یہ سب کر الہیٰ بخش آگ بگولا ہوگیا “کفر کرتی ہے” وہ دہاڑا “میرے کہنے سے تیرا بیٹا واپس آ گیا – تو مٹھائی لے آئی- میرے کہنے سے یہ واپس چلا گیا تو میرا سر پھاڑ دے گی- ہے نا- جا چلی جا —-” اس کے منہ سے جھاگ نکل رہا تھا-
حاجرہ ڈر گئی- “خدا کے لئے آپ لوگ چلے جاؤ- یہ مٹھائی غریبوں میں بانٹ دینا”
وہ لوگ چلے گئے-
ان کے بعد بھی اس طرح کے لوگ آتے رہے- کسی کے اولاد ہوئی تھی- کسی کا شوہر ٹھیک ہوگیا تھا- کسی کے گھر میں برکت ہو گئی تھی- سبھی نذرانے لاتے تھے- لیکن الہیٰ بخش نے کبھی کوئی چیز قبول نہیں کی اس طرح خاصی تلخی ہو جاتی تھی-
پھر ایک دن وہی دونوں عورتیں چلی آئیں- اس بار ان کے چہرے ستے ہوئے تھے- الہیٰ بخش گھر میں موجود تھا-
“بابا میرا بیٹا پھر چلا گیا- تم نے مجھے بد دعا کیوں دی تھی” بوڑھی عورت نے کہا-
“میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ تمہاری سوچ غلط ہے” الہیٰ بخش نے نرم لہجے میں کہا- “نہ وہ میری دعا سے آیا تھا نہ میری بد دعا سے گیا ہے- سب اللہ کا حکم ہے”
“مجھ پر رحم کرو”
“کفر مت بولو بہن” الہیٰ بخش دونوں ہاتھوں سے اپنے رخسار پیٹنے لگا “تم میرا سر ہی پھاڑ دو- میں نے کہا تھا نا کہ چلا جائے تو میرا سر پھاڑ دینا آکے”
دونوں عورتیں شرمندہ نظر آ رہی تھیں “بابا، ہمارے لئے دعا کرو نا” ادھیڑ عمر عورت گڑگڑائی-
“دیکھو وہ پھر آئے گا” الہیٰ بخش بولا- “مگر اب وہ آتا جاتا رہے گا- وہاں بھی تو اس کے آنے کی دعا کرنے والے موجود ہیں- تم سے زیادہ انہیں اس کی ضرورت ہے”
“لیکن بابا—–”
“بس اب جاؤ” الہیٰ بخش نے تحکمانہ لہجے میں کہا-
اس بار دونوں عورتیں خاموشی سے چلی گئیں-
پھر یہ مشہور ہو گیا کہ پانی والا بابا کچھ نہیں لیتا- بلکہ دینے والوں سے ناراض ہو جاتا ہے- اس کے بعد نذرانوں والے مسئلے سے نجات مل گئی-
———————٭———————
الہیٰ بخش کی طبعیت میں ٹھہراؤ آتا جا رہا تھا- وہ جو بے خودی اور مدہوشی کی کیفیات اس پر طاری ہوتی تھیں، ان کے درمیانی وقفے بڑھتے اور دورانیئے کم ہوتے جا رہے تھے- جو روشنی اس کے اندر تھی، اچانک ہی اسے ملی تھی اور اس کے ظرف سے زیادہ تھی- مگر اب اتنے عرصے وہ بتدریج اس کا عادی ہو گیا تھا- اس کے نتیجے میں اس کے مزاج میں ٹھہراؤ مٹھاس اور ٹھنڈک آئی تھی- وہ کیفیت اس پر اب بھی طاری ہوتی تھی- بلکہ کئی کئی دن طاری رہتی تھی- لوگ اسے تنگ بھی کرتے تھے- مگر اب اس کی زبان بے قابو نہیں ہوتی تھی- دینے والے نے اس کا ظرف بڑھا دیا تھا- اس کی سمائی بڑھ گئی تھی-
اس کا حلقہ بھی بہت بڑھ گیا تھا- لوگ باقاعدہ اس کے مرید بن گئے تھے اور وہ خاصی تعداد میں تھے- ہر روز دو چار مرید آتے رہتے رھے- الہیٰ بخش کسی سے کچھ لیتا نہیں تھا- دنیاوی معاملات سے اسے غرض نہیں رہی تھی- پھر بھی ایک روز یہ بات اس کی سمجھ میں آ گئی کہ یہ زبردستی کی مہمان داری بیٹوں کے لئے بوجھ بنتی ہے- اس کا ذہن اس مسئلے میں الجھ گیا- بالآخر اسے اس کا حل سوجھ ہی گیا-
گاؤں سے باہر سامنے پہاڑی پر درختوں کا ایک جھنڈ تھا- وہاں چیڑ کا ایک بہت اونچا اور گھنا درخت تھا- اس درخت کے نیچے بیٹھنا اسے بہت اچھا لگتا تھا- عرصہ ہوا کہ وحشت کے عالم میں اس نے ادھر ادھر بھٹکنا چھوڑ دیا تھا- جب بھی ایسا ہوتا وہ اس درخت کے نیچے آ بیٹھتا اور ذرا دیر میں پر سکون ہو جاتا- پھر وہ بہٹھا اللہ کا شکر ادا کرتا رہتا-
اس نے معمول بنا لیا کہ صبح وہ گاؤں سے نکل جاتا اور اس درخت کے نیچے جا بیٹھتا- حاجرہ سے کہہ دیتا کہ کوئی آئے تو اسے وہیں بھیج دے- پھر اس نے نرمی سے عاجزی سے اپنے مریدوں سے کہا کہ وہ ہر روز یا کسی بھی روز نہ آیا کریں- بلکہ ہر مہینے چاند کی گیارہ تاریخ کو یہاں آیا کریں-
اس کے زبان سے نکلی ہوئی بات پوری ہونے کے کئی واقعات ایسے ہوئے کہ لوگ اس سے ڈرنے لگے تھے- انہوں نے بلا تامل اس کی بات مان لی- پہلے ماہ چاند کی دس تاریخ کو اس نے بیٹوں سے بات کی-
“کل مہمان آئیں گے- میں ان کے لئے کھانے کا بندوبست کرنا چاہتا ہوں”
