(Last Updated On: )
با فتح و ظفر اور اُترنا دریائے شُور کے کَنارے پر۔ آنا جہاز کا، سوار ہونا
یارانِ دَم ساز کا۔ پھر جہاز کی تباہی، باہم کا تَفرِقَہ، معشوقوں کی جُدائی۔ پھر جوگی کا سمجھانا، توتے کا مل جانا، ڈوبتوں کا تِرنا
آشنایانِ بحرِ تقریر و غَوّاصانِ مُحیطِ تحریر، شناوَرانِ شَطِّ اُلفت و غریق لُجَّۂ مَحبّت نے گوہرِ آب دارِ سخن کو سِلکِ گُفتار میں مُنسَلِک کر کے زِیبِ گوشِ سامعِان ذی ہوش اِس طرح کیا ہے کہ بعد فتحِ جنگِ جادو شہپال اور ہاتھ آنے خزانۂ مالا مال کے، دو مہینے تک تفریحاً لشکر نُصرت اثر شب و روز اُس دَشت میں جلوہ اَفروز رہا۔ جب پیر مرد باغ کو تشریف فرما ہوا، جانِ عالم نے کوچ کیا۔ چند مُدّت کے بعد ایک روز خیمہ لبِ دریائے شُور ہوا۔ شہ زادہ معشوقوں سے باہَم، تماشا بحرِ زَخّار و نظّارہ اَمواجِ پیچ دار کا اور سیر دریائے ناپیدا کَنار کی، پانی کا زور، ہَوا سے دریائے شور کا شور، کیفیتِ لَطمَہ و گِرداب دیکھتا تھا، دید دریائی جانوروں کی کرتا تھا۔ نظم:
آب کیسا کہ بحر تھا زَخّار
موج کا ہر کِنایہ طوفاں پر
گُذرِ موج جب نہ تب دیکھا
تُند و مَوّاج و تیرہ و تَہ دار
مارے چشمک حَباب، عُمّاں پر
ساحل اُس کا نہ خشک لب دیکھا
ناگاہ ایک جہاز پُر تکلُّف، بانقش و نگارِ بِسیار صبا وار نَمودار ہوا۔ شہ زادہ سمجھا: کوئی سوداگر کہیں جاتا ہے۔ جب قریب آیا، جہاز کو لنگر کیا اور ناخُدا دَرِ دَولت پر شَرف اَندوز ہو کر عرض کرنے لگا: ہم لوگ ملّاح ہیں؛ یہاں جو شاہ و شہر یار رونق اَفزاہوتا ہے، ہم اُسے دریا کی سیر و شکارِ بحری، جانورِ آبی دکھاتے ہیں۔ مُوافقِ قَدر، جو قسمت میں ہوتا ہے، انعام پاتے ہیں۔ یہ سُن کر خواہشِ سیرِ دریا شہ زادے کے سفینۂ دل میں موج زَن، لَطمَہ پیرا ہوئی، ملکہ سے کہا: چلتی ہو؟ اُس نے عرض کی: ہَنُوز گِردابِ غم، تَلاطُمِ اَندُوہ و اَلَم سے ساحلِ فرحت و طَرَب کی ہَم کِناری مُیسر نہیں ہوئی؛ آپ کو اور لہر آئی، نیا ڈَھکُوسلا سوجھا۔ جانِ عالم نے کہا: دریا کی سیر جی مسرور کرتی ہے، خَفقان دور کرتی ہے۔ طبیعت بَہَل جاتی ہے، لاکھ طرح کی کیفیت نظر آتی ہے۔ تم نے سُنا نہیں قولِ سعدی، مصر؏:
بدریا در مَنافع بے شمار است
دو چار گھڑی دل بہلا چلے آئیں گے، ملّاح محروم نہ رہ جائیں گے۔ ملکہ مہر نگار نے مُتَرَدِّد ہو کر کہا: یہ سب سچ ہے جو آپ نے فرمایا، خَفقان کیسا، تمھارے دشمنوں کو نِرا مالیخولیا ہے، میں نے بار ہا انجمن آرا سے کہا ہے؛ سُو یہ مرض لا دَوا ہے، پانی سے دونا ہوتا ہے۔ اِس کے سِوا، میرے دماغ میں بھی کیا خَلَل ہے؟ میرا دوسرے مصرع پر عَمَل ہے، سعدیؔ:
اگر خواہی سلامت، برکنار است
شہ زادہ بد مزہ ہوا، فرمایا: خیر ہم تو سِڑی ہیں، تنہا جائیں گے؛ تم نہ چلو، بیٹھی رہو، آرام کرو۔ جُدائی کی تاب مَحبّت کے مبتلا کو کہاں ہے، اُلفت کا یہی بڑا امتحاں ہے؛ ناچار اُسی دم ملکہ مہر نگار اُٹھی اورانجمن آرا مع چند خَواص ہمراہ ہوئیں، جہاز پر پہنچیں۔ بادبان کھنچے، پالیں چڑھیں۔ مہر نگار مُضطرِب وار یہ شعر پڑھنے لگی، حزیںؔ:
دریں دریائے بے پایاں، دریں طوفانِ موج افزا
دل افگندیم بِســــمِ اللہِ مَجــْــريْھا و مُرْسٰــــھا
لوگ مصروفِ تماشا، ملکہ غریق بحرِ تفکر، غوطہ زَنِ گردابِ تحیّر، لَطمَۂ اَندُوہ و اَلَم کی آشنا۔ بار بار انجمن آرا سے کہتی تھی: خدا خیر کرے! دشمن نہ ایسی سَیر کرے! بے طَور موجِ اَلَم سر سے گزرتی ہے، خود بہ خود پانی دیکھ کر جان ڈرتی ہے، اللہ حافظ و نگہباں ہے۔ سَراسَر سامانِ بد نظر آتے ہیں، کلیجا خوف سے لَرزاں ہے۔
القصہ، چار گھڑی جہاز نے بادِ مُراد پائی، سَیر دِکھائی، پھر آفت آئی۔ ناخُدا چلّایا، ملّاح ہِراساں ہوئے۔ شہ زادے نے پوچھا: کیا ہے؟ عرض کی: طوفانِ عظیمُ الشّان اُٹھا ہے۔ ابھی یہ ذِکر تھا، ہَوا عالم گیر ہوئی، جہاز تباہی میں آیا، بادبان ٹوٹ گئے، مَستول گِرا؛ ملّاحوں کے چھکّے چھوٹ گئے، سنبھالنے کا مقدور نہیں رہا، آخِرشِ تَلاطُمِ آب، صدمۂ پیچ و تابِ موج سے ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔ کسی کو کسی کی خبر نہ ملی، کون ڈوب گیا، کون جیتا رہا۔ ایک سے دوسرا جُدا ہو گیا۔ جانِ عالم تختے کے سہارے سے ڈوبتا تِرتا، چار پانچ دن میں کنارے لگا۔ جب تکان پانی کی موقوف ہوئی، غش سے آنکھ کھلی، دیکھا: کنارے گیا ہوں، بلکہ گور کے کنارے لگ رہا ہوں۔ بڑی جدّ و کَد سے اُترا، آہستہ آہستہ بیٹھتا اُٹھتا ایک طرف چلا، بستی میں پہنچا۔ وہاں کے باشندے اِس کا چہرہ اور جمال، یہ خراب حال دیکھ کر بہت گھبرائے، قریب آئے، کوئی بولا: یہ پری زاد ہے، مِثلِ سَرو آزاد ہے، چمنِ حُسن و خوبی کا شَمشاد ہے۔ کسی نے کہا: ابھی تو دِن ہے، یہ از قِسمِ جِن ہے۔ غَرض کہ جن جن نے اِسے جِن کہا تھا، پاس آ، کچھ خوف سا کھا اِ س طرح بولے، اُستاد، مصر؏:
کون ہو، کیا ہو، سچ کہو حور ہو یا پری ہو تم
شاہ زادۂ مَصائب دیدہ نے دمِ سرد دلِ سوختہ سے بھر کے، چشمِ خوں بار تَر کر کے اُن لوگوں سے کہا، لا اَعلَم:
