ادھیڑ عمر کا گورکن پیٹ پکڑے ہنسے جا رہا تھا۔ جب بھی ان دو مخصوص قبروں کے عزیز و اقارب فاتحہ پڑھنے آتے، اس کا یہی حال ہوتا۔ دوسرے نسبتاً کم عمر گورکن نے اسے حیرت سے دیکھا لیکن یہ عقدہ نہ پہلے کھلا تھا نہ آج یہ معمہ حل ہوتا نظر آتا تھا۔
‘‘کیا ہو گیا اتنا کیوں ہنس رہے ہو، مجھے بھی بتاؤ؟‘‘ وہ پوچھ ہی بیٹھا
‘‘ تو نہیں سمجھے گا، نہیں سمجھے گا، رہنے دے ‘‘
‘‘ ارے بتا ؤ تو سہی، میں بھی تو مزے لوں۔ ہمیشہ ان ہی دو قبروں کے عزیزوں کے آنے پر تم کیوں اتنا ہنستے ہو؟‘‘
ادھیڑ عمر کے گورکن نے فقط نفی میں سر ہلا دیا۔ زیادہ ہنسنے سے اس کی آنکھ میں آنسو آ گئے تھے، انہیں پونچھتا جاتا اور دائیں بائیں نفی میں سر ہلا جاتا۔ اس ہنسی کے دورے میں بولنا شاید اس کے لئے ممکن بھی نہ تھا۔ نسبتاً کم عمر گورکن کو کئی موسموں کا انتظار کرنا پڑا کہ ان قبروں کا راز بہہ کر باہر آ جائے۔۔
” کلمہ پڑھتے رہئیے، کلمہ پڑھتے رہئیے، ذرا بلند آواز سے، شاباش”۔ ادھیڑ عمر کے ایک صاحب، چہرے پر خشخشی داڑھی، سر پر رو مال کو پشت کی جانب سے گرہ لگا کر باندھے ہوئے، جنازے کے آگے آگے چل رہے تھے۔ کبھی کبھی آہستہ ہو کر دانستہ جنازے کے پیچھے ہو جاتے کہ پیچھے آنے والے افراد کی ایمان کی تازگی بڑھا سکیں۔ خود بلند آواز سے کلمہ پڑھتے اور دائیں، بائیں لوگوں کو ٹھہوکا دیتے کہ کلمہ پڑھتے رہئیے، کلمہ پڑھتے رہئیے۔ قبرستان کیوں کہ مرحوم کے گھر سے میلوں دور تھا، اس لئے پہلے تو اسے میت گاڑی میں قبرستان کے قریب پہنچایا گیا۔ پھر یہاں سے مرحوم کے دوست، رشتہ دار اور لواحقین آخری چوتھائی میل کا فاصلہ شانہ بہ شانہ طے کروا رہے تھے۔
جنازے میں تین قسم کے افراد شامل تھے۔ سب سے آگے آگے وہ گروہ تھا جو مرحوم کے قریبی عزیزوں پر مشتمل تھا۔ ان کے چہروں پر غم کے آثار ہویدا تھے۔ اکثر نے سروں پر رو مال باندھ رکھے تھے، زیادہ تر کاندھا دینے کا فریضہ بھی یہی لوگ انجام دے رہے تھے۔ دو نوجوان جو غم سے ذرا زیادہ ہی نڈھال نظر آ رہے تھے انہیں لوگوں نے کمر میں ہاتھ ڈال کر سہارا دیا ہوا تھا۔ ان سب کے لبوں پر کلمہ تھا، چہروں پر غم و اندوہ کی تصویر اور قدم ایک مقصدیت کے ساتھ تیزی سے قبرستان کی جانب اٹھ رہے تھے۔ دوسرا گروہ ان افراد کے پیچھے تھا۔ اس گروہ کے افراد ہلکی آواز میں آپس میں باتیں کر رہے تھے۔ ان کے سروں پر رو مال تھے نہ چہروں پر غم کے بادل سایہ دار تھے۔ لیکن چہروں پر مسکراہٹ یا ہنسی ٹھٹھا بھی نہیں تھا۔ یہ شاید جنازے میں ایک فرض کی خاطر شامل تھے، یا لاشعور میں یہ خوف جاگزیں تھا کہ عدم شرکت سے ان کے یا ان کے لواحقین کے جنازوں پر کون آئے گا۔ عموماً یہ مرحوم کے نزدیکی ہمسایوں اور دور دراز کے رشتہ داروں پر مشتمل گروہ تھا۔ جنازے میں شامل تیسرے گروہ کے افراد سب سے آخر میں چل رہے تھے۔ ان شرکاء کے درمیان سے کچھ دبی دبی ہنسی کی آوازیں بھی آ جاتیں۔ کچھ کے ہاتھوں میں سگریٹ بھی دبی تھی۔ اکثر اپنی باتوں کے جوش میں جب یہ بھول جاتے کہ وہ جنازے کے ساتھ آئے ہیں تو ان کے اور جنازے کے درمیان ایک فاصلہ پیدا ہو جاتا۔ پھر کسی کے توجہ لانے پر اچانک سنجیدہ شکل بنائے تیز تیز قدموں سے باقی جنازے کو جا لیتے۔ کلمے یا درود کا اس گروہ میں کوئی سوال ہی نہیں تھا۔
یہ قبرستان بھی شہر کے دوسرے قبرستانوں کی مانند تھا۔ کوئی کمر بھر اونچی چہار دیواری قبرستان کا احاطہ کئے ہوئے تھی۔ ہزار کوشش اور احتیاط کے باوجود قبروں کی ترتیب بے ترتیب سی ہو گئی تھی۔ جا بجا خود رو جھاڑیاں اگ آئی تھیں۔ کچھ قبریں پکی سیمنٹ کی تھیں، ان کے سرہانے لگے کتبے اس قبر کے مکین کے نام و نسب کی گواہی دے رہے تھے، کچھ کچی قبریں ایسی دب گئی تھیں کہ زمین پر محض ایک ابھار سا محسوس ہوتا تھا۔ چلنے والا تذبذب میں رہتا کہ اسے پھلانگ کر جائے یا یہ ایک سادہ مٹی کا تودہ ہے اور اس پر سے چل کر گزرا جا سکتا ہے۔ کچھ کچی قبروں میں باقاعدہ سوراخ تھے۔ گزرنے والے ان سوراخوں سے ایسے نظر چرا کر گزرتے کہ کہیں اندر کے مکین پر نظر پڑ گئی تو وہ اپنی حالتِ زار کا شکوہ نہ کر بیٹھے۔ غرض جس شہر میں زندوں کی رہائش ایک معجزہ تھی وہاں مردوں کی رکھوالی کون کرتا۔ قبرستان کا حال ایسا آئینہ ہے کہ جس میں شہر کے زندوں کا عکس دیکھا جا سکتا ہے۔
جنازہ ایک تازہ کھدی ہوئی قبر کے نزدیک پہنچ کر رک گیا۔ دو گورکن کدال اور بیلچے سے اس کے مستطیل کو آخری شکل دے رہے تھے۔ چھ فٹ لمبی اور تین فٹ چوڑی یہ خندق اب مردے کی آخری پناہ گاہ بننے والی تھی۔ جنازے کو قبلہ رخ قبر کے نزدیک رکھ کر، قریبی اعزاء اور گروہ نمبر ایک کے غمخوار قبر کا عمومی جائزہ لینے لگے۔ گروہ نمبر دو کے افراد غیر متعلق سے آس پاس کی قبروں پر نصب کتبے پڑھنے لگے۔ جبکہ گروہ نمبر تین کے کچھ افراد کہیں پکی سیمنٹ کی قبروں پر بیٹھ کر سستانے لگے تو کچھ مختلف ٹولیوں میں بٹ کر سیاست، معیشت،
