نینسی اور ایب اس وقت پولیس اسٹیشن میں بیٹھے تھے۔ ایب کے ساتھ اس کا وکیل بھی موجود تھا۔
ان سے پوچھیں آفیسر! کیا میں نے ان پر ہاتھ اٹھایا؟ یا جان سے مارنے کی دھمکی دی؟
ان سے پوچھیں انھیں ایسا کیوں لگا کہ میں انھیں جان سے مارنے لگا ہوں؟
کیا ان کے جسم پر کسی قسم کے تشدد یا ہراسمنٹ کے نشان ہیں؟
ایب اس وقت بہت cool minded نظر آرہا تھا اور سچ تو یہ تھا اس کی قینچی جیسی چلتی زبان دیکھ کر تو اس کا وکیل بھی قائل ہوگیا تھا۔ حقیقتا وہ اکیلا ہی اپنے دفاع کےلیے کافی تھا۔
ایب کے سوالات سن کر آفیسر نینسی کی طرف متوجہ ہوا۔ ایب کے اعتراضات کا جواب وہ نینسی سے چاہتا تھا۔ مگر وہ آپے سے باہر ہوگئی۔
آفیسر یہ ایک نمبر کا لائیر، بکواس کرتا ہے۔۔ اس نے صاف صاف بولا تھا۔۔۔ یہ مجھے زمین میں گاڑ دے گا۔۔۔ تم بتاؤ کیا اس کا مطلب جان سے مارنا نہیں؟
شدت جذبات سے اس کے نتھنے پھول اور پچک رہے تھے۔اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ ایب کا منہ نوچ لیتی۔
آفیسر نے ایب کی طرف کڑی نظر سے دیکھا اور جواب طلب لہجے میں پوچھا۔
کیوں مسٹر؟ کیا تم اس سے انکار کرتے ہو؟
ایب نے وکیل کی طرف دیکھا اوروضاحت دینے لگا۔
میرا خیال ہے محترمہ کسی غلط فہمی کا شکار ہیں۔ میں نے کہا تھا “نہیں چھوڑونگا”
آپ بتائیں اس میں کچھ غلط ہے؟
ایب کا خیال تھا وہ ٹھیک خطوط پر أگے بڑھ رہا ہے۔۔۔ لیکن پولیس آفیسر نے اس کا خیال غلط ثابت کردیا۔
دیکھو مسٹر میں لائیر نہیں ہوں کہ تم لوگ اپنے اپنے دلائل دو اور میرا وقت ضائع مت کرو۔۔۔، ٹھیک ٹھیک بتاؤ تم خاتون کو کیوں ہراساں کرتے رہے۔۔۔
ایب کی قوت برداشت جواب دینے لگی مگر اس مرحلے پر وہ کسی حماقت کا متحمل نہیں ہوسکتا تھا۔
ایکسکیوز می۔۔۔؟ آفیسر!
اس محترمہ نے میری پینٹگز کو نقصان پہنچایا۔۔۔ میرے گھر میں توڑ پھوڑ کی میرے ذہنی سکون کو خراب کیا۔۔۔ اس کے باوجود میں نے اس کے عورت ہونے کا لحاظ کیا اور آپ کہہ رہے ہیں میں نے ان کو ہراساں کیا؟
ربش۔۔۔؟
وہ الجھن زدہ نظر آتا تھا۔
بہرحال ہمیں رسمی کارروائی تو کرنا ہوگی۔
آفیسر نے اس کی امیدوں پر پانی پھیردیا۔
بٹ آفیسر۔۔۔۔؟
وہ بےچین ہوا۔
مجھے افسوس ہے۔
آفیسر اپنی جگہ سے اٹھنے لگا۔
ایب نے گھبرا کر وکیل کی طرف دیکھا۔
وکیل نے شانہ تھپتھپا کر اسے تسلی دی۔
نینسی ایکدم خوش نظر آنے لگی، مگر۔۔۔۔۔
سوری میم گھر میں توڑ پھوڑ اور قیمتی اشیاء کو نقصان پہنچانے کا چارج آپ پر بھی لاگو ہوتا ہے۔
اور نینسی کو، ایک دوسرے اہلکار کے حوالے کردیا۔۔
