زبان ادب کا ذریعۂ اظہار ہے، لیکن جس طرح شعری ادب ، نثری ادب سے اور افسانوی ادب، طنزیہ اور مزاحیہ ادب سے مختلف ہوتا ہے، اسی طرح ذریعۂ اظہار کے طور پر زبان کے استعمال کی نوعیت بھی جدا گانہ ہوتی ہے۔ روز مرہ کی زندگی کے معمولات میں بھی زبان کا استعمال ہوتا ہے جسے زبان کا ترسیلی Communicativeیا فنکشنل Functionalاستعمال کہتے ہیں۔ اس کے برخلاف ادب میں زبان کا تخلیقی Creativeاور اظہاریExpressiveاستعمال ہوتا ہے۔ زبان کا تخلیقی استعمال زبان کے ترسیلی استعمال سے کئی لحاظ سے مختلف ہوتا ہے۔ اگر صحیح معنوں میں دیکھا جائے تو ترسیل Communicationہی زبان کا بنیادی مقصد ہے۔ ترسیل سے مراد اطلاع رسانی یا ادائے مطلب ہے۔ زبان کے ترسیلی استعمال اطلاع رسانی کا کام بندھے ٹکے انداز اور مروجہ اسلوب میں انجام پاتا ہے۔ اس میں اطلاع یعنی Informationکی بنیادی اہمیت ہوتی ہے اور لفظ اور معنیٰ کے درمیان رشتہ سیدھا اور استوار ہوتا ہے اور الفاظ کے لغوی معنیٰ مراد لئے جاتے ہیں، قواعد کے اصول کی پابندی کی جاتی ہے اور زبان کے استعمال کے تمام مروجہ فارم Normsکا خیال رکھا جاتا ہے۔ زبان کے تخلیقی یا اظہاری استعمال میں مواد یا اطلاع کی وہ اہمیت نہیں ہوتی جو زبان کے ترسیلی استعمال میں ہوتی ہے، اسی لئے اس میں مواد یا نفسِ مطلب Contentسے زیادہ اظہار Expressionپر زور ہوتا ہے۔ اظہار کے نت نئے انداز اختیار کئے جاتے ہیں اور ایک مضمون کو سو سو ’رنگ‘ سے ’باندھنے‘ کی کوشش کی جاتی ہے۔
ادب کا کام اطلاع رسانی نہیں بلکہ جمالیاتی حظ Aesthetic Pleasureفراہم کرنا ہے۔ ادب کا مطالعہ معلومات حاصل کرنے کے لئے نہیں بلکہ جمالیاتی حظ یا کیف حاصل کرنے کے لئے کیا جاتا ہے۔ ادب کے مطالعے سے انسان ایک ایسے جمالیاتی تجربے سے گزرتا ہے جس کا کوئی بدل نہیں۔ ادب میں چونکہ اطلاع رسانی سے زیادہ اظہار زور ہوتا ہے اس لئے اظہار میں طرح طرح کی جدتیں پیدا کی جاتی ہیں، نئے نئے تلازمات اختیار کئے جاتے ہیں اور بیان کے نئے نئے انداز ڈھونڈے جاتے ہیں جس سے زبان مروجہ ڈگر سے ہٹ جاتی ہے اسی کو ممتاز ماہر اسلوبیات Enkvistنے نارم سے انحراف (Deviation From The Norm) کہا ہے۔ زبان کے مروجہ استعمال یا عام قاعدے سے ہٹا ہوا کوئی بھی لفظ یا فقرہ زبان کے تخلیقی استعمال کے دائرے میں آ سکتا ہے اور کسی لفظ کے نئے انوکھے اور چونکا دینے والے استعمال کو زبان کے تخلیقی استعمال سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ زبان کے اس تخلیقی استعمال کو ’فور گراؤنڈنگ‘ (Foregrounding) بھی کہا گیا ہے جس کی بہترین مثالیں شاعری میں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ اگر نثر میں بھی ییہی خوبی پیدا ہو جاۓ تو یہ تخلیقی نثر کہلاۓ گی (۱)
