(مطبوعہ ’’اسباق‘‘ پونے، مہاراشٹرا)
کویت بھی اُردو کی اُن آباد بستیوں میں سے ہے جہاں اُردو ادب چاؤ سے پڑھا لکھا جاتا ہے، اُردو شاعر نظمیں، غزلیں اور نعتیہ تخلیقات بڑے خلوص سے لکھ رہے ہیں، افسانہ نگار، انشائیہ نگار، مقالات لکھنے والے، خاکہ لکھنے والے اور صحافی سب ہی اس ضمن میں اپنا اپنا بہتر رول ادا کر رہے ہیں یہاں کی ادبی محفلیں بھی خوب ہوتی ہیں، شعر سنا جاتا ہے پڑھا جاتا ہے اور شعرا مشاعروں، طباعت و اشاعت، ان تمام سمتوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔
کویت آنے کے بعد مجھے نسبتاً کچھ کم ہی ان ادبی محفلوں میں شریک ہونے کا موقع ملا، لیکن میں یہاں کی ادبی محفلوں کو اُردو زبان کی اشاعت و ارتقا میں کامیاب پاتا ہوں۔ ان محفلوں میں کئی خلاق ادیبوں اور شاعروں سے ملنے کا موقع ملا۔
ان محفلوں میں جن میں، میں شریک تھا ایک بھلے مانس، سادہ مزاج شخص نے مجھے متاثر کیا جو اچھی اردو لکھنے پڑھنے کی بنا پر ممتاز لگا۔ وہ شاعر رشید میواتی صاحب تھے۔
رشید میواتی کا نام کویت کے ادبی حلقوں میں کافی معروف رہا۔ یہاں تک کہ ایک دن (غالباً ۱۹/ جنوری ۲۰۰۶ء) کو وہ اپنے وطن عزیز (پاکستان) میں کسی نابکار کے ہاتھوں قتل ہو گئے۔ یہ ایک ادیب کی ناگہانی موت تھی، جس سے اُردو حلقوں کو مستقبل میں بڑی اُمیدیں وابستہ تھیں۔
٭٭
رشید صاحب سے میری ملاقات بس تکلفاتی حدود میں تھی، جب کسی ادبی محفل میں ان سے ملنے اور ان کو سننے کا موقع ملتا۔ وہ منکسر المزاج، بے پروا اور خوش گو شاعر تھے۔ جب تک اپنا کلام نہ سناتے، اس کا اندازہ ہی نہ ہو پاتا کہ یہ شخص کس قدر گہری فنی بصیرت اور شعری سوچ کا حامل ہے۔
اس کے باوجود ان کی شعری صلاحیتوں کے پرتو بڑی حد تک عوام کے لیے مستور ہے، حالاں کہ ان کے تین خوبصورت گٹ اپ اور طباعت سے آراستہ مجموعے نکل چکے ہیں۔ ان مجموعوں کے نام کچھ یوں ہیں: ’’وہ آنکھیں یاد آتی ہیں‘‘ ۲۰۰۳ء، ’’عقیدتوں کی مہک۔ نعتیہ کلام کا مجموعہ‘‘ ۲۰۰۵ء، ’’کٹے گی رات کیسے‘‘ ۲۰۰۳ء۔
ان مجموعوں میں غزلیں ہیں اور نعتیں ہیں، اُسلوب وہی معیاری اور غزلیہ فارم پر مبنی۔ میں نے پہلے کبھی اپنی کسی تحریر میں اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ آج جب وطن سے دور بسے ہوئے، اردو دان حلقے، دنیا کے گوشے گوشے میں آباد ہیں اور ان غیر مقیم فن کاروں کی خاصی تعداد شعر و سخن اور ادب پاروں کے لائق ذکر نمونے پیش کر رہی ہے، ایک خصوصی تجرباتی مطالعہ ان تحریروں کا ان کے پس منظر اور عوامل کی مناسبت سے کیا جائے تو ایک اہم ادبی تحقیق ہو گی۔ مدیر شاعر افتخار امام صاحب اس سلسلہ میں کافی قابل قدر جستجو کی ہے کہ ان نئی اردو بستیوں کی شناخت کی جائے اور وہاں کے قابل ذکر ادبا کا فن اشاعت پذیر ہو۔ اس کے باوجود ایک مکمل تحقیقی کام اب بھی باقی ہے۔