ٹی وی ڈرامے یا باہمی دلچسپی کے کسی اور عنوان پر بات کرنے لگے۔ فضا میں ایک ایسا ماحول تھا جس میں سب کو پتہ تھا کہ اگلے اقدامات کیا ہونے ہیں، سب منتظر تھے کہ یہ انجام کو پہنچیں تو یہ باب بند ہو سکے۔ ایک صاحب جو کافی دیر سے دوسری قبروں پر نصب کتبے پڑھ رہے تھے، اچانک مڑے اور خشخشی داڑھی والے ادھیڑ عمر کے صاحب کے پاس آ کر بولے:
” جناب یہاں اطراف میں تو سب اہلِ سنت افراد کی قبریں ہیں ”
یہ بات گو انہوں نے سرگوشی میں ہی کہی تھی، لیکن شادی اور غم کے موقعوں پر سرگوشیوں کو گویا بھونپو لگ جاتے ہیں۔ تماش بین مسئلے کوجیسے سنتے نہیں بلکہ سونگھ لیتے ہیں۔ اطراف میں کھڑے کچھ افراد دوسری قبروں کے کتبوں کی سمت لپکے، باقی مجمع اب جیسے سانس روکے ان کے فیصلے کا منتظر ہو گیا۔ کئی چہرے تعجب سجائے واپس لوٹ آئے۔
” کہہ تو یہ صاحب صحیح رہے ہیں، آس پاس تو واقعی سب سنیوں کی قبریں ہیں ”
“ارے تو کیا ہو گیا، اب یہاں دفنانے میں کیا تفریق کرنا”
“ارے واہ کچھ ہوا ہی نہیں۔ آپ کیسی عجیب باتیں کر رہے ہیں۔ مرحوم تمام عمر خادمِ اہلِ بیت رہے، اور اب مرنے کے بعد دشمنانِ اہل بیت کے درمیان دفنائے جائیں، کیسی احمقانہ بات کر رہے ہیں آپ”
“تو اب کیا ہو سکتا ہے، اب تو قبر بھی کھد گئی، جنازہ تیار ہے ”
“ایسے دفنانے سے نہ دفنانا بہتر ہے۔ آپ عجیب باتیں کر رہے ہیں۔ جنابِ امیر ان کی شفاعت کو آئیں گے تو اطراف میں یہ ماحول ہو گا۔ میرے چچا ہوتے تو میں کبھی نہ دفناتا” ادھیڑ عمر کے خشخشی داڑھی والے صاحب نے انتہائی قطعیت سے گویا فیصلہ صادر کر دیا،
” بات تو صحیح ہے لیکن یہ سب اتنا اچانک اور غیر متوقع ہوا کہ ہماری تو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہی گویا ختم ہو گئی۔ ابھی کل تک بھلے چنگے تھے۔ تین میل روزانہ چہل قدمی کر تے تھے۔ آج بس سینے میں اچانک ایسا درد اٹھا کہ منٹوں میں مٹی ہو گئے۔ مجھے تو ابھی تک یقین نہیں آ رہا۔ ایسے میں آپ ہی لوگ سوچ لیتے کہ کہاں دفنانا ہے۔ گھر والے تو غم سے نڈھال تھے۔ طویل بیماری ہو تو موت متوقع ہوتی ہے۔ ہر باریکی سوچنے کا وقت مل جاتا ہے۔ اچانک موت اپنے ساتھ اتنی ناگہانی مصیبتیں لاتی ہے کہ سنبھلتے سنبھلتے وقت لگتا ہے۔ مرحوم کی بیوہ تو ابھی تک پچھاڑیں کھا رہی تھی، دونوں بیٹوں کا بھی غم سے برا حال ہے، یہ سب تفصیل سوچے تو کون؟”