“آپ حکم کریں ابا- ہم بس تعمیل کرنے والے ہیں”
اگلی صبح بیٹوں نے کھانے کے لئے سودا سلف پہاڑی پر پہنچا دیا- الہیٰ بخش نے کھانا پکانا شروع کیا- جلد ہی مرید آنے لگے- انہوں نے یہ ذمہ داری سنبھال لی- الہیٰ بخش اس فکر سے آزاد ہو گیا- وہ لوگوں کے مسئلے سننے لگا-
اس دن کے بعد ہر اسلامی ماہ کی گیارہ تاریخ کو یہ معممول بن گیا- کھانے کا اہتمام لنگر کا روپ دھار گیا- پھر ایک اور تبدیلی آئی- الہیٰ بخش نے حاجت مندوں کو تعویز لکھ کر دینے شروع کر دئیے- تھوڑے ہی عرصے میں شہرت ہو گئی- اللہ نے الہیٰ بخش کے تعویزوں کو خاص تاثیر عطا کی تھی-
بعض لوگ ایسے ہوتے تھے جن کے مسائل ہنگامی نوعیت کے ہوتے تھے- وہ گیارہ تاریخ کا انتظار نہیں کر سکتے تھے، وہ پہاڑی پر پہنچ جاتے تھے- الہیٰ بخش محسوس کرتا کہ معاملہ زیادہ اہم ہے تو وہ اسی وقت تعویز لکھ دیتا- ورنہ گیارہ تاریخ کو آنے کو کہہ دیتا-
پہلے کی نسبت اب اسے زیادہ فرصت میسر تھی- پہاڑی پر بیٹھ کر وہ گھنٹوں دنیا سے بے خبر سوچتا رہتا- ایسی باتیں جو کبھی اس کی سمجھ میں نہیں آئیں تھیں- مگر اب غور کرتے کرتے، اس کے ذہن میں روشنی کا جھماکا سا ہوتا- لگتا کہ بات اس کی سمجھ میں آ گئی ہے لیکن وہ اسے لفظوں میں بیان نہیں کر سکتا تھا- —- دوسروں کو سمجھا نہیں سکتا تھا- وہ اٹھ کر مضطربانہ ٹہلنے لگتا-
وہ زور زور سے خود سے باتیں کرتا- کبھی کوئی پتھر اٹھا کر دور اچھال دیتا- ایسے عالم میں جو لوگ اسے دیکھتے دیوانہ ہی سمجھتے- یہ بے بسی اور جھنجھلاہٹ اسے مطالعے کی طرف لے گئی- شاعری کے مجموعے اس کے پاس پہلے ہی سے تھے- مگر اب وہ انہیں مختلف روشنی میں دیکھتا تھا- اس کے بعد مطالعے کی طلب بڑھی تو وہ دینی اور علمی کتب کی طرف راغب ہو گیا- مگر اس کے حصے میں وہی کتابیں آئیں جو عام تھیں، خاص کتابوں تک اس کی رسائی ممکن ہی نہیں تھی-
الہیٰ بخش کو احساس ہوتا تھا کہ اس کے سینے میں کوئی معلم بیٹھا ہے- وہ اسے پڑھاتا، پڑھنے پر اکساتا اور مشکل مسائل سمجھاتا ہے- وہ جو کوئی بھی تھا، بہت اچھا استاد — بہت اچھا رہنما تھا- اس نے کبھی بھٹکنے نہیں دیا-
ڈیرے دی ونڈ میں فرید حسین شاہ کی بانڈی کے سامنے کچھ سادات اکٹھے تھے- چائے کا دور چل رہا تھا- سامنے ہی شاہ فرید کا پکا مکان تعمیر ہو رہا تھا-
“یہ تم نے اچھا کیا شاہ فرید کہ مکان کی طرف دھیان دیا-” افضل شاہ نے کہا- “ساری زندگی کچے مکان میں گزار دی-”
“میں تو اب بھی نہیں چاہتا تھا” شاہ فرید بولے- “اس فانی دنیا میں مکان پختہ کرنے کا فائدہ- میں اس کچے مکان میں ہی خوش تھا- مگر بچوں کے خیال سے راضی ہو گیا”
“ہاں بھئی —– زمین دار لوگ ہی پیچھے رہ گئے اس معاملے میں” شاہ نصیر نے تاسف سے سر ہلاتے ہوئے کہا ” کام کرنے والوں نے اونچے مکان بنا لئے”
شاہ فرید مختلف مزاج کے تھے- روایات کی پاس داری کرنے والے —— لیکن بلا کے منکسر المزاج- غرور اور گھمنڈ سے کوسوں دور- وہ بولے “مجھے کسی سے مقابلہ تھوڑا ہی کرنا ہے- ہر انسان اپنی جگہ ٹھیک ہے- کسی کو اللہ نے دیا اور کسی نے پکا مکان بنایا تو میرے تو یہ خوشی کی بات ہے”
“نہیں شاہ فرید، یہ ضروری تھا” انوار شاہ نے کہا- “یہ وقت ایسا ہے کہ نیچ لوگ سر پر چڑھنے لگے ہیں”
شاہ فرید مصلحتاٰ خاموش ہو گئے- ورنہ عام طور پر وہ ایسی باتوں سے اختلاف کرتے تھے- “ہاں جی، یہ تو سچ ہے” افضل شاہ نے تائید کی “وہ پیر بخش جلاہے کے بیٹے الہیٰ بخش کا سنا تم نے؟”
“کون—— وہ بانڈہ بٹنگ والا” فرید شاہ بولے- “آس کا تو برسوں سے نہیں سنا”
“لو —– سب کو معلوم ہے کہ دیوانہ ہو گیا-” انوار شاہ نے بتایا- “دکان کاروبار بیٹے سنبھالتے ہیں”
“دیوانہ ہونا تو پرانی بات ہو گئی- اب تو وہ پیر بن گیا ہے” افضل شاہ نے طنزیہ لہجے میں کہا-
“ہاں جی، مرید بھی کم نہیں ہیں اس کے” نصیر شاہ نے کہا- “تعویز بھی لکھ کر دیتا ہے- مہینے کی گیارھویں کو نلگر بھی ہوتا ہے”
“اب جلاہے بھی پیر بننے لگے” افضل شاہ بولے-
