حیرت کی بات تھی کہ دادا صاحب فالکے جی نے مجھے بُلا بھیجا تھا۔ اب تک اُن سے ملنے کی خوش بختی مجھے حاصل نہیں ہوئی تھی۔ وہ لڑکا آگے کہنے لگا، “انہوں نے کہا ہے کہ آپ کو جب فرصت ملے آ جائیے۔ اُن کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ بیمار پڑے ہیں، ورنہ وہ خود ہی آپ سے ملنے آنے والے تھے۔”
“نہیں، نہیں، وہ کیوں تکلیف کریں گے یہاں آنے کی؟ مجھے خود جانا چاہیئے اُن سے ملنے۔ تم تھوڑا رُکو، میں ابھی آتا ہوں تمہارے ساتھ ہی۔” آخر فالکے جی جیسے بڑے آدمی کا میرے سے کیا کام ہو سکتا ہے، سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔
میں اُسی لمحے اس کے ساتھ ہو لیا۔ ہم لوگ پُونا کی گنجان آبادی والے علاقے میں پہنچے۔ کئی گلی کوچوں کو پار کرنے پر فالکے جی کا مکان تھا۔ وہ پرانا گھر آ گیا۔
ایک چھوٹا سا کمرا۔ زمین پر بچھا پھٹا پرانا گدا، دادا صاحب فالکے اس پر سوئے تھے۔ ہر چیز سے گھر کی غریبی اور تنگ دستی صاف نظر آتی تھی۔ کمرے کے اندرونی دروازے کے پاس کوئی عورت اور کچھ بچے کھڑے تھے۔ یقیناً وہ فالکے جی کی دھرم پتنی (بیوی) ہوں گی۔
قدموں کی آہٹ پاتے ہی دادا صاحب نے آنکھیں کھولیں۔ مجھے دیکھ کر وہ مسکرائے۔ میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کچھ دیر مجھے صرف دیکھتے ہی رہے۔ من میں جذبات کی گھٹا سی امڈنے لگی تھی۔ اتنا مہان آدمی جس کی کھڑی کی گئی فلم انڈسٹری کے کارن آج ہمارے ملک میں ہزاروں لوگوں کی زندگی چل رہی ہے، آج اِس مخدوش حالت میں پڑا ہے۔ یہ دیکھ کر من اداسی سے اتنا بے چین ہو اٹھا کہ منہ سے ایک لفظ بھی نکل پانا مشکل ہو گیا۔
کچھ لمحوں بعد دادا صاحب دھیرے دھیرے بولنے لگے۔ انہیں دوا دارو اور گھر گرہستی کے لیے کچھ رقم کی ضرورت تھی۔ بہت لاچار ہو کر وہ لگ بھگ گڑگڑا سے رہے تھے کہ صحت حاصل کرنے تک ہر ماہ انہیں باقاعدگی سے کچھ مدد بھیجی جائے تو بڑا احسان ہو۔
ان کی یہ حالت دیکھ کر میں بہت ہی دکھی ہوا۔ میں نے فوراً ان کے منہ پر اپنا ہاتھ رکھا اور انہیں آگے بولنے سے روکا اور کہا، “دادا صاحب، اس میں احسان کی کیا بات ہے؟ آج ہم سب لوگ آپ ہی کی چھتر چھایا میں کھڑے ہیں۔ ہمارے پیسوں پر آپ کا حق ہے۔ آپ ذرا بھی فکر نہ کریں، میں آپ کو باقاعدگی سے رقم بھیجتا رہوں گا۔”
انہوں نے جوش میں میرا ہاتھ کس کر تھام لیا۔ انہیں تیز بخار تھا۔ کچھ دیر بعد اُن سے اجازت لے کر میں بلانے آئے اُس لڑکے کو ساتھ لے کر واپس آیا۔ اس لڑکے کے ساتھ میں نے دادا صاحب کو کچھ رقم فوراً بھجوا دی۔ اس کے بعد کافی عرصے تک میں ایک طے شدہ رقم دادا صاحب کو ہر ماہ پہنچاتا رہا۔
