فردوس حیدر نے اپنی زندگی کے آغاز میں پنجابی شاعری اور اردو افسانے کی طرف توجہ کی پھر شاعری کو یکسر خیر باد کہہ دیا اور فکشن کو اس کے وسیع تر تناظر میں دیکھنے کے لیے ناول اور سفر نامے کی طرف نکل گئیں۔ اس دوران انہوں نے افسانہ نگاری بھی جاری رکھی اور اب اپنے افسانوں کا ایک خوبصورت انتخاب ”راستے میں شام“ کے نام سے پیش کر چکی ہیں۔اس مجموعے کا دیدہ زیب سرورق دیکھتے ہی اس شعر کا مفہوم کھلنے لگتا ہے۔
دن ڈھل چکا تھا اور پرندہ سفر میں تھا
سارا لہو بدن کا رواں مشتِ پَر میں تھا
یہ مجموعہ فردوس حیدر کے پیش لفظ ”پہلا پتھر“کے علاوہ سولہ افسانوں پر مشتمل ہے ۔ ”پہلا پتھر“ کے دو پیرا گراف حذف کر دئیے جائیں تو پیش لفظ بھی خود کلامی کے انداز کی افسانوی تحریر بن جاتی ہے جس میں کڑوا سچ اپنے کھرے پن کے ساتھ موجود ہے۔
اسلوب کے لحاظ سے صرف چھ افسانے”گائے“،”تلاش“، ”شہر پناہ“ ، ”ریت کی دیوار“، ”پرتیںمیری“ اور ”سوچ کا ٹھہرا ہو ا پانی “ ایسے ہیں جنہیں خالصتاً جدید افسانے کہا جا سکتاہے۔باقی دس افسانے اگرچہ کہانی کو عام بیانیہ انداز میں پیش کرتے ہیں لیکن ان کا انشائی اسلوب جہاں انہیں کہانی کی عام سطح سے بلند کر دیتا ہے وہیں بیانیہ میں بھی علامتی اور استعاراتی پرت ابھرنے لگتے ہیں انشائی اسلوب کہیں کہیں تو اتنا گہرا ہے کہ پورے پیرا گراف پر انشائیے کا گمان ہونے لگتا ہے ۔ صرف ایک افسانے کا ایک اقتباس دیکھیں:
”طوائف کے ساتھ کتنا صاف صاف اور کھرا رشتہ ہوتا ہے ۔ بالکل آجر اور مزدور کا دوٹوک رشتہ۔۔۔ طوائف ان تمام طوفان کا مقابلہ کرتی ہے جو سماج میں اندر ہی اندر پک کر پرورش پاتے ہیں۔ اس نے اپنی اس بھلائی کو جو وہ سماج کے ساتھ کرتی ہے۔ تجارت کا نام محض اس لیے دیا ہے کہ وہ خود بھی زندہ رہنا چاہتی ہے اور دوسروں کو زندہ رہنے کی راہ سجھاتی ہے۔ وہ کسی کو کوئی دھوکہ نہیں دیتی۔ وہ جانتی ہے کہ وہ طوائف ہے اور کسی کی دوست نہیں، اس سے کسی کا کوئی رشتہ نہیں، وہ رشتوں کے تقدس کو پامال نہیں کرتی۔ وہ دوست بن کر نہ فلرٹ ہوتی ہے۔ وہ نہ بیوی بن کر ظلم سہتی ہے نہ شوہر پرست بن کر اپنے اوپر نقاب ڈالتی ہے۔ وہ ساری دنیا کے مردوں کو صرف مرد جانتی ہے اور ان کی اصل سے واقف رہتی ہے۔وہ خدمت کرتی ہے اور اس کا معاوضہ وصول کرتی ہے اور معاوضہ دینے والے کو اسی طرح نوازتی ہے جس طرح معاوضہ لیتی ہے ۔ اسے سچے اور کھرے رشتے کی پہچان ہے۔“ (نوبل پرائز)
اس ایک مثال سے نہ صرف فردوس حیدر کے افسانوں پر بلکہ عصرِ حاضر کے اردو افسانے پر اردو انشائیہ کے خوشگوار اثرات کا اندازہ کیا جا سکتاہے۔
فردوس حیدر کے افسانوں کا مجموعی تاثر مغربی اورمشرقی تہذیبوں اور ان کے اچھے برے اثرا ت کو ظاہر کرتاہے۔”مجازی خدا “ اور ”ٹریولر چیک“ مغرب تہذیب کی بے مہار آزادی سے پیدا ہونے والے انسانی اور سماجی المیوں کو بیان کرتے ہیں۔ ”بھوک“ اور ”نوبل پرائز“ پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک کی ایسی صورتِ حال کو پیش کرتے ہیں جو مغربی تہذیب کے شدید اثرات کے نتیجہ میں ظاہر ہوئی۔”بھوک“ میں مغربی تہذیب کا حملہ ساری انسانی قدروں اور سارے انسانی رشتوں کو تباہ کرتانظر آتا ہے جب کہ ”نوبل پرائز“ میں بے غرض اورکچھ نہ لینے کے جذبے حیر ت زدہ کر دیتے ہیں۔۔۔ مشرقی تہذیب کے بعض بھیانک رُخ ”راستے میں شام“ ، ” اندھے دریچے“ اور ”بوتل چہرے “ جیسی کہانیوں میں شرمناک منظر پیش کرتے ہیں۔”راستے میں شام“ میں مشرق کے حکمران شوہروں کی جبریت اور عیاش معززین کی نقاب کشائی کی گئی ہے۔ ”اندھے دریچے“ میں قریبی رشتوں کا خوفناک طرز ِ عمل، امن ، سچائی اور انصاف کے نام نہاد علمبرداروں کے مظالم اور معاشرے کی منافقت کو اجاگر کیا گیا ہے۔”بوتل چہرے“میں ہمارے بہت سے کھوکھلے ادیبوں کو آئینہ دکھایا گیا ہے۔ ان کا کھوکھلا اور منافقانہ کردار دراصل ہمارے پورے معاشرے کے کھوکھلے پن اور منافقت کا اعتراف ہے۔
”پرتیں میری “ ایک بیوی زدہ شوہر کا دکھ ہے جو مشرقی سماج کے ایک اور پہلو کو اجاگر کرتا ہے۔”جانور“ میں موجودہ مشرقی تہذیب کا متوازن تجزیہ کیا گیا ہے۔ناروا پابندیوں سے بغاوت جنم لیتی ہے لیکن جونہی وہ پابندی ہٹائی جاتی ہے۔ بغاوت کا جذبہ خود سپردگی میں تبدیل ہو جاتاہے۔”تلاش“ میں ذات کا سفر دراصل اپنی جڑوں کو تلاش کرنے کاعمل ہے جو ”کھیتیاں “ میں بڑے خوبصورت طریقے سے مکمل ہوتا نظر آتا ہے۔ یہ کہانی عورت اور دھرتی کو ہم معنی بنا کر زیادہ تہہ دار اور زیادہ بامعنی ہوجاتی ہے۔”سوچ کا ٹھہرا ہوا پانی“، شہر پناہ اور ”بے نا م چہرے“ افسانوں میں سیاست کے منفی اثرات کو نمایاں کیا گیا ہے۔”سوچ کا ٹھہرا ہوا پانی“ میں بظاہر بیرونِ ملک دولت کمانے کے لیے جانے والوں کی وہاں تذلیل اور پھر اپنے وطن میں آکر بے وطنی کا احساس بیان ہوا ہے مگر درحقیقت وطن میں رہ کر بے وطنی کا دکھ علامتی سطح پر ابھرتا ہے تب معلوم ہوتاہے کہ ہماری منفی سیاستوں نے ان نفرتوں کو جنم دیا ہے جن میں بقول فردوس حیدر دستووسکی کا ”قومی خدا“ اور نیتشے کا ”سپر مین“ باطل ہوجاتے ہیں۔ ”بے نام چہرے“ ہندوستان کی تقسیم، پھر مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور بعد ازاں ہمارے ہاں کی مروجہ سیاست کے افسوسناک پہلو سامنے لاتا ہے۔ ”شہر پناہ“ کا سائیں بابا وہ مذہبی بہروپیا ہے جو بیرونی سازشیوں کا ایجنٹ ہے اور نفرتوں کے بیج بو کر یہاں کی تہذیب اور تاریخ کو تباہ کرنے پر تُلا ہوا ہے۔
”ریت کی دیوار“ اور ”گائے“میں مشرقی عورت کے دو مختلف کردار سامنے آتے ہیں۔ ”گائے“ کی عورت ظاہری معنوں میں گناہ کی مرتکب ہو چکی ہے لیکن اس کے باوجود اس کا کردار بڑا مظلومانہ اور دلآویز ہے کیونکہ وہ تو تخلیقی دولت سے لبریز ہے جب کہ اس کا شوہر تخلیقی جوہر سے محروم ۔۔۔ اس کے برعکس ”ریت کی دیوار“ کی عور ت ابھی صرف گناہ کے لیے آمادہ ہوئی ہے اس کے باوجود وہ مظلومیت کی حالت سے نکل کر ظالم کے مقام تک پہنچ جاتی ہے۔ ”ریت کی دیوار“ کا ادیب، اسمگلنگ، کرپشن، دولت کی چمک اور عزت کے نئے معیار ، یہ سب ہمارے معاشرے کی منافقتوں کاحصہ ہیں۔ ”بوتل چہرے “ کا کھوکھلا اور خالی ادیب دراصل وہی مرد ہے جو تخلیقی جوہر سے محروم ہے اور ”گائے “ کی عورت کا شوہر ہے ۔شاید اسی لیے ہمارے بعض ادیبوں کو ”گائے“ تو بہت پسند آیا ہے لیکن ”بوتل چہرے “ اچھا نہیں لگا۔
فردوس حیدر نے مشرقی اور مغربی دونوں تہذیبوں کی مزوریوں اور برائیوں کو بے باکی سے بیان کیا ہے لیکن انہوںنے یہ حقیقت پسندانہ تجزیہ بھی کیا ہے کہ:
