آدم خان ، اَنوار کیفی پے بیٹھا سوچوں میںگم تھا کہ کیا کرے۔ باہر کیسے جائے؟ اَب اِس کا دِل ہر چیز سے اُچاٹ ہوچکا تھا۔اَیسا لگتا تھا کہ ِاس کی منزل ،اِس کا دَانہ پانی پاکستان سے اُٹھ چکا ہے۔ جیسے مرنے وَالے شخص کو مرنے سے کافی پہلے پتہ چل جاتا ہے کہ اُس کی روح قبض کرلی جائے گی ۔اِس طرح اُسے بھی اَیسا محسوس ہورَہا تھا کہ کچھ ہونے وَالا ہے۔
سب سے پہلا کام تھا پاسپورٹ ۔ اِس کا باپ خاقان خان چغتائی خوش بھی تھا اَور پریشان بھی۔ خوش اِس لیئے کہ اِس کا بیٹا اِس کی شادی کی مخالفت کررَہا تھا۔ اِس کے رَاستے کی رکاوٹ خود بخود ہٹ رَہی تھی اَور پریشان اِس لیئے تھا کہ کہیں کوئی مصیبت نہ کھڑی ہوجائے۔
آدم کو پہلی دَفعہ پتا چلا کہ سرکاری کام کیا ہوتے ہیں۔جب اِسے پاسپورٹ بنوانا پڑا۔ بڑے جان جوکھوںکے ساتھ ، رِشوت اَور سفارش سے اِس نے اَپنا پاسپورٹ بنوایا۔حالانکہ یہ اِس کا جائز حق تھا۔ وہ بہت آسان سمجھتا تھا کہ کسی بھی سفارت خانے سے وِیزہ لے کر وہ چلا جائے گا۔لیکن اِس بات کا اِحساس اِسے اُس وَقت ہوا جب اِسے ہر طرف سے مایوسی اُٹھانی پڑی۔ اِن کے پاسپورٹ اَور ملک کی دَوسرے ملکوں کے سامنے کیا اَہمیت ہے ۔اِس کا پتا اِسے اَب چلا تھا۔جن ملکوں میںآمریت ہوتی ہے،اُن کی خارجہ پالیسی تباہ ہوکر رَہ جاتی ہے۔ لوگ اُنہیںدَہشت گرد اَور بنیاد پرست سمجھتے ہیں۔ زیادہ تر اِسے پاکستانیوں کے ہاتھوں ذِلت اُٹھانی پڑی جو کہ پاکستانی سرکار کی طرف سے متعین کیئے جاتے ہیں۔ آخر تھک ہار کر بیٹھ گیا۔
اَفسانوی د ُ نیا سے نکل کر وہ پہلی دَفعہ حقیقی د ُ نیا میں آیا تھا۔ اِس دَوران اَنوار کیفے پے اِس کی ملاقات ڈِیوڈسے ہوئی۔اُس کا اَصل نام تو داؤد تھا لیکن اُس کی تراش خراش اَور باہر جانے کے جنون نے اُسے داؤد سے ڈِیوڈ بنا دِیا تھا۔ اَنوار کیفے میں جب بھی وہ آتا سب اُس کا مذاق اُڑاتے۔ ’’ہاں بھئی جرمنی،فرانس،اِٹلی تمہارا کیا حال ہے‘‘۔ یہ اُس کے نام تھے۔ کیونکہ وہ کافی عرصے سے اِن ملکوں میں جانے کے خواب دِیکھ رَہا تھا۔ اَب جو اُس کی ملاقات آدم سے ہوئی تو بہت خوش ہوا، چلو اَب دَو ہوگئے ہیں۔ اَب شاید کچھ بات بن جائے۔ ڈِیوڈنے اِس کا نام آدم سے اَیڈم رَکھ دِیا تھا۔اِسے وہ تمام ترکیبیں بتائیں، جن سے وِیزہ حاصل کیاجا سکتا تھا۔
۱) بینک سٹیٹمنٹ، جو کسی بھی بینک سے وَاقفیت کی بنیاد پر یا رِشوت دِیکر بنوائی جاسکتی تھی۔
۲)ڈَمی ٹکٹ، جو کسی بھی ٹریول اِیجنٹ سے پانچ فیصد رَقم ادا کرکے بنوائی جاسکتی تھی۔
۳)کسی ہوٹل کی رِیزرویشن
۴)سپونسر لیٹر، یعنی دَعوت نامہ
۵) پیسہ ، ڈَالرز کی صورت میں یا ٹریولرز چیک
دَو طرح کے وِیزے مل سکتے ہیں، وِزٹ یا بزنس یعنی سیر کے لیئے یا کاروبارکے لیئے۔ آدم کاروبار نہیں کرتا تھا۔ سیر کرنے کا شوق تو اِسے تھا لیکن مالی طور پے اِتنا مستحکم نہیں تھا کہ اَپنا یہ
شوق پورا کر سکتا۔اِس نے تمام صورت حال آدم کو بتائی ۔ ڈِیوڈ خود بھی آج تک کسی بھی یورپی ملک میں نہیں گیا تھا۔ ترکی کے رَاستے جاتے ہوئے ، اَبھی ترکی سے یونان جا ہی رَہا تھا کہ پکڑا گیا تھا۔اَب پھر کوششوں میں تھا۔
’’آدم یہاںکچھ نہیںرَکھا۔ ڈِگری کرلو، بزنس کرلو، اَب یہاں لوگ لاکھوں کی نہیں کروڑوں کی باتیں کرتیں ہیں‘‘ ۔
آدم بظاہر تو سب سُن رَہا تھا لیکن وہ اَصل میں کسی اَور سوچ میںگم تھا۔ اَپنی منزل کا تعین نہیں کر پا رَہا تھا، کہ وہ کیا کرے۔داؤد نے پھر سکوت توڑا، ’’اِیک طریقہ ہے ۔ اِس میںپیسے کم لگیں گے اَور کام بھی بن جائے گا۔ لیکن رَاستہ بہت مشکل ہے۔مَیں اِیک دَفعہ کوشش کرچکا ہوںلیکن کامیاب نہیںہوا۔ شاید اَب کامیاب ہوجاؤں‘‘۔
آدم کہنے لگا،’ ’وہ کیسے‘‘؟
داؤد نے کہا،’’یہاں سے ہم اِیران کا وِیزہ لیں گے، وہ آسانی سے مل جائے گا۔ اِس کے بعد ترکی کا وِیزہ لینا پڑے گا۔ ترکی پہنچتے ہی ہم اِیجنٹ کے ذَریعے یونان ، و ُ ہاں سے کسی بھی یورپیئن ملک میں دَاخل ہوجائیںگے، مثلا فرانس،اِٹلی،ہالینڈ، جرمنی اَور پھر پیسہ ہی پیسہ ہوگا۔ چمکتی گاڑی ہوگی۔اِسلام آباد میں گھر ہوگا اَور تمہیں پتا ہے جب یورپیئن نیشلنیلٹی ،یعنی شہریت ہو تو پھر لوگ ذَات پات، حسب نسب،عمر،قد،ر َنگ و نسل نہیں پوچھتے ۔ پیسے کو سلام کرتے ہیں‘‘ ۔
’’ لیکن ہم لوگوں کا وِیزہ تو مہینے یا پندرہ دِن کا ہوگا‘‘ ۔
’’ اَرے آدم تم بھی عجیب بات کرتے ہو، یہ جو پاکستانی ، یورپ میں آباد ہیں، یہ کیا اُن کے رِشتے دَار تھے، ۔۔۔۔۔۔اِسی طرح گئے تھے۔اِنگلینڈ میں اِتنے میرپوریئے ہیں کہ تم تصور بھی نہیں کر سکتے۔ اِتنے گجراتی ،جرمنی میں مقیم ہیں کہ جرمن پوچھتے ہیں، گجرات ،پاکستان میں ہے یا پاکستان ،گجرات میں۔ فرانس جہلمیوںسے بھرا پڑا ہے۔اِٹلی میں سرگودھیئے اَور منڈی بہاؤالدین کے لوگ بکثرت پائے جاتے ہیں۔ اِن لوگوں نے ملک بانٹے ہوئے ہیں‘‘۔
آدم بالکل نہیں جانتا تھا کہ اِس کے آس پاس کیا ہورَہا تھا۔وہ تو صرف اِتنا جانتا تھاکہ لوگ مشرقِ وُسطی میں کام کی غرض سے جاتے تھے۔ اِسے اَپنے کالج کے پروفیسر کی بات یاد آگئی۔’ ’آدم دِل لگا کر پڑھا کرو۔ اَب تو عرب ممالک میں جانے کا سلسلہ بھی بند ہورَہا ہے۔اَگر تعلیم حاصل نہیں کرو گے تو کیا کرو گے‘‘۔ وہ یہ باتیں کبھی بھی سمجھ نہ پایا تھا۔
پاکستان میں دَو طرح کی نوکریوں میں مستقبل محفوظ سمجھا جاتا ہے۔ اِیک تو فوج میں کمشنڈ آفیسربھرتی ہونا اَور دَوسرا سی اَیس اَیس )کرنا۔ باقی کسی چیز کی ضمانت نہیں۔ اِیجنٹ وَالی بات پے تو آدم بڑا حیران ہوا۔ کئی دَفعہ خیال آیا کہ اِرادہ ترک کردِے لیکن جو حال اِس نے لوگوں کا دِیکھا تھا ۔اِس سے گھبرا گیا تھا۔ آدم کے باپ نے اِس کی کوئی مدد نہ کی۔ وہ تو خاموش تماشائی بنے منظر دِیکھ رَہے تھے۔جیسے زِندگی کسی فلم کی طرح اِن کے سامنے چل رَہی ہو۔ آدم کی جب سے ڈِیوڈ سے ملاقات ہوئی تھی۔ اُس نے اِس کے خیالات بدل کر رَکھ دِیئے تھے۔ آدم کتابوں کی د ُ نیا میں رَہتا تھا اَور ڈِیوڈچلتے پھرتے،سانس لیتے ، زِندگی کے ادب میں پایا جاتا تھا۔ آدم نے جب داؤد کو اَپنا پاسپورٹ دِکھلایا تو وہ سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔’ ’اَرے اِس پے تو ریفیوز یعنی اِنکارکی مہر یں لگی ہوئی ہیں۔ اَب تمہیں نیا پاسپورٹ بنوانا پڑے گا‘‘۔
آدم کو عذاب لگنے لگا، تصویر کھچوانا، پولیس اِنکوائری اَور جانے کیا کیا۔ لیکن اِیک دَفعہ پھر پاسپورٹ بن گیا، تھوڑی دَوڑ دھوپ کے بعد وِیزے بھی لگ گئے۔ وَیسے تو یہاں بھی اِیجنٹ کی ضرورت تھی لیکن یہ کام ڈِیوڈ نے خود ہی کرلیا تھا۔
٭
آدم بہت خوش تھا وہ یورپ جا رَہا تھا۔ اِس لیئے بھی شاید زندگی کا کوئی رَنگ بدلے اَور اِس لیئے بھی کہ اِس نے ناوَلوں میںاِن ملکوں کے بارے میں بہت کچھ پڑھا تھا۔ آدم نے اَپنے وَالد صاحب کو بتایا ۔ اُنہوں نے نہ کچھ کہا، نہ کوئی مالی اِعانت کی۔ وہ غصے میں سفر کا سامان باندھنے لگا۔ گھر میں اَیسا کوئی شخص نہیں تھا جو اُسے رَوکتا کہ،’’ بیٹا تعلیم مکمل کر لو، کوئی کاروبار کرلو۔ تمہارا گھر بسا دِیتے ہیںیاماسٹرزکے بعد پی اَیچ ڈِی کرلینا‘‘۔ اِس نے نجمہ بیگم کو بتایا کہ ،’’وہ یورپ جارَہا ہے‘‘۔ وہ بہت رَوئیں۔ کہنے لگیں،
’ ’تم جارَہے ہو لیکن مَیں تمہیں نہیں رَوکوں گی ، ہوسکتا ہے تمہاری قسمت میں کچھ بہتر لکھا ہو، یا کوئی مخفی خزانہ تمہارا اِنتظار کر رَہا ہو۔اَور میرے رَوکنے سے تم وہ خزانہ حاصل نہ کر سکو۔ یہ ٹھیک ہے و ُ ہاں پیسہ ہے۔ لیکن بہت کچھ کھو دَو گے۔ سب سے پہلے اَپنی شناخت ، پھر اَپنا نام ، لباس، مذہب، تہذیب ۔اَرے ہاںیہ پچاس ہزار رَوپے ہیں۔اِیک چھوٹی سی رَقم تمہارے سفر میں کام آئے گی‘‘۔
آدم نے لینے سے اِنکار کردِیا اَور کہنے لگا، ’’یہ بہت بڑی رَقم ہے۔ مَیں وَاپس کیسے لوٹاؤں گا، اَور اَگر نہ لوٹا سکاتو‘‘۔
نجمہ بیگم کہنے لگیں،’ ’مَیں جانتی ہوں ،تم خوددار ہو، جب کمائی کرنے لگو تو لوٹادِینا۔مَیںاُدھار سمجھ کر دِے رَہی ہوں اَور تم بھی اُدھار سمجھ کر رَکھ لو اَور اَگر نہ لوٹا سکے تو میری طرف سے تحفہ سمجھ کے رَکھ لینا‘‘۔