حالے دارم چناں کہ دشمن خواہد
جانے دارم کہ فرقتِ تن خواہد
ناکامیٔ خویش را اگر شرح دہم
دشمن بخدا زندگیٔ من خواہد
اَیُّھا النّاس! مَیں گُم کردہ کارواں، جَرس کی طرح نالاں ہوں۔ دل گِرِفتہ، نقشِ پائے یارانِ رفتہ، حُمُق میں گرفتار ہوں، بچھڑوں کا طالِبِ دیدار ہوں۔ غریبِ دیار، بے تاب، دانہ نصیب ہوا نہ آب، مُفارَقَتِ یارانِ چند سے خستہ و خراب۔ ہوش و حواس یک لخت زائِل۔ ضُعف سَدِّ راہ، ناطاقَتی حائل۔ یاروں کی صورت نظر آئی نہیں، دیدۂ دیدار طَلَب میں بینائی نہیں۔ نہ تابِ رفتار، نہ طاقتِ گُفتار۔ مُؤلِّف:
بَسانِ نقشِ پا بیٹھے جہاں، واں سے نہ پھر سَرکے
ٹھکانا پوچھتے ہو کیا بھلا ہم بے ٹھکانوں کا
بہ یادِ دوستاں پہروں مجھے ہچکی لگ آتی ہے
کہیں مذکور جب ہوتا ہے کچھ گزرے فسانوں کا
عَلَم سے آہ کے ثابِت ہوئی غم کی ظَفَر ہم کو
کہ باعِث فتح کا ہوتا ہے، کھل جانا نشانوں کا
چُھڑائے جبر سے پیرِ فلک نے دوست سب میرے
مٹے گا داغ کب دل سے مرے اُن نوجوانوں کا
شرر مُنہ سے نکلتے ہیں سُرورِؔ دلِ حَزیں ہر دم
بھلا دیواں ہو کیوں کر جَمع ہم آتش بیانوں کا
اِس حِکایتِ جاں سُوز، شِکایَتِ چرخِ بے مِہر، غم اَندوز سے سب رُونے لگے، کہا: یہ شاہ زادۂ عالی تَبار ہے؛ اِلّا، دل اَز دست دادہ، محبوبوں سے دور فتادہ، اِس سبب سے دل اَفگار ہے۔ مِنّت و سَماجت سے مکان پر لے گئے۔ ہاتھ مُنہ دُھلوا کھانا پانی حاضر کیا۔ شہ زادۂ جانِ عالم نے آب و طَعام دیکھ رو دیا، یہ کہا، اُستاد:
ہو خاک بھوک کی اُس فاقہ مست کو پھر جھانجھ
جو اپنا خونِ جگر، روز ناشتا سمجھے
خدا جانے میرے بچھڑوں کا کیا حال ہوا! کسی کو دانہ پانی مُیسّر آیا، یا کچھ نہیں پایا! میں بھی نہ کھاؤں گا، بھوکا پیاسا اِسی کُوفت میں مر جاؤں گا۔ وہ بولے:حضرت سلامت! کھانے پینے سے انکار نادانی ہے، اِسی سے بَشَر کی زِندگانی ہے۔ جو جیتے ہو تو کسی روز بچھڑوں سے مل جاؤ گے، وگرنہ غُربت کے مر جانے میں گور و کفن بھی نہ پاؤ گے۔ ناچار سب کے سمجھانے سے، دو ایک نوالے بہ جبر حلق سے اُتارے، پانی جو پِیا، ہاتھ پاؤں سَنسَنائے، پیہم غش آئے۔ جب طبیعت ٹھہری؛ سب حالِ پُر ملال، جہاز کی تباہی، اَنیسانِ ہم راز کی جُدائی، اپنا ڈوبتے اُچھلتے وہاں تک آنا، اَوروں کا پتا نہ پانا بیان کر کے، بہ قولِ میرزا حُسین بیگ صاحِب یہ کہا، بَیت:
ہمر ہاں رفتند و ما ماندیم و دُزداں در کمیں
