بیسویں صدی کے آخر میں اخلاقی نفسیات کے شعبے میں جس خیال کا غلبہ تھا، وہ یہ کہ “اخلاقیات کا مطلب دوسروں سے اچھا سلوک ہے۔ اس کا کام انصاف اور ضرر سے بچانا ہے”۔ لیکن دوسری طرف، اصل دنیا میں ایسا نہیں تھا۔ لوگ اس کو زیادہ وسیع معنی میں لیتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایلن فسک نے مغربی افریقہ میں کئی سال سماجی تعلقات اور کلچرل سائیکلولوجی کی سٹڈی پر گزارے تھے۔ جوناتھن ہائیٹ بتاتے ہیں کہ
“مجھے ان سے کورس پڑھنے کا موقع ملا۔ انہوں نے ہمیں پڑھنے کے لئے کئی کتابیں کہیں۔ ان میں رشتہ داری، جنسیات، موسیقی سمیت بہت سے موضوعات میں اخلاقیات کا کردار مرکزی نظر آتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے ایک کتاب سوڈان کے آزانڈے قبائل میں جادوگروں کے بارے میں پڑھی۔ حیرت انگیز طور پر جادوگری پر یقین نے دنیا میں کئی جگہوں پر الگ لیکن ایک طریقے سے جنم لیا تھا۔ اس سے معلوم ہوتا تھا کہ انسانی ذہن میں کچھ ایسا ہے جو اس کلچرل ادارے کا باعث بنتا ہے۔ آزانڈے کے خیال میں چڑیل مرد بھی ہو سکتی تھیں اور خواتین بھی۔ اور اس بات کا خوف، کہ مجھے چڑیل نہ کہہ دیا جائے، لوگوں کو اس بات کے بارے میں محتاط رکھتا تھا کہ ہمسائیوں کے ساتھ روابط خراب نہ ہوں۔ یہ میرے لئے پہلا اشارہ تھا کہ گروہ ایسی مافوق الفطرت باتوں کی تخلیق اس لئے نہیں کرتے کہ یہ دنیا کی وضاحت کرتی ہیں بلکہ اس لئے کہ ان سے معاشروں میں نظم قائم رہتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے فلپائن کے قبیلے ایلنگوٹ کے بارے میں کتاب پڑھی۔ یہاں کے نوجوان لڑکے معاشرے میں اپنی عزت اس وقت بناتے تھے جب وہ کسی کا سر قلم کر دیں۔ ان میں سے کئی قتل انتقام کے لئے کئے جاتے تھے لیکن کئی ایسے بھی تھے جو اجنبیوں کے تھے، جن کا قاتل سے کوئی جھگڑا نہیں تھا۔ مصنف ان عجیب ناقابلِ فہم واقعات کو بیان کرتا ہے جس میں آپسی رنجشیں بھلا کر چھوٹے “شکاری دستے” بنتے تھے اور پھر کسی کا سر قلم کر دئے جانے کے بعد ساری رات جشن منایا جاتا تھا۔ اس سے مجھے اشارہ ملا کہ الگ گروہوں کے درمیان مقابلے اور ایک گروہ کی اندرونی یگانگت کا آپس میں تعلق ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کتابیں بہت دلچسپ تھیں۔ بہت خوبصورتی سے لکھی گئی تھیں اور بظاہر عجیب لگنے والی چیزوں کے تناظر کی وضاحت کر دیتی تھیں۔ ہر کتاب کو پڑھنے میں ایک ہفتہ لگتا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ اس ایک ہفتے میں ایک نئی جگہ کا سفر کیا ہے۔ پہلے کنفیوز کرتا تھا اور پھر آپ کو اس کی عادت ہو جاتی تھی۔ نہ صرف اس سے آپ کو یہ پتا لگتا تھا کہ نئی جگہ کیسی ہے بلکہ یہ بھی کہ آپ خود کیسے ہیں۔ ہم سب ایک غیرمعمولی تاریخی تجربہ ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک اور تصور “پاکی” اور “پلیدی” کا تھا۔ نیو گنی کے ہوا قبائل میں خوراک کے بارے میں بڑے خاص قوانین تھے۔ مرد کیا کھا سکتے ہیں اور خواتین کیا۔ مثال کے طور پر، کم عمر لڑکوں کو ایسی خوراک منع تھی جس کی زنانہ جنسی اعضا سے کوئی مشابہت ہو۔ سرخ یا گیلی یا بالوں والی چیز کھانا ان کے لئے ممنوع تھا۔ پہلی نظر میں یہ پدرسری معاشرے کے توہمات لگتے ہیں۔ ہوا قبیلے کے لئے یہ اخلاقی اصول تھے۔ ان کے خیال میں یہ دوسرے قبائل کے لئے نہیں تھے۔ وہ ان کے بارے میں مسلسل بات کرتے تھے۔ دوسروں کی خوراک کی عادات دیکھ کر ان کے بارے میں رائے قائم کرتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خوراک، جنس، جلد، لاشوں کے بارے میں اخلاقی قوانین میرے اپنے معاشرے میں بھی تھے۔ بہت سے ان کہے، لیکن کیوں؟ اس کی وجہ کیا تھی؟
کئی اخلاقی قوانین کا تعلق تو بیماری سے بچاوٗ سے لگتا تھا لیکن بہت سی دوسری روایات بھی تھیں۔ مغربی مذاہب ۔۔ اسلام، یہودیت، مسیحیت ۔۔ میں صفائی کو تقدیس کا درجہ حاصل ہے۔ اور مغربی معاشروں کے باسی، خواہ غیرمذہبی ہوں، خوراک اور شہوت کے بارے میں ایسے انتخاب کرتے ہیں جن کے پیچھے گہرے اخلاقی فیصلے ہوتے ہیں۔
لبرل کئی بار کنزرویٹو کا مذاق اڑاتے ہیں کہ وہ جنسی افعال کے بارے میں کسی قسم کی بات کرنے کو بھی قابلِ اعتراض گردانتے ہیں اور یہ کہ اخلاقیات کی دبیز تہہ ان کی زندگی کا احاطہ کئے ہوتے ہیں۔ جبکہ شاید مذاق اڑانے والی کی ناشتے کی پلیٹ کے انتخاب بھی اخلاقیات سے بھرپور ہو سکتے ہیں۔ انڈے جن مرغیوں نے دئے، وہ کس حال میں تھیں۔ کافی کی تجارت میں کسی کا استحصال تو نہیں ہوا۔ جینیاتی تبدیل شدہ مکئی تو نہیں۔ ٹوکسن، آرگینک اور ایسی دیگر چیزوں سے خطرہ بائیولوجی سے نہیں بلکہ روحانیت کو ہے۔ یہ پاکی اور پلیدی کے ہی تصورات ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آزانڈے، ایلنگوٹ، ہوا اور مغربی معاشروں میں اخلاقی ڈویلپمنٹ میں اخلاقیات کے بڑے کینوس کو دکھاتے ہیں۔ ریشنلزم ایک اچھا آئیڈیا ہے۔ لیکن انسانی اخلاقی نفسیات کی وضاحت کے لئے اس سے آگے دیکھنا پڑے گا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...