وحید شاہ خاموشی سے باتیں سن رہے تھے- انہوں نے اب تک لب کشائی نہیں کی تھی- اچانک سامنے کچے راستے پر انہیں الہیٰ بخش سڑک کی طرف جاتا دکھائی دیا- “لو بھئی —– بڑی عمر ہے اس کی- ہم اسی کی باتیں کر رہے تھے اور وہ آ گیا”
انور شاہ نے الہیٰ بخش کو پکارا ” الہیٰ بخش —- او الہیٰ بخش”
الہیٰ بخش اس وقت کیفیت میں تھا- انور شاہ کی آواز اس کی محویت نہ توڑ سکی-
“دیکھو تو، کیسے نظر انداز کر رہا ہے ہمیں- دماغ چڑھ گیا ہے اس کا پیر بن کے” افضل شاہ نے تبصرہ کیا-
اس پر انور شاہ کو جلال آ گیا- “او الہیٰ بخش سنتا نہیں ہے” انہوں نے گرج کر کہا- “ادھر آ”
اس بار الہیٰ بخش کو احساس ہوا کہ کسی نے اسے پکارا ہے- اس نے ادھر ادھر دیکھا- بانڈی کے سامنے اسے وہ لوگ بیٹھے نظر آئے- “باجی —- مجھے آواز دی آپ نے؟” اس نے نرم لہجے میں پوچھا-
“ہاں الہیٰ بخش ادھر تو آ”
الہیٰ بخش ان کے قریب چلا گیا اور ہاتھ باندھ کر خادموں کی طرح کھڑا ہو گیا “حکم سرکار”
“تو بہرا ہو گیا ہے الہیٰ بخش یا جان بوجھ کر آواز نہیں سنی تھی؟” انور شاہ نے ترش لہجے میں کہا-
“نہیں باجی، آواز نہیں سنی تھی، ورنہ یہ گستاخی کیسے کرتا” الہیٰ بخش نے عاجزی سے کہا-
“گستاخی کیسی، اب تو تو بھی باجی بن گیا ہے” افضل شاہ نے طنز کیا-
“توبہ سرکار جی، باجی کوئی بن سکتا ہے- وہ تو اللہ پاک پیدا فرماتے ہیں- اللہ کی طرف سے یہ عزت پیدا ہوتے ہی مل جاتی ہے” الہیٰ بخش نے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہا “میں تو جلاہا پیدا ہوا تھا سرکا”
“پھر بھی پیر تو بن ہی گیا ہے تو” شاہ نصیر بولے-
“میں کہاں کا پیر، پیری تو آپ کے لئے ہے- میں تو خادم ہوں آپ کا”
“اور یہ مرید جو پال رکھے ہیں”
“زبردستی گلے پڑے ہیں پیرو، میں تو بس دل آزاری سے بچنے کے لئے چپ رہتا ہوں- دل نہیں توڑنا چاہتا کسی کا- اللہ جی کا حکم ہے نا شاہ جی سرکار”
“دل میں تو بہت خوش ہوتا ہو گا” وحید شاہ بولے-
“خوش تو میں ہر حال میں رہتا ہوں سرکار، اس عزت کی کبھی آرزو نہیں کی تھی- پر وہ جسے چاہے عزت دے- اس کی مرضی تو حرف آخر ہے” الہیٰ بخش نے آسمان کی طرف نگاہ اٹھا لی-
اسلام علیکم
“خوش تو میں ہر حال میں رہتا ہوں سرکار، اس عزت کی کبھی آرزو نہیں کی تھی- پر وہ جسے چاہے عزت دے- اس کی مرضی تو حرف آخر ہے” الہیٰ بخش نے آسمان کی طرف نگاہ اٹھا لی-
“یہ تو بتا کہ تو تعویز میں کیا لکھتا ہے؟”
“ضرورت کے مطابق اللہ کے کلام کی کوئی آیت لکھ دیتا ہوں باجی، تاثیر تو وہی ڈالنے والا ہے”
“تو اب تو عالم بھی بن گیا”
“نہیں سرکار، رلم تو بہت بڑی چیز ہے- جیسی جس کے گمان میں آئی- انسان تو بس صابر ہے پیرو، بڑی صبر والی ہے یہ مخلوق”
“لے —— انسان صبر میں کہاں! وہ تو بہت بے صبرا ہے”
“گستاخی معاف پیرو!” الہیٰ بخش نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا “پر سب کچھ اس کے صبر ہی سے شروع ہوتا ہے- وہ ایک شاعر نے کہا تھا کبھی —– میں وہ صبر صمیم ہوں جس نے- بار امانت سر پہ لیا تھا —– کیسا شعر کہا ظالم نے”
“شاعر تو یونہی بکتے ہیں” انوار شاہ نے غصے میں کہا-
“نہ پیرو نہ-بہت بڑا شعر کہا ہے اس نے”
“میری سمجھ میں تو یہ صبر نہیں آتا”
“میری سمجھ میں بھی نہیں آتا تھا، پر اب آنے لگا ہے” الہیٰ بخش کہیں کھو گیا- اب جیسے وہ ان کے درمیان نہیں تھا- اس کا لہجہ و انداز ہی بدل گیا- اب جیسے وہ خود سے باتیں کر رہا تھا “اللہ جی نے پکارا —- ہے کوئی جو میری امانت کا بوجھ اٹھائے- یہ سن کر سمندر کی سانسیں ٹوٹنے لگیں- پہاڑ ہیبت سے لرزنے لگے- پوری کائنات پر لرزہ طاری ہو گیا- کسی کو طاقت، مجال نہیں تھی کہ وہ بوجھ اٹھاتا- یہ کائنات کا سب سے بڑا صبر ہے”
“یہ تو واقعی دیوانہ ہے، بے سروپا باتیں کر رہا ہے” انور شاہ نے کہا-
“مجھے تو ایسا نہیں لگتا” شاہ فرید بولے- وہ پہلی بار کچھ بولے تھے- “لیکن نہیں، یہ وہ باتیں کر رہا ہے جو دیوانوں ہی کی سمجھ میں آ سکتی ہیں-” پھر وہ الہیٰ بخش کی طرف مڑے “اور وہ امانت کیا تھی؟”
“وہ امانت اللہ کی تمام صفات کا پر تو تھا—- ہلکا سا عکس — !”
