رَتہ اَمرال ، رَاولپنڈی کے وَسط میں اِیک چھوٹی سی بستی ہے۔ آپ اِسے محلہ کہہ لیجئے۔ کسی دَور میں یہ دِیہی علاقہ ہوا کرتا ہوگا۔لیکن جیسے جیسے آبادی بڑھتی گئی، اِس کی اَہمیت بڑھتی گئی۔ اِس کے اِیک طرف’ ’شہر‘ ‘ کا علاقہ ہے یہ رَاولپنڈی کا و ُ ہی منظر پیش کرتا ہے جو اَندرونِ لاہور کا ہے۔ دَوسری طرف
’’ صدر‘‘ کا علاقہ ہے۔ اِس محلّے سے رَاولپنڈی رِیلوے سٹیشن چند قدم کے فاصلے پر ہے۔
اَنگریز دَور میں جب اَنگریزوں نے پوری طرح ہندوستان میں اَپنی جڑیں مضبوط کرلیں تو اَپنے رَہنے کے لیئے اُ نہوں نے نئے علاقے تعمیر کروَائے،بالکل اُس اَنداز کے جس طرح کے اُن کے ہاں پائے جاتے تھے۔ اُنہوں نے ہر شہر کو کینٹونمنٹ اَور سٹی میں تقسیم کیا۔کینٹونمنٹ اَور گیریژن کے علاقے میں خود رَہتے اَور باقی ماندہ علاقوں میں دِیگر آبادِی رَہتی۔
پاکستان کے تمام بڑے اَور نمائندہ شہروں میں کینٹونمنٹ اَور سٹی کے علاقے علیحدہ علیحدہ ہیں۔رَاولپنڈی کینٹ کا اِنتظام راولپنڈی کینٹونمنٹ بورڈ چلاتا ہے اَور
راولپنڈی سٹی کا اِنتظام میونسپل کمیٹی چلاتی ہے۔
رَتہ اَمرال اِن دَونوں رَاجدھانیوں کے دَرمیان وَاقع ہے لیکن اِس کا اِنتظام و اِنصرام میونسپل کمیٹی کے ذ ِمے ہے ۔اِس لیئے رَتہ اَمرال کافی اَہمیت کا حامل ہے ۔ اِن دَونوں رَاج دَھانیوں کے دَرمیان وَاقع ہونے کے باوجود، یہاں پانی کی قلت رَہتی ہے۔
رَتہ اَمرال کے نام کی وَجہ شہرت کچھ اِس طرح ہے کہ یہاں دَو بھائی رَہا کرتے تھے۔رَتہ اَور پھتہ۔ اِیک اَچھا تھا اَور دَوسرا بُرا۔پھتے نے رَتے کو قتل کردِیا اَور بعد میں پورے علاقے کا مالک بن بیٹھا۔ پھر قسمت کے چکر نے اُسے غریب کردِیا اَور وہ اُنہیںلوگوںکے سامنے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہوگیا جن پر وہ ظلم کیا کرتا تھا۔ لیکن یہ کہانی کہاں تک سچی ہے۔ یہ کوئی نہیں جانتا۔ اَصل میں’’رَتہ‘‘ پنجابی بلکہ پوٹھواری میں لال رَنگ کو کہتے ہیں۔ یا ہندی کا کوئی لفظ ہے ۔اَمرال یقینا کسی قوم کا نام ہے۔ پہلے پہل گجر خان اَور چکلالہ کے لوگ نقلِ مکانی کرکے یہاں آئے۔ اِس کے بعد اَنگریز دَور کے ضلع بدر کیئے گئے لوگ بھی یہاں آکر آباد ہوگئے۔اِس کے آس پاس کے محلّوںکے نام ، موہن پورہ اَور ڈَھوک رَتہ ہیں۔رَتہ اَمرال اَور موہن پورہ کے دَرمیان سے رَاولپنڈی کا گندہ نالا گزرتا ہے ۔جس کا نام لَیئی ہے۔ ’’پنڈی دِی جاؤندِیاں وِی لَیئی تے آؤندِیاں وِی لَیئی ‘ ‘۔ آپ جب راولپنڈی شہر میں دَاخل ہوں تو رَاستے میں لَیئی آتی ہے اَور وَاپسی پر بھی آپ کا لَیئی سے سابقہ پڑتا ہے۔ ہر سال برسات کے دِنوں میں پندرہ جولائی سے پندرہ اگست تک (تقریباً) جب مسلسل بارش ہوتی ہے تو پنڈی کے کئی علاقے زِیر آب آجاتے ہیں۔ کبھی یہ گندا نالا چھوٹا ہوا کرتا ہوگا۔ چھوٹے سے شہر کی پانی کی نکاسی میں مدد دِیتا ہوگا لیکن آبادی کے بڑھنے کی وَجہ سے اَور شہر کے پھیلنے کی وَجہ سے ،اِس شہر کی پانی کی نکاسی کی ضروریات کے لیئے ناکافی ہے۔یہ نہ صرف پھیلتا جا رَہا ہے بلکہ مزید گندہ ہوتا جارَہا ہے۔
دِیگر علاقوں کی طرح اِس خوبصورت ندی کے کنارے رَتہ اَمرال کا بھی کافی حصہ ،برسات کے دِنوں میں زِیر آب آجاتا ہے۔ اِس کا پانی اِتنا گندہ ہوتا ہے کہ شاید گندہ لفظ اِس کے لیئے چھوٹا پڑجائے۔اِس کے باوجود تیراکی کے شوقین نوجوان اِس میں شوق سے نہاتے ہیں۔پھر بھی بھلے چنگے رَہتے ہیں اَور بڑے فخر سے اِیک دَوسرے کو بتاتے ہیں کہ’ ’آج مَیں نے پُل سے دَس چھلانگیں لگائیں‘‘۔ کچھ لڑکے چھاپہ مار ٹیموں کی طرح لوگوں کے گھر کا سامان ، جسے پانی اَپنے بہاؤ میں بہا کر لے جا رَہا ہوتا ہے، پکڑتے ہیں۔ اِن میں چارپائیاں،گھرکے برتن،بھینسیں،بکریاں اَور ٹین کے صندوق وَغیرہ ہوتے ہیں۔ رَتہ اَمرال کا ماحول چارلس ڈِکنزکے ناولوں جیسا ہے۔ اَگر آپ PICKWICK PAPER (پک وک پیپر) پڑھیں تو آپ کو اَیسا لگے گا کہ آپ اِس ناوَل کے فلمی سیٹ پے گھوم رَہے ہیں۔ اِس محلّے میں مسجدوں کے نام قوموں کے نام کے مطابق ہیں۔ اِیک مسجد ’’چودھریوں‘‘ کی ہے ۔دَوسری’’ لوہاروں‘‘ کی اَور تیسری’’ دَندی وَالی‘‘ ہے ۔ پھر ’’دَرمیانی مسجد‘‘ ہے ۔ اِس کے علاوہ اِیک’’ مسجد ٹھیکیداراں‘‘ بھی ہے۔ جو نالا لَیئی کے اُس پار ہے ۔ مسجد خدا کا گھر ہوتا ہے۔ اِس کے مالکانہ حقوق بھی ہوتے ہیں یہ اِیک اَچنبھے کی بات ہے۔
رَتہ اَمرال اَور رِیلوے کواٹرز کے دَرمیان اِیک دِیوار ہے ،جواِتنی بار گرائی جاچکی ہے کہ اَب دَوبارَہ اِس کو تعمیر کرنے کے بارے میںکوئی سوچتا ہی نہیں۔
رَتہ اَمرال کے بچوں کے لیئے کھیلنے کا کوئی میدان نہیں۔ نہ ہی کوئی باغ ہے۔یا تو بچے گلیوں میں کھیلتے ہیںیا نالا لَیئی کے کنارِے کھیلتے ہیں۔لیکن اِس کے کنارے پے کھیلناکبھی بھی خطرے سے خالی نہیں ہوتا۔ یہاں ہندوانہ طرز کے مکانات ہیں۔ تنگ گلیاں،چھوٹے چھوٹے کمرے، ہر گھر میں کثرت سے بچے۔ وَیسے تو دَونوں رَاجدھانیوں کے دَرمیان وَاقع ہونے کی وَجہ سے یہ محلہ شروع سے اَہمیت کا حامل رَہا ہے لیکن جب رِیلوے لائن اِس کے پاس سے گزری اَور رَاولپنڈی رِیلوے سٹیشن اِس کے قریب بنانے کا فیصلہ کیا گیا تو اِس کی اَہمیت اَور بڑھ گئی اَور رِیلوے ملازمین کے لیئے رِیلوے کالونی اَور رِیلوے کواٹرز کے بننے سے بھی یہاں مزید رَونق ہوگئی۔
٭
پاکستان بننے کے بعد یہاں سے ہندوؤ ںاَور سکھوں کا اِنخلاء ہوا ۔یعنی رَتہ اَمرال سے۔ لوگ صرف اِتنا جانتے ہیں اَور پڑھتے ہیں کی سکھوں اَور ہندوؤں نے مسلمانوں پر ظلم ڈھائے ہیں، جبکہ حقیقت اِس کے بر عکس ہے ۔ جہاں ہندوؤں اَور سکھوں نے مسلمانوں پے ظلم ڈھائے ہیں و ُ ہاں مسلمانوں نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اَگر اُنہوں نے مسجدیں شہید کیں تو مسلمانوں نے مندر اَور گُردوَارِے ڈَھائے۔ یہ بات سچ اِیک کڑوا سچ ہے کہ مسلمان زِیادَہ تر محنت مزدَورِی کرکے اَپنا پیٹ پالتے تھے ۔خاص کر پنڈی میں نوے فیصد کاروبار کے مالک ہندو تھے اَور اِن ہندوؤں میںزِیادَ ہ تعداد سکھوں کی تھی۔رَاولپنڈی میں جو کوٹھی کافی عرصے تک پریذیڈنسی،یعنی صدرپاکستان کا گھر کے طور پے اِستعمال ہوئی اِس کے مالک پاکستان بننے سے پہلے دَو سکھ بھائی تھے۔ راولپنڈی شہر میں تعمیرات کے کام میں سب سے بڑے ٹھیکیدار ، سُجھان سنگھ رَائے تھا۔ کینٹ کے علاقے میں کشمیر روڈ پے وَاقع اِیک مارکیٹ ہے۔ یہ مارکیٹ سُجھان سنگھ رَائے نے راولپنڈی شہر وَالوں کو تحفے کے طور پر دِی تھی۔ اِس کی آڑ میں اُس نے اَپنے کئی رُکے ہوئے کام نکلوائے ہوں گے۔ اِس مارکیٹ کا تمام خام مال اِنگلستان سے منگوایا گیا تھا۔ اِس میں اَشیائے خورد و نوش ، گوشت، سبزی، مچھلی اَور تقریباً تمام اَشیاء ملا کرتی ہونگی۔اَب اِتنی گندی و بد بودار ہے کہ سانس لینا مشکل ہوتا ہے۔ اِنتہائی تعفن زَدہ ہے ۔اَگر آپ گندگی اَور بدبو سے نابلدوناوَاقف ہیں تو آپ جیسے ہی اَندر دَاخل ہونگے ، اُنہیںقدموں سے وَاپس لوٹ آئیں گے۔
خیر تو اَنگریز کے جانے کے بعد اَگر ہندوؤ نے مسلمانوں کی زَمین و جائیداد پے قبضہ کیاتو مسلمان بھی پیچھے نہیں ہٹے۔ حالات نے اَیسا پلٹہ کھایا کہ قومیں بدل گئیں اَور ۱۹۴۷ کے بعد زَمین و جائیداد کے حساب سے لوگ چودھری،ملک، اعوان، مغل، راجپوت، خان اَور جانے کیا کیا بن گئے۔ لوگوں کے پاس اِس چیز کو ثابت کرنے کے لیئے ،کہ وہ متعلقہ خاندان کے لوگ ہیں، اِتنے دَھانسو اَور زَور دَار ثبوت ہیں کہ عقل سلیم دَنگ رَہ جاتی ہے۔
٭
رَتہ اَمرال کا سیاسی ڈَھانچہ اَور رَہنے سہنے کا اَنداز بالکل آریاؤں جیسا ہے۔مَیں اِن کو ہندوؤ جیسا اِس لیئے نہیں کہتا کیونکہ مسلمانوں کے دِلوں میں اِن کے لیئے نفرت ہے۔ اِنہیںکی زَمینوں اَور جائیدادوں پے قبضہ کرکے، قومیں بدل کر، اِنہیں کے رَسم و رِواج اَپنا کر، گھر گھر ہندی فلموں سے محظوظ ہو کر بھی اِن سے نفرت کرتے ہیں۔ جن لوگوں نے اِن کی جائیدادوں پے قبضہ نہیں کیا تو وہ اَنگریز کے نوازے ہوئے ضرور تھے۔ غدار تھے ،جس کے عوض اِنہیں سَر کے خطاب اَور جائیدادِیں تحفے کے طور پر دِی گئیںبلکہ مربے اَور زَمینیں بھی۔
مَیںرَتہ اَمرال کو چار مختلف طبقوں میں منقسم کرتا ہوں۔ براہمن،کھشتریا،وَیش، شودراء یاملیچھ
براہمن:
مسجدوں کے تمام مولوی بالکل ہندوؤں کے براہمنوں کی طرح کام نہیں کرتے۔ علاقے کے لوگ چندہ اَکٹھا کرکے اِن کو تنخواہ دِیتے ہیں۔ اَگر تنخواہ نہ دِے سکیںتو اِن کی ضروریات ِ زِندگی کا ذِمہ لے لیتے ہیں۔ جس میں کھانا،پینااَور رَہنا سہنا شامل ہوتا ہے۔ ہندوؤں میں براہمنوں کی دَو اَقسام ہیں۔ اِیک زَمین جائیداد وَالے براہمن اَور دَوسرے تیاگی اَور برہمچاری ہوتے ہیں۔ یہ شادِی نہیں کرتے نہ ہی زَمین و جائیداد کے مالک ہوتے ہیں۔ بالکل اِسی طرح کچھ لوگ مولوی حضرات اَور حفاظ کو بال برہمچاری تصور کرتے ہیں۔ یا رَاہب ، کیونکہ عیسائیت میں بھی رَاہب اَور نن زشادِی نہیں کرتے۔ رَتہ اَمرال وَالوں کاخیال ہے کہ مولوی سے گناہ کی اُمید نہیں کی جاسکتی۔
