یہاں، یعنی جس جگہ کہ اب میں ہوں، یہاں کئی طرح کے ناچ گانے، موسیقی کے نظام ہیں۔ یہی جگہ کیرالا پترا ہے اور میں یہاں مدتوں سے قیام پذیر ہوں۔ یہاں میں ان کی موسیقی اور رقص کے سارے فنون، سارے شعبدوں پر مکمل مہارت حاصل کر چکا ہوں۔ صرف ایک کھیل، یا سوانگ باقی ہے۔ اسے یہاں کے لوگ کڑُی یتّم سوانگ، یا رہسیہ کہتے ہیں۔ اس رہسیہ کو جاننے اور برتنے والے صرف ایک رِشی ہیں جو بارہ سال میں ایک بار منظر دنیا پر آتے ہیں اور اپنا رہسیہ دکھا کر غائب ہو جاتے ہیں۔ لیکن اس میں کئی قول اور بھی ہیں۔ میں انھیں وقت پر بیان کروں گا۔ میں نہیں جانتا کہ وہ نادرۂ روزگار مناظر جنھیں میں اثنائے راہ خواب میں دیکھ چکا ہوں (اس کو مدتیں گذریں)، ان سے بھی بڑھ کر کوئی عجوبہ ہو سکتا ہے۔ لیکن دیکھیں گے۔ ان بزرگ کے نمودار میں اب صرف چند ہفتے باقی ہیں۔
ان بزرگ کا نام کوئی نہیں جانتا۔ ان کی عمر کتنی ہے، یہ بھی کسی کو نہیں معلوم۔ بس یہ ہے کہ لوگ انھیں رہسیہ سمراٹ کہتے ہیں۔ کچھ لوگ انھیں نٹ راج بھی کہتے ہیں۔ وہ بارہ سال میں ایک بار نمودار ہوتے ہیں۔ کاویری ندی کی تہ میں کہیں ایک غار میں ان کا مسکن ہے۔ ان کا ناچ تین دن یا پانچ دن یا سات دن چلتا ہے۔ میں نے بہت پوچھا لیکن کوئی اس سے زیادہ بتانے پر راضی نہ ہوا۔ صرف اتنا معلوم ہوا کہ روشنی بہت معمولی ہوتی ہے اور کوئی منچ یا تماشا گاہ کا چبوترا یا تخت نہیں ہوتا۔ رقص گاہ کی زمین کو چوبیس گھنٹے کی محنت میں تیار کیا جاتا ہے۔ یعنی اسے چکنا کرتے ہیں لیکن اتنا نہیں کہ نٹ راج تماشے کے دوران لڑکھڑا جائیں یا پھسل جائیں۔ زمین بالکل برابر کر دی جاتی ہے، کنکر پتھر نکال دیے جاتے ہیں تا کہ زمین اپنی اصل صورت میں نظر آئے۔ رہسیہ سمراٹ کے پیچھے چار موسیقار ہوتے ہیں۔ وہ سازندوں کا بھی کام کرتے ہیں۔ جس زبان میں وہ گیت گاتے ہیں، وہ ویدوں کی سنسکرت سے مشابہ ہوتی ہے، لیکن سراسر ویدی سنسکرت نہیں ہوتی۔ اس میں کیرالا پترا کی قدیمی زبان کی بھی آمیزش ہوتی ہے۔ اس زبان کے آغاز اور اس کی اصل کے بارے میں مختلف روایتیں ہیں۔ لیکن اتنا سب تسلیم کرتے ہیں کہ یہ زبان دیوتاؤں کی بنائی ہوئی لیکن ان قوموں کی زبان ہے جو بھارت میں آریاؤں کی آمد کے پہلے سے آباد تھیں۔ شروع شروع میں یہ سارے ملک میں جگہ جگہ بولی جاتی تھی، یعنی اس بھارت میں جس پر تم آباد ہو، اور جو ایک وسیع تر بھارت یا ہند یا سندھ کا ایک حصہ ہے۔ ویدی سنسکرت کی طرح یہ زبان باہر سے نہیں آئی تھی۔
کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ تصور کی حد سے باہر دور زمانوں میں ایک مخبوط الحواس شخص رہتا تھا۔ اسے کوئی کام نہ آتا تھا، اس کی پرورش کے لیے اسے ایک مندر میں حاجب مقرر کرا دیا گیا تھا۔ لیکن مشکل یہ تھی کہ وہ جس سے بھی ملتا، کچھ دیر بعد اس کا نام بھول جاتا تھا۔ زبان اس کو آتی نہ تھی، اس لیے اشاروں سے، اور اس سے زیادہ غوں غاں کر کے بتاتا تھا کہ کون آیا کون گیا۔ ان باتوں کی بنا پر لوگ اسے مسخرہ بھی سمجھتے تھے۔