کچھ دنوں بعد رنجیت سٹوڈیو کے مالک چندو لال شاہ کی صدارت میں بھارتی فلمی دنیا کا سلور جوبلی فیسٹول بمبئی میں منایا گیا۔ اس تقریب کے لیے انہوں نے دادا صاحب فالکے جی کو مدعو کیا تھا۔ لیکن ان سے سٹیج پر آنے کی درخواست انہوں نے نہیں کی۔ اصل میں وہ اس احترام کے حق دار تھے۔ لیکن اس کے باوجود انہیں یہ احترام نہیں دیا گیا تھا۔ لہذا میں نے اس معاملے میں پہل کی اور انہیں اصرار کر اسٹیج پر لے گیا۔ فیسٹول کے آخری دن میں نے سبھی فلم پروڈیوسرز سے درخواست کی۔ اپیل کی کہ “ہم سب لوگ مل کر دادا صاحب فالکے کے لیے ان کے اپنے شہر ناسک میں ایک چھوٹا مکان بنوا دیں۔”
لیکن کہتے ہوے شرم آتی ہے کہ صرف دو تین پروڈیوسرز نے ہی اس کام کے لیے چھوٹی چھوٹی رقمیں دیں۔ ہمارے کاروبار کے لوگوں کی اتنی چھوٹی ذہنیت دیکھ کر من اداس ہو گیا۔ جو کچھ تھوڑا پیسہ اس طرح آیا تھا، اس میں ‘پربھات’ کی طرف سے کافی بڑی رقم جوڑ کر ہم نے وہ راشی ناسک میں دادا صاحب فالکے جی کو بھجوا دی۔
اُس کے بعد فالکے جی کی دھرم پتنی سرسوتی بائی کا ایک پترملا۔ لکھا تھا۔۔۔۔
شریمان (محترم) شانتارام بابو، ڈائریکٹر پربھات فلم کمپنی، پُونا کی خدمت میں پُرخلوص پرنام۔
پتر اِسی لیے لکھ رہی ہوں کہ ہماری مصیبت کے دنوں میں آپ نے ہمارے پورے خاندان کو جو سمے سمے پر مدد پہنچائی ہے، اس کے لیے اپنے بال بچوں کی طرف سے آپ کو شکریہ کہوں۔ آپ نے جو احسان کیا ہے اس کو پورا کر پانا نا ممکن ہے۔ پرماتما کے چرنوں میں میری یہی دعا ہے کہ وہ آپ کو لمبی عمر دے اور ہمیشہ مکمل سُکھ میں رکھے۔
آپ نے فنڈ کولیکشن کا خیال چلا کر ہمارے لیے جو پانچ ہزار روپے اکٹھا کر بھیجے، اس کے کارن ہم ایک بہت بڑی مصیبت سے آزاد ہو گئے۔ اس احسان کو میں اور میرے بچے ہمیشہ یاد کریں گے۔ ہمارے گھر والوں کا رویہ کچھ غصیلا اور کچھ عجیب سا ہے۔ نتیجتاً آپ جیسے بھلے لوگوں کو بھی کبھی کبھی تکلیف پہنچتی ہے، میں اچھی طرح جانتی ہوں۔ آپ کو خود اس طرح کوئی تکلیف پہنچی ہو، تو میرے بال بچوں کی طرف دیکھ کر مہربانی کر کے اسے بُھلا دیں اور ہم پر اِسی طرح کی نظر کرم بنائے رکھیں۔
تاریخ 27: مئی 1939۔
سرسوتی بائی فالکے۔
کچھ دنوں بعد دادا صاحب فالکے کا بھی ایک پتر آیا ۔۔۔
بلسارا بلڈنگ اسپتال کے پاس ناسک،
تاریخ: 25-8-39
شریمان شانتارام بابو پربھات سنیٹون، پُونا۔
