آج ریحہ کی مہندی تھی سارے رشتہ دار آچکے تھے۔
مرد حضرات انتظامات دیکھنے میں مصروف تھے۔
کچھ خواتین مہمانوں کی آوبھگت کرہی تھیں۔
اور لڑکیاں ریحہ کے پاس اسٹیج میں بیٹھیں گانا گا کر اسے چھیڑنے میں مصروف تھیں۔
ریحہ پیلے جوڑے میں ملبوس تھی نفاست سے کیا گیا میک اپ اسکی خوبصورتی کو مزید بڑھا رہی تھی۔
اتنے میں شاہ فیملی کی آنے کی خبر ملی ہر طرف شور اٹھا سارے لڑکے اور لڑکیاں پھولوں کے ساتھ استقبال کرنے کے لئے کھڑے ہوگئے۔
شیلا بیگم اپنے رشتہ داروں کے ساتھ اندر داخل ہوئیں آزر بھی پیلے جوڑے میں ہنڈسم لگ رہا تھا۔
انکے داخل ہوتے ہی پھولوں کی برسات ہونے لگیں۔
سب آہستہ آہستہ چلتے ہوئے اسٹیج پر پہنچے اور آزر کو ریحہ کے ساتھ بٹھایا۔
“آج چاند کہا سے نکلا بھئی”فرحان نے آہستہ سے سارہ کے کان میں سرگوشی کی۔
“کیوں کیا ہوا”سارہ نے اپنی نظریں اسٹیج کی طرف سے ہٹا کر چونک کر اسکی طرف دیکھا۔
” تم ہمیشہ سادہ سی رہتی ہو آج تیار ہوئی ہو پیاری لگ رہی ہو”فرحان نے لو دیتی آنکھوں کے ساتھ اسکی آنکھوں میں دیکھا تھا۔
سارہ نے شرماکر اپنی نظریں اسکی طرف سے ہٹایا تھا۔
وہ اور فرحان اک دوسرے سے محبت کرتے تھے بچپن میں لڑتے رہتے تھے۔
بڑھے ہونے کے بعد یہ لڑائی محبت میں بدل گئی تھی۔
” یہاں کیا کررہے ہو تم دونوں اسٹیج میں چلو مہندی لگائی جارہی ہے “زوہا دونوں کو گھورتے ہوئے پاس آکر بولی۔
“ہاں میں بھی سارہ کو یہی کہہ رہا تھا”فرحان نے گڑبڑاکر کہا اور اسٹیج کی طرف چلا گیا۔
“میں نے کتنی دفعہ کہا تھا فرحان سے زیادہ باتیں نہیں کرنا لگتا ہے ماما کو بتانا پڑے گا”زوہا کو لگتا تھا ان دونوں کے بیچ کوئی گڑبڑ ہے اس لیے وہ سارہ سے سخت لہجے میں بولی۔
“میں اس سے باتیں کب کر رہی تھی آپ تو میرے پیچھے ہی پڑگئی ہیں “سارا ناراضگی سے کہتے ہوئے اسٹیج کی طرف چلی گئی۔
“کیسی ہیں آپ “آزر نے فریحا کے کان میں سرگوشی کی۔
” ٹھ۔۔۔ٹھ۔۔۔ٹھیک ہوں “وہ چونک اٹھی اور گھبراتے ہوئے ہلکی آواز میں جواب دیا۔
“آپ کو میں کیسا لگا مجھے تو آپ بہت اچھی لگیں”اس نے تھوڑی دیر بعد پھر سرگوشی کرتے ہوئے کہا۔
” ج۔۔۔جی ٹھیک “اس نے گھبراتے ہوئے جواب دیا۔
“آپ اتنا گھبرا کیوں رہی ہیں رلیکس میں آپکو کھا نہیں جاؤنگا”آزر نے اسکا مضطرب انداز دیکھکر کہا۔اسکی بات پر وہ چپ رہی۔
“نیہا مہندی کی رسم شروع کرنے لگے ہیں تمھاری تائی کو دیکھو کہاں رہ گئی ہیں” فریدہ بیگم نے نیہا کو آواز دیتے ہوئے کہا۔
