ایلاف مارے صدمے کے کچھ کہہ ہی نہ سکی۔
اسی پل امیراں بولتی ہوئی ان کے پاس آئی تھی۔
” بڑی بی بی!حویلی سے بنین شاہ بی بی کا فون ہیں۔آپ کو بلاتی ہیں،کچھ کام ہے۔”
شاہ بی بی کو اس کی مداخلت بے انتہا کھلی تھی۔
” یہ حویلی کے بکھیڑے یہاں بھی میرا پیچھا نہیں چھوڑیں گے۔ آتے ہیں ہم بیٹا۔” کہہ کر وہ اندر کی طرف بڑھ گئی تھیں۔
وہ دونوں اس وقت لان میں موجود تھیں،پیچھے بچی ایلاف سوچ رہی تھی۔
“تبھی تم بھاگ بھاگ کے حویلی جاتے تھے۔تمہاری روح سیراب ہے۔اپنی جاگیردار اور خاندانی بیوی کے ساتھ اور مجھے تم اپنی ماں نامی لالی پاپ سے بہلا رہے ہو۔” ایلاف کو پہلے ہی کل رات والے اذلان کے انداز پہ تپ چڑھی تھی۔
اذیت سے اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے۔ وہ وہیں لان چئیر پہ بیٹھ کہ اپنا مشغلہ پورا کرنے لگی۔
اذلان شاہ جو باہر جا رہا تھا نظریں یونہی لان کی طرف اٹھیں تو ایلاف کو روتا پایا۔
” اب یہ کس کا سوگ منا رہی ہیں،تھکتی نہیں رو رو کے۔” کوفت سے اس کی طرف بڑھتے ہوئے اذلان سوچ رہا تھا۔
خواہ مخواہ میں ابھی کوئی دیکھ لے تو تماشہ لگے گا ملازموں کے سامنے جو پیر اذلان شاہ کو گوارہ بھی نہ تھا۔
“کیا بات ہے کس خوشی میں آنسو بہائے جا رہے ہیں؟سکون نہیں ہے آپ کو۔” اذلان شاہ بیزاری سے پوچھ رہا تھا۔
“اپنے نصیبوں پہ رو رہی ہوں۔آپ کی ایک نئی خوبی پتا چلی ہے اس پہ رو رہی ہوں۔” ایلاف بھینچی ہوئی آواز میں بولی۔
” ہماری خوبی!دیکھیں صاف لفظوں میں بات کریں۔ہمیں آپ کے ساتھ کسوٹی کسوٹی کھیلنے کا کوئی شوق نہیں۔” اذلان شاہ کچھ حیرت سے بولا۔
یہ لڑکی ہمشہ مغز کی چولیں ہلاتی ہے۔
“کسوٹی کا کھیل تو آپ میرے ساتھ کھیل رہے ہیں جس میں روز ایک نیا چرخہ،ایک نیا انکشاف ہوتا ہے۔میں نے سوچ بھی کیسے لیا کہ کوئی چیز مجھے خالص اور صرف اپنی بھی مل سکتی ہے بھلا۔ہمیشہ ہی میرے ساتھ ایسا ہوتا ہے کہ جو بھی مجھے ملتا ہے،اس میں پہلے سے ہی کسی اور ذات کی ملکیت کا احساس شامل ہوتا ہے۔ٹھیک ہے! میں ہوں ہی اسی قابل،بھلا ذلتوں اور رسوائیوں میں ڈوبی لڑکی کو پہلے سے شادی شدہ مرد کا ہی ساتھ مل سکتا ہے۔تبھی آپ کو کوئی احساس نہیں اور مجھے آپ نے سوالیہ نشان کی طرح سب کے سامنے رکھ چھوڑا ہے۔کسی کو نہیں بتاتے میرے اور اپنے تعلق کے بارے میں۔” ایلاف کونسا کم تھی۔
“اوہ!تو یہ بات تھی،آپ نے کبھی موقع دیا ہمیں کچھ بتانے کا۔ہمیشہ اپنی کم عقلی سے کچھ نہ کچھ الٹا سیدھا کرتی رہتی ہیں۔ہم آپ جیسی کم عقل لڑکی کو کیوں صفائیاں دیں؟آپ عورتیں ہوتی ہی یوں ہے۔آدھی بات سن کے پورے افسانے گھڑنا۔عالیہ شاہ بھی ایسی تھی ۔انہوں نے تومر کے پیچھا چھوڑ دیا تھا۔آپ کس حساب میں ہماری جان بخشی کریں گی؟نہیں رہنا تو جا سکتی ہیں۔” اذلان شاہ نے اس کی طبیعت ہی صاف کر دی تھی اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہاں سے چلا گیا تھا۔
یہ لڑکی کسی دن مجھ سے کچھ الٹا کروا کے رہے گی۔
ایلاف اپنی جگہ کھڑی رہ گئی تھی۔
” تو ان کی بیوی مر چکی ہے۔اتنی بیزاری،اتنا تغافل!”