“میں سمجھا نہیں” شاہ فرید نے کہا-
“اللہ نے اپنی تمام صفات انسان کو سونپ دیں- رحم، کرم، جبر —– پوری ننانوے صفات! اور اپنا اسم ذات نور سے لکھ کر پہلے ہی اس کی پیشانی میں رکھ دیا تھا- اللہ نے جب جن و ملائک کو حکم دیا کہ آدم ؑ کو سجدہ کرو تو وہ شرک کا حکم تو نعوذ باللہ نہیں دیا تھا- وہ سجدہ آدمؑ کے لئے نہیں تھا- وہ تو پیشانی میں محفوظ اسم ذات کے لئے تھا، اللہ کے لئے تھا، اسی لئے تو شاعر نے کہا —– “میں وہ اسم عظیم ہوں جس کو جن و ملک نے سجدہ کیا تھا- پھر اپنی ننانوے صفات کا عکس انسان پر ڈالا تو اس نے یہ بتا دیا کہ انسان اس کا خلیفہ اس کا نائب ہے- اس میں اتنا صبر ہے کہ وہ یہ بوجھ اٹھا سکتا ہے —– تو انسان میں رحیمی بھی ہے، غفاری بھی ہے، قہاری بھی ——”
‘کیا کفر بک رہا ہے؟” افضل شاہ غرائے-
لیکن الہیٰ بخش کہیں کھویا ہوا تھا- اس نے ان کی بات نہیں سنی- اسے تو ہوش بھی نہیں تھا کہ وہ کچھ لوگوں کے درمیان ہے- وہ ےو جیسے خود سے باتیں کر رہا تھا ” تو انسان کا سب سے بڑا مسئلہ ان صفات کے درمیان توازن قائم کرنا ہے- رحمتوں کا، صفات کا یہ توازن صرف ایک انسان نے قائم کر کے دکھایا- میرے حضورؐ رحمت العالمین ﷺ نے- یوں امانت کا حق ادا ہوا اور انسانیت سرخرو ہوئی-
شاہ فرید حیرت سے سن رہے تھے- یہ الفاظ، یہ باتیں الہیٰ بخش کی نہیں لگ رہی تھیں- وہ تو عام سا آدمی تھا جو علم کے ع سے بھی کوسوں دور تھا-
“وررنہ انسان تو عہد اعتدال سے گزر جانے والا ہے” الہیٰ بخش کہے جا رہا تھا “وہ رحم کرنے میں حد سے بڑھا تو ظالم ہو گیا —-”
“وہ کیسے؟” شاہ فیرد نے پوچھا-
“آدمی جب حد سے گزر کررحم کرتا ہے تو جس پر رحم کیا جا رہا ہو، اس پر وہ ظلم ہو جاتا ہے- یہی نہیں ، خود رحم کرنے والا اپنے اوپر بھی ظلم کرتا ہے- اور انسان نے قہر کے معاملے میں اعتدال کا دامن چھوڑا تو چنگیز خان ، ہلاکو خان اور ہٹلر بن گیا- ہر صفت رحمت والی ہے لیکن انسان نے اسے انسانوں کے لئے ایزا کا باعث بنا دیا- یہ امانت میں خیانت ہوئی—–”
“اچھا الہیٰ بخش یہ بتاؤ کہ قہر اور جبر رحمت کیسے ہیں؟” شاہ فرید نے پوچھا-
الہیٰ بخش دونوں ہاتھوں سے رخسار پیٹنے لگا “میرے اللہ کی صفات تو رحمت ہی رحمت ہیں- رحمت کے سوا کچھ نہیں-” اتنا کہہ کر وہ خاموش ہو گیا اور کچھ سوچنے لگا- خاصی دیر توقف کے بعد وہ بولا “فرض کرلیں کہ میں نے اپنے دل میں کسی برائی کا ارادہ کیا اور یہ سوچ کر گھر سے نکلنا چاہا- اللہ کے حکم سے میرے بچے کے پیٹ میں درد اٹھا- مجھے بچے سے محبت ہے- تو میں اپنا ارادہ بھول کر اس کی دوا دارو میں لگ جاؤں گا- یہ جبر ہے- بچے کے پیٹ میں درد کی وجہ سے میں ارتکاب گناہ سے بچ گیا- اور فرض کر لیں کہ میں پھر بھی باز نہیں آیا- میں وہ گناہ کرنے نکلا، اس بار اللہ کے حکم سے مجھے کسی شبے میں پولیس نے پکڑ لیا، تھانے میں مار پڑی مگر بالآخر جان چھوٹ گئی مگر میں ارتکاب گناہ نہ کر سکا- یہ بھی جبر ہے- اور اللہ کی رحمت ہے- یہ پہلے کی نسبت زیادہ جبر ہے- اس لئے کہ پہلے مرحلے میں میرا صرف ارادہ تھا گناہ کا، تو جبر بھی ہلکا تھا مگر اب میں گناہ کے ارادے نکل کھڑا ہوا تھا تو رحمت کرنے والے نے جبر بڑھا دیا- میجھے قید کرایا، یعنی مجھے مہلت دی کہ میں اپنے ارادے سے باز آ جاؤں- اب فرض کر لیں کہ میں بد نصیب پھر بھی باز نہ آیا- تھانے سے چھوٹتے ہی میں آگے بڑھا کہ یہ گناہ تو میں کر کے رہوں گا- اب منزل سے کچھ فاصلے پر میرا حادثہ ہو جاتا ہے، میری ٹانگ ٹوٹ جاتی ہے- اب میں گناہ کی اہلیت ہی کھو بیٹھا ہوں- عمر بھر کے لئے لنگڑا تو ہو گیا لیکن میں پختہ ارادے لے باوجود گناہ سے تو بچ گیا- یہ جبر ہے اور رحمت ہے- ہے کہ نہیں- اللہ کو بندے کو گناہ سے بچانا ہے- اللہ نے قہر کر کے رحمت کی اور اس کے نامہ اعمال کو سیاہ ہونے سے بچا لیا- پھر دنیاوی سزائیں آخرت کی سزا میں کمی کا موجب بھی ہوتی ہیں”
شاہ فرید کے منہ سے بے ساختہ کلمئہ تحسین نکل گیا- ان کا جسم لرز رہا تھا-