آدم کے پاس اِنکار کی کوئی گنجائش نہ تھی۔آدم گھر لوٹ کر بہت رَویا کہ اِنسانی زِندگی میں قرار کیوں نہیں۔ اِس عورت کے پاس سب کچھ ہے ،لیکن کچھ بھی نہیں ۔ میرے پاس کچھ بھی نہیں اَور وہ کچھ ہے ،جو اُس کے پاس نہیں اَور جو کچھ اُس کے پاس ہے مَیں اُس کی تلاش میںجارَہا ہوں۔ اَگر وہ کچھ ، جو کچھ اُس کے پاس ہے اَگر مجھے مل گیا تو کیا میں یہ جو کچھ جو میرے پاس ہے کھو دَونگا۔
٭
آدم نے داؤد کو بتایا کہ اِس نے سفر خرچ کے لیئے رَقم کا اِنتظام کرلیا ہے۔ داؤد بہت خوش ہوا۔ آدم بالکل نہیں جانتا تھا کہ کیا ہوگا۔ ڈِیوڈ نے اِسے بتایا کے وہ پہلے کوئٹہ جائینگے، و ُ ہاں سے تافتان۔پھرزَاہدان آئے گا،پھر تہران آئے گا، تہران سے ترکی جانے کے لیئے بس لیں گے۔ پہلے بازَرگان آئے گا،پھر اِستنبول۔ اِس کے بعد اِستنبول سے اِیجنٹ کے ذَریعے ڈَنکی کے ذَریعے یونان میں دَاخل ہونگے۔ اَور پھر پیسہ ہی پیسہ ہوگا۔ گاڑیاں، کوٹھیاں اَور بینک بیلنس۔ڈَزڈَزڈَز۔کھڑاک کردِیں گے۔داؤد، آدم کی وَجہ سے بہت خوش تھا کیونکہ آدم کو اَنگریزی اَور فرنچ بھی آتی تھی۔ اِس سے دَونوں کو کافی مدد مل سکتی تھی۔
٭
آدم جانے سے پہلے نجمہ بیگم سے آخری دَفعہ ملا۔ اُس نے آخری دَفعہ آدم کے جسم کی خوشبولی۔کافی دِیر تک دَونوں باتیں کرتے رَہے۔ نجمہ بیگم کہنے لگی، ’’آدم تمہاری اُس ٹیلیفونی معشوقہ کا کیا ہوگا۔ تمہاری ، وہ تم کیا کہتے ہو لولیٹا،اُس کا کیا ہوگا۔ آدم مَیں تو کہتی ہوں، بلکہ میرا مشورہ ہے تم اِس سراب سے پیچھا چھڑا لو۔ یہ اِیک خام خیالی ہے۔فریب ہے‘‘۔
اِس عرصے میں آدم ،نادیہ کی کوئی ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ آدم کہنے لگا، ’’پلیز،نجمہ بیگم، مَیں آپ کی بہت عزت کرتا ہوں۔ اُس کو کچھ مت کہئے‘‘۔
’’ہاں آدم مَیں بھی کتنی بے وقوف ہوں۔ تم اُس سے پیار کرتے ہو۔ جس طرح مَیں تم سے پیار کرتی ہوں۔ مَیں تمہاری بُرائی برداشت نہیں کرسکتی، نہ ہی سُن سکتی ہوں۔ اِسی طرح تم اُس کی۔ یہ پیار کی اِیک تکون سی بن گئی ہے‘‘۔
’’ نہیں نجمہ بیگم مَیں اُس سے پیار نہیںکرتا۔ بس وَیسے ہی اُسے کوئی کچھ کہے، مجھے اَچھا نہیں لگتا‘‘ ۔
نجمہ بیگم کہنے لگیں،’’ اُٹھیں گے پردَہ ہائے بام و دَر آہستہ آہستہ ۔ہوسکے تو مجھے معاف کرد ِینا۔جانے جوش میں آکے مَیں کیا کیا کہہ گئی اَور ہاںفون وَغیرہ ضرورکرنا اَور اُسے بھی ،اَپنی چہیتی معشوقہ کو۔ وَیسے ہے بڑی مَن مُوہنی سی۔ بڑے اَنداز بنا بنا کے بات کرتی ہے۔مگر اَفسوس تم اُس سے مل نہیں سکتے‘‘۔
آدم نے رُخصت طلب کی۔ نجمہ بیگم اُسے جاتے ہوئے اَیسے دِیکھ رَہی تھیں جیسے کوئی قیمتی خزانہ لُٹ گیا ہو۔جیسے اُن کی آنکھوںکے سامنے اُن کے اَرمانوںکا کوئی خون کررَہا ہو۔ رَوکتیں بھی کیسے۔کس حق کے ساتھ۔ جس معاشرے میں وہ رَہ رَہی تھیں،اُس میں عورت اِتنی مجبور ہے کہ اُس کا سانس لینا بھی مشکل ہے۔لیکن وہ اِسی میں خوش تھیں کہ اُنہوںنے زِندگی کا کچھ وَقت اَچھا گزارلیا تھا اَور وہ خود کو یقین دِلا کر خوش کر لیتیں۔ اُن کے اَندر گناہ اَور ثواب کا تصور نہ تھا۔ بس آہنکار تھا۔جو آدم کی قربت میں کم ہوجاتا۔تسکین و سکون میں بدل جاتا۔
نجمہ بیگم اُسے دَروازے تلک چھوڑنے آئیں۔ لیکن اُن کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔آنسو تھے کے تھمنے کا نام ہی نہ لیتے تھے۔
٭
آدم نے نادِیہ بہرام کھرل کو فون کیا اَور ملاقات کی بھی دَرخواست کی، جس کو اُس نے ہزاروں وَجوہات بتا کر رَد کر دِیا۔ ’’دِیکھو آدم مَیں نہیں مل سکتی۔ میرے وَالد بڑی سخت طبیعت کے مالک ہیں۔مَیںاِتنا کرسکتی ہوں، تمہیںجاتے ہوئے دِیکھ لوں گی۔ میری د ُعا ہے تمہیں خدا ہمیشہ خوش رَکھے۔ مجھے خط کبھی مت لکھنا، ہاں چاہو تو فون کرسکتے ہو اَور ہاں و ُہاں جاکر کسی اَنگریز لڑکی سے شادی کر لینا۔مجھے تصویر ضرور بھیجنا‘‘۔
آدم کو غصہ تو بہت آیا لیکن کہتا بھی کیا۔ وہ کون سا اُس سے پیار کرتا تھا۔اَور نہ ہی اِس نے اُس کے ساتھ کبھی شادی کرنے کا سوچا تھا۔اَبھی وہ فون پر بات کر ہی رَہا تھا کہ اِس کے وَالد صاحب کی آواز آئی،’’بیٹا میں ٹیکسی لے آیا ہوں‘‘ ۔اِس نے جھٹ سے خدا حافظ کہا اَور رَسیور ، چونگے پر رَکھ دِیا۔
٭
سب گھر وَالے اِسے راولپنڈی رِیلوے سٹیشن پر چھوڑنے آئے تھے۔ ڈِیوڈ پہلے سے ہی و ُہاں موجود تھا۔اَیلوس پریسلی کی طرح لمبی لمبی قلمیں،کُھلے پائنچوں وَالی
پتلون،پھولوں وَالی قمیص اَور رَنگین چشمہ، اَور اُس پے کمال یہ کے اُس کا رَنگ بھی پکا تھا اَور گرمی بھی بہت تھی۔ وہ وَاک مین لگائے کسی اَنگریزی دُھن پے ہل رَہا تھا جو کہ اُس کی سمجھ سے بالا تر تھی۔ کیونکہ اُس نے آواز اُونچی)کی ہوئی تھی اِس لیئے آس پاس کے لوگوں کو بھی آواز سنائی دِے رَہی تھی۔ ۔۔۔۔’’ہائے اَیڈ م آگئے‘‘ ۔ آدم نے کہا ،’ ’مَیں بہرا نہیں ہوں‘‘۔ داؤد نے کانو ں سے ہیڈ فون اُ تارا اَور کہنے لگا ،’’آئی اَیم سوری ‘‘، یعنی مَیںمعذرت خواہ ہوں۔اُس نے سب کو سلام آداب کیا۔ اَور پھر آدم سے مخاطب ہوا،’ ’آدم اَپنا پاسپورٹ، ڈَالرز اَور ٹرین کا ٹکٹ سنبھال کر رَکھنااَور ہاں یہ کڑا پہن لو ۔ اِس پے یا علی یا مدد لکھا ہے۔اِیران میں فائدہ دِے گا۔مَیںتو اِن چیزوں کو نہیں مانتا، لیکن جہاں بھی مذہب سے فائدہ اُٹھا سکو ، ضرور اُٹھاؤ۔ اِس کو کومن سینس کہتے ہیں‘‘ ۔آدم کو پہلے کی طرح داؤد کی چند باتیں سمجھ نہ آئیں۔ دَونوں نے فردا ً فرداً سب کو خدا حافظ کہا اَور اَپنا اَسباب لے کر ٹرین میں سوار ہوئے۔خدا خدا کرکے ٹرین چلی۔ آدم نے اَپنے سوٹ کیس سے کتاب نکالی اَور پڑھنے لگا۔ جھٹ سے داؤد بول پڑا، ’’یار یہ کتابیں ساتھ کدھر لے آئے ہو۔ و ُہاں ہم محنت مزدوری کرنے جارَہے ہیں، پڑھنے لکھنے نہیں، نہ ہی فلاسفر بننے۔ وَیسے بھی پڑھے لکھے لوگ سڑکوں پے مارے مارے پھرتے ہیں اَور بندے کا زِیادَہ کتابیں پڑھ کے دِماغ خراب ہو جاتا ہے۔ مَیں تو میٹرک سے ہی بھاگ آیا تھا۔ دِیکھو نا تم فلسفے میںماسٹرز کر رَہے تھے۔۔۔ چھوڑ آئے اَور مَیںمیٹرک بھی پاس نہیں ہوں۔ تم میں اَور مجھ میں کوئی فرق نہیں۔ ہم دَونوں مزدوری کرنے پردیس جارَہے ہیں۔دَونوں کو شاید برابر تنخواہ ملے۔ شاید تم کو زیادہ اَور مجھے کم یا مجھے زیادہ اَور تم کو کم‘‘۔
آدم کہنے لگا،’ ’لیکن کسی اِنسان کو جانچنے کا پیمانہ یا معیار پیسہ، لباس، بنگلہ یا گاڑی تو نہیں یا اُس کا عہدہ تو نہیں جس پے وہ کام کرتا ہے‘‘۔
داؤد کہنے لگا،’’یہ سب کتابی باتیں ہیں۔ اَگر اِن باتوں کی کوئی حیثیت نہیں تو تم کیوں پردیس جارَہے ہو۔ اَپنا ملک چھوڑ کر۔ اَپنے ملک میں دَو وَقت کی رَوٹی نہیں کمائی جاسکتی۔ میرا تو فلسفہ ہی سیدھا سادہ ہے۔ مَیں تو پاکستان کو پسند ہی نہیں کرتا۔ شروع سے یورپ جانے کا شوق ہے۔ و ُ ہاں شراب و شباب آسانی مل جاتی ہے‘‘۔
آدم کہنے لگا،’ ’لیکن ساتھ ساتھ صحت کا بھی نقصان ہوتا ہے‘‘۔
’’اَرے یار آدم، صحت کا نقصان اَگر سیکس اَور شراب سے ہوتا تو گورے سب کے سب مر گئے ہوتے۔ اِن کی فلمیں نہیں دِیکھیں۔ اِن میں وہ کیسے کیسے تجربے کرتے ہیں۔ نہ اِن پے زوال آتا ہے۔ نہ ہی کوئی پریشانی اَور بیماری، بلکہ دِن بدن ترقی کررَہے ہیں ۔ اَور ہم لوگ پیچھے کی طرف جا رَہے ہیں‘‘۔
باتوں باتوں میں داؤد کی آنکھ لگ گئی اَور آدم کتاب پڑھنے لگا۔ وہ سمن دِی بووَاغ) کی کتاب لا دَوزِیئم سیکس کا اَنگریزی ترجمہ دِی سیکنڈ سکیس پڑھتا جارَہا تھا، اَور قلم سے ضروری چیزوں پے نشان لگاتا جارَہا تھا۔
٭
آدم اَور داؤد کی ٹرین صبح سویرے کوئٹہ پہنچی۔ آدم کے منہ کا ذَائقہ بہت خراب ہو رَہا تھا۔اُس نے پہلے دَانت صاف کیئے ،پھر دَونوں نے چائے پی۔ آدم کو چائے کا بہت چسکا تھا اَور کوئٹہ میں قہوے کارِواج زیادہ ہے۔
داؤدنے آدم سے کہا، ’’کیا حال ہے جناب ، گھر سے پہلی دَفعہ اِتنی دَور آئے ہو، اُداسی محسوس ہو رَہی ہوگی۔ اَرے جب گھر سے نکلے ہو تو تمہیں خدا نے اَپنی حفاظت میں لے لیا ہے۔ اَب ہمارا حامی و ناصر و ُ ہی ہوگا۔ گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔مَیںپہلے بھی یہ مصیبت اُٹھا چکا ہوں۔ اَب دَوسری کوشش ہے۔دِیکھو اَب کیا ہوتا ہے۔ رَاستے میں کوئی تکلیف تو نہیں ہوئی۔خیر تم تو کتاب پڑھتے رَہے ہوگے۔ اَب یہاں سے دَو طریقے ہیں، اِیران جانے کے۔اِیک تو بس سے اَور دَوسرا ٹرین کا راستہ۔ہم لوگ بس کے ذَریعے ہی جائیں گے کیونکہ بس کا کرایہ کم ہے۔ ہمیںاِیک اِیک پیسے کی ضرورت پڑے گی‘‘۔