کھشتریاء:
اِن میں وہ تمام لوگ آجاتے ہیں یعنی خان، چودھری،ملک،اعوان،مغل اَور رَاجپوت۔ سب لوگ اِیک دَوسرے پر سبقت لے جانے کے چکر میں ہیں۔لیکن اِن میں سب سے زِیادَہ جن لوگوں نے سبقت حاصل کی جو اُوپر آئے ۔وہ چودھری (اَپنی زَمینوں اَور جائیدادوں کے بل بوتے پر) اَور خان(اَپنی بدمعاشی اَور غنڈہ گردی کے بل بوتے پر) اِیک وَقت اَیسا بھی آیا کہ ِان لوگوں کا آپس میں گٹھ جوڑ ہوگیا اَور باقی سارے لوگ دَب کر رَہ گئے۔ آنکھوں دِیکھی مکھی نگلتے رَہے۔
وَیش:
اِن میں چودھری، ملک،اعوان اَور راجپوت آتے ہیں۔وَیسے تو رَاجپوت وَاریئر کلاس یعنی فوجی میں آتے ہیںلیکن رَاجپوت وَاریئر کلاس سے نکل کر بزنس کلاس یعنی تاجر برادری یعنی
شاپ اُوننگ پیپل، یعنی دَوکاندار طبقہ ۔اِن کے ہاں بچہ بعد میں پیدا ہوتا ہے لیکن کاروبار پہلے سیکھ لیتا ہے۔چودھری چونکہ اَپنی کلاس بدل کر کھشتریاء میں چلے گئے ہیں اَور اِن کے ساتھ ملک اَور اعوان بھی ۔تو پیچھے رَہ جاتی ہے رَاجپوت قوم۔
شودراء یا ملیچھ:
اِن میں وہ تمام لوگ آجاتے ہیں جو دَوسرے علاقوں سے آکر یہاں آباد ہوئے ہیں۔ خاص کر عیسائی۔ اَنگریزوں نے جب ہندوستان پر قبضہ کیاتو حکومت کے ساتھ ساتھ اُنہوں نے تبلیغ کا کام بھی جارِی رَکھا۔ ہندوؤں میں ملیچھ کو گندا اَور نیچ سمجھا جاتا ہے۔ملیچھ یا شودراء کو کلاس بدلنے کا بہترین
موقع مل گیا اَور اِن میں سے زیادہ تر نے عیسائیت کو مذہب کے طور پے اَپنا لیا۔ یہ اَور بات ہے کہ اَنگریزوں نے کالے لوگوں کے گرجے علیحدہ بنا رَکھے تھے۔ کالے سے مراد شودراء یا ملیچھ۔اِس سے اُنہیںہندوؤ کے کلاس سسٹم یا ذَات پات سے چھٹکارا تو مل گیا لیکن لوگوں کے دِلوں میں جو چیز بسی ہوئی ہے وہ نہ نکل سکی خواہ مسلمان ہو یا ہندو۔
رَتہ اَمرال میں لوگوں کے گھروںمیں اَجابت خانے پُرانی طرز کے ہیں۔ اِس لیئے اَجابت خانوں سے غلاظت اُٹھانا اِیک مشکل کام ہے۔ اِس لیئے یہ کام ملیچھ یا شودر لوگ اَنجام دِیتے ہیں یعنی عیسائی۔ یہ عیسائی لوگ گلے میں صلیب لٹکائے،بائیبل سے چُنے ہوئے نام کے ساتھ لوگوں کے گھروں سے کوڑا کرکٹ اَور اَجابت خانوں سے غلاظت اُٹھاتے ہیں۔ اِس کے علاوہ گلیوں اَور نالیوں کی صفائی کا اِنتظام بھی یہی لوگ کرتے ہیں۔ گلیوں میں پانی کی نکاسی کا نظام بالکل اِس طرح ہے جیسے مہنجوداڑو اَور ہڑپہ میں تھا۔ وہ شاید تھوڑے مہذب ہوتے ہونگے۔
جن مسلمانوں کو وِلائتی شراب کا چسکا ہے۔وہ عیسائیوں کی مدد سے شراب حاصل کرتے ہیں۔کیونکہ پاکستان اِسلامی ملک ہے۔یہاں صرف غیرمسلم لوگوں کو شراب کا پرمٹ جارِی کیا جاتا ہے۔ جب کے مالکان اَور شراب بنانے وَالے نہ صرف پاکستانی بلکہ مسلمان ہیں۔ اِس کے برعکس جب یہ لوگ یعنی شودر، لوگوں کے گھروں میں صفائی کے لیئے جاتے ہیں تو اِنہیں کبھی کبھار کھانے یا پینے کی پیشکش کی جاتی ہے۔ لیکن یہ اِحتیاط ضرور برتی جاتی ہے کہ یہ کسی چیز کو ہاتھ نہ لگائیں۔ جس برتن میں اِن کو کھانا پیش کیا جاتا ہے یا تو اُسے توڑ دِیا جاتا ہے یا اُسے سب سے چھپا کے علیحدہ رَکھ دِیا جاتا ہے۔ جب بھی کسی مسلمان مرد کی کمر میں درد ہوتا ہے ، وہ عیسائی عورت کے پاس جاتا ہے۔ رَتہ اَمرال کے مردوں کا فلسفہ ہے کہ عیسائی عورت سے مباشرت کرنے کے بعد کمر کا دَرد ٹھیک ہوجاتا ہے۔ یہاں عیسائی سے مراد شودر یا ملیچھ ہے۔کبھی فرطِ مسرت میں آکر کسی عیسائی عورت کا مسلمان مرد کو چومنے کو دِل کرے تو کہیں گے، ’’موں سینڑ دا‘‘۔ وہ پھر پلٹ کے جواب دِیتی ہیں،’ ’۔۔۔۔۔۔۔۔تیرہ پنیڑدا‘‘
٭
رَتہ اَمرال میں کئی گھریلو صنعتیںہیں۔لیکن یہاں کی سب سے معروف اَور مشہور کاٹج اِنڈسٹری یعنی گھریلو صنعت دِیسی شراب ہے۔ دِیسی شراب کشید کرنے کی بھٹیاں تو کئی ہیں۔ لیکن دَو خاص الخاص ہیں۔ اِیک نالہ لَیئی کے کنارے اَور دَوسری بالکل رَتہ اَمرال کے وَسط میں وَاقع ہے۔ اِس میں شراب کشید کرنے کے لیئے جو سپرٹ اِستعمال کی جاتی ہے اُس کا برانڈ چڑیا ہے اَور اُس پر چڑیا کی تصویر بھی بنی ہوتی ہے۔اِس لیئے رَتہ اَمرال وَالوں نے اِس کا نام ’’چڑی‘‘ رَکھ دِیا ہے جس کو ’’ٹھرا‘‘ بھی کہتے ہیں اَور کُپی کے نام سے بھی مشہور ہے۔ اَنگریزی کے شراب کے پیمانوں کی اِصطلاحات BOTTLE,HALF AND QUARTER ہیں۔ یعنی،پوری،آدھی اَور چوتھائی،یہی چوتھائی کُپی کہلاتی ہے ۔یہ چڑی مارکہ شراب اِتنی تیز ہوتی ہے کہ اِس کے سامنے JAMAICAN RUM , WRAY AND NEPHEW
جمیکن رَم، رے اَینڈ نیفیو)بھی پانی بھرتی ہے۔ رَتہ اَمرال میں شراب پینے کے معاملے یعنی کُپی کے معاملے میں کئی مستقل جہاز ہیں لیکن عید اَور بکر عید پر چھوٹے فوکر بھی اُڑتے ہیں۔ جو عید کے عید اُڑتے ہیںاَور پھر لینڈ کرجاتے ہیں ۔ یہ وہ جہاز ہیں جو کُپی پی کر اُڑتے ہیں۔ اِس کے علاوہ اَیسے بھی جہاز ہیں جو ہیروئن پی کر اُڑتے ہیں۔ پھر لینڈ کرنے کا نام ہی نہیں لیتے۔ آپ کہیں بھی چلیں جائیں۔ اَگر کسی کونے کھدرے میں آپ کو سگرٹوں کی پَنیاں جلی نظر آئیں تو سمجھ لیجئے کہ کچھ جہاز اُڑنے کی تیاری کرتے رَہے ہیں۔
یہ لوگ پلاسٹک کی چھوٹی سی تھیلی میں رَکھی اِس جادَو کی پڑیا کو سگرٹ کی اِستعمال شدہ پَنی کے چمکیلے حصے پر رَکھتے ہیں اَور اِس کے نچلے حصے کو جلاتے ہیں ۔ اَپنے منہ کے اَندر چاندی کا کوئی سکہ ، خاص کر دَس پیسے کا سکہ رَکھتے ہیں۔ جلانے سے یہ کثافتوں سے پاک ہوجاتی ہے۔ اِیک رَوپے کے پاکستانی نوٹ ، جو کہ کرارہ ہو۔ اِس کی نلکی بنا کر اِس سفوف کو منہ کے اَندر کھینچتے ہیں جو اَندر جاکے چاندی کے سکے سے ٹکرا کر اِن کے جسم، اِن کی سانسوں میں دَاخل ہوتا ہے اَور مزہ دُگناہوجاتا ہے۔
یہ بالکل اُسی طرح کا مزہ دِیتا ہے جس طرح یورپ کے ملکوں میں گرینز اَور وِلن کا اِستعمال ہوتا ہے۔گرینزاِیک طرح کی ہارڈ کور ڈرگ ،یعنی بہت مہلک ہے۔ evian یا volvic (یورپ میں منرل وَاٹر کی بوتلوں کے دَو مختلف برانڈ) کی ۳۳ملی لیٹر کی خالی بوتل ، آدھی پانی سے بھر دِیتے ہیں۔ باقی خالی چھوڑ دِیتے ہیں۔اِس کے منہ کو کسی بھی سگرٹ کی پَنی سے یا سلور فوئل سے اَچھی طرح بند کرکے اِس پَنی یا سلور فوئل میں چھوٹے چھوٹے سوراخ کرتے ہیںاَور کوئی سا بھی بال پین لے کر اِس کی رِیفل نکال دِیتے ہیں۔ اِس کو نلکی کے طور پے اِستعمال کرتے ہیں اِس خالی نلکی کو پانی کی اِس اَدھ بھری بوتل میںچھوٹا سا سوراخ کرکے پھنسا دِیتے ہیں۔ اَب یہ حقہ نماں چیز بن جاتی ہے۔ پھر اِس پر اُس نشہ آور چیز کو ڈَال دِیتے ہیں ۔ جسے گرینز کہا جاتا ہے۔ بالکل سفید دَانے دَار۔ پھر اِن گرینز کو سگرٹ لائٹر کا شعلہ دِکھاتے ہیں۔ شعلے سے جلنے کے بعد اِن گرینز کا دُھواں اَندر جاکر پانی سے ٹکراتا ہے اَور پھر نلکی سے آپ اِس دُھویں کو اَپنی طرف کھینچتے ہیں تو اِس کا بالکل اُتنا ہی سرور ملتا ہے جتنا کہ ہیروئن کا بلکہ اُس سے بھی کہیں زِیادَہ۔
تو بات ہو رَہی تھی کاٹج اِنڈسٹری کی۔اِس کے علاوہ رَتہ اَمرال میں بِرجو رَام، چرس اَور بھنگ بھی کثرت سے اِستعمال کی جاتی ہے ۔ اِن میں بِرجو رَ ام رَتہ اَمرال وَالوں کی اَپنی اِیجاد ہے۔ کلاس کے مناسبت سے نشہ بھی بدلتا ہے۔
٭
رَتہ اَمرال کی مشہور شخصیات تو کئی ہیں لیکن چند اِیک کا ذِکر ضروری ہے۔ صوفی کا چیپ دَوا خانہ، شیخ ڈِسپنسر، حاجی نور اِلہی کی کریانے کی دَوکان، پپو کا ہوٹل۔ صوفی کے چیپ دَواخانے سے آپ کو حکیمانہ دَوائیں ملتی ہیں۔ شیخ ڈِسپنسر علاقے کی طبی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ جس نے شاید کمپاؤنڈر یا ڈِسپنسر کا کوئی کورس کر رَکھا ہے۔ لیکن علاقے کے لوگ اِسے ڈاکٹر ہی تصور کرتے ہیں اَور علاج معالجے کے لیئے اِس کے پاس جاتے ہیں۔ حاجی نوراِلہی کی کریانے کی دَوکان ہے۔ یہ اَشیاء خورد و نوش بیچتا ہے۔ یہ شخص اَپنے چند اَصولوں پر سختی سے کاربند ہے۔ پیسوں کا چُھٹا کبھی نہیں دِیتا ۔ اَگر آپ کو کبھی پیسے تبدیل کرنے پڑجائیں تو نہ کر دِے گا کیونکہ یہ اِس کے زَریں اَصولوں کے خلاف ہے۔ اِس کے علاوہ یہ شخص رَات کو سوئی نہیں بیچتا۔ دِن کو چاہے کتنی ہی خرید لیجئے۔ اُدھار کبھی نہیں کرے گا۔ اَگر کھوٹے پیسے ہوں تو اُٹھا کر سڑک پر پھینک دِے گا۔
اِس کے علاوہ پپو کا ہوٹل ہے ۔ ہے تو یہ رَیسٹورنٹ لیکن پاکستان میں رَیسٹورنٹ ، ہوٹل کے نام سے جانا جاتاہے۔ پورے محلّے میں اِس سے اَچھی چائے کوئی نہیں بناتا۔ اِس کے علاوہ اِس کی دودھ پتی بھی بڑی شاندار ہوتی ہے۔اِس کاسب سے بڑا رَاز اِس کی کیتلی ہے جس میں وہ سو دَفعہ چائے بناتا ہے۔ جس میں پہلے کئی دَفعہ چائے بنا چکا ہوتا ہے۔ اُسی پتی میں مزید پانی اَور پتی کا اِضافہ کرکے بہترین چائے بناتا ہے اَور چھوٹی چھوٹی پیالیوں میں جب لوگوں کو پیش کرتا ہے تو لوگ سڑک کے کنارے ٹوٹی پھوٹی میز کرسیوں پر بیٹھ کر اِس طرح سٹر سٹر کرکے پیتے ہیں جیسے اِس کے بعد اُنہیں شاید ہی کبھی چائے نصیب ہو۔اِس کے ساتھ ساتھ گاڑیوں، سائیکلوں،بیل گاڑیوں اَور ٹانگوں کے چلنے سے جو دَھول اُڑتی ہے وہ بھی لوگوں کے حلق میں جاتی ہے اَور چائے کا مزہ دَوبالا کرتی ہے۔