اچانک الہیٰ بخش کے چہرے کا رنگ بدل گیا- اس کے منہ سے ایک نعرہ مستانہ نکلا- “اللہ ہو” پھر وہ اس کی تکرار کرتا چلا گیا- اللہ ہو —— اللہ ہو —– اور وہ لڑکھڑاتے قدموں سے ایک طرف چل دیا- وہ لوگ اسے جاتا دیکھتے رہتے تھے- سب کے جذبات مختلف تھے—
شاہ فرید کا مکان مکمل ہو چکا تھا-
اس روز دوپہر کو وہ باہر نکلے- ان کا دل کچھ گھبرا رہا تھا- وہ سامنے گندم کے کھیت کی طرف گئے- سامنے ناڑی پر الہیٰ بخش آتا دکھائی- وہ کالج چوک کی طرف سے آ رہا تھا، انہوں نے اسے آواز دینے کا ارادہ کیا- لیکن پھر خود کو روک لیا- اسی لمحے الہیٰ بخش نے سر گھما کر دیکھا اور اس کی نظر ان پر پڑ گئی- وہ کھیت کے پہلو میں بنے کچے راستے کی طرف مڑ گیا جہاں وہ کھڑے تھے-
ان دنوں الہیٰ بخش بہت تکلیف میں تھا- اس کا جوڑوں کا در بہت بڑھ گیا تھا- اس کا حلیہ بھی بہت خراب ہو رہا تھا- میلے کپڑے چکٹ تھے اور بال الجھے ہوئے- شاہ فرید کے سامنے پہنچ کر اس نے ادب سے انہیں سلام کیا اور پھر ان کا ہاتھ عقیدت سے چوما-
شاہ فرید نے سلام کا جواب دینے کے بعد پوچھا- “مجھے پہچانتے ہو الہیٰ بخش؟”
“کیوں نہیں باجی سرکار”
“اس دن تو تم نے مجھے نہیں پہچانا تھا”
“کس دن میرے سرکار” الہیٰ بخش نے تشویش سے پوچھا “کب میں گناہگار ہوا تھا —– مجھے بتائیں باجی”
شاہ صاحب نے اسے یاد دلانے کی کوشش کی لیکن الہیٰ بخش کو وہ دن یاد ہی نہیں تھا- شاہ فرید کو اس کی اس روز کی گفتگو اب بھی یاد تھی- وہ سمجھ گئے کہ الہیٰ بخش سچ بول رہا ہے- وہ اس روز یقیناٰ جذب کی کیفیت سے میں تھا-
“لوگ کہتے ہیں کہ تم دیوانے ہو گئے الہیٰ بخش!”
“مجھے نہیں پتا باجی، پر میں نے کبھی کسی کو پتھر نہیں مارا- کوئی تکلیف نہیں پہنچائی”
“ٹھیک کہتے ہو” شاہ فرید نے آہ بھر کے کہا- “نادان تو تمہیں پھر بھی دیوانہ کہیں گے- یہ بتاؤ، تم کیسے ہو الہیٰ بخش؟” ان کے لہجے میں بزرگانہ شفقت تھی، حالانکہ وہ عمر میں الہیٰ بخش سے چھوٹے تھے-
غلام کے لئے دعا کریں سرکار” الہیٰ بخش نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا “جوڑوں کے درد سے پریشان ہوں”
شاہ فرید نے خود کو اس کی طرف کھنچتا محسوس کر رہے تھے- انہیں اس دیوانے سے خوف نہیں محسوس ہو رہا تھا، بلکہ پیار آ رہا تھا “اللہ بہتر کرے گا الہیٰ بخش- یہ دنیاوی تکالیف تو آزمائش ہوتی ہیں- اللہ تمہیں سرخرو گزارے” وہ کہتے کہتے رکے پھر بولے “آؤ، میرے گھر چلو- کچھ دیر سکون سے بیٹھو- دھوپ بہت ہے”
“میرا یہ مقام نہیں سرکار!” الہیٰ بخش نے عاجزی سے کہا-
شاہ فرید اصرار سے اسے گھر لے گئے- انہوں نے بیٹھک کا دروازہ کھولا اور اسے اندر آنے کو کہا-
“میں ادھر بانڈی کے سامنے بیٹھوں گا باجی سرکار”
“نہیں، اندر آؤ”
الہیٰ بخش نے چپلیں باہر اتار دیں اور یوں کمرے میں داخل ہوا جیسے مسجد میں جا رہا ہو-
“آؤ ادھر بیٹھو” شاہ فرید نے صوفے کی طرف اشارہ کیا –
“خدا کے لئے باجی، یہ حکم نہ دیں” الہیٰ بخش گڑگڑا یا “میں تو خاک نشیں ہوں- اوپر بیٹھنے کو کہیں گے تو یہیں سر پھوڑ لوں گا”
شاہ فرید جانتے تھے کہ وہ یہی کچھ کر گزرے گا- انہوں نے ایک نظر اسے دیکھا- وہ دست بستہ کھڑا تھا “اچھا الہیٰ بخش جہاں جی چاہے بیٹھ جاؤ”
“پہلے آپ بیٹھیں باجی”
شاہ فرید نیچے بیٹھنے لگے تو اس نے ان کے پاؤں پکڑ لئے “آپ اوپر بیٹھیں سرکار”
اب شاہ فرید کو احساس ہوا کہ ان کا واسطہ واقعی دیوانے سے پڑا ہے- اس کا رویہ انہیں شرمندہ کر رہا تھا لیکن وہ اسے روک بھی نہیں سکتے تھے- انہوں نے عافیت اسی میں جانی کہ بحث کرنے کے بجائے اس کی بات مان لیں- وہ صوفے پر بیٹھ گئے-
ان کے بیٹھتے ہی الہیٰ بخش ان کے قدموں میں بیٹھ گیا- وہ ان کے پاؤں دبانے لگا-
شاہ فرید کسکمسائے “زیادہ نہ کرو الہیٰ بخش مجھے شرمندگی ہوتی ہے- مان جاؤ —–”
“باجی یہ تو میرے جوڑؤن کے درد کا علاج ہے- مجھے نہ روکیں — آپ کو اللہ جی کا واسطہ”
شاہ فرید مزاج کے خلاف اسے برداشت کر رہے تھے-
“ایک بات کہوں باجی، آج میرےباپ کی روح بہت خوش ہو گی”
“کیوں الہیٰ بخش”