”وطن لَوٹی تو میرے اندر عزم اور حوصلہ کا طوفان تھا۔ میں نے عورت کی قربانی اور تحقیر دونوں دیکھی تھیں۔ میں نے عورت کو ان تھک محنت کرتے ، بے لوث محبت کرتے اور بے پناہ انتقام لیتے دیکھا تھا۔ میں جان گئی تھی کہ پاکستان کی عورت دنیا کی خوش نصیب ترین عورت ہے جسے گھر کی چار دیواری میں رہ کر سب کچھ مل جاتا ہے اور میں یہ بھی جان گئی تھی کہ میر املک دنیا میں سب سے زیادہ حسین اور دلکش ہے۔“
(پہلا پتھر)
”مجازی خدا“ اور ”راستے میں شام“ جیسی سفاک کہانیاں لکھنے والی نے حقیقت ِ حال بیان کرتے ہوئے کسی سے بھی رعایت نہیں کی اس کے باوجود انہیں پاکستان کی عورت دنیا کی خوش نصیب ترین عورت نظر آئی تو اس میں کوئی مبالغہ بھی نہیں کہ وہ اپنے گہرے مشاہدے اور ذاتی تجربے کے بعد ہی اس نتیجے تک پہنچ پائی ہیں اور یقینا اس میں ایسا کوئی جذبہ نہیں کہ ہمار ے محلہ کی گائے بہت اچھا دودھ دیتی ہے اور دوسرے محلہ کی گائے اچھا دودھ نہیں دیتی۔جہاں تک اپنے ملک کو سب سے حسین اوردلکش محسوس کرنے کا تعلق ہے ۔اس کے لیے صاحب ایمان ہونا ضروری ہے۔ ”حب الوطن من الایمان“ ۔۔ ۔۔ ۔ یہ ایمان یورپ کے مسیحوں میں بھی ہو سکتاہے۔ امریکہ یہودیوں میںبھی ، چین و جاپان کے بدھسٹوں میں بھی اور کیمونسٹوں میںبھی۔ مجھے خوشی ہوئی کہ فردوس حیدر صاحبِ ا یمان بھی ہیں۔۔۔۔ فردوس حیدر نے اپنے افسانوں میں جو سوال اٹھائے ہیں وہ ایک مقام پر اپنے معاشرے اور اپنی دھرتی کے دائرے میں ہوتے ہیں لیکن پھر یہ دائرہ پورے کرہ ارض کے انسانی معاشرے اور پوری دھرتی پر محیط ہو جاتا ہے۔ وہ نفرتوں کے خلاف ہیں اور پورے عالم انسانیت کے لیے پیار، محبت اور امن و انصاف کی خواہشمند۔ان کا یہ رویہ ان کی اپنی تحریر میں جا بجا نظر آتا ہے:
میرا مطالبہ بھی ایسا نہیں جو قابلِ گرفت یا قابلِ اعتراض ہو۔ کسی لڑائی جھگڑے یا فسا د کی تمہید بھی نہیں ، محض ایک سوال ہے، بے ضرر سوال کہ میں فرزند ِ زمین، اپنی ہی مٹی کی تخلیق اپنے ہی وطن کی زندگی پر کیوں مجبور کیا جا رہا ہوں۔ کوئی ہے جو میرے اس کرب کو محسوس کرے۔ (سوچ کاٹھہرا ہو ا پانی)
فصل کٹتی رہی اور لوگوں کے گھروں میں پہنچتی رہی ۔ دیکھتے ہی دیکھتے تمام گھروں میں نفرت بھر گئی اندر اور باہر کھیتوں میں اور گھروں میں نفرت کی آگ پھیل گئی۔ سب کچھ بھسم ہو گیا۔خالی چٹیل میدان میں برگد کا پیڑا پنے تنے پر چاہنے والوں کے مٹے مٹے سے نشان لیے تنہا رہ گیا اور میں اپنے اندر چاہتوں کا سمندر لیے چاہنے والوں کے انتظار میں اس میدان میں کھڑی ہوں۔“
(”شہر پناہ“)
”مجھے تلاش تھی اس نہر کی جو نفرت زدہ زمین کو سیراب کر دے تاکہ زمین سے کانٹے دار جھاڑیوں کی جگہ صرف خوبصورت پھول اُگیں اور لوگ ایک دوسرے کو کانٹے چبھونے کی بجائے پھول پیش کریں۔“
(تلاش)
ساری انسانیت کے لیے خلوص اور محبت کے ایسے جذبے رکھنے والی کہانی کا رفردوس حیدر کا یہ رویہ قابلِ قدر ہے۔ میں انسانی قدروں کی بحالی اورامن و انصاف کا متمنی ایک چھوٹا سا ادیب اردو فکشن کی اس توانا اور خوبصورت آواز کا کھلے دل سے خیر مقدم کرتاہوں!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(مطبوعہ ادبی جریدہ اوراق لاہور، شمارہ :اکتوبر،نومبر۱۹۸۵ء)