فلیٹ کا دروازہ کھول کر اندر آیا تو لائٹ جل رہی تھیں اکثر کبھی کبھی آنے میں دیر ہوجاتی تو مہر انتظار کرتے ہوئے ہی سو جاتی اپنے ساتھ لایا ہُوا سامان کچن میں رکھا اور پھر فریج چیک کی ہر بار کی طرح آج بھی کھانا کھائے بغیر ہی سوگی تھی سلن بنا کر رکھا ہوا تھا اُسے نکال کر گرم کیا پھر ایک ٹرے میں پانی وغیرہ رکھ کر کمرے کی طرف گیا اندازہ کے عین مطابق ون سیٹر صوفے پر بیٹھی ہوئی سو رہی تھی دوپٹے سے بے نیاز بال آدھے آگے کی جانب اور آدھے اُسکی کی کمر کو ڈنپے ہوئے تھے گندمی رنگ بلب کی روشنی میں دھک رہا تھا
دامل کی نظریں خود با خود مہر کے پاؤں کی گئیں یہاں ابھی بھی پٹی ماجود تھی البتہ زخم اب بھر چکا تھا لیکن احتیاطی تدابیر کے تحت دآمل نے کبھی پٹی اُترنے کی اجازت نہیں دی تھی
روز اُسکے کسی نئے زخم سے متعارف ہوتا تھا وہ زخم جو اُس نازک جان نے اپنے آپ پر سہے تھے لیکن اُنکے نشان اُسکے گداز جسم پر ماجود تھے
ٹرے کو ٹیبل پر رکھ کر صوفے کی تھائی پر آکر بیٹھ گیا اُسکے خوبصورت نقش نین کو اپنے ذہن میں حفظ کر رہا تھا
ہاتھ بڑھا کر اُسکے سیاہ ملائم بال پیچھے کیا کمرے میں ہیٹر چلنے کی وجہ سے اتنی سردی میں بھی آرام دہ حالت میں سو رہی تھی
ہفتے میں دو یا تین بار ہی آتا تھا لیکن اکثر اُسے سوتا ہوا ہی پایا تھا شاید ساری زندگی سکون کی نیند نہیں آئی تھی تبھی سکون میں رہتی تھی
بال پیچھے کرتے ہوئے اُسکے ہاتھ اُسکے دہکتے گالوں پر لگے تو باہر سے آنے کی وجہ سے سرد لمس محسوس کرتے ہی مہر نے پٹ سے آنکھیں کھولیں
"دامل آپ آگے”
زندگی سے بھرپور مسکراہٹ اُسکے چہرے پر آئی ساتھ ہی اُسے اتنا قریب ہو کر بیٹھنے پر چھینپ کر پیچھے ہوئی
"سوتی رہو ابھی میری آنکھیں ابھی اور دیدار کرنا چاہتی ہیں اتنے خوبصورت چہرے کا”
اُسکے گرد اپنی باہوں کی بھاڑ کھینچ کر جذبات سے بھر پور لہجے میں بولا
وہ انسان ہر پل ہر لمحے اُسے اپنی ہی نظروں میں معتبر کرتا تھا اب تو اُسے سچ میں اپنا آپ خوبصورت ترین لگنے لگ گیا تھا
"م۔۔۔۔۔۔میں کھانا لاتی ہوں”
اُسکی نظروں سے پزل ہوکر کر بھگانے کا ارادہ کیا
"میری بھوک تو ختم ہوگئی”
نظریں مسلسل مہر کے چہرے کا طواف کر رہیں تھیں جس کی وجہ سے اُسکی پلکوں کے جھلر نیچے گرے ہوئے تھے اور ساتھ میں اُسکا انچ دیتا لہجہ مہر اپنے دونوں ہاتھوں کو مسلسل مسل رہی تھی اب تو اُسکے حصار کی وجہ سے رائے فرار بھی ختم ہو چکی تھی
"د…….دامل۔۔۔۔۔آپ۔۔۔۔۔نہیں ۔۔۔۔وہ۔میں۔۔۔۔۔۔۔ہاں ۔۔۔۔۔۔آپ۔۔۔۔۔کو۔۔۔۔مجھے واش روم جانا ہے”
