روپا کو اس پر اسرار سی کائنات اور اس پر بسنے والے انسانوں کے بارے میں جاننے میں بچپن سے ہی بہت دل چسپی تھی۔ اس لیے اسے پامسٹری، ٹارو کارڈز ۔ علم حروف اور علمِ نجوم کے بارے میں جہاں کہیں کوئی مواد نظر آجاتا اسے پڑھے بغیر چین سے نہیں بیٹھتی تھی۔ ہر سال بڑے اہتمام سے نئے سال کے لیے ہاروسکوپ کی کتاب خرید کر دیکھتی کہ آنے والے سال کی پیشن گوئیاں کیا تھیں۔ اخباروں رسالوں میں چھپنے والے ’’ آپ کا ہفتہ کیسا ہو گا۔‘‘ کے صفحات ہمیشہ اس کی دل چسپی کا مرکز ہوتے مگر یہ الگ بات تھی کہ پڑھنے کے فوراً ہی بعد اسب اس کے ذہن سے محو ہو جاتا گویا اسے صرف پڑھنے کی حد تک دل چسپی تھی مگر عمل کا خانہ خالی ہی تھا۔
میں اکثر اس کی اس عادت سے چڑ جاتی تھی ’’کیا تم ہر وقت برجوں اور ستاروں کے چکر میں پڑی رہتی ہو۔‘‘ تو وہ ہنس کر جواب دیتی کہ ’’یار بس ذراانٹرسٹنگ ہے اس میں کیا ہرج ہے ہم کون اس پر عمل کرنے جا رہے ہیں۔ ویسے تم اگر تھوڑا بہت علم نجوم کے بارے میں جان لو تو کوئی نقصان نہیں ہو جائے گا۔ کریکٹر ریڈنگ تو ہمیشہ بڑی زبردست ہوتی ہے ان کتابوں میں۔ کم از کم لوگوں کی شخصیت بارے میں کچھ معلومات ہی مل جاتی ہیں۔‘‘
آج کالج میں پورے دوپیریڈز فری تھے اور میری شامت آگئی تھی کیونکہ روپا کہیں سے علم نجوم کی دو موتی موٹی کتابیں اٹھا لائی تھی گویا آج اس نے علم نجوم پر مجھے لکچر دینے کا پورا پورا پروگرام بنا رکھا تھا۔
میں اگر اسے کہتی کہ یہ میرے مذہب کے خلاف ہے کہ ہم مستقبل کا حال جانتے پھریں تو وہ تنک کر کہتی کہ ’’مذہبی نقطہ نظر سے علم نجوم نہ تو مذہب کا حصہ ہے اور نہ ہی عقیدہ۔۔۔۔ فقط حساب کا ایک قاعدہ ہے۔ جیسے ہر شخص واچ دیکھ کر ٹائم بتا سکتا ہے۔ اسی طرح ستاروں کا حساب دیکھ کر یہ بتایا جا سکتا ہے کہ کون سا ستارہ کس برج میں ہے۔ اور اس وقت دنیا پر اپنے کیسے اثرات چھوڑ رہا ہے۔‘‘ وہ بالکل جوتشیوں کے سے انداز میں مجھے قائل کرنے کی کوشش کرتی۔ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے وہ بولی کہ ’’ستارے دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک سٹیشنری یعنی جامد اور دوسرے جو اپنے محور اور دوسرے ستاروں کے گرد گھومتے ہیں البتہ جامد ستاروں کے گرد گھومنے والے ستاروں نے اپنے ایسے مقام بنائے ہوئے ہیں جنہیں علم نجوم میں برج کہا جاتا ہے۔ اور کل بارہ برج ہیں۔ کچھ پتہ چلا تمہیں میڈم۔۔۔ ‘‘روپا نے اپنے علم کا روپ جھاڑتے ہوئے کہا۔