سپریم نمسکار (محبت بھرا سلام)، بمبئی جا کر بابوراؤ پینڈھارکر سے مل آیا ہوں۔ سارا حال آپ پر واضح ہو ہی چکا ہے۔ جو بھی مل رہا ہے، اُس سے میں ہر حالت میں مطمئن ہوں۔
گت وجیادشمی (ہندو تہوار) کے مبارک موقع پر آپ نے مجھ پر جو مہربانی کی ویسی خوش قسمتی کے لمحے اور ویسے کامیاب ہاتھ اپنی ساری زندگی میں مَیں نے کبھی محسوس نہیں کیے تھے۔ ورنہ وجیادشمی کا وہ دن شاید ہم لوگوں نے کسی گندی، کیچڑ بھری جگہ میں بیمار حالت میں ہی گزارا ہوتا۔ لیکن اسی دن سے ہم لوگوں کے لیے روز بہ روز زیادہ سے زیادہ سُکھ بھرے دن لوٹ آنے لگے ہیں۔
آج تک اپنی عقل کے کرتب سے میں نے ساٹھ ستر لاکھ روپوں کا کام کیا ہو گا۔ لیکن اسی سمے اندرونی گُھن لگا۔ میرا گھر بار، زمین وغیرہ سب راکھ ہو گئے اور میں پوری طرح سے گہرے گڑھے میں جا گرا۔
ماں کھانا نہیں دیتی اور باپ بھیک مانگنے نہیں دیتا، ایسی حالت ہوگئی تھی میری۔ گُھٹن ہو رہی تھی۔ اوپر سے لاتیں اور مکوں کی مار پڑ رہی ہو لیکن رونے کی بھی مناہی تھی۔ اسی حالت میں فلمی دنیا کو لگاتار دیکھتے رہنے کے بعد شاید پرماتما نے ہی مجھے آپ کو ساری داستان سنانے کی inspiration دی۔ ‘فالکے خاندان’ ہی دنیا سے مٹ گیا ہوتا۔ مجھے پتہ ہے، آپ اس طرح کی زبان سننا پسند نہیں کرتے۔ لیکن میں نے جو کچھ کہا، میرے اندر سے اٹھتے احساسات ہیں۔ انہیں روکنے کا کوئی حل نہیں ہے۔ پرماتما نے اور کچھ سمے تک زندہ رکھا، تو مجھے پوری امید ہے کہ آپ کے چرنوں میں میری پھر قسمت یاوری ضرور ہو گی۔
آپ بُرا نہ مانیں تو ایک درخواست اور کروں؟ میرے ہاتھ آ سکے اس نقطہ نظر سے آپ اگلی وجیادشمی کو مجھے صرف پانچ روپے بھیج دیں؟ میں انہیں اپنے پوجا گھر میں آنے والے سال کی مبارک امانت کے روپ میں رکھ کر پوجنا چاہتا ہوں۔
مہربانی بنی رہے۔
مخلص
(ڈی۔ جی۔ فالکے)
فالکے جی کے اس پتر کا میں نے جواب دیا۔۔۔
شریمان دادا صاحب، پیار بھرا نمسکار، آپ کی چِٹھی ملی۔ اندر سے نکلتے آپ کے احساسات کو میں اپنے لیے آپ جیسے تپسوی کی blessings مانتا ہوں۔
آپ کے دلی احساسات سے میں جذباتی ہو گیا ہوں۔ بہت اطمینان محسوس کر رہا ہوں۔ یہ سچ ہے کہ مجھے اپنے بارے میں ایسا لکھا جانا قطعی بھاتا نہیں لیکن آپ کے احساسات کی گہرائی دیکھ کر شائستگی سے قبول کرتا ہوں کہ ایسے بامعنی لفظوں کی ضرورت آدمی کو زندگی میں ضرور محسوس ہوتی ہے۔ آپ کے لفظوں نے مجھے وہ اطمینان فراہم کیا ہے، جو لاکھوں روپے خرچ کرنے پر بھی نہیں مل پاتا۔