شاہ بی بی فون سن کے لوٹیں تو ایلاف کو اپنی جگہ مجسم پایا تھا۔
” ایلاف!ٹھیک ہو۔”
” جی!ٹھیک ہی ہوں۔” ایلاف کا لہجہ خالی خالی سا تھا۔
ایک منٹ نہیں لگاتا یہ شخص مجھے اپنی زندگی سے باہر جانے کا آرڈر کرنے میں۔
“لگتا ہے تم ہماری بات سن کے پریشان ہو مگر ہماری بات ابھی آدھی تھی پوری سن لو آدھی باتیں اور گواہیںاں زندگی کو صرف جہنم بناتیں ہیں۔” شاہ بی بی اسے بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے بولیں۔
“اذلان شاہ کا نکاح گیارہ برس کی عمر میں اپنے سے آٹھ سال بڑی عالیہ شاہ سے ہوگیا تھا۔ عالیہ گوہر کی نند اور پیر خرم شاہ کی پھپھو بھی ہے۔ وہ اس دنیا میں اب نہیں اس لئے ہم زیادہ کچھ نہیں کہیں گے مگر جو جاننا ضروری ہے وہ جان لو تم۔۔۔۔” شاہ بی بی دھیرے دھیرے اذلان شاہ کی پچھلی زندگی سے پردہ اٹھا رہی تھیں۔
اور ایلاف احساس ندامت کی گہرائیوں میں تھی۔
کتنا غلط سمجھا تھا۔
اس نے اپنے محسن کو،اسے ہی راہزن سمجھتی رہی۔
” ان رسم و رواج کی زنجیروں نے تو تمہیں بھی نہیں چھوڑا، تمہیں بھی اپنے جال میں جکڑ لیا۔ یہ رسم و رواج صرف قید کرنا،تڑپانا جانتے ہیں بنا مرد اور عورت کی تفریق کے،انہیں صرف قیدی چاہئیے بھلے سے کوئی بھی ہو۔”
ایلاف شاکڈ تھی۔
چٹانوں جیسا مضبوط اور بہتے پانیوں جیسے پرسکون شخص کی پچھلی زندگی میں کتنے طوفان چھپے تھے۔
مگر؟
وہ اذلان شاہ تھا۔
اس نے کبھی واویلا نہیں کیا۔
رونا پیٹنا نہیں مچایا تھا،اپنے دکھ اپنے اندر ہی رکھے تھے۔
پوری جاگیر کا مالک ہوتے ہوئے ،وہ اندر سے کتنا تنہا تھا۔
ایلاف کو آج پتا چلا تھا۔
وہ ایک صاف دل کی لڑکی تھی،بدگمانی کی عینک اتری تو سارے منظر واضح ہونے لگے تھے۔
” ہمارا بیٹا گو کہ ایک پورا نظام چلاتا ہےمکمل ذمہ داری سے مگر اس کی اپنی زندگی کا نظام کوئی نہیں ہے۔ اس نے اپنے آپ کو کاموں میں مصروف کر رکھا ہے۔گھر آ کے کرے بھی کیا اور کس کیلئے آئے جب کوئی راہ دیکھنے والا نہ ہو۔سفیان کو بھی اس نے ان فرسودہ رسم و رواج سے بچانے کیلئے خود سے دور کر رکھا ہے۔” شاہ بی بی کو اذلان کا اکیلا پن بہت کھلتا تھا۔
” تانیہ شاہ جو احمد شاہ کی بیوی اور عالیہ شاہ کی چھوٹی بہن ہے۔ وہ اور چھوٹی حویلی کے مکین سب چاہتے ہیں کہ اذلان شاہ اور عالیہ شاہ کی بہن نازیہ شاہ سے اس کا عقد ہوجائے مگر اذلان دوبارہ ان نفسیاتی اور عقل سے عاری لوگوں میں نہیں پھسنا چاہتا۔پہلی بار مجبور تھا۔” شاہ بی بی اب اسے حویلی کے مکینوں کے بارے میں بتا رہی تھیں۔
” مجبور تو وہ میری دفعہ بھی تھے۔ ” ایلاف نے سوچا۔
