جیکب کے بچپن کا دوست وجئے اپنی اہلیہ کنگنا کے ساتھ پہلی مرتبہ سیر و تفریح کے لیے متحدہ عرب امارات آیا ہوا تھا۔ اس دوران اتفاق سے جیکب اور ثناء کے شادی کی سالگرہ بھی آ گئی۔ جیکب نے اس موقع پر امارات کے پر فضا مقام راس الخیمہ میں ایک زبردست تقریب کا اہتمام کیا اور اس میں البرٹ اور سوژان کو بھی شرکت کی دعوت دی۔
وجئے تو اپنے رکھ رکھاؤ میں پوری طرح انگریز بن چکا تھا مگر کنگنا اپنے لباس اور چال ڈھال میں خالص ہندوستانی تھی اس لیے ثنا پروین سے فوراً دوستی ہو گئی اور دونوں برسوں پرانی سہیلیوں کی طرح گھل مل گئیں۔
ثنا نے کنگنا سے پوچھا سنا ہے وجئے کئی مرتبہ امارات آنے کا پروگرام بنا کر ملتوی کر چکا ہے آخر اس بار تم نے اسے کیسے راضی کر لیا؟
کنگنا بولی در اصل وجئے کا نروس بریک ڈاؤن ہو گیا تھا اور اسے اسپتال میں داخل کرنا پڑا۔ ڈاکٹروں نے رائے دی کہ صدمے سے نکلنے کے لیے کسی اور ماحول میں جانا ضروری ہے۔ ہم دونوں کا تعلق ہندوستان اور سری لنکا سے ضرور ہے لیکن ہماری پیدائش برطانیہ کی ہے اور بچپن وہیں گذرا ہے۔ جب ہم بہت چھوٹے تھے تو والدین ہمیں اپنے وطن لے جایا کرتے تھے لیکن جب بڑے ہوئے تو ان کا آنا جانا کم ہو چکا تھا اور ہمارا تو بند ہی ہو گیا۔ کبھی کسی ایمرجنسی کے سبب انہیں جانا بھی پڑتا تو ہمیں چھوڑ جاتے بلکہ ہاسٹل میں تو معلوم بھی نہیں ہوتا کہ وہ کب گئے اور کب آئے؟
ایمرجنسی کا مطلب میں نہیں سمجھی؟
وہی ناگزیر صورتحال کسی کی بیماری یا سگائی اور کسی کی موت یا شادی وغیرہ
تم بیماری کے ساتھ موت اور سگائی کے ساتھ شادی بھی تو بول سکتی تھیں؟
ہاں لیکن ترتیب سے کیا فرق پڑتا ہے ویسے بھی سگائی کے بعد انسان مرض الموت میں مبتلاء ہو جاتا ہے۔
بہت خوب اور شادی کے بعد اس کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ آخر انسان برضا و رغبت اس بیماری کو پالتا کیوں ہے؟
تاکہ اس کی من مانی مراد یعنی اپنی پسند کی موت نصیب ہو جائے۔
لیکن کنگنا انسان مرنا نہیں چاہتا اس کے باوجود موت کو کیوں خوشی خوشی گلے لگاتا ہے؟
در اصل یہ ایک ایسی موت ہے بہن کہ اس پر سو زندگی قربان ہے۔ اس کا اندازہ مجھے اپنے ساس سسر کی وفات سے ہوا۔
کیا ان کے انتقال سے تم نے زندگی کا یہ اہم سبق سیکھا؟
جی ہاں اور ان کی موت نے ہی وجئے کا نروس بریک ڈاؤن کر دیا۔
اچھا تو کیا وہ اپنے والدین سے بہت زیادہ محبت کرتا تھا؟
جی نہیں اس نے اپنے والدین کو پوری طرح نظر انداز کر رکھا تھا۔ جب تک حیات تھے ان کی کوئی قدر نہیں کی لیکن جب گزر گئے تو وہ صدمے کے گہرے سمندر میں ایسا ڈوبا کہ ابھرنا مشکل ہو گیا۔ میں بھی طرح طرح کے اندیشوں میں مبتلا ہو گئی لیکن خدا شکر ہے کہ وہ آج زندہ اور صحتمند ہے ورنہ تو میرا جہان اجڑ جاتا۔
ثنا پروین کو کنگنا اور وجئے کی محبت پر رشک آ گیا وہ بولی وجئے کتنا خوش نصیب ہے جو اسے تم جیسی جان چھڑکنے والی شریک حیات مل گئی۔
