چند لمحے خاموشی کی نظر ھوئے تھے جب وۂ بولا
“سچ بتانا ثمرہ کیا پچھلے آٹھ سالوں میں ایک بار بھی تمھیں میری یاد نہیں آئی؟”
“آئی تھی ‘ اکثر آتی تھی جب بھی بادل جھوم کر آتے اور موسلا دھار بارش ھوتی تو سب سے پہلے مجھے تم یاد آتے تھے، بارش بہت پسند ھے ناں تمھیں اسی لئیے ؟”
“تم ۔۔۔تم بہت مشکل لڑکی ھو ثمرہ میں آج تک کبھی تمھیں نہیں سمجھ سکا، تمھاری آنکھیں کچھ کہتی ھیں اور ھونٹ کچھ اور، پتہ نئی میں اب بھی تمھارے بارے سوچتے ھوئے اتنا ٹینس کیوں ھو جاتا ھوں”
قدرے مظطرب ھوتے ھوئے اس نے رخ پھیر لیا تھا جب وۂ مسکرائی تھی
“مت ٹینس ھوا کرو عازی، اور اب میرے بارے سوچنا بھی چھوڑ دو مت بھولو کہ اب تمھاری سوچ بھی رطابہ کی امانت ھے”
“نہیں بھولتا مگر تم نے جو میرے ساتھ کیا ھے اسکے لئیے میں کبھی تمھیں معاف نئی کرونگا”
ثمرا پھر مسکرائی تھی مگر اس بار اسکی مسکراھٹ میں گہرا ملال چھلک رھا تھا
اوزان کچھ دیر رخ پھیرے بیٹھا رھا پھر اپنے احساسات پر قابو پاتے ھوئے بولا
“کل پھر سے انگلینڈ واپس جا رھی ھو؟”
“ھاں”
“کچھ روز رک نئی سکتیں؟”
“کیوں؟ کیا کرونگی رک کر؟”
“کچھ نئی بس ویسے ھی دل چاہ رھا ھے”
“نہیں عازی، اب رکنا بہت مشکل ھے تم اپنے دل کو نئی آھٹوں پر دھڑکنا سیکھاؤ وھاں جواد میرا انتظار کر رھا ھوگا کل کی سیٹ کنفرم ھے”
اسکے الفاظ اسے چپ لگا گئے تھے جواد کے زکر نے اسکے دل میں پھر چٹکی کاٹی تھی
“انگلینڈ واپس جاؤ تو اسے بتانا ثمرء وہ بہت خوش نصیب انسان ھے”
اس بار وہ ھنسی تھی مگر بے حد کھو کھلی ھنسی
“اوکے بتادونگی اور کچھ؟”
“اور کچھ نئی، کچھ چیزیں تمھاری امانت کے طور پر میرے پاس پڑی ھیں وۂ لے لو”
کہنے کے ساتھ ھی وۂ اٹھ کر اپنے کمرے کیطرف بڑھ گیا تھا اور پھر کچھ ھی لمحوں میں وہ سب چیزیں اٹھا کر لے آیا جو اس نے کبھی بڑی چاہ سے صرف اسی کے لئیے خریدی تھیں
ثمرہ کی آنکھوں میں آنسو جھلملائے تھے مگر اس نے خود کو کمزور پڑنے نئی دیا
“تھینکیو عازی، تم واقعی بہت اچھے ھو”
وہ چپ رھا تھا جیسے کرب کو برداشت کرنے کی کوشش کر رھا ھو
اگلے روز ثمرۂ سب سے مل کے اوزان کے ساتھ ھی ائیر پورٹ آئی تھی
عازی تم مجھ سے محبت کرتے ہو ناں؟؟
گاڑی سے باہر نکل کر اس کے مقابل کھڑے ہو کر اس نے پوچھا تھا
جب وہ سرخ آنکھوں کی نمی چھپانے کو رخ پھیرتے ہوئے بولا
“نہیں” ۔۔۔۔۔
ثمرہ اس کی اس ادا پر بھی مسکرائی تھی اس وقت وہ اسے چھوٹا سا روٹھا ہوا معصوم بچہ دکھائی دے رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔
“نہیں تو پھر بھی تمہیں میری قسم عازی ،ہمیشہ اپنا بے حد خیال رکھنا رطابہ بہت پیار کرتی ہے تم سے اس کا کبھی دل نہ دکھانا ابو امی آنٹی سب کو خوش رکھنا پلیز۔۔۔۔
ستاروں سی جگمگاتی نگاہوں میں جھلملاتے آنسو، اوزان کا دل بےقرار کر رہے تھے
وہ اس سے پوچھنا چاہتا تھا ان سب میں تم کہاں ہو ثمرہ مگر ناجانے کیسے خود پر ضبط کیئے کھڑا رھا
“اوکے اور کچھ” ۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟
“بس اور کچھ نہیں ہوسکے تو مجھے معاف کردینا
پلیز ۔۔۔۔۔
وہ اس سے کہنا چاہتا تھا نہیں میں تمہیں کببھی معاف نہیں کرونگا مگر اس کے چہرے پر بکھری شکستگی دیکھ کر کہہ نہیں سکا ۔
اوکے میں تو تمہیں معاف کردونگا مگر ۔۔۔۔۔۔۔۔ تم خود سے معافی کیسے مانگو گی ثمرہ؟ خود تم اپنے آپ کو شاید اس ظلم کیلئے کبھی معاف نہ کرسکو
جو میرے ساتھ ساتھ خود اپنی زندگی پر بھی ڈھا بیٹھی ہو اور اس پر بضد ہو کہ تم خوش ہو ـ بہت غصہ آتا ہے مجھے کبھی کبھی تم پر،مگر ۔۔۔۔تمہارے معاملے میں، میں ھمیشہ خود کو لاچار پاتا ہوں ثمرہ،بے حد لاچار۔۔۔
اس وقت اسکے اندر کا حال جاننا ثمرہ کے لیے مشکل نہیں تھا ـ وہ خود سخت عذاب کے عالم سے گزر رھی تھی ـ
بہت سے لمحے خاموشی کی نظر ہو گئے تھے ـ
فلائیٹ کی پرواز کا وقت قریب آپہنچا تھا ـ جب وہ آخری بار نگاہ اٹھاکر اسکی طرف دیکھتے ہوئے بولی ـ
“میں جا رہی ہوں عازی،تم اپنا ہر وعدہ یاد رکھنا پلیز ”
وہ مچلا تھا ـ نگاہوں کی تڑپ ہرگز ثمرہ سے پوشیدہ نہیں رھ سکی تھی، مگر وہ پھر بھی خود کو مضبوط کیے کھڑی رھی ـ
“اور ہاں،میرے پاس بھی تمہاری ایک امانت تھی،تمہاری وارڈروب میں اسی جگہ رکھ چھوڑی ہے، جہاں تم نے اپنے قیمتی رازوں سے سجی ڈائری رکھی ہوئی تھی، فرصت ملے تو دیکھ لینا – خدا حافظ ـ”
اپنی بات مکمل کرنے کے بعد وہ فوراً پلٹ کر سست روی سے چلتی ائیر پورٹ کی عمارت کے جانب بڑھ گئ تھی ـ
اوزان بہت دیر تک بھرائی ہوئی آنکھوں سے اسے جاتا ہوا دیکھنے کے بعد،بالاآخر گاڑی میں آبیٹھا تھا ـ
ابھی ابھی اسے پھر لگا تھا، جیسے زندگی اسکے وجود سے نکل کر ہوا میں تحلیل ہو گئ ہو ـ ثمرہ کی فلائیٹ پرواز کر گئی تھی ـ تب اپنے نڈھال وجود کو مشکل سنبھالے وہ لانگ ڈرائیو پر نکل گیا ـ
موسم بے حد خشک ہو رہا تھا، مگر اسے پروا نہیں تھی، بغیر کسی شال اور گرم سوئیٹر کے بھی وہ بڑی بے حسی سے سڑکیں ناپتا جا رہا تھا۔