مندر میں جس مقدس کتاب کے اقوال کا ورد ہوتا تھا وہ اس قدر قدیم تھی کہ اس کے کئی اوراق پر سے حرف اڑ چکے تھے۔ پروہت لوگ اپنی اپنی اٹکل سے الفاظ نکالتے، لیکن ان کے معنی پھر بھی سمجھ میں نہ آتے تھے۔ ایک زمانہ گذر گیا، کتاب قدیم تر اور بوسیدہ تر ہوتی گئی۔ حتیٰ کہ اسے پڑھنا موقوف کر دیا گیا۔ زائرین آتے، اسے دور سے سلام کرتے، یا اگر بہت ہوا تو اسے آہستہ سے مس کرتے اور چلے جاتے۔ ان احتیاطوں کے باوجود استمرار زمان کے باعث کتاب کے حرف تقریباً سب کے سب اڑ گئے۔ اب اسے مندر کے ایک تاریک کونے میں رکھ دیا گیا کہ ہوا بھی نہ لگے۔ بہت ہی شاذ و نادر ایسا بھی ہوتا کہ کوئی دور دراز کا مسافر اس کتاب کے کسی اشلوک یا فقرے کے معنی پوچھنے آ جاتا تو اسے پروہت اعلیٰ کے سامنے حاضر کیا جاتا۔ پروہت اپنی سمجھ سے جو معنی بتا دیتا، انھیں کو آخری اور حتمی قرار دیا جاتا۔ سوال پوچھنے یا وضاحت طلب کرنے کی کسی کو نہ جرأت تھی اور نہ ضرورت۔
ہمارے مخبوط الحواس مسخرے کو شراب کا بھی بہت چسکا تھا۔ ایک رات وہ ساری رات پیتا رہا اور بے سدھ ہو کر اس طاق کے نیچے پڑ رہا جس پر وہ مقدس کتاب رکھی جاتی تھی۔ صبح ہوئی تو دنیا جاگ گئی لیکن نہ جاگا تو وہ مست و خراب نیم فاتر العقل خادم۔ جب بہت دیر ہو گئی اور زائرین کو کتاب مقدس کی دور سے بھی زیارت میں مشکل ہونے لگی تو اس نیم فاتر العقل مسخرے کو گھسیٹ کر مندر کے باہر کر دیا گیا۔ وہ تین دن تک سوتا رہا۔ چوتھے دن جب وہ جاگا تو اس کی زبان پر کچھ عجیب و غریب نامانوس اور ذرا کرخت الفاظ رواں تھے۔ کرختگی کے باوجود اس زبان میں ایک پُراسرار موسیقی بھی تھی گویا کہیں دور کچھ دیوتا آپ میں گفتگو کرتے ہوں۔ وہ دن بھر ایسے ہی اول فول بکتا رہا۔ شام کے قریب ایک پروہت نے، جو بہت بڑے عالم بھی تھے، انھوں نے محسوس کیا کہ یہ الفاظ تو کچھ مانوس اور شنیدہ سے ہیں۔ اچانک اس پر یہ بات روشن ہوئی کہ وہ الفاظ تو کتاب مقدس کے الفاظ سے بہت مشابہ ہیں۔ وہ بھاگا بھاگا گیا اور کتاب کو اپنے دامن میں چھپا کر باہر لایا۔ کتاب کی جھلک پاتے ہی مسخرے نے اس کی تمام عبارتیں فر فر پڑھنا شروع کر دیں۔ بہت غور اور تذبذب کے بعد یہ نتیجہ نکالا گیا کہ جو زبان وہ مخبوط الحواس حاجب بول رہا تھا، وہی تو کتاب مقدس کی اصل زبان تھی جسے لوگ امتداد وقت اور تطاول ایام کے باعث بھول چکے تھے۔