“ماما وہ رخشندہ انٹی کے ساتھ کھانے کی تیاریوں میں مصروف ہیں” نیہا نے اپنا دوپٹہ ٹھیک کرتے ہوئے جواب دیا۔
“اچھا چلو میں تم لوگ زرا ریحا مہندی لگانا شروع کرو “وہ کہتی ہوئیں شیلا بیگم کے پاس بیٹھ گئیں۔
“ماما میں مہندی نہیں لگواؤنگا”آزر نے جب مہندی لگانے والی کو اپنے سامنے بیٹھتے دیکھا تو گھبرا کر بولا۔
“تو تم یہاں کس لئے آئے ہو یہ رسم ہے اسے پوری کرنی پڑیگی”شیلا بیگم نے گھورتے ہوئے کہا۔
“مجھے کیا پتا تھا مجھے بھی مہندی لگانی پڑیگی میں تو بس ریح۔۔۔”وہ شرمندہ ہوکر بولتے ہوئے رک گیا۔
“اوہوووووو۔۔۔۔سنا سب نے جیجو تو ریحا میڈم کیلئے آئے ہیں “حمیرا نے زور سے کہا سب کی ہولٹنگ شروع ہوگئی تھی۔
آزر جی بھر کے شرمندہ ہوا۔
“چلو بھئی نورین تم داماد جی کو مہندی لگانا شروع کرو یاد رہے بس تلوے پہ لگانا ہے وہ بھی ہلکی سی “فریدہ بیگم نے نورین سے کہا دولہے کو مہندی لگانے کی رسم انکی طرف سے تھی۔
“تم لوگ بھی شروع کرو”شیلا بیگم نے مہندی لگانے آنے والی لڑکیوں سے کہا۔
مہندی کی رسم شروع ہوچکی تھی۔فرحان نے گانا لگایا۔اور ڈانس کرنے لگا۔
تاروں کا چمکتا گہنا ہو پھولوں کی مہکتی وادی ہو۔۔۔
اس گھر میں خوشحالی آئے۔۔۔
جس گھر میں تمھاری شادی ہو۔۔۔
فرحان ڈانس کرتے ہوئے سارہ کے پاس آیا اور اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے بھی ڈانس کرنے پرمجبور کیا۔
زوہا نے دونوں کو گھورا تھا۔
ندا دونوں کو ساتھ دیکھکر جلنے لگی تھی۔
سب شور کرنے لگے اور ہولٹنگ کرنے لگے۔
“یہ پھول تمھارے زیور ہے یہ چاند تمھارا آئینہ۔۔۔
جب تم ایسے شرماتی ہو دلہے کا دھڑکتا ہے سینا۔۔۔
فرحان گاتے ہوئے ریحا کے پاس آیا اور گانے کے بول پہ آزر کے سینے پہ ہاتھ رکھا۔
ریحا شرما گئی سب نے پھر شور کیا تھا سیٹی بجانا اسٹارٹ ہوگئے تھے۔
آزر نے مسکراتے ہوئے اپنے اکلوتے سالے کو دیکھا جو بہت خوشی کے ساتھ ڈانس کررہا تھ اور اپنی بہن کی شادی پر بہت خوش تھا۔
“سارہ اور فرحان ساتھ میں ڈانس کرتے ہوئے کتنے اچھے لگ رہے ہیں نا”نیہا نے مسکرا کر ندا سے پوچھا تھا۔
“جی بہتتت۔۔۔زیادہ۔۔۔”اسنے دانت پیستے ہوئے جواب دیا نیہا کی نظریں سارہ اور فرحان پر رکی ہوئی تھی اسلئے وہ ندا کا جلتا ہوا چہرہ نہیں دیکھ سکی۔