لیکن کیا تمہیں پتہ ہے کہ میں ایسی نہیں تھی۔ ویسے تو ہماری شادی کو کئی سال گذر گئے اور ہم ساتھ بھی رہے لیکن جب مجھے وجئے نے اپنے والدین کی داستانِ حیات سنائی تو میرا دل دہل گیا اور میں بھی ٹوٹ کر محبت کرنے لگی۔
لیکن یہ ہوا کیسے؟
اسپتال سے جب وجئے واپس آ گیا تو میں نے اس کی پریشانی کاسبب پوچھا اور اس نے اپنی محرومی کہانی یعنی والدین کی آپ بیتی سنادی۔ اس دوران وجئے کئی بار بار رویا اور میں بھی اس کے ساتھ زار و قطار روتی رہی۔ جب یہ داستان ختم ہوئی تو میرے دل کی دنیا بدل چکی تھی۔
اگر ایسا ہے تمہیں وہ داستان مجھے اور سوژان کو بھی سنانی ہو گی۔
لیکن ممکن ہے اس چینی عورت کو اس میں دلچسپی نہ ہو؟
وہ چینی نہیں فلپینی ہے اور میں ہندی ہوں۔ ہماری جنس پہلے اور قوم بعد میں آتی ہے۔ ساری دنیا کی خواتین یکساں دلچسپیوں کی حامل ہوتی ہیں۔ ویسے کل یہ مرد حضرات مچھلی مارنے جا رہے ہیں۔ ہمارا کام ان کی واپسی کے بعد شروع ہو گا اور وہ لوگ جب جھک مار رہے ہوں گے ہم تمہارے ساس سسر کی سوانح حیات سنیں گے۔ دوسرے دن جب البرٹ، ڈیوڈ اور وجئے اپنی مہم پر نکل گئے تو یہ تینوں سہیلیاں ایک جگہ جمع ہو گئیں اور سوژان بولی کنگنا اب تم شروع ہو جاؤ۔ مجھے نانے تمہاری کل کی گفتگو سے آگاہ کر دیا ہے اور یقین کرو کہ میں اس کہانی کو جاننے کے لیے بہت زیادہ مشتاق ہوں۔
کنگنا بولی شکریہ در اصل میرے خسر کمارسنگے اپنی نوجوانی کے زمانے میں ایک سبزی کی دوکان پر کام کرتے تھے۔ سبزی کی دوکان راجن نامی ایک ملباری کی تھی۔ راجن جب خوشحال ہوا تو اس نے اپنی اہلیہ اور بچوں کو بھی برطانیہ بلوا لیا۔ اب اسے ایک گھریلو ملازم کی ضرورت تھی لیکن لندن میں گھریلو ملازم رکھنا عام آدمی کے بس کا روگ نہیں تھا اور نہ اب ہے۔ اس لئے راجن نے اپنی بیوی ریوتی کے مشورے سے ایک نئی ترکیب نکالی۔
کمار سنگے دن بھر دوکان میں کام کرتا اور رات میں اسی کے خستہ حال عقب میں سو جاتا تھا۔ کمار اپنے ایک دوست کے کہنے پر کسی طرح زائر کا ویزا لگا کر برطانیہ پہنچا تھا اور غیر قانونی طور پر وہاں رہائش پذیر تھا۔ راجن کو اس کی مجبوری کو احساس تھا اس لئے وہ خوب جم کر استحصال کرتا تھا۔
کمار جب بھی راجن کے گھر سبزی پہچانے جاتا دروازے سے ریوتی سامان لے کر اسے لوٹا دیتی تھی اندر جانے کی نوبت ہی نہ آتی۔ ایک دن کمار کو راجن نے اپنے گھر بلایا اور اس بار جب کمار نے دروازے پر دستک دی تو ریوتی نے دروازہ کھولا اور اسے اندر آ کر بیٹھنے کیلئے کہا۔ کمار کیلئے یہ حیرت کا جھٹکا تھا۔ وہ دیوان خانے میں ایک طرف دبک کر بیٹھ گیا۔ ریوتی نے چائے کی ایک پیالی اسے تھماتے ہوئے کہا راجن ابھی آ رہا ہے اور اندر چلی گئی۔
کمار کی سمجھ میں نہیں آیا تھا کہ اس عنایت خاص کی وجہ کیا ہے۔ وہ چائے کی پیالی کو ہاتھ میں لئے بے حس و حرکت خلاء میں گھور رہا تھا کہ راجن کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔ کیوں کمار کیا سوچ رہے ہو؟ چائے ٹھنڈی کر کے پیتے ہو کیا؟