وہ کچھ نہ سمجھ آنے والے انداز میں آفیسر کو دیکھ کر رہ گئی۔۔ جب بات سمجھ آئی تو احتجاج کرنے لگی۔۔۔ لیکن پولیس اہلکار نے اس کے شور شرابے کی پرواہ کیے بغیر اس کو حوالات میں ڈال دیا۔
آگے کا سارا کام ایب کے وکیل کا تھا جو اپنے پیشے میں کافی تجربہ کار تھا۔
*********
وہ رخت سفر باندھ چکا تھا۔ منزل اور اس کے درمیان ابھی کچھ راستے حائل تھے۔۔۔ گذرے وقت کی پرچھائیاں بھی اس کے ساتھ ساتھ محو سفر تھیں۔۔۔ ہاں ایک بات طے تھی۔۔۔ وہ جو وجود لے کر آیا تھا، وہ پیچھے کہیں رہ گیا تھا۔۔ اور اب ایک نیا اور اجنبی انسان اس کے اندر کروٹیں لے رہا تھا۔۔۔
وہ شہیر ضیاء تھا، جو اس سے کھو گیا تھا۔۔۔۔
*********
بکواس ہے یہ سب، میرے اور میری فیملی کے خلاف سازش ہے۔۔ محکماتی کارروائی کے نام پر ہم سے ذاتی چپقلش نکالی جارہی ہے۔۔۔ یہ صرف اور صرف جھوٹ کا پلندہ ہے اور کچھ نہیں۔۔۔۔
زبیر عثمانی اس وقت نیب کے سیل میں موجود تفتیشی پینل کے سوالات کے جواب دینے اور اپنے دفاع کی بھرپور کوشش کر رہے تھے۔۔
دفاع تو ایک غیر مناسب لفظ تھا، درحقیقت وہ مرتضی غوری کی ذات پر کیچڑ اچھال رہے تھے۔۔۔ زبیر عثمانی کے پاس فی الحال ایک یہ ہی حربہ تھا جسے وہ غلط وقت پر استعمال کر رہے تھے۔۔۔ حقیقتا وہ بوکھلاہٹ کا شکار ہو چکے تھے۔۔۔
زبیر صاحب! آپ جانتے ہیں کیا کہہ رہے ہیں؟
ذاتی چپقلش سے آپ کی کیا مراد ہے۔۔؟
تفتیش کنندگان میں سے ایک افسر نے سوال داغا۔۔
مر۔۔۔
زبیر عثمانی مرتضی غوری کہتے کہتے رک گئے۔۔۔
ہا۔۔۔ہ۔۔۔
گہری سانس خارج کی اور بات بدل دی۔۔
دیکھیے سر۔۔ میں ایک اہم پوسٹ پر تعینات تھا۔۔ میری بیوی نامور سماجی کارکن ہیں۔۔۔ ہمارے سو دشمن سو دوست ہیں۔۔۔ جن کے ہاتھ بھی لمبے ہیں۔۔ میں کسی کا نام نہیں لینا چاہتا، لیکن آپ اپنی تفتیش کا دائرہ بڑھائیں۔۔۔ میں بس اتنا ہی چاہتا ہوں۔
نروٹھے پن سے کہہ کر خاموشی اختیار کرلی۔۔
مسٹر زبیر عثمانی ہم یہاں آپ کی چاہت پوری کرنے نہیں بیٹھے جو پوچھ رہے ہیں اس کا ٹھیک ٹھیک جواب دیں۔۔۔
آپ کے اثاثے آمدنی سے میل نہیں کھاتے۔۔۔۔ اپنی سورس آف انکم کی وضاحت کریں گے؟
سنگاپور میں اتنی پراپرٹی کیسے بنائی آپ نے۔۔۔؟
ایک دوسرے افسر نے نہایت کرختگی سے سوال پوچھا
زبیر عثمانی نے کسی قسم کی گھبراہٹ کے بغیر جواب دیا۔
میری وائف ایک اسٹرونگ فیملی سے بی لونگ کرتی ہیں۔۔ انھوں نے اپنی آبائی پراپرٹی کا کچھ حصہ فروخت کیا تھا۔۔۔
افسر کے چہرے پر طنز بھری مسکراہٹ کھیل گئی۔
آپ کا کیا خیال ہے؟ سر!