رطابہ بہت دیر تک اسکی واپسی کا انتظار کرتے کرتے بالاآخر سو گئ تھی ـ وہ بھی بستر پر آکر لیٹا تو پھر سے ثمرہ کا آنسووں سے بھیگا چہرہ نگاہوں میں گھوم گیا تبھی وہ بےقرار ہو کر اٹھا تھا ـ
“تم بہت بری ہو ثمرہ ـ خدا کرے کبھی تم بھی اسی درد کی راہ سے گزرو’جس پر اب تک تم نے مجھے ننگے پاؤں چلایا ہے ” ـ
قطعی بے ساختگی میں یہ بددعا اسکے دل سے نکلی تھی ـاور وہ مزید دکھی ہو کر رھ گیا تھا ـ
رات جیسے جیسے ڈھلتی جا رہی تھی،ویسے ویسے سردی میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا ـ بیٹھے بیٹھے ہی اچانک اسے ثمرہ کی رکھی ہوئی امانت کا خیال آیا تو وہ تیزی سے اٹھ کر وارڈروب کی طرف چلا آیا ـ
بہت دیر تک تلاش کے باوجود اسکے ہاتھ میں اپنی ڈائری کے علاوہ کچھ نہیں آسکا تھا ـ
یہی وجہ تھی کہ اس نے مزید تلاش موقوف کرکے ڈائری کھولی تو اسکے وسط میں رکھا ایک سفید لفافہ اسکی توجہ اپنی جانب مبذول کروا گیا اوزان نے اسے کھولا تو اک شفاف صفحہ پایا ـ
تبھی بے تابی سے لفافہ تھام کر اس نے اسکےاندر رکھے سفید کاغذ کو باہر نکالااور اپنی نظریں ان شفاف موتیوں جیسے حروف پر ٹکا دیں جو ثمرہ نے صرف اس کے کیے لکھے تھے ـ
“عازی ۔۔۔۔ آج قسمت پھر مجھے تم سے کوسوں دور لے کر جا رہی ہے،اتنی دور کہ اسکے بعد شاید زندگی میں پھر کبھی دوبارہ ھم ایکدوسرے کو نہ دیکھ سکیں، اسلیے میں نے بھی وہی روش اختیار کی جس کے ذریعے تم نے اپنے قیمتی احساسات مجھ تک پہنچائے تھے ـ
میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا عازی کہ زندگی میرے ساتھ ایسی سفاکی بھی برتے گی کہ تم میری آنکھوں کے سامنے رہو گے اور میں تمہیں جی بھر کر دیکھ بھی نہ سکوں گی ـ
اس لیئے میں نے بھی وہ ہی روش اختیار کی ہے جس سے تم نے اپنے احساسات مجھ تک پہنچائے تھے۔
تم نہیں جانتے عازی کےتمہای وجہ سے میں نےکتنا کرب سمیٹا ہے۔وہ لڑکی جسے تم پر کسی کا عکس پڑنا بھی گوارا نہیں تھا،اسی لڑکی کو تم نے اپنی دید سے ترسا دیا۔؟
کیوں کیا تم نے ایسا؟
کیا ملا عازی؟معصوم محبت کے بیجچ ،انا کی دیوارحائل کر کے کیا حاصل کر لیا تم نے؟میں تو نادان تھی،جذباتی تھی مگر۔۔تم تو سمجھدار تھے۔تم چاہتے تومیری آنکھوں کے رنگ پہچان کر مجھے اس راستے پر تنہا چلنے سےروک سکتے تھے جہاں میرے لیے سوائے اندھیروں کے اور کچھ نہیں تھا مگر تم نے ایسا نئی کیا ۔
دیکھو تم نے مجھے بلکُل خالی کر دیا
