پورا کمرہ اپنی مثال آپ تھا ۔ہر چیز نفاست سے رکھی ہوئ تھی لیکن سجاوٹ کے نام پر کچھ نا تھا۔
وہ نظریں جھکائے بیٹھی ہوئی تھی۔اسے کسی اچھے کی امید نا تھی لیکن وہ اپنے رب کی رحمت سے مایوس بھی نا تھی۔آج اسے شدت سے اپنے ماں باپ کی یاد آ رہی تھی۔
وہ اپنی سوچوں میں گم تھی جب کمرے کا دروازہ کھلنے کی آواز پر وہ سیدھی ہو کر بیٹھ گئی۔
زور سے دروازہ بند ہونے کی آواز پر ایک لمحے کے لیئے اس کا دل لرزا تھا۔
ابھی تک ایسے ہی بیٹھی ہو۔تمھیں کیا لگا تھا میں آؤ گا اور تمھاری خوبصورتی کے قصیدے پڑھوں گا۔تم اس لائق بھی نھیں ہو کہ میں ایک نظر تمھیں دیکھوں بھی۔
ہونھہ۔۔۔۔۔۔۔
اپنے آنسوں اندر دھکیلتی وہ منہ پر فقل ڈالے بیٹھی تھی۔
جواب تو وہ بھی دے سکتی تھی لیکن اسے پتا تھا کہ بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
ویسے تم سے بڑی بے شرم میں نے اپنی زندگی میں نھیں دیکھی اتنا کچھ سنے کے باوجود ڈھیٹ بن کر بیٹھی ہوئی ہو۔ چلو اٹھو یہاں سے۔
اسکا بازو دبوچتے ہوئے اسنے اسے کھڑا کیا۔
وہ نازو سے پلی کو کہاں سختی کی عادت تھی۔
آنسوں چھپاتی وہ اپنا بھاری جوڑا اٹھاتی واشروم کی جانب بڑھی۔
آنسوں اسکی آنکھوں سی روا تھے لیکن کسے پرواہ تھی۔
وضو کر کے جب وہ باہر نکلی تو کمرے کی لائٹ بند تھی۔
اور وہ اسکی ذات کی نفی کر کے بڑے مزے سے سو رہا تھا۔
کیسے نیند آ جاتی ہے ان لوگوں کو یا رب
جو دوسرے کی نیندیں حرام کر رکھتے ہیں
نظر گھما کر جب اس نے صوفے کی جانب دیکھا تو وہاں ایک تکیہ رکھا ہوا تھا جس کا صاف مطلب تھا کہ اسکی جگہ اس کمرے میں کہاں ہے۔
جائے نماز بچھا کر اس نے نماز ادا کی اور جب دعا کے لیئے ہاتھ اٹھائے تو اسے سمجھ ہی نھیں آیا کہ کیا مانگے ۔
دل نے شکوہ کرنا چاہا لیکن اسنے فورا دل کو ڈبٹا۔
نہیں یا اللہ میں آپ سے کوئی شکوہ نھیں کروں گی کیونکہ مجھے کوئ حق نھیں۔۔میں جانتی ہوں بے شک آپ نے میرے لیئے کچھ بہتر ہی سوچا ہوگا۔بس میرے مالک مجھے ہر مشکل صبر و تحمل سے برداشت کرنے کی توفیق عطا فرمائیے گا۔
آنسوں صاف کر کے وہ صوفے کی جانب بڑھ گئ اور سونے کی کوشش کرنے لگی لیکن نیند اسکی آنکھوں سے کوسوں دور تھی
رضا ہے جو تیری میں اس میں راضی ہوں
خطا ہے کیا میری میں اس سے غافل ہوں
بس ایک تیرا ہی آسرا ہے یا خدایا
کیونکہ میں بھت کمزور سی بندی ہوں(نیہا ملک)
********************¬***
ہاں برخودار کیا یہ صحیح کہ رہی ہے۔
ان کے لحجے میں غصہ نہیں لیکن افسوس ضرور تھا۔
سب لوگ چہرہ جھکائے اپنی مسکراہٹ چھپا رہے تھے لیکن وہ بڑے مزے سے دونوں ھاتھوں پر چہرہ رکھے سعد کی کلاس لگتی دیکھ رہی تھی۔