پھر وہی زبان ملک کیرا پترا کی زبان قرار پائی۔ دن گذرتے گئے، اس میں سنسکرت بھی بہت ساری داخل ہو گئی۔ سنسکرت وہ زبان تھی جسے یہاں کے طالب علموں اور قاضیوں نے کوہستان سمیرو کے طویل اسفار کے بعد آہستہ آہستہ حاصل کیا تھا۔ پھر بعد میں عربی کے الفاظ بھی اس میں دخیل ہوتے گئے۔ جو لوگ عربی سے متاثر اس زبان کے ماہر تھے، انھیں منشی اور ماپلا کہا جاتا تھا۔ پھر یہ عربی معاشرے میں اس قدر نفوذ کر گئی کہ دو زبانیں وجود میں آ گئیں، ایک تو وہ جسے مقامی زبان میں، لیکن عربی رسم الخط میں لکھا جاتا، اور ایک تو وہ زبان جسے ہم آپ سب بولتے تھے۔ اس زبان میں بھی عربی الفاظ کی وافر تعداد تھی لیکن مقامی دیوتائی زبان کے تصرف کی وجہ سے وہ الفاظ بدلتے گئے اور اب تو بمشکل ہی انھیں عربی الفاظ کہا جا سکتا تھا۔
زبانیں سیکھنے کا بے حد شوق اور بہت جلد کسی بھی نئی زبان پر ماہر ہونے کی بے اندازہ صلاحیت مجھے بزرگوں سے ملی تھی۔ میں سوچتا تھا کہ شاید سوچنے، دیکھنے، موسیقی کے زیر و بم کو سمجھنے کی قوت جو مجھے ماں کے پیٹ ہی میں مل گئی تھی، اسی طرح یہ بھی کوئی عطیۂ الٰہی ہے اور شاید ایک دن وہ بھی آئے جب میں دنیا کی کسی بھی زبان کو صرف ایک بار سن کر سمجھ سکوں گا۔ یعنی کوئی لفظ بولا گیا اور میں نے اسے فوراً سمجھ لیا، خواہ زبان کا نام مجھے معلوم نہ ہو، اور نہ ہی اس خطے کا نام جہاں وہ بولی جاتی ہو گی۔
آخر وہ وقت آ گیا جب رہسیہ سمراٹ نے ظہور کیا۔ لوگ مجتمع ہونے لگے۔ موسیقاروں نے اپنی جگہ سنبھالی۔ تماشا گاہ، جیسا کہ میں نے بتایا، مسطح تھی، کوئی مرتفع جگہ نہ تھی۔ لوگ مگر پھر بھی جمع ہونے لگے۔ دھیرے دھیرے پاس کے گھروں کی چھتوں اور چھجوں پر بھی لوگ آ آ کر بیٹھتے گئے۔ پھر ناریل اور تاڑ کے پیڑوں کی باری آئی۔ لوگ بخوبی جانتے تھے کہ ناچ کا دور کئی دن بھی چل چکتا تھا۔ لیکن تماشائیوں کا اشتیاق دید ہر ضرورت، ہر پابندی پر غالب آ گیا تھا۔
دن پھوٹنے کے پہلے موسیقی بلند ہوئی اور ایک دروازے سے، جو بظاہر تو اب تک کچھ خفیہ سا تھا، سمراٹ ظاہر ہوئے۔ بالکل سیاہ لباس میں ملبوس، کوئی آرائش نہیں، ہاتھ گلا پاؤں کمر سب زیورات سے عاری۔ پاؤں میں گھنگھرو بھی نہیں۔ ان کا قد کچھ ٹھیک سمجھ میں نہ آتا تھا۔ ایک لمحہ لگتا کہ وہ پستہ قد ہیں، ایک لمحہ لگتا کہ وہ اوسط سے زیادہ طویل القامت ہیں اور کبھی تو وہ بہت تنومند، توانا اور طویل القامت دکھائی دیتے تھے۔ لباس کی طرح ان کا بدن بھی سارا بالکل سیاہ تھا۔ یا شاید انھوں کسی ترکیب سے، کوئی لیپ لگا کر، یا کسی تیل کی مالش کر کے خود کو سیاہ فام کر لیا تھا۔ انھوں نے ناظرین کو جھک کر ڈمڈوت کی۔ ایک نعرہ بلند ہوا۔ موسیقی کی لے دھیمی ہوتی گئی، یہاں تک کہ دور والوں کو بمشکل سنائی دیتی ہو گی۔ (لیکن یہ بھی میرا وہم تھا۔ بعد میں لوگوں نے بتایا کہ وہ باریک اور تیور سے تیور تر سر، آواز کے ہر زیر و بم، کو بہت صاف سن سکے تھے۔)