ہم آپ کا فیملی بیک گراؤنڈ نہیں جانتے۔۔۔؟ یا آپ کے خیال میں ہم گھاس کھا کر بیٹھے ہیں۔۔
زبیر عثمانی جزبز ہوکر رہ گئے۔
پچھلے پانچ سالوں میں آپ نے کرپشن کے جو ریکارڈز قائم کیے ہیں، اس کی ایک ایک پائی کا حساب ہے ہمارے پاس۔۔۔۔ اور مسٹر زبیر۔۔۔۔
افسر نے ان کی آنکھوں میں جھانکا۔۔۔
ہم وہ ایک ایک پائی نکلوا کر رہیں گے۔۔۔
اور کاغذات کا پلندہ ان کے سامنے ٹیبل پر پٹخ دیا۔۔۔
زبیر عثمانی نے ایک پرتجسس نگاہ ان پر ڈالی اور جسم سے روح کو نکلتا محسوس کیا۔
*********
ایب واقعی غضب کا فنکار ثابت ہوا تھا۔مجسٹریٹ کے سامنے اس کے بیان اور وکیل کی چرب زبانی نے خوب رنگ جمایا تھا۔
یہ سچ تھا کہ نینسی نے اس کی پینٹنگز کو نقصان پہنچایا تھا مگر ایسا بے گناہ وہ بھی نہیں تھا۔۔۔ لیکن شواہد کی روشنی میں نینسی اپنا دفاع نہیں کر سکی اس کا جذباتی پن اسے نقصان پہنچا گیا تھا جبکہ ایب نے اپنے نامناسب الفاظ بدل لیے تھے۔۔۔
چنانچہ اس پر تھوڑا سا جرمانہ عائد کرنے کے بعد چھوڑ دیا گیا۔۔ جبکہ نینسی کو تین ماہ قید بھی بھگتنی تھی۔۔
اپنے فلیٹ سے نکل کر وہ کنگ پارک چلا آیا۔۔۔ یہاں اکثر اسے اچھی انسپریشن مل جاتی تھی۔۔ اس وقت بھی وہ یادگار کی سیڑھیوں پر بیٹھا اس میٹنگ کے بارے میں سوچ رہا تھا جو گذشتہ رات گیلری کے سی۔او سے ہوئی تھی۔۔۔
دیکھیے مسٹر اے۔زی۔ ہم ایک بڑا پروجیکٹ لانچ کرنے جا رہے ہیں اور اس کے لیے ہم آپ کو ہائر کررہے ہیں یہ تو طے ہے لیکن اس پروجیکٹ کے لیے آپ کو تیسری دنیا کے کچھ ممالک کے دورے پر ہماری ٹیم کے ساتھ جانا ہوگا۔۔۔ کیا آپ کے لیے یہ پاسیبل ہے؟
ایب اٹھ کھڑا ہوا اور پختہ روش پر ٹہلتا ہوا آگے بڑھنے لگا۔۔۔
مثلا مجھے کن ممالک کا دورہ کرنا ہے۔۔؟ ایب نے عادتا اس کے چہرے پر نظریں گاڑے پوچھا تھا۔
مثلا؟ انڈیا، بنگلہ دیش، افغانستان۔۔۔وغیرہ۔۔
ایب نے کچھ کہنا ہی چاہا تھا کہ وہ بولا۔۔ اور۔۔پاکستان۔۔۔؟
پاکس۔۔۔تان؟
ایب کے ” یس” کہتے لب ایکدم سوال میں ڈھل گئے۔۔
پاکستان؟
اس نے ایک بار پھر تصدیق چاہی تھی۔۔
یس پاکستان۔۔۔۔ اینی پرابلم۔۔۔؟
وہ کچھ خائف سا ہوا تھا۔۔۔
ایب نے چند لمحے خاموشی اختیار کی۔۔۔ اور پھر ،
نو پرابلم آئی ایم ریڈی!