٭
کیا بود و باش پوچھو،پُورپ کے ساکنوں
ہم کو غریب جان کر ہنس ہنس پکار کے
دِلی جو شہر تھا عالم میں اِنتخاب
رَہتے تھے جہاں منتخب ہی رَوزگار کے
اُس کو فلک نے لوٹ کر وِیران کر دِیا
ہم رَہنے وَالے ہیں اُس اُجڑے دِیار کے
میر تقی میرؔ
آدم خان چغتائی کو اُس کی ماں نے صبح صبح اُٹھا دِیا۔’’چلو بیٹا مسجد میں نئے مولوی صاحب آئے ہیں۔ سپارہ پڑھنے چلو‘‘۔ آدم کو بہت برا لگا۔ سخت سردِی کے دِن تھے اَور سات سال کے بچے کو اِتنا ہوش ہی کب ہوتا ہے۔ سخت سردِی میں وَضو کرنا اَور پھر سپارہ پڑھنا اِسے عذاب لگتا تھا۔خدا خدا کر کے وہ اُٹھا اَور اُس نے مسجد لوہارا ںکی رَاہ لی۔ فجر کی نماز کے بعد مسجد میں اِعلان کیا گیا تھا کہ ،’’مسجد میں نئے مولوی صاحب آئیں ہیںجو لوگ اَپنے بچوں کو مسجد بھیجنا چاہیں بھیج سکتے ہیں۔ صبح :فجر کی نماز کے بعد اَور شام: عصر کی نماز کے بعد‘‘۔
آدم غریب خاندان سے تعلق نہیں رَکھتا تھا لیکن چغتائی خاندان پے ہر چار پانچ سال سو سال بعد زوال آتا ہے۔ جس وَقت آدم پیدا ہوا چغتائی خاندان پھر زَوال کا دَور گزار کے کچھ کچھ سنبھل رَہا تھا۔
شیبانی خان نے جب ظہیرالدین بابر کو رُسوا کر کے فرغانہ سے نکال دِیا تھا اَور سمر قندو بخارا سے بھی وہ نقل مکانی کرگیا۔ بابر نے کبھی سوچا بھی نہیں تھاکہ وہ ۱۵۲۵ میں پانی پت کے میدان میں اِبراھیم لودھی کو شکست دِے کر ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کی بنیاد رَکھے گا۔پھر ۱۷۰۵ سے ۱۸۵۷ کے دَرمیانی عرصے میں مغلیہ سلطنت اِس طرح زَوال پذیر ہوئی کی پوچھئے مت۔نہ صرف مغلیہ سلطنت زَوال پذیر ہوئی بلکہ ہندوستان بھی غلامی کی زَنجیروں میں جکڑا گیا۔ اَنگریز دَوسرے لٹیروں کی طرح ہندوستان سے سب کچھ لوٹ کر لے گئے۔ کہتے ہیں اَکبر بادشاہ کے پاس اِتنی دَولت تھی ،اَگر فرانس کا LOUIS XIV, (لوئی چہاردھم)اِٹلی کا COSIMO de MEDICI (کوزیمو دِی میدشی )اَور اِنگلینڈ کی ملکہ :تینوں اَپنے اَپنے خزانوں کو ملاکر بھی اِس کا مقابلہ کرتے ،تو بھی اَکبر بادشاہ کا پلہ بھاری تھا۔اَنگریز نہ صرف خزانہ لوٹ کر لے گئے بلکہ دُنیا کا سب سے قیمتی ہیرا کوہ نور بھی ساتھ لے گئے۔ ۱۸۵۷ سے لے کر ۱۹۷۰ تک زوال کے اَثرات اَبھی ختم نہ ہوئے تھے۔آدم خان چغتائی کے آباؤاَجداد ۱۸۵۷ کی جنگِ آزادی :جسے اَنگریز غدر کا نام دِیتے ہیں،دِلی سے بے سروسامانی کے عالم میں ہجرت کرکے کشمیر کے کسی علاقے میںآکر آباد ہوگئے تھے۔و ُ ہاں سے آدم خان چغتائی کے دادا ،حسن اَبدال سے پانچ ،چھ کلو میٹر کے فاصلے پر اِیک گاؤں : جس کا نام بائی ہے(پنجانی میں بائی اُردو کا بائیس ہے) ۔و ُہاں جاکر آباد ہوگئے تھے۔ زَوال کے دِنوں میں مغلوں نے اَپنے ناموں میں تبدیلیاں کرلی تھیں۔ اَنگریزوں کے ڈَر اَور اَپنا سب کچھ لٹ جانے کے بعد،پیٹ پالنے کے لیئے چھوٹے موٹے کام شروع کردِیئے تھے۔ اَور بعد میں اَپنے پیشے کے اِعتبار سے ہی جانے جانے لگے۔کوئی بھی یہ نہ جان سکا کہ برلاس،چغتائی،بیگ،مغل اَور مرزے اِیک ہی سلسلے سے جڑے ہوئے ہیں۔یعنی منگولوں کے قبیلے سے تعلق رَکھتے ہیںجنھیں اَنگریز مغلوں کے نام سے جانتے تھے اَور ہیں۔
٭
آدم خان چغتائی نے جلدی جلدی وَضو کیا اَور مسجد کے اُس حصے میں پہنچا جہاں مولوی صاحب بیٹھے بچوں کو قران کا دَرس دِے رَہے تھے۔ مسجد کی چٹائیوں پر چند بچے بیٹھے ہوئے تھے۔ آدم بھی جاکر کے اُن کے ساتھ بیٹھ گیا۔
آدم حسبِ عادَت مولوی صاحب کا جائزہ لینے لگا۔ وہ کسی طرح بھی دَرس دِینے وَالے مولوی لگتے ہی نہیں تھے۔اُس نے جتنے بھی مولوی حضرات دِیکھے تھے وہ دَاڑھی وَالے اَور زِیادَہ تر سفید دَاڑھی وَالے ہوتے۔لیکن اِن صاحب کی تو حالت ہی کچھ اَور تھی۔ مولوی صاحب کسی جیل سے بھاگے ہوئے قیدی کی طرح لگتے تھے۔قد چھ فٹ،رَنگ گندمی، دَاڑھی بڑھی ہوئی، خاکی رَنگ کا کوٹ اُوڑھے ہوئے تھے۔ ہاتھ میں چھڑی اَور گردن کی ہڈی اِس طرح نکلی ہوئی تھی جس طرح کوئی اَصیل مرغ ہو۔اِس مناسبت سے پہلے دِن ہی اُن کا نام سائیں کُکڑ رَکھ دِیا گیا تھا۔آدم کے دِماغ میںچارلس ڈِکنزکی کہانی کا مجرم آگیا۔ جو پِپ کو قبرستان میں ملتا ہے۔گریٹ ایکس پیکٹیشنز کی مکمل کہانی اُس کے دِماغ میں گھوم گئی۔ جِسے اُس نے بچوں کے رِسالے نونہال میں قسط وَار پڑھا تھا۔ آج کل وہ PINNOCHIO (پنوکیو)پڑھ رَہا تھا۔ پہلے دِن ہی آدم کے دِل میں سائیں کُکڑکی دَہشت بیٹھ گئی تھی۔ اُن کا اَصل نام اُستاد منظور تھا۔ اِنتہائی دَلیر،اِیمانداراَور غیرت مند آدمی تھے۔ اَپنے علاقے میں، جہاں سے وہ آئے تھے، اَپنے حق کے لیئے لڑتے ہوئے اِیک جرم کے مُرتکب ہوگئے۔ یہ رَوٹی ،کپڑا اَور مکان وَالوں کا دَور تھا۔ اُنہیںسراُٹھانے وَالے پسند نہیں تھے۔ اُنہیںتو صرف جھکنے وَالے پسند تھے۔اُستاد منظور اَپنے گاؤں سون سکیسر کو چھوڑ کر رَتہ اَمرال میں گمنامی کی زِندگی بسر کرنے لگے۔ صبح ڈاکخانے میں محنت مزدَوری کرتے لیکن کام پے جانے سے پہلے بچوں کو قران کا دَرس دِینا اَور چھٹی کے بعد عصر اَور مغرب کے دَرمیانی وَقفے میں دَرس دِینا اَپنا فرض سمجھتے تھے۔اُستا دمنظور کی ظاہری بناوَٹ شروع میں آدم اَور اُن کے دَرمیان حائل رَہی مگر رَفتہ رَفتہ آدم کے دِماغ سے اُس گریٹ اَیکس پیکٹیشنزکے کردار کے اَثرات دُور ہونے لگے۔ چونکہ وہ سبق یاد کرنے میںماہر تھا اِس لیئے بہت جلد ہی اُستاد کا چہیتا بن گیا۔
اَبھی اُستا دمنظور کو چند ہی ماہ گزرے تھے کہ لوہاروں کی مسجدکی اِنتظامیہ اَور متولیوں سے اُن کا اِختلاف ہوگیا اَور اُنہیں مسجد ِلوہاراں چھوڑنی پڑی۔پھر اُنہوں نے چودھریوں کی مسجد میں ڈِیرا ڈَال دِیا۔ سائیں منظور بچوں کو پڑھانے اَور دَرس دِینے کا کوئی محنتانہ نہ لیتے۔ بالکل بے لوث خدمت کرتے تھے۔ لحیم شحیم تھے،لیکن بلا کے طاقتور اَور مظبوط قوتِ ارادِی کے مالک تھے۔بالکل شفاف اِنسان تھے۔ دوسرے مولویوں سے مختلف اِس لیئے کیونکہ کھانے، پینے،کپڑے، لتے اَور رِہائش کا مطالبہ نہ کرتے اَور نہ ہی کسی بچی یا بچے پر بُری نظر رَکھتے۔اَپنی تمام ضروریات ، کپڑا،لتہ،کھانا پینا اَور گھر کا کرایہ وہ اَپنی تنخواہ سے ادَا کیا کرتے۔بچوں کو دِینی تعلیم اَور دَرس دِینے کا اُنہیں اِتنا شوق تھا کہ اَگر کوئی بچہ بھاگ کر چلا جاتا اَور اُنہیں پتا چلتا کہ فلم دِیکھنے گیا ہے ۔تو اُسے سینما سے اُٹھا لایاکرتے۔
پھر اِیک دِن اَیسا ہوا ۔چودھریوں کی مسجد کے کسی سرکردَہ رُکن کے بیٹے کو اُنہوں نے سبق نہ یاد کرنے پر ڈانٹ دِیا۔ جس کے بدلے اُس شخص نے سب بچوں کے سامنے اِن کی تذلیل کردِی۔پہلے تو برداشت کرتے رَہے اَور وہ شخص یہی سمجھتا رَہا کہ میری طاقت کے سامنے اِن کی کوئی پیش نہیں چل رَہی۔ پھر سائیں منظور نے بچوں سے اِجازَت لے کر اُن محترم کو زَمین پر اَیسا پٹخا کہ اُنہیں چودھریوں کی مسجد سے بھی ہاتھ دَھونا پڑے۔
اَب اُنہوں نے دَندی وَالی مسجد کی رَاہ لی۔ یہاں پر بچوں کو قران حفظ کروَانے کا پہلے سے اِنتظام تھا۔و ُ ہاں کے مولویوں سے اُستاد منظور کی خوب جمی۔ لیکن جب منظور صاحب کی شہرت بڑھتی گئی، تو دَندی وَالی مسجد کے مولویوں کو اَپنی دَوکانداری ماند پڑتی نظر آئی۔
پھر اِیک دِن اُستاد منظور، المعروف سائیں کُکڑغائب ہوگئے۔ نہ ڈاکخانے میں ملے نہ ہی مسجد میں۔ لیکن اَپنے قیام کے دَورَان اَیسے اَیسے لڑکوںاَور لڑکیوں کو قرآن پڑھنا سکھلا ء گئے کہ جن کو قابو میں لانا ناممکن تھا۔
آدم خان چغتائی نے، سائیں منظور کے پاس پہلے سال پورا قرآن پڑھنا سیکھ لیا تھا اَور کئی دَفعہ پڑھ بھی چکا تھا۔ آدم خان کے سکول کے رَاستے میں منظور صاحب کا ڈاک کا دَفتر بھی آتا تھا۔اَکثر سکول سے وَاپسی پر منظور صاحب اُسے رَوک لیا کرتے اَور بڑے فخر سے کہتے ،’’یہ میرا شاگرد ہے‘‘۔ اَپنے ساتھیوں کے سامنے ،اِسے نماز، دُعائے قنوت اَور کلمے سنانے کو کہتے اَور آدم فر فر سنا دِیا کرتا۔ اُستاد منظور بہت خوش ہوتے۔ اِسے اَپنا بھائی چارا کہہ کر پکارتے۔ یہ اُن کی اَپنی اِختراع تھی۔
٭