رہسیہ سمراٹ نے کائنات کی تخلیق شروع کی۔ ان کی آنکھ کے ہر اشارے، ابروؤں کی جنبش، ان کی انگلیوں کے ہر کنایے، ان کے پاؤں کا ہر ادھورا یا مکمل قدم، ان کی کمر یا گردن کی ہر جنبش، کائنات کے ان دیکھے اور ناقابل تسخیر اصول موت و زیست کے سامنے ان کا سرو قد ہونا، زمیں بوس ہونا، ان سب سے خوف اور بیم و امید و التجا سے بھری ہوئی دنیائیں تعمیر ہوتی چلی گئیں۔ جمب دویپ، کائناتی کوہستان میروے نیلوفری کی ہر پنکھڑی اور ہر پنکھڑی پر آباد دنیائیں۔ سرشٹی میں ان گنت کوس کی دوری پر جھلملاتے ہوئے ستارے، برفستان، ریگزار، پانی، پانی ہی پانی۔ یہ سب، اور بہت کچھ ان کے ہر اشارے، خفیف ترین اشارے یا بدنی حرکت کے رموز کی بدولت سامنے آتا گیا۔ یا یہ کوئی طلسم تھا، کوئی غیر انسانی وجود تھا جس کی کلید رہسیہ سمراٹ کے اشاروں اور حرکات و سکنات میں تھی۔ ان کے پاؤں، پاؤں ہی نہ لگتے تھے، ان کے ہاتھ، ہاتھ نہ لگتے تھے۔ ان کی آنکھیں بند تھیں اور کھلی ہوئی بھی تھیں۔
ایک لمحہ وہ بھی آیا جب ہم نے خالق الخالقین، یعنی برہما کو اپنے سامنے دیکھا۔ کیا وہ کسی پردے کے پیچھے سے اچانک نمودار ہو گیا تھا، یا وہ خود وہی سب کچھ تھا جسے ہم نے اپنی جاگتی آنکھوں سے دیکھا تھا؟ رہسیہ سمراٹ اب کہیں نظر نہ آتے تھے، ہاں، چیونٹیوں کی ایک قطار تھی جو منظر گاہ کے اس سرے پر تھی جہاں سے رقص شروع ہوا تھا۔ پھر ہر طرف کچھ سفید و نیلگوں دھواں سا پھیلنے لگا۔
بعد میں مجھے بتایا گیا کہ سات دن اور سات راتوں میں تخلیق کا یہ کائناتی سفر تمام ہوا۔ اس مدت میں کون آیا، کون چلا گیا، مجھے کچھ نہیں معلوم۔ مجھے تو صرف یہ معلوم ہے کہ جب میں نے آنکھ کھولی تو جم غفیر ویسا ہی تھا جیسا کہ بالکل آغاز میں تھا۔ لوگ بے شک چلے گئے ہوں، نئے تماشبین آ گئے ہوں گے، لیکن میں نے تسلسل ہی دیکھا۔ صرف تسلسل۔ منظر گاہ پر دنیاؤں کا ویسا ہی ہجوم تھا۔
اچانک مجھے نٹ راج دکھائی پڑے۔ ان کے ہاتھ میں تین بتیوں کا ایک دیا تھا۔ انھوں نے ایک پھونک میں تینوں بتیاں روشن کر دیں اور دفعۃً ہر طرف آگ ہی آگ تھی، اگر آگ کا کوئی وجود ہے تو وہی ہر طرف تھا۔ سب دنیائیں، سب ستارے، سیارے، کہکشائیں میرے سامنے بے آواز جلتی گئیں۔ اور پھر۔۔۔پھر نٹراج بھی اسی کائناتی آتش کدے میں خاک ہو گئے۔ ہر طرف راکھ ہی راکھ تھی۔
مجمع میں گریہ کا شور تو اسی وقت بلند ہونے لگا تھا جب دیے کی بتیاں روشن ہوئی تھیں۔ میں نے زندگی میں ایسا درد ناک، ایسا دکھ بھرا منظر نہ دیکھا تھا، نہ میری تعلیم و تعلم کے دنوں میں، نہ میرے بن باس کے دنوں میں مجھے اس کے پاسنگ کا، ایک ذرۂ بے مقدار بھرکا تصور ہی ممکن ہوا تھا، یا ہو سکتا تھا۔ بے ساختہ و بے ارادہ میری آنکھیں بھر آئیں اور پھر میرے چہرے پر آنسوؤں کی چادر پھیل گئی۔ میں کیوں رو رہا تھا؟ کس کے لیے رو رہا تھا؟ میرا تو کچھ بھی نہ کھویا تھا، ہاں علم کا اعتماد جس نے میری زندگی کی رہنمائی اب تک کی تھی۔ وہ زعم، خود اعتمادی، وہ طمانیت قلب جو میرے باپ ماں کا عطیہ تھا۔ اب میں دنیا میں بالکل تنہا تھا۔