” مجھے کونسا اپنی خوشی سے اپنایا ہے۔”
“تمہیں یہ سب اس لئے بتایا کہ تم اذلان کی زندگی میں اچانک سے آئی ہو۔پیر خرم شاہ نے اچھا نہیں کیا مگر وہ کیا سمجھتا ہے،اسے سزا ضرور ملے گی۔” شاہ بی بی نے بیا انکشاف کیا۔
” تو کیا یہ بے خبر نہیں،انہیں سب معلوم ہے تو پھر رات اذلان شاہ کا وہ رویہ،وہ شرط۔” ایلاف جو جھٹکا سا لگا تھا۔
ہائے ایلاف تیری زبان تجھے کسی دن مروائے گی۔
” ایلاف آج تم ہم سے وعدہ کرو تم اذلان شاہ کی حقیقی معنوں میں ایک اچھی ہم سفر ثابت ہوگی۔شادی ایک بار ہی ہوتی ہے چاہے جیسے بھی حالات ہوں۔خاندانی لڑکیاں پھر ساری زندگی اسے نبھاتی ہیں۔تم بھی خاندانی ہو،اعلا نہ سہی مگر ایک شریف گھرانے سے ہو۔ تو ہم توقع رکھیں تم سے کچھ؟” ظاہر ہے شاہ بی بی اس سے یونہی تو مغز ماری نہیں کر رہی تھیں
” میں! ابھی تو یہ مجھے فیصلہ کرنے کا کہہ کے گئے ہیں اور ان کی اماں وہ ساری زندگی ہم دونوں کو ساتھ کرنا چاہتی ہیں۔” ایلاف نے سوچا۔
لیکن اس نے کچھ کہنا تو تھا ہی۔
” آپ کو لگتا ہے میں اس قابل ہوں؟” ایلاف نے پوچھ ہی لیا۔
” خدا نے جب تم دونوں کا ساتھ لکھ دیا ہے تو اس کا یہی مطلب ہے کہ تم دونوں ایک دوسرے کے قابل ہو۔تم دونوں کو رسم و رواج کی مار پڑی ہے۔تم دونوں کا درد ایک ہے،درد سے درد ملے گا تو ہی مداوا ہوگا۔ ” شاہ بی بی نے کہا۔
“میں بھی رہنا چاہتی ہوں پر میں نے بہت بیوقوفیاں کی ہیں۔” وہ لب کاٹتے ہوئے بولی۔
” تو مداوا کر لو،اسے اپنا احساس دلاؤ مگر اس پہ حاوی مت ہو۔ مرد عورت کا ساتھ برداشت کرتا ہے اس کی حاکمیت نہیں۔” شاہ بی بی نے انصاف پسندی سے کام لیا تھا۔
تبھی ابراہیم کی بیوی شازمہ چلی آئی تھی۔
” کیسی ہیں بھابھی آپ؟” اس نے پوچھا تھا۔
اور ایلاف بے ہوش ہوتے ہوتے بچی تھی۔
اسے بھی معلوم ہے!
” ٹھیک!” مرے مرے انداز میں اس نے کہا۔
شازمہ شاہ بی بی کو دیکھ کے سمجھ گئی تھی کہ اذلان نے اس رشتے کو کچھ آگے بڑھایا ہے اس لئے اس نے ایلاف کو اسی رشتے کے حوالے سے پکارا تھا۔
” اوہ!شازمہ بی بی تساں،اتنے دنوں کے بعد اس دن کے بعد آئی ہی نہیں۔پتا ہے بی بی جی ایلاف بی بی کو ساری شادی کی شاپنگ انہوں نے کروائی ہے۔” امیراں نے کہا تو ایلاف اس کی شکل دیکھنےلگی تھی۔
کیا یہ بھی جانتی ہے؟
تو خبر کسے نہیں؟
ایک میں ہی بےخبر ہوں۔
ایلاف پہ تو آج حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے تھے۔
______________________________
ایلاف مداوا کرنا چاہتی تھی مگراذلان نے اسے موقع ہی نہ دیا تھا۔ ابھی وہ گھر میں ٹکتا ہی نہ تھی۔کبھی کہاں تو کبھی کہاں!