ج۔جی ڈید۔لیکن میں پکا والا پرامس کرتا ہو اگلی دفع میں پورے مارکس لونگا۔
سعد نے نظریں جھکائے جواب دیا۔
ڈیڈ آپکو یاد تو ھوگا کہ بھائی نے پچھلی دفع بھی ٹیسٹ میں کم مارکس آنے پر یہی کہا تھا۔
نور نے معصومیت کے سارے ریکارڈ توڑتے ہوئے کہا۔
نور کی بات سن کر سعد نے اسے ایسے دیکھا جیسے کہ رہا ہو کہ اب بچ کر دکھانا۔
دیکھیں ڈیڈ سعد بھائ مجھے کیسے گھور رہے ہیں۔میں نے تو صرف آپکو سچ ہی تو بتایا تھا کہ اس دفع بھی سعد بھائ ٹیسٹ میں فیل ہوگئے ہیں۔
واہ نور بیسٹ ایکٹنگ کا ایوارڈ تو تجھے ہی جاتا ہے۔ چھا گئ میری چیتی۔
نور نے دل ہی دل میں اپنے آپ کو داد دی۔
اسلام و علیکم۔۔۔۔
اس سے پہلے رفیق صاحب کچھ کہتے نایاب نے آکر سب کو سلام کیا۔
واعلیکم السلام۔۔۔۔۔۔۔
کیسا ہے میرا بچا اور کیسا گزرا یونی میں دن۔
رفیق صاحب نے پوچھا۔
جی چاچو میں بھی ٹھیک ہوں اور دن بھی اچھا گزرا۔
نایاب نے بیٹھتے ھوئے کہا۔
تو برخودار کیا کہ رہا تھا میں۔۔۔۔۔
رفیق صاحب دوبارہ سعد کی طرف متوجہ ہوگئے تھے۔
نایاب نے آنکھوں ہی آنکھوں میں سعد سے معاملہ پوچھا۔
سعد نے رفیق صاحب کے ہاتھ میں پکڑے ٹیسٹ پیپر کی طرف اشارہ کیا اور ایک منٹ لگا تھا نایاب کو بات سمجھنے میں۔
کیا ہوا چاچو؟
نایاب نے گلا کھنگارتے ہوئے کہا۔
ہونا کیا ہے آپی موصوف پھر فیل ہوگئے ہیں۔
نور نے جواب دیا۔
نایاب نے نتبیہ کرتی نظروں سے نور کو گھورا اور پھر رفیق صاحب کی متوجہ ہوئ۔
چاچو وہ دراصل سعد کی کوئ غلطی نھیں ہے وہ تو ٹیسٹ یاد کر ہی رہا تھا لیکن اس کے سر میں بھت درد ہو رہا تھا اس لیے میں نے ہی اسے کہا تھا کہ آرام کر لیں آخر صحت سے بڑھ کر تو کچھ نھیں ہوتا نا۔
نایاب نے سعد کو بچانے کے لیئے کہا۔
ہاں چلو ٹھیک ہے لیکن اگلی دفع سعد مجھے کوئ شکایت نہیں ملنی چاہیے۔اب میں چلتا ہوں میٹنگ کے لیئے دیر ہو رہی ہے۔
یہ کہ کر رفیق صاحب چلے گئے۔
بھئ آج تو مزہ آگیا۔
نور سعد کو آنکھ مار کر وہاں سے چلی گئ۔
********************¬¬¬*******
امیییی۔۔۔۔۔۔۔
بچاؤ۔۔۔
پورے گھر میں نور کی آواز گونج رہی تھی۔
ابو کے سامنے تو بڑی زبان چل رہی تھی اب کیوں بھیگی بلی بنی ہوئ ہو۔
سعد اس کے پیچھے بیٹ لیئے بھاگ رہا تھا۔
ہاں تو تم نے ہی مجھے مجبور کیا تھا یہ سب کرنے کے لیئے۔
نور کے الزام پر وہ عش عش کر اٹھا۔
میں نے کیا کیا؟
سعد نے حیرانی سے کہا۔
کس نے کہا تھا میری ساری چاکلیٹس کھانے کے لیئے۔
نور نے دونوں ہاتھ کمر پر رکھتے ہوئے کہا۔
کیاااا۔۔۔۔اتنی سی بات کا تم نے اتنا بڑا بدلہ لیا۔
سعد کا صدمہ کسی صورت کم نھیں ہو رہا تھا۔
ہاں میں نے تو پہلے ہی کہا تھا نور سے پنگا از نوٹ چنگا۔
نور نے فرضی کالر جھاڑے۔
