جیسے جیسے اس کے ریٹائرمنٹ کا وقت قریب آ رہا تھا اس کی پریشانی بڑھتی جا رہی تھی، بعد کی زندگی کے بارے میں سوچ سوچ کر اسے وحشت ہو رہی تھی وہ ریٹائر ہونا نہیں چاہتا تھا لیکن یہ اس کے اختیار میں نہیں تھا، وہ جانتا تھا کہ یہ تو ملازمت کے ضابطوں کا ایک حصہ ہے، ہر شخص کو ایک دن ملازمت سے سبکدوش ہونا پڑتا ہے۔ بظاہر یہ بہت اچھا لگتا ہے کہ ایک شخص تیس چالیس سال کی نوکری کے بعد عمر کا آخری حصہ آرام سے گزارے، لیکن خالی بیٹھا ہوا آدمی اہلِ خانہ کو بھی بوجھ لگنے لگتا ہے اور افسری مزاج میں عجیب حاکمانہ انداز لا دیتی ہے۔ جو سبکدوشی کے بعد پریشان کرتی ہے۔ دفتر میں ایک اشارے پر ماتحت دوڑ پڑتے ہیں لیکن ریٹائرمنٹ کے بعد تو گھر کے افراد بھی اس کی بات پر دھیان نہیں دیں گے یہی خوف اُسے ستا رہا تھا۔۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔
۔۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ریولونگ کرسی پر گھومتے گھومتے زندگی کے ساٹھ برس اس کے گرد گھومنے لگے تھے۔ وہ اپنے خاندان میں تعلیم یافتہ نسل کا پہلا فرد تھا۔ اس کا باپ اس سے مخاطب تھا:
’’دیکھو بیٹا تم سے پہلے ہمارے خاندان میں کسی نے اعلیٰ تعلیم حاصل نہیں کی۔ سب نے کاشتکاری میں زندگی گزار دی۔ لیکن اب زمانہ بدل رہا ہے۔ تم اگر پڑھ لکھ جاؤ گے تو تمہاری زندگی سنور جائے گی، سماج میں عزت پاؤ گے۔‘‘
یہ بات وہ اچھی طرح جان گیا تھا کہ سوسائٹی میں وقار حاصل کرنے کے لیے اعلیٰ تعلیم لازمی ہے۔ اسی لیے اس نے انتھک محنت کی تھی۔ راتوں کو جاگ جاگ کر لیمپ کی روشنی میں اس نے پڑھائی کی تھی، گاؤں سے دور پیدل چل کر اسکول جایا کرتا تھا اور جب کالج کی تعلیم شروع ہوئی تو باپ نے ایک پرانی سائیکل دلوا دی تھی جس پر میلوں کا سفر کر کے وہ کالج جاتا تھا اسے ایک روشن مستقبل کی امید تھی۔ اس کی پریشانی دیکھ کر کبھی کبھی اس کی ماں کہتی تھی۔
’’بیٹا کیوں اپنی جان جلاتا ہے۔ اپنے باپ اور بھائیوں کی طرح کھیتی کر۔ ڈپٹی کلکٹر بن کر کیا کرے گا۔‘‘
’’نہیں امّاں زمیں پڑھ کر کچھ بننا چاہتا ہوں۔‘‘
اسے بھی پڑھائی سے دلچسپی تھی۔ وہ اپنی ماں کو سمجھاتا
’’امّاں اب دنیا میں پڑھائی بہت ضروری ہو گئی ہے۔ پڑھے لکھے ہی لوگ دیش چلاتے ہیں۔‘‘
’’ہاں جب پڑھائی لکھائی نہیں تھی تب دیس تو چلتا ہی نہیں تھا۔ پڑھے لکھوں کا بھی تو پیٹ ہوتا ہے اور پیٹ مانگتا ہے روٹی۔ روٹی کا ہے سے بنتی ہے۔ ناج سے۔ ناج کو کون پیدا کرتا ہے؟ کسان۔ کسان نہ ہو تو سب بھوکے مر جائیں۔‘‘ اس کی ماں بھی اَن پڑھ ہونے کے باوجود اس سے بحث کرتی تھی۔
’’لیکن اگر پڑھ لکھ کر آدمی کھیتی کرے گا تو زیادہ کامیاب ہو گا۔‘‘
’’اچھا مجھے مت سمجھا، تو چاہتا ہے کہ سارے کسان کالج چلے جائیں۔ تو بھی پڑھائی کر کے ہل چلائے گا نا! جا کر شہر میں نوکری کرے گا اپنی امّاں کو بھی بھول جائے گا۔‘‘