اس نے ایک لمحہ لیا تھا فیصلہ کرنے میں۔۔۔
اور اب وہ سوچ رہا تھا، اتنے سال وہ یہاں کیوں تھا؟ اسے تو بہت پہلے یہ فیصلہ کر لینا چاہیے تھا۔ نوجوانی کی وہ غلطی اتنی بھی خوفناک نہیں تھی کہ وہ ساری زندگی کے لیے منہ چھپاتا پھرے۔۔؟
شاید قدرت اسے دوسرا چانس دے رہی تھی۔۔
تو کیوں نہ ایک چانس مجھے بھی دینا چاہیے اپنے دشمن کو۔۔۔
اوکے۔۔۔ سویٹ ہارٹ میں آرہا ہوں۔۔
*********
السلام علیکم بابا! شہیر نے لاؤنج میں قدم رکھتے ہی کہا تھا۔ ضیاء الدین صاحب چونک کر کھڑے ہوئے اور اسے گلے لگا لیا۔
وعلیکم السلام۔۔۔ کیسے ہو؟
اس وقت سہ پہر کا وقت تھا اور سطوت آراء اور آبریش کھانے کے برتن سمیٹ رہی تھیں۔ ضیاءالدین صاحب کال پر کسی سے محو گفتگو تھے جب شہیر کو دیکھتے ہی انھوں نے کال ختم کردی تھی۔
ٹھیک۔۔۔
شہیر نے مختصر سا جواب دیا۔
اس بار کچھ زیادہ ٹائم نہیں لگا دیا تم نے۔۔۔؟
انھوں نے خوشی محسوس کرتے سوال کیا۔
کہاں بابا۔۔۔؟ آغا جان کی ڈیتھ کے بعد یہ دوسرا چکر ہے میرا۔۔۔
اتنی جلدی جلدی تو نہیں آسکتا ناں؟ کام کو بھی دیکھنا ہوتا ہے آخر۔
شہیر نے صفائی پیش کی۔
ہاں تو کیا ضرورت ہے؟ ان پہاڑوں میں سر پھوڑنے کی۔۔؟ کام کیا یہاں نہیں ہوسکتا؟
ہمیشہ کی طرح سطوت آراء کے گلے شکووں کا آغاز ہو چکا تھا۔۔
وہ برتنوں کا کام ملازمہ کے حوالے کرکے اس طرف چلی آئی تھیں۔
جی بھائی ماما ٹھیک کہہ رہی ہیں آخر وہاں رکھا کیا ہے۔۔کہ آپ دوڑے دوڑے جاتے ہیں وہاں۔۔۔
اس بار آبریش بھی پیچھے نہیں رہی تھی۔۔
میراعشق۔۔۔
شہیر نے مختصر مگر جامع جواب دیا، جسے سنتے ہی دونوں ماں بیٹی کی آنکھیں پھیل گیئں۔
کیا۔۔۔؟ تم نے وہاں کسی کو پسند کر رکھا ہے؟ اور آج تک ہمیں خبر نہیں ہونے دی؟
سطوت آراء کا صدمہ چھوٹا نہیں تھا۔
کیوں بھائی آپ نے ہمیں کیوں نہیں بتایا۔۔۔؟
آبریش بھی اس سے سخت خفا تھی۔۔
اب بتا تو رہا ہوں!
شہیر نے صفائی پیش کی۔۔
ضیاءالدین صاحب نے کوئی سوال نہیں کیا تھا بس اس کی پراسرار آنکھوں میں جھانکتے رہے۔۔
کون ہے۔۔؟ نام کیا ہے اس کا۔۔۔؟ اور خاندان؟
ایک بات بتائے دے رہی ہوں اگر ہمیں خاندان پسند نہیں آیا تو۔۔ کچھ بھی ہو جائے ،رشتہ نہیں کریں گے ہم۔۔
خاندان؟
شہیر نے زور دے کر پوچھا۔۔
پھر تو بڑی گڑبڑ ہوگئی۔۔۔،
شہیر نے افسوس سے سر جھلایا۔۔
ارے چھوڑیں نہ ماما خاندان واندان کو۔۔بھیا لڑکی خوبصورت ہونی چاہیے ورنہ یہ شادی نہیں ہوسکتی!