اَبھی وہ ہوٹل پے بیٹھے ناشتہ کر ہی رَہے تھے کہ دَور سے اِیک صاحب اِن کے پاس آکر بیٹھ گئے اَور آتے ہی پہلا سوال کرڈالا،’ ’آپ دَونوں اِس علاقے کے تو نہیں لگتے، بلکہ اِس صوبے کے ہی نہیں لگتے۔ شاید کراچی کے ہیں یا پنجاب کے ہیں‘‘۔
دَونوں نے یک زبان ہوکر بتایا کہ ،’’دَونوں راولپنڈی سے آئیں ہیں‘‘۔ اِس سے پہلے کے آدم مزید کچھ بولتا، داؤد نے کہنی سے ٹھوکا دِیا، اَور آہستگی سے کہنے لگا،’’خبردار ! یہ مت بتانا کہ ہم ترکی کے رَاستے یورپ جارَہے ہیں۔ بلکہ سیر کرنے جارَہے ہیں اَور وَاپس آجائیں گے۔کیا پتا کسی اِیجنسی کا بندہ ہو‘‘۔ اَبھی وہ اِس مخمصے میں تھے کہ وہ صاحب بول پڑے،’’آپ گھبرائیں مت۔ میرا نام نادر بلوچ ہے اَور مَیں کاروبار کے سلسلے میں تہران جارَہا ہوں‘‘۔
داؤد چونک کر بولا،’ ’کیا کاروبار کرتے ہیں آپ؟
’’جی اِیران سے سویٹریں اَور پلاسٹک کی چپلیں لاتا ہوں اَور کوئٹہ لاکر بیچ دِیتا ہوں‘‘ ۔
داؤد کہنے لگا،’ ’خان صاحب اَچھی بچت ہوجاتی ہوگی‘‘ ۔
تو نادر بلوچ کہنے لگا،’ ’سب سے پہلے تو جناب ، کیا نام ہے آپ کا‘‘۔۔۔’ ’جی میرا نام داؤد‘‘ ،’’ اَور میرا نام آدم ہے‘ ‘۔’’ہاں تو آدم صاحب سب سے پہلے تو مَیں آپ کو یہ بتا دَوں کہ مَیں بلوچ ہوں، خان نہیں۔اَکثر پنجاب یا کراچی وَغیرہ کے لوگ ہمیں پٹھان تصور کرتے ہیں۔ جبکہ بلوچستان میں بلوچ قوم کے علاوہ اَور بھی قومیں ہیں۔ اَور سرحد میں پٹھانوں کے علاوہ کئی قومیں ہیں۔ جس طرح پنجاب میں ہیں۔لیکن ہمارے ہاںشرح خواندگی کم ہے ۔ لوگوں کو تاریخ کا پتا نہیں ،اِس لیئے کسی کو ناگوار نہیں گزرتا۔ خیر آپ لوگ تو ہمارے مہمان ہیں۔ وَیسے آپ کس سلسلے میں ا ِیران جارَہے ہیں‘‘۔
اِس سے پہلے کہ آدم کچھ بولتا داؤد جھٹ سے بول پڑا،’ ’ہم دَونوںکالج میں پڑھتے ہیں اَور ہمیں چھٹیاںہیں، اِس لیئے ہم سیر و تفریح کے لیئے جارَہے ہیں‘‘۔
نادر نے کہا،’’کیا پڑھتے ہیں آپ لوگ‘‘۔
داؤد بغلیں جھانکنے لگا، سوچنے لگا کہ کیا کہے، خیر اُس نے جلدی سے صورتِ حال سنبھال لی اَور توقف کے ساتھ بولا،’ ’جی سائنس‘‘۔
’’سائنس کی تو کافی شاخیں ہیں‘‘، نادر بولا۔
’’جی وہ‘‘ ،اَبھی وہ آئیں بائیں شائیں کرہی رَہا تھا کہ آدم بول پڑا،’ ’جی یہ سیاسیات پڑھ رَہے ہیں اَور مَیں فلسفے میں ڈِگری کر رَہا ہوں‘‘۔
’ ’اَچھا اَب سمجھا‘‘۔ نادر نے صورت ِ حال کو سمجھتے ہوئے کہا۔
’ ’آپ بھی نادر بلوچ صاحب ،پڑھے لکھے معلوم ہوتے ہیں‘‘۔’
’جی ہاں آدم صاحب مَیںنے اِنٹرمیڈیٹ کر کے چھوڑ دِیا تھا۔ یہاں بلوچستان میں قبائلی رَسم و رِواج ہیں۔ اِیک تو شادی بڑی جلدی کردِی جاتی ہے، دَوسرا قبائلی چپقلشوں میں ہم لوگ کافی وَقت برباد کردِیتے ہیں۔ یہاںجن لوگوں نے ہمیں، پہلی دَفعہ بیرونی حملہ آوروں سے نجات دِلائی وہ بلوچ ہی تھے، یعنی ہم ہی تھے، میرا مطلب ہے میرا سلسلہ نسب اُسی قبیلے سے ہے۔پھر بلوچ،رِند،لاشار اَور جانے کون کون سے قبیلوں میں بٹ گئے۔اَب د ُ نیا کہاں کی کہاں پہنچ گئی ہے لیکن ہمارے ہاں اَب بھی قبائلی طریقہ کار ہے‘‘۔
’’ تو آپ کو یہ اندازِ زِندگی پسند نہیں‘‘،آدم نے پوچھا۔’
’جی بالکل نہیں ، اَب آپ لوگ دِیکھیںپنجاب کتنا خوش حال ہے اَور ہم لوگ کتنے پسماندہ ۔ پاکستان میں معدنیات کے زِیادَہ ذَخائر یہاں پائے جاتے ہیں، جیسے کہ سوئی گیس، سوئی کے مقام سے نکلنے وَالی قدرتی گیس یہاں کے لوگوں کو بہم نہیں‘‘۔
’ ’ تو آپ کے سیاستدان کچھ نہیں کرتے‘‘،آدم بولا۔
’ ’وہ کیا کریں گے، اُن کو تو اَپنی عیاشیوںسے ہی فرصت نہیں ملتی۔ یہاں قبائلی نظام تھا۔ ہم لوگ دَبائے گئے۔ پھر اَنگریز آئے تو اُنہوںنے ہمیں دَبایا۔ اَب فوج آئے یا جمہوریت ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بلوچستان کے ساتھ و ُہی یتیموں وَالا سلوک کیا جاتا ہے۔سب سے بڑا مسئلہ تو ہمیں اُس وَقت ہوا، جب لاکھوںکی تعداد میں اَفغان مہاجرین، پاکستان میں دَاخل ہوگئے۔ آپ کو تو اِس بات کا علم ہوگا کہ َاَفغانستان کی سرحد پاکستان کے ساتھ ملتی ہے اَور اِس کا سلسلہ بلوچستان سے شروع ہوتا ہے اَور سرحد کی آخری اِنتہا تک جاتا ہے۔یعنی وَا خان کورِیڈور،یعنی وَاخان کی پٹی تک جاتا ہے۔ یہ پینتیس میل کا کورِیڈور جو پاکستان کو رَوس سے جدا کرتا ہے۔جس پر قبضہ کرنے کے لیئے رَوس نے اِیڑی چوٹی کا زَور لگا د ِیاتھا ۔ اَور مزے کی بات بتاؤں، اَفغان قوم ہمیں پسند نہیں کرتی۔ ظاہراً وہ لوگ ہمیں ٹھیک
کہتے ہیں، اَچھا کہتے ہیں لیکن باطناً اُن کی ہمدردِیاں ہمارے ساتھ نہیں۔ یہ تو اُنہوں نے خدا کی دِی ہوئی نعمت کا شکر ادا نہیں کیا تو اُنہیں یہ دِن دِیکھنا پڑ رَہے ہیں۔اَگر ہم بھی آزادی جیسی نعمت کا شکر ادا کرنا چھوڑ دِیں گے، عیاشیوں میںلگے رَہیں گے،تو خدا ہم سے بھی یہ نعمت چھین لے گا اَور پھر و ُ ہی حال ہوگا۔ لوگ غلام پیدا ہونگے اَور غلام ہی مر جائیں گے‘‘۔
آدم بول پڑا،’’تو اَب کون سا آزاد ہیں۔ ہمارا پورا ملک اَفسر شاہی کا غلام ہے اَور باقی جو بچتا ہے فوج کھاجاتی ہے۔ بلکہ یوں کہنا چاہئے، مَیںشاید غلط کہہ گیا۔ اَسی فیصد بجٹ فوج کھا جاتی ہے۔باقی بیس فیصد ،یہ سب مل بانٹ کر کھاتے ہیں۔ وَیسے بھی آپ پاکستان کو اَمریکہ کی کالونی ہی سمجھیں۔ کیونکہ ہمارے ملک میں جس لیڈر یا فوج کے جنرل نے سر اُٹھایا تو اُسے اس طرح مٹا دِیا گیا۔ جیسے کچھ تھا ہی نہیں‘‘۔
’’آدم آپ ٹھیک کہتے ہیں۔ لیکن جتنا اِنسانیت سوز سلوک ہم قبائیلیوںمیں ہوتا ہے، کہیں نہیں ہوتا۔ کہنے کو تو ہم مسلمان ہیںلیکن جو لوگ رِند و لاشار نہیں اُن کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔ آپ کو پتا ہے ہم لوگوں کو پڑھنے لکھنے کی آزادی نہیں۔ اَپنے حق کے لیئے لڑنے کی آزادی نہیں۔ مَیں نے بڑی مشکل سے کوئٹہ آکر سکونت اِختیار کی ہے۔ میرے بابا اَب تک مجھ سے ناراض ہیں۔ وہ کہتے ہیں،شہر میںاِنسان کی پہچان ختم ہوجاتی ہے۔ لوگ عزت کی نگاہ سے نہیں دِیکھتے۔ و ُ ہاں کا ماحول اَچھا نہیں ہے اَور لوگ پردے کے پابند بھی نہیں ہوتے۔ خیر مَیں تو چاہتا ہوںکے میرے بچے پڑھیں اَور یونیورسٹی کی سطح تک پڑھیں۔ مَیں اُنہیں نہیں رَوکوں گا‘‘۔
’’کتنے بچے ہیں آپ کے‘‘؟،آدم بولا۔
’’ جی میرے دَو بچے ہیں۔اِیک لڑکا اَور لڑکی۔ دَونوں سکول جاتے ہیں‘‘۔
اَبھی وہ اِنھیں باتوں میں مصروف تھے کہ اِیک آدمی نے آکر بتایا کے اِیران جانے وَالی بس تیار ہے۔ آدم اَور داؤد جلدی سے پیسے دِینے کو دَوڑے تو نادر بلوچ نے غصے سے اِنھیں رَوک دِیا، ’’خبردار‘‘!،ہوٹل وَالے کو بھی بلوچی زبان میں منع کردِیا کے اِن سے پیسے نہ لینا، یہ ہمارے مہمان ہیں۔ وہ دَونوں اِیک دَوسرے کی شکل دِیکھنے لگے۔
٭
بس میں بیٹھتے ہی آدم سوچوں میں گم ہوگیا کہ اِیران کیسا ہوگا، ترکی کیسا ہوگا اَور داؤد پیسے کمانے کے طریقے سوچنے لگا۔ بڑا لمبا سفر تھا، داؤد سگرٹ پینے لگا، تو آدم اُٹھ کر بس کے پچھلے حصے میں چلا گیا،
و ُہاں نادر بلوچ صاحب بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ دَونوں میں دَوبارہ گپ شپ شروع ہوگئی۔ آدم کہنے لگا، ’ ’آپ اِیک دَم غائب ہوگئے‘‘۔
’’ہاں میں یہاں سے سامان لے کر جاتا ہوں، ڈرائیور سے کچھ حساب کتاب کررَہا تھا اَور اِس کے علاوہ سرحد پر جو کسٹم اَور امیگریشن وَالے ہوتے ہیں، اُن سے بھی لین دِین کرنا پڑتا ہے۔ وَرنہ اِدھر کا مال اُدھر َاور اُدھر کا مال اِدھر لانا مشکل ہوجاتا ہے۔ حالانکہ مَیں ناجائز اَشیاء نہیں لاتا، لیکن اِس کے باوَجود قانون تو قانون ہے۔ جو پیسے سے نرم ہوتا ہے اَور غریب آدمی
کے لیئے سخت ہوجاتا ہے۔ مَیںہر وَقت اَپنے پاس تمن اَور رَوپے رَکھتا ہوں‘‘۔
آدم بولا،’’یہ تمن کیا بلا ہے‘‘؟
نادر کہنے لگا،’ ’آدم صاحب ، اِیران کی کرنسی کا نام ہے‘‘۔’
’لیکن و ُ ہاں تو رِیال چلتے ہیں‘‘۔
’’نہیں۔۔۔۔۔۔و ُہاںتمن کہتے ہیں‘‘ ۔
تو آدم کہنے لگا،’’مجھے تو اِس بات کا علم ہی نہیں تھا، وَیسے ناد ر صاحب آپ کاروبار کے علاوہ کیا کرتے ہیں۔ ادب وَغیرہ سے بھی لگاؤ ہے آپ کو یا وَقت ہی نہیں ملتا‘‘۔