“سارہ کو ڈانس بھی کرنا آتا ہے مجھے تو لگ رہا تھا گھر کے کام کاج کے علاؤہ اسے اور کچھ نہیں آتا”فہمیدہ بیگم نے فریدہ بیگم کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے کہا۔
“وہ تو مجھے بھی نہیں پتا تھا آج ہی پتا چل رہا ہے سب”فریدہ بیگم مسکرا کر بولیں۔
“فریدہ جی اگر میرا کوئی دوسرا بیٹا ہوتا تو میں آپکی بیٹی سارہ کو اپنی بہو ضرور بناتی بہت پیاری بچی ہے”شیلا بیگم دونوں کی باتیں سن کر مسکراتے ہوئے بولیں۔
“اگر کوئی ہوتا بھی تو میں نے اپنی بہو کو کسی اور کو نہیں دینا تھا”فہمیدہ بیگم نے فخر سے مسکرا کر کہا۔
فریدہ بیگم نے چونک کر انکی طرف دیکھا۔
“اچھا آپ کے بیٹے کیساتھ کمیٹڈ ہے کیا مجھے پہلے بتایا کیوں نہیں آپ نے”شیلا بیگم نے حیران ہوکر کہا۔
“نہیں کمیٹڈ نہیں ہے ہمارہ بس خیال ہے کہ سارہ کو بہو بنایا جائے”فہمیدہ بیگم مسکرا کر بولیں۔
“اچھا اچھا”شیلا بیگم نے کہتے ہوئے سارہ اور فرحان کو دیکھا جو ڈانس کرنے میں مصروف تھے۔
“آپا آپ نے گھر میں تو ایسی کوئی بات نہیں کی”فریدہ بیگم نے ہلکی آواز میں سرگوشی کی۔
“ہاں بتایا تو ہے اس بارے میں سوچ رہے ہیں سارہ دیکھی بھالی ہے باہر سے لانے سے بہتر ہے اپنوں سے ہی لایا جائے اگر تمہیں کوئی مسلہ ہے تو بتادو”فہمیدہ بیگم بولتے ہو فریدہ بیگم سے پوچھا تھا۔
“ہم اس بارے میں بعد میں بات کرینگے پہلے ریحا کی شادی نپٹ جائے”فریدہ بیگم نے آہستہ سے کہا۔
“ماشاءاللہ ماشاءاللہ اللہ نظر بد سے بچائے”ڈانس ختم ہونے پر فہمیدہ بیگم نے بولتے ہوئے دونوں کے اوپر پیسے وار کئے۔
“چلو زوہا ہم بھی شروع ہوجاتے ہیں آخر کو ہماری اکلوتی تایا کی بیٹی کی شادی ہے”نیہا نے جوش سے زوہا سے کہا اور اسکا ہاتھ کھینچتے ہوئے ڈانس کرنے کے لئے اسٹیج کے سامنے کھڑی ہوگئ اور سارہ کو بھی آنے کا اشارہ کیا۔
سجنا! تیرے لئے سجنا یہ چوڑی کنگنا بس تیرے لئے آئی ہے!آئی ہے۔۔۔
ہاں سنگ تیرے! ہے جینا مرنا قسم میں نے کھائی ہے! کھائی ہے۔۔۔
تینوں بہنیں اک ہی اسٹائل میں ڈانس کررہی تھیں۔
نیہا اور زوہا کے ہسبنڈ انکو حیران ہوکر دیکھ رہے تھے۔
تو ہے وہ جس کیلئے میں جگ سارا چھوڑ سکتاہوں!سیکنڈ نا لگے۔۔۔
تو ہے وہ جسے دیکھ دیکھ کے زرا سا بھی نا میں تھکتا ہوں!نظر نا لگے۔۔۔
فرحان نے پھر سے اپنی انٹری ماری تھی اور سونگ کی لپسنگ کرتے ہوئے ڈانس کرنے لگا تھا۔
بےبی ایسے ہل مت اوو۔۔۔
کرے ہمیں کل مت اوو۔۔۔
تو مجھکو ملی ہے۔۔۔
یہی میری قسمت۔۔۔