آبریش کی الگ شرائط تھیں
خوبصورت۔۔۔۔؟ آہم۔۔ آہم۔۔
شہیر نے گلا کھنکھارا۔
کیوں خوبصورت بھی نہیں ہے کیا؟
آبریش کے لہجے میں مایوسی اور تشویش بیک وقت عود آئی۔
خوبصورت۔۔۔؟ ابھی جس حال میں چھوڑکر آیا ہوں، ممکن ہے آپ کیا کسی کو بھی پسند نہ آئے لیکن جب پوری طرح تیار ہو گی تب آپ لوگ خوش ہوجائیں گے۔۔ ان شاءاللہ۔۔
وہ پوری سنجیدگی سے بات کررہا تھا۔
کیا مطلب۔۔۔۔؟ شہیر! نہ شکل صورت نہ خاندان۔۔۔؟
چلو شکل صورت پر بندے کا اختیار نہیں۔۔۔۔ لیکن بیٹا خاندان۔۔؟
سطوت آراء کو نیا صدمہ لاحق ہوچکا تھا۔۔
شہیر۔۔۔! ضیاءالدین صاحب نے تنبیہی لہجے میں اسے کچھ باور کرانا چاہا۔
ماما اختیار تو خاندان پر بھی انسان کا نہیں۔۔۔ !
ہائے شہیر تم نے تو مجھے ٹھیک سے خوش بھی نہیں ہونے دیا۔۔۔ اب بتاؤ میں کیا کروں؟
حوصلہ رکھیے بیگم صاحبہ!
ہاں تو صاحب زادے کیا نام ہے تمھارے اس عشق کا؟
شہیر سر کھجانے لگا۔۔۔
شہیر تم بتاؤ گے یا میں بتاؤں اس کا نام۔۔؟
ضیاءالدین صاحب نے اسے متنبہہ کیا۔
بتارہا ہوں۔۔۔
دراصل اس کا نام ” سویرا” ہے۔۔
شہیر نے قدرے لفظ دبا کر کہا۔
پورا نام۔۔۔
ضیاءالدین صاحب نے زوردے کر کہا۔
” سویرا ہیلتھ سینٹر اینڈ ٹرسٹ”
دونوں ماں بیٹی ہونق بنی اسے دیکھ رہی تھیں۔۔
دس از ناٹ فیئر بھائی۔۔۔۔
آبریش نے تو فورا خفگی کا اظہار بھی کر دیا۔۔۔
توبہ ہے شہیر۔۔۔! تم نے تو جان ہی نکال دی تھی۔۔۔
سوری۔۔۔ لیکن کیا کروں۔۔۔، ہر بار ایک سی کنورسیشن سے بور ہوگیا ہوں۔۔۔ سوچا اس بار تھوڑی تبدیلی ہی سہی۔
لیکن بابا۔۔۔آپ نے ساری تبدیلی کا جنازہ نکال دیا۔۔
وہ ضیاءالدین صاحب سے شکوہ کر رہا تھا۔
تبدیلی کا اتنا ہی شوق ہے ناں تو مان لو میری بات۔۔۔ اور شادی کرلو، دیکھنا کتنی خوبصورت تبدیلی آجائے گی تمھاری زندگی میں۔۔
سطوت آراء نے چڑکر کہا تھا
لیجیے۔۔۔ یک نہ شد۔۔
عشال کہاں ہے۔۔ نظر نہیں آرہی۔۔۔؟ اسے تو آپ ساتھ لائے ہیں ناں۔۔؟
اس نے موضوع ہی بدل ڈالا تھا۔
ہاں ہاں دنیا جہان کی باتیں کروالو تم سے، ایک اس موضوع پر کبھی سنجیدہ مت ہونا۔۔۔ بیٹھو یہیں آرام سے کھانا لگاتی ہوں تمھارے لیے۔
اتنا کہہ کر وہ اٹھ گیئں۔۔
کیوں ستاتے ہو اپنی ماں کو۔۔۔، وہ سچ مچ خفا ہوگئی ہیں۔
ضیاءالدین صاخلحب نے اسے ہلکی پھلکی سرزنش کی۔
ارے بابا میں بس یونہی ان کی کونسنٹریشن ڈائیورٹ کرنا چاہ رہا تھا لیکن آپ نے سارا ڈرامہ خراب کر دیا۔