زبان کے ترسیلی اور تخلیقی استعمال کو ذہن میں رکھتے ہوئے جب ہم طنزیہ اور مزاحیہ ادب کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ طنزیہ اور مزاحیہ اسلوب ادب کا وہ اسلوب ہے جس میں زبان کا تخلیقی استعمال اپنے انتہا کو پہنچ جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ طنزو مزاح کی تخلیق میں زبان بہت بڑا رول ادا کرتی ہے۔ یہ بات بدیہی ہے کہ زبان کے محض ترسیلی یا خالی خولی استعمال سے طنزیہ و مزاحیہ اسلوب تخلیق نہیں کیا جا سکتا۔ رشید احمد صدیقی نے طنز و مزاح کی تخلیق میں زبان کے تمام تخلیقی امکانات کا سہارا لیا ہے۔ زبان کو ہر نئے انداز سے برتنے کی کوشش کی ہے اور زبان کی صوتی ، صرفی ، نحوی اور معنیاتی سطحوں پر اس کے تخلیقی امکانات کو ڈھونڈ نکالنے کی پوری کوشش کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے ایک اعلیٰ اور کامیاب مزاح نگار کی حیثیت سے شہرت حاصل کی۔ کامیاب مزاح نگار بننے کے لئے زبان بر اعلیٰ قدرت اور اسے تخلیقی طور پر برتنے کا شعور ہونا اولین شرط ہے۔ رشید صاحب میں یہ دونوں خوبیاں بدرجہ اتم موجود تھیں۔ وہ زبان پر اعلیٰ قدرت بھی رکھتے تھے اور اسے تخلیقی طور پر بروۓ کار لانا بھی جانتے تھے۔
یہاں اس امر کا ذکر بے جا نہ ہو گا کہ خالص اسلوب کے اعتبار سے طنز اور مزاح دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ طنز میں لہجہ تیز اور تلخ ہوتا ہے اور اس میں زہر نا کی ہوتی ہے، جب کہ مزاح میں الفاظ کے ذریعے خوش طبعی کی چاشنی پیدا کی جاتی ہے۔ اسی لئے مزاح کو ظرافت کا بھی نام دیا گیا ہے۔ رشید احمد صدیقی نے اپنے ایک مضمون میں ظرافت اور طنز کے درمیان رشتے اور فرق کو بڑی خوبی کے ساتھ واضح کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں۔
’’ظرافت میں طنز مضمر ہوتی ہے۔ طنز میں ظرافت کو داخل نہ کرنا چاہئے۔ میرے نزدیک ظرافت طنز سے مشکل فن ہے۔ ظرافت کے لئے کے لئے خوش دلی ، آرزو اور مرحمت درکار ہوتی ہے۔ طنز میں جوش ، رنج ، غصہ اور بے زاری کی کارفرمائی ہوتی ہے۔ ظاہر ہے زندگی میں دونوں کا کیا مقام ہے۔ زندگی اور زمانہ کی مکروہات سے بے زار و بد دل ہونا، طیش میں آ جانا ، دوسروں کو غصہ یا غیرت دلانا کوئی کارنامہ نہیں۔ دوسری طرف خرابیوں کو دیکھ کر مسکرا دینا اور دوسروں کو خواہ وہ کتنا ہی مصیبت و مایوسی میں کیوں نہ مبتلا ہوں اس پر آمادہ کر دینا کہ وہ ہنس کھیل کر ان مصائب و مکروہات سے گزر جائیں اور بے دلی و بے زاری کو پاس نہ آنے دیں معمولی بات نہیں ہے۔ یہ بھی صحیح نہیں کہ ایک طنز نگار جن فرائض کو جتنا جلد پورا کر دیتا ہے ظرافت نگار نہیں کر سکتا۔ میرا خیال ہے کہ اکبر کی ظرافت نے یکہ و تنہا جو کام کیا وہ بہت سے طنز نگاروں سے مل کر بھی نہ ہو سکا‘‘(۲)