آدم خان ،سارہ برلاس کے ساتھ کھیل کر بڑا ہوا تھا۔ اَچانک دَونوںکے اَجسام میں نمایاں تبدیلیاں ہوئیں تو سارہ نے گھر سے نکلنا چھوڑ دِیا۔ اَور کبھی غلطی سے نظر آ بھی جاتی تو بڑی سی چادر اُوڑھے ہوئے ہوتی۔ شروع شروع میں اِس تبدیلی کو آدم نے بہت محسوس کیا لیکن پھر وہ اِس کا عادِی ہوگیا۔ اُس نے اَپنا جی کتابوں میں لگا لیا۔ کبھی گلی ڈَنڈا کھیل لیتا،کبھی کنچے،گولیاں،کبھی پتنگ بازی بھی کرلیا کرتا۔لیکن اِس کے برعکس سارا کبھی بھی اِسے سٹاپو کھیلتے نظر نہ آئی، نہ ہی رَسی کودتے یاکسِ کھیلتے نظر آئی۔آدم جانتا نہیں تھا یہ کیا ہے۔ لیکن وہ اُسے دِیکھنے کے نئے نئے بہانے تراشتہ کرتا۔ شروع ہی سے صبح اُ ٹھنا آدم کے لیئے عذاب تھا۔ اِس لیئے وہ کبھی بھی سکول وَقت پر نہ جاسکا۔ ہمیشہ سکول کے میدان سے پتھر اُٹھایا کرتا یا اُستادَوں کے ڈنڈے کھایاکرتا۔ لیکن جب سے سارا نے ٹانگے پے سکول جانا شروع کیا تھاتب سے آدم نے جلدی اُٹھنا شروع کر دِیا تھا۔،مقصد صرف سارا کی اِیک جھلک دِیکھنا ہوتا۔ اُس کی اِیک جھلک دِیکھ کے ٹھیک وَقت پر سکول پہنچ جاتا۔ اِس کے اساتذہ کو بڑی حیرت ہوئی کہ یہ کیا معجزہ وَقوع پذیر ہوگیا۔
پھر سارا نے اچانک ٹانگے پے سکول جانا بھی ترک کردِیا۔ اَب وہ سال کے سال انتظار کرتا۔ جس طرح GABDRIEL GARCIA MARQUEZ (گیبریئل گارسیا مارقے )کے ناول E IN THE TIME OF CHOLERA LOV (اُن دِنوں کی پیار کی کہانی جب ہیضہ پھیلا ہوا تھا)کا ہیرو بینچ پر بیٹھ کر اَپنی معشوق کا اِنتظار کرتا اَور دَوسری طرف سارا کے فرشتوں کو بھی
خبر نہیں تھی کہ آدم اُس کی اِیک جھلک دِیکھنے کے لیئے کتنا بیقرار اور مضطرب رَہتا ہے۔ پہلے وہ سارا کی اِیک جھلک دِیکھنے کے لیئے ٹانگے کا اِنتظار کرتا۔ جب وہ ٹانگے پے سوار ہو کے سکول چلی جاتی پھر اَپنے سکول کی رَاہ لیتا۔ جب یہ سلسلہ بند ہوگیا تو وہ عیدین کا اِنتظار کرتا۔ عید الفطر پے سویاں اَور عید الضحی پے گوشت دِینے کے بہانے اُن کے گھر جایا کرتا اَور اِس طرح سارا کی اِیک جھلک دِیکھ پاتا۔اِیک دِن آدم کو پتہ چلا کے سارا برلاس آرمی کے اِیک کپتان کے ساتھ بیاہ کر چلی گئی ہے۔ اِس دِن کے بعد اُسے آرمی سے نفرت ہوگئی۔
٭
خاقان خان چغتائی، آدم خان چغتائی کے والد ، بڑے رَنگین مزاج آدمی تھے۔ اَپنی پہلی بیوی کی فوتیدگی کے بعد اُنہوں نے بڑے جتن کیئے کہ اُن کی دَوسری شادی ہوجائے لیکن کوئی کوشش کارگر ثابت نہ ہوئی۔ اِس میں اُن کی بہن زمانی بیگم بھرپور مدد کر رہی تھیں، لیکن تمام کوششیں بے کار گئیں۔
آدم کے لیئے یہ دَو حادثے بڑے جانکاہ ثابت ہوئے، اِیک تو وَالدہ کا گزر جانا اَور دَوسرا سارابرلاس کی شادِی۔ دَونوں وَاقعات اُوپر تلے اِس طرح ہوئے کہ آدم کے ہوش اُڑ گئے۔ اَب وہ کھویا کھویا سا رَہنے لگا۔ادب سے لگاؤ تو تھا لیکن شاعری زِیادَہ نہ پسند کرتا اَور وَیسے بھی پندرہ سولہ سال کا لڑکا شاعری کی باریکیوں کو نہ سمجھ پاتا۔
٭
رَتہ اَمرال میں اچانک اِیک خبر آگ کی طرح پھیل گئی کہ کوئی عورت کسی لڑکی کے جہیز کے زیورات لے کر فرار ہوگئی ہے۔ بعد میں اُس عورت کو پکڑ لیا گیا۔ وہ کسی صاحب حیثیت خاندان سے تعلق رَکھتی تھی اِس لیئے اُسے چھوڑ دِیا گیا۔ لیکن اِس وَاقعے کا اِس کے بیٹے پر بڑا گہرا اَثر ہوا۔ وہ گھر سے بھاگ گیا۔ سب کے لیئے حیرت اَنگیز بات تھی ،کیونکہ تقسیمِ ہند بعد بڑی مشکل سے ہندو،سکھ اَور مسلمان
اَپنے اَپنے ملک میںقدم جما پائے تھے۔ لیکن جیسے جیسے وَقت گزر رَہا تھا۔ دَونوں ملکوں کو اِس بات کا اِحساس ہورہا تھا کہ اَنگریز،برصغیر پاک و ہند کو معاشی طور پے اِتنا کمزور کرکے جاچکے ہیںکے اِن کو سنبھلنے میں شاید صدیاںلگ جائیں۔
٭
ہندوستان صدیوں سے لٹتا آرَہا ہے۔ پہلے آریاء لوگ آئے۔دراوڑوں کو لوٹتے رَہے۔ بعد میں اُنہوں نے اَپنا مسکن یہیں بنا لیا۔ پھر اِیرانیوں نے کئی حملے کیئے اَور وَاپس چلے گئے۔ اِسی طرح۳۲۷ قبل اَز مسیح میں سکندرِ اَعظم نے حملہ کیا۔ ٹیکسلا کے رَا جہ اَمبھی کی مدد سے جہلم کے رَا جہ ،رَا جہ پورس کو شکست دِی۔ بعد میں اَپنا گورنر سلوکس نکیٹرچھوڑ کر چلا گیااِس کے بعد چندر گپت موریہ، پھر اُس کا بیٹا بندو سار اَور آخر میں اُس کاپوتا اَشوکا ہندوستان کا بادشاہ بنا۔پھر ہندوستان پر کُشانوں نے حکومت کی، یہ بھی بیرونی حملہ آور تھے۔ اِس کے بعد ہندو شاہی کا دَور گزرا۔ اَبھی وہ سنبھل بھی نہ پائے تھے کہ سفید ہنوں نے ہندوستان کو تہس نہس کردِیا اَور بے شمار بدھ مت کی خانقاہیںجلا کر رَاکھ کردِیں۔
مسلمانوں کی آمد ۷۱۱ عیسویںمیں ہوئی۔ محمد بن قاسم پہلا مسلمان سپہ سالار ہندوستان آیااَور کچھ عرصے کے بعد وَاپس چلا گیا۔ڈھائی سو سال کے وَقفے کے بعد اِیک اَور مسلمان حملہ آور اَفغانستان سے وَارد ہوا۔محمود غزنوی نے ہندوستان پر سترہ حملے کیئے۔لو ٹ مار کرکے چلا جاتا۔ تاریخ پڑھنے وَالے یہی سچ سمجھتے ہیں کہ محمود غزنوی بُت شِکن تھا لیکن وہ بُت شِکن ہونے کے ساتھ تھا لٹیرہ بھی تھا۔اِس کے بعد غوری،خلجی،تغلق اَور لودھی آئے۔ خاندانِ غلاماں کے دَور حکومت میں تیمور لنگ نے ہندوستان پرکئی حملے کیئے۔کچھ لوٹ مار کرکے چلے جاتے کچھ یہیں کے ہوکر رَہ جاتے۔ آریاؤںکے بعد جنھوں نے مستقل ہندوستان کو اَپنا مسکن بنایا وہ منگول تھے یعنی مغل۔تین سو پچاس سالہ دَورے حکومت میں جہاں اُنہوں نے تعمیرات کیں،مقبرے بنائے،باغات بنائے،محل اَور قلعے بنائے و ُہاں ہندوؤں کو لوٹتے بھی رَہے۔آخری حملہ آور اَنگریز تھے اُنہوں نے ہندوستان کی رَگوں سے خون کا آخری قطرہ بھی نچوڑ لیا۔ مغربی ممالک میں سب سے پہلے جنھوں نے ہندوستان میں قدم رَکھا وہ پرتگالی تھے،پھر فرانسیسی،وَلندیزی (ہالینڈ کے لوگ )اَور ہسپانوی آئے۔لیکن آخر میں اَنگریز وَارد ہوئے اَور سب کو مار بھگایا۔تاجر بن کر آنے وَالے پورے ملک پر قابض ہوگئے۔ ۱۸۵۷ کی جنگِ آزادی جسے وہ غدر کا نام دِیتے ہیں، کے بعد اُنہیں پورے ہندوستان پر فتح حاصل ہوگئی۔ اِس دَوران اَفغانستان سے دَو اَور بت شکن آئے۔ جن میں نادر شاہ درانی نے بہت کشت و خوں کیا۔ اَحمد شاہ اَبدالی، نادر شاہ سے بھی دَو ہاتھ آگے رَہا۔ اُس نے ہندوستان کی اِینٹ سے اِینٹ بجادِی۔
آدم خان کو تاریخ کی کتاب پڑھ کر بڑی حیرت ہوئی کہ ہندوستان کو لوگ پانچ ہزار سال سے لُٹ رَہے ہیں۔کتنا خوش حال ہوتا ہوگا۔جو سب اِس کو لوٹتے چلے گئے اَور اِس کے خزانوں میں کبھی کمی وَاقع نہ ہوئی۔ اِس پانچ ہزار سالہ تاریخ میں ہندوستان وَالوں نے آج تک کبھی کسی دَوسرے ملک پر حملہ نہ کیا اَور نہ ہی اَپنے سمندروں کو پار کرکے دَوسرے ملکوں میں گئے۔ صرف بیرونی حملہ آور آئے تو اُنہوں نے اِن کو اِستعمال کیا۔ اِس کامطلب یہ نہیں،ہندوستان کے لوگ ڈرپوک تھے۔نہیں۔بلکہ وہ خوشحال تھے اَور خوشحال لوگ کبھی بھی اَپنا ملک چھوڑ کر اَپنی مرضی سے پردِیسی نہیں ہوا کرتے۔
آدم بہت پریشان ہوا کہ اِن کے ہمسائے میں اِیک آدمی دیارِ غیر ،معاش کی تلاش میںگیا تھا۔کیا برصغیر پاک و ہند بالکل لٹ چکا ہے؟ آدم کے دِماغ میں کئی سوالات آتے۔ وہ سکول میں RADIANT WAY (ریڈئنٹ وے )پڑھ کر بڑا ہوا تھا۔جہاں وہ پل بڑھ رَہا تھا وہ جگہ کتابوں سے بالکل مختلف تھی۔ اُس عورت نے جب زیور چوری کیا تو اُس کا بیٹا غیرت کے مارے کیوں بھاگ گیا ،جبکہ ہندوستان کو لوگ یُگوں سے صدیوں سے لوٹ رَہے ہیں ۔ کیا اِن کے عوام کو بھی غیرت آتی تھی کہ ہم لوگ لٹیرے ہیں یا لوٹ کا مال کھاتے ہیں۔آدم اِن سوالوں کا جواب کسی کے پاس نہ تھا۔
٭
آدم خان اَپنے بچپنے کے نام نہاد عشق کو بھول چکا تھا کیونکہ اِس کے وَالد صاحب نے چند وَجوہات کی بنا پر رَتہ اَمرال چھوڑ دِیا تھا۔اَب یہ لوگ راولپنڈی کے علاقے صدر میں آکر آباد ہوگئے تھے۔ خاقان خان چغتائی کی رَتہ اَمرال چھوڑنے کی دَو وَجوہات تھیں۔ پہلی تو یہ کہ اُنہوں نے بڑی دَوڑ دَھوپ کے بعد اَپنی بہن زَمانی بیگم کی مدد سے دَوسری شادی کرلی تھی اَور وہ نہیں چاہتے تھے کہ اِن پر کوئی نقطہ چینی کرے اَور دَوسری وَجہ یہ تھی کے وہ نہیں چاہتے تھے کہ اِن کے بیٹے پر رَتہ اَمرال کے ماحول کا بُرا اَثر پڑے۔ کیونکہ چرس،گانجا،اَفیون، بھنگ اَور سب سے بڑھ کے ہیروئن اَور اِس کے ساتھ ساتھ قمار بازی کے اَڈے ،یہ سب چیزیں رَتہ اَمرال میں عام سی بات تھی اَور اِس سے بھی زیادہ پریشان کُن بات آدم کے دِماغ میں نئے نئے سوالات کا جنم لینا۔
مثلا ، اُس نے کتابوں میں پڑھا تھا کہ سب اِنسان برابر ہوتے ہیں تو پھر رَتہ اَمرال میں چوہدری،ملک،اعوان،رَاجپوت ،مغل اَور کَمی کیوں ہوتے ہیں۔عیسائی جن کو ملیچھ اَور شودر تصور کیا جاتا ہے،اِن کی گندگی اُٹھاتے ہیں۔اُن کے برتن اَلگ کیوں رَکھے جاتے ہیں؟اُنہیں زَمین پر کیوں بٹھایا جاتا ہے؟کرسی کیوں نہیں پیش کی جاتی ۔وہ بھی تو اِنسان ہیں۔ اِن لوگوںکے ساتھ اِنسانیت سوز سلوک کیوں کیا جاتا ہے؟ اُس نے قرآن کی سورۃ، اَلفاتحہ میں پڑھا تھا ،’’اَے اَللہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیںاَور تجھی سے مدد مانگتے ہیں‘‘ لیکن لوگ تو چوہدریوں سے اَور خانوں سے مدد مانگتے تھے۔شراب کو اِسلام میں بُرا کہا گیا ہے، تو لوگ عید و بقر عید پے شراب پی کر گندی نالیوں میں کیوں پڑے ہوتے ؟اَور لوگوں کی ماؤں بہنوں کو گالیاں دِیتے ۔ اُس کے اِن سوالوں کا کوئی بھی خاطر خواہ جواب نہ دِے سکتا۔
