میرے مضمون”رسول حمزہ کی نظموں کے تراجم:اصل ترجمہ نگار کون؟“۱کے سلسلہ میں تازہ ترین تحقیقی پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ نظموں کے اصل ترجمہ نگار فیض احمد فیض ہیں اور ظ۔انصاری پر سرقہ کا کوئی الزام بھی نہیں آتا۔ اس پیش رفت کا سہرا ڈاکٹر کرسٹینا اوسٹر ہیلڈ کے سرہے۔اس سلسلہ میں حقیقت ِحال کو بیان کرنے سے پہلے ایک بات بطور تمہید کرنا چاہوں گا۔میرا مذکورہ بالا مضمون روزنامہ ہمارا مقصد دہلی۲میں دو قسطوں میں شائع ہوا تھا۔تب میں نے اس مضمون کو سوشل میڈیاکے مختلف فورمز پرخود بھی ریلیز کیا تھا اور بعض دوسرے احباب نے بھی اس مضمون کو نمایاں کیا تھا۔فیض شناسی اور فیض فہمی کے بعض”ماہرین“ کو بھی یہ مضمون بطور خاص بھیجا گیا تھا۔تاہم اس پر تحقیقی زاویے سے کہیں بھی کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔لیکن الماس کے شمارہ نمبر ۳۱میں جیسے ہی یہ مضمون شائع ہوا اور جرمنی پہنچا،اسی روز مجھے ڈاکٹر کرسٹینا نے ای میل کے ذریعے تحقیق کی نئی صورتِ حال سے آگاہ کیا۔
اس سارے پس منظر کے ساتھ جب نظموں کے توارد کے مسئلہ کی تحقیق کی پیش رفت کو دیکھا ہے تو مجھے ایک اور زاویے سے طمانیت کا احساس ہواہے۔جرنلزم اور سوشل میڈیا کی یلغار کے سامنے ادب کا منظر جیسے دھندلا یا ہوا لگ رہا تھا۔ادبی رسائل اور جرائدجیسے اپنی اہمیت کھو رہے تھے۔بے شک جرنلزم کے نئے ذرائع بے حد طاقت ور ہیں اور سوشل میڈیا کی برق رفتاری نے روابط کے لحاظ سے دنیا کو سچ مچ گلوبل ولیج میں بدل کر رکھ دیا ہے۔اس کے باوجود سنجیدہ ادبی معاملات کا اہم ترین فورم اب بھی ادبی جریدہ ہے،ادبی رسالہ ہے۔جون ۲۰۱۱ءکی شروع کی تاریخوں میں چھپنے کے بعد ایک سال کے عرصہ تک سوشل میڈیا کے ذریعے کسی نے بھی مزید تحقیق میں دلچسپی نہیں دکھائی۔ان محققین اور مولفین نے بھی توجہ نہیں کی جو فیض صدی میں فیض شناسی کی کتابیں لکھ کر اور تالیف کرکے اپنی ان کتابوں کی رونمائی کی تقریب دنیا بھر میں مناتیمنواتے رہے ہیں۔لیکن جیسے ہی شاہ عبداللطیف یونیورسٹی خیر پور سندھ کے تحقیقی مجلہ الماس میں یہ مضمون شائع ہوا،پہلے دن ہی اس کا نوٹس لیا گیا اور تحقیق کا دوسرا پہلو بلکہ اصل پہلو بھی سامنے آگیا۔اس سے ادبی جرائد کی اہمیت اور قدروقیمت کا یقین بڑھا ہے۔کم از کم میرے لیے تو یہ ایک خوشکن صورت حال ہے۔سو میں اعتماد کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ سوشل میڈیا کی برکات سے انکار کیے بغیراردو کے سنجیدہ اور معیاری ادبی جرائد کی اہمیت قائم ہے اور جب تک ادب کی اہمیت سلامت ہے ،ادبی جرائد کی اہمیت قائم رہے گی۔
اب اصل موضوع کی طرف آتا ہوں۔ڈاکٹر کرسٹینا نے الماس شمارہ نمبر ۱۳میں میرا مضمون پڑھ کر مجھے یہ ای میل بھیجی:
”قریشی جی!ابھی الماس میں آپ کا مضمون دیکھا۔اتفاق سے میں نے اس موضوع پر لکھا ہے،عنقریب پاکستانیت آن لائن جرنل میں شائع ہونے والا ہے۔ظ۔انصاری نے اپنی کتاب میں صاف لکھا ہے کہ انہوں نے رسول حمزہ کے دوست فیض احمد فیض کے کچھ تراجم شامل کر لیے ہیں۔حوالہ دیکھئے”سوویت یونین کے پندرہ شاعروں کا منتخبہ کلام“ماسکو۔۱۹۷۴ء ۔صفحہ ۱۰۸۔اس سے سارا جھگڑا ہی ختم ہو گیا۔پتہ نہیں کسی نے اس طرف دھیان کیوں نہیں دیا۔“۳