رشید احمد صدیقی کے طنزیہ و مزاحیہ اسلوب کی تخلیق میں زبان کا بہت بڑا رول ہوتا ہے۔ کبھی وہ رعایتِ لفظی سے کام لیتے ہیں تو کبھی حروف و الفاظ کے الٹ پھیر سے۔ کبھی معنیٰ کے تضاد اور کبھی معنوی تناسب کا استعمال کرتے ہیں۔ رشید صاحب نے مزاح پیدا کرنے کے لئے اکثر معنوی تناسب سے کام لیا ہے۔ وہ بات یا جملے کو سنجیدہ طور پر شروع کرتے ہیں پھر کوئی ایسے دو لفظ لاتے ہیں جن میں معنیاتی ہم آہنگی Semantic cohesionہوتی ہے اور جن سے ظرافت پیدا ہو جاتی ہے اور پڑھنے والا بغیر مسکرائے نہیں رہ کتا۔ اس کی ایک عمدہ مثال ملاحظہ ہو:۔
’’ڈاکٹر عبد الحمید صدیقی ہاؤس سرجن تھے اور میری دیکھ بھال ان کے سپرد تھی۔ کتنے محنتی ، محبتی اور اپنے فن میں طاق تھے۔ کسی وقت سرجری میں اپنے استاد ڈاکٹر بھاٹیہ کے ہم اثر بن جائیں گے۔ اس میں اتنا عرصہ لگے گا جتنا ’فتنہ ‘ کو ’قیامت‘ ہونے میں لگتا ہے۔ ‘‘ (۳)
یہاں ’فتنہ‘ اور ’قیامت ‘ ایسے الفاظ ہیں جن میں معنیاتی اعتبار سے ایک تناسب اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔
رشید صاحب صوتی ادل بدل سے بھی مزاح کا رنگ پیدا کر دیتے ہیں۔ ذیل کی مثال میں ایک لفظ میں ’ٹ‘ کو ’ت‘ سے بدل کر مزاح پیدا کیا ہے۔
’’ڈاکٹر صاحب کی کوٹھی پر پہنچا۔ یہ میرس روڈ پر حال ہی میں تیار ہوئی ہے۔ وسیع ، خوش قطع ، سامنے گھاس ، کشادہ میدان ، آمد و رفت کا راستہ چوڑا صاف ستھرا، ڈاکٹر صاحب سے ملاقات ہوئی انفلوائنزا میں مبتلا تھے۔ دیکھتے ہی بولے خوب آئے کوٹھی کا نام تجویز کرو۔ میں نے کہا آپ نے روکار پر کیا لکھوا رکھا ہے، فرمایا حمید بٹ اور محمود بٹ ، عرض کیا یہ کوٹھی کا نام ہے یا خاندان کا شجرہ نسب، کہنے لگے حرج کیا ہے میں نے کہا ایسا نام بھی جس کو نہ ثواب سے لگاؤ نہ آرٹ سے تعلق۔ ثواب کی خاطر رکھتے تو کراماً کاتبین میں کیا قباحت تھی اور آرٹ مدِ نظر تھا تو یا جوج ماجوج رکھتے۔ اکتا کر بولے ناک میں دم ہے، تم ہی بتاؤ، لیکن میں منزل ونزل کا قائل نہیں۔ میں نے کہا ’بٹ کدہ‘ نام رکھئے رفتہ رفتہ ’بت کدہ ‘ بن جائے گا۔ ‘‘(۴)