“ابا ساری عمر مجھے آل رسولؐ سے عشق کی تلقین کرتے رہے- میں کہتا —- عشق کیا نہیں جاتا، خودبخود ہو جاتا ہے- جب نصیب میں ہوا تو مجھے بھی ہو جائے گا-” الہیٰ بخش نے توقف کیا اور ایک گہری سانس لی “آج میرے نصیب جاگ گئے- میرے اللہ جی نے مجھے عشق کی دولت دے دی- میں بہٹ خوش ہوں باجی- آج عاقبت سنوارنے کا سامان ہوا ہے”
شاہ فرید کا چہرہ تمتما اٹھا لیکن دیوانہ ان کے اختیار میں نہیں تھا- انہوں نے دل میں خدا سے عرض کی —– مجھے تکبر اور گھمنڈ سے محفوظ فرما معبود-
الہیٰ بخش شاہ فرید کے پاؤں دباتا رہا – اس کے چہرے پر خوشی کی ایسی چمک اور روشنی تھی کہ اس کے چہرے پر نگاہ نہیں ٹھہر رہی تھی-
شاہ صاحب نے اندر گھر میں کھلنے والے دروازے کی طرف منہ کر کے پکارا “سجاد حسین —– سجاد حسین، ادھر آؤ”
چند لمحے بعد دروازہ کھلا اور ایک دراز قد خوش رو لڑکا کمرے میں آیا “جی ابو جان”
الہیٰ بخش جھپٹ کر اٹھا اور سجاد کے ہاتھ چومنے لگا “ماشاللہ —- ماشاللہ—” اس کے لہجے میں اور نگاہوں میں محبت تھی-
“جاؤ بیٹے، لسی لے کر آؤ”
“نہ سرکار، نہ —-” الہیٰ بخش نے نفی میں سر ہلایا- “مجھے بس ٹھنڈا پانی پلا دیں”
“لسی بھی ٹھنڈا پانی ہی ہے الہیٰ بخش” شاہ فرید نے کہا اور بیٹے کی طرف مڑے “جاؤ بیٹے، لسی لاؤ”
سجاد حسین چلا گیا- تھوڑی دیر بعد وہ لسی کا جگ اور دو گلاس لے کر آیا اور بھر کر دونوں کو دئیے- اس کے جانے کے بعد شاہ صاحب نے اصرار کر کے الہیٰ بخش کو لسی پلائی-
لسی پینے کے بعد الہیٰ بخش چھت کو تکنے لگا- اچانک اس کی نظر دیواروں پر پڑی جو رنگ و روغن سے محروم تھیں- “گستاخی معاف باجی سرکار” اس نے کہا ” اجازت ہو تو ایک بات کہوں؟”
“کہوں الہیٰ بخش”
“اللہ کے حکم سے آپ نے مکان بہت اچھا بنا یا ہے- پر رنگ و روغن نہیں کرایا اب تک”
“کرا لوں گا کبھی” شاہ فرید نے بے پروائی سے کہا-
“شاہ صاحب یہ کام مجھے دے دیں”
‘دیکھیں گے- ابھی تو میرا ارادہ نہیں”
الہیٰ بخش نے جھپٹ کر ان کے پاؤں پکڑ لئے “باجی یہ کام مجھے دیدیں- میں آپ کے گھر میں رنگ کروں گا”
شاہ فرید ہچکچا رہے تھے- “الہیٰ بخش تمہارے لئے مشکل ہے- ایک تو جوڑوں کا درد- پھر عرصے سے تم نے یہ کام چھوڑا ہوا ہے”
الہیٰ بخش انگلیوں پر گننے لگا “ستایئس سال ہو گئے سرکار ستائیس سال پہلے آخری بار یہ کام کیا-” اس کا لہجہ خواب ناک ہو گیا ۔۔۔۔۔۔۔
الہیٰ بخش انگلیوں پر گننے لگا “ستایئس سال ہو گئے سرکار ستائیس سال پہلے آخری بار یہ کام کیا-” اس کا لہجہ خواب ناک ہو گیا ۔”بس پھر برش سے ناتا ٹوٹ گیا لیکن اب آخری بار آپ کا کام کرنا چاہتا ہوں”
“لیکن کیوں؟”
“باجی، اللہ نے مجھ بے ہنر کو یہ ہنر دیا تھا- اس سے میں نے ایک عمر حلال کی روٹی کمائی- دنیا سنواری، پھر یہ کام چھوڑ دیا- اب اس سے آخرت کا کام کرنا چاہتا ہوں- آپ کے گھر میں محبت سے بہت اچھا رنگ کروں گا- کیا پتا آپ کی دعا سے میری محبت سے خوش ہو کر اللہ جی مجھ گناہگار کو بھی جنت میں ایک گوشہ دے دیں”۔
“لیکن الہیٰ بخش ۔۔۔”
“خدا کے لئے مجھے مایوس نہ کرنا باجی” الہیٰ بخش نے پھر ان کے پاؤں پکڑ لئے-
“اچھا ٹھیک ہے الہیٰ بخش” شاہ صاحب نے اپنے پاؤں سمیٹتے ہوئے کہا “میں تمہاری خوشی ضرور پوری کروں گا”
شاہ فرید کی ہچکچاہٹ بے سبب نہیں تھی- ان دنوں ان کا ہاتھ تنگ تھا، اسی لئے انہوں نے رنگ و روغن کا کام موخر کر دیا تھا-
“چلیں بازار- میں آپ کو رنگ بھی رعایت پر دلاؤں گا”
“آج نہیں الہیٰ بخش کل صبح چلیں گے” شاہ صاحب نے اسے ٹال دیا- “ابھی تم آرام سے بیٹھو”
——————–٭———————
اگلی صبح نو بجے شاہ فرید اپنی بانڈی میں روزمرہ کے کام نمٹا رہے تھے کہ الہیٰ بخش نازل ہو گیا- دست بوسی کے بعد وہ بولا “باجی چلیں”
“کہاں؟”
“رنگ روغن کا سامان لینے بازار”
“ابھی تو بازار کھلا بھی نہیں ہو گا” شاہ فرید بولے “تم سکون سے بیٹھو، چائےپیو، پھر بازار بھی چلیں گے”
الہیٰ بخش وہیں زمین پر بیٹھ گیا- تھوڑی دیر بعد شاہ صاحب کا منجھلا بیٹا اعجاز حسین چائے لے آیا- وہ چائے پیتا رہا-