راجن بولا جی نہیں جناب ۰۰۰۰۰۰۰۰ چائے؟ چائے ۰۰۰۰۰۰۰۰میں ۰۰۰۰۰۰نہیں ۰۰۰۰۰۰ پتہ؟
راجن مسکرا کر بولا عجیب بات ہے؟ تم سری لنکن لوگ ساری دنیا کو چائے پلاتے ہو اور خود نہیں پیتے؟ یہ تو غلط بات ہے۔
کمار نے کہا جی نہیں جناب۔ کولمبو میں جب میں رہتا تھا تو خوب چائے پیتا تھا لیکن یہاں آنے کے بعد میں نے چائے پینا چھوڑ دی ہے۔
راجن نے پوچھا کیوں بھئی یہاں کی چائے تمہیں پسند نہیں ہے کیا؟
ایسی بات بھی نہیں ہے جناب چائے تو وہی ہے جو سری لنکا میں ہوتی تھی اور چینی اور دودھ میں کوئی فرق نہیں ہے مگر۰۰۰۰۰۰۰۰
راجن نے پوچھا مگر کیا؟ جب سب وہی ہے تو رکاوٹ کیا ہے؟
کمار کچھ دیر خاموش رہا اور پھر بولا اس کی قیمت ہے۔ ہم لوگ جس قیمت میں اسے سری لنکا میں بیچتے ہیں اس سے کچھ زیادہ قیمت میں وہاں خرید کر استعمال کرتے ہیں لیکن یہاں آنے کے بعد تو وہ کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔
راجن بولا لیکن یہاں آمدنی بھی تو روپیوں کے بجائے پاؤنڈ ہوتی ہے؟ ایک پاؤنڈ کے ڈیڑھ سو سری لنکن روپئے بنتے ہیں۔
کمار نے کہا وہ تو درست ہے صاحب لیکن ہم جیسوں کو کتنے پاؤنڈ ملتے ہیں اور اس میں سے بچا کر اپنے گھر والوں کو بھی تو بھیجنا پڑتا ہے۔
راجن نے پوچھا تمہارے گھر میں کون کون ہے؟
ایک بوڑھی ماں ہے اور ایک بیوی۰۰۰۰۰۰۰۰
بال بچے نہیں ہیں تمہارے؟
ایک بچہ ہے وجئے جسے چار مہینے کا چھوڑ کر میں یہاں آ گیا تھا اب دو سال کا ہو گیا ہے۔ اس کی شکل دیکھنے کوترس رہا ہوں۔
تم نے اپنے گھر والوں کو یہاں بلانے کا نہیں سوچا؟
کمار پہلی بار راجن کے سامنے مسکرایا اور بولا جناب آپ تو جانتے ہیں کہ میرے ویزے کی مدت ایک سال پہلے ختم ہو چکی ہے۔ میں خود یہاں غیر قانونی طور پر قیام پذیر ہوں نہ جانے کب پولس مجھے گرفتار کر کے واپس بھیج دے اور آپ کہہ رہے ہیں کہ۰۰۰۰
اور اگر میں تمہارا کفیل بن کر تمہارے نام باقاعدہ ویزا نکلوا دوں تو؟
کمار ہنس کر بولا میں پاگل ہو جاؤں گا۔
یہ کیا بات ہوئی؟ میں سمجھا نہیں۔
جناب آپ نے نہیں سنا کہ لوگ خوشی سے پاگل ہو جاتے ہیں؟ ایسا ہی کچھ میرے ساتھ بھی ہو جائے گا۔
میں تمہارے ساتھ مذاق نہیں کر رہا ہوں۔ تمہارے کام اور ایمانداری سے میں بہت خوش ہوں اس لئے سوچتا ہوں کہ تمہیں باقاعدہ اپنی دوکان کے ویزے پر بلوا لوں لیکن میری ایک شرط ہے؟
کمار مسکرا کر بولا مجھے پتہ ہے صاحب! میں جانتا ہوں؟
راجن کے حیرت کی انتہا نہیں رہی اس نے سوچا کہیں بے وقوف ریوتی نے اسے سارا منصوبہ بتا تو نہیں دیا لیکن ریوتی ایسا نہیں کر سکتی۔ وہ اس کی نہایت فرمانبردار اور وفا شعار بیوی جو تھی۔ اس نے سوال کیا تم کیسے جانتے ہو کمار۔ تم کہیں نجومی تو نہیں ہو؟