رشید صاحب معنیاتی اعتبار سے دو غیر متناسب الفاظ کو غیر متوقع طور پر یکجا کر دیتے ہیں۔ جن کا وقوع عام طور پر ذہن میں نہیں آتا پھر ان دونوں میں تناسب پیدا کر کے مزاح کا رنگ پیدا کر دیتے ہیں۔ مثلاً ’عدالت‘ اور ’قباحت‘ ایسے الفاظ کی یکجائی ظرافت کا رنگ پیدا کر دیتی ہیں:
’’گواہ قربِ قیامت کی دلیل ہے۔ عدالت سے قیامت تک جس سے مفر نہیں وہ گواہ ہے۔ عدالت مختصر نمونۂ قیامت ہے اور قیامت وسیع پیمانے پر نمونۂ عدالت۔ فرق یہ ہے کہ عدالت کے گواہ انسان ہوتے ہیں اور قیامت کے گواہ فرشتے جو ہمارے اعمال لکھتے ہیں اور خدا کی عبادت کرتے ہیں‘‘(۵)
ایک اور مثال میں کھچڑی اور کیمیا جیسے الفاظ کو یکجا کر دیا ہے۔ اقتباس ملاحظہ ہو:
’’ایک دفعہ عطاء اللہ خاں درانی کے کمرے میں پہنچ گئے۔ خان کو کیمیا بنانے اور کھچڑی پکانے کا غیر معمولی شوق تھا۔ صبح سے شام تک سید محمود ( کچی بارک) کے برامدے میں انگیٹھی دہکتی رہتی۔ کیمیا سے سیر ہو جاتے تو کھچڑی کی دیگچی آگ پر رکھ دیتے اور کھچڑی سے فراغت پاتے تو کیمیا میں مصروف ہو جاتے‘‘(۶)
ایک اور مثال میں شعر اور بسکٹ جیسے الفاظ کو یکجا کر کے طنز و ظرافت کا رنگ پیدا کیا ہے:
’’حاجی صاحب شعر کہتے ہیں اور بسکٹ بیچتے ہیں شعر اور بسکٹ دونوں خستہ………… حاجی صاحب جس خلوص کے ساتھ شعر کہتے ہیں اس سے زیادہ مہنگے بسکٹ بیچتے ہیں‘‘(۷)
رشید صاحب نے موازنے کی تکنیک سے بھی مزاح کا رنگ پیدا کیا ہے۔ وہ اپنے ایک مضمون میں ارہر کے کھیت کا موازنہ میں ہائڈ پارک اس طرح کرتے ہیں کہ ظرافت کا رنگ خود بخود پیدا کیا ہے۔ اقتباس ملاحظہ ہو:
’’دیہات میں ارہر کے کھیت کو وہی اہمیت حاصل ہے جو ہائڈ پارک کو لندن میں ہے، دیہات اور دیہاتیوں کے سارے منصبی فرائض ، فطری حوائج اور دوسرے حوادثات یہیں پیش آتے ہیں۔ ہائڈ پارک کی خوش فعلیاں آرٹ یا اس کی عریانیوں پر ختم ہو جاتی ہیں۔ ارہر کے کھیت کی خوش فعلیاں اکثر واٹرلو پر تمام ہوتی ہیں‘‘(۸)
رشید احمد صدیقی نے طنز و مزاح کی تخلیق میں ان تمام وسائل سے کام لیا ہے جن کا تعلّق زبان سے ہے مثلاً رعایتِ لفظی، تجنیسِ صوتی، قولِ محال، تضاد، تکرار، متوازیت، موازنہ، تحریف، کفایتِ لفظی وغیرہ۔ ان کے علاوہ رشید صاحب نے ظرافت کا رنگ پیدا کرنے کے لۓ ایک اور ٹکنیک بھی استعمال کی ہے جسے Personificationکہتے ہیں، انھوں نے اپنی بعض تحریروں میں غیر ذی روح اشیاء کو اس طرح پیش کیا ہے جیسے کہ وہ ذی روح ہوں۔ اس ٹکنیک کو انھوں نے اس طرح برتا ہے کہ ظرافت کا رنگ خود بخود پیدا ہو گیا ہے۔ اپنے ایک مضمون “وکیل صاحب “میں ایک وکیل کی زبوں حالی کی تصویر کشی کرتے ہوۓ وہ اس کی میز کا حال یوں بیان کرتے ہیں:
“۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایک ٹوٹے ہوۓ سائبان میں ایک خانہ ساز کرسی پر بیٹھے ہوۓ ہیں۔ سامنے ان کے خیالات کی طرح ڈانواں دول ایک میز ہے جس کا ایک پاؤں کسی حادثے کی نذر ہو گیا تھا۔ ” (۹)
اسی نوع کا ایک اور اقتباس ان کے مضمون “ماتا بدل” سے پیش ہے:
“منشی چھیل بہاری دفتر میں روزنامچہ سر کے نیچے رکھے خرّاٹے لے رہے تھے۔ موٹے شیشے کی عینک ناک سے پھسل کر نیم کشادہ سہن میں آ گئی تھی اور ہر سانس کے ساتھ حلق تک پہنچنے کی کوشش کر رہی تھی۔ ” (۱۰)
ان کے ایک مضمون “دھوبی” سے بھی ایسی ہی ایک مثال پیش ہے جس میں غیر ذی روح کو ذی روح کے طور پر اس طرح پیش کیا گیا ہے کہ مضحک پہلو سامنے آ گیا ہے:
“میں اپنے کپڑے دھوبی کو پہنے دیکھ کر بہت متاثر ہوا ہوں کہ دیکھۓ زمانہ ایسا آ گیا ہے کہ یہ غریب میرے کپڑے پہننے پر اُتر آیا۔ گو اس کے ساتھ یہ بھی ہے کہ اپنی قمیض دھوبی کو پہنے دیکھ کر میں نے دل ہی دل میں افتخار بھی محسوس کیا ہے۔ اپنی طرف سے نہیں تو قمیض کی طرف سے۔ اس لۓ کہ میرے دل میں یہ وسوسہ ہے کہ اس قمیض کو پہنے دیکھ کر مجھے در پردہ کسی نے اچھّی نظر سے نہیں دیکھا ہو گا۔ ممکن ہے خود قمیض نے بھیاچھی نظر سے نہ دیکھا ہو۔ ” (۱۱)
رشید احمد صدیقی نے اپنی تحریروں میں رعایتِ لفظی اور الفاظ کے الٹ پھیر نیز ضلع جگت سے بھی طنز و مزاح کا رنگ پیدا کیا ہے۔ رشید صاحب لفظ کی حَرَکی قوّت(Dynamism) سے بخوبی واقف تھے اور اسے تخلیقی طور پر برتنے اور بروۓ کار لانے کا انھیں گُر معلوم تھا۔ وہ اس فن سے بخوبی واقف تھے کہ الفاظ یا فقروں کو ادل بدل کر یا ان میں اُلٹ پھیر اور تحریف و تصریف کر کے یا محض ان کی تکرار کے ذریعے یا ان میں ذو معنیت پیدا کر کے یا انھیں نفی و اثبات یا تذکیر و تانیث کی شکل دے کر کس طرح طنز کا لہجہ یا ظرافت کا رنگ پیدا کیا جا سکتا ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں جو ان کی تصنیف مضامینِ رشید سے لی گئی ہیں:
“دیوتاؤں کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ جسے عزیز رکھتے ہیں، اسے دنیا سے جلد اُٹھا لیتے ہیں۔ دیویوں کے بارے میں سنا ہے کہ وہ جس کو عزیز رکھتی ہیں اسے کہیں کا نہیں رکھتیں” (“اپنی یاد میں”)
“عورتوں کے بارے میں میری کچھ بھی راۓ کیوں نہ ہو، جنسی میلانات کو بڑی اچھّی چیز سمجھتا تھا اور جو ایسا نہیں سمجھتا تھا اس کو کسی جنس میں بھی نہیں سمجھتا تھا”(“اپنی یاد میں”)
” مجھے اشعار یاد نہیں رہتے، اور جو یاد آ جاتے ہیں وہ شعر نہیں رہ جاتے” (“دھوبی”)