’ ’سچ پوچھئے تو اَب وَقت ہی نہیں ملتا لیکن ادب اَور تاریخ سے گہرا لگاؤ تھا‘‘۔
’ ’بلوچی ادب و تاریخ کے بارے میں کچھ بتائیں‘‘۔
’’آدم صاحب آپ نے مشکل سوال کردِیا ہے اَور دِلچسپ بھی۔ وَیسے تو بلوچستان کی لوک دَاستانیں بہت مشہور ہیں، جن میںبہرام گر اَور گل اَندام مجھے سب سے زیادہ پسند ہے۔ اِس کے علاوہ سمی ڈوڈا، شیریںو دَستن، شداد و مہناز، لالہ گراں نازو زِیرک، لیلی مجنوں،شاہ مراد و ہانی وَغیرہ۔ یہ سب عشق و محبت کی دَاستانیںہیں ۔ زیادہ تر تصوراتی اَور خیالی ہیں،کیونکہ جن خواہشات کو اِنسان زِندگی میں پورا نہیں کرسکتا اِن کا اظہار یا تو وہ کہانی کی صورت میں کرتا ہے یا شاعری کی صورت میں۔یہ کہانیاں سینہ بسینہ چلی آرَہی ہیں۔ اُن دِنوں لکھنے کا رواج نہیںتھا۔دَاستان گو یا فقیر لوگ گا کر سُناتے تھے ۔اِس طرح اَپنی رَوزی رَوٹی کماتے تھے۔ وَیسے دَو مشہور شاعر بھی گزرے ہیں۔ نور بندگ اَور میر چاکر‘‘۔
’’شاعری کے علاوہ کوئی نثری یا اَفسانوی کام‘‘۔
’’جی ہاںآدم صاحب وَیسے تو کئی ہیںلیکن مجھے گل خان ناصر اَور آزاد جمال دِینی بہت پسند ہیں۔گل خان ناصر نے تاریخِ بلوچستان لکھ کر ہم پر بڑا اِحسان کیا ہے۔وَیسے اُنہوں نے گل بنگ و ناضر بھی لکھی ہے‘‘۔
اَبھی وہ گفت و شنید میں مصروف ہی تھے کہ بس گِھر گِھر کر کے رُک گئی۔ تمام سواریاںاُتر گئیں۔ یہ پاکستان کی امیگریشن اَور کسٹم چیک پوسٹ تھی۔ باری باری سب کے وِیزوں کی پڑتال ہوئی اَور لوگ بس میں باری باری کر کے دَوبارہ بیٹھنے لگے۔ نادر بلوچ کو سب جانتے تھے اَور نادر نے آدم کو پہلے ہی سمجھا دِیا تھا کہ،’’ اِن کسٹم وَالوں سے اَور امیگریشن وَالوں سے زیادہ بحث نہ کرنا وَرنہ یہیں سے وَاپس بھیج دِیئے جاؤ گے‘‘۔کسٹم اَور امیگریشن سے فارغ ہونے کے بعد پھر سفر کا آغاز ہوا۔ نادر بلوچ کہنے لگا،’ ’تہران تک آپ لوگوں کو کوئی مسئلہ نہیں ہوگا کیونکہ مَیں فارسی جانتا ہوں اَور آدم، آپ کو بھی تو فارسی آتی ہوگی‘‘۔
آدم نے کہا،’’جی نہیں۔۔۔۔۔۔۔مَیں اَنگریزی کے علاوہ تھوڑی بہت فرنچ جانتا ہوں‘‘۔
’ ’اَرے یہ تو اَور مزے کی بات ہے، اِیران میں فارسی کے بعد جو زبان اَہمیت رَکھتی ہے ،وہ ہے فرنچ۔فارسی زبان میں بیشمار اَلفاظ و تراکیب فرنچ زبان سے مستعار لیئے گئے ہیں۔ جس طرح ہم لوگ ، اُردو میں اَنگریزی کا اِستعمال کثرت سے کرتے ہیں، بالکل اُسی طرح اِیرانی ، فرنچ کا اِستعمال کرتے ہیں۔مثال کے طور پے و ُ ہاں لوگ متشکرم کے ساتھ ساتھ مَیرسی بھی کہتے ہیں۔ مَیرسی شاید فرنچ میں شکریئے کے لیئے اِستعمال ہوتا ہے‘‘۔
’ ’آدم کہنے لگا،’جی،جی۔۔۔۔۔۔۔۔ merci, merci beaucoup ‘‘ (میغسی، میغسی بْو کْو،یعنی شکریہ ،بہت بہت شکریہ) ۔
نادر نے سلسلہ کلام دَوبارہ شروع کیا،’’اَور اِسی طرح بازاروں میں رَیستورانوں میں بھی عام ہے۔ اِیرانی لوگ پاکستانیوں کے ساتھ بڑا اَچھا سلوک کرتے ہیں‘‘۔
آدم آہستگی سے کہنے لگا،’’لیکن مَیں نے تو سُناہے و ُہاں زیادہ تعداد
اَہل ِتشعیہ کی ہے اَور پاکستان میں اَکثریت سُنیوں کی ہے، تو اِس وَجہ سے شاید یہ پاکستانیوں کو اَچھا نہیں سمجھتے اَور اِسی ڈَر سے مَیں نے یہ یاعلی یا مدد وَالا کڑا بھی پہن رَکھا ہے۔ حالانکہ مَیں اِن چیزوں کا قائل نہیں ہوں۔لیکن وہ داؤد ہے نا، وہ کہتا ہے کے کومن سینس کا اِستعمال کرنا چاہئے۔ تو اِس لیئے مَیں نے پہن لیا۔ترکی جارکر اُتار دَونگا‘‘۔
نادر کہنے لگا،’’نہیں،نہیںاَیسی کوئی بات نہیں۔ اِیران تو شروع سے تہذیب و تمدن کا گہوارہ رَہا ہے۔یہ لوگ تو بڑی ملنسار اَور مہمان نواز ہیں۔ اَخبار اَور ٹی وی وَالے تو اَپنی دَوکانداری چمکانے کے لیئے،اَیسا کرتے ہیں اَور وَیسے بھی کسی اِیک ناخوشگوار وَاقعے سے کسی بھی قوم کا اَندازہ نہیں لگانا چاہئے۔ اَچھے بُرے لوگ تو ہر جگہ ہوتے ہیں اَور اَگر بُرے لوگ نہ ہوںتو اَچھے بُرے کی تمیز کیسے ہو۔کبھی کبھی جو شخص آپ کے لیئے اَچھا ہوتا ہے، بالکل اُسی وَقت وہ شخص کچھ لوگوں کے لیئے برا ہوتا ہے۔اَور جو شخص آپ کے لیئے بُرا ہوتا ہے ،اُسی وَقت وہ شخص کچھ لوگوں کے لیئے اَچھا ہوتاہے۔اَچھائی اَور بُرائی تو اِنسان کے اَندر پائی جاتی ہے۔اِس کا تعلق،ملک،قوم،مذہب،رَنگ و نسل سے نہیں ہوتا‘‘۔
آدم نادر بلوچ کی باتیں سُن کر بڑا حیران ہوا۔ بالکل فلسفیوں جیسی باتیں کررَہے تھے۔آدم سے رَہا نہ گیا۔’’نادر صاحب آپ تو فلسفیانہ گفتگو کررَہے ہیں‘‘۔
’’آدم صاحب یہ فلسفیانہ نہیں بلکہ صوفیانہ گفتگو ہے‘‘۔
’ ’اَچھا نادر صاحب یہ بتائیں، کیا بلوچستان میںاُردو اَور بلوچی کے علاوہ بھی زُبانیں بو لی جاتیں ہیں‘‘،آدم نے کہا۔
’’آدم صاحب وَیسے تو بے شمار چھوٹی چھوٹی علاقائی زُبانیںبولی جاتیں ہیں، لیکن سلیمانی اَور مکرانی ، یہ دَو زُبانیں، بلوچی اَور اُردو کے بعد زِیادہ بولی جانیں وَالی زُبانیں ہیں۔ اِس کے علاوہ براہوی زُبان ہے۔بلوچستان کو آباد کرنے وَالے اَصل میں براہوی ہی تھے۔جو بعد میں بلوچ کہلائے۔ وَیسے لوگ پشتو بھی بولتے ہیں۔جیسا کہ مجھے اُردو،فارسی،بلوچی،پشتو اَور براہوی زبان آتی ہے۔لیکن مَیں سب سے اَچھی بلوچی زُبان جانتا ہوں۔ کیونکہ یہ میری مادری زُبان ہے‘‘۔
’’نادر صاحب بلوچستان میں پارسی بھی ہیں کہ نہیں‘‘۔
’ ’جی بالکل ہیںکیونکہ ہماری سرحد اِیران کے ساتھ ہے۔اِس کے علاوہ ہندو اَور عیسائی بھی رَہتے ہیں۔آدم صاحب ، میراں محمد مہدی کا نام تو آپ نے سُنا ہی ہوگا‘‘۔
آدم کہنے لگا،’’جی نہیں‘‘۔
’ ’تو سُنتے چلیں، سولہویں صدی کے آواخر میںیہ صاحب مسیحا کے رَوپ میں آئے اَور اَپنے کئی پیروکار بنا لیئے۔ اِن کے پیروکار زیادہ تر لَسبیلا میںآباد ہیں‘‘۔
اِس کے بعد آدم نے اِجازت طلب کی اَور اَپنی سیٹ پر آکر بیٹھ گیا۔
٭
تافتان کے بعد بس نے پہلا قیام زَاہدان میں کیا۔ زَاہدان بہت خوبصورت ہے۔اَیسا لگتا ہے ، آپ اَرضی جنت میں آگئے ہیں۔ انار،سیب،اَور اَنگور بکثرت پائے جاتے ہیں۔اِیران کی فارسی اِتنی مترنم اَور شیریں ہے کہ سُنتے ہی اَیسے محسوس ہوتا ہے، جیسے کوئی مترنم آواز میں گیت گارَہا ہو۔ آدم نے اِس سے پہلے اَفغانوں کو فارسی بولتے سُنا تھا۔ لیکن وہ فارسی اِس سے مختلف تھی۔ وہ سُننے میں اِتنی بھلی نہ لگتی تھی۔ یہاں آکر پتا چلا کہ اِیرانی اَور اَفغانی فارسی میں اِتنا ہی فرق ہے جتنا پنجابی اَور اُردو میں۔ اَفغانی زیادہ تر دَری بولتے ہیں اَور اِیرانی فارس کی فارسی بولتے ہیں۔ پاکستان بننے کے بعد لوگوں کی توجہ فارسی کی طرف کم ہوگئی۔ حالانکہ پہلے پہل فارسی اَور عربی جاننا، پڑھے لکھے ہونے کی دَلیل ہوا کرتا تھا۔اِسی لیئے تو غالب ؔ کے بارے میں کہتے ہیںکہ اُن کا اَصل کلام تو فارسی میں ہے اَور اِقبال، اُنہوں نے بھی اَپنی چھ عدد شاعری کی کتابیںفارسی میں لکھی ہیں۔ اَنگریزوں کی آمد اَور پاکستان کا بننا، یہ دَونوں عوامل اَیسے تھے کہ لوگوں کی توجہ اَنگریزی اَور اُردو کی طرف مبذول ہوگئی۔ بجائے اِس کے فارسی اَور عربی کی طرف ہوتی۔عربی تو اَب بھی ہر پاکستانی کو پڑھنے کی حد تک سیکھتا ہے۔لیکن فارسی کو تیل کے ساتھ ملا دِیا گیا ہے۔یعنی،’’پڑھو فارسی ،بیچو تیل‘‘ کا محاورعام ہے۔
٭
آدم اِیرانیوں کے حُسنِ اِخلاق سے بڑا متاثر ہوا۔لوگ اِنہیں بڑی عزت کی نگاہ سے
دِیکھتے۔آدم نے اَپنے دِماغ میں اِیران کے بارے میں بڑا غلط تصور بٹھایا ہوا تھا کہ اِیرانی اِنتہا پسند اَور بنیاد پرست ہوتے ہیں اَور و ُ ہاں اِنقلاب ِایران کے بعد بڑی سختی کردِی گئی ہے وَغیرہ وَغیرہ۔لیکن اَیسا بالکل نہیں تھا۔ اِیرانی قوم اِنتہائی مہذب نکلی۔ اِس کے تصور سے بھی کہیں زیادہ۔نادر بلوچ کہنے لگا،’’آدم صاحب کیا سوچ رَہے ہیں‘‘۔
’’کچھ نہیں نادر صاحب ، اِیرانیوں کے بارے میں سوچ رَہا
ہوں، مَیں کیا سوچا کرتا تھا اَور کیا دِیکھ رَہا ہوں‘‘۔
’’آپ کو پتا ہے آدم صاحب ، اِیران اِنقلاب سے پہلے اِس سے بھی زیادہ جدید ہوا کرتا تھا۔لوگ یہاں عیاشی کی غرض سے آیا کرتے تھے۔ خیر یہ تو لمبی کہانی ہے۔ وہ آپ کا دَوست نظر نہیںآرَہا‘‘۔
’’جی وہ اُدھر بیٹھا سگرٹ پی رَہا ہے‘‘۔
٭