” اس شخص کے پاؤں میں چکر ہے۔” ایلاف جل کے سوچتی۔
آج بھی پورے ہفتے بعد چھٹی کے دن وہ ان کے ساتھ ناشتے پہ تھا۔
” بس شاہ سارا کام ختم کرو اور جاگیر چلنے کی تیاری کرو۔ تمہارا ولیمہ کرنا ہے۔” شاہ بی بی نے دونوں کے سر پہ بم پھوڑا۔
“کس کے ساتھ؟” اذلان شاہ نے پوچھ لیا تھا۔
” کیا ہوگیا ہے آپ کو؟جس سے نکاح کیا ہے اسی سے ولیمہ بھی ہوگا۔ لازمی سی بات ہے۔” شاہ بی بی کو قطعا اس کا انداز نہ بھایا تھا۔
” پہلے ان سے پوچھ بھی لیں کہ یہ رہنا بھی چاہتی ہیں کہ نہیں کیوں اپنا تماشہ بنوائیں گی۔انہیں تو عادت ہے تماشہ کرنے کی۔” اذلان نے اپنی کھولن ایلاف پہ انڈیلی تھی۔
” لوگ بہت خوش فہمیوں میں ہیں اماں سائیں۔ ہم قیامت تک ان کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے لوگ سن لیں۔ ” اسے بھی لوگ ایلاف بی بی کہتے تھے۔
” لوگ!” آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے۔
” اوہو!کیا ہوگیا ہے آپ دونوں کو؟اذلان شاہ ہم اپنے گھر کی خاک اٹھا کے باہر نہیں ڈالتے تو یہ تو پھر آپ کی عزت ہے۔آپ نے اسے اپنے نکاح میں لیا ہے تو اب نبھائیں بھی،ہم فیصلہ کرچکے ہیں بس کل نکل چلیں گے۔پیچھے سارے مسئلے بنین کی جان کو لگے ہوں گے۔” شاہ بی بی اتنے دنوں میں ایلاف کی ٹریننگ کر چکی تھیں۔
اذلان نے باری باری دونوں کے چہرے دیکھے پھر
” جیسا آپ کہیں!” کہہ کے اٹھ کھڑا ہوا۔
شاہ بی بی جانتی تھیں کہ اذلان کی شادی کی خبر حویلی میں بھونچال لے آئی گی سو پیشگی کاروائی ضروری تھی۔
” بنین کل خاندان کے سب بڑوں کو کھانے پہ بلا لو رات کو،ایک ضروری بات کرنی ہے ان سے۔” وہ فون پہ بنین شاہ سے مخاطب تھیں۔
ایلاف نے ان کا مصروف انداز دیکھا اور وہ بھی کھڑی ہوگئی تھی۔
اذلان شاہ اپنے کمرے میں تھا ایلاف چاہتی تھی کہ اس سے پہلے کہ وہ دوبارہ دورے پہ نکلے وہ اس سے بات کر لے۔
ایلاف نے دروازے سے جھانک کے دیکھا۔اذلان شاہ اسٹڈی ٹیبل پہ بیٹھا لیپ ٹاپ اور کاغذوں کے ڈھیر میں الجھا ہوا تھا۔
ایلاف نے کچھ دیر اسے دیکھا پھر کچھ سوچ کے کاغذ پہ قلم سے چند لفظ گھسیٹے اور چھوٹے چھوٹے قدم اٹھا کے اذلان کے پاس آ کے اسٹڈی ٹیبل پہ رکھ دیا۔
اذلان نے اسے پہلے دیکھا پھر کاغذ کو۔
” جو تم بے عیب چاہو تو
فرشتوں سے نبھا کر لو
میں آدم کی نشانی ہوں
مجھے انسان ہی رہنے دو”
اذلان نے اشارے سے پوچھا۔” کیا ہے یہ؟”
“یعنی مخاطب ہونا بھی گوارا نہیں۔”ایلاف نے اسے گھورا پھر بولی
” شاعری ہے۔”
” وہ تو ہمیں بھی دکھ رہا ہے،اس کا مطلب؟” اذلان کو بھی منہ کھولنا پڑا۔
“مطلب یہ کہ غلطیاں انسانوں سے ہی ہوتی ہیں لیکن موقع تو دینے چاہئے نا اگر کوئی مداوا کرنا چاہے۔” ایلاف نے ڈھکے چھپ لفظوں میں اقرار کیا تھا اپنی غلطیوں کا۔
” جو بار کریں ان کو موقع نہیں دینا چاہئے۔ ” وہ بھی انا پرست تھا۔
