خود اُوپر کی آیتوں میں نبی کی بے گناہی بیان کر دی اللہ نے فرمایا:
وَاعلَمُوۤا اَنَّ اللّٰہَ یَحُولُ بَینَ المَرءِ وَقَلبِہٖ
(سورت الانفال 8 آیت 24) ’سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ آدمی اور اس کے دل کے درمیان حائل ہو جاتا ہے۔‘ یعنی اس کے دل تک ایمان کو آنے نہیں دیتا۔ اور پھر خود کہتا ہے: فَاَینَ تَذہَبُونَ (سورت التکویر 81 آیت 26) ’کہاں چلے جاتے ہو؟‘ کَیفَ تَکفُرُونَ (سورت البقرۃ 2 آیت 28) ’کیوں کفر کر رہے ہو؟‘ خود ہی ان کے دل تک ایمان کو پہنچنے نہیں دیتا اور خود ہی کہتا ہے: مَا ذَا عَلَیہِم لَو اٰمَنُوا (سورت النساء 4 آیت 39) ’ان کا کیا جاتا جو ایمان لے آتے۔‘ خود کہتا ہے: فَإِنَّ اللَّہَ یُضِلُّ مَن یَّشَاءُ (سورت فاطر 35 آیت 8) ’اللہ جس کو چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے۔‘ اور پھر کہا ہے: اَنّیٰ یُصرَفُونَ (سورت المومن 40 آیت 69) ’کہاں پھرے جاتے ہو؟ فَاَنّیٰ تُؤفَکُونَ (سورت المومن 40 آیت 62) ’کہاں بہکے جاتے ہو؟‘ خود کہتا ہے: خَتَمَ اللّٰہُ عَلیٰ قُلُوبِہِم (سورت البقرۃ 2 آیت 7) ’ان کے دلوں پر اللہ نے مُہر لگا دی۔‘ اور پھر خود کہتا ہے: مَالَھُم لَایُومِنُون ’ان کو کیا ہو گیا جو ایمان نہیں لاتے؟‘ خود کہتا ہے: وَجَعَلنَا مِن بَینِ أَیدِیہِم سَدًّا وَمِن خَلفِہِم سَدًّا (سورت یسن 36 آیت 9) ’ہم نے ان کے آگے اور پیچھے روک لگا دی۔‘ اور پھر خود کہتا ہے: وَمَا مَنَعَ النَّاسَ اَن یُّؤمِنُوۤا (سورت بنی اسرائیل 17 آیت 94) ’لوگوں کو ایمان لانے سے کس نے روکا؟‘ خود کہا: فَاِنَّا قَد فَتَنَّا قَومَکَ مِنۢ بَعدِکَ (سورت طہٰ 20 آیت 85) ’ہم نے تیرے بعد میں تیری قوم یعنی موسیٰ کی قوم کو بچلا دیا۔‘ خود کہتا ہے: ثُمَّ اتَّخَذتُمُ العِجلَ (سورت البقرۃ 2 آیت 52) ’تم نے بچھڑے کو معبود بنا لیا۔‘ خود کہا: فَلَا وَرَبِّکَ لَا یُؤمِنُونَ حَتّیٰ یُحَکِّمُوکَ (سورت النساء 4 آیت 66) ’بخدا! وہ مسلمان ہی نہیں شمار کئے جائیں گے جب تک وہ تم کو حَکم نہ بنائیں گے۔‘ یہاں نبی کو حکم بنا دیا۔ خود کہتا ہے: لِمَ اَذِنتَ لَہُم (سورت التوبۃ 9 آیت 43) ’تُو نے کیوں اجازت دے دی؟‘ براہینِ قاہرہِ عقلیہ سے ثابت ہو گیا کہ بندہ کے ہر فعل کا خالق خدا ہی ہے اور نص سے بھی: وَاللّٰہُ خَلَقَکُم وَمَا تَعمَلُونَ (سورت الصافات 37 آیت 96) ’اللہ تمہارا اور تمہارے اعمال کا خالق ہے۔‘ اس کے باوجود بندے کو بُرا کہہ رہا ہے کہ تم نے یہ کیوں کیا۔ غرض یہ کہ بے شمار آیات موجود ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ بندہ کے ہر عمل کا خالق خدا ہی ہے؛ اور بے شمار آیات ایسی ہیں جن میں بندہ سے کہتا ہے۔ تو نے یہ کیوں کیا؟
اب اور دیکھئے فرماتا:
سَنَفرُغُ لَکُم اَیُّہَ الثَّقَلَانِ
(سورت الرحمن 55 آیت 31) ’اے جن و انس! ہم تم سے سلٹنے کے لئے تیار ہو گئے ہیں۔‘ اس آیت میں انتہائی ڈانٹ ہے۔ آگے کہتا ہے: فَبِأَیِّ آلَاءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ (سورت الرحمن 55 آیت 13) ’تم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟‘ پھر فرمایا:
یُرسَلُ عَلَیکُمَا شُوَاظٌ مِن نَارٍوَنُحَاسٌ فَلَاتَنتَصِرَانِ
(سورت الرحمن 55 آیت 35) ’تم پر آگ کا شعلہ اور دھواں چھوڑا جائے گا اور کوئی تمہارا مددگار نہیں ہو گا۔‘ فَبِأَیِّ آلَاءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ (سورت الرحمن 55 ایت 13) ’تم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟ یَطُوفُونَ بَینَہَا وَبَینَ حَمِیمٍ اٰنٍ (سورت الرحمن 55 آیت 44) ’مجرمین جہنم اور گرم پانی کے درمیان پھرتے پھریں گے۔‘ پھر کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟ ان آیات سے صاف ظاہر ہے کہ یہ نعمتیں نہیں ہیں بلکہ یہ عذاب ہیں۔ لیکن ان کو نعمتوں کی فہرست میں بیان کر رہا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کو حق ہے کہ جو چاہے سو کہے اور جو چاہے سو کرے، اس کے فعل سے سوال نہیں کیا جا سکتا: لَا یُسَٔلُ عَمَّا یَفعَلُ (سورت الانبیاء 21 آیت 23)۔ اب ذرا غور کرو کہ جن لوگوں کو اجازت دی تھی اگر وہ اس اذنِ نبی و اجازت نبی پر عمل نہ کرتے تو یہ سب مجرم ہو جاتے۔ اب اگر عمل کر لیا تو نبی کی اطاعت ہو گئی اور نبی کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے: مَّن یُّطِعِ الرَّسُولَ فَقَد اَطَاعَ اللّٰہَ (سورت النساء 4 آیت 80) تو گویا نبی نے ان کو اجازت دے کر اللہ کی اطاعت کرائی۔ اب خود ہی اپنی اطاعت پر وہ کہہ رہا ہے کہ تو نے کیوں میری اطاعت کرائی؟ اس سے صاف ظاہر ہو گیا کہ وہ جو چاہے سو کرے اور جو چاہے کہے، کُل کلاں اس کو حق ہے۔
اب یہاں ایک نکتہ سمجھ لینا چاہیئے کہ جب گمراہی کرانے کی اور اضلال کی نسبت اللہ اور رسول کی طرف ہو، تو اضلال کی نسبت اللہ کی طرف کرنے یا ماننے سے ایمان میں کوئی خرابی نہیں آئے گی۔ البتہ رسول کی طرف ایسی نسبت کرنی کفر ہو گی، کیونکہ خود اللہ تعالیٰ نے اضلال کی نسبت اپنی طرف کی ہے اور نبی کی طرف کسی جگہ بھی اضلال کی نسبت نہیں کی، بلکہ ہدایت کی نسبت کی ہے: إِنَّکَ لَتَہدِی إِلَى صِرَاطٍ مُّستَقِیمٍ (سورت الشوریٰ 42 آیت 52) ’بیشک تُو سیدھے راستے کی ہدایت کرتا ہے۔‘ إِنَّکَ لَمِنَ المُرسَلِینَ (3) عَلَىٰ صِرَاطٍ مُستَقِیمٍ (سورت یٰس 36 آیت 4) ’بیشک تو رسولوں میں سے ہے سیدھے راستے پر ہے خود سیدھے راستے پر ہے۔‘ اللہ کی شان یہ ہے کہ جس کو چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے جس کو چاہتا ہے سیدھے رستے دکھاتا ہے۔ تو اضلال کی نسبت اللہ کی طرف غلط نہیں ہے اور نبی کی طرف غلط ہے، کفر ہے۔
ساتواں سوال: اَمسِک عَلَیکَ زَوجَکَ (سورت الاحزاب 33 آیت 37) ’اپنی بیوی کو اپنے پاس رہنے دے۔‘ اگر یہ وحی تھی تو پھر زید نے کیوں نہیں اس پر عمل کیا؟
جواب: یہ وحی تھی، لیکن صیغہ امر جس طرح وجوب کے لئے آتا ہے اسی طرح اور بہت سے معنی کے لئے آتا ہے، یہاں وجوب کے لئے نہیں ہے۔ اس کی ایسی مثال ہے جیسے: وَاِذَا حَلَلتُم فَاصطَادُوا (سورت المائدۃ 5 آیت 2) ’جب تم احرام سے باہر ہو جاؤ، تو شکار کرو۔‘ یہ صیغہ امر ہے، مگر وجوبِ شکار کے لئے نہیں ہے: وَمَن شَاءَ فَلیَکفُر (سورت الکہف 18 آیت 29) یہ صیغہ امر ہے وجوب کے لئے نہیں ہے یعنی جو چاہے کفر کرے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کفر واجب ہے بلکہ تہدید ہے۔ اعمَلُوا مَا شِئتُم (سورت فصلت 41 آیت 40) ’جو چاہو کرو۔‘ یہ سب امر کے صیغہ ہیں مگر وجوب کے لئے نہیں ہیں۔ اسی طرح: اَمسِک عَلَیکَ زَوجَکَ (سورت الاحزاب 33 آیت 37) کا صیغہ امر ِوجوبی نہیں ہے جو اس پر عمل نہ کرنے سے مخالفتِ رسول لازم آئے۔
آٹھواں سوال: منکرینِ حدیث نے اسی صفحہ 59 پر کہا ہے:
وَمَا یَنطِقُ عَنِ الہَوَىٰ(3) إِن ہُوَ إِلَّا وَحیٌ یُوحَىٰ
(سورت النجم 53 آیات 4) کے کیا معنی ہیں؟
جواب: اس کے معنی یہ ہیں کہ تمہارا صاحب اپنی خواہش سے نہیں بولتا، جو کچھ بولتا ہے یعنی اس کا بولنا صرف وحی ہے جو اس کی طرف کی جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ قرآن اپنی خواہش سے نہیں بولتا، کیونکہ إِن ہُوَ إِلَّا وَحیٌ میں ہُوَ کی ضمیر کا مرجع اُوپر لفظاً مذکور نہیں ہے۔ کیونکہ اُوپر صرف تین لفظ ہیں؛ النَّجمِ، صَاحِب اور الہَوَىٰ اور یہ تینوں وحی نہیں ہیں، لہذا ہُوَ کا مرجع معناً یَنطِقُ میں نطق ہے۔ لہذا آیت: إِن ہُوَ إِلَّا وَحیٌ کے معنی ہوئے کہ تمہارے صاحب کا ’نطق‘ صرف وحی ہی ہے، نہیں ہے تمہارے صاحب کا نطق مگر وحی۔ یہاں نطقِ نبی کو وحی کہا ہے۔ اور قرآن نطقِ نبی نہیں ہے اور جو کوئی قرآن کو نطقِ نبی کہے وہ کافر ہے، کیونکہ قرآن تو نطق باری تعالیٰ ہے۔ اور اس آیت میں وحی نطقِ نبی کے لئے ثابت ہے، لہذا نطق نبی وحی ہے، نبی کے تمام اقوال وحی ہیں۔
اس کے بعد میں کہتا ہوں ذرا آگے چل کر فرمایا:
فَأَوحَىٰ إِلَىٰ عَبدِہِ مَا أَوحَىٰ
(سورت النجم 53 آیت 10) ’اس نے اپنے بندے کو وحی کی جو وحی کرنی تھی۔‘ آج تک یہ پتہ نہیں چل سکا کہ جو وحی اپنے بندے کو کی تھی، یعنی مَا أَوحَىیٰہ قرآن کی کونسی آیت ہے؟ اب اگر وحی صرف قرآن ہی ہو گا تو بتاؤ کہ یہ مَا أَوحَىٰ، کی وحی قرآن میں کس جگہ ہے؟ کیونکہ: فَأَوحَىٰ إِلَىٰ عَبدِہِ مَا أَوحَىٰ (سورت النجم 53 آیت 10) یہ آیت حکایت ہے اس وحی سے جس کو مَا أَوحَىٰ کے لفظ سے تعبیر کیا ہے۔ بولو کیا کہتے ہو؟ یہ وحی قرآن میں ہے تو بتاؤ کہ کونسی آیت ہے، کونسی آیتیں ہیں؟ آج تک کوئی مفسر، کوئی عالِم یہ نہیں بتا سکا اور نہ بتا سکتا ہے کہ یہ وحی فلاں آیت یا آیتیں ہیں، کیونکہ قرآن معین ہے اور یہ وحی مبہم ہے۔ لہذا معلوم ہو گیا یہ وحی قرآن سے باہر ہے اور یہ اگر غیر قرآن ہے۔
ہم پوچھتے ہیں نبی کا قول وحی ہے یا نہیں؟ اگر کہو کہ وحی ہے، تو بیشک حق ہے یہی ہماری مراد ہے۔ اگر کہو کہ نہیں ہے، تو بولو کیا کہتے ہو جس وقت نبی نے کہا کہ یہ کتاب یا یہ آیات یا یہ سورت مجھ پر نازل ہوئی ہے، آیا یہ قول نبی کا ماننے کے قابل ہے یا نہیں؟ اگر کہو کہ ماننے کے قابل ہے، تو ٹھیک ہے، بس یہی معنی نبی کے قول، نبی کی حدیث کے حجت ہونے کے ہیں لہذا حدیث نبی حجت ہو گئی۔ اگر کہو کہ یہ قول ماننے کے قابل نہیں ہے، تو حدیث کے ساتھ قرآن بھی گیا نہ حدیث رہی، نہ قرآن رہا، نہ دین، نہ اسلام کافر ہونے کے ساتھ ساتھ مجنون بھی ہو گئے۔ خدا کے قہر سے ڈرو! کیوں دین کو تباہ کر رہے ہو؟
نواں سوال: منکرینِ حدیث نے صفحہ 60 پر کہا ہے:
وَاِذ اَسَرَّ النَّبِیُّ اِلیٰ بَعضِ اَزوٰجِہٖ حَدِیثًا فَلَمَّا نَبَّاَت بِہٖ وَاَظہَرَہُ اللّٰہُ عَلَیہِ عَرَّفَ بَعضَہٗ وَاَعرَضَ عَنۢ بَعضٍ فَلَمَّا نَبَّاَہَا بِہٖ قَالَت مَن اَنۢبَاَکَ ہٰذَا قَالَ نَبَّاَنِیَ العَلِیمُ الخَبِیرُ
(سورت التحریم 66 آیت 3)
’اور جب نبی نے چپکے سے اپنی کسی بیوی سے ایک حدیث بیان کی۔ پھر اس بیوی نے اس کو کسی اور سے کہہ دیا اور اللہ نے آپ کو اس سے آگاہ کر دیا۔ آپ نے کچھ بات اس بیوی سے کہی اور کچھ سے اعراض کیا۔ پھر جب نبی نے بیوی کو اس بات پر آگاہ کیا۔ تو بیوی بولی آپ کو اس کی خبر کس نے دی؟ آپ نے فرمایا مجھے علیم و خبیر نے خبر دی۔‘
اس آیت کے دونوں ٹکڑے وَاَظہَرَہُ اللّٰہُ عَلَیہِ اور نَبَّاَنِیَ العَلِیمُ الخَبِیرُ اس بات پر دلالت کر رہے ہیں کہ قرآن شریف سے علاوہ بھی نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر وحی ہوئی۔
سوال یہ ہے کہ منکرِ حدیث نے کہا ہے کہ وَاَظہَرَہُ اللّٰہُ عَلَیہِ یعنی اللہ نے نبی پر اس کو ظاہر کر دیا اور نَبَّاَنِیَ العَلِیمُ الخَبِیرُ ’علیم و خبیر نے مجھے آگاہ کر دیا۔‘ ان دونوں ٹکڑوں میں یعنی اللہ کے ظاہر کرنے اور علیم و خبیر کے آگاہ کرنے میں اس بات پر دلالت نہیں ہے کہ یہ اظہار اور آگاہی وحی کے ذریعہ ہو، بلکہ یہ اظہار اور آگاہی ایسی ہے کہ جیسے اللہ نے تم کو کتّوں کے سَدھانے کی تعلیم دی ہے اور جس طرح تم کو کتّوں کو سَدھانے کی تعلیم دینا وحی نہیں اسی طرح نبی پر اس واقعہ کا اظہار اور ابناء وحی نہیں ہے۔ اور جس طرح اللہ نے فرمایا:
عَلَّمَ الاِنسٰنَ مَا لَم یَعلَم
(سورت العلق 96 آیت 5) ’انسان کو وہ کچھ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا۔‘ اور جس طرح یہ انسان کی تعلیم وحی نہیں اسی طرح نبی پر اللہ کا اس واقعہ کو ظاہر کرنا اور علیم و خبیر کا نبی کو آگاہ کرنا بھی وحی نہیں ہے، سوال یہ ہے کہ یہ صحیح ہے یا غلط ہے؟
