لائف
لائف اپارٹمنٹس اوراُس کے آس پاس کی دوسری کالونیوں میں پانی کی سپلائی مکمل طورپر روک دی گی۔ جل بورڈ والوں نے پانی کے ٹینکروہاں لے جا کر کھڑےکر دیے مگراتنے بڑے رقبے میں پانی کے محض دو ٹینکر ناکافی تھے۔ وہ اپنے اپنے برتن اور بالٹیاں لیے ہوئے ٹینکر کے سامنے قطار بنا کر کھڑےہو گئے مگر یہ قطارانسانوں کی تھی چیونٹیوں کی نہیں کہ زیادہ دیر برقرار رہتی۔ اس لیے ایک گھنٹے کے اندر ہی وہاں حشرکا ساماں برپا ہوگیا۔ وہ قطاریں توڑ کر ٹینکر کی ٹونٹیوں پر جھپٹنے لگے۔ وہ ایک دوسرے کو دھکے دے رہے تھے۔ گالیاں بک رہے تھے۔ عورتیں تو بری طرح شورمچا رہی تھیں۔ کسی نے کسی کے سر پر بالٹی دے ماری۔ کوئی زمین پر گرپڑا تھا اوراُس کی بالٹی ٹوٹ گئی تھی۔ آہستہ آہستہ زیادہ تر کی بالٹیان اُلٹ گئیں۔ صرف نچلی منزل پر رہنے والے اپنی بالٹیوں کو حفاظت کے ساتھ لے جانے میں کامیاب ہوئے۔ زمین پر کیچڑ اور پھسلن ہو گئی تھی۔ اس افراتفری میں وہ پھسل پھسل کر گرنے لگے۔ چوٹیں کھانے لگے۔ اُن کے گھٹنوں اور کہنیوں سے خون نکلنے لگا۔
سب سے بڑی مصبیت اُن بوڑھوں کی تھی جو اکیلےرہتے تھے۔ اُنھیں پانی کی ایک بوند بھی نہ مل سکی۔ کالونیوں میں رہنے والےکچھ زیادہ ہی صاحبِ حیثیت لوگوں نے آرڈر دے کر منرل واٹر کے جار اور بولتیں منگوانا شروع کردیں۔ دودن بعد یہ ہوا کہ کئی منرل واٹر کمپنیوں نے اِدھر آکر وقتی طورپر کیمپ لگائے اوراپنی اپنی ایجنسیاں کھول لیں۔ آپس میں مقابلہ آرائی شروع ہو گئی۔ کولڈ ڈرنگ بنانے والی کمپنیاں بھی اس دوڑ میں کیوں پیچھے رہتیں۔ آخر کولڈڈرنک میں پانی تو ہوتا ہی ہے۔ اس وقت تو اگروہاں خون بھی فروخت کیا جاتا تو وہ بھی کم پڑجاتا۔ خون میں بھی آخر پانی تو ہے ہی۔ کولڈ ڈرنک کے مختلف برانڈوں کے اشتہارات دیواروں پر چسپاں نظرآنے لگے۔ جس میں فلم اسٹاروں اور کھلاڑیوں کی، ایسی تصویریں نظرآنے لگیں جن میں وہ ایک خاص برانڈ کی بوتل منھ میں لگائے ہوئے نروان حاصل کررہے تھے۔
آندھی کو پتہ نہیں کس نے اپنی جھاڑو سے کاٹ دیا تھا کہ وہ اپنے پیلے غبار کے ساتھ یہیں رُکی کھڑی تھی۔ اس شدید حبس اور گرمی سے اور پیاس سے تڑپتے ہوئے، کالونی کے باشندوں کو کولڈڈرنک کی کتنی ضرورت ہوگی اوراُن کے بچے کتنے خوش ہوئے ہوں گے، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔
کمپنیاں تین ہی دن میں مالا مال ہو گئیں۔ اُنھیں سپلائی دینا مشکل ہوگیا۔ دوسرے شہروں سے پانی کی بوتلیں اور کولڈڈرنک لادے ہوئے چھوٹے ٹرک ہر وقت آتے جاتے دکھائی دینے لگے۔ مگران ٹرکوں کے ساتھ ساتھ ان اطراف میں ایمبولینسوں کی تعداد بھی بڑھ رہی تھی۔ تقریباً ہر فلیٹ سے کوئی نہ کوئی، روز ہی اسٹریچر پہ لیٹا ہوا ورایمبولینس میں ڈال کر لے جایا جاتا ہوا نظرآنے لگا۔
