رضیہ فصیح احمد(امریکہ)
عدو تو حیلے بہانوں سے وار کرتے رہے
ہم اپنے تیر و تبر ہی شمار کرتے رہے
بڑا تھا جرمِ ضعیفی جو ہم نے اوڑھ لیا
اسی پہ زیست کا دار و مدار کرتے رہے
اسی کو دوست سمجھتے رہے جو دوست نہ تھا
یہی خطا تھی جسے بار بار کرتے رہے
ترے مزاج سے واقف تھے ہم مگر پھر بھی
ہمارا ظرف، ترا اعتبار کرتے رہے
جسے قلق ہی نہیں ترکِ آشنائی کا
ہم اپنی جان بھی اس پر نثار کرتے رہے
ہماری نعشوں کے انبار بے وقار رہے
وہ ایک زخم بڑھا کر ہزار کرتے رہے
ہم اپنی آخری سانسوں سے بھی الجھتے ہوئے
ہوائے تازہ ترا انتظار کرتے رہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فلک پہ فجر کا ہر لفظ مجھ کو پڑھنا تھا
سنہری حرف میں اقرا لکھا جو دیکھا تھا
یہ میری سوچ کادنیا میں رضیہؔ ثمرہ تھا
جھلستی ریت میں پاؤں تھے سر میں سوداتھا
کسی نگاہ کاسایامجھے بچاتاتھا
وہ ایک ابر کا ٹکڑا سا سر پہ چھایا تھا
سنہری شام سی بکھری ہو، ایسا چہرا تھا
وہ غم نصیب نہیں تھا ، اداس رہتا تھا
سہاگنوں کو دعائیں ملیں تو نسبت سے
کہ ایک شخص کے ہونے سے ان کا درجہ تھا
مہین سوئی کے مانند کہ دکھائی نہ دے
چبھن میں سوچئے کانٹا سا ایک رشتہ تھا
وفا کا شہر سمجھتے رہے تھے ہم جس کو
وہاں تو رضیہ زمانے سے حشر برپا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دل تو ہے ایک مگر درد کے خانے ہیں بہت
اس لئے مجھ کو بھی رونے کے بہانے ہیں بہت
اب نئے دوست بنانے کی تو ہمّت ہی نہیں
دل سے نزدیک ہیں جو دوست پرانے ہیں بہت
دل سکوں پائے جہاں ایسے بسیرے کتنے
یوں تو کہیے کہ مسافر کوٹھکانے ہیں بہت
در کبھی خواب کا کھلتا ہے عذابوں کی طرف
یہ نہ کہیے کہ سبھی خواب سہانے ہیں بہت
کون سی بات کریں کس سے بچائیں پہلو
جو کبھی ختم نہ ہوں ایسے فسانے ہیں بہت
رضیہ کیا کام ہمیں گنجِ گراں مایہ سے
ہم سے لوگوں کے لئے شعر خزانے ہیں بہت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اک صحیفہ نیا اترا ہے سنا ہے لوگو
مارنا دوست کا بھی جس میں روا ہے لوگو
ہم نے جو کچھ نہ کیا، اس کی سزا بھی پائی
اور وہ جو بھی کرے سب ہی روا ہے لوگو
ظلم کی حد ہے جہاں ختم، وہاں پر وہ ہے
ڈھونڈ لو اس کو، یہی اس کا پتہ ہے لوگو
دل میں اک شعلۂ امید تھا سو سرد ہوا
چاند ماتھے کا مرے کب کا بجھا ہے لوگو
جس کو تم کہتے ہو خوش بخت، سدا ہے مظلوم
جینا ہر دور میں عورت کا خطا ہے لوگو
دیکھئے زخم کا کیا حال ہوا ہے رضیہ
آج تو درد مرا حد سے سوا ہے لوگو