شہروز(نیہا کا شوہر)اور اسنان(زوہا کا ہسبنڈ) نے بھی انٹری ماری تھی سب زور زور سے شور کرنے لگے تھے اور سیٹی بجانے لگے تھے
مہندی لگانے والی لڑکیوں کی نظریں بھی ڈانس کرنے والوں پہ تھی۔
اور مہرین ان کو بار بار مہندی پر دیہان کروارہی تھی۔
ریحا اتنی خوشیوں کے بیچ خاموشی سے بیٹھی سب دیکھ رہی تھی اسے کچھ بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا۔
“کیا ہوا یار ایسے منہ کیوں بناکے بیٹھی ہو “حمیرا نے اسکے کان میں سرگوشی کی۔
“مجھے کچھ اچھا نہیں لگ رہا ہے دل کررہا ہے سب کچھ چھوڑ کر چلی جاؤں”اسنے آہستہ سے کہا۔
“پاگل مت بن جیجو کو دیکھو کیسے باربار تمہیں دیکھے جارہے ہیں ایسے منہ بنائے گی تو انکو شک ہوگا “حمیرا نے غصے سے دبی دبی آواز میں کہا۔
اسکی بات پر اسنے آزر کی طرف دیکھا تھا۔ وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا اسکے دیکھنے پر ہلکا سا مسکرایا تھا۔
ریحا نے گڑبڑاکر اپنی نظریں دوسری طرف کی تھی۔
“منہ ٹھیک کر اور کوشش کر مسکرانے کی سمجھی”حمیرا دھونس کے ساتھ بولتے ہوئے نشاء کے ساتھ بیٹھ گئی۔
“بھئی ہم نے تو ڈانس کرلیا ہے اب باری ہے دلہے کی بہنوں کی “نیہا نے زور سے کہا سب اسکی بات پر متفق ہوئے۔
“ارے نہیں ہمیں ڈانس نہیں آتا”مہرین اور نشاء گھبرا کر بولیں۔
“ماما کریں نا پلیز۔۔۔”مہرین کے بڑے بیٹے نے اصرار کرتے ہوئے کہا۔
“چپ کرو تم”مہرین نے اسے دبی دبی آواز میں ڈپٹا۔
“ایسے کیسے آپ بھائی کی شادی میں ڈانس نہیں کرینگی آپکو کرنا تو پڑیگا ہی”نیہا نے زبردستی دونوں کو کھینچا تھا۔
“ڈی جے والے بابو زرا گانا تو لگاؤ”نیہا نے شرارت سے فرحان کو کہا۔
اسکی بات سن کر سب زور سے ہنسنے لگے اور فرحان نے سونگ پلے کیا۔
رات دھیرے دھیرے بیتنے لگی تھی خوشیاں اپنے عروج پر تھی۔
***
وہ اس وقت واشروم میں واش بیسن کے آگے کھڑی خود کو دیکھ رہی تھی۔
پیلے جوڑے میں اسکا گورا رنگ دمک رہا تھا۔
“آپ بہت خوبصورت لگ رہی ہیں”اسکے کانوں میں آزر کی آواز گونجی تھی۔اسنے کرب سے اپنی آنکھیں بند کی۔
“سب کتنا خوش ہیں ڈانس کررہے تھے خوشیاں منارہے تھے اور میں۔۔۔”وہ خود سے بولی۔
“میں اتنی خوشیوں کے بعد بھی نا خوش ہوں دل ہے کہ کسی بات پر خوش نہیں ہے دل تو بس احمد احمد کررہا ہے کیا ہوگیا ہے مجھے۔۔۔
کیوں باربار اس بے وفا انسان کو یاد کررہی ہوں جس نے مجھے بیچ راستے میں چھوڑ دیا نفرت کرتی ہوں میں تم سے کیوں باربار میری خیالوں میں آجاتے ہو کیوں۔۔۔۔