بڑی ہی مشکل سے کوئی بہانہ بنا پائی تھی لیکن زبان کی لڑکھڑاہٹ جھوٹ ہونے کا واضح ثبوت تھی
"نہیں مجھے تو تمہارے ساتھ نہیں جانا لڑکی کی پرائویسی ہوتی ہے اب میں اتنا بھی بے شرم نہیں ہوں”
چہرے کے تاثرات بے حد سنجیدہ جب کے آنکھوں میں مستی ناچ رہی تھی جبکہ اُسکے گرد حصار اور مضبوط ہو چکا تھا
"دامل”
شرم و حیاء سے چہرے پر رنگوں کی بھرمار تھی کانوں کے لو تک سُرخ ہوچکے تھے پلکوں کے جھالر ابھی بھی گرے ہوئے تھے
"جی جانِ دامل ”
اُسکا ہاتھ اپنے لبوں کو لگا کر بولا جس کی وجہ سے کمزور جان اور خود میں سمٹ گئی
"میں رو دونگی”
آخر میں انتہائی بچوں والی دھمکی دی جبکہ اُسکی کی قربت میں آنکھیں سچ میں تھوڑی نم ہورہیں تھی جو بھی تھا دھمکی کار گر ثابت ہوئی اور اُسے رہائی کا پیمانہ مل گیا ایک سیکنڈ میں اُٹھ کر واش روم میں چلی گئی دھڑکنوں میں انتشار کی وجہ سے دروازہ اتنی زور سے لگایا کے باہر بیٹھے دامل کو لگا ابھی دروازہ زمین کی زینت بن جائے گا جبکہ چہرے پر مسکراہٹ پہلے سے بھی زیادہ گہری ہوئی
اندر دروازہ کے ساتھ لگی کھڑی مہر اپنی سانسوں کو بحال کرنے کی کوشش کر رہی تھی ایک ہاتھ دل کے مقام پر رکھا ہوا تھا جبکہ دوسرے سے دروازہ کا ہینڈل پکڑ رکھا تھا
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
آنکھ کھلتے ہی خود کو واپس بازل شاہ کے کمرے میں پایا لیکن یہ کمرہ وہ والا نہیں تھا اِس کمرے میں جا بجا بازل شاہ کی اور نور کی تصویریں لگی ہوئیں تھی یہ کمرہ بلیک اور وائٹ کی کلر سکیم سے متعین تھا ہر چیز اُس کے حساب سے رکھی گئی تھی کمرے میں پڑی چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی قیمت میں اپنا منہ بولتا ثبوت تھی وائٹ رنگ کے کارٹن جو سردی کی وجہ سے گرے ہوئے تھے اور کمرے میں نیم اندھیرا تھا ابھی سر اٹھا کر دیکھتی لیکن اپنے سینے پر کافی زیادہ بھوج محسوس ہوا تو آنکھوں میں خون اُترا بازل شاہ کی اتنی ہمت کے اُسے جسم کو ہاتھ لگے ابھی یہی سوچتی اٹھنے لگی تھی لیکن آنکھوں میں حیرت کے دریا اُتر آئے کیوں کہ نور دونوں ہاتھوں سے اسکو تھامے اُسکے سینے پر سر رکھ کر سو رہی تھی
کتنا مکمل سا لگا تھا اُسے یہ سب کوئی اُسکی ذات سے تحفظ چاه رہا تھا
"مما”
پیاری سی آواز اُسکے کانوں میں پڑی شاید اُسکے جسم میں ہلچل محسوس کرکے نور اُٹھ گئی تھی اور تھوڑا اوپر ہوکر اندھیرے میں اُسکے چہرے پر ہاتھ پھیر کر اُسے محسوس کرنا چاہ رہی تھی
ممتا کے احساس سے آری معصوم بچی شاید ہر اُسکی عمر کی لڑکی کو ماما ہی بولتی تھی