“ہندوستانی کسانوں کو دیکھتے ہوۓ یہ بتانا مشکل ہے کہ اس کے بال بچّے مویشیان ہیں یا مویشیان اس کے بال بچے” (گواہ”)
“ہر مرض کی ایک حد ہونی چاہۓ ورنہ مریض کو اختیار ہے کہ وہ حد سے گزر جاۓ” (شیطان کی آنت”)
رشید احمد صدیقی کی ظرافت میں ہمیں جا بجا طنز کا عنصر بھی ملتا ہے۔ اسی طرح جہاں انھوں نے طنز کیا ہے وہاں ظرافت کا رنگ بھی جھلک اٹھا ہے۔ رشید صاحب نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ’’ہر اچھی ظرافت ایک قسم کی خوش گوار طنز ہوتی ہے اور ہر خوش گوار طنز بجائے خود ایک لطیف ظرافت ‘‘(۱۲)
ا س میں کوئی شک نہیں کہ اس کا بہترین ثبوت خود رشید احمد صدیقی کی طنزیہ اور مزاحیہ تحریروں میں نظر آتا ہے۔ بقول آل احمد سرور “رشید صاحب ہنسی ہنسی میں نہ صرف بہت کچھ کہہ جاتے ہیں بلکہ سوچنے کے لۓ بھی بہت کچھ چھوڑ جاتے ہیں۔ “۔ ان کے خیال میں رشید صاحب کا طنز و مزاح “خوانِ مسرّت” نہیں، “سامانِ بصیرت” بھی ہے (۱۳) ۔ رشید صاحب کے ہاں یہ خوبی اس وجہ سے ہے کہ ان کے اسلوب میں طنز و مزاح کا خوبصورت امتزاج پایا جاتا ہے۔ رشید احمد صدیقی کا خواہ طنز ہو یا مزاح، ان کی تخلیق زبان کے تخلیقی استعمال کے بغیر ممکن نہیں۔
حواشی و حوالے:
۱۔ شمس الرحمٰن فاروقی نے اپنے ایک مضمون میں ڈیوڈ لاج کے حوالے سے لکھا ہے کہ “فکشن کی نثر یعنی تخلیقی نثر میں زبان کا عمل وہی ہوتا ہے جو شاعری میں ہوتا ہے۔ ” دیکھۓ شمس الرحمٰن فاروقی کا مضمون “رشید احمد صدیقی کا نثری آہنگ”، مشمولہ “رشید احمد صدیقی: آثار و اقدار” (علی گڑھ، شعبۂ اردو، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، ۱۹۸۴) ، مرتّبہ اصغر عبّاس۔ ص ۱۵۰
۲۔ رشید احمد صدیقی ، ’’اپنی یاد میں ‘‘ مشمولہ مضامین رشید (رشید احمد صدیقی) دہلی: انجمن ترقیِ اردو ، ہند۔ ص ۷۷
۳۔ رشید احمد صدیقی ، ’’شیطان کی آنت ‘‘، مشمولہ ایضاً،ص ۱۵۰
۴۔ رشید احمد صدیقی ،’’کارواں پیداست‘‘ ، مشمولہ ایضاً ، ص ۷۲۔ ۷۱
٥۔ رشید احمد صدیقی ،’’گواہ‘‘ مشمولہ ایضاً ، ص ۱۳۲
۶۔ رشید احمد صدیقی ،’’مرشد‘‘ ، مشمولہ ایضاً ،ص ۱۲۹
۷۔ رشید احمد صدیقی ،’’حاجی صاحب‘‘، مشمولہ ایضاً ، ص ۲۰
۸۔ رشید احمد صدیقی ،’’ارہرکا کھیت ‘‘ ، مشمولہ ایضاً ۱۲۵
۹۔ رشید احمد صدیقی ،’’وکیل صاحب‘‘، مشمولہ ایضاً ، ص ۶۲۔ ۶۳
۱۰۔ رشید احمد صدیقی ،’’ماتا بدل‘‘، مشمولہ ایضاً ، ص ۱۶۵
۱۱۔ رشید احمد صدیقی ،’’دھوبی‘‘، مشمولہ ایضاً ، ص ۵۱
۱۲۔ رشید احمد صدیقی ،طنزیات و مضحکات (نئی دہلی ، مکتبہ جامعہ لمٹیڈ) ص۱۶۵
۱۳۔ آل احمد سرور، “رشید احمد صدّیقی” مشمولہ “نۓ اور پرانے چراغ” (لکھنؤ، ادارۂ فروغِ اردو، ۱۹۵۵ء) ص ۳۹۴۔