بس پھر چل پڑی، اَگلا سٹاپ کرمان تھا۔ پھر یزد،نین،کاشان،قوم اَور رِے سے ہوتی ہو ئی اِن کی بس تہران پہنچی۔ خدا خدا کرکے یہ لمبا سفر کٹا اَور یہ لوگ تہران پہنچے۔ اَب آدم کو تھوڑا تھوڑا اِحساس ہونے لگا کہ وہ کسی دَوسرے ملک میں ہے۔کیونکہ لباس مختلف، زُبان مختلف، کھانا پینا مختلف۔ اَگر آپ کو اِن کی زُبان نہیں آتی تو آپ گونگے ہیں۔اِیران میں یا تو لوگ فارسی بولتے تھے یا تھوڑی تھوڑی فرنچ لیکن اَنگریزی کم ہی لوگ جانتے تھے۔ وَیسے بھی اِنقلابِ اِیران کے بعد سیاحوں کا رُخ اِس طرف کم ہوگیا تھا۔ اِیران ،عراق جنگ اَور اِنقلابِ اِیران ،یہ دَونوںوَاقعات اِیران کے محکمہ سیاحت پے بُری طرح اثر اَنداز ہوئے ۔ جو بھی سیاحت کی غرض سے آتا ، خاص کر سفید رَنگ وَالا، اُنہیں جاسوس تصور کیا جاتا۔ کبھی کبھی اَیسا درست بھی ہوتا ۔
٭
داؤد چونکہ پہلے بھی آچکا تھا، اِس لیئے اُسے پتا تھا کے ترکی جانے وَالی بس کہاں سے ملے گی۔ اَبھی وہ دَونوں سوچ ہی رَہے تھے کہ نادر بلوچ کی آواز سنائی دِی،’ ’اَرے بھئی ، بنا ملے ہی چل دِیئے۔ وَیسے آدم اَور داؤد آپ لوگوں سے مل کر بڑی خوشی ہوئی۔ یہ میرا پتہ ہے۔ آپ آئندہ جب بھی بلوچستان آئیں، یعنی کوئٹہ رُکیں ، تو مجھے ضرور یاد کیجئے گا اَور میرے ہاں ہی ٹھہریئے گا۔ مَیں جانتا ہوںآپ پانچ یا دَس سال بعد وَاپس آئیں گے۔ اَگر قسمت اَچھی ہوئی تو پہلے بھی ملاقات ہوسکتی ہے لیکن میرا نہیں خیال کہ آپ اِسی رَاستے سے وَاپس آئیں گے‘‘۔
اِس سے پہلے آدم اَور داؤد کچھ بولتے، نادر نے بات جاری رَکھی، ’’آپ حیران نہ ہوں۔ میرا تو رَوز کا کام ہی یہی ہے۔ پاکستان سے یورپ جانے وَالے لڑکے یہ رَاستہ بھی اِستعمال کرتے ہیں۔آپ کوئی نئے تو نہیں‘‘۔
دَونوں کو بڑی شرمندگی ہوئی۔ اِیک دَوسرے کی شکل دِیکھنے لگے۔نادر بلوچ پھر بولا،’’اِیک بات بتاتا چلوں، اَپنے ڈَالرز اَور پاسپورٹز کاخیال رَکھیئے گا، خاص کر ترکی میںکیونکہ و ُہاںد ُنیا جہان کے گھاگ ایجنٹ ہوتے ہیں۔لیکن پاکستانیوںکو عزت کی نگاہ سے دِیکھتے ہیں۔ اِس لیئے تکلیف نہیں اُٹھانی پڑے گی۔اَچھا اَب مَیں اِجازت چاہتا ہوں ۔مَیں اَب کوئی سستا سا ہوٹل دِیکھوں گا۔ جہاں اَپنا سامان وَغیرہ رَکھ سکوں اَور رَات گزار سکوں۔کل خرید و فروخت کرکے چلا جاؤنگا۔خدا حافظ۔میری کوئی بات، آپ لوگوں کو اَگر ناگوار گزری ہو تو معذرت چاہونگا‘‘۔
٭
تہران ، اِیران کا دَارلحکومت ہے۔ پرانی فارسی میں تہہ کا مطلب ہے ’’گرم ‘‘ اَور رَان کا مطلب ہے ’’جگہ‘‘ ۔ یعنی’’ گرم جگہ‘‘ ۔ یہ دَریائے کیسپیئن سے تقریباً سو کلومیٹر دور ہے۔ تہران سے چوالیس کلومیٹرکے فاصلے پر برف پوش چوٹی ہے’’ دَاماوَند‘‘۔
۱۲۲۰ عیسوی میں جب منگولوں نے پرانے دارلحکومت رِے کو تباہ و برباد کردِیا تو اِن دِنوں تہران، رِے کے پاس ہوا کرتا تھا۔ بعد میں رِے سے مہاجرین ہجرت کرکے تہران آکر آبا ہوگئے۔ پہلا آدمی جس نے تہران کا ذِکر کیا وہ تیمور لنگ کے دَربار میں آنے وَالا یورپین سیاح تھا۔ یہ یورپین سیاح،
Don Ruy Gonzalve De Clavijo
(ڈَون رَوئے گونزالویز دِی کلاوِیجو )کاسٹل کے بادشاہ کی طرف سے ۱۴۰۴ عیسوی میں تیمور لنگ کے دَربار میں سفیر بن کر آیا تھا ۔پھر سولہویں صدی میں صفوی خاندان کے بادشاہ شاہ تہماسپ نے اِیران اِرد گرد دِیواریں بنوائیں۔ اِس نے تہران کے اِرد گرد بھی دِیوار بنوائی۔ اِس میں چار دَروازے لگوائے اَور اِیک سو چودہ (۱۱۴) مینا ر بنوائے۔ تہران کو دَوبارہ سلاطینِ قجار کے دَور حکومت میںاَہمیت حاصل ہوئی۔ اِن کا دَورِ حکومت (۱۷۷۹۔۔۱۹۲۵) تک رَہا۔ پھر پہلوی خاندان نے ۱۹۲۵ میں ملک کی باگ ڈور سنبھالی۔ اِس کے بعد ۱۹۴۱ تک رَضا شاہ پہلوی نے اِیران کو خوب ترقی دِی ۔جس میں اِس کی بیوی فرح پہلوی نے بھی ساتھ دِیا۔ لیکن دَوسری جنگِ عظیم کے دَوران اِس ترقی میں تھوڑی سی رکاوٹ پیدا ہوگئی۔اِیران نے اَپنی ہمدردِیاں،اَمریکہ ، روس اَور اِنگلستان کے ساتھ ظاہر کیں۔ اِس کے بدلے ، اِیران کی آزادی کی ضمانت دِی گئی۔ شہنشاہ اِیران کو اُس کے خاندان سمیت تخت سے اُتار کر ملک بدر کر دِیا گیا۔ اِیران میں آیتہ اللہ خمینی اِنقلاب لائے جو اَب تک جاری ہے۔
اِیران د ُ نیا کو تہذیب و تمدن سکھانے وَالا ۔ د ُ نیا کو اَندازِ جہاں بانی سکھانے وَالا۔ ترقی کی منزلیں طے کرتے کرتے وَاپسی کی طرف چل پڑا۔ قوموں کے بننے میں صدیاں لگتی ہیں اَور تباہ ہونے کے لیئے چند ماہ ہی کافی ہوتے ہیں۔
تہران میں شاہ رَضا اَیونیو اَور فردوسی سٹریٹ یورپ کے سکوائر کی طرح بنائے گئے ہیں۔ جو پہلے میدانِ سپاہ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ اِس کے مظافات میں تجریش، دَربند، کولحک اَور نیاوَاران ہیں۔ تہران کو ٹرانس یورپ رِیلوے ترکی سے ملاتی ہے۔
٭
آدم اَور داؤد نے ترکی کے لیئے بس کی ٹکٹ خریدی اَور بس کا اِنتظار کرنے لگے۔ آدم کا سر دَرد سے پھٹا جا رَہا تھا کیونکہ اَبھی تک اِسے چائے نصیب نہیںہوئی تھی اَور پیتا بھی کیسے۔ یہاں تو لوگ ہر جگہ قہوہ خانوں میںلمبے لمبے کانچ کے گلاسوں میں قہوہ پی رَہے تھے اَور کھانا بھی پھیکا تھا۔ اَب تو آدم کے اَندر یہ اِحساس شدت سے جاگنے لگا کہ وہ پردیس میں ہے۔داؤد ،آدم کی حالت بھانپتے ہوئے کہنے لگا،’’آگے آگے دِیکھئے ہوتا ہے کیا اَور ہاں چاہو تو پاکستان فون کرسکتے ہو۔یہ ساتھ پبلک کال آفس ہے
کیونکہ بس کے آنے میں تھوڑی دِیر ہے‘‘۔
آدم کہنے لگا،’ ’مجھے کسی کو فون نہیں کرنا‘‘۔
پھر خیال آیا ، کیوں نہ نادِیہ کو فون کیا جائے، لیکن جب وَقت دِیکھاتو دِیر ہوچکی تھی۔ خیر اِس نے پھر بھی نمبر ملا دِیا۔دَوسری طرف سے آواز آئی،’ ’ہیلو‘‘۔
’’مَیں بول رَہا ہوںآدم‘‘۔
’’ہائے آدم کیا حال ہیں، کہاں ہو، مَیں تمہارے ہی فون کا اِنتظار کر رَہی تھی۔ اَب فون آتا ہے کہ اَب آتاہے۔کہاں ہو‘‘؟
’’مَیں اِس وَقت اِیران کے دارلحکومت تہران میں ہوں۔ سب لوگوں کی بڑی یاد آرَہی ہے اَور خاص کر چائے کی طلب شدت سے محسوس ہورَہی ہے۔اَچھا اب خدا حافظ پھر فون کرونگا‘‘۔
’ ’اَپنا خیال رَکھنا‘۔‘ نادیہ نے یہ کہہ کر فون بند کردِیا تھا ۔
داؤدنے پوچھا،’’گھر وَالوں کو فون کر آئے‘‘۔
آدم نے کہا،’’نہیں یار میں کسے فون کرتا۔ ماں تو ہے نہیں، رَہا باپ ،وہ تو خوش ہوگا کہ خلاصی ہوئی۔ اَب تک تو وہ شادی بھی کرچکا ہوگا‘‘۔
داؤدنے کہا،’’تمہارا باپ ہے،اَیسے نہیں کہتے، تمہیں اِتنا پڑھایا لکھایا، اِتنا بڑا کیا‘‘۔
آدم نے جواب دِیا،’’یہ تو د ُنیا کے سب ماں باپ کرتے ہیںکون سااِحسان کیا ہے‘‘ ۔
داؤدنے کہا ،’ ’خیر چھوڑو، دِل میلا نہ کرو۔ اَبھی آگے بہت کچھ دِیکھنا نصیب ہوگا اَور ہاں یہ لمبے لمبے مباحثوں میں مت پڑا کرو‘‘۔
؎ آدم نے جواب دِیا ، ’’اَرے یار نہ چاہتے ہوئے بھی کوئی نہ کوئی موضوع نکل ہی آتا ہے‘‘۔
’ ’چلو بس آگئی‘‘۔
سب مسافر بس میں سوار ہونے لگے۔ آدم خان چغتائی اَور دَاؤد اَنصاری نے بھی اَپنا سامان جلدی جلدی بس میں رَکھا اَور اَپنی اَپنی نشستوں پر آکر بیٹھ گئے۔ اِن کے ساتھ وَالی نشستوں پر اِیک اِیرانی بزرگ ، اُن کی بیگم اَور اِیک نقاپ پوش محترمہ بیٹھی تھیں۔ بزرگ نے مسکرا کر داؤد اور آدم کی طرف دِیکھا، جیسے کچھ کہنا چاہ رَہے ہوں۔ داؤد سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ اَب پھر آدم گفت و شنید شروع کردِے گا۔ لیکن اُسے تجسس بھی تھا کہ وہ نقاب پوش حسینہ کون ہے۔ وہ بزرگ آدمی خود کو نہ رَوک سکے اَور دَونوں کو مخاطب کرکے کہنے لگے،’’اسلام علیکم‘‘۔
آدم اَور داؤد نے یک زبان ہوکر کہا،’ ’وعلیکم السلام‘‘۔
بزرگ،’ ’حالِ شُما چیتورست‘‘ ۔ (آپ کا کیا حال ہے)
آدم،’’حالِ مَن خیلی خوب اَست‘‘۔ (میرا حال ٹھیک ٹھاک ہے )
بزرگ،’ ’نامِ شُما چیست‘‘۔ (آپ کا نام کیا ہے)
آدم ،’’نامِ من آدم خان چغتائی اَست‘‘ (میرا نام آدم خان چغتائی ہے ) اَور داؤد کو کہنے لگا ،’’نام پوچھ رَہے ہیں‘‘
داؤد، "My name is Daowd Ansari”(میرا نام داود اَنصاری ہے)
بزرگ،”So you don’t speak Persian” (تو آپ کو فارسی نہیں آتی)
آدم، "Nor do I” (اَور مجھے بھی نہیں آتی)۔
بزرگ، "But you said hello, hi in Persian, your accent isn’t bad at all” (لیکن آپ نے سلام و آداب تو فارسی میں کیا اَور آپ کا تلفظ بھی برا نہیں ہے)
آدم،”That I have learnt from my Afghan friend” (یہ مَیںنے اَپنے اِیک اَفغانی دوست سے سیکھی ہے) ۔