” آپ ایک موقع دے کے تو دیکھیں۔” ایلاف کسی صورت اس کا اقرار چاہتی تھی۔
” اور اس سے کیا ہوگا؟” اذلان نے پوچھا۔
“میرا سر ہوگا۔ہمیں کچھ وقت دینا چاہئے اس رشتے کو،پہلے ہی بہت بے وقوفیاں ہوچکی ہیں مجھ سے۔” ایلاف نے آخر کار اقرار کر ہی لیا تھا۔
“تو اب یہ عقل کہاں سے آگئی؟” اذلان شاہ نے پتھر پھوڑے تھے۔
“مجال ہے جو یہ آدمی سیدھی بات کرے۔ انار کلی سے خریدی ہے۔”ایلاف کوغصہ تو بہت آیا۔
مگر ضبط کر گئی
یہ ادھار پھر سہی
“آپ کو خوشی نہیں ہوئی؟” ناز سے پوچھا گیا۔
” خوشی! چلیں ایلاف بی بی کیا یاد کریں گی، دیا آپ کو ایک موقع۔” اذلان نے اس کی سات پشتوں پہ احسان کرتے ہوئے کہا تھا۔
” تھینک یو!” ایلاف اس سے زیادہ برداشت نہیں کرسکتی تھی سو جلدی سے کھسک لی تھی مطلب پورا ہونے کے بعد۔
کیا ہے یہ لڑکی؟عجوبہ!” پیچھے اذلان اسے دیکھ کے رہ گیا تھا۔
اگلے دن سفر میں وہ تینوں اپنی جگہ چپ تھے جب تک جاگیر کی حدود شروع نہیں ہوئی۔شاہ بی بی اسے بتاتی رہیں۔یہ کھیت کس کے ہیں؟یہ زمین کس کی ہے؟اذلان شاہ ان دونوں سے بے نیاز آگے بیٹھا اپنے موبائل پہ مگن تھا۔
گاڑی شاندار سی حویلی کے سامنے رکی تو شاہ بی بی اسے لے کے اندر چل دی تھیں۔اذلان کا رخ دوسری طرف تھا یعنی وہ ان کے ساتھ اندر نہیں جا رہا تھا۔
” بی بی جی یہ کون ہیں؟” رجو نے حیرت سے شاہ بی بی کے ساتھ موجود اس خوبصورت سی لڑکی کو دیکھ کر پوچھا۔
سب اسے ہی دیکھ رہے تھے،ایک دم الرٹ سے!
” یہ ایلاف ہے۔اذلان شاہ کی بیوی۔” شاہ بی بی کی بات پہ جیسے کوئی بھونچال آیا تھا۔
” کیا؟تائی اماں کسے اٹھا کے لے آئیں ہیں آپ؟آپ ایسا نہیں کر سکتیں۔” تو نازیہ شاہ کا شک ٹھیک نکلا۔تانیہ کا دماغ گھوم چکا تھا۔
” منہ سنبھال کے بات کریں تانیہ شاہ۔ایلاف کی عزت آپ کے ہم پلہ ہے۔بنین اسے اپنے کمرے میں لے جاؤ۔ہم اپنے کمرے میں جا رہے ہیں۔مہمان آجائیں تو بلا لینا۔” شاہ بی بی نے تانیہ کو جھاڑنے کے ساتھ بنین کو حکم دیا تھا۔
” آؤ ایلاف!” بنین اسے لے کے آگے بڑھ گئی تھی۔
” ہائے! کنی سوہنی ہےپیر سائیں کی گھر والی۔” رجو بولی تو تانیہ شاہ اسے گھور کے رہ گئی تھی۔
” آجاؤ!یہ میرا بیٹا ہے۔” بنین اسے کمرے میں لا کے بولی۔
” بہت پیارا ہے۔” ایلاف جھولے پہ جھکتے ہوئے بولی تھی۔
اسے بنین اچھی لگی تھی۔
” تم آرام کرو تھک گئی ہوگی،سفر سے۔” بنین نے کہا تو ایلاف نے سر ہلا دیا تھا۔
” کہاں ہے اذلان شاہ کی عیاشی کی سوغات۔ذرا ہم بھی تو دیکھیں کس نے اس پتھر دل آدمی کا کلیجہ پانی کیا ہے؟ ” تانیہ شاہ دروازے پہ کھڑی تنفر سے بول رہی تھی۔
” اوہ دیورانی جی!وہ کیا ہے نا کہ یہ خدا کے فیصلے ہیں تو بھلا آپ کی کیسے چلتی؟میرا اور اذلان شاہ کا ساتھ اذل سے لکھا تھا تو پتھر کو تو پانی ہونا ہی تھاپھر بھلا کوئی اور کیسے پیر اذلان کی ہم سفری میں آ سکتا تھا۔” ایلاف جان گئی تھی کہ تانیہ اس کا پیچھا نہیں چھوڑے گی۔