شاہ صاحب نے کچھ پیسوں کابند و بست کر لیا تھا- عام حالات میں وہ ابھی رنگ نہ کراتے لیکن دیوانے کے آگے ہار گئے تھے- ساڑھے دس بجے کے قریب انہوں نے الہیٰ بخش سے کہا “آؤ بازار چلیں”
دونوں بازار چلے گئے- الہیٰ بخش انہیں ایک دکان پر لے گیا- وہاں اس نے ضرورت کی تمام چیزٰیں خریدیں اور اس کے بعد جو بھاؤ تاؤ شروع کیا تو دکان دار بھی پریشان ہو گیا-
“دیکھو بابا، اتنے کا تو یہ مجھے بھی نہیں پڑتا” دکان دار نے احتجاج کیا ” اپنا نفع تو میں چھوڑ سکتا ہوں، نقصان میں مال دینے لگا تو چل لی میری دکان”
“ہر جگہ منافع نہیں دیکھتے بالکے” الہیٰ بخش نے دبدبے سے کہا “ساری زندگی منافع لیا ہے، آج نقصان میں بھی دے کر دیکھ- جانتا نہیں یہ کس کے گھر کا کام ہے” اس نے شاہ فرید کی طرف اشارہ کیا “مجھے دیکھ میں اپنے منافع میں تجھے شریک کر رہا ہوں- کچھ آخرت کا سامان بھی کر لے”
شاہ صاحب کا شرمندگی سے برا حال تھا0- وہ بولے “نہیں الہیٰ بخش، ایسی رعایت نہیں چاہیئے مجھے- میں پوری قیمت ادا کروں گا”
“باجی، کسی کی آخرت کے منافع کا معاملہ ہو تو مرضی کے خلاف بھی کر لیا کریں” الہیٰ بخش نے شاہ صاحب سے کہا اور پھر دکاندار سے بولا “بول —- کیا کہتا ہے؟”
دکاندار نے ایک پل اس کی آنکھوں میں دیکھا اور موم ہو گیا- الہیٰ بخش نے اسی دن سے کام شروع کر دیا-
شاہ صاحب پریشان تھے- جانتے تھے کہ الہی بخش جوڑوں کے درد کا مریض ہے- پھر اس کی عمر بھی کم نہیں تھی- صحت کی خرابی ویسے بھی عمر کو بڑھا دیتی ہے اور مکان ان کا ماشاللہ بہت بڑا تھا اور دو منزلہ بھی- کام بہت تھا لیکن الہیٰ بخش کو یہ گوارا نہیں تھا کہ اس کام میں کسی کو شریک کرے- سو وہ پریشان ہونے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے تھے-
اب الہیٰ بخش کے کام کی وہ رفتار بھی نہیں تھئی- پھر بھی وہ بڑی لگن اور محبت سے کام کر رہا تھا- ایک دیوار پوری کرنے کے بعد وہ دیر تک کھڑا اسے ناقدانہ نظروں سے دیکھتا رہتا- اس مصور کی طرح جس نے کوئی شاہکار تخلیق کرنے کا ارادہ کر لیا ہو- پھر وہ دوبارہ اسی دیوار پر کام شروع کر دیتا-
شاہ صاحب نے گھر میں کہہ دیا تھا کہ الہیٰ بخش کے کھانے پینے کا خاص خیال رکھنا ہے- انہوں نے بیٹوں کو بھی ہدایت کر دی تھی کہ وہ الہیٰ بخش کا خاص خیال رکھتے-
شاہ صاحب کے بیٹوں کے لئے الہیٰ بخش عجوبے سے کم نہیں تھا- شاہ صاحب کے چار بیٹے تھے- سب سے چھوٹا دلدار حسین تو بہت چھوٹا تھا- تین بیٹے سجاد حسین ، اعجاز حسین اور تصور حسین سمجھدار تھے- تصور کو پیار سے گل پیر کہا جاتا تھا- تینوں لڑکوں کو قوالی سے بڑی دلچسپی تھی- شاہ صاحب کی مرضی کے خلاف وہ ڈیک لے آئے تھے- جب بھی موقع ملتا، وہ قوالی کا کوئی کیسٹ لگا دیتے-
کام کی رفتار میں یہ ایک چیز بھی مانع تھی کہ کسی قوالی میں حضورﷺ کا اسم مبارک آ جاتا تو بیٹھا ہوا لہیٰ بخش کھڑا ہو جاتا اور ہاتھ سینے پر باندھ کر نظریں زمین پر جما دیتا- اسے ہوش ہی نہ رہتا – یہاں تک کہ گل پیر اسے ہلاتے ہوئے کہتا ” بابا —- قوالی ختم ہو گئی ہے”
یہ بات قوالی کی حد تک نہیں تھی- گفتگو میں بھی کوئی حضورﷺ کا اسم مبارک زبان پر لاتا تو الہیٰ بخش احترام میں غلاموں کی طرح کھڑا ہو جاتا اور کھو جاتا- ایسی عقیدت اور احترام لڑکوں نے کہیں نہیں دیکھا تھا- الہیٰ بخش خود ان کی اتنی عزت کرتا، جیسے وہ اس کے بزرگ ہوں-
فرید شاہ صاحب کا معمول تھا کہ ہر روز الہیٰ بخش سے اس کی ضرورت کئی کئی بار پوچھا کرتے- الہیٰ بخش ہر بار یہی کہتا کہ اسے بس ان کی دعاؤں کی ضرورت ہے “مجھے کچھ نہیں چاہیئے باجی، آپ بار بار کیوں پوچھتے ہیں؟”
“یہ میرا فرض ہے- تم میرے لئے کام کر رہے ہو- مجھے ہر طرح سے تمہارا خیال رکھنا ہو گا لیکن تم کبھی مانگتے نہیں”
“مجھے جو چاہئے، وہ مل رہا ہے- اور کیا مانگوں؟”ا لہیٰ بخش کہتا
شاہ فرید کے بیٹے الہیٰ بخش سے بہت مانوس ہو گئے تھے- کبھی موڈ میں ہوتا تو الہیٰ بخش ایسی دانش کی باتیں کرتا کہ وہ حیران رہ جاتے- نبی کریمﷺ کے احترام کا مظاہرہ بھی ان کے لئے بہت خوش کن تھا- مجموعی طور پر عمر کے فرق کے باوجود اس کی صحبت میں خوش رہتے-