میں نے آنکھیں بند کر لیں کہ ان قاتل روشنیوں میں میری بصارت نہ جل جائے۔ شاید میرے آنسو تھم سکیں کہ جب کچھ نہ دیکھوں گا تو روؤں گا کس پر؟ لیکن میں تو خود پر رو رہا تھا، خود کو رو رہا تھا۔ مجمع میں سینہ زنی اور سر پر خاک اڑانے اور اپنی رانوں کو زور زور سے پیٹنے کا شور تھا جیسے ان کی رانوں اور کمر کوئی کیڑا چل رہا ہو، کوئی چیونٹی سرسرا رہی ہو۔ دفعتاً مجمعے سے ایک آواز بلند ہوئی۔ دیکھو، دیکھو، وہ راکھ تو چلنے لگی ہے! ہراس سے مغلوب ہو کر میں گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا، یا یوں کہیں کہ گر پڑا۔ کہیں دور سے سنسناہٹ کی سی، سناہٹے کی صدا بلند ہونے لگی۔ جیسے سمندر کا پانی پیچھے ہٹ رہا ہو، پھر آگے آ رہا ہو۔ لیکن۔۔۔نہیں۔ یہ تو جیسے کئی مردنگ کے ایک ساتھ بجنے لگے ہوں اور ان کی تال آہستہ آہستہ تیز، پھر تیز تر ہو رہی ہو۔ آہستہ آہستہ راکھ میں کچھ اضطراب، کچھ انتشار کی سی کیفیت پیدا ہوئی۔ میری آنکھیں بند تھیں۔ میں شور کو سن سکتا تھا، اور دنیا و مافیہا سے بے خبر تھا کہ اچانک مجھے ٹھنڈک اور نرم، دل آویز تری کا احساس ہوا، جیسے کوئی اپنے بھیگے آنچل سے میری عرق آلود پیشانی پونچھ رہا ہو۔ میں نے آنکھیں بند رکھیں۔ بھینی بھینی پھوار اب میرے چاروں طرف تھی۔ طبیعت میں ٹھہراؤ کی مطمئن سی خنکی پھیلنے لگی تھی۔ پھر اِکا دُکا ہلکی ہلکی بوندیں مجھ پر، بلکہ میرے چاروں طرف بھی ٹپکنے لگیں۔ مگر شاید یہ کوئی سرگوشی کی سی آواز ہو، جیسے میں خواب میں ہوں اور یہ بوندیں نہیں ہیں بلکہ کسی لطیف، آسمانی بانسری سے پھوٹتے ہوئے سر ہیں۔ کچھ الفاظ بھی ہیں، اور یہ الفاظ اب مجھے صاف سنائی دے رہے ہیں:
It droppeth as the gentle rain from heaven
Upon the place beneath۔ It is twice blessed:
It blesseth him that gives and him that takes;
‘Tis mightiest in the mightiest
سب الفاظ میں صاف صاف سن رہا ہوں۔ ان میں عجیب سی موسیقی ہے، جیسے دور سے آبشار کے گرنے کی آواز آ رہی ہو، یا شاید کسی کی کلائی میں کانچ کی رنگین چوڑیاں آپس میں بج رہی ہوں۔ عجب اسرار ہے، یہ بھی ٹھیک ہے اور وہ بھی ٹھیک ہے۔ مگر یہ زبان کون سی ہے؟ کوئی فرنگی زبان ہو تو ہو۔ یا شاید یہ زبان ہی نہیں، صرف آوازوں کا مجموعہ جو بالکل اتفاق سے کسی آہنگ میں ایک ساتھ کھنک رہا ہو۔