سو اس نے بھی اس کی طبیعت ہری کردی تھی۔
تانیہ بلبلا کے رہ گئی تھی۔
” تم پچھتاؤ گی! ”
” کیوں؟آپ سے تھوڑی نہ شادی ہوئی ہے۔کبھی نہیں!” ایلاف کی زبان کے جوہر ابھی کوئی دیکھتا تو بے ہوش ہوجاتا۔
تانیہ دھپ دھپ کرتی چلی گئی تھی۔جان گئی تھی مقابل تر نوالہ نہیں ہے۔
“مان گئے آپ کو ایلاف۔اذلان شاہ نے کیا ٹکر کی لڑکی پسند کی ہے۔ذبردست!” بنین نے تعریف کی تو ایلاف شرمندہ سی ہوگئی۔
” یہ زیادہ نہیں ہوگیا۔” ایلاف نے پوچھا۔
” بالکل نہیں!” بنین نے انکار میں سر ہلایا۔
پھر دونوں ہنس پڑی تھیں۔
_____________________________
ہال میں سب بڑوں کی نشست جمی ہوئی تھی۔
” کیوں بھئی؟شاہ بی بی سب خیر ہے نا یوں اچانک کیسے اذلان نے نکاح کرلیا؟” یہ پیر اعظم کی بیوی تھیں جنہیں مرچیں لگی ہوئی تھیں۔
“یہ اسی طرح لکھا تھا قدرت نے،آپ لوگوں کو پہلی فرصت میں اس لئے زحمت دی تاکہ بتا سکیں آپ سب کو۔ ”
” ارے پر ایسے چھپتے چھپاتے نکاح نہیں ہوتے۔”خدیجہ شاہ چمک کے بولی تھیں۔
ان کی بیٹی کی جگہ کسی اور نے لے لی تھی۔
“آپ سے کس نے کہا کہ چھپ کے ہوا ہے بالکل حلال اور جائز طریقے سے ہوا ہے۔ہماری زوجہ ایک شریف گھرانے سے ہیں اور اب وہ ہمارے خاندان کاحصہ ہیں اس لئے ذرا محتاط انداز اپنائیں کیونکہ اب معاملہ ہمارے خاندان کی عزت کا ہے۔” اذلان شاہ کا انداز اتنا اٹل تھا کہ سب کے سوال منہ میں ہی رہ گئے تھے۔
اذلان نے بات ہی ختم کردی تھی۔
“تو اب کیا سوچا ہے خیر سے ولیمہ کب کرنا ہے؟سنت تو پوری کرنی ہے نا۔” کمال شاہ نے بات آگے بڑھائی تھی۔
” آج پیر ہے۔جمعے کو خیر سے ہم اپنے بچے کی خوشی منائیں گے۔ کیوں بھائی جی؟” شاہ بی بی نے ہیر اعظم شاہ کو مخاطب کیا۔
” جیسا بھابھی چاہیں بس بچے خوش رہیں۔”
_____________________________
حویلی میں جیسے رنگوں کی برسات اتر آئی تھی۔
کپڑوں کا ڈھیر لگ چکا تھا،ایک سے ایک بڑھ کے بڑھیا کپڑا تھا۔
نفیس زیور جن کی چمک آنکھوں کو خیرہ کرتی تھی۔
ملازمائیں صفائی میں مگن ہوتیں سارا دن اور شام میں رجو انہیں لے کے بیٹھ جاتی تھی اور خوب ٹپے گاتی تھی۔
” بی بی آئیں!آپ کو مہندی لگاؤں۔” آج جمعرات کی رات تھی اور کل ولیمے کا دن تھا۔
ایلاف نے سوچا تھا کہ وہی روایتی گول ٹکیہ لگائے گی مگر اس نے بھر بھر کے جدید ڈیزائن لگائے تھے۔
ظاہر ہے سارا دن رسالوں اور ٹی وی پہ وہ یہی کچھ دیکھتی تھی۔
گاؤں کوئی پسماندہ سی جاگیر نہ تھی۔ یہاں اسکول اور کالج بھی تھے اور لوگ بھی خوشحال تھے۔
ایلاف آج باقاعدہ دلہن بنی تھی،اس پہ ٹوٹ کے روپ آیا تھا۔
گولڈن ایمرلڈش رنگ کے لہنگے میں ڈھیروں ڈھیر گہنے پہنے، مہندی کا گہرا رنگ لئے،وہ قوس قزح کے رنگوں کو مات دے رہی تھی۔