میں پل پل تمہیں چاہ کر بھی کبھی تم سے یہ نہیں کہ سکی کہ ثمرہ بخاری نےاپنی زندگی میں صرف ایک شخص کو
ٹوٹ کر چاہا تھا اور وہ شخص تم تھے اوزان سید ھاں وہ شخص صرف تم ہی تھے جس سے ایک لمحہ کی جدائ بھی مجھے گوارا نہیں تھی،مگر۔
تم نے مھے کبھی بھی سر خروئ عطا نہیں کی،ہمیشہ میرا دل جلاتے ہے اور میں اپنا آپ بچانے کیلئے اپنا بھرم قائم رکھنے کیلئے اس جلن کا تریاق کرتی رہی۔کیا کرتی،مجھے تمہاری ہنسی سے بہت ڈر لگتا تھا،میں تمہارے سامنے اوندھے منہ گرنا نہیں چاہتی تھی،جھکنا نہیں چاہتی تھی،اسلئے ٹوٹ کر رہ گئ۔کیونکہ
جو لوگ جھکتے نہیں وہ ٹوٹ جاتےہیں۔
میں نے ہی جواد احسن سے شادی کیلئے ریکویسٹ کی تھی اور میرے ہی اصرار پر اس نے اپنے گھر والوں کو بھیجا تھا،کیو نکہ وہ میرے بے کار وجود میں دلچسپی رکھتا تھا اور میں۔۔میں تو صرف تم سے جیتنا چاہتی تھی۔مگر ۔۔اس جیت کی بڑی کڑی قیمت چکانی پڑی مجھے۔
کاش میں تمہیں دکھا سکتی کہ اس شحص نے کس بے دردی کے ساتھ یہ جسم داغدار کر رکھا ہے۔صرف وجود ہی نہیں،میری روح بھی داغ دار ہے عازی، جس ثمرہ کی آنکھ میں تمہیں ایک آنسو بھی گوارا نہیں تھا،اس ثمرہ کو تم نے غم کا اشتہار بنا ڈالا اس شحص نے۔
قدرت کو ناجانے میری کونسی نیکی پسند آ گئی کہ اس نے میری کوکھ سے کسی نئے وجود کو پیدا ہی نہیں کیا۔
وگرنہ میرے بعد وہ بھی ساری زندگی سانسوں کا عذاب ہی جھیلتا۔
عازی میں جواد احسن کی زندگی سے بے دخل ہو گئی ہوں۔وہ اپنی نئ دنیا میں مگن ہے۔اس کا کہنا ہے کہ میں ایک منا فق لڑکی ہوں۔اس کی ذات میں بھی تمہیں ہی تلاشتی ہوں۔بے ساختگی یا نیند میں بھی تمہیں ہی پکار بیٹھتی ہوں۔کیا کروں عادت جو ہو گئ ہےہر مشکل میں صرف تمہیں ہی صدا دینے کی
مگروہ یہ بات نہیں سمجھتا۔اسے میرے آنسوؤں میں بھی تمہاراہی عکس جھلملاتا دکھائ دیتا ہے۔میری محبت کی جس خوشبو کو تم محسوس نہیں کر سکےوہی خوشبواس کی سانسیں الجھا کررکھ دیتی ہے،اسلئےاس نے مجھے اپنی زندگی سے نکال کر پھینک دیاہے اور اب۔۔۔۔زندگی رخصتی کے آخری مراحل میں ہے۔
پچھلے پندرہ دنوں میں آدھے سے زیادہ جگر کٹ کٹ کرحلق کے راستے باہر آگیا ہے،دیکھ لو عازی،میں ریزہ ریزہ ہو کہ بھی تم سے ہاری نہیں ہوں۔یقیناً میرے یہ الفاظ تم پڑ ھنے کہ بعد تم رؤؤ گے،ہو سکتا ہے تمہیں مجھ پر غصہ بھی آئے،مگر۔