آج ہزاروں کی تعداد میں اردو کے قلم کار جو وطن سے دور ہیں اپنی سوچ اور حسیت کی دلیل کے طور پر روز و شب فن پاروں کی تخلیق میں مصروف ہیں۔ اس میں اچھا ادب بھی ہے، متوسط اور خام ادب بھی۔
بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ادیب اپنے وطن سے دور، جدید تر ادبی تحریکات اور ہم عصر ادبی رویوں اور تجربات سے خاطر خواہ آشنا نہیں ہوتا۔ جو ادب اس تک پہنچتا ہے وہ چند محدود رسائل و جرائد کے ذریعہ ہی پہنچ پاتا ہے۔ یوں تو بہت سے میگزین و جرائد آتے ہیں لیکن وہ عموماً تجارتی، تفریحی اور عمومی تحریروں پر مشتمل ہوتے ہیں، اچھا ادب کل بھی عنقا تھا اور آج بھی عنقا ہے۔
ان محدود وسائل کے تناظر میں اور ادبی محفلوں کی فضا سے جو ادب تخلیق پاتا ہے وہی فن کار کی پرواز اور فنی کاوشوں کا افق ہے۔
ان تمام حد بندیوں کے باوجود آج جب ہم نئی اردو بستیوں میں مقیم ادبا کی تخلیقات کی جانب دیکھتے ہیں تو پھر میری زبان میں، بار بار اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ ’’فن کار زندہ ہے‘‘ اور ’’فن اپنا جلوہ دکھا رہا ہے‘‘۔
رشید میواتی بلا شبہ ایک خلاق شاعر تھے، وہ شعر گوئی میں زود گوئی کی حد تک محو تھے۔ ان کی شاعری قائم بالذات تھی، وہ جو دیکھتے، محسوس کرتے اور جس طرح ردیف و قافیہ کا ہیکل ان کو سہولت فراہم کرتا تخلیق کے کامیاب عمل سے عہدہ برا ہوتے۔ اس موقع پر ان کے چند اشعار ان کی شعری عبقریت کی مثال کے طور پر پیش ہیں:
…
خوش تھے کچھ ایسے تیری رفاقت کے شوق میں
منزل گنوا دی ہم نے مسافت کے شوق میں
…
اے شہر محبت ترے قانون عجب ہیں
مجرم بھی یہاں اپنی صفائی نہیں دیتا
…
ستم کی آندھیوں کا دور ہے لیکن تری خاطر
محبت کا دیا دیوار پر رکھنا ضروری ہے
…
ہوئے جو آشنا ان کی گلی سے
محبت بڑھ گئی ہے زندگی سے
ان کے اشعار سے یہ واضح ہے کہ وہ کسی مخصوص نظریہ شعر کے پابند نہ تھے، نہ ہی انھوں نے کسی گہرے فلسفہ اور عمیق فکری نظام کو تحقیق دی تھی۔ وہ بنیادی طور پر کسی نادر مضمون کی تلاش کی بجائے اپنے قریب کے تجربات و خیالات کے اظہار کو ترجیح دیتے رہے۔ اس لیے ان کے شعری حیطہ اظہار کے مطالعہ کے لیے کسی خاص زاویہ نگاہ کی ضرورت نہیں رہتی۔ وہ جیسا محسوس کیا، جیسا تجربہ ہوا، ویسا ہی بیان کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔
ان کے کلام میں جن باتوں کا خاص التزام برتا گیا ہے وہ کچھ یوں ہیں:
٭ ردیف و قافیہ کی پابندی (ہر ردیف جو دائرہ اظہار میں آ سکتی ہو، ضرور استعمال ہو!)