میں روپا کی ستاروں کے بارے میں ایوئرنس سے کچھ مرعوب سی ہو گئی تھی اور اس بارے میں کچھ مزید جاننے کی خواہش میرے اندر انگڑائیاں لینے لگی تھی۔
’’اچھا چلو بولو کیا کہتے ہیں تمہارے برج ۔‘‘میں نے قدرے لاپرواہی سے کہا۔ تو روپا تو بس ایسی رواں ہوئی کہ وہ کہے اور سنا کرے کوئی۔۔۔ ’’ہاں تو میں بتا رہی تھی کہ کل بارہ برج ہوتے ہیں۔ اور ان کے مختلف نام ہیں۔ ہر برج ایک نہ ایک ستارہ کی ملکیت ہوتا ہے یعنی کوئی نہ کوئی اس کا حاکم یعنی رولنگ پلینٹ ہوتا ہے اور یہی برج انسانوں کی طرح آپس میں دوستی اور دشمنی بھی رکھتے ہیں۔‘‘ علم نجوم میں میری دلچسپی بڑھتی جا رہی تھی اور میں نے منہ سے کچھ کہے بغیر ہی روپا کی طرف پرشوق نگاہوں سے دیکھا تو وہ بغیر رکے کہنے لگی ’’ہرایرہ غیرہ نتھو خیرہ قسمت کا حال نہیں بتا سکتا۔ اس کے لیے علم نجوم سے پوری طرح واقفیت بے حد ضروری ہے کہ ایسے شخص کو برجوں اور ستاروں کے چکر کا علم پوری طرح آتا ہو اور اگر اس کا علم ادھورا اور ناقص ہو گا تو خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔‘‘ وہ اپنی ہی لہر میں بولے چلی جا رہی تھی۔
میں نے بے صبری سے پوچھا ’’برجوں اور ستاروں کے بارے میں کچھ اور بھی کہو گی کہ نہیں میڈم جوتشی‘‘ تو وہ زیر لب مسکرا کر گویا ہوئی ’’کل بارہ برج ہیں جن میں حوت،حمل، ثور ،جوزا ،سرطان ،اسد ،سنبلہ ،میزان ،عقرب ،قوس ،دلواور جدی ہیں۔ آسمان میں گھومنے والے سات ستارے ہیں۔اور دو ستارے ان کے امدادی یعنی ہیلپرز ہیں۔ ان ستاروں میں سورج ،قمر ،مریخ ،زحل ،مشتری ،عطارد ،اور زہرہ ہیں جبکہ امدادی ستارے یورنیس اور نیپ چون ہیں اور ان تمام ستاروں اور برجوں کے یونانی زبان میں مختلف نشانات یعنی سمبل دئیے گئے ہیں۔ ’’How Interesting‘‘ ۔۔ ۔ میں اپنے ذوقِ جستجو کو مزید نہ چھپا سکی تو روپا خوش ہو کر بولی۔ ’’اب آئی ہو ناں سیدھی راہ پر میڈیم۔۔۔۔‘‘بالکل جیسے ہم میں لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں اسی طرح ستاروں کی بھی دشمنیاں اور دوستیاں ہوتی ہیں۔‘‘ ’’اچھا تو بتائو کہ ہمارے ستاروں میں آپس میں دشمنی ہے کہ دوستی۔‘‘ میںنے بے صبری سے پوچھا۔