بزرگ،”Are you Pakistani? or” (کیا آپ لوگ پاکستانی ہے ؟ یا)
آدم،”Yes we are” (جی ہم ہیں)
بزرگ،’ ’پھر ہمیں اُردو میں بات کرنی چاہئے‘‘۔
آدم،’’آپ اُردو جانتے ہیں‘‘؟
ؓؓبزرگ،’’جی ہاں مَیںاُردو جانتا ہوں۔ مَیں تہران یونیورسٹی میں اُردو زبان و ادب کا پروفیسر ہوں۔ مَیں،میری بیگم اَور ہماری بیٹی ، ہم سب ترکی جارَہے ہیں۔ ہم سب مولانا جلال الدین رومی کے مزار پے حاضری دِینے جارَہے ہیں‘ ‘۔
آدم،’’کہاں ہے اُن کا مزار‘‘؟
بزرگ،’’قونیا میں ،اُن کے مزار پے حاضری دِینے کے بعد ہم اِستنبول بھی جائیں گے۔ و ُ ہاں کی خوبصورت مسجد سلیمانیہ دِیکھنے۔ اِس کے علاوہ ہاگیہ صوفیہ اَور نیلی مسجد دِیکھنے کا بھی اِرادہ ہے‘‘۔
آدم،’’ آپ اُردو ادب میں کس شاعر کو پسند کرتے ہیں۔میرا مطلب ہے شاعری اَور نثر دَونوں میں‘‘۔
بزرگ،’’بیٹا سب سے پہلے تو مَیں اَپنا نام بتانا پسند کرونگا کیونکہ آپ مجھے بزرگ کہتے ہیں۔ مجھے اَچھا نہیں لگتا۔ میرا نام اردشیر یزدانی ہے‘‘۔
آدم ،’’ آقائی (آ غائی) یزدانی، آپ نے بتایا نہیںاُردو شاعری اَور نثر میں آپ کس سے متاثر ہیں‘‘۔
(اِیران میں صاحب کو آغائی کہتے ہیں۔ لیکن لکھا آقائی جاتا ہے کیونکہ فارسی میں ق ،غ کی آواز نکالتا ہے)
بزرگ،’’سچ پوچھئے تو بیٹا ، اُردو ادب ، فارسی ادب کی اِختراعی قسم ہے۔ اُردو میں جتنے بھی عظیم شعراء گزرے ہیں۔اُنہوں نے ہر صنف میں خواہ نثر ہو یا نظم، غزل ہو یا دَاستان۔ سب اَصناف میں فارسی کی پیروی کی ہے۔یا مجھے یوں کہنا چاہئے کہ اُنہوں نے ہماری ڈگر کو اَپنایا ہے کیونکہ پیروی کالفظ ذرا غیرمناسب ہے۔ وَیسے مجھے مرزا اَسد اللہ خان غالبؔ بہت پسند ہیں۔ اِس کے علاوہ آقائی اِقبال کی شاعری مجھے بہت تعمیری لگی ہے‘‘۔
آدم،’’ مجھے فارسی زبان سیکھنے کا بڑا شوق تھا ۔سکول کے دِنوں میں ہمارے پاس منتخب کرنے کے لیئے دَو زُبانیں تھیں۔عربی اَور فارسی۔ اِن میں سے اِیک کو چُننا تھا۔ مَیں نے عربی کو پسند کیا۔ لیکن اَب اِحساس ہوتا ہے فارسی چُنتاتو شاید بہتر ہوتا۔ آپ نے اُردو زبان و ادب کیونکر پسند کیا‘‘؟
یزدانی،’’بیٹا اَصل میں ہمارے کافی عزیر و اَقارب ہندوستان رَہتے ہیں اَور و ُ ہاں کافی لوگوں کو فارسی
زبان سے شناسائی ہے۔پہلے پہل تو ہر پڑھا لکھا شخص فارسی اَور عربی سے شناسا تھا۔ لیکن اَب یہ سلسلہ کم ہوگیا ہے۔اِس مناسبت سے میرا ہندوستان آنا جانا لگا رَہتا ہے۔ پہلے برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں میں فارسی زِیادَہ عام تھی لیکن جب منقسم ہوئے تو پاکستان میں اُردو کا رواج زیادہ چل نکلا۔ مجھے ہندی کے مقابلے میں اُردو زیادہ میٹھی لگی۔ اَور وَیسے بھی ہندی سیکھتا تو مجھے نئے حروفِ تہجی اَور رَسم الخط سیکھنا پڑتا۔ اِسی مناسبت سے مَیںنے اُردو ادب میں ماسٹرز کیا‘‘۔
آدم،’’آپ کے عزیز و اقارب ، ہندوستان و پاکستان میں کیسے‘‘؟
یزدانی،’’بیٹا یہ لمبی کہانی ہے۔ سب سے پہلے مَیں آپ کو یہ بتا دَوں کہ مَیں زَرتشتی ہوں، جنھیںآپ لوگ پارسی کہتے ہیں۔ہندوستان کے شہر بمبئی (ممبئی) اَور پاکستان کے شہر کراچی میںپارسیوں کی تعداد بکثرت ہے۔ گو کہ ہم و ُ ہاں اَقلیت میں ہیںلیکن مالی طور پے کافی مستحکم ہیں۔۶۳۵ عیسویں میں جنگِ قادسیہ لڑی گئی۔ اِس جنگ میں مسلمانوں نے اِیران کو فتح کیا تو اُنہوں نے دَوسرے مذاھب کے لوگوں کو اَقلیت قرار دِے دِیا۔اِن میں عیسائی،یہودی،مجوسی، زرتشتی یا مذدِی بھی تھے۔اَہل کتاب کے لیئے نرمیاںتھیں کیونکہ قرآن میںعیسیٰ اَور موسیٰ کا ذِکر آیا ہے۔ ذِکر تو ہمارا بھی ہے لیکن مسلمانوں کے نزدِیک ہم کافر تھے۔اِس لیئے ہمارے آباؤ اجداد نے دَسویں صدی عیسویں میں ہندوستان کا رُخ کیا۔ ہم لوگ اِیرانی تھے اَور ہندوستان میں اِیران کو فارس کے نام سے جانا تھا۔فارس سے پارس ہوا اَور ہم لوگ پارسیوں کے نام سے جانے جانے لگے‘‘۔۔۔۔۔۔۔اُنہوں نے تھوڑے سے توقف کے ساتھ اَپنی گفتگو جاری رَکھتے ہوئے کہا،’’ہمیں چار سو سال لگے دَوبارہ اَپنی جڑیں مضبوط کرنے میں۔ پھر اَنگریزوں کی مدد سے ہم لوگ مالی طور پے مستحکم ہوگئے۔ آپ کو پتا ہے کہ انگریز اَپنے اِقدار کو قائم کرنے کے لیئے divide and rule (توڑو اور حکوت کرو)کا حربہ اِستعمال کرتے ہیں۔ اُنہوں نے یہاں بھی اِسی بات کا فائدہ اُٹھایا۔ اَنگریزوں نے ہماری خوب مالی اِعانت کی جس سے پارسی مالی طور پے خوب مستحکم ہوگئے۔ پارسیوں نے ہندوستان میں گجراتی زبان اَپنا لی۔ اَب وہ مالی طور پے اِتنے مضبوط اَور مستحکم ہیں کہ اِیران میں موجود پارسیوں کی مالی اِعانت کرتے ہیں۔بانیئِ پاکستان محمد علی جناح نے بھی دَوسری شادی پارسی لڑکی سے کی تھی۔ جس وَجہ سے اُنہیں کانگریس چھوڑنا پڑی۔ کیونکہ پارسیوں نے کانگریس کو چندہ نہ دِینے کی دَھمکی دِی تھی اَور نہرو نہیںچاہتے تھے کہ کانگریس کو اُس وَقت کوئی دَھچکا لگے۔ اُس وَقت کانگریس کو مالی مدد کی سخت ضرورت تھی۔ جناح ،رَتنا بائی کو کسی قیمت پر چھوڑنا نہیں چاہتے تھے۔ بعد میں جناح کی بیٹی ،وِینا جناح نے پارسی لڑکے سے شادی کرلی۔ یہ بات جناح کو پسند نہ آئی۔ پھر اُنہوں نے اَپنی تمام تر توجہ تحریکِ پاکستان کی طرف مبذول کردِی۔وِینا جناح کا بیٹا آج کل اَمریکہ کا شہری ہے‘‘۔
آدم،’’یزدانی صاحب آپ یہ تفصیلا ت اِتنے مفصل طریقے سے کیسے جانتے ہیں‘‘۔
یزدانی،’’پدرِمن! جس طرح پورا عالمِ اِسلام محمد بن قاسم اَور طارق بن زِیاد کے بارے میں جانتا ہے ،بالکل اُسی طرح ہم بھی اَپنی قوم اَور لوگوں کے بارے میںخاطر خواہ تفصیلات جانے کی کوشش کرتے ہیں‘‘۔
آدم،’’یزدانی صاحب، زَرتشت ازم یا پارسی مذہب کے بارے میں کچھ بتانا پسند کریں گے، اَگر آپ کو برا نہ لگے ‘‘۔
یزدانی،’’کیوں نہیںبیٹا، بلکہ مجھے تو خوشی ہوگی۔ بیٹا جب بھی د ُنیا جہالت کے اَندھیروں میں ڈوب جاتی ہے۔اَیسے میں خدا کوئی نا کوئی علم و رَوشنی پھیلانے وَالا بندہ بھیج دِیتا ہے۔ حضرت عیسیٰ کی پیدائش سے پانچ،چھ سو سال پہلے، جب پوری د ُ نیا اِیک دَفعہ پھر گمنامی کے اَندھیروں میں ڈوب گئی تو خدا نے اِیران میں زَرتشت کو پیدا کیا۔ یہ ۶۲۸قبل اَز مسیح کی بات ہے۔ نیپال کے شہر کپل وَستو میں مہاتما گوتما بدھا پیدا ہوا۔ہندوستان میں جین مت کا بانی مہاوِیرہ پیدا ہوا۔چین میں لاؤتزے اَور شنٹو جیسے فلاسفر پیدا ہوئے۔ اَور یونان میں ارسطو،سقراط،بقراط اور اَفلاطون پیدا ہوئے۔ میرا تو بیٹا یہ تجربہ ہے کہ ہر پانچ سو سال بعد کوئی نا کوئی اَیسا بندا ضرور پیدا ہوتا ہے جو مزید روشنی دِکھا کر چلا جاتا ہے۔عیسٰی کی پیدائش۔ اُس کے پانچ سو سال بعد آپ کے پیغمبر محمد ؐ کی پیدائش‘‘۔
آدم،’’لیکن د ُ نیا کے سچے اَور آخری نبی تو محمدؐ ہی ہیں‘‘۔
یزدانی،’’بیٹا آپ بالکل ٹھیک کہتے ہیں۔ اَگر آپ کسی یہودی سے پوچھیں گے تو وہ اَپنے مذھب کو سچا کہے گا۔ اَگر کسی عیسائی سے پوچھیں گے تو وہ آپ کو قائل کردِے گا ۔ اَگر آپ ہندو سے پوچھیں گے تو وہ یہی کہے گا کہ ہم لوگ سئورگ میں جائیں گے باقی سب نرگ میں جائیں گے۔لیکن میرے نزدِیک سچا اَور کھرا اِنسان وہ ہے جو اَچھا اِنسان ہے اَور اَچھے اِنسان کی تعریف یہ ہے جس کا اَندر باہر،ظاہر باطن اِیک جیسا ہو۔ اَگر اِیک جیسا نہ بھی ہو لیکن اِس میں اِتنا میلا ن ہو کہ اَگر وہ آئینہ دِیکھے تو اُسے شرمندگی نہ اُٹھانی پڑے۔اَب جنت دَوزخ کو ہی لے لو۔ہندو اِسے سئورگ و نرگ کے نام سے جانتے ہیں۔اَنگریز اِسے ہیل اینڈ ہیون کہتے ہیں۔اطالویinferno,paradiso(انفیرنو، پارادیسو) کہتے ہیں۔ بہشت و جہنم یہ سب نیکی و بدی کی تشبیہات و اِستعارات ہیں۔ و ُہی
Gilgemesh and Aenkaido
لگیمش اَور اَینکیدو) وَالی کہانی ہے۔ نیکی اَور بدی والی‘‘۔
آدم،’’ یہ گِل۔۔۔۔۔۔۔گ۔۔ مش۔۔، اَین۔۔ کے ۔۔دَو۔۔ کیا چیز ہے‘‘؟
یزدانی،’’آدم بیٹا یہ د ُ نیا کی پہلی لکھی جانے وَالی اَدبی تخلیق تصور کی جاتی ہے۔ یہ مختلف تختیوں پر لکھی گئی
تھی۔ جس کا ترجمہ آکسفورڈ یونیورسٹی کے ماہرِلسانیات اَور مستند پروفیسر نے کیا ہے۔یہ کہانی بھی سچ اَور جھوٹ ،نیک و بد کے بارے میں ہے‘‘۔
آدم،’’یہ کس زبان میں لکھی گئی ہے‘‘۔