مایا کے جسم میں تو جیسے کسی نے نئی روح پھونک دی ہو اُسکے جذبات کو نیا رُخ مل گیا ہو جیسے ایک سیکنڈ میں اُٹھی اور نور کو اپنے سینے میں بھینچ لیا
"مما کی جان”
اُسکے چہرے کو چومتی ہوئی بولی وہ خود ماں کے احساس کے بغیر بڑی ہوئی تھی وہ جانتی تھی کتنی بڑی محرومی ہے اور شاید کسی کو اِس محرومی میں جاتا نہیں دیکھ سکتی تھی
جبکہ نور پہلی بار کسی کے اتنا قریب گئی تھی اور وہ بھی اتنے پیار کرنے والے کے جواباً اُسنے بھی چھوٹی چھوٹی سی پپیاں اُسکے چہرے پر دے ڈالیں سے
"Call me mom”
دل میں آئی بات کو جلدی سے لفظوں میں رنگا شاید بھول رہی تھی کے دو سال کی بچی ابھی شاید یہ دوہرے
"Mom”
اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے مایا کے بال کھنچتی ہوئی کیوٹ سا منہ بنا کر بولی گویا احسان کیا ہو
جس کے بدلے میں مایا نے اسے پھر اپنے سینے میں بھینچ لیا کہاں یاد تھا اُسے کے اُسکا باپ دشمن ہے یہ ایک زبردستی کے رشتے میں بندھی ہوئی ہے
بس اُسے تو جیسے سارے جہاں کی خوشیاں مل گیں تھی اُسکے ذریعے جس کا ابھی نام بھی معلوم نہیں تھا
ایک ہاتھ سے لائٹ آن کی جبکہ دوسرا ہاتھ نور کے منہ میں تھا جسے کو کھانے کی کوشش کر رہی تھی بال بلکل بکھرے ہوئے تھے دوپٹے کی تو ہوش ہی نہیں تھی
جبکہ نور روشنی میں اُسکا منہ دیکھ کر ایک مرتبہ جوش سے بیڈ پر کھڑی ہوگی اور چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے تالیاں بجانے لگی معصوم ذہن میں ابھی بھی اُسکا چہرہ نقش تھا یہ اُسکے پیار بھرے لمس نہیں بولی تھی
اور جوش میں آکر ایک مرتبہ پھر مایا کے بال اُسکی آہنی گرفت میں آچکے تھے
اتنے میں کمرے کا دروازہ کھولا اور بیا اندر آئی
اُسکی تو آنکھیں کھلی ہی رہ گئیں نور نے تو واپس پلٹ کر بیا کی طرف دیکھا بھی نہیں
جبکہ بیا کو اپنے کیے پر پچتاوا ہُوا وہ تو اسلئے نور کو یہاں چھوڑ کر گئی تھی کے باہر سے کچھ سامان لانا تھا اور یقین تھا کے اُن دونوں کے اٹھنے سے پہلے نور کو واپس لے جائے گی لیکن اب بازل شاہ کے خوف سے ہاتھ پاؤں پھول گئے تھے جس کا حکم تھا کے نور مایا کے سامنے کبھی کسی حال میں نہ جائے اور یہاں دونوں ایک دوسرے میں ایسے مصروف تھیں جیسے کوئی اور دُنیا میں ماجود ہی نہ ہو
"نور”
وہ نور کو پکڑنے کے لئے آگے ہوئیں لیکن نور میڈم بھاگ کر مایا سے چپک گئی
"نو لفٹ کا سین ماجود تھا”
دوسری طرف سے آکر نور کو مضبوط ہاتھوں سے پکڑا تو اپنے چھوٹے چھوٹے ہونٹ نکال کر رونے لگ گی
"میرے پاس رہنے دیں”
مایا نے بوڑھی سی عورت سے اِلتجا کی