صدر کے جس علاقے میں یہ لوگ آکر آبا ہوئے تھے،گنجان آبا د نہ تھا۔ بڑی بڑی کوٹھیاں تھیں۔ بالکل صاف ستھرا علاقہ تھا،پانی کی نکاسی کا اِنتظام ، بلکہ اَجابت خانوں میں زَنجیر کھینچنے سے سب کچھ اِس طرح غائب ہو جاتا جیسے کبھی کچھ تھا ہی نہیں۔ پانچ سڑکی پٹرول پمپ سے چند قدم آگے، سرسید سکول کے بالکل سامنے اِیک کچی سڑک نیچے کو جاتی ہے۔اِس کے دَونوں طرف مہنگی مہنگی کوٹھیاں تھیں۔اِس سڑک کے آغاز میں صرف اِیک کوٹھی وِیران اَور غیر آباد تھی اَور شاید کافی عرصے سے خالی تھی۔ اِس سڑک کے اِختتام پر خاقان خان صاحب کا مکان تھا۔ خاقان صاحب نے یہ دَو کمروں کا مکان کرایہ پر لیا، جو پُرانی طرز کا ضرور تھا لیکن اِس میں تمام بنیادی سہولتیں موجود تھیں۔ پانی، بجلی اَور گیس، خاص کر اَجابت خانے میں زَنجیر کھینچنے کا اِنتظام اَور سب کچھ غائب ہوجانا۔
٭
آدم کو اِس کے وَالد صاحب نے دَس جماعتیں پاس کرنے کے بعد زَبردستی سائنس کے مضامین رَکھوا دِیئے، حالانکہ آدم کو آرٹ اَور ادب سے جنون کی حد تک لگاؤ تھا۔بچپن میں اِس نے نونہال ،تعلیم و تربیت اَور بچوں کی د ُ نیا کا باقاعدگی سے مطالعہ کیا تھا۔اَور جیسے ہی اُس نے سنِ بلوغت کو چھوا، اُس نے ادبِ لطیف،سویرااَور چٹان جیسے ادبی رَسائل پڑھنے شروع کردِیئے تھے۔ فزکس،کیمسٹری اَور رِیاضی سے اِسے دَور دَور تک کوئی لگاؤ نہ تھا۔اِس کے باوجود اِس نے باقاعدگی سے کالج جانا شروع کردِیا۔ مرتا کیا نہ کرتا۔ اَپنی خواہشات کو بالائِ طاق رَکھتے ہوئے اِس نے بڑی مشکل سے پری انجینیئرنگ میں دَو سال گزارے اَور دَو مہینے کی چھٹیاں ہوگئیں۔ چھٹیاں کیا ہوئیں،عذاب ہو گیا۔رَتہ اَمرال میں وَقت گزارنا مشکل نہ تھا۔ اِس کے دَوستوں کی اِیک لمبی فوج تھی۔ کہاںجمِ غفیر اَور کہاںنہ بندہ نہ بندے کی ذَات۔ خاقان صاحب اَپنی بیوی کے ساتھ مگن تھے اَور آدم اِیک ٹائم ٹریولر کی طرح اِن لوگوں کے ساتھ رَہ رَہا تھا۔ اچانک اِن کے پڑوس میںنئے لوگ آکر آباد ہوگئے اَور چند دِنوں میں اِن لوگوں کا میل ملاپ نئے پڑوسیوں سے اِتنا بڑھ گیا۔جیسے برسوں سے جانتے ہوں۔ خاقان صاحب صبح جاتے ،شام کو آتے اَور آدم سارا دِن گھر پے اَکیلا رَہتا۔
اِیک دِن اِن کی ہمسائی نجمہ بیگم ، آدم کی ماں کو کہنے لگی، ’’اَگر آدم فارغ ہوتا ہے تو میرے بچوں کو ٹیوشن پڑھا دِیا کرے۔ مَیںاِس کو معقول فیس دِیا کروں گی‘‘۔
آدم کی ماں کہنے لگی’ ’نجمہ بہن فیس کی تو کوئی بات نہیں، جیسے تمہارے بچے وَیسے ہمارے بچے۔ لیکن آدم ذرا مَن موجی قسم کا بچہ ہے۔ تم خود ہی پوچھ لو‘ ‘ ۔
تو نجمہ بیگم آدم کو مخاطب کر کے کہنے لگی،’ ’ہاں تو آدم ، اَگر تم تھوڑا بہت وَقت نکال لیا کرو‘‘ ۔
آدم نہ نہ کرسکاکیونکہ وہ وَیسے بھی رزلٹ کا اِنتظار کر رَہا تھا۔ اِس کا کوئی دَوست نہ تھا اَور سارا دِن گھر میں رَسالے پڑھتا، اِس کا وَقت بڑی مشکل سے کٹتا۔ آدم کی ماں خوش تھی کیونکہ وہ پڑوسیوں سے تعلقات سازگار رَکھنا چاہتی تھی۔ آدم کو ٹیوشن پڑھانا بہت بُرا لگتا تھا لیکن اُس نے ٹیوشن پڑھانا شروع کردِی۔
٭
نجمہ بیگم کی عمر لگ بھگ تیس سال ہوگی یا شاید زِیادَہ لیکن اَپنی عمر سے بہت کم دِکھتی تھیں۔ خود کو بڑا بنا سنوار کر رَکھتیں۔ اِن کے میاںکویت میں بینک آفیسر تھے۔ پندرہ سال کی عمر میں نجمہ بیگم کے وَالدین نے ، نجمہ کی شادِی اِس بینک آفیسر سے کردِی تھی اَور اِن کے میاں ، شادی کے بعد اِن کے پاس اِیک ماہ رَہ کر وَاپس کویت چلے گئے تھے۔ نوکری چھوٹ جانے کا خدشہ تھا۔کیونکہ اُنہیںچھٹی ہی اِتنی ملی تھی۔ اِس کے بعد سال یا چھ ماہ میں اِیک دَفع چکر لگا تے۔ بعد میں نجمہ کو بھی اُنہوںنے کویت بُلالیا لیکن نجمہ بیگم کا و ُ ہاں پے بالکل دِل نہ لگا،اس لیئے وَاپس آگئیں۔ نجمہ بیگم کے قدوس صاحب سے دَو بچے
تھے۔ نجمہ بیگم کے پاس کسی چیز کی کمی نہ تھی۔ گھر،بچے،پیسہ اَور کیا چاہئے تھا۔ لیکن نجمہ بیگم ، آدم کو پہلی ملاقات میں ہی اَپنا دِل دِے بیٹھیں۔ اُنہیں آدم سے پہلے اُنس ہوا اَور اُنس ،محبت میں بدل گیا اَور محبت اِتنی پروان چڑھی کہ کئی دَفعہ نجمہ بیگم کو گولیاں کھانی پڑتیں اَور معاملہ رَفع دَفع ہوجاتا۔
آدم کا ضمیر ملامت کرتا کہ وہ یہ کیا کر رَہا ہے۔لیکن پھر اَپنے دِل کو تسلی دِیتا، ڈھارس بندھاتا، ضمیر کومطمئن کرتا کہ ، یہ زَنا نہیں ۔اِس کے لیئے تو چار گواہوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن اِس زَنا میں تو خود نجمہ بیگم کی مرضی شامل ہوتی ۔وہ خود اِسے مائل کرتیں اَور اِس طرح وہ اَپنے ضمیر کو سُلا دِیا کرتا۔
آدم کاخیال اِیک دَم ڈِی اَیچ لارنس کے ناول
LADY CHATTERLAY’S LOVER (لیڈ ی چیٹرلی ز لور )کی طرف جاتا، اُسے
بالکل اَیسا محسوس ہوتا جیسے اِس کا ناوَل کا فلسفہ درست ہے کہ عورت کو صرف پیسہ اَور آسائشیں ہی دَرکا رنہیں ہوتیںبلکہ آسائشوں کے ساتھ ساتھ جنسی بھوک کو مٹانا بھی وہ زِندگی کا حصہ سمجھتی ہے۔ اِنسان ساری زندگی کسی نا کسی چیز کے پیچھے بھاگتا رَہتا ہے۔کبھی پیٹ کی بھوک، کبھی جنسی بھوک، کبھی اِیک
دَوسرے پے سبقت لی جانے کی بھوک اَور کبھی زَمین جائیداد کی بھوک۔
LADY CHATTERLAY’S LOVER (لیڈی چیٹر لی ز لور) میں اُس کا خاوَند معذور تھا۔ اُس کی جنگ کے دَوران ٹانگیں کٹ گئی تھیں،لیکن نجمہ بیگم کا خاوَند تو ٹھیک ٹھاک تھا، بس اُس کے اَندر دَوسروں پر بازی لے جانے کی بھوک تھی۔ جس کی وہ قیمت چکا رَہا تھا۔
٭
اَبھی آدم کا سلسلہ ،نجمہ بیگم کے ساتھ چل ہی رَہا تھا کہ اِس کا رزلٹ آگیا اَور وہ آگے مزید پڑھنے کے چکر میںپڑ گیا۔ اَب کہ پھر اِسے وَالد صاحب کی مرضی کے مطابق سائنس کے مضامین رَکھنا پڑے۔اِس وَقت کا ٹپیکل کمبینیشن یعنی رِیاضی، سٹیٹس، معاشیات۔اِس نے سٹیٹسٹک اَور نہ ہی اِکنامکس پہلی پڑھی نہ ہی اِسے اِن دَونوں مضامین سے لگاؤ تھااَور مزے کی بات یہ کہ اِکنامکس اُردو میں تھی اَور وہ شروع سے اِنگلش میڈیم میں پڑھتا آیا تھا۔
تمام پاکستانی بھیڑ چال کے عادِی ہیں ۔ ۱۹۴۷ کے بعد سب لوگوں کو بار اَیٹ لاء کا بخار تھا۔ ہر کوئی بیرسٹر بنتا اَور وَکالت کرتا۔کیونکہ محمد علی جناح نے بھی وَکالت پاس کی تھی اَور شاعر مشرق اِقبال نے بھی۔ اِس کے بعد لوگوں کے اَندر ڈاکٹر اَوراِنجینیئر بننے کا رِواج چل نکلا۔ پھر اَیم بی اَے کا رِواج چل نکلا۔ اِن دِنوں رِیاضی، شماریات،معاشیات اَور کمپیوٹر سائیسسزکا دَور چل نکلا تھا۔ اِسی وَجہ سے تعلیمی بہار کے مطابق آدم بھی مندرجہ بالا مضامین کے ساتھ کالج میں دَاخل ہوگیا۔
٭
آج جب آدم کالج سے وَاپس لوٹا تو کچھ لوگ اِن کی گلی میں جو وِیران و غَیرآباد کوٹھی تھی ، رَقبے کے لحاظ سے بڑی اَور کافی عرصے سے خالی تھی، اُس میں ٹرک سے گھریلو سامان اُتار رَہے تھے۔ پوچھنے پر پتا چلا کہ کوئی کھرل صاحب ہیں۔ آدم کے لیئے یہ نام بالکل نیا تھا۔ اُس نے چودہدری،ملک،خان،اَعوان اَور مغل وَغیرہ تو سُن رَکھے تھے لیکن یہ کھرل بالکل نیا نام یا قوم تھی۔
یہ گھرانہ پانچ اَفراد پر مشتمل تھا۔اَے بی کھرل یعنی عبدل بہرام کھرل،اِن کی بیگم محترمہ زُلیخاںمہترجان، اُن کی بیٹی نادِیہ بہرام کھرل،اُس کی گورنس کم آیا جو دَائی اَماں کے نام سے مشہور تھی، وہ زُلیخاں مہتر جان کے جہیز میں آئی تھی۔ اِس کے علاوہ اِن کا ڈرائیور ذَوق۔نام تو اُس کا ذَوق تھا لیکن تھا بالکل بد ذَوق۔ ذَوق عباسی بالکل اَنگریزوں کی طرح گورا چٹا تھا۔
آدم خوش تھا، چلو یہ وِیران حویلی آباد ہوئی، شاید اِس کا کوئی ہم عمر بھی ہوگا لیکن یہاں تو بات ہی عجب نکلی۔ آدم شام کے وَقت کسی کام کی غرض سے باہر نکلا تو اُس کی نظر کھرل صاحب کے لان میں پڑی۔ دِیواریں نیچی تھیں اِس لیئے وہ آسانی سے دِیکھ سکتاتھا۔ نظر کیا پڑی ، آدم کھڑا کا کھڑا ہی رَہ گیا۔ جیسے پتھر کا مجسمہ بن گیا ہو۔اُس کے سامنے سارا برلاس کھڑی تھی۔ وہ سارا نہ تھی لیکن اُس کے تصور میں
و ُہی تھی۔گلابی رَنگ کے شلوار قمیص میں جھولا جھولتے ہوئے کوئی کتاب پڑھ رَہی تھی۔
آدم نے جب سے اِس لڑکی کو دِیکھا تھا اُس کی تو د ُنیا ہی بدل گئی تھی۔نہ پڑھنے میں دِل لگتا،نہ کتابوں کو ہاتھ لگانے جی کرتا، نہ ہی کوئی اَدبی جریدہ پڑھنے کو دِل کرتا۔ سارا سارا دِن اُس لڑکی کے قریب جانے کے سپنے دِیکھتا رَہتا۔ تراکیب سوچتا رَہتا۔ لیکن اُس کی کوئی ترکیب کارگر ثابت نہ ہوئی۔کیونکہ کھرل صاحب اِنتہائی سخت طبیعت کے مالک تھے۔ اُن کی بیوی مہتر جان بھی کہیں آیا جایا نہ کرتیں۔ کھرل صاحب ، ستر ۷۰ یا اِس سے بھی کچھ زیادہ عمر کے ہونگیں۔ اِسلام آباد اسٹاک اَیکسچینج میں شیئرز خریدنے اَور بیچنے کا کام کرتے تھے۔ موصوف کا تمام کاروبار اَور پیسہ لاہور وَالی بیوی اَور بچوں نے ہتھیاء لیا تھا اَور وہ اَپنی نوجوان اَور خوبصورت بیوی اَور پیاری سی نادیہ کو لیکر تمام مسائل سے چھٹکارا پاکر راولپنڈی آگئے تھے۔ جو جمع پونجی تھی اُس کو اُنہوں نے اسٹاک اَیکسچینج میںلگا دِیا تھا۔ کوئی سلام کرئے تو جواب دِے دِیا کرتے لیکن زیادہ پروَاہ نہ کرتے۔ اِن کے پاس دَو گاڑیاں تھیں۔اِیک اِن کے اَپنے اِستعمال میں رَہتی اَور دَوسری میں اِن کی چہیتی بچی کانونٹ جایا کرتی۔کبھی کبھار مہتر جان ،ذَوق کے ساتھ سودا سلف خریدنے جاتیں،لیکن ساتھ میں دَائی ماں بھی ہوتیں۔