٭ اوزان و بحور کے انتخاب میں محدود تجربے ہوں۔
٭ غزل کے اشعار پانچ تا بارہ ہوں۔
٭ بیان سہل اور رواں ہو (اکثر مصرعے جملوں جیسے ہیں)
٭ زبان کے درست ہونے کا خاص خیال رکھا جائے۔
٭ لب و لہجہ عام طور پر مدھم ہو۔
اور رشید اس معاملے میں کافی کامیاب رہے ہیں۔
رشید کی شاعری کا واحد متکلم خود شاعر ہے جو الفتوں اور محبتوں کا اسیر ہے، ہجر زدہ ہے، خلوص کا خواہاں ہے اور جو ایک محنت کش کار گہ حیات کا فرد ہے۔
ان کی شاعری بنیادی طور پر مروجہ مضامین کو معیاری طور پر برتنے سے وقوع پذیر ہوئی ہے۔ یہ شاعری دوست داری، تعلقات، انسانی رشتوں کی اہمیت اور ایسے ہی احساسات کو مختلف زاویوں میں سہل ممتنع انداز میں ترسیل کرتی ہے۔ یہ شاعری بتاتی ہے کہ کس طرح ایک پُر خلوص فرد نئے سماج میں وطن سے میلوں دور، تعلقات کے نئے وسیلوں، نئے سلسلوں اور نئی نسبتوں کا تلاش ہے۔ وہ کس طرح ایک اجنبی ماحول میں اس طرح ضم ہو جاتا ہے کہ گویا وہ اس سے مامور کی اکائی ہو۔ یہ ماحول، یہ سماج جو ایک طرح مختلف سمتوں، مختلف منزلوں اور مختلف راستوں کے مسافروں کا ایک جمگھٹا ہے۔ اس سماج کے ہر فرد (ہر اکائی) کی صورت حال منفرد ہے۔ ان میں تعلقات میں وہ گہرا ارتباط نہیں، یہ تعلقات اتنے (Binding) بھی نہیں جو باہم دگر انحصار کی بنا پر ہوں۔ تعلقات مراسم اور آشنائیوں سے ترقی کرتے ہوئے کچھ حد تک ہم دمی اور ہم رازی کی کیفیت پا جاتے ہیں۔ اس کے باوجود ان میں وہ حدت اور معنویت نہیں ہوتی جو اپنے وطن کے احباب میں ملتی ہے۔
بے وطن شاعری میں بھی اس لیے الفتوں اور رفاقتوں کا اظہار شدید طور پر نہیں ہوتا۔ رشید میواتی کے اشعار بڑی خوبی کے ساتھ ان تعلقات کی بوقلمونی کو پیش کرتے ہیں۔ جن میں کہیں وفا کے وعدے ہیں، کہیں تغافل کا شکوہ، کہیں رشتوں کا درد تو کہیں ہم سفری کی لذت:
…
وفائیں کر کے تو دیکھو محبتیں دیں گے
تمھیں خبر ہے کہاں ہم ادھار رکھتے ہیں
…
ایک چھت کے نیچے بھی اختلاف رکھتے ہیں
کیا کریں کہ دونوں کی عادتیں نہیں ملتیں
…
یہ اختلاف تباہی کا پیش خیمہ ہیں
مجھے تو سب نے کہا، اس کو مشورہ نہ دیا
…
رشید میواتی کی شاعری کا ایک اہم رخ وہ ذاتی تجربات ہیں جو انھوں نے زندگی بسر کرنے کے لیے ایک اجنبی دیار میں حاصل کیے۔ ان تجربات کی عکاسی کرتے ہوئے ان کی شاعری میں محرومیوں کی جھلک بھی ملتی ہے، اس طلب پر تنقید بھی نظر آتی ہے جو اسے وطن سے دور لے آئی اور مقاصد کے حصول میں اس کامیابی کا پرتو بھی ملتا ہے جو اس غیر واقف ماحول میں شاعر نے اپنی جستجو اور حکمت عمل سے حاصل کیے۔ وہ تجربات کچھ یوں ہیں:
گذرتے وقت کا احساس ہی نہیں جن کو
گئے دنوں کے لیے ہاتھ ملتے رہتے ہیں
…
ہمارے دل پہ کوئی نقش چھوڑ دو یارو
تمھارے شہر میں ہم ہیں مسافروں کی طرح
…
وہ جس کے عشق میں صحرا کی ہم نے خاک چھانی ہے
اسی کی یاد نے دل کا چمن شاداب رکھا ہے
رشید نے نعتیں کم لکھی ہیں لیکن پھر بھی جو لکھی ہیں ان میں عشق رسولؐ و آلِ رسولؐ کی تپش سے روشنی ہے۔ بہ حیثیت مجموعی رشید میواتی کے کلام کے مطالعہ سے یہ تاثر ملتا ہے کہ وہ شاعری کو زندگی کے ہم قدم لے کر چلتے رہے، کوئی ایسا تجربہ نہ کیا جو عام اصولوں سے ہٹ کر ہو۔ اُن کی زبان عام طور سے سقم سے پاک ہے، چہ جائے کہ ایک دو جگہ پر فروگزاشت کی مثالیں مل جاتی ہیں۔
بلا شبہ ان کے انتقال سے کویت کی اردو دنیا ایک ابھرتے ہوئے شاعر سے محروم ہو گئی۔ خدا انھیں اپنی جوار رحمت میں جگہ دے۔ آمین۔
٭٭٭