” آج تو بھایا گئے کام سے۔” بنین اس کا دوپٹہ ٹھیک کرتے ہوئے بولی۔
“اتنے کچے نہیں آپ کے بھایا۔” ایلاف نے کہا جسے اندر آتی تانیہ نے بھی سن لیا تھا۔
” اوہ پھر کیسے حاصل کروگی انہیں؟” طنز سے پوچھا تھا
“جو پہلے سے حاصل ہو اسے مزید تو نہیں حاصل کیا جا سکتا۔وہ میرے شوہر ہیں نا کہ غلام جو میں ان کے سر پہ سوار رہوں۔” ایلاف نے کرارا سا جواب دیا تھا۔
شاہ بی بی جو اسی کے پاس آ رہی تھیں ان کے لبوں پہ ہلکی سی مسکراہٹ آگئی۔تانیہ آگے بڑھ گئی تھی، اذلان شاہ واقعی عجوبہ لایا تھا۔
ایلاف چپ ہوگئی تھی نظریں جھکا لی تھیں۔اس پل بہت شدت سے اسے اپنے ماں باپ یاد آئے تھے۔دلہن بھی آج ہی بنی تھی تو کیفیت بھی آج ایسی ہو رہی تھی۔
اوپر سے اذلان کا بھی کچھ پتہ نہ تھا اس دن کے بعد سامنا ہی نہ ہوا تھا۔ رواج کے مطابق پردہ تھا دونوں کاجس نے ان کا پردہ رکھ لیا تھا۔
” پریشان ہو؟” شاہ بی بی نے پوچھا۔
” نہیں بس!” ایلاف نے جملہ ادھورا چھوڑا۔
” ایلاف!ایک بات یاد رکھنا بچے۔میاں بیوی میں کوئی رشتہ بھلے سے بعد میں بنے پہلے اعتبار اور خلوص کا بننا چاہئے۔وہ نا ہو تو پھر سارے رشتے بیکار،اعتبار روح کو روح سے جوڑتا ہے،دل کو دل سے ملاتا ہے۔” شاہ بی بی دونوں کے مزاج جانتی تھیں۔اس لئے سمجھا رہی تھیں۔
مہمان آنا شروع ہوئے تو سب وہیں مصروف ہوگئے تھے۔دلہن بنی ایلاف سب کو پسند آئی تھی۔کہیں دبے دبے سوال بھی تھے اس کی فیملی کو لے کے۔اذلان شاہ سفید شلوار سوٹ میں بلیک واسکٹ پہنے اپنے اذلی سکون کے ساتھ شاندار لگ رہا تھا۔
ایلاف کی بیٹھ بیٹھ کے کمر اکڑ چکی تھی گیارہ بجے جان بخشی ہوئی تو بنین اسے کمرے میں چھوڑ گئی تھی۔
ایلاف آج پہلی بار اس شاندار سی خوا گاہ میں آئی تھی۔
پھولوں کی بھینی بھینی سی مہک سانسوں میں کھینچ کے اتاری تھی۔
” آپ سے سارے دھاگے اعتبار کے ناطے سے جوڑنے ہیں مجھے۔میرے بدگمان!میں نے ہی آپ کو اپنی راہ بھلائی ہے میں ہی آپ کو واپس لاؤں گی۔” ایلاف نے اذلان شاہ کی تصویر دیکھتے ہوئے خود سے عہد کیا تھا۔
تبھی دروازہ کھل کے بند ہوا تھا۔ اذلان شاہ با وقار قدموں سے چلتا ہوا آرہا تھا۔
ایلاف کمرے کے بیچ میں کھڑی تھی حالانکہ بنین اسے بٹھا کے گئی تھی مگر ایلاف کو چین کہاں آتا تھا۔
” کیا ساری رات مراقبے کا موڈ ہے۔کھڑی کیوں ہیں؟چینج کر کے آرام کریں،ہم بھی تھک چکے ہیں بہت آرام کریں گے۔” اذلان شاہ نے ایلاف سے کہا۔
اس پہ نگاہ غلط بھی نہیں ڈالی تھی جو شعلہ جوالہ بنی ہوئی تھی۔
ایلاف اس کی بیگانگی پہ کٹ کے رہ گئی تھی۔
” تم سونے کی بھی بن جاؤ ناایلاف محبوب تب بھی اذلان شاہ تمہیں نہیں دیکھے گاکیوں کہ اس کا معیار کچھ اور ہے۔تم اس کا اعتبار تو جیتو پہلے پھر کسی اور کی توقع رکھنا۔ ” ایلاف نے روہانسی ہو کے سوچا اور ڈریسنگ ٹیبل کے پاس آن کھڑی ہوئی تھی۔