٭
کھرل صاحب کو یہاں رَہتے ہوئے دَو سال ہو چلے تھے لیکن اِن سے میل جول بڑھانے میں کوئی بھی کامیاب نہ ہوسکا۔ اِیک دِن اچانک اِن کی بیوی کسی حادثے کا شکار ہوئیں اَور دَارِفانی سے
کوچ کرگئیں۔ اَب تو جیسے نادِیہ بہرام کھرل پے مصیبتوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا ہو کیونکہ اِس کے اُو لیلوزکے فائنل اِمتحانات ہورَہے تھے۔ نادِیہ کی وَالدہ کی فوتیدگی پر آدم کو اِن کے قریب آنے کا موقع ملا لیکن یہ سلسلہ فوتیدگی کے ساتھ شروع ہوا اَور و ُ ہیں ختم ہو گیا۔ آدم کو اَپنا آپ وِلادِیوار نوبوکوف کے ناول LOLITA (لولیٹا)کے ہیرو جیسا لگنے لگا۔ آدم کے سوتیلے بہن بھائی اِس سے بڑا پیار کرتے تھے ،لیکن وہ اَپنی د ُ نیا میں مگن رَہتا۔نجمہ بیگم وَالا سلسلہ اُسی طرح چلتا رَہا، کیونکہ باوجود اِنتہائی کوششوں کے وہ نادِیہ بہرام سے کبھی بات نہ کرسکا اَور وہ جب بھی ناکامی کا منہ دِیکھتا ،وہ اَپنی خفت مٹانے کے لیئے نجمہ بیگم کا سہارا لیتا۔ لیکن اُس کے تصور میں نادِیہ ہی ہوتی۔
نادِیہ اِنتہائی مغرور اَور تنک مزاج لڑکی تھی ۔ہر وَقت ناک بھوں چڑھائے رَہتی۔ کبھی رَاہ چلتے ہوئے آدم سے ٹکراؤ ہو بھی جاتا تو اَنگریزی میں بڑبڑاتی آگے نکل جاتی۔یہ ٹکراؤ نادِیہ کے لیئے شاید اِتفاقیہ ہوتا ہو لیکن آدم اِس کے لیئے گھنٹوںسکیمیں بناتا،چُھپ کر اِنتظار کرتا، اِس ٹکراؤ کو اِتفاق کا رَنگ دِینے کے لیئے وہ بھرپور تیاری کرتا۔ وہ یہ سوچتا کہ اَگر نادِیہ کی قربت اُسے مل گئی تو وہ سارا کو بھول جائے گا۔نجمہ بیگم کے ساتھ وہ جو کچھ کر رَہا ہے اِس سے اُسے نجات مل جائے گی اَور اِس کا ضمیر ملامت کرنا چھوڑ دِے گا۔
٭
آدم عیدالفطر اَور عید الضحی پر ہی نماز پڑھتا لیکن اَب اِس نے باقاعدگی سے نماز پڑھنی شروع کردِی تھی۔یہ اچانک نماز کا شروع کرنا اآپ ،آدم کی اَپنی سمجھ میں بھی نہ آیا۔ اِنہیں دِنوں وہ بی اَیس سی فائنل کے اِمتحانات سے فارغ ہوا تھا۔اِس نے ALLIANCE FRANCAISE (آلیانس فغانسیزیعنی فرنچ کلچرل سنٹر)میں دَاخلہ لے لیا تھا۔ نماز کا وہ اِتنا پابند ہوگیا تھا کہ کبھی وہ سینما میں بیٹھا کوئی فلم دِیکھ رَہا ہوتا تو وہ فلم کے وَقفے میں نماز ضرور ادا کرلیا کرتا۔زیادہ تر عصر کی نماز کا وَقت ہوتا۔ اِس کے پسندیدہ سینمازتھے ،پلازہ،اُوڈین اَور سیروز تھے۔پاکستان نیشنل سینٹر، کینٹ لائبریری، میونسپل لائبریری، اِن تمام لائبریریوں کا وہ پہلے سے رُکن تھا لیکن جب سے اِس نے فرنچ کلاسس شروع کی تھیں اِس نے برٹش کونسل اَور امیریکن سنٹرکی بھی رُکنیت اَختیار کر لی تھی۔
فرانسیسی زبان کے سیکھنے کے دَوران وہ بہت سی نئی چیزوںسے متعارف ہوا۔خاص کر فرانسیسی اُدباء اَور مصوروں سے۔ نہ صرف فرانسیسی مصوروںکے بارے میںبلکہ یورپ کے کئی مصوروں کے بارے میںاُسے پتا چلا جن سے وہ ناآشنا تھا۔ Van Gogh (وَین گوغ )اَور Paul Gaugin (پال گوگاں)کو اُس نے بڑا پسند کیا۔ اِس کے علاوہ Mattise (ماتس)اَور Salvadore Dali (سلوادور دَالی)بھی اِسے بہت بھلے لگے۔ جبکہ ادب میںگِی دِی موپاساںنے اِس کی سوچ بدل کر رَکھ دِی۔اِس کے علاوہ Emile Zola,Gustauve Flaubert ,Stendahl اور Honoré de Balzac (اَیملے زَولا، گستف فلوبیخت ، ستاندال ،اُونرے دِی بالزاق )نے بھی اِسے متاثر کیا۔Voltaire اَور Jean Jacques Rosseau (وُولیٹغ اَور یاں یاک رَوسو)اِس کے پسندیدہ فرنچ فلاسفر تھے۔
اِیک طرف سعادت حسن منٹو،دَوسری طرف Maupassant,D.H.Lawrence,Henri Miller,
Giovanni Boccaccio, Dante, Voltaire اَور Rosseau (موپاساں، ڈِی اَیچ لارنس، ہنری ملر، وُولتیغ، دَانتے، بوکاچو اَور رَوسو)تھے۔ ادب اَور مذہب کا اِختلاف ہوا۔اَب آدم کا کام کتب خانوں کی خاک چھاننااَور باقاعدگی سے نماز پڑھنا تھا۔ خاقان خان چغتائی کو اَپنے بیوی بچوں سے کبھی فرصت ہی نہ ملی کہ وہ پوچھتے، ’’بیٹا آدم کیا حال ہے‘‘؟ اِس کی تمام ضروریات زِندگی پوری ہوجاتیں لیکن سب کچھ پیسہ ہی تو نہیں ہوتا۔ پیار ،شفقت اَور محبت اِن سب چیزوں کی اَہمیت کو کبھی کسی جانا ہی نہیں تھا۔
آدم نے جب آنکھ کھولی تو ملک مارشل لاء کے ہاتھوں سے نکل کر تازَہ تازَہ جمہوریت کے ہاتھوں میں آیا تھا۔ لیکن جب اِس نے شعور کی منزلیں طے کیں تو پھر مارشل لاء نافذ کردِیا گیا۔ اِیک نیا ڈکٹیٹر آگیا۔ بالکل اِ س طرح لگتا جیسے برِصغیر پاک و ہند کے لوگ پیدائشی غلام ہیں ۔ وہ غلام ملک میں پیدا ہوتے ہیں اَور اِسی میں مر جاتے ہیںاِسی طرح آدم سوچتا کہ وہ آمروں کے ملک میں پیدا ہوا اَور اِنہیں کی آمریت میںمرجائے گا۔ اِس آمریت نے نہ صرف چند مزید مذہبی تنظیموں کو جنم دِیا تھا بلکہ کراچی میں مہاجر قومی مومنٹ کے وَجود کی وَجہ بھی یہی آمریت تھی۔ اِیک چیز کو دَبا رَہے تھے دَوسری چیز باہر آگئی۔آدم کو جب کہیں سکون نہ ملتا تو صدر کے علاقے میں اَنوار کیفے پر آکر بیٹھ جاتا۔ یہ مختصر سے حصے پر مشتمل تھی اَور کبھی کبھی ڈَرائیور ہوٹل پر چلا جاتا۔ یہ دَونوں ہوٹل چھوٹے چھوٹے تھے۔ اِیک کشمیر روڈ پر وَاقع تھا ۔ جو رَاستہ گوالمنڈی کی طرف جاتا ہے، اِس کے بالکل سامنے ملٹری اکاونٹ آفس تھا۔جبکہ اَنوار کیفے آدم جی رَوڈ پر وَاقع تھی۔ اِس کے بالکل سامنے بہت بڑی مینار وَالی مسجد تھی۔ جو کبھی بہت چھوٹی ہوا کرتی ہوگی۔اَللہ کے گھر کو تجاوز کرتے کرتے اِتنا آگے لے آئے کہ سڑک تنگ ہوگئی ، لیکن اَللہ کے گھر کے آگے قانون خاموش ہوگیا۔ یہیں اَنوار کیفے پے آدم کی ملاقات ،بدآیونی صاحب سے ہوئی۔ سگرٹ کے مرغولے بناتے ،چائے پیتے اَور کچھ بڑبڑاتے رَہتے ۔ لوگوں نے اِسے بتایا یہ پاگل ہیں اِن کے پاس نہ جانا۔ لیکن آدم کے اَندر تجسس کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ وہ اِن کے پاس جا بیٹھا۔ بد آیونی صاحب کہنے لگے ،’’چل اُو چل دَفعہ ہوجا،مینو تنگ نہ کر۔تُسی سارِے مینو پاغل کہندے اُو۔پاغل مَیں نئی،تْسی اُو۔سارا دِن اَپنڑیاں خواہشاں دِے پچھے دَوڑدِے رَہندے اُو۔ اُو وِیخ اُس نمازی نو کینویں پورے پنڈے تے خارش کر رِیا اَے۔اِنوے لگدا اِے نماز پڑھن نئی خارش کرن آیا اَے۔جنویں کتے نو پاں پیئی ہوندی اَے۔ اِنو تے پتا وِی نئی پڑھدا پیا کی اَے۔ بس پیڈاں وَنگڑ مولوی دِے پچھے ٹکرا مار دِیا پیا اَے‘‘۔ آدم کہنے لگا ، ’’یہ ٹھیک ہے بد آیونی صاحب ، لیکن نماز کا تعلق اِس کے آنے جانے ،سمجھنے میں نہیں بلکہ اِس کی نیت میں ہے۔ خدا یہ دِیکھتا ہے کہ آپ اِس د ُ نیا کی گہما گہمی میں گم تو نہیں ہوگئے۔ اِس کی چکاچوند رَوشنی نے آپ کی آنکھوں کوخیرہ تو نہیں کردِیا، کیونکہ وَاپس تو اُسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔د ُنیا آخرت کی کھیتی ہے‘‘ ۔بد آیونی صاحب نے بھڑک کے کہا،’’ اُوئے کیڑا اَللہ تے کیڑا خدا، چل ہٹ مینو quantum theory (قوانٹم تھیوری)دِے بارِے سوچن دِے‘‘ ۔ اِتنے میں دَوسری میز پر بیٹھے اِیک بزرگ تشریف لائے اَور کہنے لگے،’’بیٹا اِن کو تنگ نہ کرو، ہمارے ملک میں لوگوں کو اِتنا شعور نہیں۔ وَیسے ہی کوئی اُ لٹی سیدھی بات کہہ دِیں گے اَور لوگ اِنہیںمارنا شروع کردِیں گے‘‘۔ آدم کہنے لگا،’’جناب آپ کون‘ ‘؟تو محترم کہنے لگے،’’ مَیں راولپنڈی شہر کا اِیک اَدنی ــ سا ادیب ہوں‘‘۔ آدم کو بڑی خوشی ہوئی۔ اُسے پہلی دَفعہ کسی ادیب سے ملنے کا اِتفاق ہوا تھا۔ وہ سوچتا تھا ،پتا نہیں جو لوگ کتابیں لکھتے ہیں، جانے وہ کیسے ہوتے ہیں۔ لیکن بالکل عام اِنسان تھے۔ ظاہراً ، باطناً تو یقینابڑے گہرے اِنسان ہونگے۔ ادیب ،شاعر ،اَفسانہ نگار، یہ لوگ تو معاشرے کا خلاصہ ہوا کرتے ہیںمعاشرے کی کریم ہوتے ہیں۔ جبکہ عام تاثر یہ ہے کہ فوج میں ملک کا خلاصہ جاتا ہے۔ کریم جاتی ہے۔ حالانکہ فوج ملک کا خلاصہ نہیں لے جاتی۔اِس کے علاوہ جو لوگ سی اَیس اَیس کرتے ہیں وہ بھی ملک کا خلاصہ کہلاتے ہیں۔ حقیقت میں اَیسا نہیںہوتا۔ نہ تو سی اَیس اَیس میں تخلیقی صلاحیتیں اُجاگر ہوتیں ہیں نہ ہی فوج میں۔ یہ دَونوں تو اَصولوں کے پابند ہوتے ہیں، جبکہ تخلیق کار کسی چیز کا پابند نہیں ہوتا، چونکہ د ُ نیا میں اِنسانوں کو جانچنے کا پیمانہ پیسہ مقرر کر دِیا گیا ہے خاص کر اِیشیائی ممالک میں، اِس لیئے لوگ ظاہری آن بان کی طرف زیادہ مائل ہوتے ہیں اَور اَدیبوں کی کسمپرسی اْنہیں کم کم دِکھائی دِیتی ہے۔