جواب: بالکل غلط ہے۔ انسان کو دو چیزیں دی گئی ہیں؛ ایک تو علم کی فعلیت اور ایک علم کی قابلیت۔ فعلیت کے یہ معنی ہیں کہ جس وقت انسان اپنے حواس کو محسوسات کی طرف متوجہ کرے تو فوراً اس کو ان محسوسات کا شعور، ادراک، احساس، علم ہو جائے، اس کو بدیہی علم کہتے ہیں۔ دوسری چیز قابلیت ہے، استعداد ہے، صلاحیت ہے یہ چیز صرف حواس کی توجہ سے حاصل نہیں ہوتی۔ یعنی جس علم کی قابلیت دی ہے وہ صرف حواس کی توجہ سے حاصل نہیں ہوتا بلکہ اس کے حاصل کرنے کے لئے جد و جہد، کوشش، اکتساب، غور فکر کرنا پڑتا ہے، اس علم کو نظری علم کہتے ہیں۔ ہر انسان کی فطرت میں نظری علم کی قابلیت اور بدیہی علم کی فعلیت اللہ تعالیٰ نے رکھی ہے۔ اور انبیاء کو جو علوم دیئے جاتے ہیں وہ ان دونوں علموں سے ممتاز ہوتے ہیں انہی کو وحی کہا جاتا ہے۔ اس لئے نبی من حیث النبی کا علم عام انسانوں جیسا نہیں ہوتا۔ نبی کا علم خدا کا کلام، خدا کی خبر، خدا کا قول سُننا ہوتا ہے اور خدا کا بشر سے کلام کرنا ہی وحی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَمَا کَانَ لِبَشَرٍ اَن یُّکَلِّمَہُ اللّٰہُ اِلَّا وَحیًا اَو مِن وَّرَآئِ حِجَابٍ اَو یُرسِلَ رَسُولًا فَیُوحِیَ بِاِذنِہٖ مَا یَشَآءُ
(سورت الشوریٰ 42 آیت 51) ’اللہ تعالیٰ بشر سے جب کلام کرتا ہے تو صرف ان تین طریقوں سے؛ وحی سے یا پردہ کے پیچھے سے یا اپنا ایک پیغامبر بھیجتا ہے وہ اللہ کی اجازت سے، اللہ کی منشاء کے مطابق وحی کر دیتا ہے‘ اور یہ تینوں طریقے وحی ہیں۔ پہلی وحی یعنی وَحیًا ظاہر وحی ہے اور مِن وَّرَآئِ حِجَابٍ جیسے حضرت موسیٰ سے پس پردہ کلام کیا تھا، یہ بھی وحی ہے: فَاستَمِع لِمَا یُوحٰۤی (سورت طہٰ 20 آیت 13) ’اے موسیٰ! جو وحی ہو رہی ہے اس کو سُن۔‘ تیسرے طریقہ میں بھی یُوحِیَ کا لفظ موجود ہے۔
الغرض نبی کا علم اللہ کا کلام کرنا ہے اور اللہ کا نبی سے کلام کرنا یہ وحی ہے، لہذا نبی کا علم وحی ہے۔ لہذا جب بھی اللہ نبی کو کوئی بات بتائے گا وہ وحی ہو گی اور وہ وحی کے ذریعہ ہو گی، بدیہی اور نظری علوم کے ذریعہ نہیں ہو گی۔ کیونکہ ان دونوں کے ذریعہ تو عام انسانوں کوتعلیم کر دی ہے اور اگر نبی کو بھی ان ہی دونوں ذریعوں سے تعلیم کرتا تو عام انسانوں سے نبی فائق نہ ہوتا۔ نیز نبی اور غیر نبی کا فرق اس طرح بتایا:
قُل اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثلُکُم یُوحٰۤى اِلَیَّ
(سورت الکہف 18 آیت 110) ’میں تمہارے جیسا آدمی ہوں فرق صرف یہ ہے کہ مجھ پر وحی ہوتی ہے‘ تو وحی عام انسانوں کے علوم بدیہیہ اور نظریہ سے ممتاز چیز ہو گئی، لہذا جب بھی اللہ نبی کو خبر دے گا وہ وحی ہو گی۔ جب بھی اللہ نبی پر کوئی شئے ظاہر کرے گا وہ وحی ہو گی، جب بھی اللہ نبی کو آگاہ کرے گا وہ وحی ہو گی ورنہ عام انسانوں سے ممتاز نہیں ہو گا اور پھر نبوت کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔
اس کے علاوہ میں کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
تِلکَ مِن اَنۢبَآءِ الغَیبِ نُوحِیہَاۤ اِلَیکَ مَا کُنتَ تَعلَمُہَاۤ اَنتَ وَلَا قَومُکَ مِن قَبلِ ہٰذَا
(سورت ھود 11 آیت 59) ’یہ غیب کی خبریں ہیں جن سے ہم نے وحی کے ذریعہ تجھے آگاہ کیا۔ اس سے پہلے نہ تو جانتا تھا اور نہ تیری قوم جانتی تھی۔‘ اس سے صاف ظاہر ہو گیا کہ غیب کی خبریں بغیر وحی کے معلوم نہیں ہو سکتیں۔ اور یہ جو بیوی نے افشاءِ راز کیا اور نبی نے فوراً ہی بیوی کو آگاہ کیا، یہ نبی کا آگاہ کرنا غیب کی خبر ہے اور غیب کی خبر بغیر وحی کے نہیں ہو سکتی، لہذا اللہ نے نبی پر جو ظاہر کیا اور علیم و خبیر نے جو آگاہی نبی کو دی، یہ وحی تھی۔
دلیل کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی کا اپنی بیوی کو آگاہ کرنا غیب کی خبر ہے اور غیب کی خبر دینی وحی ہے، لہذا نبی کا اپنی بیوی کو آگاہ کرنا وحی ہے۔ دیکھو نبی نے اپنی بیوی سے ایک بات کہی، پھر جب اس بیوی نے وہ بات دوسرے سے کہہ دی، یہ شرط ہے اس کی جزا ہے عَرَّفَ بَعضَہٗ یعنی کچھ حصہ بات کا نبی نے بیوی کو جتلایا اور اس شرط و جزا کے بیچ میں وَاَظہَرَہُ اللّٰہ آ گیا ہے، یعنی اللہ نے نبی پر ظاہر کر دیا۔ یعنی اِدھر بیوی نے افشاءِ راز کیا اُدھر نبی نے باظہارِ الٰہی بیوی کو جتلایا یعنی بیوی کے افشاءِ راز کرتے ہی نبی نے بیوی کو جتلایا۔ اب اللہ کہتا ہے فَلَمَّا نَبَّاَہَا بِہٖ جونہی نبی نے بیوی کو آگاہ کیا، بیوی کو سخت تعجب ہوا کہ ابھی راز فاش کرتے کچھ دیر نہیں گزری ان کو کیسے معلوم ہو گیا اور کہا کہ آپ کو کس نے بتایا؟ آپ نے فرمایا، علیم و خبیر نے۔‘ اس آیت کے اگلے پچھلے ٹکڑے کو ملاتے ہی آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ اِدھر افشاءِ راز ہوا، اُدھر باظہارِ الٰہی نبی نے بیوی کو جتلایا، لہذا بیوی کے افشاءِ راز کی خبر بیوی کو دینی غیب کی خبر ہے اور غیب کی خبر بغیر وحی نا ممکن ہے لہذا اظہارِ الٰہی وحی ہے۔