یہ جاننے کیلئے کسی کو جیوتش ودیّا کی کیا ضرورت؟ مجھے پتہ ہے آپ میرے ساتھ دل لگی کر رہے ہیں۔ آپ ایک ایسی شرط لگائیں گے جسے میں پورا نہیں کر سکوں گا اور پھر اسی حالت میں رہوں گا۔ گھٹ گھٹ کر جیوں گا۔ ایک دن چپ چاپ مر جاؤں گا۔
راجن نے سکون کا سانس لے کر پوچھا تم ایسا کیوں سوچتے ہو کمار؟
اس لئے کہ اس میں آپ کا کوئی فائدہ نہیں ہے اور آپ جیسا سمجھدار آدمی کوئی بے سود کام کر ہی نہیں سکتا بلکہ اس میں آپ کا سیدھا سیدھا نقصان ہے اور اپنا بلاوجہ نقصان بھلا کون کرتا ہے؟
سوال فائدے یا نقصان کا نہیں انسانی ہمدردی کا ہے۔
لیکن جناب شرائط و ضوابط تو تجارت میں ہوتے ہیں انسانیت میں نہیں۔
راجن نے سوچا یہ کمار ایسا احمق بھی نہیں کہ جیسا وہ خیال کرتا تھا۔ اس نے محتاط ہو کر کہا دیکھو کمار میں نے اپنی پیشکش کر دی اب تمہاری مرضی؟
کمار کی چائے ختم ہو چکی تھی وہ شکریہ ادا کر کے دروازے کی جانب بڑھا لیکن پھر اسے راجن کی شرط والی بات یاد آ گئی۔ اس نے مڑ کر پیچھے دیکھا تو راجن اس کی جانب سوالیہ نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔ وہ واپس آ گیا اور بولا جناب وہ آپ کی شرط؟
بیٹھ جاؤ کمار! میری شرط یہ ہے کہ تم اپنی اہلیہ اور بچے کو بھی یہاں بلاؤ گے؟
کمار بولا مجھے پتہ تھا صاحب مجھے پتہ تھا۔ مجھ جیسا مزدور آدمی جس کے اپنے رہنے کا ٹھکانہ نہیں ہے وہ اپنے بیوی بچوں کو بلا کر کہاں رکھے گا؟ میں سمجھ گیا نہ نو من تیل ہو گا اور نہ رادھا ناچے گی۔
راجن بولا دیکھو کمار اس مسئلہ پر میں نے ریوتی سے بات کر لی ہے جب تمہاری بیوی یہاں آ جائے گی تو وہ اس گھر کے عقب میں موجود ملازمین کے کوٹھری میں رہے گی۔ تم دونوں عارضی طور پر وہیں ٹک جانا پھر اس کے بعد تمہاری قسمت۔
لیکن خاندان کے ساتھ اخراجات بھی تو بڑھ جائیں گے؟
کمار تم یہ نہ بھولو کہ تمہاری بیوی چندریکا ایک منہ مگر دو ہاتھ لے کر آئے گی۔ جس طرح تم میری مدد کرتے ہو وہ ریوتی کا تعاون کرے گی اور آمدنی دوگنی ہو جائے گی۔ کمار یہ سن کر سوچ میں پڑ گیا۔ راجن نے بات آگے بڑھائی اب کیا سوچ رہے ہو کمار؟
میں اپنی ماں کے بارے میں سوچ رہا ہوں؟ میرے علاوہ اس کا اس دنیا میں کوئی نہیں ہے اگر چندریکا بھی یہاں آ جائے گی تو اس کی دیکھ بھال کون کرے گا؟ اس عمر میں اس کا کیا ہو گا؟
راجن نے سوچا آسمان سے گرا تو کھجور میں اٹکا۔ وہ بولا دیکھو کمار تم تو جانتے ہی ہو یہاں رہائش سب سے بڑا خرچ ہے۔ میرے اس چھوٹے سے گھر میں تین لوگوں کی گنجائش نہیں ہے اور پھر تمہارا بیٹا بھی دیکھتے دیکھتے بڑا ہو جائے گا۔ تم ایسا کرو کہ اپنی بیوی اور ماں سے بات کر کے دیکھو۔ مجھے یقین ہے کہ وہ دونوں تیار ہو جائیں گے اور کوئی متبادل انتظام بھی ہو جائے گا۔
مجھے نہیں لگتا۔ یہ بہت مشکل ہے۔
بہر حال تم بات تو کر کے دیکھو اس میں حرج کیا ہے؟