عزیز ملک صاحب نے پاکستان بنتے دِیکھا تھا۔ وہ بمشکل پندرہ سال کے ہونگے۔ اُن میں شروع ہی سے اَپنے حق کے لیئے لڑنے کی طاقت تھی۔ خاکسار تحریک کے سرکردہ رْکن تھے۔ نہ تو اُنہیں مسلم لیگ بھائی، نہ کانگریس۔ اُنہیں علامہ مشرقی کی بیلچہ تحریک پسند آئی۔ یعنی خاکسار تحریک۔ خاکسار تحریک کا منشور مسلم لیگ سے مختلف تھا اَور دِل کو بھی لگتا تھا۔اَگر محمد علی جناح نے علامہ مشرقی کی بات مان لی ہوتی تو آج پاکستان دَو حصوں میں کبھی تقسیم نہ ہوتا، نہ ہی مہاجرین کی آمدو رَفت میں کُشت و خوں ہوتا۔ لیکن جناح اَپنی ضد پے اَڑے رَہے۔ اُنہیں اِس بات سے کیا سروکار تھاکہ اِیک ملک آزاد ہوگا۔ اُنہیں تو نہرو کو دِکھانا تھاکہ وہ کتنی طاقت رَکھتے ہیں۔ کیونکہ نہرو صاحب کبھی بھی نہیں چاہتے تھے کہ جناح کانگریس میں رَہیں۔ جب جناح نے پارسی لڑکی سے شادی کی تو نہرو کو بہانہ مل گیا۔ سونے پے سہاگہ یہ ہوا کہ پارسی برادری نے کانگرس کو چندہ دِینے سے اِنکار کردِیا اَور اُس وَقت کانگریس کو پیسوں کی سخت ضرورت تھی۔ کانگریس بنا پیسوں کے چل ہی نہیں سکتی تھی۔ جناح کبھی سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہااُنہیں اِتنی بڑی شکست ہوگی۔کیونکہ آپ اِتنے ذَہین،فطین و فرزانہ آدمی تھے۔ بڑے بڑے لوگوں کے چھکے چھڑوا دِیا کرتے۔آپ کی خوش وَضعی و زِیبائش کا اَندازہ اِس بات سے لگایا جاسکتا ہے کے آپ کے پاس آسٹن رِیڈ کے پانچ سو سوٹ تھے اَور پچاس عدد جوتوں کے جوڑے اَور جانے کتنی ہی ٹائیاں تھیں۔ دَو عدد گاڑیاں۔اَپنے رَکھ رَکھاؤاَور دَولت سے اُنہوں نے اُس پارسی لڑکی کو اِتنا مرعوب کیا کہ وہ آپ کے پاس دَوڑی چلی آئی۔ حالانکہ یہودِیوں اَور پارسیوں میں خاندان سے باہر شادی کرنے کا بالکل رِواج نہیں۔ آگے چل کر جناح کی بیٹی نے اِیک پارسی لڑکے سے شادی کی۔
’ ’پہنچی و ُہیں پے خاک ،جہاں کا خمیر تھا‘‘۔
لیکن جب ملک بنا تو جناح بڑی نیک نیتی سے ملک کی تعمیر میں لگ گئے اَور خان صاحب یہی سوچتے تھے کہ ملک بنا کر ہمارے حوالے کرجائیں گے۔
٭
آدم کو اِمتحانات میں کامیابی نصیب ہوئی ۔ اَب سوچنے لگا کہ کیا کرے۔ اِس کے سامنے کئی رَاستے تھے۔ وہ ماسٹرزکرسکتا تھا،سی ایس ایس کرسکتا تھا،سی اَے کچھ بھی چاہتا۔لیکن اِس کے وَالد صاحب نے پھرٹانگ اڑائی، ’’بیٹا شماریات میں یا رِیاضی میں ماسٹرز کرلو۔ لیکچرر کی نوکری مل جائے گی ۔ انجینیئر تو تم بن نہ سکے نہ ہی تمہیں فوج میں بھرتی ہونے کا شوق تھا‘‘۔آدم نے پہلی دَفعہ اَپنے وَالد صاحب کے سامنے اَپنی مرضی کا اِظہار کیا کہ ،’’وہ اَپنی مرضی سے مضمون پسند کرے گا وَرنہ پڑھائی چھوڑ دِے گا‘‘۔ اِس جھگڑے کی وَجہ سے آدم کے باپ نے کہا، ’’اَگر پڑھنا چاھتے ہو تو ریاضی یا شماریت میں دَاخلہ لینا ہوگا وَرنہ تمہیں کسی قسم کا کوئی خرچہ نہیں ملے گا۔ وَیسے ادب اَور فلسفے میں رَکھا ہی کیا ہے۔ کتنے ہی اِنگلش،اُردو اَور فلسفے میں اَیم اَے ، سڑکوں پے مارے مارے پھرتے ہیں‘‘۔
’’تو ٹھیک ہے مَیںنوکری کروں گا اَور پرائیویٹ طور پے فلسفے یا ادب میں ایم اَے کروں گا۔ مجھے شوق ہے‘‘۔
خاقان صاحب نے کہا ،’’ ٹھیک ہے بیٹا جیسے تمہاری مرضی ، اَفسانوی د ُ نیا سے جب باہر نکلو گے تو تمہیں آٹے دَال کا بھاؤ معلوم ہوگا‘‘۔
خاقان صاحب کی بات بالکل درست نکلی۔ وہ جہاں بھی نوکری کے لیئے جاتا ،کوئی رِشوت مانگتا،کوئی سفارش اَور کوئی تجربہ ۔ رِشوت اَور سفارش تو ممکن تھی، لیکن وہ تجربہ کہاں سے لاتا۔جہاں بھی وہ اِنٹرویو کے لیئے جاتا اُس کی دَرخواست کبھی تھیلے میںڈَال دِی جاتی، کبھی ٹوکری میں ڈَال دِی جاتی۔ یہاں اَیم اَے پاس ،بی اَیس سی ،بی اَے۔،بی بی اَے اَور بی کا م سب کو اِیک برابر ہی تصور کیا جاتا۔ اِس کی بڑی دِل آزاری ہوئی۔ وہ چار پانچ سال تک سائنس کے مضامین میں سر کھپاتا رَہا اَور یہاں سب کو گریجوئیٹ کہہ کر فرق مٹا دِیا گیا۔ اِسے بالکل اَیسا لگا جیسے گدھے ،گھوڑے برابر ہوگئے ہوں۔ اِس کا اِظہار اِس نے کسی سے نہ کیا۔ضد چھوڑ کر خاقان صاحب سے کہنے لگا، ’’ابو جیسے آپ کہیںگے وَیسا ہی کروں گا مَیں ہار گیا ہوں‘‘۔ خاقان صاحب نے کہا،’’ بیٹا شوق پورا ہو گیا، چلے تھے نوکری ڈھونڈنے۔سرکاری نوکری تو دَور کی بات ، تمہیں اَین جی اُوز بھی ملازم نہ رَکھیں۔ بیٹا زندگی رَاج کپور یا دَلیپ کمار کی کوئی فلم نہیں۔ نہ ہی وہ اِنڈیا اَور پاکستان ہے۔جہاں گریجویٹ ڈھونڈنے سے نہیں ملتا تھا۔ اَب تو گریجویٹ اَیسے گھومتے ہیں جیسے کبھی لوگ میٹرک پاس کیا کرتے تھے تو بڑی فخر کی بات تصور کی جاتی تھی۔ مقابلہ بہت بڑھ گیا ہے۔ڈاکٹرز کو نوکریاں نہیں ملتیں جب تک وہ سپیشلائیزنہ کریں۔ جن ملکوں میں آمریت ہوتی ہے۔ اُن کی معیشت تباہ ہوجاتی ہے۔شرح خواندگی تو دَور کی بات ہے،لوگوں کی دَال رَوٹی بھی نہیں پوری ہوتی۔ اِس آمریت سے معیشت کا ستیہ ناس ہوجاتا ہے‘‘۔
آدم نے پہلی دَفعہ اَپنے وَالدصاحب کو اِیک شُعلہ بیاں مقرر کی طرح بولتے سُنا تھا۔تھوڑے توقف کے ساتھ پھر بولے، ’’بیٹا جب ملک بنا تھا تو لوگوں نے پاکستان کو خوشیوں کی سرزمین تصور کیا تھا۔ لیکن گورے گئے تو کالے اَنگریز آگئے، اِن کو تو پوچھو مت۔ یہ جو تم سرابوں کے پیچھے بھاگتے ہو۔۔۔۔۔چھوڑ دَو بھاگنا۔۔۔۔۔۔اِن سرابوں کے پیچھے۔ اِس کا اَنجام بربادی ہے۔ یا تم پاگل ہوجاؤ گے یا خودکشی کر لو گے۔ عام اِنسان بن کر جینا سیکھو۔ اَفسانوی د ُ نیا سے یہ حقیقی د ُ نیا زیادہ تلخ ہے۔
you know my son, facts are bitter than fiction. (تمہیں پتا ہے میرے بیٹے، حقیقت ،اَفسانے سے زیادہ تلخ ہوتی ہے)‘‘
آدم کہنے لگا، ’’اَبو آپ تو فلاسفر ہیں۔ آپ بالکل VOLTAIRE وولتیغ) اَور ROSSEAU(غوسو) کی طرح بول رَہے ہیں‘‘۔
’’ بیٹا مَیں بھی جب جوان تھا تو تمہاری طرح سوچتا تھا، لیکن اِن معاشرتی زَنجیروں نے میرے اَیسے کس بل نکالے کہ سارا فلسفہ جھاگ کی طرح بہہ گیا۔ دَو وَقت کی رَوٹی کا فلسفہ سب کچھ بھلا دِیتا ہے۔تم نے کبھی سوچا ہے کہ اِس گھر کے اِخراجات چلانے کے لیئے مَیں کیا کیا پاپڑ بیلتا ہوں‘‘۔
’’ لیکن د ُ نیا کا ہر باپ یہ کرتا ہے‘‘ ، آدم نے کہا۔
’’ یہ ٹھیک ہے بیٹا،لیکن اِس کا یہ مطلب تو نہیںکہ آپ سوچنا ہی چھوڑ دِیں، اِحساس کرنا ہی چھوڑ دِیںکہ آپ کے وَالدین آپ کو محنت مزدوری کرکے پالتے ہیںتو آپ اَپنے فرائض اَور اَپنی ذِمہ دَاریاں بھول جائیں۔ اَور ہاں تم چاہو تو فلسفہ رَکھ سکتے ہو۔ کیونکہ مجھے اِحساس ہوا ہے کہ تم جب بھی کہیں نوکری کے لیئے جاؤ گے تو اُنہیں پوسٹ گریجوئیٹ چاہئے ہوگا اَور یہ ضروری تو نہیں کہ جس مضمون میں تم ماسٹرز کرو تمہیںاُسی سے متعلق ہی نوکری ملے‘‘۔
٭
آدم بڑا خوش تھا اُسے فلسفے میں دَاخلہ مل گیا تھا۔ اَب تو جیسے اِس کی د ُ نیا ہی بدل گئی تھی۔ خود کو د ُ نیا کے عظیم فلسفیوں کے فلسفے میں ڈبوئے رَکھتا۔ ارسطو،سقراط،بقراط اَور ہر وہ فلسفی جس کے نظریات اَور فلسفے میں طنز، رَمزو کنایہ اَور ہجو گوئی ہوتی، اُسے پسند آتا۔ اِس دَوران اِس کی نادِیہ بہرام کھرل سے ملنے کی کوششیں جاری رَہیں۔ لیکن ہمیشہ ناکامی کامنہ دِیکھنا پڑتا۔ پھر اچانک اُسے اُمید کی اِیک کرن دِکھائی دِی۔نجمہ بیگم ، آدم کی پریشانی جانتی تھیں۔ لیکن آدم کے چھن جانے کے ڈر سے اُنہوں نے اِس کی کبھی مدد نہ کی۔ آج اُنہوں آدم کو نادِیہ کا فون نمبر دِیا اَور بتایا کہ،’’ فلاں وَقت فون کرنا، اِس وَقت وہ بالکل اَکیلی ہوتی ہے‘‘۔ آدم کی تو جیسے لوٹری نکل آئی ہو۔ نجمہ بیگم کہنے لگیں، ’’آدم۔۔۔۔۔تم سراب کے پیچھے بھاگ رَہے ہو۔جس طرح مَیں سراب کے پیچھے بھاگ رَہی ہوں۔ مَیں تمہاری تکلیف سمجھتی ہوں۔ لیکن جب تم اَپنی منزل پالو گے تو سارا مزہ کِر کِراہوجائے گا‘ ‘۔ اُسے کچھ سنائی نہیں دِے رَہا تھا۔ ’’آدم مَیں تم سے اِتنا پیار کرتی ہوں کہ تم تصور بھی نہیں کرسکتے ۔اَگر میری چند مجبوریاں نہ ہوتیں، میرے بچے نہ ہوتے، تو میںتمام باتوں کو بھول کر تم سے شادی کرلیتی ۔ لیکن مَیں نہیں چاہتی کہ میرے بچوں پے میرے کسی فعل کا بُرا اَثرپڑے ۔ جو کچھ تم اَور مَیں کرتے ہیں اِس میں میرا کچھ نقصان ہے نہ تمہارا۔ اَگر تم میرے سا تھ کچھ بھی نہ کرو، مجھے تمہاری قربت میں ہی بہت کچھ مل جاتا ہے۔جنسی تلذز تو عارضی ہوتا ہے۔جانتے ہو؟ جب میں تیرہ ،چودہ سال کی تھی ، مَیں نے کئی خواب بُن رَکھے تھے۔پریوں کی کہانیاں پڑھ کے میں کسی کوہ قاف کے شہزادے کے اِنتظار میں رَہتی تھی ۔ قدوس صاحب کا جب رِشتہ آیا تو میری ماں اِنکار نہ کرسکی۔ میری ماں نے بہت غربت دِیکھی تھی۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ اُس کی بیٹی بھی اَپنی خواہشات کا گلا گھونٹے اَور چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کے لیئے اَپنے خاوند کی مار کھائے ۔ قدوس صاحب میرا بڑا خیال رَکھتے، لیکن میری اَور اُن کی عمر میں بیس سال کا فرق تھا۔ مَیں نے حالات سے سمجھوتا کر لیا۔ بات عمر کے فرق کی نہیں، اَفسوس تو اِس بات کا ہے کہ بھیڑ بکری کی طرح ہانک دِیا گیا۔مجھ سے پوچھا تک نہیں۔ بس اِتنا بتایا گیا کہ لڑکا کویت میں ہوتا ہے۔ حالانکہ ہمارا مذہب عورت کو اَپنی پسند کی شادی اَور اِس سے مرضی پوچھنے کا حق دِیتا ہے۔ مولوی حضرات یا گواہ اِس لیئے تین بار پوچھتے ہیںکہ اَگر لڑکی کی مرضی ہو تو ہاں کرے وَرنہ نہ بھی کرسکتی ہے۔ مَیں کیسے نہ کردِیتی۔ پورے خاندان کی عزت مٹی میں مل جاتی۔ میرے وَالدین کی برادری میں ناک کٹ جاتی۔ عورت، مردوں کی ناک کے لیئے ہی جیتی ہے۔ جب بیٹی اَور بہن ہوتی ہے تو ماں باپ اَور بھائیوں کی عزت کا پاس رَکھتی ہے۔ جب بیوی بنتی ہے تو خاوَند کی عزت کا پاس رَکھتی ہے۔ جب ماں بنتی ہے تو بیٹوں کی عزت کا پاس رَکھتی ہے ۔ مردوں کی اِس د ُنیا میں نہ صرف مرد اِس کی حق تلفی کرتا ہے بلکہ خود عورت بھی عورت کی حق تلفی کرتی ہے۔میرا ضمیر بھی کبھی کبھی ملامت کرتا ہے کہ مَیںنے تم سے جسمانی تعلقات کیوں رَکھے ہوئے ہیں۔ اِس لیئے نہیں کہ مجھے جنسی بھوک ہے، بلکہ تم مجھے پہلی نظر میں ہی بھا گئے تھے۔ تم اَپنے تمام ہم عمروں سے مختلف تھے۔ وہ ٹیوشن کا تو اِیک بہانہ تھا۔ میرے پاس موقع بھی تھا اَور بہانہ بھی۔تم کیا سمجھتے ہو قدوس میاں کویت میں کسی عورت کے پاس نہیں جاتے ہونگے۔ اَور کیا شادی سے پہلے وہ بڑے پاک صاف تھے۔ مَیںجانتی ہوں کویت میں فلیپائن اَور روس کی لڑکیاں دَھندا کرتی ہیں۔ وہ اُن کے پاس جاتے ہیں۔ لیکن جب چھٹی پے گھر آتے ہیں،مَیں کیل کانٹے سے لیس، اَپنی تمام تریا چلتریاں اِستعمال کر کے اُن کے سامنے خود کو اِس طرح پیش کرتی ہوں کہ وہ بھوکے شیر کی طرح ٹوٹ پڑتے ہیں۔ لیکن عورت جان جاتی ہے کہ
اِس بھوکے شیر کی بھوک مٹتی رَہتی ہے۔ اِس لیئے وہ پیسے کے پیچھے بھاگتا رَہتا ہے۔اَور اَپنی بیوی پر اِحسان کرتا ہے کہ وہ اِس کے لیئے بھاگ دَوڑ کر رَہا ہے۔ جنسی سرگرمیوںسے عورت کو کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ لیکن اِیک بات قدرت نے کمال کی رَکھی ہے۔ عورت کے حسن کو زَوال آجاتا ہے۔ لیکن مرد مرتے دَم تک جنسی تلذز حاصل کر سکتا ہے، اَگر وہ اَپنی صحت اَور خوراک کا خیال رَکھے۔ جبکہ عورتیںاِیک خاص عمر کے بعد جنسی سرگرمیوں سے اُکتا جاتی ہیں‘‘ ۔ آدم بت بنا سنتا رَہا۔ خاص کر فلاسفی آف سیکس، یعنی جنسیات کے متعلق فلسفہ اُسے بڑی عجیب لگی لیکن ٹیلی فون نمبر ملنے کی خوشی میں وہ خاموشی سے سب کچھ سنتا رَہا۔
٭
آدم کئی دِنوں تک فون نمبر لیئے گھومتا رَہا لیکن فون کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔ اِیک دَفعہ بڑی مشکل سے ہمت کرکے، کانپتے ہو ئے ہاتھوں سے نمبر ملایا۔ دَوسری طرف سے آواز آئی، ’’ہیلو،ہیلو، ہیلو‘‘ ۔ آدم خاموش رَہا۔ دَوسری طرف سے ، ’ ’سٹوپڈ، فول ، یعنی بیوقوف ،بدتمیز‘‘کہہ کر فون بند کردِیا گیا۔ چند دِنوں بعد آدم نے پھر سوچا کہ فون کیا جائے۔ خواہ کچھ بھی ہو جائے۔ وہ بات ضرور کرے گا۔ اِتنا پڑھا لکھا ہونے کے باوجود اِس کے اَندر سے نہ جانے وہ تمام بے باک پن کہاں چلا جاتا۔اِس نے نمبر ملایا۔ دَوسری طرف سے آواز آئی،’ ’ہیلو‘‘۔’ ’جی مَیں آدم خان چغتائی اَور آپ‘‘؟
"I am Nadia, Nadia Behram Kharal” (میں نادیہ بہرام کھرل)
Adam said, "Would you like to become my friend” آدم نے کہا، ’’کیا آپ مجھ سے دوستی کریں گی)
Nadia said,”No! I can’t , I can’t even have girl friend” (نادیہ نے کہا، ’’نہیں ۔۔مَیں نہیں کرسکتی۔ مَیں تو کسی لڑکی سے بھی دوستی نہیں کرسکتی)
آدم نے مزید کچھ کہنا چاہا لیکن دَوسری طرف سے رَسیور ، چونگے پر رَکھ دِیا گیاتھا۔
دَوسرے دِن ڈَر اَور خوف کے ملے جلے جذبات کے ساتھ اِس نے پھر نمبر گھمایا۔ اِسے ڈَر تھا اَگر کھرل صاحب کو پتہ چل گیا تو شاید گولی سے اُڑا دِیں گے۔بہت اَمیر لوگ تھے اَور آدم نے نادِیہ کے بارے میں یہی امیج بنایا ہوا تھا کہ کوئی بہت ہی ذَہین اَور انٹلیکچوئل لڑکی ہوگی۔ نمبر ملا کر وہ اَبھی سوچ ہی رَہا تھا کہ دَوسری طرف سے آواز آئی ، ’’ہیلو‘‘ ۔آدم نے جواب میں کہا،’ ’مَیں بول رَہا ہوں، آدم‘‘۔ نادِیہ کہنے لگی ،’’مَیں نے آپ کو کہا تھا کہ میں لڑکو ں سے دَوستی نہیں کرتی، لڑکے تو دَور کی بات ، مَیں لڑکیوں سے بھی دَوستی نہیں کرسکتی۔میرے وَالد صاحب بہت سخت مزاج کے مالک ہیں ۔ آپ اَیسا کیا کریں، پانچ بجے سے پہلے فون کرلیا کریں اَور ہاں میرے علاوہ کوئی اَور فون اُٹھائے تو فون بند کر دِینا اَور بولیئے گا مت ، وَرنہ میری شامت آجائے گی۔ پھنسیں گے آپ ہی، کیونکہ میں سارا معاملہ آپ پر ڈال دَونگی‘‘۔ آدم اِسی میںخوش تھا کہ کچھ تو بات بنی۔
وہ رَوز فون کرتا، اُس کی کانوں میں رَس گھولتی آواز سنتا۔کئی دَفعہ اُسے ملنے کو کہتا لیکن وہ ٹال جاتی۔ ممکن ہی نہیں تھا۔ اُس پے سخت پہرا ہوتا۔ جہاں بھی جاتی ، ساتھ ذَوق ہوتا یا وَالد صاحب اَور کبھی کبھی دَائی ماں۔
دَونوں میں تھوڑی تھوڑی ہم آہنگی پیدا ہوچکی تھی۔ اَب آپ ،جناب ختم کر کے تو، تڑاخ پے آچکے تھے۔ آدم جسے ممی،ڈَیڈی قسم کی لڑکی تصور کرتاتھاوہ بھاٹی لوہاری نکلی۔ نادِیہ نے صاف کہہ دِیا کہ ،’’پیار وِیار کے چکر میں مت پڑنا اَور نہ ہی کبھی میرے ساتھ شادی کے بارے میں تصور کرنا، کیونکہ ہم صرف دَوست ہیں اَور اَچھے دَوست رَہیں گے۔ تم سے دَوستی اِس لیئے کر لی، کیونکہ تم پڑھے لکھے اَور سلجھے ہوئے اِنسان ہو اَور وہ بھی صرف ٹیلی فون پر، وَرنہ میری لُغت میں اِن چیزوں کی کوئی جگہ نہیں۔ یہ لفظ پیار، عشق،شادی اَور محبت میری زِندگی کی ڈِکشنری میں نہیں پائے جاتے ۔ وَیسے بھی کالج سے وَاپس آتی ہوں تو میری کوئی تفریح نہیں ہوتی۔ وَالدہ زِندہ تھیں تو دِل لگا رَہتا تھا۔ اَب مَیں اَور دَائی ماں اَکیلے ہوتے ہیںاَور ابو کام پر ہوتے ہیں۔ مجھے کہیں آنے جانے کی اِجازت نہیں۔ تم سے فون پے بات کر لیتی ہوں ، میرے لیئے یہی کافی ہے۔ اِیک دَفعہ پھر دُھراتی ہوں رِشتے کی بات بھول کر بھی کبھی نہ کرنا وَرنہ نتائج کے ذِمے دَار تم خود ہو گے۔ اَور دَوستی ختم ہو جائے گی۔ مجھ پر مزید پابندیاں لگ جائیں گی۔ لیکن تمہیںزیادہ سزا بھگتنی پڑے گی اَور مَیں تمہاری کوئی مدد نہ کرسکوں گی۔ سمجھے‘‘۔ آدم نے پکا وَعدہ کرلیا کہ، ’’وہ کوئی اَیسا کام نہیں کرے گا، جس سے اِس کی دَوستی ٹوٹ جائے اَور اِسے نقصان اُٹھانا پڑے‘‘۔
٭
آدم کی سوتیلی ماں کینسر کے آخری مرحلے کی مریضہ تھیں اَور ڈاکٹروں کی قیاس کردہ تاریخ سے پہلے ہی چل بسیں۔ آدم کے وَالد بجائے اِس کے کہ جوان بیٹے کی شادی کا سوچتے ، اُنہیں پھر شادی کی سوجھی۔ یہ ۱۹۴۷ سے پہلے پیدا ہونے وَالے لوگ بڑے ہی گرم اَور رَنگین مزاج تھے۔ اَور آدم جس اَیرا،یعنی دَورمیں پیدا ہوا، اِس دَور کے نوجوان ٹھنڈے اَور شادی کی طرف مائل ہی نہ ہوتے۔پچیس،چھبیس سال کی عمر تک اِن کی تعلیم ہی نہ مکمل ہوتی، اَگر ہوبھی جاتی تو اَپنے پاؤں پر
کھڑے ہونے کا جنون سوار ہوجاتا۔آدم کی اَپنے وَالد صاحب سے چپقلش اِتنی بڑھی کہ اِس نے گھر چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ اِس نے نجمہ بیگم سے مشورہ کیا، اَگر کویت چلا جائے۔ وہ باہر نہیں جانا چاہتا تھا۔ وہ تو فرار چاہتا تھا۔ اِس نے نادیہ کو بتایا، اُس نے بھی منع کیا۔ اِس نے کسی کی نہ سُنی۔
وہ سوچتا تھا ۔ہم لوگ فرار کیوں چاہتے ہیں۔ آریا ء لوگ میتان کا علاقہ چھوڑ کر ہندوستان آکر آباد ہوگئے تھے۔ وہ بھی میتان سے فرار ہوئے تھے۔ آنگلیز، یعنی انگریز ،فرانس اَور جرمنی سے فرار ہوکر سکاٹشوں اَور آئرشوں کی سرزمین پر آکر آباد ہوگئے تھے یا قابض ہوگئے تھے۔آئرش بھی تو آریاؤں کی نسل تھے۔ بنی اِسرائیل ، مصر سے فرار ہو کر فلسطین چلے آئے۔ وہ فراعن سے بھاگ کر آئے تھے۔ منگول چھوٹے چھوٹے قبیلوں میں بٹے ہوئے تھے۔ پھر یکجا ہوکر لوٹ مار کرنے لگے۔ یہ بھی اِیک طرح کا فرار تھا۔ پھر بابر، شیبانی خان کے ہاتھوں ذَلیل و خوار ہوکر اُس کے دَربار سے رُسوا ہوکر اَپنا آبائی وَطن چھوڑنے پر مجبور ہوگیا تھااَور ہندوستان کو فتح کرلیا تھا۔اُسے ساری د ُ نیا اِیک چراہ گاہ لگتی۔جہاں گھاس اَور پانی پے جھگڑا ہو رَہا ہو۔
دَریائے نیل کے کناروں پر فرعون آباد ہوئے۔ دَجلہ و فرات کے کناروں پر میسوپوتامیاآباد ہوئے۔ سندھ کے کنارے پر مہنجوداڑو،چندوداڑو اَور ہڑپہ جیسی بستیاں بنیں، پھر آریاء آگئے۔ اِسے سب لوگ بدؤ اَور خانہ بدوش لگتے۔ جو بہتر خوراک کی خاطر بھٹکتے رَہتے اَور جس کی لاٹھی اُس کی بھینس وَالا محاورہ تھا۔
٭