لیکن اب مجھے الفاظ کے معنی بھی سمجھ میں آنے لگے ہیں۔ اس طرح نہیں کہ میں ان کی صرفی ترکیبوں، ان کی نحوی صورتوں کو سمجھ سکوں۔ ان میں حال کا صیغہ بتانے والا لفظ کون سا ہے اور ماضی یا مستقبل کی نشان دہی کرنے والا کون سا فقرہ ہے؟ لیکن میں سب کچھ سمجھ گیا ہوں، جیسے ماں کے پیٹ میں بچہ از خود سمجھ لیتا ہے کہ کچھ کہا جا رہا ہے، اور یہ بھی سمجھنے لگتا ہے کہ کیا کہا جا رہا ہے۔ کوئی آسمانی بشارت ہے جو بہت دور سے نغمے کی صورت میں مجھ پر اتر رہی ہے۔ جا، اٹھ جا۔ اپنی تقدیر اور اپنا انجام تلاش کر۔ یہ نعمت ہے جو تجھے ودیعت ہو گی اگر تو خود کو اس کے لائق ثابت کر سکے گا۔ مگر یہ تگ و دو سے، کتابوں میں سر کھپانے سے، دھیان اور مراقبے میں نہیں ملتی۔ تو نے کائنات کو بنتے اور فنا ہوتے دیکھ لیا ہے۔ اب تجھے سکون اسی وقت نصیب ہو گا جب تو خود کو اس آسمانی نغمے میں منتقل کر سکے گاجو تجھ پر ابھی نازل ہو رہا ہے۔
الفاظ اور پیغام تو میں نے سمجھ لیے، لیکن کیا یہ الفاظ کچھ اور معنی بھی رکھتے ہیں؟
میں نے آنکھ کھولی۔ شام کا دھواں بھرا دھندلکا ہر طرف تھا۔ تماشائی سب جا چکے تھے۔ دنیا اپنے معمولہ کاروبار میں منہمک تھی، جیسے یہاں ابھی کچھ بھی تو نہ ہوا تھا۔ میں نے منظر گاہ پر داخل ہو کر چاروں طرف ادھر ادھر دیکھا۔ ایک بزرگ نظر آئے جو دریاں قالین وغیرہ سمیٹنے کی کوشش میں مصروف تھے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ رہسیہ سمراٹ کہاں چلے گئے تو انھوں نے مجھے گھور کر دیکھا، گویا انھیں یقین نہ آ رہا ہو کہ یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہو۔ لیکن انھوں میرے لجاجت بھرے چہرے کو دیکھا تو سمجھ لیا کہ میں واقعی جویا ہوں، فضول گو نہیں ہوں۔ انھوں نے کہا:
’’جہاں رہتے ہیں وہیں چلے گئے ہوں گے۔ ویسے اصلیت کسی کو معلوم نہیں۔ ذرا آگے اپنی کاویری ندی گھومتی ہے، اس قدر کہ معلوم ہوتا ہے دوہری ہو کر اپنے میں سما جائے گی۔ ٹھیک اس موڑ پر ایک گھنا درخت ہے اور اسی جگہ ندی کا پانی بہت گہرا ہے۔ سنتے ہیں سطح کے بہت نیچے ایک کنڈ ہے جس میں مگر اور گھڑیال اور سونس اور بڑے بڑے کچھوے بسیرا لیتے ہیں۔ نٹ راج اسی کنڈ میں ڈوب جاتے ہیں۔ پھر پتہ نہیں چلتا۔ کہتے ہیں اس کنڈ کے سب سے گہرے حصے میں ان کی جھونپڑی بھی ہے۔‘‘
وہ بزرگ اپنے کام میں مصروف ہو گئے۔ گہرے کنڈ کے سب سے گہرے کونے میں جھونپڑی؟
میں نے خیال کیا یہ بھی کچھ اسی طرح کی بات ہو گی کہ نٹ راج بات کہتے پوری کائنات کی تعمیر کرتے ہیں اور پھر اسے نیست و نابود کر سکتے ہیں۔ مگر اس راکھ کے منتشر ہونے پر وہاں کیا معاملہ ہوا تھا؟ کیا دکھائی دیا تھا؟ میں نے بڑے میاں سے پوچھا، اگرچہ میری آواز خوف اور شرمندگی سے کپکپا رہی تھی۔
’’دیکھو گے؟‘‘