روپا میری بات سن کر کھلکھلا کر ہنس پڑی۔ ’’خاک دوستی ہو گی ہر وقت تو تکرار ہوتی رہتی ہے۔ پھر بھی بتاتی ہوں۔ تمہارا برج جوزا ہے اور تمہارا حاکم ستارہ عطارد ہے۔ اور اس کے دوست ستارے قمر، زحل اور زہرہ ہیں۔ مریخ اور مشتری اس کے پکے دشمن ۔ جبکہ سورج نہ اس کا دوست ہے نہ دشمن۔ ‘‘ میں نے جلدی سے لقمہ دیا روپا تمہارا ستارہ ضرور سورج ہی ہو گا کیونکہ کبھی تو تم بڑی دوستی بھگارتی ہو اور کبھی جانی دشمن نظر آتی ہو۔‘‘ ’’نہیں میڈم میرا ستارہ زہرہ ہے۔ دوست ہوں تمہاری بیوقوف لڑکی۔‘‘ اس نے جل کر کہا۔ بس تمہارا لیکچر پورا ہو گیا یا ابھی کچھ اور باقی ہے۔‘‘ میں نے ترکی بہ ترکی جواب دیا تو روپابے صبری سے بولی۔ ’’ارے نہیں بھئی۔ ابھی تو بہت کچھ ہے بتانے لائق۔۔۔ جانا مت۔‘‘ وہ التجا کرتے ہوئے بولی۔
’’ان ستاروں کی رنگت بھی الگ الگ ہوتی ہے۔ جیسے سورج ، سرخ اور قمر سفید ہوتا ہے۔ زہرہ سفید سیاہی مائل تو مریخ سرخ۔ مشتری پیلے رنگ کا جبکہ عطارد سبز اور زحل جیٹ بلیک ’’اوہو تو جبھی کہوںیہ سفید رنگت ہر وقت دھواں دھواں سی کیوں رہتی ہے۔ تمہاری زہرہ کی بچی۔۔۔۔ میں نے طنزاً کہا تو روپا کہاں پیچھے رونے والی تھی فوراً بولی اور تم عطارد کی اولاد ساون کے اندھے کی طرح تھیں ہر طرف ہرا ہی ہرا سوجھتا ہے۔‘‘ اس نے سبز رنگ پر بھرپور وار کیا۔ تو میں بجائے غصے میں آنے کے کھلکھلا کر ہنس پڑی۔ ’’اور سنومیڈم ستارے مذکر اور مونث بھی ہوتے ہیں۔ ان کی نحوست بھی ہوتی ہے اور یہ الٹی چال بھی چلتے ہیں۔‘‘ روپا نے مزید علمیت بھگارتے ہوے کہا۔ ’’تمہارا ستارہ تو مذکر ہی ہو گا روپا جو ہر وقت جوشیلے مردوں کی طرح لڑائی جھگڑے پر آمادہ رہتی ہو۔‘‘ میں نے گویا اس کا مذاق اڑایا تو روپا تنک کر بولی ’’نہیں زہرہ مونث ستارہ ہے۔ یعنی خالص فیمنسٹ اور عطارد مخنث ہے یعنی نہ مرد نہ عورت۔ بس دونوں کے درمیان کی کوئی چیز ہے میرے بجائے تم اپنی فکر کرو جان من۔‘‘ روپا نے ہاتھ نچاتے ہوئے کہا۔ ’’یہ کیا بیہودگی ہے میں نے قدرے غصے سے کہا، تم بکواس کر رہی ہو۔‘‘ قسم لے لو ایسا ہی لکھا ہے کتاب میں۔ لو دیکھ لو۔‘‘ اس نے کتاب میرے آگے کرتے ہوئے کہا۔
مجھے کوئی کتاب نہیں دیکھنی ہے یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ ’’ہر عوت کے اندر کچھ مرد اور ہر مرد کے اندر کچھ عورت ہوتی ہے تو تمہارا ستارہ کونسی نئی بات بتا رہا ہے۔ افلاطون کی اولاد۔۔۔۔‘‘ اسی بحث و تکرار میں کافی وقت گزر چکا تھا۔ میں نے تقریبا اٹھتے ہوئے کہا کہ ’’بس اب اگلا پیریڈ شروع ہونے والا ہے۔ چلتے ہیں، آج کے لیے اتناہی کافی ہے۔‘‘
روپا نے جلدی سے میرا ہاتھ پکڑ کر گویا اٹھنے سے منع کر دیا۔’’ اب کیا ہے۔‘‘ میں ذراجُزبُز ہو کر بولی۔ ’’مگر سب سے زیادہ دل چسپ بات ستاروں کے بارے میں تو تم نے سنی ہی نہیں۔‘‘ اب وہ کیا ہے۔ جلدی سے بتا دو۔‘‘ میں نے بے صبری سے کہا۔