جب امّاں ہنس کر یہ بات کہتی تو وہ ماں سے لپٹ کر بڑے پیار سے کہتا:
’’نہیں امّاں۔ تجھے تو اپنے ساتھ شہر لے جاؤں گا۔‘‘
’’مجھے کہیں نہیں جانا۔ اپنا گاؤں چھوڑ کر۔‘‘
اُسے پوری امید تھی کہ شہر میں اسے پڑھنے کے بعد اچھی نوکری مل جائے گی۔ اچھا گھر ہو گا۔ نوکر چاکر ہوں گے۔ گاڑی ہو گی۔ افسروں کی طرح زندگی گزارے گا۔ گاؤں میں بابا دوسرے بھائیوں کے ساتھ کھیتی کرتے رہیں گے اور وہ ماں کو اپنے ساتھ رکھے گا۔
پھر یوں ہوا کہ گریجویشن مکمل کرتے ہی اسے ایک آفس میں نوکری مل گئی۔ نوکری کی وجہ سے اسے گاؤں چھوڑنا پڑا، اس نے بہت کوشش کی کہ اس کی ماں اس کے ساتھ رہے لیکن ماں اس عمر میں اپنے شوہر کو چھوڑنے کے لیے کسی طرح تیار نہ ہوئی۔ وہ اپنی نوکری سے مطمئن نہیں تھا اس کے خواب کچھ اور تھے۔ وہ بہت اوپر جانا چاہتا تھا۔ اس نے سوچا تھا کہ دفتر میں بیٹھ کر گھنٹی بجا کر چپراسی کو بلایا کرے گا ابھی تو گھنٹی کی آواز سن کر خود دوڑتا تھا۔ اس کا خواب تھا کہ گاڑی میں بیٹھنے کے لیے گاڑی کا دروازہ ڈرائیور کھولے گا، دروازے پر اس کے انتظار میں گاڑی کھڑی ہو گی۔ ابھی تو وہ بس کے انتظار میں بس اسٹاپ پر کھڑا ہوتا ہے۔ بس میں چڑھنے کے لیے بس کے پیچھے دوڑتا ہے۔ بس کی بھیڑ میں اپنی شناخت بھی نہیں کر پاتا۔ وہ اپنے افسر کی ہر نقل و حرکت پر نظر رکھتا تھا۔ اس لیے کہ وہ وہی مقام حاصل کرنا چاہتا تھا۔ بلکہ اس سے بھی آگے نکل جانے کی اس کی خواہش تھی۔ اس کے لیے وہ سب کچھ کرنے کو تیار تھا۔ شہر میں رہ کر اسے معلوم ہو گیا تھا کہ تعلیم کے ساتھ ساتھ عظمت حاصل کرنے کے لیے خدمت بھی ضروری ہے۔ اسی لیے اس نے تعلیمی سلسلہ بھی جاری رکھا اور افسروں کی خدمت بھی کی۔
وقت گزرتا گیا۔ ماں باپ نے اس کی مرضی کے مطابق اس کی شادی بھی کر دی۔ اس کی محنت رنگ لاتی رہی اور وہ ترقی کی منزلیں طے کرتا رہا۔ اور پھر ایک دن اس مقام تک پہنچ گیا۔ جو وہ چاہتا تھا۔ دروازے پر ڈرائیور گاڑی لیے اس کے انتظار میں کھڑا رہتا تھا۔ نوکر اس کا بریف کیس لے کر کار تک اس کے ساتھ جاتا تھا۔ دفتر میں پہنچتے ہی دفتر کے لوگ اس کے احترام میں کھڑے ہو جاتے تھے۔ گھنٹی بجاتے ہی چپراسی حاضر ہو جاتا تھا۔ آہستہ آہستہ اس کے اندر بڑی تبدیلی آ گئی تھی، گاؤں اور گاؤں والے بہت پیچھے چھوٹ گئے تھے۔ گاؤں کے اس گھر میں اسے گھٹن محسوس ہونے لگی تھی۔ جہاں اس نے ہوش سنبھالا تھا، وہ گلیاں گندی لگنے لگی تھیں جن میں اس کا بچپن گزرا تھا۔