ضیاءالدین صاحب مسکرا دیے۔
شہیر نے دوبارہ پوچھا۔
عشال کہاں ہے؟
اوپر ہے اپنے کمرے میں آرام کررہی ہے شاید۔۔ شام کو مل لینا۔
ضیاءالدین صاحب نے جواب دے کر اخبار پھیلا لیا۔۔
شہیر بھی اپنا مختصر سامان اٹھا کر چل دیا۔
*********
یہ لائبریری کا منظر تھا۔۔ کتابوں میں سر دیے نوٹ بک پر اس کا قلم گھسٹتا چلا جارہا تھا۔ اس کے عین سامنے کی میز پر کتابیں پھیلائے کچھ لڑکے بھی موجود تھے۔۔ وہ اپنے اسائمنٹ نوٹس اکٹھے کرنے میں مصروف تھے۔۔۔
لیکن دو گہری سیاہ آنکھیں کتاب سامنے پھیلائے اس کا جائزہ لینے میں مصروف تھیں۔ آف وائٹ کوٹ اور بےبی پنک اسکارف کے ہالے میں اس کے چہرے پر بھی بچگانہ معصومیت چھائی ہوئی تھی۔۔
اگر تین لفظوں میں اس کو بیان کیا جاتا تو۔۔۔ وہ برملا کہتا معصومیت، سادگی، پاکیزگی۔
عشال تیزی سے اپنے نوٹس مکمل کر رہی تھی مگر اگلی کلاس شروع ہونے میں دس سے بارہ منٹ ہی باقی تھے جب اس نے اٹھنے کا فیصلہ کرتے ہوئے سب کچھ سمیٹنا شروع کردیا تھا۔
لنچ بریک وہ آج بھی گول کر گئی تھی۔۔
ہیلو۔۔۔
وہ کوریڈور میں تھی جب کسی نے اسے پشت سے مخاطب کیا تھا۔۔
اجنبی آواز پر وہ بے اختیار مڑی تھی۔۔۔
کیا آپ نے مجھے کچھ کہا۔۔؟
اس نے حیرت سے پوچھا تھا۔
جی میں آپ سے ہی مخاطب ہوں۔۔ دراصل مجھے آپ سے کچھ کہنا ہے۔۔
جی کہیے میں سن رہی ہوں عشال نے خاصی سنجیدگی سے پوچھا تھا۔ اس کے انداز میں مخاطب کے لیے سراسر حوصلہ شکنی تھی۔ مگر وہ بھی پوری طرح پرعزم تھا۔
مجھے آپ سے ایک فیور چاہیے۔۔۔ ایکچولی مجھے آپ سے تھوڑی ہیلپ چاہیے۔۔
اسے اپنے الفاظ مناسب نہیں لگ رہے تھے۔۔ اور یہ موقع وہ کھونا نہیں چاہتا تھا۔
کیسی ہیلپ۔۔؟
عشال نے سپاٹ انداز میں پوچھا تھا۔
فزکس میں میری سپلی ہے تو کیا آپ مجھے تھوڑا ٹائم دے سکتی ہیں۔۔۔؟
اس نے سر کھجاتے ہوۓ مدعا بیان کیاتھا۔
میں ہی کیوں آپ اس سلسلے میں کسی سے بھی ہیلپ لے سکتے ہیں۔۔۔
عشال کا انداز بے لچک تھا
رائٹ۔۔۔ بٹ اب تک جس سے بھی بات کی، سب نے انکار ہی کیا ہے۔۔۔
لائبریری میں آپ کو اسائمنٹ بناتے دیکھا تو سوچا ایک بار آپ سے بھی پوچھ لوں۔۔۔
کیا آپ میری ہیلپ کریں گی۔۔
پلیز۔۔۔۔؟
اس کی آنکھوں میں مچلتی التجا سے عشال نے بمشکل نگاہ چرائی تھی۔۔
میں آپ کو اتنا فیور دے سکتی ہوں کہ کسی کو آپ کے لیے ارینج کر دوں، ایکچولی میں کسی کو ٹیوشن نہیں دیتی۔۔