اس کے جواب میں میری طرف سے اسی روز یہ جواب بھیجا گیا:
”کرسٹینا جی! یہ تو آپ نے بہت اچھی خبر سنائی۔ماسکو والے بھی اس سے بے خبر تھے۔اچھا ہوا تحقیقی حوالے سے ایک کام اپنے اچھے انجام کو پہنچا۔اچھا ہو گا اگر آپ یہ مضمون الماس میں بھی بھیج دیں۔بے شک اسے میرے مضمون کے تناظر میں اپ ڈیٹ کر لیں۔آپ کا مخلص حیدر قریشی“ ۴
میری خواہش تھی اور میں نے کوشش بھی کی کہ ڈاکٹر کرسٹینا اوسٹر ہیلڈاس سارے قضیہ کے حوالے سے ایک مضمون لکھیں لیکن انہوں نے اس سلسلہ میں ایک وضاحتی مکتوب لکھنے کی حد تک رضامندی ظاہر کی تو میں نے ان سے اجازت لے کر پھر خود یہ مضمون لکھنے کا فیصلہ کیا۔یہاں اپنے سابقہ مضمون کا ایک اقتباس درج کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔جب ڈاکٹر لدمیلا نے اس توارد کی طرف توجہ دلانے کو میرا ”کمال“قرار دیا تو میں نے صاف گوئی کے ساتھ لکھاکہ:
”میرے مذکورہ”کمال“ کی حقیقت یہ ہے کہ ۷مئی ۲۰۱۱ءکو جب میں ڈاکٹر ناصر عباس نیر سے ملنے کے لیے ہائیڈل برگ یونیورسٹی میں گیا تو وہاں ان کے پاس ”منظوم ترجمے: ظ انصاری“دیکھنے کا موقعہ ملا اور وہیں ناصر عباس نیر کی طرف سے اس قضیہ پر فکر مندی کا اظہار ہوا۔ان کے توسط سے ان تراجم تک رسائی کے بعد میں نے بیت السبوح لائبریری فرینکفرٹ سے” نسخہ ہائے وفا“حاصل کی اور اس سب کے نتیجہ میں یہ مضمون مکمل کیا ہے۔ابھی ناصر عباس نیر اور ڈاکٹر لدمیلا اس موضوع پر اپنی اپنی تحقیق کر رہے ہیں،ان کی تحقیق کے نتائج سامنے آنے کے بعد صورتحال مزید واضح ہو سکے گی۔دوسرے ادباءبھی جو اس قضیہ میں سنجیدہ اور تحقیقی نوعیت کی دلچسپی رکھتے ہیں اپنے طور پر اظہار خیال کرسکیں گے۔“۵
اس اقتباس سے ظاہر ہے کہ میں نے تب بھی اپنے مضمون کو اپنا کوئی کمال نہیں سمجھا تھا۔اسی حوالے سے اب مزید وضاحت کرنا چاہوںگا کہ سات مئی ۲۰۱۱ءکو ہائیڈل برگ میں ناصر عباس نیر سے چند گھنٹوں کی ملاقات ہوئی تھی۔اس میں گزشتہ اٹھارہ انیس برسوں کی بے شمار ادبی اور ذاتی باتیں ہوئی تھیں۔اسی دوران ظ۔انصاری کی کتاب وہاں دیکھی تو اس موضوع پر بات ہوئی ۔ کتاب کو بالکل سرسری ہی دیکھا۔کتاب ساتھ لے جانے کی خواہش ظاہر کی تو ناصر عباس نیر نے بتایا کہ یہ ڈاکٹر کرسٹینا کے لیے لایا ہوں اور انہیں دیناہے۔ہائیڈل برگ سے اپنے گھر واپس جا کر جب مجھے مضمون لکھنے کا خیال آیا تو میں نے ناصر عباس نیر سے کہا کہ مجھے متعلقہ صفحات کی نقول مہیا کردیں تو ممنون ہوں گا۔انہوں نے کرم کیا اور بظاہر توارد والی نظموں اور کتاب کے شروع کے صفحہ کی کاپیاں مجھے ای میل سے بھیج دیں۔اور انہی کی بنیاد پر میں نے اپنا مضمون مکمل کر لیا۔اگرپوری کتاب میری دسترس میں ہوتی تو میں خود اس وضاحت تک پہنچ جاتا جس کی طرف اب ڈاکٹر کرسٹینا نے توجہ دلائی ہے۔ یہاں ڈاکٹر کرسٹینا کی طرف سے ارسال کردہ ،ظ۔انصاری کے پیش لفظ کے متعلقہ معین الفاظ بھی درج کر دیتا ہوں۔