’’ذرا دم تو لو۔ غور سے سننے والی بات ہے میڈم۔ ستارے سیدھی اور الٹی چال بھی چلتے ہیں۔ جب سیدھے جا رہے ہوں تو ایسی حالت کو مستقیم یعنی صراط مستقیم کہتے ہیں جیسے تم چلتی ہو۔اسے ہندی زبان میں مارگی کہا جاتا ہے۔ مگر جب کوئی دوسرا ستارہ اپنی کشش سے سیدھی چال والے ستارے کو اپنی طرف کھینچتا ہے تو اس کی چال الٹ ہو جاتی ہے۔ جسے اردو میں رجعت، ہندی میں وکری اور انگریزی میں ریٹروگریڈ موومنٹ کہتے ہیں۔ جیسے گاڑی ریورس گیئرمیں جاتی ہے۔‘‘’’ اچھا تو تم ہو وہ الٹی چال والا ستارہ جو مجھ جیسی سیدھی سی لڑکی کو اپنی کشش سے الٹا سیدھا کرتی رہتی ہو۔‘‘ میں نے مذاقاً کہا تو روپا برا سا مان گئی۔
’’ارے سوائے چاند اور سورج کے باقی سب ستارے الٹی سیدھی چال ہی چلتے ہیں۔ اس لیے تمہارے ستارے کی کشش مجھے بھی الٹی سیدھی کرتی رہتی ہے۔ صرف میں ہی مجرم نہیں ہوں۔ تم بھی برابر کی شریک ہو۔‘‘روپا نے گویا بدلہ لیتے ہوئے کہا تو ہم دونوں نے ہی زبردست قہقہہ لگا دیا۔ ’’اچھا تو اب چلو۔ پیریڈ تو مِس ہو گیا۔ گھر جلدی پنچنا ہے ورنہ اماں میری چال الٹی کر دیں گی۔‘‘ یہ کہہ کر میں تو وہاں سے گیٹ کی طرف بھاگی جہاں طارق بھیا نہ جانے کب سے گاڑی لیے میرا انتظار کر رہے تھے اور میں علم نجوم کی گتھیاں سلجھانے میں مصروف تھی۔
آج سڑک پر ٹریفک کا رش معمول سے کچھ زیادہ ہی تھا کیونکہ ایسٹر کی چھٹیوں کے لیے آج سکولوں کا آخری دن تھا اور حد نظر تک سڑک پر گاڑیوں کی طویل قطاریں نظر آرہی تھیں۔ بھیا اپنی نئی نویلی دھان پان سی اسپورٹس منی کوپر بڑے اسٹائل سے چلا رہے تھے جبکہ مجھے اتنی ٹریفک سے سخت وحشت ہو رہی تھی کیونکہ اماں نے آج گھر جلدی آنے کے لیے کہا تھا۔ ’’پہلے تو روپا کی بچی کے ستاروں اور برجوں نے سارا وقت لے لیا اور اب ٹریفک نے گویا رینگنے کی قسم کھا رکھی تھی۔‘‘ میںمنہ ہی منہ میں بڑبڑائی ۔ یونہی چلتے رکتے ٹریفک ایک ڈھلوانی سڑک پر آگئی۔ ہمارے بالکل آگے ایک بڑی سی لینڈ کروزر جا رہی تھی۔ تھوڑی ہی دیر بعد مجھے یوں لگا جیسے وہ گاڑی آگے کی بجائے پیچھے کی طرف آرہی ہے یعنی ریورس گیئر۔ میںنے جلدی سے بھیا کو خبردار کیا کہ ’’صرف مجھے ہی ایسا لگ رہا ہے یا واقعی یہ گاڑی پیچھے کی طرف آرہی ہے۔‘‘ بھیا نے یکدم ہارن بجانا شروع کر دیا کیونکہ گاڑی واقعی پیچھے آرہی تھی۔ خدا جانے کیامعاملہ تھا۔ آگے والا ڈرائیور نشے میںتھا یا اناڑی تھا کہ اتنے ہارن بجانے کے باوجود لینڈ کروزر نے بھیا کی نئی نویلی گاڑی کا حشر کر دیا گویا ستارے الٹی چال چل رہے تھے۔