خانۂ ملّاح در چین است و کشتی در فرنگ
سب تَاَسُّف کرنے لگے۔ ایک شخص نے کہا: یہاں سے دو منزل ایک پہاڑ ہے، کوہِ مطلب بَرآر نام ہے، اُس پر جوگی کا مَقَام ہے؛ مردِ با کمال، شیریں مَقال۔ ہزاروں کوس سے حاجت مند اُس کے پاس جاتے ہیں، سب کے مطلب بَر آتے ہیں۔ بس کہ اُس پر عنایتِ باری ہے، چشمۂ فیض اُس سے جاری ہے۔ مشہور ہے کہ آج تک کوئی شخص محروم، ناکام اُس مَقام سے نہیں پھرا۔ یہ مُژدہ سُن کر چہرے پر بَشاشَت چھا گئی، گئی ہوئی جان اُسی آن بدن میں آ گئی، گھبرا کر یہ شعر پڑھا، حافظؔ:
آنانکہ خاک را بہ نظر کیمیا کنند
آیا بَوَد کہ گوشۂ چشمے بما کنند
اُسی دم چلنے کا عَزم کیا۔ وہ لوگ مانع ہوئے، کہا: ابھی جانے کی طاقت آپ میں آئی نہیں، پاؤں میں راہ چلنے کی تاب و تَوانائی نہیں۔ دو چار روز یہاں آرام کرو۔ قوت آ جائے تو مختار ہو۔ غرض کہ جانِ عالم نے اُن لوگوں کے سمجھانے سے وہاں مُقام کیا۔ عجب پریشانی میں صُبح کو شام کیا کہ گرد وہ سب حلقہ زَن، یہ بہ اَندُوہِ معشوقاں گرفتار رنج و مِحن۔ کبھی تو مَحزوں چُپ رہتا، گاہ مثلِ مجنوں خود بہ خود بکنے لگتا۔ اور جب حَواسِ خَمسَہ دُرُست ہوتے، یہ خَمسَہ پڑھتا، اُستادؔ:
ہر سو خبرِ اُلفت کیا آپ سے پہنچائی
آگے بھی مرے لب پر فریاد کبھی آئی
کیوں مجھ سے بگڑتا ہے او کافرِ تَرسائی
تا داشت دلم طاقت، بودم بہ شکیبائی
چوں کار بجاں آمد، زیں پس من و رُسوائی
گاہے مرے لب پر ہے فریاد، گہے اَفغاں
پیارے! غمِ دوری سے میں سخت ہوں اب نالاں
یہ جائے تَرَحُّم ہے، کر رحم ذرا جاناں
در زاویۂ الفت دور از تو چو مہجوراں
تنہا منم و آہے، آہ از غمِ تنہائی
ہے دن کو تو یہ عالَم ظالم، ترے مجنوں پر
ہیں گرد کھڑے لڑکے، جھولی میں بھرے پتھر
سونے کی کسے فُرصت، اے یار اِسے باوَر کر
شبہا منم و اشکے، وَزخوں ہمہ بالیں تر
عشق ایں ہُنرم فرمود، اَرعیب نفرمائی
اَعضا شِکَنی گاہے، گہ دردِ جگر، دیکھو
رومال بھگوتا ہوں لاکھوں ہی کبھی رُو رُو
گردن زَدَنی ہوں میں، شکوہ کروں تیرا، گو
صد رنج ہمی بینم اے راحتِ جاں از تو
از دیدہ تواں دیدن چیزیکہ تو بنمائی
تھا تاب و تحمل میں یکتا جگرِ خسروؔ
آگے تو نہ بہتی تھی سِلکِ گُہر خسروؔ
تم اب تو نوازشؔ لو چل کر خبرِ خسروؔ
بس دُر کہ ہمی ریزد از چشمِ ترِ خسروؔ
کز دست بروں رفت است سر رشتۂ دانائی