اس پر افسری کا نشہ سا طاری ہو گیا تھا، وہ اپنے دفتر کے لوگوں کو بات بات پر جھڑک دیتا تھا، وہ بالکل بھول گیا تھا کہ وہ بھی کسی وقت اسی مقام پر تھا۔ دفتر کے لوگ اس سے خوفزدہ رہتے تھے۔ دفتر اور گھر دونوں جگہ وہ افسر بن کر رہتا تھا۔ اس کے پرانے ساتھی اس سے کترانے لگے تھے۔ بلکہ خود اس نے سب کو چھوڑ دیا تھا وہ اپنے برابر کے لوگوں ہی سے ملنا پسند کرتا تھا۔ اس کے رویے کی تبدیلی سے اس کے گھر والے بھی پریشان تھے۔ اس کی بیوی اور بچّے بھی دفتر والوں کی طرح اس کے سامنے آنے سے کتراتے تھے۔
۔۔۔ ۔۔ ۔۔ اور اب وہ پریشان تھا آنے والی زندگی کے بارے میں سوچ کر۔ ریٹائرمنٹ کے بعد کیا ہو گا! پھر وہ وقت آ گیا کہ دفتر کے لوگوں نے اسے خوشی خوشی الوداعیہ دیا، اسے افسوس تھا کہ اس کے رخصت ہونے سے کوئی غمزدہ نہیں تھا کوئی آنکھ نم نہیں تھی۔ سب کے چہروں پر اطمینان تھا ایسا لگتا تھا سب خوش ہیں، سب کے چہرے دیکھ کر وہ اندر ہی اندر ٹوٹ رہا تھا، نوکری کے دوران اس لمحہ کے بارے میں اس نے کبھی سوچا ہی نہیں تھا۔ وہ دفتر سے رخصت ہوا، آخری بار چپراسی نے اس کا بریف کیس سرکاری گاڑی میں رکھا۔ آخری بار ڈرائیور نے گاڑی کا دروازہ کھولا۔ وہ کار کی پچھلی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ سب نے ہاتھ ہلا کر ہمیشہ کے لیے اس دفتر سے رخصت کر دیا۔ کار سڑک پر دوڑنے لگی۔ وہ پھر گہری سوچ میں ڈوب گیا۔
آج کے بعد یہ سرکاری گاڑی دروازے پر کھڑی نہیں ہو گی، آج کے بعد دفتر کا کوئی آدمی اسے دیکھ کر کھڑا نہیں ہو گا۔ وہ سوچ رہا تھا کیا گھر میں اس کی پہلی جیسی عزت قائم رہے گی۔ اس نے محسوس کیا کہ اس کی بیوی کہہ رہی ہے:
’’اب تمہاری افسری ختم ہو گئی ہے۔ ریٹائر ہو گئے ہو، خاموشی سے ایک طرف بیٹھے رہو۔ بچّے جو چاہتے ہیں کرنے دو۔ ان کی بھی تو اپنی زندگی ہے۔‘‘
کیا گھر پہنچ کو ایسا ہی ہو گا، بچّے بھی مجھے اپنے فیصلوں میں شامل نہیں کریں گے۔ کیا گھر کے معاملات میں بھی میرا اختیار ختم ہو جائے گا۔
’’پاپا اب آپ آرام کرو۔ ہم سب خود کر لیں گے۔ ہماری تو رائے ہے کہ آپ اپنے گاؤں چلے جاؤ۔ یہاں آپ کی کیا ضرورت ہے۔‘‘
یہاں آپ کی کیا ضرورت ہے۔ یہ جملہ بار بار اس کے دل و دماغ پروار کرتا رہا۔ گاڑی تیزی سے گھر کی طرف جا رہی تھی۔ پورے راستے وہ خاموش رہا اور ڈرائیور بھی خاموشی سے گاڑی چلاتا رہا۔ گاڑی جب دروازے پر رُکی تو ہارن کی آواز سن کر اس کی بیوی اس کے استقبال کے لیے پہلی بار دروازے پر آ گئی، یہ سوچ کر کہ آج اس کا شوہر گھر آیا ہے کوئی افسر نہیں۔ وہ گاڑی کے دروازے کی طرف بڑھی۔ ڈرائیور نے دروازہ کھولا۔ لیکن وہ اترا نہیں۔ بیوی نے بڑھ کر اُسے اتارنا چاہا، اور جیسے ہی اس نے اپنے شوہر کو اتارنے کے لیے سہارا دیا، اس کا بے جان جسم ایک طرف کو لڑھک گیا۔
٭٭٭
جب قانون موجود نہ ہو۔۔۔۔ ایک حیرت انگیز سچا واقعہ
یہ 1 نومبر 1955 کی بات ہے کہ جان گلبرٹ گراہم نامی ایک امریکی شہری کہ جس کا اس کی...