یزدانی،’’یہ کسی مروجہ زبان میں نہیں لکھی گئی۔ بلکہ کونائی میںلکھی گئی ہے۔یہ
زبان اَسیریوں اَور بابل کے لوگوں میں عام تھی اِسے وَیج فورم یعنی تکونوں وَالی زبان بھی کہتے ہیں‘‘۔
آدم،’’تو آپ کے نزدیک د ُ نیا میں نیک و بد کی جنگ جاری ہے‘‘۔
یزدانی،’’بالکل درست فرمایا آپ نے، اِس کے ساتھ ساتھ ہر اِنسان اِیک دَوسرے پے سبقت لے جانے کی کوشش کر رَہا ہے۔ اِس کے لیئے وہ کبھی مذہب کا سہارالیتا ہے، کبھی قوم کا،کبھی قبیلوں کا، کبھی فرقہ وَاریت کا۔و ُ ہی اِنسانی جبلت۔ جو پتھر کے دَور کے اِنسان میں تھی۔ آج کل بھی بالکل اُس طرح کا اَنداز ہے۔ بس ذَرائع اِبلاغ نے تھوڑا جدید کر دِیا ہے۔ اَور اِسے تہذیب کا نام دِے دِیا گیا ہے۔ وَرنہ اَب بھی ،جس کی لاٹھی اُس کی بھینس وَالی بات ہے‘‘۔
یزدانی صاحب کافی دِیر سے بول رَہے تھے اِس لیئے اُنہوں نے موضوع بدلنے کے لیئے آدم سے سوال کر ڈالا،’ ’بیٹا آپ نے بتایا نہیںآپ کیا کرتے ہیں‘‘؟
آدم،’جی مَیں فلاسفی میں ماسٹرز کررَہا ہوں۔ مَیں اَور میرا دَوست داؤد ترکی ، سیر کرنے جارَہے ہیں۔پندرہ دِن کا قیام ہے‘‘۔
یزدانی،’’تو اِیران کی سیاحت نہیں کرنی‘‘؟
آدم،’’وَاپسی پر اِیک ہفتے کے لیئے اِیران بھی رُکیںگے۔ ہمارا اِرادہ زِیارتیں کرنے کا بھی ہے‘‘۔
یزدانی،’’یہ کڑا کس لیئے پہن رَکھا ہے۔ آپ شیعہ مسلک سے تعلق رَکھتے ہیں‘‘۔
آدم،’’جی نہیں، یہ میرے دَوست داؤد نے کہا تھا کہ پہن لو۔ اِیران میں شیعوں کی تعداد زیادہ ہے۔ وَرنہ مَیں تو سنی ہوں۔ لیکن یہاں آکر پتا چلا کہ اِیران بالکل مختلف ہے۔ اِیرانی لوگ تو بہت ملنسار ہیں اَور خاص کر پاکستانیوں کے ساتھ ۔ مجھ پر تو اِیران کا بڑا اَچھا تاثر قائم ہوا ہے‘‘۔
یزدانی،’’ترکی میں آپ لوگوں کو کوئی دِقت نہیں ہوگی۔ و ُہاں کے لوگ بھی بڑے ملنسار اَور اِنسان دَوست ہیں۔اِستنبول میں تھوڑا بہت مسئلہ ہوتا ہے۔ لیکن اَیسا کوئی خاص مسئلہ بھی نہیںہوتا۔ آپ لوگ قونیاء بھی جائیں گے۔ مولانا جلاالدین رومی کا مقبرے پر۔یاد آیا ہاگیہ صوفیہ ضرور دِیکھئے گا۔ بڑا اَچھا عجائب گھر ہے‘‘۔
آدم،’’جی یہ تو سوچا نہیںکہ اِستنبول کے علاوہ کہاں کہاں جانا ہے۔ میرا دَوست داؤد زیادہ بہتر جانتا ہے۔ وہ ترکی کی سیاحت پہلے بھی کرچکا ہے‘‘۔
یزدانی،’’اَچھا بیٹا ۔۔اَب تھوڑا سا آپ بھی آرام کرلیں اَور مَیںبھی، دِیکھو۔۔۔۔۔یہ لوگ کتنے مزے سے سورَہے ہیں‘‘۔
٭
صبح سویرے سارے مسافر اُٹھے۔ اِیران اَور ترکی کی کسٹم اَور امیگریشن چوکی آچکی تھی۔اِن تمام مراحل سے فارغ ہونے کے بعد تمام مسافر اَپنی اَپنی نشستوں پر آکر بیٹھ گئے۔ اَور بس پھر چل پڑی۔ بس نے ترکی دَاخل ہونے کے بعد پہلا پڑاؤ کیا۔ سب لوگ ناشتہ کرنے کے لیئے اُترے۔داؤد اَور آدم بھی۔یزدانی صاحب بھی اَپنی مادام اَور نقاب پوش محترمہ کے ساتھ اُترے۔ داؤد کی یہی کوشش تھی کہ کسی طرح اُس محترمہ کا چہرہ دِیکھ لے۔یزدانی صاحب نے کہا، ’’آپ لوگ ہمارے ساتھ ہی ناشتہ کیجئے۔وَیسے تو اَب ہم سب ہی اِیک نئے ملک کے مہمان ہیں۔ ترکی میں لوگ سانس لیتے ہیں،اِیران میں نہیں‘‘۔ ناشتے کے لیئے یہ سب لوگ اِیک جگہ جاکر بیٹھ گئے۔ اَبھی چند ساعتیں ہی گزری ہونگی کہ وہ نقاب پوش محترمہ ، یزدانی صاحب کی بیٹی اُٹھی اَور فارسی میں کچھ کہہ کر چلی گئی۔
یزدانی،’’بیٹا داؤد آپ کیا کرتے ہیں‘‘۔
داؤد ہونقوں کی طرح دِیکھ رَہاتھا کہ یہ بابا اُردو کیسے جانتا ہے۔ خیر داؤد نے جواب دِیا،’’جی مَیں کاروبار کرتا ہوں‘‘۔
یزدانی،’’کیا کاروبار کرتے ہیں‘‘۔
داؤد،’’اِمپورٹ اَینڈ اَیکسپورٹ‘‘۔
آدم اِس کی شکل دِیکھنے لگا، پہلے یونیورسٹی کا طالب علم بنا ہوا تھا۔ اَب کاروباری آدمی بن گیا تھا۔وہ دَونوں ساتھ ساتھ تھے۔ اِس لیئے اِس کی بات کا پاس رَکھنے کے لیئے چپ رَہنا تھا۔
اَبھی وہ یہی بات چیت کر ہی رَہے تھے کہ دَوسری طرف سے اِیک نہایت ہی خوبصورت لڑکی آتی دِکھائی دِی۔ نیلی جینز ،آدھی بازوؤںوَالی کالی ٹی شرٹ۔سر تا پا خوبصورت تھی۔ سراپائِ حسن تھی۔ عمر یہی کوئی اٹھارہ یا بیس کے لگ بھگ ہوگی۔ یزدانی صاحب اَور اُن کی بیگم خاموش تماشائی بنے یہ تماشہ دِیکھ رَہے تھے۔آدم اَور داؤد اُس لڑکی کو اِس طرح دِیکھ رَہے تھے جیسے ٹی وی پے کوئی مذہبی پروگرام چل رَہا ہو اَور ٹرانسمیشن کے دَوران کوئی گانا چل پڑے۔
یزدانی،’’تو کیا دَرآمد اَور کیا برآمد کرتے ہیں آپ‘‘؟
داود بغلیں جھانکنے لگا۔زَنخو کی طرح اَپنے پیروں کی طرف دِیکھنے لگا کہ کیا کہے۔یزدانی صاحب بول پڑے،’’ملبوسات کا کام کرتے ہوں گے‘‘۔
داؤد،’ ’جی جی‘‘۔
اِسی اَثناء وہ حسینہ آکر کے اِن کے بیچ بیٹھ گئی اَور یزدانی صاحب اِن دَونوں سے اُس کا تعارف کروانے لگے،’ ’یہ ہماری بیٹی ہے۔ چونکہ اِیران اِیک اِسلامی ملک ہے۔ اِس لیئے ہمیں اِس کی اَقدار کا پاس رَکھنا پڑتا ہے۔مَیں حب الوطن ہوں۔ہمارے آباؤاَجداد تو صدیوں سے اِیران میں رَہ رَہے ہیں۔ ہمارا بچہ بچہ اِیرانی ہے۔ بیٹی اِن سے ملو،’ ’یہ ہیں آدم اَور یہ داؤد‘‘ ۔۔۔’’اَور یہ میری بیٹی مہ جبین قزلباش یزدانی۔ یہ تہران یونیورسٹی برائے آثارِقدیمہ میں آرکیالوجی میں ماسٹرز کررَہی ہیں۔اِسی کے لیئے تو ہم لوگ یہاں آئے ہیں۔ آ تو خود بھی سکتی تھی لیکن ہم نے سوچا اِسی بہانے ہم بوڑھے بھی قونیاء ، اَنقرہ اَور اِستنبول دِیکھ لیں گے‘‘۔
مہ جبین نے ہاتھ ملانے کے لیئے ہاتھ آگے بڑھایا تو دَونوں جھینپ گئے کیونکہ پاکستان میں عورتوں اَور نامحرموں سے ہاتھ ملانے کا رِواج نہیں۔ یزدانی صاحب بول پڑے،’’اَرے مَیں بتانا بھول ہی گیا،آدم صاحب کہ مہ جبیں کو فرانسیسی اَور اَنگریزی زبان بھی آتی ہے۔ اُردو تھوڑی بہت، وہ بھی مَیں نے سکھائی ہے‘‘۔
آدم نے کہا،”Vous parlez françiase?” (آپ فرانسیسی بولتے ہیں)
مہ جبین، "Oui bien sur” (جی بالکل)
آدم، "C’est trés bien” (یہ تو بہت اَچھی بات ہے)
مہ جبین ” "Oui, l’anglaise, un petit peu(جی ، ۔۔۔اَور اَنگریزی تھوڑی بہت)
آدم، "Je parle bien l’anglais que française” (مَیں فرانسیسی کے مقابلے میں اَنگریزی زبان زیادہ اَچھی بولتا ہوں)
مہ جبین، "Et vous…………Vous travail ou vous etes etudiant” (اَور آپ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیا آپ کام کرتے ہیں یا طالب علم ہیں)
آدم، "Je suis etudiant, how you say philosophy in French”(جی میں طالب علم ہوں،آپ فلاسفی کو فرنچ میں کیا کہئے گا)
مہ جبین J’ai compri, vous aimez ecrivans française?” (جی میں سمجھ گئی، کیا آپ کو فرنچ مصنفوں سے لگاؤ ہے)
آدم، Oui, j’aim beaucoup , par example, Maupassant, Zola, Stendhall” (جی بہت، مثال کے طور پے موپاساں،زولا،ستاندال)
مہ جبین، "Mais, les autres, come Voltaire, Rosseau, Descarte et Montagne, parce-que vous etudiez philosophie” (اور دوسرے،جیسا کہ وولتیغ، غوسو، دیکاخت، مونتائین، کیونکہ آپ فلسفے کے طالب علم ہیں)
آدم، "Pour moi, les mieulleurs sont Voltaire et Rosseau” (میرے خیا ل میں، سب سے بہتر ہیں وولتیغ اور غوسو)
مہ جبین، "C’est trés bien, l’anne prochaine, j’irai au Paris pour mes etudes de l’archéologie pour deux aneé (یہ تو بہت اچھی بات ہے۔اگلے سال میں پیرس جاؤنگا۔ اپنی آثارِ قدیمہ کی پڑھائی کے لیئے دوسال کے لیئے)
آدم، "Moi aussi, je voudrais aller la bas pour apprendre la langue et civilisation française” (میں بھی۔میں بھی وہاں جانا چوہوں گا۔فرنچ زبان اور تہذیب کو سیکھنے کے لیئے)
مہ جبین، "Et votre ami, lui, il est etudiant aussi?” (اور آپ کا دوست، وہ ، وہ بھی طالب علم ہے)
آدم ، ” No! il est business man, excusez moi , parce-que j’oblie beaucoup des motes, parce-que tut les jeunes parlon l’Ourdu et l’Anglais en Pakistan” (نہیں۔ یہ کاروبار کرتا ہے۔معاف کیجئے گا، کیونکہ میں بہت سے فرانسیسی کے لفظ بھول گیا ہوں۔ کیونکہ پاکستان میں سارے لوگ اردو بولتے ہیں)
مہ جبین، "Pas da problem, c’est normale” (کوئی مسئلہ نہیں۔ یہ عام بھی سی بات ہے)
یزدانی صاحب نے گفتگو میں شامل ہوتے ہوئے آدم کو مخاطب کیا،’ ’آدم صاحب ،آپ تو بڑے چھپے رُستم نکلے، آپ کو تو اَچھی بھلی فرانسیسی آتی ہے‘‘۔