میں سوچوں گا۔ یہ کہہ کر کمار لوٹ آیا لیکن وہ اپنے آپ کو اس سنگدلی کیلئے تیار نہیں کر پایا۔ اس نے اپنی بیوی کو اپنے پاس بلانے کا خیال دل سے نکال دیا۔ ایک دن جب راجن نے استفسار کیا تو وہ بولا جناب میں نے آپ سے کہا تھا یہ مشکل ہے۔ اپنی ماں کی خدمت نہ کرنے کا قلق ویسے ہی میرے لئے سوہانِ جان ہے۔ ریوتی اس احساسِ جرم میں کسی قدر کمی کر دیتی ہے۔ میں اس میں مزید اضافہ نہیں چاہتا۔
راجن کو کمار کے رویہ پر حیرت تھی اس لئے کہ وہ دنیا کے سارے لوگوں کو اپنی مانند خودغرض سمجھتا تھا۔ راجن کے نزدیک یہ سراسر حماقت تھی اس کے باوجود منافقانہ ہمدردی جتاتے ہوئے وہ بولا راجو میں تمہاری مشکل سمجھتا ہوں۔ اس لئے کہ میں بھی تمہاری طرح اپنے والدین کو چھوڑ کر کسی زمانے میں لندن آیا تھا۔ اگر تمہیں بات کرنے میں کوئی دقت ہو تو اور تم مناسب سمجھو تو اپنی اہلیہ کا فون نمبر مجھے دے دو۔
(چونک کر) آپ اس نمبر کو لے کر کیا کریں گے؟
میں وہ نمبر ریوتی کو دے دوں گا۔ یہ اسی کی تجویز ہے۔ وہ تمہاری اہلیہ اور والدہ دونوں سے بات کر کے انہیں سمجھائے گی اور مجھے یقین ہے کہ کامیاب ہو جائے گی۔
اس یقین کی وجہ؟
در اصل بات یہ ہے کہ عورتوں کو کوئی بات سمجھانا ہم جیسے مردوں کے بس کا روگ نہیں۔ ہم جب انہیں کوئی بات سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں تو الٹا وہ ہمیں اپنے دام میں پھنسا لیتی ہیں لیکن میرا طویل تجربہ شاہد ہے کہ وہ ایک دوسرے کو بہ آسانی سمجھا لیتی ہیں۔ اس لئے ایک کوشش کر کے دیکھنے میں کیا حرج ہے؟
لیکن اگر خدا نخواستہ بات بگڑ جائے تو کیا ہو گا؟ میں اپنی ماں کو کسی صورت ناراض نہیں کرنا چاہتا۔ میری روزی روٹی کا یہ سلسلہ میری ماں کی دعاؤں کی بدولت ہے اور جس دن وہ ناراض ہو جائے گی سارا کچھ برباد ہو جائے گا۔ مجھے بہت ڈر لگتا ہے۔
میں سمجھتا ہوں لیکن اس میں خطرہ بہت کم ہے۔ اگر کوئی اونچ نیچ ہو جائے تو اپنی ماں سے کہہ دینا کہ ریوتی نے اپنے طور پر بات چلا دی اور تم خود اس سے اتفاق نہیں کرتے، تم اپنی ماں کے سامنے ریوتی کو برا بھلا کہو گے تو اس بڑھیا کا غصہ کافور ہو جائے گا اس لئے ایک کوشش کر کے دیکھ لینے میں حرج نہیں ہے۔
راجن کمار کو اپنی مکاری کے دام میں پھنسانے میں کامیاب ہو گیا۔ ریوتی نے بڑی آسانی سے کمار کی ماں کو اس کی اولاد کے روشن مستقبل کی دہائی دے کر راضی کر لیا۔ وہ چندریکا اور وجئے کو لندن روانہ کرنے پر آمادہ ہو گئی۔ کمار کو کچھ کرنا ہی نہیں پڑا۔ اس کی ماں نے الٹا کمار کو تجویز پر پس و پیش کیلئے ڈانٹا اور اپنے ایک غریب بھانجے کو گود لے لیا۔ کمار اپنی ماں کے طفیل اس کا سر پرست بن گیا۔ اس فیصلے سے نہ صرف کمار کی ماں کو ایک سہارا مل گیا بلکہ اس کے بھانجے کیلئے بھی تعلیم کا بندوبست ہو گیا۔
کمار کی خالہ کو یقین تھا کہ اب بہن کے گھر کا وارث اس کا بیٹا ہی ہو گا اس لئے کہ کمار تو لوٹ کر آئے گا نہیں اور اگر کمار اس خدمت کے عوض بہن کی موت کے بعد اس کے بیٹے کو لندن بلوا لے تو تب تو سونے پر سہاگہ۔
٭٭٭
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...