آخِرَش، وہ رات کی رات بہ ہزار عُقوبات تڑپ تڑپ کر سحر کی، نمازِ صُبح کے بعد پہاڑ کی راہ لی۔ چار دن میں ناچار وہ راہ طے کی، پہاڑ پر پہنچا۔ سنگِ سفید کا پہاڑ بہت آب دار، مانِندِ ہمّتِ جواں مردانِ صاف باطن سَر بلند اور مثالِ طبعِ سخنوَراں فَرَح اَفزا و دل پسند۔ دَرَہ ہائے فَراخ کُشادہ، روشن۔ جوشِ نباتات، رُوئیدگیٔ رَیاحین و لالہ زار سے اور خَرُوشِ مُرغانِ خوش اِلحاں سے رشکِ صَد گلشن۔ چشمہ ہائے سرد و شیریں جا بہ جا، فرہاد کی روح کا ٹھیکا۔ ہر قسم کا میوہ دار درخت قدرتِ حق سے اُگا، پھولا پھلا۔ پتھر ہر ایک مَعدنِ لعل۔ پَرِند چَرِند صاحبِ حُسن و جمال۔ یہ سَیر دیکھتا چلا۔ ایک طرف درخت گُنجان، گھنے؛ پختہ مزار بیدار دِلوں کے بنے۔ اور مَنڈھی کا گُنبد بَسانِ گُنبدِ گَرداں، بیسُتوں کا جواب بَنا۔ تِرسول کھڑا، کھارُوِے کے جھنڈے پُھر پُھر اُڑتے، کلمۂ شہادت بہ خَطِ جَلی اُس پر لکھا صاف معلوم ہوا۔
جب اُ س کے نزدیک آیا؛ دور دور تک مکان صاف، صحن شَفّاف پایا۔ مَٹھ کے رو بہ رو درخت کے تلے چبوترے کے اوپر ایک جوگی، سَو سَوا سَے برس کا سِن و سال، مگر ٹانٹھا کمال۔ ڈاڑھی ناف سے بڑی، گرہ لگی۔ جَٹا ہر ایک راکھ سے بھری، قدم بُوس ہو رہی، پاؤں پر پڑی۔ پلکیں دیدۂ حق بیں کا اَسرار چھپانے کو، چشمِ حاسد کی گزند بچانے کو موچھوں سے مِلیں۔ جسم میں موجِ دریا کی طرح جُھرّیاں پڑیں۔ کمر میں کَردَھنی مُوٹی سی مَہین بان کی، عجب آن بان کی۔ کھارُوِے کا لنگوٹ سَترِ عَورَتَین کی اُوٹ۔ گلے میں محمودی کی کفنی، سامنے گریبان پھٹا، کارِ سُوزنی، سر پوشیدہ نہیں، کھلا، حُقّہ چَوگانی مُنہ سے لگا۔ اَفیونِیوں کی شکل بنائے، شیر کی کھال بچھائے، بھبوت رَمائے، دید وا دید سے بہ ظاہر آنکھیں بند، مگر دیدۂ دل کھلا۔ خموشی پسند قَلبِ گویا بولتا۔ سوتا نہ جاگتا، آسَن مارے، دُنیا سے کَنارے خُدا جانے کس پینَک میں بیٹھا۔ پیٹ پیٹھ سے لگا۔ تیر سا قَدِ راست مثلِ کماں خَمیدَہ، گویا چِلَّہ کھینچ چکا ہے۔ زُنّار آسا رَگیں عَیاں۔ کھال سے ہڈّیوں کے جُوڑ شمع فانوس نَمَط نُمایاں۔ تسبیح سلیمانی، ایمان کی نشانی ہاتھ میں۔ “ہَر بھجُو، ہَر بھجُو” تکیہ کلام بات میں۔ قَشقَہ، ٹیکا ماتھے پر ہندوؤں کا، اور سجدے کا گھٹّا بَدرِ کامل کی صورت چمکتا۔ زرد مِٹی بدن میں، ذِکرِ حق دل و دَہَن میں۔ کہیں مُصلّے پر سُبحَہ و سجدہ گاہ رکھی، کپڑے کی جا نماز بچھی۔ کسی جا پوتھی کھلی، دھونی رَمی؛ دونوں سے راہ رکھی۔ عجب رنگ کا انسان، خُلاصہ یہ کہ ہندو نہ مسلمان، بہ قولِ مرزا سوداؔ:
کس کی مِلّت میں گِنوں آپ کو، بتلا اے شیخ!