دسواں سوال: (نمبر 3 کا دوسرا جزو صفحہ 61) کیا ’علیم و خبیر‘ غیر اللہ ہو سکتا ہے؟ جیسا کہ منکرِ حدیث نے کہا ہے؟
جواب: ہرگز نہیں، اس لئے کہ واقعہ ایک ہی ہے، ایک ہی واقعہ کے لئے اَظہَرَ آ گیا اور اسی واقعہ کے لئے ’نَبَّاَ ءَ‘ آیا۔ تو آگاہ کرنے والا اور ظاہر کرنے والا ایک ہوا اور ظاہر کرنے والا اللہ ہے، تو آگاہ کرنے والا بھی اللہ ہی ہوا اور آیت میں آگاہ کرنے والا علیم و خبیر ہے، تو معلوم ہو گیا کہ علیم و خبیر اللہ ہی ہے۔
گیارہواں سوال: منکرینِ حدیث نے جو اپنے رسالہ ’طلوعِ اسلام‘ بابت جون 1957ء صفحہ 62 کے شروع میں کہا ہے کہ ’یاد رکھئے حضرت انبیاء کرام کی طرف سے جو وحی آتی تھی اس کا تعلق انسانوں کی ہدایت سے ہوتا تھا۔‘ سوال یہ ہے کہ کیا یہ بات صحیح ہے یا غلط؟
جواب: غلط ہے۔ دیکھو:
وَاُوحِیَ اِلیٰ نُوحٍ اَنَّہٗ لَن یُّؤمِنَ مِن قَومِکَ اِلَّا مَن قَد اٰمَنَ
(سورت ھود 11 آیت 36) ’نوح کی طرف یہ وحی ہوئی کہ تیری قوم میں سے اب کوئی ایمان نہیں لائے گا، بجز ان کے جو ایمان لا چکے۔‘ اب دیکھو یہ وحی ہے اور کوئی تعلق اس وحی کو ہدایت سے نہیں ہے، کیونکہ اس وحی کے وقت تو ہدایت سے مایوسی ہو چکی، لہذا یہ کہنا کہ وحی ہدایت کے لئے ہوتی ہے، یہ غلط ہے۔ بلکہ وحی کبھی ہدایت سے مایوسی کے لئے بھی ہوتی ہے۔ اور ذرا آگے بڑھو:
وَاصنَعِ الفُلکَ بِاَعیُنِنَا وَوَحیِنَا
(سورت ھود 11 آیت 37) ’ہماری آنکھوں کے سامنے اور ہماری وحی سے کشتی بنا۔‘ یہ وحی لوگوں کی ہدایت کے لئے نہیں تھی بلکہ کشتی بنانے کے لئے تھی اور اس وحی کو کتاب کہنا بھی جہالت ہے۔
بارہواں سوال: منکرِ حدیث نے صفحہ 62 پر کہا ہے، چوں کہ بیت المقدس کو قبلہ بنانے کا قرآن میں کہیں حکم نہیں ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وحی غیر قرآن سے بیت المقدس کو قبلہ بنایا گیا تھا۔ اس کا تحقیقاتی جواب منکرِ حدیث نے دیا ہے کہ بیت المقدس کو اس آیت کی رو سے قبلہ بنایا گیا ہے:
اُولٰٓئِکَ الَّذِینَ ہَدَی اللّٰہُ فَبِہُدٰہُمُ اقتَدِہ
(سورت الانعام 6 آیت 90)
’ان حضرات انبیاء کو اللہ نے ہدایت کی ہے۔ اے نبی!ان کی ہدایت کی اقتداکر۔‘ اور چوں کہ بیت المقدس ان حضرات کا قبلہ رہا ہے اس لئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بحکم اس آیت کے اس کو قبلہ بنایا تھا۔ سوال یہ ہے کہ یہ جواب صحیح ہے یا غلط؟
جواب: یہ جواب بالکل غلط ہے، کیونکہ یہ آیت اور سورت مکی ہے اگر یہ آیت بیت المقدس کو قبلہ بنانے کا سبب ہوتی تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم مکہ ہی میں نماز کے وقت بیت المقدس کی طرف رُخ کرتے، لیکن جب تک حضور مکہ میں رہے کعبہ ہی کو قبلہ بنایا۔ دیکھو:
أَرَأَیتَ الَّذِی یَنہَىٰ (9) عَبدًا إِذَا صَلَّىٰ
(سورت العلق 96 آیات 10) ’کیا تُو نے دیکھا اس شخص کو جو بندہ کو یعنی تجھ کو نماز سے روکتا ہے؟ یعنی ابو جہل حضور کو جب وہ کعبہ کی طرف مُنہ کر کے نماز پڑھتے تھے روکتا تھا۔‘ اس سے صاف ظاہر ہے کہ مکہ میں آنحضرت کعبہ کی طرف رُخ کیا کرتے تھے۔ اور آیت:
اُولٰٓئِکَ الَّذِینَ ہَدَی اللّٰہُ
(سورت الانعام 6 آیت 90) مکی ہے اگر یہ آیت قبلہ بنانے کی موجب ہوتی تو مکہ ہی میں بیت المقدس قبلہ بن جاتا، لہذا ظاہر ہو گیا کہ بیت المقدس کو قبلہ بنانے کے لئے مدینہ جا کر کوئی اور وحی ہوئی جس کی رُو سے بیت المقدس قبلہ بنایا گیا اور وہ وحی قرآن میں قطعاً مذکور نہیں ہے۔