اس سمے میں بہت جلدی میں ہوں۔ نئی فلم بنانے کی دوڑ دھوپ کررہا ہوں۔ ابھی ابھی آج کا کام مکمل کر تھکا ماندہ اوپر آیا اور میز پر رکھا آپ کا پتر کھول کر پڑھا۔ بہت اچھا لگا۔
لیکن آپ کو وجیادشمی کے دن ملے، ایسا انتظام کر آپ کو پانچ روپے بھیجنے اور انہیں پوجا گھر میں رکھ کر پوجنے کی جو بات آپ نے لکھی ہے مجھے کچھ عجیب و غریب لگی۔ آپ کو پانچ روپے بھیجوں یا نہ بھیجوں یہ کشمکش بھی من میں جاگ گئی۔ لیکن آپ کے احساسات کا احترام کرنے کے لیے میں نے طے کیا ہے کہ آپ کو وہ پانچ روپے (اور ساتھ ہی کچھ اور رقم بھی) بھیجوں گا۔ پھر بھی آپ سے درخواست ہے کہ آپ اسے پوجا گھر میں رکھ کر پوجا کا احترام نہ دیں۔ ہاں، آپ نے اپنے پتر میں میرے لیے جو احساسات ظاہر کیے ہیں، میں انہیں حاصل ہوے آشیرواد کے روپ میں اپنے پوجا گھر میں ضرور رکھ رہا ہوں۔
(وی۔ شانتارام)
کچھ عرصے سے میں زیادہ پڑھنے میں لگ گیا تھا۔ آج سینما کی تکنیکی کتابیں، تو کل نفسیات کی اور پرسوں فلسفہ، عمرانیات کی۔ اس طرح میں نے کافی سنجیدہ کتابیں پڑھ ڈالی تھیں۔ ان میں لکھی کئی باتیں شروع شروع میں ٹھیک سے سمجھ میں نہیں آتی تھیں، لیکن میں بار بار پڑھ کر ان کے معانی سمجھنے کی کوشش کرتا رہا۔
لیکن اس طرح گہرے سنجیدہ موضوعات کی کتابیں پڑھتے رہنے کے کارن کہانی کے لیے ضروری لطیف ادب پڑھنے کے لیے سمے نہیں مل رہا تھا۔ اس لیے میں نے ایک آدمی کو صرف اسی کام کے لیے کمپنی میں نوکری پر رکھ لیا۔ دن میں وہ انگریزی اور مراٹھی کہانیاں اور ناول پڑھتا اور ہر رات آٹھ ساڑھے آٹھ بجے ان کا خلاصہ مجھے سناتا تھا۔ کبھی کبھار کوئی کہانی مجھے بہت ہی اچھی لگتی، تو میں وہ کتاب منگوا کر خود پڑھ لیتا تھا۔ پھر ہم لوگ اس پر دل کھول کر بحث کرتے۔ یہ سلسلہ کئی برسوں تک میں نے جاری رکھا تھا۔ نتیجتاً ہمارے گھر میں رات کے ڈیڑھ دو بجے تک بتی گُل نہیں ہوتی تھی۔
ایک دن سویرے کمپنی کا الیکٹریشن یادَھو آیا اور ڈرتے سہمتے کہنے لگا کہ، “سبھی مالکوں کے بنگلوں پر کتنی بجلی خرچ ہوتی ہے، یہ معلوم کرنے کے لیے الیکٹرسٹی کے میٹر فِٹ کرنے ہیں۔”
مَیں جَھّلا اٹھا۔ اس سے پوچھا، “کس نے دیا ہے یہ حکم؟”
“داملے ماما نے۔”
“تبھی تو! تم ایسا کرو، یہ میٹر صرف میرے ہی بنگلے پر فِٹ کرنا باقی سب کے گھروں کی بتیاں رات نو دس بجے تک بند ہو ہی جاتی ہیں، تو دیگر مالکوں کے بنگلوں پر میٹر لگوانے کا خرچ کمپنی بے کار میں کیوں اٹھائے؟”
میرا وہ غصیلا روپ دیکھ کر یادَھو پل بھر بھی میرے سامنے ٹکا نہیں۔ وہ بھاگ کھڑا ہوا۔ بعد میں کسی کے بھی بنگلے پر میٹر نہیں لگا۔