کہہ کر وہ پلٹنے کو تھی، کہ۔۔۔۔
لیکن میں ہیلپ کی بات کررہا ہوں۔۔۔
اس کی آواز پر عشال زبرجرد کو ٹھہرنا پڑا۔
دیکھیے۔۔
مسٹر میرے پاس کسی کی ہیلپ کا وقت نہیں ہوتا۔۔۔آئی ایم سوری۔۔۔
پلیز۔۔۔
وہ ایک بار پھر آڑے آیا۔۔
میں زیادہ ٹائم نہیں لوں گا۔۔۔
اسے بضد دیکھ کر عشال کی برداشت جواب دینے لگی تھی۔۔۔
مگر وہ بھی کوئی بلا کا جی دار تھا۔۔۔ عشال کو انکار کا موقع دیے بغیر بولا۔۔
میں نے دیکھا ہے آپ کو سمجھاتے ہوئے پورے کونسیپٹ کو دماغ کے اندر تک انڈیل کر رہتی ہیں میری ہیلپ آپ ہی کرسکتی ہیں۔۔۔
یا پھر آپ صرف مجھ سے ہی ہیلپ لینا چاہتے ہیں۔۔
بالآخر عشال نے تند لہجے میں کہہ ہی دیا تھا۔
اس کی سیاہ آنکھیں حیرت زدہ رہ گئیں۔۔۔
دیکھیے میں ایک بار کہہ چکی کہ میرے پاس وقت نہیں تو آپ سمجھ کیوں نہیں رہے۔۔
اتنا کہہ کر وہ پلٹ گئی تھی۔۔
اور وہ اپنی دیوانگی پر بالوں میں ہاتھ پھیرتا رہ گیا۔۔
*********
کون تھا۔۔۔؟ تم سے کیا کہہ رہا تھا۔۔۔ نورین نے عشال کو آتے اور اسے جاتے ہوۓ دیکھ لیا تھا۔۔
کچھ نہیں ایسے ہی بس فضول وقت بہت ہوتا ہے۔۔۔ کچھ لوگوں کے پاس۔۔! اور سمجھتے ہیں مقابل بھی اتنا ہی فارغ بیٹھا ہے۔۔
اتنا کہہ کر وہ ڈیپارٹمنٹ کی جانب بڑھنے لگیں۔۔
لیکن یہ تو شامی تھا ناں شاید۔۔۔؟
تنزیلہ نے اشعر سے
تصدیق چاہی تھی، وہ سب اکٹھے ہو گئے تھے اور اسے خود سے کچھ فاصلے پر جاتا ہوا دیکھ رہے تھے
عشال نے کوئی جواب نہیں دیا۔۔ لیکن اشعر نے آنکھوں پر ہاتھ کا چھجا سا بنا کر ذرا غور کیا بولا۔۔
تھا۔۔۔ نہیں ہنڈریڈ پرسنٹ وہی ہے۔۔۔کمال کا آرٹسٹ ہے۔۔ میں تو کہتا ہوں اسے سائنس چھوڑ کر آرٹ اسکول جوائن کرلینا چاہیے۔۔۔
پتہ نہیں یہاں کیا جھک مار رہا ہے۔۔۔
تمھیں کیسے پتہ نورین نے چلتے چلتے پوچھا تھا۔۔
کیونکہ یہ دونوں ایک ہی سوسائٹی میں رہتے ہیں۔۔۔ تنزیلہ نے وضاخت کی۔۔
تو پھر اشعر آپ اس کی مدد کیوں نہیں کرتے۔۔۔ عشال نے جذبہء خیرسگالی کے تحت کہا تھا۔
کیسی مدد۔۔۔؟
موصوف کی سپلی ہے فزکس میں۔۔۔
عشال نے اس کے گوش گزار کیا۔
واٹ۔۔۔؟ سپلی اور شامی۔۔۔۔؟
اشعر کو زبردست جھٹکا لگا تھا۔۔۔
ٹاپ فائیوس میں ہیں جناب۔۔۔ !
اشعر کے الفاظ پر عشال کے بڑھتے قدم تھم کے رہ گئے۔۔۔۔
*******
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...