یہاں ایک اور بات سمجھو کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کافی مدت مکہ میں مقیم رہے اور شروع ہی سے کعبہ کو قبلہ بنایا، بتاؤ کہ کعبہ کو قبلہ شروع میں کس وحی سے بنایا تھا؛ قرآن سے یا وحی غیر قرآن سے بنایا تھا؟ قرآن میں تو شروع میں قبلہ بنانے کا کوئی حکم نہیں ہے، لہذا وحی غیر قرآن سے بنایا تھا۔ یاد رکھو کہ شروع میں وحی غیر قرآن سے قبلہ بنا، پھر وحی غیر قرآن سے بیت المقدس بنا، پھر تیسری مرتبہ قرآن سے کعبہ قبلہ بنا لہذا منکرِ حدیث کا جواب بالکل غلط اور غیر تحقیقی ہے۔ اس کے علاوہ اس بات کو غور سے سمجھ لو کہ آیت:
اُولٰٓئِکَ الَّذِینَ ہَدَی اللّٰہُ
(سورت الانعام 6 آیت 90) میں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو انبیاء کی ہدایت کی اقتدا کا حکم دیا گیا ہے وہ شرائع میں نہیں ہے، کیونکہ نبی کریم تو تمام شرائع کے ناسخ ہیں، اقتدا ایمانیات اور اخلاقیات میں ہے۔
تیرہواں سوال: منکرینِ حدیث نے صفحہ 62 پر کہا ہے، سورت حشر میں ہے کہ تم نے جو درخت کاٹ دیئے وہ اذنِ الٰہی کوٹے اور قرآن میں یہ اذن نہیں ہے قرآن سے علیحدہ یہ اذن ہوا تھا۔ اور یہی وحی غیر قرآن ہے۔ اس کا جواب منکرینِ حدیث نے یہ دیا ہے کہ اذنِ خداوندی قرآن میں موجود ہے اور وہ یہ ہے:
اُذِنَ لِلَّذِینَ یُقٰتَلُونَ بِاَنَّہُم ظُلِمُوا
(سورت الحج 22 آیت 39) ’جن لوگوں پر ظلم کیا گیا ہے انہیں جنگ کرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔‘ سوال یہ ہے کہ یہ جواب صحیح ہے یا غلط؟
جواب: یہ جواب بالکل غلط ہے، کیونکہ آیت سے صرف لڑائی کی اجازت ثابت ہوتی ہے، کھیتی اور ہرے بھرے باغوں کے کاٹنے کی اجازت ثابت نہیں ہوتی۔ اور اگر درختوں کے کاٹنے کی بھی اجازت اس آیت سے ثابت ہوتی تو تمام درخت کاٹ دیئے جاتے، حالانکہ ایسا نہیں ہوا کچھ کاٹے گئے کچھ چھوڑے گئے۔ نیز کھیتی کے برباد کرنے کی اللہ تعالیٰ نے مذمت کی ہے:
وَیُہلِکَ الحَرثَ
(سورت البقرۃ 2 آیت 205) ’کھیتی کو وہ ہلاک کرتا ہے۔‘ یہ کھیتی کے برباد کرنے کی مذمت ہے، اب اگردرخت برباد کئے جائیں گے تو جدید وحی سے ہی کئے جائیں گے۔ لڑائی کی اجازت درختوں کے کاٹنے کی اجازت ہرگز نہیں بن سکتی۔
چودہواں سوال: ( 3 کا تیسرا جزو صفحہ 61) منکرینِ حدیث نے بالآخر اسی رسالہ (اس حوالہ کے لئے دیکھو طلوعِ اسلام بابت جون 1957ء صفحہ 61) میں اس بات کو تسلیم کر لیا کہ حضور پر قرآن کے علاوہ ایسی وحی ہوتی تھی جس کا تعلق حضور کی ذات سے ہوتا تھا ہدایت سے نہیں ہوتا تھا اور یہ وحی ایسی ہوتی تھی جیسے نحل (شہد کی مکھی) کی طرف ہوتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ صحیح ہے کہ حضور پر وحی قرآن کے علاوہ جو ہوتی تھی وہ مثل شہد کی مکھی کے ہوتی تھی؟
جواب: یہ بات غلط ہے کہ حضور پر مثل شہد کی مکھی کے وحی ہوتی تھی، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَمَا کَانَ لِبَشَرٍ اَن یُّکَلِّمَہُ اللّٰہُ اِلَّا وَحیًا اَو مِن وَّرَآئِ حِجَابٍ اَو یُرسِلَ رَسُولًا فَیُوحِیَ بِاِذنِہٖ مَا یَشَآءُ
(سورت الشوریٰ 42 آیت 51) ’اللہ بشر سے صرف ان تین ہی طریقوں سے کلام کرتا ہے؛ وحی سے‘ اس کے یہ معنی ہیں کہ نبی کے دل میں معنی ڈال دیتا ہے اور نبی اپنے الفاظ میں ان معنی کو ادا کر دیتا ہے۔‘ وحی پس پردہ سے یہ اس طرح ہوتی ہے کہ الفاظ نبی کو سُنائی دیتے ہیں اور اللہ دکھائی نہیں دیتا۔ یُرسِلَ رَسُولًا سے مراد یہ ہے کہ اللہ کا فرشتہ اللہ کا پیغام لے کر آتا ہے اور وہ نبی کے سامنے پڑھتا ہے۔ اس کے پڑھنے کے بعد پھر نبی پر وحی ہوتی ہے جو اِلَّا وَحیًا میں وحی ہے اس وحی کے ذریعہ اس فرشتہ کی وحی کی تفسیر اور تشریح کی جاتی ہے۔
اس کی دلیل یہ ہے:
فَإِذَا قَرَأنَاہُ فَاتَّبِع قُرآنَہُ
(سورت القیامۃ 75 آیت 18) ’جب ہم اس کی قرات کریں تو اس کی اتباع کر یعنی سُنتا رہ۔‘
ثُمَّ إِنَّ عَلَینَا بَیَانَہُ