”رسول حمزہ توف کے دوست فیض احمد فیض نے ان میں بعض کو اردو لباس عطا کیا تھااور ہم نے وہ بھی شامل کر لئے“ ۶
بہر حال اب ڈاکٹر کرسٹینا کی نشان دہی کے بعد یہ امور واضح ہو گئے ہیں کہ :
۱۔رسول حمزہ کی زیر بحث ساتوں نظموں کے تراجم فیض احمد فیض نے کیے تھے۔
۲۔ظ۔انصاری نے بھی سرقہ نہیں کیا تھا،بلکہ کتاب کے اندر اپنے مضمون پیش لفظ میں فیض کے تراجم کا حوالہ دے دیا تھا۔
۳۔ ظ۔انصاری کی کتاب کا پورا نام”سوویت یونین کے پندرہ شاعروں کا منتخبہ کلام“تھا۔البتہ اندر کے ایک پورے صفحہ پر ”منظوم ترجمے ظ۔انصاری“ بھی لکھا ہوا تھا۔مجھے یہی صفحہ موصول ہوا تھا۔
اپنے پہلے مضمون میں درپیش تواردکی صورت حال پر میں نے حیرانی کا اظہار تو کیا تھا لیکن فیض احمد فیض اور ظ انصاری میں سے کسی پر بھی سرقہ کا الزام لگانے سے مکمل احتیاط کی تھی۔میں نے صاف لکھا تھا کہ:
”ان تراجم کو دونوں میں سے کسی ایک کا بھی سرقہ کہنا مناسب نہیں ہے،لیکن یہ توارد حیران کن ضرور ہے۔فیض صاحب کی شہرت اور عظمت رسول حمزہ کی شاعری کے کسی بھی ترجمہ سے کہیں زیادہ بلند و بالا ہے جبکہ ظ انصاری روسی زبان پر عبور رکھنے کے باعث خود ایک ماہر ترجمہ نگار تھے،انہیں فیض صاحب کی ترجمہ کردہ نظمیں جوں کی توں اٹھا لینے کی ضرورت ہی نہ تھی۔تو پھر یہ کیا ماجرا ہے؟“۷
مجھے خوشی ہے کہ ڈاکٹر کرسٹینا کی طرف سے توجہ دلائے جانے کے بعد یہ سارا معاملہ صاف ہو گیا ہے۔ایک ادبی حقیقت واضح طور پر سامنے آگئی ہے اور میں برملا اس کا اعتراف کرتا ہوں۔رسول حمزہ کی متنازعہ سات نظموں کے ترجمہ نگار فیض احمد فیض ہی تھے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
۱تحقیقی مجلہ الماس شعبۂ اردو شاہ عبداللطیف یونیورسٹی خیر پور سندھ۔ شمارہ نمبر ۱۳۔سال ۲۰۱۱۔۱۰۱۲۔ص ۲۷۔ مدیر:ڈاکٹر محمد یوسف خشک
۲روزنامہ ہمارا مقصد دہلی شمارہ یکم جون ۲۰۱۱ءاور دو جون ۲۰۱۱ء
۳ڈاکٹر کرسٹینا کی ای میل بنام حیدر قریشی 12.09.2012 09:57
۴حیدر قریشی کی ای میل بنام ڈاکٹر کرسٹینا اوسٹرہیلڈ 12.09.2012 / 10:37
۵مضمون ”رسول حمزہ کی نظموں کے تراجم:اصل ترجمہ نگار کون؟“ از حیدر قریشی
مطبوعہ تحقیقی مجلہ الماس شعبۂ اردو شاہ عبداللطیف یونیورسٹی خیر پور سندھ۔شمارہ نمبر ۱۳۔
سال ۲۰۱۱۔۲۰۱۲۔صفحہ ۷۵۔ مدیر:ڈاکٹر محمد یوسف خشک
۶ظ ۔انصاری۔”سوویت یونین کے پندرہ شاعروں کا منتخبہ کلام“ صفحہ نمبر ۸۰۱۔مطبوعہ ماسکو۔۱۹۷۴ء
۷مضمون ”رسول حمزہ کی نظموں کے تراجم:اصل ترجمہ نگار کون؟“ از حیدر قریشی
مطبوعہ تحقیقی مجلہ الماس شعبۂ اردو شاہ عبداللطیف یونیورسٹی خیر پور سندھ۔شمارہ نمبر ۳۱۔
سال ۲۰۱۱۔۲۰۱۲۔صفحہ ۷۳۔ مدیر:ڈاکٹر محمد یوسف خشک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مطبوعہ : ہم عصرڈاٹ ڈی کے مدیر نصر ملک۔مورخہ ۱۴ اکتوبر ۲۰۱۲ء
http://www.urduhamasr.dk/dannews/index.php?mod=article&cat=Literature&article=859
روزنامہ آج پشاور ادب سرائے۔۹۱اکتوبر ۲۰۱۲ء
شاہ عبداللطیف یونیورسٹی خیرپور ۔شعبہ اردو۔جرنل”الماس“شمارہ نمبر ۱۴۔سال اشاعت ۲۰۱۳ء