تو کہے گَبر مجھے؛ گبر، مسلماں مجھ کو
ایک طرف تکیے میں دو چار کیاریاں، بیلے چنبیلی کی بہار، گُل کاریاں۔ کہیں مُرشِدوں کے ڈھیر، گُرو کی چھتری، بزرگوں کے مزار؛ اُن پر مَولسِری کے درخت سایہ دار قَطار قَطار۔ درختوں کی ٹہنیوں میں پنجرے لٹکتے، جانور باہم بحث کرتے، اَٹکتے۔ فاختہ کی کو کو، قُمری کی حَق سِرَّہ، کوکلا کے دَم، سَنّاٹے کا عالم۔ کہیں مِرگ چھالا بِچھا، شیر چَوکی دیتا، دھونی لگی، لکّڑ سُلگتا۔ کسی جا بَبَر کی کھال کا بِسترا، آہوئے صحرائی اُس پر بیٹھا؛ اُداسا، تُونبا، بے مِنَّتا دَھرا۔ ایک سمت بھوانی کا مٹھ، تُلسی کا پیڑ ہرا بھرا، گرد چشمہ پانی کا بھرا۔ جائے دل چسپ، مکانِ رُعب دار، گُلِ خُود رو کی جُدا بہار۔ ایک طرف بھنڈارا جاری، کڑھاو چڑھا، موہن بُھوگ ملتا۔ کہیں پُلاؤ،قَلیے کی تیاری، چھاندا بَٹ رہا تھا۔ کچھ مہنت بالکے، کچھ مُرید حال قال کے، کوئی چِلّے میں بیٹھا، کوئی دُنیا سے ہاتھ اُٹھائے کھڑا۔ کسی کے خِرقَہ و تاج سَر و تَن میں، کوئی چَواَگَن میں۔ کہیں کَتھا ہوتی، کوئی وعظ کہہ رہا۔ ایک طرف خنجری بجتی، تَنبورا چِھڑتا، بھجن ہوتے۔ ایک سمت حلقہ مراقبے کا بندھا، توجُّہ پڑ رہی، لوگ روتے۔ عجیب وہ گُرو مُرشِد، غریب یہ مُرید چیلے۔ روز ایک دو کو مونڈتا۔ تیسرے چوتھے دن عُرس، ہر ہفتے میں میلے۔ حاصِلِ کلام یہ کہ وہ عجب جلسہ تھا کہ دیکھا نہ سُنا۔ یہ اِجتماعِ نقیضیَن آرام و چَین سے۔
شہ زادے کے پاؤں کی آہَٹ جو پائی؛ مردِ آگاہ دل، روشن ضمیر نے پلک ہاتھ سے اُٹھائی، آنکھ مِلائی۔ دیدے لال لال چَڑھے پُر رُعب و جلال۔ جانِ عالم کو بہ غَور دیکھا۔ اِس نے جھک کر مُؤدَّب سلام کیا۔ اُس خوش تقریر، شیریں مَقال نے کہا: بھلا ہو بچہ! بڑی مصیبت فلک نے دکھائی جو یہ صورت یہاں تک آئی۔ آؤ بیٹھو، گُرو بھلا کرے۔ مُرشِد کی دُعا سے حق، حاجت روا کرے۔ ہم تمھارے امانت دار ہیں؛ سواری کھڑی ہے، چلنے کو تیار ہیں۔