(سورت القیامۃ 75 آیت 19) ’پھر ہمارے ذمہ ہے اس کا بیان کرنا اور واضح کرنا۔‘ یہ بیان قرآن من جانب اللہ ہے اور یہ بیانِ قرآن، قرآن نہیں ہے کیونکہ اگر یہ بیانِ قرآن، قرآن ہو گا تو پھر اس قرآن کے لئے بیان ہو گا اور اسی طرح سلسلہ لامتناہی جائے گا اور تسلسل محال ہے لہذا یہ بیان غیر قرآن ہے۔ جس کو اللہ فرماتا ہے کہ ہمارے ذمہ ہے یعنی ہم بعد میں وحی غیر قرآن سے قرآن کو بیان کر دیں گے اور سمجھا دیں گے۔ گذشتہ صفحات میں اس کی تفصیل لکھی جا چکی ہے۔
لہذا انبیاء کو صرف انہی تین طریقوں سے وحی ہوتی ہے، شہد کی مکھی کی طرح نہیں ہوتی۔ کیونکہ شہد کی مکھی کی فطرت ایسی کر دی ہے جس طرح وہ تمام امور کو انجام دیتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اس کو با شعور طور پر وحی ہوتی ہو اور اپنے شعور سے ان چیزوں کو انجام دے۔ کیونکہ وہ ایسی ایسی عجیب و غریب اور محکم اشکال ہندسیہ بناتی ہے کہ بڑے سے بڑا مہندس ریاضی داں حیران رہ جاتا ہے۔ اگر اس کا یہ فعل بالشعور ہو گا تو وہ انسان سے افضل ہو جائے گی، لہذا اس کی وحی با شعور نہیں ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی وحی با شعور ہے، لہذا حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو کوئی وحی شہد کی مکھی جیسی نہیں ہوئی۔
اب تم اس مثال سے سمجھ لو:
قُل مَا یَکُونُ لِی أَن أُبَدِّلَہُ مِن تِلقَاءِ نَفسِی إِن أَتَّبِعُ إِلَّا مَا یُوحَىٰ إِلَیَّ
(سورت یونس 10 آیت 15) ’کہہ دے مجھ سے کیسے ہو سکتا ہے کہ میں اپنی طرف سے اس میں تبدیلی کر دوں؟ میں تو صرف وحی کا تابع ہوں جو میری طرف ہوتی ہے۔‘ اب نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے جو سورتیں مکہ میں نازل ہوئی تھیں اور پہلے نازل ہوئی تھیں ان کو قرآن میں پیچھے اور آخر میں اور بعد میں لکھوایا، اور جو مدینہ میں بعد میں نازل ہوئی تھیں جیسے سورت بقرۃ وغیرہ ان کو اوّل میں لکھوایا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم اپنی طرف سے تبدیلی نہیں کر سکتے وہ صرف وحی کے تابع ہیں اور وحی قرآن میں کہیں تبدیلی کرنے کا حکم نہیں ہے، اس سے صاف واضح ہو گیا یہ وحی کہ جس وحی کے ذریعہ ان سورتوں کی تقدیم تاخیر ہوئی ہے یہ قطعاً قرآن سے علیحدہ ہوئی۔ اور چوں کہ یہ قرآن جو ہمیں پہنچا ہے اس میں قطعاً تقدیم و تاخیر ہے اور یہ لوگوں کے لئے ہدایت ہے، اس سے پتہ چل گیا کہ وحی غیر قرآنی بھی ہدایت کے لئے ہے۔ ہم گزشتہ صفحات میں اس کی کافی تشریح کر چکے ہیں۔
اب ہم پوچھتے ہیں کہ یہ جو دو فرض صبح کو پڑھتے ہیں اور چار ظہر کے وقت اور چار عصر کے وقت اور تین مغرب کے وقت اور چار عشاء کے وقت یہ تعداد نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے مقرر کی ہے یا انہوں نے مقرر نہیں کی؟ اگر کوئی کہے کہ انہوں نے مقرر نہیں کی، تو وہ کافر ہی نہیں مجنون بھی ہے۔ اور اگر کہے کہ نبی نے مقرر کی ہے، تو بولو نبی نے اپنے رائے سے مقرر کی ہے یا وحی سے مقرر کی ہے؟ اگر کہوں اپنی رائے سے تعداد مقرر کی ہے، تو ساری دنیا کا مسلمان ہر زمانہ کا مسلمان یہ جانتا ہے کہ نبی نے قوم سے یہ کہا کہ نماز اللہ نے فرض کی ہے تو اس صورت میں نبی:
وَ لَو تَقَوَّلَ عَلَینَا بَعضَ الاَقَاوِیلِ (44) لَاَخَذنَا مِنہُ بِالیَمِینِ (45)ثُمَّ لَقَطَعنَا مِنہُ الوَتِینَ
(سورت الحاقۃ 69 آیات 46) کی وعید میں آ جائے گا تو سارے عالَم کے مسلمان متفق ہیں کہ نبی نے اللہ کی طرف کوئی بات ایسی منسوب نہیں کی جو اللہ نے اس سے نہ کہی ہو۔ اور اگر وحی سے یہ تعداد مقرر کی ہے تو یہی وہ وحی ہے جس کو ہم نے ثابت کیا، یہی وحی غیر قرآن احادیث ہیں۔ حاصل یہ ہے کہ نبی بغیر وحی کے نمازوں کی تعداد مقرر نہیں کر سکتا تھا اور یہ تعداد قرآن میں مذکور نہیں ہے، تو لابُد قرآن کے علاوہ وحی ہوئی اور اس وحی سے یہ تعداد مقرر ہوئی۔
پندرہواں سوال: منکرِ حدیث نے صفحہ 63 پر کہا ہے کہ ’کتاب اور حکمت ایک ہی چیز ہے۔‘ کیا یہ صحیح ہے یا غلط؟