کام اپنی مخصوص رفتار سے چل رہا تھا لیکن اس بات کا اعتراف سب کو تھا کہ الہیٰ بخش غیر معمولی طور پر اچھا کام کر رہا ہے-
ایک دن شاہ فرید معمول کے مطابق الہیٰ بخش کے پاس آئے- شام کا وقت تھا، الہیٰ بخش گھر جانے کی تیاری کر رہا تھا “کیسے ہو الہیٰ بخش؟”
“اللہ کا شکر ہے باجی، بس جوڑوں کی تکلیف بہت بڑھ گئی ہے” الہیٰ بخش نے کہا ، پھر بولا “اجازت ہو تو کل کام سے چھٹی کر لوں سرکار؟”
“اجازت کی ضرورت نہیں – الہیٰ بخش تم میرے نوکر نہیں ہو” شاہ صاحب نے کہا “تم جب چاہو چھٹی کر سکتے ہو”
“پر میں تو اجازت لوں گا باجی- میں کل سول ہسپتال جاؤں گا”
“نہیں وہاں جانے کی ضرورت نہیں- وہاں کوئی پروا نہیں کرتا مریض کی- ناڑی سے ادھت ڈاکٹر ظہیر ہے- تم کل سجاد حسین کے ساتھ اس کے پاس چلے جانا”
“باجی سرکار، میں آپ کا پیسا نہیں خرچ کرانا چاہتا”
“ایسی کوئی بات نہیں- فیس وہ زیادہ نہیں لیتا- تم اپنی جیب سے دے دینا”
“اس پر الہیٰ بخش رضامند ہو گیا- شاہ صاحب اسی شام ڈاکٹر ظہیر کے پاس چلے گئے- وہ ان کے معتقدین میں سے تھا- شاہ صاحب اجا کر اسے سمجھا آئے-
اگلے روز الہیٰ بخش سجاد حسین کے ساتھ ڈاکٹر ظہیر کے پاس چلاگیا- ڈاکٹر نے بڑی توجہ سے اسے دیکھا- تمام دوائیں اپنے پاس سے دیںاور پھر سجاد حسین سے بولا- “چھوٹے شاہ جی، اسے آرامکی ضرورت ہے کم از کم ایک ہفتہ اسے بستر پر لٹائیں چلنے بھی نہ دیں”
“فیس کیا دوں ڈاکٹر صاحب؟” الہیٰ بخش نے پوچھا
“اب آل رسولﷺ سے کیا فیس لوں گا- اللہ اوپر ہی کچھ نواز دے تو اچھا ہے” ڈاکٹر نے کہا-
الہیٰ بخش بہت خوش ہوا- اس نے کہا “آپ بہت اچھے ہیں ڈاکٹر صاحب، ہر مسلمان کو ایسے ہی ہونا چاہئیے”
الہیٰ بخش کو اس دوا سے بہت فائدہ ہوا – بڑی وجہیہ تھی کہ ڈاکٹر پر اس کا اعتقاد ہو گیا تھا-
اسی شام شاہ فرید پھر ڈاکٹر کے پاس گئے- ڈاکٹر واقعتاٰ کچھ لینا نہیں چاہتا تھا لیکن شاہ صاحب نے بالاصرار اسے پوری فیس اور دواؤں کے پیسے دئے اور تاکید کی کہ الہیٰ بخش کو اس بات کا علم نہیں ہونا چاہئے-
الہیٰ بخش نےبمشکل ایک دن ڈاکٹر کی ہدایت پر عمل کیا مگر دوسرے ہی دن آیا اور کام میں مصروف ہو گیا- شاہ صاحب نے دیکھا تو بہت خفا ہوئے “تمہیں ڈاکٹر نے منع کیا تھا”
انہوں نے پہلی بار الہیٰ بخش سے سخت لہجے میں بات کی “تم کیوں خود کو تکلیف میں ڈالتے اور مجھے گناہگار کرتے ہو”
“یقین کریں باجی سرکار، مجھ سے قسم لے لیں، بستر پر لیٹنے سے زیادہ آرام مجھے آپ کے کام میں ملتا ہے” الہیٰ بخش نے لجاجت سے کہا-
شاہ صاحب نے بہت سمجھایا مگر دیوانے سے انہیں ہارنا پڑتا تھا——
ایک دن شاہ فرید بانڈی میں بھینس کے لئے چارہ بنا رہے تھے- اچانک الہیٰ بخش ان کے پاس آیا اور ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو گیا-
“کیا بات ہے الہیٰ بخش؟ شاہ صاحب نے پوچھا
“وہ باجی سرکار، کل چاند کی گیارھویں تاریخ ہے-”
شاہ صاحب مسکرائے- “مجھے معلوم ہے کل تمہارے مرید آئیں گے- تم چھٹی کرو گے- یہی بات ہے نا- میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں، تم اپنی مرضی کے مالک ہو، آزاد آدمی ہو”
“یہ بات نہیں سرکار”
“تو پھر کیا بات ہے؟”
“وہ سرکار —– بات یہ ہے سرکار ۔۔۔۔۔ “الہیٰ بخش سے بات نہیں کی جا رہی تھی- شاہ صاحب نے نظریں اٹھا کر حیرت سے اسے دیکھا- اس کی ہچکچاہٹ ان کی سمجھ میں نہیں آئی-
“کیا بات ہے الہیٰ بخش؟”
الہیٰ بخش نے دونوں ہاتھ جوڑ لئے “چھوٹا منہ بڑی بات ہے سرکار، ڈرتا ہوں، آپ گستاخی نہ سمجھیں”
شاہ صاحب نے اس کے دونوں ہاتھ تھام کر کھول لئے “بولو الہی بخش تم مجھے جانتے ہو- میں تم پر کبھی غصہ نہیں کروں گا”
“سرکار میں چاہتا ہوں کہ کل آپ کھانا میرے ساتھ کھائیں”
ایک لمحے کو شاہ فرید کی رنگت متغیر ہوگئی- پھر انہوں نے خود کو سنبھالتے ہوئے کہا “ٹھیک ہے الہیٰ بخش —- میں آؤں گا”
———————-٭—————–
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...