جانِ عالم متحیر تو ہو رہا تھا، زیادہ حیران ہوا کہ یہ کیا اَسرار ہے۔ پاس جا بیٹھا۔ جوگی اُٹھا، چشمے میں جا کر نہایا۔ گیروا چادرا پھینک، سفید اُوڑھ، عِطر لگا، جانِ عالم کے نزدیک آ، یہ نکتہ زبان پر لایا: بابا! ایک دن ذوق شوق کے عالَم میں ہمارےمُرشِد گُرو نے تیرے حال سے خبر دی تھی کہ ایک شہ زادے کا جہاز تباہ ہو جائے گا، وہ بہ سراغِ مطلب یہاں آئے گا؛ اُس کا کام تجھ سے، تیرا کام اُس کے سامنے پورا ہو جائے گا۔
اِس بات کے سُننے سے شہ زادے کو نہایت مَسرّت ہوئی، کہا: جوگی جی! تمھارے نام سے میری زندگی ہوئی؛ وگرنہ دو چار دن میں گرِیبانِ صبر چاک ہو جاتا، میں سر پٹک کر ہلاک ہو جاتا۔ خوب صورتی کا بھی عجب مزہ ہے، جہان اِس کا شیدا ہے۔ عالَم کو مَرغوب ہے، طرح دار سب کا محبوب ہے۔ پیر فقیر، غریب امیر سب کو عزیز ہے۔ اِس کا خواہش مند ہر با تمیز ہے۔ جوگی سمجھانے لگا کہ یہ اِضطراب عالمِ اسباب میں بیجا ہے۔ دیر آید، دُرست آید۔ بابا! دُنیاکا یہ نقشہ ہے: کسی شَے کو ایک وَضع پر دو گھڑی ثَبات و قرار نہیں۔ اس کی نَیرنگی کا اِعتبار نہیں۔ گاہ خوشی، کبھی غم؛ یہ دونو ں اَمر باہم ہیں۔ کبھی وصل کی شام کو دل کیسا بَشّاش ہوتا ہے، کبھی ہجر کی صبح کو کلیجا پاش پاش ہوتا ہے۔ ایک شب بستر پر لذّتِ ہَم کناری ہے۔ ایک روز پہلو تہی، گریہ و زاری ہے۔ کبھی شبِ وصل کیا کیا اِختلاط ہوتے ہیں۔ گاہ فَصل کے دن سر پیٹتے ہیں، روتے ہیں۔ آدمی جب رنج سے گھبرائے اور غمِ مُفارقتِ دوست جان ہونٹوں پر لائے؛ دل کو یہ تسکین دے کر بہلائے، مصر؏:
چناں نماند و چنیں نیز ہم نخواہد ماند
مصر؏:
در پسِ ہر گریہ، آخر خندہ ایست
مصحفیؔ:
زِندگی ہے تو خِزاں کے بھی گزر جائیں گے دن
فصلِ گُل جیتوں کو پھر اگلے برس آئے گی
جو وصل میں راحت و آرام پاتا ہے؛ وہی ہجر کے دُکھ، قَلَق اُٹھاتا ہے۔ تو نے اُن دونوں بھائی، جو تَواَم پیدا ہوئے تھے، اُ ن کا قصّہ سُنا نہیں، کہ پہلے اُنھوں نے کیا کیا صعوبَت اُٹھائی، پھر ایک نے سلطنت پائی، دوسرے کے ہاتھ شہ زادی آئی۔ جانِ عالم نے کہا: اِرشاد ہو، کیوں کر ہے؟