جواب: یہ بات غلط ہے، کتاب اور حکمت ایک چیز نہیں ہے۔ اس لئے کہ کتاب یقینی اور قطعی طور پر صرف نبی ہی کو ملی۔ یعنی جس انسان کو اللہ نے کتاب دی وہ یقیناً نبی ہے اور جس انسان کو حکمت دی ضروری نہیں ہے کہ وہ قطعاً نبی ہو۔ کیونکہ تمام مسلمانوں کا اجماع ہے کہ لقمان کی نبوت مقطوع نہیں ہے یعنی لقمان کی نبوت قطعی اور یقینی نہیں ہے۔ حکمت لقمان مقطوع ہے اور قطعی ہے:
وَلَقَد اٰتَینَا لُقمٰنَ الحِکمَۃَ
(سورت لقمان 31 آیت 12) ’ہم نے لقمان کو حکمت دی۔‘ اس دلیل کا حاصل یہ ہے کہ اگر کتاب اور حکمت ایک ہی چیز ہو گی تو جس کو حکمت ملی قطعاً اس کو کتاب ملی، اور جس کو کتاب ملی قطعاً نبی اور رسول ہے اور لقمان کو حکمت ملی۔ تو گویا کتاب ملی اور جس کو کتاب ملی وہ قطعاً نبی ہے، تو لقمان قطعاً نبی ہونے چاہئیں حالانکہ قوم کا اجماع ہے کہ وہ نبی مقطوع نہیں ہے۔
اس کے بعد ہم کہتے ہیں کہ کتاب ہدایت ہے، نور ہے اور خیرِ محض یعنی خیر ہی خیر ہے، لہذا کتاب اللہ خیر ہی خیر ہے، خیر محض ہے۔ اور حکمت خیر محض نہیں ہے بلکہ خیر کثیر ہے:
وَمَن یُّؤتَ الحِکمَۃَ فَقَد اُوتِیَ خَیرًا کَثِیرًا
(سورت البقرۃ 2 آیت 269) ’جس کو حکمت ملی اس کو خیر کثیر ملا۔‘ تو معلوم ہو گیا کہ حکمت خیرِ کثیر ہے اور کتاب خیرِ محض اور کُل کا کُل خیر ہے اور خیرِ محض خیرِ کثیر کا غیر ہے، لہذا کتاب و حکمت میں عینیت نہیں ہے۔
سولہواں سوال: منکرینِ حدیث نے 64 پر کہا ہے کہ:
ذٰلِکَ مِمَّاۤ اَوحٰۤی اِلَیکَ رَبُّکَ مِنَ الحِکمَۃِ
(سورت بنی اسرائیل 17 آیت 39) ’یہ جو کچھ اُوپر قرآن بیان کیا گیا ہے یہ حکمت ہے۔‘ اس آیت سے کتاب اور حکمت کی عینیت ثابت کی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس آیت سے عینیت ثابت ہوتی ہے یا نہیں؟
جواب: نہیں، کیونکہ مِمَّاۤ اَوحٰۤی میں جو مِنَ ہے وہ تبعیض کا ہے اور مِنَ الحِکمَۃِ میں مِنَ ماۤ اَوحٰۤی کا بیان ہے۔ اس کے یہ معنی ہوئے کہ یہ حکمت میں سے ہے اور حکمت کا بعض ہے، اس سے ثابت ہو گیا کہ حکمت قرآن کے باہر بھی وحی غیر قرآنی میں ہے۔ کیونکہ ذٰلِکَ مِنَ الحِکمَۃِ اور چیز ہے اور ذٰلِکَ الحِکمَۃِ اور چیز ہے۔ اور نیز اس آیت میں بھی اشارہ وحی غیر قرآنی کی طرف موجود ہے۔ یعنی جو وحی غیر قرآنی تیری طرف تیرے رب نے کی ہے۔ اس کا یہ یعنی وحی قرآنی بعض ہے، کیونکہ ذٰلِکَ کا اشارہ اور وحی قرآنی کی طرف ہے۔
سترہواں سوال: منکرِ حدیث نے صفحہ 64 پر کہا ہے ’کتاب اور حکمت کے ایک ہونے پر اس آیت سے استدلال کیا:
وَمَاۤ اَنزَلَ عَلَیکُم مِّنَ الکِتٰبِ وَالحِکمَۃِ یَعِظُکُم بِہٖ
(سورت البقرۃ 2 آیت 231) اگر کتاب اور حکمت دو چیزیں ہوتیں تو بجائے بِہٖ کے بِہِمَا ہوتا چوں کہ واحد کی ضمیر لائی گئی ہے، اس سے معلوم ہوا کہ ’کتاب اور حکمت‘ ایک چیز ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ استدلال صحیح ہے یا غلط ہے؟
جواب: غلط ہے بِہٖ کی ضمیر کُل واحد مِّنہَا کی طرف پھر رہی ہے جس طرح:
وَاللّٰہُ وَرَسُولُہٗۤ اَحَقُّ اَن یُّرضُوہُ
(سورت التوبۃ 9 آیت 62) میں واحد کی ضمیر کُل واحد مِّنہَا کی طرف، یعنی اللہ اور رسول میں سے ہر ایک کو خوش رکھیں۔ اب اگر واحد کی ضمیر سے دونوں کے ایک ہونے پر استدلال کیا جائے گا تو اللہ اور رسول ایک ہو جائیں گے، لہذا یَعِظُکُم بِہٖ کے معنی یَعِظُکُم بِکُلِ وَاحِدِمِنَ الکِتَاب وَالحِکمَۃ کے ہیں۔ اور بالکل اس کی ایسی ہی مثال ہے: اِستَجِیبُوا لِلّٰہِ وَلِلرَّسُولِ اِذَا دَعَاکُم
(سورت الانفال آیت 24) یہاں بھی واحد کی ضمیر ہے۔ اور مراد یہ ہے کہ اللہ اور رسول میں سے ہر ایک بلائے کیونکہ اللہ بھی داعی ہے: وَاللَّہُ یَدعُو إِلَى دَارِ السَّلاَمِ (سورت یونس 10 آیت 25)
(مطبع سعیدی قرآن محل کراچی)
٭٭٭
تشکر: حفیظ الرحمٰن جنہوں نے فائل فراہم کی
ٹائپنگ: حفیظ الرحمٰن
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...