آج میں تمھیں بتاؤ گا کہ سعد سے پنگا از آلسو نوٹ چنگا۔
یہ کہ کر سعد نے پھر نور کی طرف قدم بڑھا دیئے۔
نور اپنی جان بچانے کے لیئے بھاگی لیکن کسی سے زور دار ٹکر کی وجہ سے وہ گرتے گرتے بچی۔
نور نے جب سامنے دیکھا تو سامنے موجود بندے کو دیکھ کر اس کے حسین چہرے پر ناگواری آ گئ۔
اسلام و علیکم۔۔۔۔۔
ارسلان نے مسکراہ کر کہا۔
نور کو دیکھ کر اسکے وجیہہ چہرے پر مسکراہٹ بکھر گئ تھی۔
واعلیکم السلام۔۔۔۔۔
منہ بنا کر نور جانے لگی۔
“نفرتوں کے ہجوم میں ہم یہ بھی بھول گئے کہ
کسی سے مسکرا کر بات کرنا بھی صدقہ ہے”
ارسلان نے ہلکی آواز میں کہا لیکن اسکی آواز اتنی بھی ہلکی نا تھی کہ نور سن نا سکتی۔
ارسلان کی بات سن کر وہ سر جھٹک کر چلی گئ اور وہ افسوس سے اس کی پشت کو دیکھتا رہا۔
***************************************
یوسف ہمدانی کی تین اولادیں تھیں۔
پہلی بیٹی زاہرہ ہمدانی، دوسرا بیٹا فیصل ہمدانی اور تیسرا بیٹا رفیق ہمدانی۔۔۔۔۔
زاہرہ بیگم اور عدنان سکندر کا ایک بیٹا تھا ازلان سکندر۔۔۔
فیصل ہمدانی اور عالیا ہمدانی کی ایک بیٹی تھی نایاب ہمدانی…
رفیق ہمدانی اور مائرہ ہمدانی کے دو بچے تھے ،بڑا بیٹا سعد ہمدانی اور اس سے چھوٹی ماہ نور ہمدانی…
———–
نایاب جب دس سال کی تھی تب فیصل صاحب اور عالیا بیگم کا ایک کار ایکسیڈنٹ میں انتقال ہو گیا تھا تب سے رفیق صاحب اور مائرہ بیگم نے اسے اپنی اولاد کی طرح پالا تھا۔
********************¬*********
کیا ہوا موڈ کیوں آف ہے تمھارا۔
نور جب کمرے میں آئی تو نایاب نے پوچھا۔
کچھ نہیں بس ویسے ہی۔
نور نے بات کو ٹالا۔
اچھااا…
نایاب نے اسے جانچتی نظروں سے دیکھا۔
کیا ہے آپی ایسے تو مت دیکھیں اور میں تو بے بتانا ہی بھول گئی خالہ آئی ہوئی ہیں۔
نور نے کہا۔
اب میں سمجھی تمھارا موڈ کیوں بگڑا ہوا ہے۔ویسے مجھے ایک بات سمجھ نھیں آتی ارسلان بھائی سے تمھیں کیا بیڑ ہے ۔بچارے اتنے معصوم سے تو ہیں۔
نایاب نے ہنسی دبائ۔
بس رہنے دیں آپ ،بڑا آیا وہ معصوم خیر پھوپھو کا فون بھی آیا تھا کہ رہی تھیں آج آنے کا۔
نور کی بات سن کر نایاب کے چھرے پر ایک رنگ آیا اور گیا جسے نور نے صاف محسوس کیا۔
اچھا میں کہ رہی تھی کہ………
نور نے بات بدلنی چاہی لیکن موبائل بجنے کی آواز پر اسکی طرف متوجہ ہو گئی۔
سامنے چمکتا نام دیکھ کر نور کے چہرے پر بہت گہری مسکراہٹ بکھر گئ جسے نایاب نے صاف محسوس کیا۔
اچھا آپی میں دو منٹ میں آتی ہوں۔
نور کہتی ہوئ کمرے سے چلی گئ اور نایاب کو سوچنے پر مجبور کر گئ
********************************
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...