اذلان شاہ ڈریسنگ روم میں جا چکا تھا۔
” اف کیا مصیبت ہے یہ؟ ” ایلاف اتنی دیر سے نتھ سے الجھی ہوئی تھی مگر وہ نکلنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔
ابھی کچھ دنوں پہلے ہی تو شاہ بی بی نے اس کی ناک چھیدوائی تھی جو اب سرخ ہوچکی تھی۔
اذلان شاہ ڈریسنگ روم سے نکل کر اب سونے کی تیاری کر رہا تھا۔وہ بیڈ پہ لیٹ چکا تھا۔
” ان سے کہوں!ان کی وجہ سے تو ہی مصیبت میں پڑی ہوں۔یہ بھی تو بھگتیں۔” ایلاف نے سوچا۔
اندر کہیں بی بی کی نصیحت بھی تھا۔
” اسے اپنا احساس دلاؤ۔”
“ایویں تو اتنا تیار نہیں ہوئی۔کوئی تو فائدہ ہو۔” وہ ایلاف تھی،ہار ماننا اس نے سیکھا ہی نہ تھا۔
” سنئے!” اس نے آنکھیں موندے اذلان کو مخاطب کیا۔
“فرمائیے!اب کیا ہے؟” اذلان نے پوچھا۔
“یہ نتھ اتار دیں گے؟کب سے کوشش کر رہی ہوں اتر ہی نہیں رہی۔” ایلاف روہانسے لہجے میں بولی ۔
“تو ہم کیا سنار ہیں؟” اذلان نے اس کی سرخ ناک دیکھتے ہوئے پوچھا۔
” میں نے کب کہا؟ ” ایلاف نے پوچھا۔
” بڑی مہربانی جو آپ نے آج کچھ نہیں کہا۔” اذلان نے طنزیہ کہا۔
” آپ ہیلپ کر رہے ہیں کہ نہیں میں تنگ آگئی ہوں۔” ایلاف نے پوچھا تھا تنگ آ کے۔
“توبہ!کتنے نخرے ہیں؟”
” ادھر آئیں!یہاں بیٹھیں.” اذلان نے اسے ہاتھ کے اشارے سے اپنے دائیں طرف بیٹھنے کا کہا۔
ایلاف شرارہ سنبھالتے ہوئے بیٹھ گئی تھی۔
اذلان نے اس کی ناک ہولے سے چھوتے ہوئے نتھ اتارنے کی کوشش کی۔
اس سمے وہ اتنا قریب تھا کہ ایلاف کو اس کی دھڑکنیں بھی سنائی دیں۔
اس کے پرفیوم کی خوشبو اس کی سانسوں میں اترنے لگی تھی۔
” لیں بس اتنی سی بات تھی۔ ” اذلان نے نتھ اتار دی تھی۔
” میں آسان کام نہیں کرتی۔یو نو میں بڑے بڑے کام کرتی ہوں۔” ایلاف نے اپنے حواس قابو کرتے ہوئے کہا۔
” یہ شخص اگر کبھی مہربان ہوگیا تو کیا عالم ہوگا؟” ایلاف نے سوچا۔
” واقعی میں آپ بہت بڑے بڑے کام کرتی ہیں۔ یہ تو ہمیں پتا چل ہی چکا ہے۔یقین ہے!” اذلان بیک سے ٹیک لگاتے ہوئے بولا ۔
ایلاف سر جھٹکتے ہوئے اٹھی۔یہ آدمی تو حواسوں پہ چھا رہا تھا۔
” ویسے سنا تھا کہ میک اپ سے لوگ بدل جاتے ہیں۔آج یقین بھی آگیا آپ کو دیکھ کے۔” اذلان نے لطیف سا طنز کیا۔
شاید تعریف کرنی چاہی تھی۔
” ارے!” ایلاف کو خوشگوار سی حیرت ہوئی تھی۔
” ایسے یقین اب آپ کو ایلاف روز دلائے گی۔یو ڈونٹ وری۔”ایلاف کے اندر جیسے توانائی سی بھر گئی تھی،اس کی بات سن کے مطلب وہ انجان نہیں تھا۔
اور مسکراتی ہوئی چینج کرنے چلی گئی تھی۔
اذلان شانے اچکا کے لیٹ گیا تھا۔
ایلاف نے تھکن کے باوجود وضو کیا اور نماز ادا کی
پھر جائے نماز پہ ہی تکیہ گھسیٹ کے لیٹ گئی تھی۔۔۔اور کچھ ہی دیر میں سو چکی تھی۔
رات خاموشی سے گزرنے لگی تھی۔
_____________________________