“ارے میاں اسی قبرستان کے ایک حصے میں جعفری صاحب نے پورا چار ایکڑ کا پلاٹ مومنین کے لئے وقف کر دیا ہے۔ اللہ انہیں جزا دے اور کربلائے معلیٰ میں دفن ہونے کی توفیق عطا کرے۔ آپ وہاں تازہ قبر کھدوائیے ”
اور اس دوسری قبر کا کیا کریں۔ اب یہ گورکن فوراً دوسری قبر تو کھودیں گے نہیں ؟ یہ سوال حاضرین سے زیادہ گورکنوں کے کی سمت اچھالا گیا تھا۔
ارے بھاڑ میں گئی یہ قبر۔ اس کے وارث تو اکثریت میں ہیں جلد ہی کوئی نہ کوئی دعویدار آ جائے گا” انہوں نے معنی خیز انداز میں یہ بات کچھ ایسے کہی کہ چند لوگ ہنس پڑے۔ کیونکہ اس میں دشمنانِ اہلِ بیت کی تذلیل کا پہلو نکلتا تھا لہذا کسی نے برا نہیں منایا۔
“کھودیں گے کیسے نہیں۔ نہیں کھودیں گے تو یہی قبر ان کے کام آئے گی” وہی صاحب آستینیں چڑھا کر بولے۔
دور کھڑے دوسرے اور تیسرے گروہ کے لوگ اب نزدیک آ چکے تھے۔ اس دلچسپ لیکن اہم مذہبی بحث میں سب اپنی اپنی رائے دے رہے تھے۔ مرحوم کے لواحقین کی اکثریت اب اس بات پر مصر تھی کہ انہیں اس قبر میں دفنا کر ان کی عاقبت خراب کرنے کا خطرہ مول نہیں لیا جا سکتا۔ گورکن کسی طرح بھی دوسری قبر کھودنے پر تیار نہیں تھے۔ مرحوم کے قرابتداروں کے چہرے اب غصے اور اشتعال سے تمتما رہے تھے۔ اس خوف سے ہی سب پر لرزہ طاری تھا کہ خدا نخواستہ غلطی سے یہاں دفن ہو جاتے تو نجانے کیسے عذاب میں گرفتار رہتے۔ قریب تھا کہ گورکن تشدد کا شکار ہوتے کہ اچانک دور سے تین افراد آتے نظر آئے۔ ان کے چہروں پر حزن و ملال اور سروں پر رو مال بندھے تھے۔
“ارے میاں گورکن تم یہاں ہو اور وہاں ابا میاں کا جنازہ تیار ہے۔ تمھیں تو اب سے ڈیڑھ گھنٹے پہلے فارغ ہو کر وہاں آ جانا چاہئیے تھا۔ اور یہ کیا غضب کہ تم نے ان کی قبر رافضیوں کے ٹکڑے میں کھود دی۔ ارے کم بخت تمھیں کیا معلوم کہ والد صاحب ناموسِ صحابہ پر جان دیتے تھے۔ اور اب دفنائے جائیں ان بے دینوں کے درمیان۔ حالانکہ تمھیں بتا بھی دیا تھا کہ پشتوں سے دیو بندی ہیں ”
کیا مطلب ہے آپ کا، اور یہ بے دین کس کو کہہ رہے ہیں، پہلے جنازے کے شرکاء میں سے ایک صاحب گرجے ۔
“صاحب آپ لوگ ہم کو معاف کر دیں۔ غلطی ہو گئی۔ اب آپ ایسا کریں کہ قبریں بدل لیں۔ یہ لوگ آپ کی قبر لے لیں اور آپ اپنا مردہ ان کی قبر میں دفنا دیں۔ جو قبر دیوبندی کے لئے کھدی تھی اس میں ایک مومن دفن ہو جائے تو شاید بچت کا ایک اضافی پہلو نکل آئے ”