مگردنیا اتنی بلیک اوروہائٹ نہیں ہے کہ سکھ اور دُکھ کے راستے آسانی سے الگ الگ پہچانے جاسکیں۔ جہاں یہ دونوں دھارائیں ملتی ہیں وہاں ایک نیلا بونڈ رہے جس کے پار دیکھا نہیں جا سکتا۔ دنیا اتفاق سے رنگین ہے۔ رنگ ہمیشہ مخمصے میں ڈالتے ہیں۔ اس لیے دنیا معمہ ہے۔
چنگی کے الیکشن قریب آرہے تھے۔ سیاسی پارٹیوں نے اپنی تگ و دوشروع کردی۔ ہر پارٹی کا اُمیدوار اس بیمار علاقے کے مسیحا کے روپ میں سامنے آنے کی کوشش کرنے لگا۔ ہرپارٹی کے کارکن حکام کے دفتروں کے سامنے دھرنا دے کر بیتھ گئے اورپانی پانی کے نعرے لگانے لگے۔ ٹیلی وژن والوں کی بھی چاندی ہو گئی تھی۔اُنھیں کچھ اور نہیں ملا تو وہ ماضی میں پھیلنے والی وباؤں کی تاریخ دہرانے لگے۔ مثلاً کالی موت اور پلیگ کس کس زمانے میں پھیلے تھے اور کتنی اموات ہوئی تھیں۔ اسپینی انفلوئینزا نے کب اور کتنے لوگوں کو ہلاک کیا تھا۔ چیچک نے کیا قیامت ڈھائی تھی اورسب سے بڑھ کر کالرانے اورپھر پرندوں اور سُوروں میں پھیلنے والے فلو وغیرہ وغیرہ۔ وہ یہ بھی اطلاع فراہم کرنے لگے کہ تحریک خلافت کے دوران مہاتما گاندھی اسپینی فلو ہوگیا تھا جس کے سبب یہ تحریکِ وقت سے پہلے ہی کچھ کمزور پڑگئی تھی اوریہ بالکل اُسی طرح تھا جیسے کسی مشہور فلمی ہیرو کی موت کے موقع پر ٹیلی وژن پر نہ صرف اُس کی فلمیں دکھائی جاتی ہیں بلکہ اُن ہیروئنوں کے چہرے بھی دکھائے جاتے ہیں جن کے ساتھ اُس ہیرو نے کام کیا تھا۔
کچھ دنوں بعد اس علاقے میں دودھ والوں نے آنا بند کردیا۔ شاید اِس وجہ سے کہ کچھ لوگوں نے اُن پر دودھ میں گندا پانی ملانے کا الزام لگایا تھا۔ ممکن ہے کہ یہ ایک افواہ ہو مگرافواہوں کی اپنی ایک سماجیات بھی ہوتی ہے۔ افواہیں گرم تھیں۔ اُن کے پر نکل آئے تھے اور وہ اُڑ کر ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ جایا کرتی تھیں۔ مثلاً کولڈ ڈرنک اورپانی کی بوتلوں میں بھی گندے پانی کا استعمال کیا جا رہا تھا اور میونسپل کارپوریشن کے ٹینکروں میں بھی۔ یہ بھی اُڑتے اُڑتے سنا گیا کہ یہ وائرس اب شہر کے دوسرے حصوں میں بھی پھیل گیا ہے۔ ایک ٹی۔وی۔ چینل، جو ہمیشہ بھوت پریتوں کے قصے سناتا اوربے پَرکی اُڑاتا رہتا ہے، نے تو حد کردی۔ اُس نے ایک رپورٹ نشر کی جس کے مطابق ان کالونیوں کے باشندے کولڈ ڈرنک کی بوتلوں کا استعمال حوائج ضروریات سے فارغ ہونے کے بعد خود کو صاف کرنے کے لیے کررہے ہیں۔ اس رپورٹ کے نشر ہوتے ہی بازار میں ٹوائلٹ پیپر ملنا دشوار ہو گیا۔ ٹوائلٹ پیپر بنانے والی کمپنیوں کے سیلز مین ہرکالونی کے باہر خوانچے والوں کی طرح صدائیں لگا لگا کر ٹوائلٹ پیپر بیچنے لگے۔ ایک ایسے بھیانک وائرس کے وجود میں آنے کی افواہ گشت کرنے لگی جو پانی سے پیدا ہوتا تھا۔ زمین اور مٹی میں گھومتا تھا اورہوا میں اُڑتا تھا۔ اُس کا وزن زیادہ تھا اس لیے ہوا میں آکر دھوپ کی گرمی سے متاثرہوکر بے ہوش ہو جاتا تھا۔ اس وائرس کا شکار ہونے والے کو جو کوئی بھی چھو لیتا تھا وہ بھی اس بیماری میں مبتلا ہو جاتا تھا۔ اس وائرس کا علاج کچھ نہ تھا، سوائے ایک ذلیل موت کے۔
مگرہمیں افواہوں کو اتنی غیرسنجیدگی سے نہیں لینا چاہیے۔ افواہیں اپنے حصے کا سچ گہرے راز کی طرح محفوظ رکھتی ہیں۔ جس طرح اونٹ اپنے کوبڑ میں پانی کو محفوظ رکھتا ہے۔ افواہیں دراصل اُس رنگ برنگی تتلیوں کی طرح ہوتی ہیں جنہیں پکڑ لینے کے بعد اُن کے پروں کا رنگ ہماری اُنگلیوں میں چپک جاتا ہے۔ ایک ناقابلِ یقین رنگ۔
نیشنل
انسٹی ٹیوٹ آف ویرالوجی کے سائنس دان اس وائرس کے کوڈ کو کریک نہیں کرسکے۔ بس اتنا ہی معلوم ہوشکا کہ کبھی یہ وائرس کی طرح حرکت کرتا نظرآتا ہے اور کبھی بیکٹیریا کی طرح۔ وائرس بیکٹیریا سے بھی بہت چھوٹے خوردبینی اجسام ہوتے ہیں۔ کچھ بیکٹیریا انسان کے دوست اوراُن کے لیے مفید بھی ہوتے ہیں مگروائرس کبھی کسی کا دوست نہیں ہوتا۔ وہ انسان کو پیڑپودوں اورگھاس سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتا۔ وہ اپنے آپ کو پروٹین کی ایک دبیز چادر میں چھپائے رکھتا ہے۔ وائرس طفیلی اجسام ہیں۔ اُن کو اپنے آپ کو زندہ رکھنے کے لیے دوسرے زندہ خلیوں کی ضرورت رہتی ہے۔ ان کی درجہ بندی نہ تو نباتات میں کی جاسکتی ہے اور نہ ہی حیوانات میں۔ ان دونوں کے درمیان واقع ہونے پر یہ کبھی کسی طرح کا رویہ اختیار کرتے ہیں اور کبھی کسی طرح کا۔ وائرس ہیجڑوں کی طرح پُراسرار اور ناقابلِ یقین ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان پر اینٹی بائیوٹک دواؤں کا اثر نہیں ہوتا کیونکہ اُن میں اُس قسم کی جان ہے ہی نہیں جو کبھی جسم میں ہونے کی توقع کی جاتی ہے۔ کونسل فارمیڈیکل ریسرچ ابھی اس وائرس کے لیے کوئی دوا تجویز نہیں کرسکتی۔ جہاں تک ویکسین کا سوال ہے تو اُس کے بارے میں بھی تحقیق کی جارہی ہے۔ ویکسین کا تعلق جسم کے مدافعتی نظام سے ہوتا ہے۔ نہ کہ دوا کے ذریعے کیے جانے والے علاج سے۔ اس تحقیقی کام میں کونسل فار میڈیکل ریسرچ کے ساتھ فارسیلولر اینڈ مولیکولر بیالوجی، کونسل آف سائنٹیفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ اور مرکزی حکومت کا ڈپارٹمنٹ آف بایو ٹیکنالوجی بھی شامل ہیں۔ انسٹی ٹیوٹ آف سوائل ریسرچ کی ٹیم بھی اپنی تحقیق میں کچھ نہیں پاتی۔ اس کی رپورٹ صرف یہ تھی کہ اس علاقے کی مٹی چکنی اور جڑی ہے۔ جسے دومت مٹی بھی کہتے ہیں۔ یہ مٹی پوری طرح سے صاف اور قطعی غیر آلودہ ہے۔ یہاں کے کھیتوں سے اُگائے جانے والی گیہوں، چاول اوردالوں کی فصل ملک کے دوسرے خطوں کی فصل سے زیادہ صحت مند، تغذیہ بخش اور صاف ستھری ہے۔ یہاں کے باغات اور گنے اور کپاس کی پیداوار بھی قابلِ رشک ہے۔ فصلوں اورپیڑپودوں کو لگنے والی بیماریاں برائے نام ہیں۔ مہلک حشرات کش کی تعداد بھی مٹی میں تناسب یا اعتدال سے زیادہ نہیں ہے۔ کوئی بھی وائرس یا جراثیم ایک دن میں پیدا نہیں ہو سکتا۔ اُس کے اندر سالہا سال پرانے ڈی۔ این۔اے۔ اور آر۔ این۔ اے۔ کی پرتیں موجود ہوتی ہیں۔ یہ اُس زمانے سے موجود ہیں جب آدمی غاروں میں رہا کرتا تھا۔ یہ جراثیم اور وائرس بھی غاروں میں موجود تھے، کبھی چمگادڑوں میں بطور طفیلی رہ کر اور کبھی سانپ بچھوؤں میں۔ اس علاقے کی مٹی میں کسی قسم کے خطرناک یا پُراسرار خوردبینی اجسام نہیں پائے گئے ہیں۔
جیولوجیکل سروے کرنے والی ٹیم نے زمین کے اندر بہت گہرائی میں موجود پانی کا معائنہ کیا اور پایا کہ زیرِ زمین پانی کی سطح، اس پورے رقبے میں پوری طرح صاف اور بے ضرر ہے مگرآس پاس خشک چٹانیں موجود ہونے کی وجہ سے، جو قدیم ترین اراولی پہاڑوں کی نشانیاں ہیں پانی میں کیلشیم، میگنیشیم اور سوڈیم کی تعداد کچھ زیادہ ہے مگروہ خطرناک آلودگی کے زمرے میں نہیں آتی ہے۔ پانی میں کسی بھی قسم کی بیماری پھیلانے والے اجسام نہیں پائے گئے ہیں۔
اسی طرح مٹی پر ریسرچ کرنے والوں، پانی کا معائنہ اوراُس کا علاج کرنے والوں اور سِول انجینئروں، سب نے اس معاملے سے اپنا اپنا پلّہ جھاڑلیا۔ اب صرف اس بات کا انتظار ہے کہ وائرس ہو یا جو بھی اَلا بَلا ہو، مریضوں کے خون کی جانچ میں اُس کا بغور مطالعہ اور مشاہدہ کب تلک کیا جائے گا اورکس نتیجے تک کب تک پہنچا جائے گا۔ اس سلسلے میں ممکن ہے کہ ملک کے تحقیقاتی اداروں اور لیبارٹریز کو باہری ممالک سے مدد مانگنا پڑے۔ ہماری مشینیں اور دوسرے آلات اتنے جدید نہیں ہیں۔ دیکھا جائے تو سائنسی تحقیق کا معیار ہی یہاں تسلی بخش نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کے بڑے بڑے دماغ وطن چھوڑ کر ترقی یافتہ ملکوں کی راہ لیتے ہیں اورپھرانہیں کی خدمات کے لیے ہمیشہ کے لیے وہیں کے ہوکر رہ جاتے ہیں۔
لیکن یہ سب بہت آئیڈیل بیان ہے اوراس کا کوئی تعلق بدنصیب انسانوں کے مصائب اورمسائل سے نہیں ہے۔ یہ سب رواداری کی باتیں ہیں اور سیاسی رنگ سے رنگی ہوئی بھی ہیں۔ اس رنگ کے علاوہ بھی دنیا میں بہت رنگ ہیں۔ ہر تماشے، ہر کھیل اورہر فلم کا اپنا ایک رنگ ہوتا ہے۔ ان رپورٹوں اور اخباری بیانات سے الگ، وہاں انسانوں کی اصل دنیا میں ایک دوسرا تماشہ چل رہا ہے۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...