“سماهر سماهر۔ اٹهو جلدی کرو اٹهو”
ایشال نے زور زور سے اسے ہلاتے ہوۓ کہا
ادهر سماهر جو گہری نیند میں ڈوبی خواب خرگوش کے مزے لے رہی تهی اسطرح اسکے هلانے پہ ہڑبڑا کر اٹهی
“اللہ خیر کیا هوا”
“جلدی ریڈی هوجا شاہ زر بھیا آ رہے ہیں”
ایکسیائیٹمنٹ سے بولی
“وہ تو روزانہ ہی آتے هیں اس میں تیار ہونے والی کیا بات ہے”
وہ حیران تهی
“یار ایک تو تیرے یہ سوال۔۔ آج ہم سب شاپنگ پہ جا رہے ہیں وہ بهی شاہ زر بھیا کے خرچے پہ”
ایشال مزے سے بولی اور سماهر اچهل پڑی
“سچی۔۔۔۔ ویسے یہ مہربانی کس خوشی میں”
“انکا کوئی پراجیکٹ تها جو کہ کمپلیٹ ہوگیا هے اور انکو کروڑوں کا فائدہ هوا هے اس خوشی میں”
“ارے واہ پهر تو ٹریٹ بهی بنتی ہے باس”
“تو یہیں بیٹهی بیٹهی ٹریٹ اور شاپنگ کر لینا میں تو چلی”
هارن کی آواز پہ وہ چونکی
جبکہ سماهر نے بجلی کی سرعت سے بیڈ سے چهلانگ لگائی اور الماری سے کپڑے نکال کر واش روم کا رخ کیا
۔۔۔
“شاہ زر بهائی ان چڑیلوں کو پہلے ہی چهوڑ گئے تهے کیا؟”
گاڑی میں فرنٹ سیٹ پہ بیٹهی وہ شاہ زر سے مخاطب تهی اشارہ ایشال اور منال کی طرف تها
“بھیا دیکهو ذرا آپکی اتنیپیاری بہنوں کو چڑیل بول رہی ہے”
ایشال نے دهائی دی جبکہ منال نے بهی تائید کی جبکہ برابر بیٹهی ایمان مسکرائی
“سماهر بری بات”
شاہ زر بولا
“اچها بهئی سوری حسین و جمیل دوشیزاوں کو آپ چهوڑ کے گئے تهے”
“نہیں شاہ زیب نے ڈراپ کیا تها”
ڈرائیونگ کرتا بولا
“اچها”
“ویسے دس از ناٹ فیئر سماهر آپی آپ همیشہ فرنٹ سیٹ سنبهال لیتی ہو اور ہم بے چارے پهر پیچهے رہ جاتے ہیں”
منال دکهی شکل بنا کر بولی
“کوئی بات نہیں ڈئیر سسٹر پهر کبهی”
وہ شان بے نیازی سے بولی
“بھیا آپ بولو نا کچھ”
ایشال بهی بولی
“بهئی میں کیا بولوں تم لوگ خود ہی ہنڈل کرو اپنا میٹر مجهے ڈرائیونگ کرنے دو”
شاہ زر نے اپنا دامن جهاڑا
“هاں سارے رعب بس ہم پہ هوتے هیں آپ کے ہمیشہ آپ اسی کی سائیڈ لیتے ہو”
ایشال منہ پهلا کر بولی
“ہاں تو میں پہلے بہن بنی ہوں تم لوگ بعد میں آۓ ہو نا تو پہلی بہن کا زیادہ حق ہوتا ہے”
وہ چڑانے کے انداز میں بولی
“آپ بہن کہاں ہو کزن ہو آپی”
منال بولی
“شاہ زر بهائی آپ بتاؤ میں آپکی کیا ہوں”
شاہ زر کی طرف دیکهکر بولی
“میری کیوٹ سی بہن هو اور تم دونوں تنگ مت کرو اسے”
“ہآۓ اللہ بهائی بهائی نہ رہا”
ایشال گنگنائی تو سبھی ہنس”شاہ زر بهائی شاہ زیب کیوں نہیں آیا ہمارے ساتھ”
سماهر نے پوچها اور شاہ زیب کے ذکر پہ چپ چاپ بیٹهی ایمان کا حلق تک کڑوا هوگیا
“وہ آۓ گا تهوڑا سا کام تها تو بس وہ ختم کرکے همیں وهیں جوائن کرے گا”
شاہ زر نے اطلاع دی
“اونہہ۔۔۔۔ چپکو کہیں کا کبهی انجواۓ نہیں کرنے دےگا اکیلے”
ایمان دل هی دل میں بڑبڑائی
۔۔۔
فیضان صاحب شہر کے جانے مانے بزنس مین تهے
فیضان صاحب اور نجمہ بیگم کی دو پیاری بیٹیاں سماهر اور ایمان تهی سماهر بڑی جبکہ ایمان اس سے دو سال چهوٹی تهی اللہ پاک نے فیضان صاحب کو اولاد نرینہ نے محروم رکها تها ایک سال پہلے سماهر گریجویشن کرچکی تهی جبکہ ایمان گریجویشن کے لاسٹ ائیر میں تهی چاروں کے علاوہ گهر میں فیضان صاحب کی والدہ رضیہ بیگم بهی رهتی تهیں پانچ نفوس پہ مشتمل یہ گهرانہ بہت خوش تها
جبکہ دوسری طرف سارہ بیگم کی فیملی تهی سارہ بیگم کے چار بچے تهے سب سے بڑا شاہ زر تها جو کہ اپنے فادر کا بزنس کامیابی سے رن کر رہا تها اس سے چهوٹا شاہ زیب تها جو کہ شاہ زر کے ساتھ هی بزنس میں ہیلپ کرتا تها تیسرے نمبر پہ ایشال تهی جو کہ شاہ زیب سے ایک سال چهوٹی تهی سب سے آخر میں منال تهی جو کہ میڑک کی سٹوڈنٹ تهیسارہ بیگم فیضان صاحب کی بڑی بہن تهی دونوں بہن بهائی ایک ہی شہر میں رہتے تهے گهر زیادہ دور نہ تها اس وجہ سے دونوں کے بچوں کا بچپن سے هی آنا جانا تها دو سال پہلے سارہ بیگم کے شوہر احمد کا ہارٹ اٹیک کے باعث انتقال ہوگیا تها