شدتِ غم میں لوگ ایسے نڈھال تھے کہ گورکن کی بات سمجھ نہیں سکے۔
” غلطی ہو گئی۔ پاجی۔ ابھی دوں یہ الٹا ہاتھ گھما کر ” خشخشی داڑھی والے ادھیڑ عمر والے صاحب نے نسبتاً عمر رسیدہ گورکن کا گریبان پکڑ کر اسے جھنجھوڑا۔
” نامعقول میں اپنے والد کے غم میں نڈھال نہ ہوتا تو اس وقت تیری خیریت نہیں تھی۔ دوسرے جنازے میں سے آنے والے تین آدمیوں میں سے ایک نے دوسرے گورکن کے ایک دھموکا جڑ دیا۔
“چلو بھئی چلو، قبرستان کا احترام کرو۔ یہ جنازہ اٹھا کر وہاں لے چلو۔ یہ گورکن کم بخت آگے آگے چلے تو راستہ سمجھ میں آئے۔ کلمہ پڑھتے رہئے صاحب، کلمہ پڑھتے رہئے۔ ذرا آہستہ اٹھاؤ میاں، میت کو دھکہ نہ لگے۔ لا الہ الا اللہ محمد ارسول اللہ، کلمہ پڑھتے رہئے صاحب”
جنازہ جعفری صاحب کے پلاٹ پر پہنچا اور وہاں کھدی تازہ قبر کے متوازی قبلہ رخ پر رکھ دیا گیا۔ دوسرے جنازہ والوں نے اپنا مردہ اٹھایا اور پہلی قبر کی طرف چل پڑے۔
” چلو میاں جلدی کرو پہلے ہی بہت دیر ہو چکی ہے۔ عصر سے پہلے پہلے اس کی امانت اس کے حوالے کر دو۔ ہاں بھئی آپ ہی اتر جائیں اور لیٹ کر دیکھ لیں، اللہ سب کو قبر کے عذاب سے بچائے۔ ٹھیک ہے قبر کی لمبائی چوڑائی مناسب ہے، لگتا ان کا مردہ بھی ہمارے جیسا ہی تھا۔ ہاں میاں منہ قبلے رخ کر دیجئیے، شاباش کفن کے بند کھول دیں، اللہ مغفرت کرے، ہٹو بیٹا اب علامہ صاحب تلقین پڑھیں گے ”
ارے بھئی وہ آبِ زم زم کس کے پاس ہے، میاں کر چکو چھڑکا ؤ، کیا واپس لے جانے کا ارادہ ہے۔ سب صاحبان مٹی دے دیں، باری باری بھیا، گر ہی مت پڑنا، جی جی ایسے مٹی اٹھائیں، ایسے نہیں، ایسے، ہاں مٹھی بھر کے اٹھاؤ اور کلمہ پڑھ کر ڈال دو”۔ ایک ہی آواز مستقل اس عمل کے مختلف مراحل کو طے کرا رہی تھی۔
‘‘جاؤ بس مٹی میں مٹی مل گئی‘‘ ، مردہ دفنا دیا گیا۔ قبر پاٹ کر گورکن دوسرے جنازے کو دفنانے چل دئے۔ لوگوں نے تازہ قبر میں پانچوں انگلیاں گاڑ کر درود بھیجنے شروع کر دئیے۔
” نہ بیٹا نہ قبر پر پھول نہ چڑھاؤ، ہمارے ہاں پھول نہیں چڑھاتے۔ ہاں یہ تینوں اگر بتیاں سلگا کر سرہانے گاڑ دو، دونوں جنازوں کے لواحقین اپنا اپنا مردہ دفنا کر لوٹ گئے۔ قبرستان کی وہ فضا جس میں ایک وقتی بھونچال آ گیا تھا، ان دو مکینوں کے اضافے کے بعد پھر پر سکون ہو گئی۔ نئے مکینوں کے استقبال میں خاموشی نے اپنی چادر بچھا دی۔ سورج بھی جب زمین کو تکتے تکتے تھک گیا اور اس کی آنکھوں میں نیند اترنے لگی تو وہ بھی اپنی کھولی میں چھپ گیا اور رات کی سیاہی نے زندوں، مردوں دونوں کے عیب چھپا لئے۔ چند دنوں کے بعد دونوں مکینوں کی قبروں پر ان کے ناموں کی تختی لگ گئی۔ ایک ہفتے تک تواتر سے دونوں کی قبروں پر روزانہ کوئی نہ کوئی آتا رہا۔ دوسرے ہفتے یہ آمد و رفت نسبتاً کم ہو گئی اور تیسرے ہفتے تک یہ قبریں بھی سنسان ہو چکی تھیں۔ ہفتے مہینوں میں بدل گئے، وقت کا پہیہ بھلا کس کے لئے رکا ہے۔ جون کی سخت گرمی اب جولائی کی آمد کے ساتھ اپنی شدت کھو رہی تھی۔ کسی کسی دن بوندیں پڑ جاتیں تو موسم ذرا ہلکا ہو جاتا۔ آج صبح سے ہی آسمان سیاہ بادلوں سںے ڈھکا ہوا تھا۔ گرمی کے مارے اور ستائے لوگ بارش کی تمنا میں اس چرخ کہن کی جانب حسرت سے دیکھتے جو اپنے دامن میں کتنے ہی ساون بھادوں چھپائے لیٹا تھا۔ بارش کا امکان نظر آیا تو تمنا اور بڑھ گئی۔ یہ لوگوں کی تمناؤں کا اثر تھا یا کچھ اور، یہ تو نہیں معلوم لیکن اس روز ایسی جھڑی لگی کہ رکنے کا نام نہیں لیا۔ بجلی کی چمک کے ساتھ بادلوں کی گرج سنائی دی تو لونڈے لپاڑے سڑکوں پر نکل آئے۔ مگر اس پرانے اور فرسودہ شہر میں جہاں نکاسئی آب کا مناسب نظام بھی نہ تھا یہ رحمت جلد ہی زحمت میں بدل گئی۔ شہر کی کم ظرف زمین کا دم پھول گیا اور پانی ہر طرف کھڑا ہو گیا۔ مینہ تھا کہ رکنے کا نام نہ لیتا تھا، اب پانی گھٹنوں گھٹنوں کھڑا ہو چکا تھا۔ قبرستان کی زبوں حالی دیدنی تھی۔ پکی قبریں تو کھڑی رہ گئی تھیں لیکن اکثر کچی قبریں دھنس گئی تھیں۔ کئی قبروں سے ہڈیاں بہہ کر باہر نکل آئی تھیں۔ چند ماہ پہلے بننے والی دونوں قبریں بھی کچی ہونے کے سبب اس طوفانِ باد و باراں کو نہ سہہ سکیں، دونوں اب پانی بھرے گڑھوں کی مانند تھیں، جن کا سرمایہ ہڈیوں کی صورت پانی کی سطح پر تیر رہا تھا۔ دونوں گورکن حتی المقدور ہڈیوں کو جمع کر رہے تھے:
” احمق یہ تو نے ران کی تین ہڈیاں ایک ساتھ رکھ دیں یہ تین ٹانگوں والا بندہ تھا کیا؟” ذرا عمر رسیدہ اور زیادہ تجربہ کار گورکن نے اپنے ساتھی گورکن کو ڈانٹا۔
چاچا تمھیں بہت پہچان ہے کہ کون سی ہڈی کہاں کی ہے ” نوجوان گورکن نے توصیفی لہجے میں کہا۔
“ابے اب گورکن ہڈیاں بھی نہ پہچانے تو پھر درزی کا کام کر لے۔ منکر نکیر بھی مشکل میں پڑ جائیں تو مجھ سے آ کر پوچھ لیتے ہیں ” تجربہ کار گورکن نے ہنس کر کہا۔
