(Last Updated On: )
ہم محبّت کے خرابوں کے مکیں
وقت کے طولِ المناک کے پروردہ ہیں
ایک تاریک ازل، نورِ ابد سے خالی!
ہم جو صدیوں سے چلے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ ساحل پایا
اپنی تہذیب کی پا کوبی کا حاصل پایا!
ہم محبّت کے نہاں خانوں میں بسنے والے
اپنی پا مالی کے افسانوں پہ ہنسنے والے
ہم سمجھتے ہیں نشانِ سرِ منزل پایا!
ہم محبّت کے خرابوں کے مکیں
کنجِ ماضی میں ہیں باراں زدہ طائر کی طرح آسودہ،
اور کبھی فتنۂ نا گاہ سے ڈر کر چونکیں
تو رہیں سدِّ نگہ نیند کے بھاری پردے
ہم محبّت کے خرابوں کے مکیں!
ایسے تاریک خرابے کہ جہاں
دور سے تیز پلٹ جائیں ضیا کے آہو
ایک، بس ایک، صدا گونجتی ہو
شبِ آلام کی “یا ہو! یا ہو!”
ہم محبّت کے خرابوں کے مکیں
ریگِ دیروز میں خوابوں کے شجر بوتے رہے
سایہ نا پید تھا، سایے کی تمنّا کے تلے سوتے رہے!