انکی وفات کے بعد فیضان صاحب نے هر طرح سے اپنی بہن کا خیال رکها
رضیہ بیگم بهی گاهے بگاهے اپنی بیٹی کے گهر جاتی رہتی تهیں
۔% % % % %
“واہ جی اج تو بڑے بڑے لوگ نظر آ رهے هیں”
شاہ زیب نے ایمان کے پاس آکر سرگوشی کی
دوسری طرف ایمان جو پوری دلجعمی سے شاپنگ میں مصروف تهی ایک دم چونکی
“اففف اللہ۔۔۔۔ ڈرا دیا مجهے۔۔۔ اور آپ یہاں بڑے لوگوں میں کیا کر رهے هیں”
دوبارہ سے شاپنگ کیطرف متوجہ هوگئی تهی
“بهئی میں نے سوچا شاید کوئی ہیلپ وغیرہ چاہیے هو میری”
اور ایمان نے گهوم کر اسے دیکها
ڈارک براؤن ڈریس میں بازو فولڈ کئے آنکهوں پہ کالا چیشمہ لگاۓ ہاتھ سینے کے گرد لپیٹے وہ اسے دیکھ رها تها
“ایسے مت دیکهو میرا دل بے قابو هو رها هے”
شاہ زیب ہاتھ سے دل سنبهالتا ہوا بولا
“چلیں پکڑیں اسے اور فولو می”
دو بهاری شاپنگ بیگ اسے پکڑاتے هوۓ شان بے نیازی سے آگے بڑھی
“یا اللہ اس میں پتهر بهرے هوۓ هیں کیا”شاہ زیب نے دهائی دی
“آپکو بہت شوق هے نا هیلپ کرنے کا تو اب اچهی طرح سے مدد کریں نا”
اور پهر ایمان نے اسے اچهی طرح خوار بهی کیا اور جیب بهی هلکی کی جبکہ وہ بیچارہ دهائیاں دیتا رہ گیا
۔
۔
“اج بہت مزہ آیا قسم سے پهپهو اتنی ساری شاپنگ کی”
سماهر اور ایمان نے سارہ بیگم کے گلے میں بانہیں ڈالتے هوۓ کہا
“ہاں اور مجهے کنگال کر دیا مما”
شاہ زیب ایمان کو دیکهتے هوۓ بولا
“کیا ہوگیا زیب جو بہنوں پہ خرچ کرلیا تو اللہ کا دیا اتنا کچھ تو ہے”
سارہ بیگم بولیں
“نہیں نہیں مما میں نے بالکل بہنوں پہ خرچ نہیں کیا”
جلدی سے بولا جبکہ ایمان نے گهور کر دیکها اور سماهر کیساتھ سارہ بیگم بهی حیران هوئیں
“تو پهر ”
سارہ بیگم سنجیدگی سے بولیں
“مما کہاں ہو بهوک لگ رہی هے”
ایشال اور منال بهی آ گئیں
“هاں بچوں تم لوگ بیٹهو میں کهانا بناتی هوں جب تک”
“ارے پهپهو آپ بیٹهیں میں بناتی هوں”
سماهر اٹهتے هوۓ بولی
“میں بهی مدد کروا دیتی ہوں”
ایمان بهی اسکے ساتھ کھسک گئی
“ہاں بیٹا جی تو کیا فرما رهے تهے آپ”
ان دونوں کے جانے کے بعد سارہ بیگم شاہ زیب کی جانب متوجہ ہوئیں
“کچھ نہیں مما بس ایسے هی”
خجل سا هوا
“اچها چلو مت بتاؤ تمهاراهی نقصان هوگا مجهے کیا”
وہ اٹهنے لگیں تبهی شاہ زیب نے انہیں ہاتھ سے پکڑ کر پهر بیٹها لیا اور وہ مسکراتے هوۓ بیٹھ گئیں
“وہ مما۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آپ جانتی هیں نا میں ایمان کو پسند۔ ۔ ۔ ۔”
دانستہ بات ادهوری چهوڑ دی
“اچها جی تو میرا بیٹا بڑا هوگیا هے هاں اکیلے اکیلے پسند بهی کرلی”
اسکا کان کهنچتے هوۓ پیار سے بولیں
“مما پلیز نا آپ بات کریں نا ماموں جان سے”
لاڈ سے بولا
“هاں بابا کرو گی بات بهی اتنے بے صبرے نہ بنو”
سارہ بیگم کو دونوں بیٹوں سے بہت پیار تها دونوں کی خوشی کا انہوں نے ہمیشہ خیال رکها تها
شاہ زر شادی کے نام سے هی نجانے کیوں دور بهاگتا تها سارہ بیگم اسے کہہ کہہ کر تهک چکی تهیں مگر اسکے کان پہ جوں تک نہ رینگی
اب جب شاہ زیب نے اپنی پسند کا اظہار کیا تها تو انہوں نے اسکی پسند پہ اپنی رضا کی مہر لگا دی تهی اور وہ جلد هی اس سلسلے میں اپنی ماں اور بهائی بهابی سے بات کرنے والی تهیں
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...