‘‘ چا چا صحیح صحیح بتا۔ ایک بار مردہ دفنا دیا تو پھر ہڈیوں کی کیا پہچان؟” نوجوان گورکن کے لہجے میں شک بھی تھا اور تجسس بھی۔
“وہ میڈیکل کالج کے لونڈے تیرے پاس آئیں گے تو تجھے بھی پہچان ہو ہی جائے گی، ذرا تسلی رکھ۔ وہ کھوپڑی مجھے پکڑا دے، شاباش”
” چلو اب انہیں ان کی قبروں میں لٹا دیں، آخر ہم نے بھی ایک دن لیٹنا ہے۔ لیکن چاچا کس کی قبر کون سی ہے اب یہ ہمیں کیا پتہ”
“خود ہی تو کہہ رہا ہے ہمیں کیا پتہ۔ کوئی کام تو اللہ کے خود کرنے کے لئے بھی چھوڑ دے۔ تو کیا بنانے والا نہیں پہچانے گا کہ یہ دھڑ جن ٹانگوں پر کھڑا ہے وہ اسی کا ہے یا غیر کا۔ کسی دھڑ پر لگی کھوپڑی اگر بدل جائے تو بھی جس نے بنایا ہے وہ تو جان ہی لے گا۔ سب آسانیاں ہم ہی پیدا کریں گے کیا، جہاں جہاں سمجھ آئے وہیں لٹا کر مٹی ڈال دے ”
“ہاں چاچا لیکن تو نے یہ سب بدل دیا تو حساب کس کا ہو گا۔ سر کا یا دھڑ کا”
“میری کھوپڑی تو کہتی ہے کہ سارا فتور سر کا ہے۔ نیچے کیا ہو رہا ہے، سب کھوپڑی سے ہی تو شروع ہوتا ہے”.
نوجوان گورکن اچانک کسی خیال سے ہنس پڑا تو بڑے گورکن نے سوالیہ انداز میں بھنویں اچکائیں:
” چاچا وہ پچھلے ماہ جو دو مردے دفنائے تھے، ان کے جنازے کے ساتھ آنے والے بہت لڑ رہے تھے کہ یہاں نہیں دفنانا ہے۔ اب کیا معلوم کس کی ران کس کی کھوپڑی کے ساتھ دفنا دی جائے ؟”
” ابے ان کا تو میں نے پہلی رات ہی انتظام کر دیا تھا” تجربہ کار گورکن اطمینان سے بولا۔
‘‘انتظام کر دیا تھا، تو مجھ سے کچھ چھپا رہا ہے‘‘ نوجوان گورکن اشتیاق میں کچھ نزدیک کھسک آیا۔
” میں نے تو اسی رات قبریں کھود کر دونوں کے مردے بدل دئیے تھے ” تجربہ کار گورکن کے لہجے میں استہزا تھا۔
” تو نے مردے بدل دئیے، وہ کیوں ؟”
” ابے میں نہ کرتا تو یہ بارش کر دیتی۔ پر وہ جو میرا گریبان پکڑ رہے تھے اور ایک نے تو تیرے اوپر ہاتھ بھی اٹھایا تھا، انہوں نے مجھے اتنا تپا دیا تھا کہ میں نے سوچا بارش کا انتظار کون کرے۔ وہ اپنے غم کا ناجائز فائدہ اٹھا رہے تھے۔ بس میں نے ایسا انتظام کر دیا کہ دونوں ایک دوسرے کے مردے کو دعائیں دیتے رہے، ایک دوسرے کے مردے کی بخشش کے وظیفے پر وظیفے پڑھتے رہے۔ باہر ایک دوسرے کو مار دیتے ہیں، مسجد میں گھس کر مار دیتے ہیں، پھر یہاں آ کر ان کی مغفرت کے لئے فاتحہ پڑھ رہے ہیں۔۔ ” تجربہ کار گورکن کھلکھلا کر ہنس پڑا۔
٭٭٭
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...