بھیا غصے میں پھنکارتے ہوئے گاڑی سے باہر نکلے تو دوسری طرف لینڈ کروزر سے نکلنے والی ایک ادھیڑ عمر ایشین عورت تھی۔ مجھے پورا یقین تھا کہ اگر عورت کی بجائے ڈرائیور مرد ہوتا تو بھیا اس کی ایسی خبر لیتے کہ وہ زندگی بھر کے لیے ڈرائیونگ کرنا بھول جاتا۔ مگر بھیا نے دھیرج رکھتے ہوئے خاتون سے اس کی انشورنس کی تفصیلات طلب کیں تو وہ بحث پر اتر آئی کہ ’’اس ملک میں ایسا کوئی قانون نہیں ہے کہ اگر میں ریورس گیئر میں کسی گاڑی کو ٹکر ماروں تو میں ہرجانہ بھروں۔‘‘ اب تو بھیا کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا تھا۔ ایسی احمقانہ بات سن کر میری تو ہنسی ہی نکل گئی۔
یہ محترمہ کہاں رہ رہی ہیں۔ انگلینڈ یا چیچو کی ملیاں۔ اور جس قانون کا یہ ذکر کر رہی ہیں۔ شاید انہوں نے اپنی کچن کیبنٹ میں بنایاہے۔ اب تو بھیا کا پارہ بہت اونچائی پر جا رہا تھا۔ ’’قد سے بڑی گاڑی لے کر باہرنکلی ہو ڈرائیونگ تو سیکھ لینی تھی۔ اتنی ٹریفک میں تم ریورس گیئر کس خوشی میں لگا رہی تھیں کیا تمہیں نظر نہیں آرہا تھا کہ پیچھے گاڑی ہے۔‘‘ بھیا اسے بے نقط سنا رہے تھے۔ ’’دراصل آپ کی گاڑی اتنی چھوٹی ہے کہ نظر ہی نہیں آئی۔‘‘ عورت نے دلیل پیش کی۔ بجائے کسی قسم کی شرمندگی یا افسوس کے وہ عورت عجیب ڈھٹائی سے باتیں کر رہی تھی۔
بھیا نے مزید انتظار نہ کرتے ہوئے پولیس کو فون کر نا چاہا تو اس عورت نے جھٹ سے پینترا بدل لیا۔ ’’دراصل میرا خاوند ہی انشورنس کے کام کو ڈیل کرتا ہے۔ مجھے اپنی انشورنس کمپنی کا علم نہیں ہے۔ مگر گھر جا کر آپ کو فون کر کے بتا دوں گی۔‘‘ بھیا نے اپنا وزٹنگ کارڈ اسے دیا تو وہ اسے پڑھے پڑھتے چونک سی گئی۔ کنسلٹنٹ سائیکاٹرسٹ ’’تو آپ پاگلوں کے ڈاکٹر ہیں۔ اور مجھے بھی پاگل سمجھ کر مجھ پر چلاّ رہے ہیں۔ میں تو بس گاڑی کو ریورس گیئر میں ڈال کر ٹریفک میں سے نکلنا چاہ رہی تھی کہ آپ سے جا ٹکرائی۔
’’مجھے پورا یقین ہے کہ تم ضرور کسی دماغی خلفتار کا شکار ہو وگرنہ ایسی بیہودہ حرکت ٹریفک کے ایسے رش میں۔ کوئی سمجھ دار انسان نہیں کر سکتا۔‘‘ بھیا دھاڑے۔۔۔۔ میںنے مسکراتے ہوئے سوچا کہ آج تو واقعی ستارے الٹی چال چل رہے ہیں وگرنہ ایسی بھیڑ میں ریورس گیئر۔۔۔۔۔!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...