آدم،’ ’مہ جبین بتا رَہی ہے کہ وہ اَگلے سال پیرس جارَہی ہیں۔ کہاں ٹھہریںگی‘‘؟
یزدانی،’’یہ اَپنے منگیتر کے پاس ٹھہرے گی۔ وہ اُوریئنٹل زُبانوں میں ڈاکٹریٹ کررَہا ہے۔اِنقلابِ اِیران کے بعد بہت سے زَرتشتی اَور عیسائی دَوسرے ممالک میں ہجرت کر گئے۔ میرے دَاماد کے وَالدین بھی فرانس چلے گئے تھے۔ وَیسے بھی آپ کے جن رَہنماؤں نے تحریکِ پاکستان میںحصہ لیا ، سب اِنگلستان سے پڑھ کر آئے تھے۔ بالکل اِسی طرح ہمارے رَہنما بھی فرانس سے پڑھ کر آتے ہیں‘‘۔ داؤد نے جیسے ہی منگیتر وَالی بات سنی اُس کی چائے کی پَتی کی تھیلی اُچھل کر مہ جبین کی گود میں جا گری۔ وہ چمچ سے دَبا کر اُس کا رَس نکال رَہا تھا۔ مہ جبین نے جھٹ سے پانی ڈالا تانکہ چائے کا دَاغ نہ پڑجائے۔
آدم، "Je suis vraiment desole” (میں صحیح معنوں میں معذرت خواہ ہوں)
مہ جبین، "no, no c’etait un accident” (نہیں، نہیں ۔۔۔۔یہ محض اِیک حادثہ تھا)
داؤد کو بھی بڑی شرمندگی ہوئی۔ وہ سارے رَاستے ترکیبیں سوچتا رَہا کہ کس طرح اِس کا چہرہ دِیکھے گا اَور جب دِیکھ چکا تو دِماغ میں کئی قسم کے خیالی پلاؤ تیار کرنے لگا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ اِس سے بات چیت کرے گا لیکن زبان اِس کے آڑے آتی تھی۔اِس کے برعکس آدم پر دَاماد وَالی بات کا کوئی اَثر نہ ہوا۔ گفتگو کے دَوران وہ اِتنا محو ہو گیا ،اُسے اِس بات کا اِحساس ہی نہ ہواکہ مہ جبین اِیک خوبصورت لڑکی ہے۔ ویسے بھی وہ جن تعلیمی اِدَارَوں میں پڑھا تھا و ُہاں مخلوط تعلیم تھی ۔آلیانس فغاسیز، یعنی فرانسیسی کلچرل سنٹر)کاماحول بالکل آزاد تھا۔اِس کے لیئے یہ کوئی نئی بات نہ تھی۔
٭
بس اَنقرہ آکر رُکی ۔ بہت سے مسافر اُترگئے۔ یزدانی صاحب بھی اَپنی بیگم اَور بیٹی کے ساتھ اُتر گئے۔ جاتے جاتے کہنے لگے،’ ’اَچھا ۔۔۔۔۔آدم صاحب اَور داؤد صاحب، ہم لوگ اِجازت چاہیں گے کیونکہ اَنقرہ سے ہم لوگ قونیا جائیں گے، قونیا سے اِستنبول اَور پھر وَاپس اِیران۔ آپ لوگ بھی تو وَاپسی پر اِیران رُکیںگے۔ ہمارا پتہ لکھ لیجئے‘‘۔
آدم ، داؤد کو مخاطب کرتے ہوئے کہنے لگا، ’’یار قلم دِینا‘‘ ۔
اِس سے پہلے کے داؤد قلم تھماتا، مہ جبین نے قلم پیش کر دِیا اَور آدم نے merci (میغسی ،شکریہ)کہہ کر قلم تھام لیا اَور پتہ لکھنے لگا۔
یزدانی صاحب پتہ لکھوا کر بولے، ’’بیٹا آپ لوگوں سے مل کر بہت خوشی ہوئی۔ اَگر وَاپسی پر آپ نے ہمیں میزبانی کا موقع دِیا تو ہمیں بہت خوشی ہوگی۔ مَیںجانتا ہوں ہم لوگ مسلمان نہیں لیکن تہذیب و اِخلاقیات میں آپ ہمیں کسی طرح بھی کم نہیں پائیں گے‘‘ ۔
آدم کہنے لگا ، ’’نہیں۔۔۔۔۔۔۔نہیںیزدانی صاحب اَیسی کوئی بات نہیں‘‘۔
آدم جانتا تھا کہ اِنہوںں نے وَاپس نہیں آنا تھا۔مہ جبین نے بھی’’ aurevoir! abientot ‘‘ (آغووا، ابی آنتو، یعنی پھر ملیں گے جلدی )کہا اَور وہ لوگ چلتے بنے۔آدم سوچوں میں گم ہوگیا۔
داؤد نے آدم کا کندھا پکڑ کر جھنجھوڑا،’ ’چلو بس نکل جائے گی، یار تم بھی کمال کے آدمی ہو اِتنی جلدی گھل مل جاتے ہو‘‘۔
تو آدم نے کہا،’ ’تم بھی بات چیت کیا کرو‘‘۔
’’یار مجھے زبان نہیں آتی، کم اَز کم اَنگریزی ہی سیکھ لیتا‘‘۔
آدم،’ ’وَیسے داؤدا َگر بر ا نہ مناؤ تو ایک بات پوچھو، تم نے تعلیم اَدھوری کیوں چھوڑ دِی۔ کم اَز کم میٹرک تو کرلیتے‘‘۔
داؤد،’’بس یار کیا بتاؤں۔ سکول سے جب گھر وَاپس آتا تو چھوٹی چھوٹی باتوں پے اَماباوا کو لڑتے دِیکھتا۔ ہم چھ بہن بھائی ہیں۔ جب پاکستان بنا تو ہمارے دادا ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان آگئے۔ راولپنڈی ، لال کرتی کے علاقے میں اِن کا کوئی عزیز تھا ، اُسی کے پاس آکر ٹھہرے اَور یہیں کے ہوکر رَہ گئے۔ تمہیں تو پتا ہے لال کرتی کا ما حول پورے راولپنڈی شہر سے علیحدہ ہی طرح کا ہے۔ اَیسا لگتا ہے، کراچی کے کسی علاقے میں گھوم رَہے ہوں۔ پان، کھانے پینے کی اَشیاء،کَٹ(اِیک خاص قسم کی چائے جو ہندوستان میں پی جاتی ہے۔ بِنااُبال دِیئے، پہلے ہی اُتار لی جاتی ہے۔اِس لیئے اِسے کَٹ کہتے ہیں۔یعنی آپ پکنے کے عمل کو رَوک دِیتے ہیں۔کَٹ کردِیتے ہیں) اَور لڑکے بالے بھی اُسی طرح بانکے اَور منحنی۔ ہمارے دادا نے بڑی دَوڑ دَھوپ کے بعد لال کرتی میں اِیک مکان الاٹ کروایا۔اَیم اَے جی ،ملٹری آکاؤنٹس جنرل آفس میں ،آفس کلرک تھے۔ اُس وَقت گزارا ہوجاتا ہوگا۔
پھر میری پھوپھو کی شادی کے بعد چھوٹے چچا نے مکان پر قبضہ کرلیا اَور ہمیں بے دَخل کردِیا۔ میرے وَالد نے تمام مسائل کو اَپنا فرض سمجھ کر اَپنا لیا۔ اُن کی بھی تعلیم وَاجبی سی ہے۔ اَصل سہرا میری ماں کے سر ہے۔ جب میرے وَالد صاحب نے لال کرتی میں آلو چھولے بیچنے شروع کیئے تو بڑی مشکل سے گزارا ہوتا تھا۔لیکن آہستہ آہستہ کام چل نکلا۔ میرے دادا کو یہ کام پسند نہیں۔ لیکن اِس کے علاوہ کوئی اَور رَاستہ بھی تو نہیں تھا۔میرے وَالد نہ صرف پورے گھر کا خرچ چلاتے ہیںبلکہ دادا دادی یعنی اَپنے ماں باپ کو بھی ساتھ رَکھا ہوا ہے۔ اِن کی کوشش تھی کہ مَیں رِیڑھی لگالوں، لیکن مَیں نے بچپن میں ہی یہ بات ٹھان لی تھی کہ یورپ جاؤں گا، پیسہ کماؤں گا، رِیڑھی نہیں لگاؤںگا۔
میرے چھوٹے بہن بھائی سکول جاتے ہیں۔ دَو بہنیں کالج میں پڑھتی ہیں۔ بڑی باجی کی شادِی ہوچکی ہے اَور باقی تینوں چھوٹے ہیں۔ میرے اَبا اَب بھی بچے پیدا کرتے ہیں، کہتے ہیں رَوزی اَور رِزق تو خدا کے ہاتھ میں ہے۔اَگر مَیں یورپ میں سَیٹ ہوگیا تواَبا کو کہوں گا ،رِیڑھی لگانی بند کردِیں۔ وَیسے میرے اَبا ہیں بڑے کنجوس۔ کسی کو اِیک پیسہ نہیں دِیتے۔ آجکل وہ اِسی دُھن میں ہیں کہ مکان خرید لیں۔ مجھے اُنہوں نے اِیک پیسہ بھی نہیں دِیا۔ مَیں پہلے بھی نقصان کرچکا ہوں۔ وہ کہتے ہیں، اِن پیسوں سے پگڑی پے کوئی اَڈا لے کر کوئی جگہ لے کر، دَھی بڑھوں کی رِیڑھی لگا لیتے۔ یہ پیسے مجھے اَماں نے دِیئے ہیں۔ اَبا، اُن کو جو خرچہ دِیتے ہیں،اُس میں سے بچا تی رَہتی ہیں۔ مَیں تو اَپنے اَبا سے اِتنا ڈرتا ہوںکہ اُن کے سامنے بیٹھ کے کھانا بھی نہیں کھاتا‘‘۔ آدم نے ٹوکا، ’’لیکن تم کپڑے توبڑے اَچھے پہنتے ہو‘‘۔
تو داؤد نے اَپنی بات جاری رَکھتے ہوئے کہا،’’یہ سب لنڈے کا کمال ہے۔ پنڈی کے جتنے بھی بابو ہیں، اُن کی سفید پوشی کا بھرم اَنور شاہ اَینڈ سنز نے رَکھا ہوا ہے۔ پنڈی میںاَگر
کوئی جینز پہنے کوئی لڑکا دِیکھو تو اُسے رَوک کے پوچھ لینا، اَنور شاہ کدھر ہے ۔ وہ تمھیں بتائے گا‘‘۔
آدم کہنے لگا،’ ’مَیں بھی و ُ ہاں سے جینز خریدتا ہوں۔مجھے پتا ہے‘‘۔
’ ’بس آدم د ُ عا کرومجھے یورپ جانے کا میں کامیابی نصیب ہوجائے، اَپنے چچا کو بتاؤں گا۔اْنہیں کچھ بن کر بتاؤں گا۔ تمھیں پتا ہے مَیں اَپنے چچا کی بیٹی کو پسند کرتا ہوں۔ اَلطاف چچا کی بیٹی کو۔ وہ کالج میں
پڑھتی ہے۔ بڑی ماڈرن ہے۔ اَنگریزی بولتی ہے۔ ناک پے مکھی نہیں بیٹھنے دِیتی۔ لیکن مَیں بھی اُسی سے شادی کرونگا۔ پہلے مَیں اَپنی بہنوں کی شادِیاں کرونگا۔پھر اَپنے چھوٹے بھائیوں کو کاروبار کرواؤں گا‘ ‘۔آدم نے لقمہ دِیا،’’دَہی بھلے وَالا‘‘۔ داؤد نے جھلا کے کہا،’’اَرے نہیں یار، کوئی اَچھا سا اَور اَمی اَبو کو کہوں گا ، وہ آرام کریں اَور اُنہیں حج بھی کرواؤں گا۔ تمہیںتصویر دِکھاؤں،اَپنی کزن کی۔ ببلی نام ہے۔بالکل رِیکھا جیسی ہے‘‘۔ آدم نے تصویر دِیکھی اَور کوئی تاثرات یہ پیش کیئے نہ ہی کوئی تبصرہ کیا۔
’’کیوں اَچھی ہے نا۔اِس کا باپ کہتا ہے ، وہ اَپنی بیٹی کی شادی کسی آرمی افسر سے کرے گا۔ مَیں دِیکھوں گا کیسے کرتا ہے۔ جب مَیں بہت سا پیسہ کماؤں گا تو خود ہی مان جائے گا‘‘۔ آدم نے کہا،’ ’اَور تمھارے اَمی اَبو‘‘۔
’’وہ بھی مان ہی جائیں گے‘‘ داؤد نے جواب دِیا۔تو آدم نے پھر چھیڑنے کے اَنداز میں کہا،’ ’وہ تو پڑھ لکھ جائے گی اَور تم نان میٹرک‘‘۔
تو داؤد نے کہا،’ ’اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جب میرے پاس پیسہ ہوگا تو مَیںپڑھے لکھے لوگوںکو ملازم رَکھوں گا۔سمجھے، پیسے میں بڑی طاقت ہوتی ہے۔ اَب تم خود ہی بتاؤ ، دَھی بھلے بیچ کر بھلا مَیں اَپنے خواب پورے کرسکتا تھا‘‘۔
٭