“کیوں کیا تم نے آخر ایسا کیوں مجھ میں یا میری محبت میں کیا کمی تھی کتنا چاہا تمہیں لیکن تم نے کیا کیا میرے ساتھ کبھی معاف نہیں کرونگی تمہیں میں۔۔۔
صرف آج۔۔۔صرف آج۔۔۔ آخری دفعہ رونگی تمھارے لئے اسکے بعد تمہیں اور تمہاری یادوں کو دفن کردونگی ہمیشہ کیلئے”وہ جنونی انداز میں بولتے ہوئے بری طرح رونے لگی تھی۔
***
“یار آج تو بڑا مزا آیا بہت ہی زبردست ڈانس کیا تم نے تو”نورین نے ہنستے ہوئے سارہ سے کہا۔
وہ اسکی دور کی رشتہ داروں میں سے تھی لیکن زیادہ آنے جانے رہنے کی وجہ سے اچھے تعلق تھے۔
فنکشن ختم ہونے کے بعد سارے تھکے ہارے سونے کیلئے لیٹ گئے تھے۔
“ہاں ریحا کی بڑی نند مہرین نے اور نشاء نے بھی کافی اچھا ڈانس کیا “سارہ نے مسکرا کر کہا۔
“ہاں پہلے کیسے کہہ رہی تھیں ہمیں ڈانس نہیں آتا لیکن جب کیا تو کتنے زور شور سے کررہی تھیں”حمیرا نے ہنستے ہوئے کہا۔
وہ ریحا کے زبردستی کرنے پر انکے گھر رک گئی تھی۔
“ہاں اور جیجو کو دیکھا ہے کیسے باربار ریحا کو دیکھے جارہے تھے بے صبری سے”نورین نے ہنس کر کہا۔
“ہاں یہ تو ہے وہ بھی کافی خوش نظر آرہے تھے”سارہ نے کہتے ہوئے ندا کی طرف دیکھا جو ان لوگوں سے دور بیٹھی اپنے موبائل میں مصروف تھی۔
“ریحا کہا ہے”نورین نے ریحا کی غیر موجودگی محسوس کرتے ہوئے پوچھا۔
“وہ باتھ روم گئی ہے ابھی تک واپس نہیں آئی”سارہ نے جواب دیا۔
“اچھا میں دیکھتی ہوں”حمیرا کہتی ہوئی اٹھی۔
نورین اور سارہ آپس میں بات کرنے میں مصروف ہوگئی۔
***
“ریحا کیا تم اندر ہو”حمیرا نے اسے آواز دیا تھا۔
” ہاں “اندر سے اسکی بھیگی آواز آئی تھی۔
“شرافت سے باہر نکلو جلدی”حمیرا سمجھ گئی تھی اندر کون سے کارنامے انجام دے رہی تھی۔
تھوڑی دیر بعد ریحا واشروم سے نکلی تھی اسکا منہ رونے کی وجہ سے لال ہو رہا تھا۔
“تم پھر رورہی ہو ؟کیا ہوگیا ہے یار دفعہ کرو اتنے خوشیوں سے بھر پور دن تھا وہ بھی انجوائے نہیں کیا اب پھر سے اس فضول انسان کیلئے رورہی تھی”حمیرا نے اپنا سر پیٹتے ہوئے کہا۔
“میں بس آخری دفعہ رونا چاہتی تھی اسکے عشق کے قبر پہ اسے دفن کردیا اب میں “وہ پھرتیلی انداز میں بولتے ہوئے آگے بڑھ گئی۔
حمیرا نے افسوس سے اسے جاتے ہوئے دیکھا تھا۔
وہ اسکی تکلیف سمجھتی تھی لیکن اسکے لئے کچھ نہیں کرسکتی تھی۔
***
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...