انھوں نے اچانک آنکھیں نکال کر پوچھا۔ اف، وہ کیا آنکھیں تھیں، جیسے گرد و پیش کا سارا صحرا، سارا آسمان، ساری زمین بھڑک رہی ہو بر افروختہ اور جاہ و جلال کے غضب سے لبالب۔ بگولے ہیں کہ شعلے ہیں کہ پوری سرشٹی ایک الاؤ ہے۔ مجھے لگا اگر میں آنکھیں کھولے رہوں گا تو بھسم ہو جاؤں گا یا اسی الاؤ میں کود پڑوں گا۔
میں نے آنکھیں بند کر لیں، یا شاید از خود میری آنکھیں بند ہو گئیں۔ میں نے دیکھا کہ راکھ کے اس ڈھیر سے ایک پرندے کا سر آہستہ آہستہ برآمد ہو رہا ہے۔ گردن کے اوپر بالکل سنہرا، بلکہ خود ہی سونے کا ڈلا جسے نرم کر کے گردن اور سر اور چونچ بنا دیا ہو۔ لیکن بقیہ جسم بالکل ہمارے مونال تیتر کی طرح تھا۔ سرخ، زرد، نیلے رنگوں میں دمکتا ہوا۔ لیکن اس کی چونچ مونال سے بہت زیادہ لمبی تھی، بالکل جیسے کوئی خنجر ہم سب کے سینوں میں اتر جانا چاہتا ہو۔ اور، اور، اس کی چونچ میں بے شمار سوراخ تھے جن میں سے ہلکے ہلکے شعلے جھانک رہے تھے۔ موسیقار؟ میں نے سوچا۔ لیکن موسیقار تو بہت بڑا ہوتا ہے، کچھ شتر مرغ یا سیمرغ جیسا، اور بالکل سرخ۔ لیکن سنا ہے موسیقار ہزار سال میں ایک بار نمودار ہوتا ہے۔ اس کی چونچ سے لاتعداد گیت اور راگ صورت نما ہوتے رہتے ہیں، صورت نما میں نے اس لیے کہا کہ ہر راگ، ہر گیت، ہر لہرے، ہر تان کو، ہر شخص الگ الگ سن اور دیکھ سکتا ہے۔ موسیقار شام تک نغمہ سنج رہتا ہے، دور دور سے لوگ اسے سننے اور دیکھنے آتے ہیں۔ لیکن اس کے پہلے کہ کوئی اس کے قریب آ سکے وہ آسمان کی طرف دیکھ کر دلدوز آواز میں چیختا ہے۔ پھر اندھیرا چھا جا جاتا ہے۔ جب روشنی ہوتی ہے تو وہاں راکھ کا ایک ڈھیر نظر آتا ہے، موسیقار کا دور دور تک پتہ نہیں ہوتا۔ کہتے ہیں جو بھی موسیقار کے گیت سن لے وہ اپنے وقت کا سب سے بڑا نایک، سب سے بڑا کلاونت بن جاتا ہے۔
مگر یہاں تو وہ مونال، یا موسیقار، بالکل خاموش تھا۔ اس کے چاروں طرف بس ایک گونج سی تھی جو اسے گھیرے میں لیے ہوئے تھی۔ جب گونج اتنی شدت اختیار کر گئی کہ خود وہ پرند بھی اس میں گم ہوتا محسوس ہوا تو اچانک ایک بجلی سی گری اور اس پرند کو اڑا لے گئی۔ میں ساری حس، ساری قوت مشاہدہ و ادراک کھو بیٹھا۔ میری آنکھیں بند تھیں اور میں کہیں دور بہت دور پاتال کی طرف کھنچا جا رہا تھا۔
معلوم نہیں میں کتنی دیر تک سویا، اور مجھے یہ بھی خبر نہ تھی کہ جاگ رہا بھی ہوں کہ نہیں۔ ہوائیں مرے سر میں پیچاں تھیں۔ وہ کچھ یہ کہتی ہوئی لگ رہی تھیں کہ اٹھ، تجھے ابھی اور بھی دور جانا ہے۔ مگر میں کہاں جاؤں کیوں جاؤں؟ میں رہسیہ سمراٹ تو ہوں نہیں کہ تمام دنیاؤں کو ایک دم میں بنا ڈالوں اور پھر ایک دم میں ملیا میٹ کر ڈالوں۔ کیا میری ساری صلاحیتیں، سارے اکتسابات، اسی طرح ضائع ہو جائیں گے جس طرح کہ رہسیہ سمراٹ نے دنیائیں بنائیں اور ضائع کر دیں؟