"میڈم سر کا حکم نہیں ہے”
نور کو گود میں اٹھائے ہوئے بولی جو اپنے ہاتھ مایا کی طرف کو کرکے رو رہی تھی شاید وہ بھی التجاء ہی کر رہی تھی اُسے پکڑنے کی
"سر کو کون بتائے گا جب اس نے آنا ہوا تو لے جانا”
مخلص مشورہ سے نوازہ دوسری طرف بیا جس سے نور کا رونا برداشت نہیں ہو رہا تھا دوبارہ مُسکراتی نظروں کے ساتھ نور کو بیڈ پر بیٹھا چُکی تھی اور نور کرول کرتے ہوئے اگلے گی سیکنڈ مایا سے جاکر چپک گئی تھی
"خیال رکھنا بیٹا”
پیار سے کہتی باہر کو چلی گیں وہ دونوں ایک دوسرے میں پھر مصروف ہوگئیں
باہر آتے ہی موبائل چنگاڑا تو بیا نے جلدی سے بازل کا نمبر دیکھ کر فون کان کو لگا
"بیا جی مجھے آپ سے یہ امید نہیں تھی اگر ایک اور سیکنڈ نور اُس کےپاس رہی تو میں آپکی عمر کا لحاظہ بھول جاؤں گا”
دوسری طرف سے اتنی گرج ڈار آواز آئی کے بیا کو لگا اُسے کان بند ہوجائیں گے حکم دے کر موبائل بند کرچکا تھا
"میں کیسے بھول گی یہ بازل شاہ ہے ”
اپنے سر پر ہاتھ مارتی دوبارہ اُلٹے قدم روم کی طرف گئی اور دونوکی سنے بغیر نور کو لیے باہر آئی ساتھ ہی باہر سے مایا کا روم لاک کر دیاالبتہ نور کا رونا پورے ولاج میں گونج رہا تھا
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
” لڑکی غائب کیسے ہوسکتی ہے ابھی کل ہی تو اُسے دوبارہ فلیٹ میں دیکھا گیاتھا”
منان مغل اپنے سر پر ہاتھ مارتا ہُوا بولا اُسکا بس نہیں چل رہا تھا کے ساری دُنیا درہم برہم کر دے
"سر اُسکی اسیسٹنٹ بھی نہیں ہے وہاں ”
ایک اوربری خبر اُسکے کانوں میں اندائلی گی
"میں تم سب کو مار دونگا جب وہ فرار ہوئیں تم لوگ کونسا مجرہ دیکھ رہے تھے”
اپنی گن کا نشانہ سامنے کھڑے چار کی طرف بار بار کرتا بولا
"لیکن سر وہ لڑکا زخمی حالت میں اپنے گھر آیا ہے جو پرسو پارٹی پر لڑکی کے ساتھ ماجود تھا”
اُن میں سے ایک بولا نظریں ابھی بھی نیچے ہی تھیں
"تو کس چیز کا انتظار کر رہے ہو جاؤ اُسے شام سے پہلے سامنے لے کر اؤ ورنہ ادھر ہی قبریں بنوا دونگا”
اپنا بسٹل نیچے کرتا ہوا دھاڑا
"سر وہ ایک غریب سا بغیر نوکری کے گلیاں صاف کرنے۔”
ابھی وہ کچھ بولتا ایک زور دار پنچ اُسکے منہ پر مارا
"پہلے ہی بہت نقصان ہوگیا ہے دفع ہوجاؤ اُسے لے کر اؤ”
ایک مرتبہ پھر دھاڑا اور چاروں بوتل کے جن کی طرح وہاں سے غائب ہوگئے
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
جب قانون موجود نہ ہو۔۔۔۔ ایک حیرت انگیز سچا واقعہ
یہ 1 نومبر 1955 کی بات ہے کہ جان گلبرٹ گراہم نامی ایک امریکی شہری کہ جس کا اس کی...