یہ جدائ بھی ضروری تھی۔میں نے طابی کی آنکھوں میں تمہارے لئے بہت سے خو بصورت جذبات مچلتے دیکھے ہیں،و ہ بھی تمہیں کھو نے سے خوفزدہ رہتی ہے،شاید اسی لئے اس نے مجھ پہ اعتبار کرنا چھوڑ دیا ہے،میں اس کی آنکھوں میں وہ درد نہیں دیکھ سکتی عازی،جس نے میرا وجود کھو کھلا کر ڈالا ہے،اسی لئے خود تمہیں اس کے سپرد کر رہی ہوں۔
تم ہمیشہ میرے رہے ہو۔مگر اب تمہیں اس کا ہو کر رہنا ہے۔میرے دکھوں کا سائہ میرے گھر والوں اور تمہاری زندگی پر نہ پڑےاسی لئے اپنا سب کچھ اونے پونے داموں فروخت کر کےواپس انگلینڈکا ٹکٹ لےلیا ہے،وہاں کچھ لوگوں کے ساتھ اچھا وقت گزارا تھا۔لہذا چاہتی ہوں کہ زندگی کی آخری شامیں بھی انہیں کے ساتھ بسر کر لوں،تمہاری یاد تو بہر حال ساتھ رہے گی۔یہ لفظ تمہاری امانت تھے سو تمہارے سپرد کر رہی ہوں،مجھے معاف کر دینا عازی،تم نے کہا تھا ناں،میں تمہیں کھو کر پچھتاؤں گی،تم نے صحیح کہا تھا،میں تمہیں کھو کر پچھتا رہی ہوں،
تمہارے بعد میرے پاس کچھ نہیں رہا،اس لئے خود کو گنوا رہی ہوں،جانے ابھی زندگی اور کتنا تھکائے گی ،میں تمہاری آنکھوں میں اپنے آنسو نہیں دیکھ سکتی عازی،اسلئے دیارِغیر میں بھٹکنا پسند کیا،زندگی میں آخری بار تم سے کچھ مانگنا ہے،پلیز مجھے ما یوس مت کرنا،تمہیں تمہاری ثمرہ کی قسم عازی،میری زندگی کے بارے میں میرے گھر والوں کو کچھ مت بتانا،میرے کھو جانے کا ملال بھی مت کرنا،اور رطابہ کو وہ تمام خوشیاں دینا،جن پر اس کا حق ہے،مجھے یقین ہے کہ تم میری قسم کا مان رکھو گے،خدا تمارا خامی و ناصر ہو۔(آمین)
بد نصیب ثمرہ
خط اس کے ہاتھوں میں لرز رہا تھا۔ وہ اندر ہی اندر مسمار ہوتے ہوئے جیسے اپنی روح کو جسم سے نکلتے ہوئے محسوس کر رہا تھا۔
“نہیں۔۔۔۔ تم میرے ساتھ اتنا بڑا دھوکا نہیں کر سکتیں۔ تم اتنی ظالم نہیں ہو سکتیں۔ ثمرہ بخاری تم میرے ساتھ ایسا نہیں کر سکتیں۔”
غم سے مغلوب ہو کر وہ چلایا تھا۔ تبھی رطابہ کی آنکھ کھل گئی۔
کھڑکی کے پاس بیٹھا وہ بچوں کی طرح بلک بلک کر رو رہا تھا۔ اس کا پریشان ہونا لازمی تھا۔ تبھی جلدی سے دوپٹہ سنبھال کر وہ اس کے قریب آئی اور کچھ نہ سمجھتے ہوئے اس کے ہاتھ سے کاغذ لے لیا۔
جیسے جیسے اس کی نظریں الفاظ پر دوڑتی گئیں، اس کا اپنا دل سکڑتا گیا۔ ثمرہ کے چہرے کی پیلاہٹ اور آنکھوں کی اداسی نگاہ میں گھوم گئی۔ صرف چند لمحوں میں اس کی اپنی آنکھیں لبالب آنسوؤں سے بھر گئیں۔
وہ اوزان سے بہت کچھ کہنا چاہتی تھی، اپنے کچھ گناہوں کا اعتراف کرنا چاہتی تھی، مگر نہیں کر پائی۔
( ختم شد )
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...