اس طرح ناراضی پیدا کرنے والے چھوٹے موٹے واقعات لگ بھگ روز ہونے لگے تھے۔ پھر بھی ‘پربھات’ کی روشن روایت میں چار چاند لگانے والی نئی مثالی فلم بنانے کے اپنے فیصلہ پر میں ڈٹا رہا۔ اس کے علاوہ یہ بھی من ہی من طے کر لیا کہ داملے جی، فتے لال جی کی بھی اُن کے کاموں میں دلی مدد کروں گا اوران کی فلم کو کامیاب بنانے کے لیے ضروری ساری محنت انتہائی ایمانداری سے اور کبھی کبھار تھوڑی بے عزتی سہتے ہوے بھی کروں گا۔
مکڑی کے جال سی اٹھی اِن باتوں کو من سے نکال کر میں نے ‘گوپال کرشن’ کا سکرین پلے واشیکرن سے تیزی سے پورا لکھوا لیا۔ اب وہ سکرین پلے لکھنے میں کافی ترقی کر چکے تھے۔ پھر بھی لکیر سے ہٹ کر کچھ کرنے کا حوصلہ ابھی ان میں نہیں آیا تھا۔ ہماری اوریجنل خاموش فلم ‘گوپال کرشن’ کے برعکس اس فلم میں مَیں نے ایک سے زیادہ نئے سین رکھے۔ ایک سین تھا: رادھا کا پتی انیہ کرشن پر بہت ناراض ہو جاتا ہے اور اس کی مرلی کی آواز بند کرنے کے لیے اسے پتھر سے توڑ کر چُور چُور کر دیتا ہے۔ لیکن مرلی کے ایک ایک ٹکڑے میں جان آ جاتی ہے۔ سبھی ٹکڑے زندہ ہو کر الگ الگ سُر بجانے لگتے ہیں، ناچنے لگتے ہیں۔ اس طرح کے دیگر سین اس فلم میں رکھے اور آخر اس کی شوٹنگ شروع کر دی۔
داملے فتے لال کے لیے راجہ نے نے کو معاون مقرر کیا گیا تھا۔ لیکن خاص نازک اور پیچیدہ سین کی شوٹنگ کے سمے میں خود سیٹ پر موجود رہتا تھا۔ کبھی کبھی تو شوٹنگ کے دوران میں داملے جی، فتے لال جی کو بھی کچھ ہدایات دے دیتا۔ لیکن ایسا کرتے وقت بڑے پن سے انہیں کچھ سکھانے کا احساس کبھی ظاہر نہ ہو، اِس کی پوری احتیاط ضرور برتتا۔ اپنے آپ کو ان کا معاون مان کر صلاح دیتا۔ “داملے ماما، ذرا دیکھیے تو اس شاٹ کو اس طرح سے لیں تو کیسا رہےگا؟” ‘گوپال کرشن’ کی شوٹنگ باقاعدہ ڈھنگ سے چالو ہو گئی اور پھر سے میرا من نئے موضوع کی کھوج میں لگ گیا۔
لگ بھگ اسی سمے ہمارے خاندان پر ایک بڑی مصیبت آ پڑی:
میرے ایک چھوٹے بھائی رام کرشن کو ٹائفائیڈ ہو گیا۔ اس زمانے میں ٹائفائیڈ ایک لاعلاج روگ مانا جاتا تھا۔ رام کرشن کا علاج ہم پُونا کے سب سے بہترین ڈاکٹر سے کرا رہے تھے۔ لیکن اس کا بخار قابو میں نہیں آرہا تھا۔ وہ بے ہوش ہو گیا۔ آنکھیں پھاڑ کر بڑبڑانے لگا، جیسے سامنے کسی کو دیکھ رہا ہو۔ اس کی آنکھیں جھپکتیں تک نہیں تھیں۔ اُسے ایسی حالت میں دیکھ کر کلیجہ پھٹنے لگا۔ سارا منظر ناقابل برداشت ہو اٹھا۔ ڈاکٹر نے ساری امیدیں چھوڑ دیں۔ ماں ہمیشہ ہم پانچوں بھائیوں کو ‘پانچ پانڈو’ کہا کرتی تھیں۔ ان میں سے ایک اب نہیں رہے گا، یہ خیال بھی ہمارے لیے ناقابل برداشت ہو رہا تھا۔ اپنا دکھ سب سے چھپانے کے لیے مَیں اکیلا پچھواڑے میں آ کر آنکھیں پونچھتے کھڑا رہا۔ وہیں ماں بھی ایک کونے میں منہ چُھپا کر اپنا سینہ پیٹتی ہوئی رو رہی تھیں۔ اپنا رونا کسی کو بھی سنائی نہ دے، اِس لیے اُس نے ساڑھی کا پلو منھ میں ٹھونس رکھا تھا۔ اتنا نوجوان اور طاقتور بیٹا دیکھتے ہی دیکھتے اس دنیا سے سدا کے لیے جا رہا تھا۔۔۔ ماں کے دکھ کی حد نہ تھی۔ ایسے سمے میں اپنی ماں کی ماں بنا۔ اسے اپنی بانہوں میں بھر لیا اور سہلا کر سمجھانے کی کوشش کرنے لگا۔۔۔
رام کرشن کی جان بچانے کی ساری کوششیں بےکار رہیں۔ وہ ہم سب کو چھوڑ کر سدھار گیا۔ انتہائی دکھ سے میں رونے لگا۔ اب ماں میرے پاس آئی۔ مجھے دلاسہ دینے لگیں۔ رام کرشن موت کے وقت صرف بتیس سال کا تھا۔ وہ اپنے پیچھے تین بیٹیاں اور حاملہ بیوی چھوڑ گیا۔
رام کرشن شانت اور نرم فطرت کا آدمی تھا۔ وہ بس اپنے کام میں مست رہتا تھا۔ نا کسی سے لینا، نا کسی کا دینا۔ شروع میں ‘پربھات’ کے کیمیکل روم میں کام کرتا تھا۔ بعد میں پُونا آنے پر وہ اسی ڈیپارٹمنٹ کا ہیڈ ہو گیا تھا۔ کام میں وہ کمال کا ہنرمند تھا۔
اس کی موت کے فوراً بعد اور ایک دُکھی واقعہ ہو گیا۔ رام کرشن کی انتییشٹی (Funeral) سے لوٹتے سمے وِمل کے بھائی رام چندر کو بخار ہو گیا۔ وہ رام کرشن کے ڈیپارٹمنٹ میں ہی معاون تھا۔ تھا تو وہ وِمل کا بھائی، لیکن وِمل جب سسرال آئی تو یہ یتیم بچہ بھی اس کے ساتھ ہی ہمارے خاندان میں آ گیا تھا۔ اب تو ہمارے خاندان کا ہی ایک فرد بن گیا تھا۔ اُس سمے وہ صرف نو دس سال کا تھا۔ کبھی سوچتا ہوں تو حیران رہ جاتا ہوں کہ کتنے انسانیت پرست تھے میرے ماں اور باپو! اُن دنوں اُن کی معاشی حالت کیسی تھی! اور پھر بھی یہ سوچ کر کہ اپنی بہو کا بھائی یتیم رہ جائے گا، انہوں نے اُسے پیار سے قبول کر لیا تھا! یہی نہیں، اُسے کولہاپور کے اسکول میں بھی داخل کرا دیا تھا۔ آگے چل کر بڑا ہونے پر اسے میں نے ‘پربھات’ کے کیمیکل روم میں فلم پرنٹنگ کے کام پر رکھ لیا۔ اپنے کام میں وہ بہت ماہر تھا۔ اس کی شادی بھی میں نے اپنی موسیری (خالہ زاد) بہن کی لڑکی لِیلا سے کرا دی۔
رام کرشن کی انتییشٹی ختم کر لوٹتے سمے ہی رام کو جو تیز بخار چڑھا، اس کی تشخیص ڈاکٹروں نے ‘گردن توڑ بخار’ کی۔ اسے تپِ دق کی بیماری ہے۔ اِس دوران اُس کا بھی پتہ چل گیا۔ اسے فوراً ہی مِرج کے ‘مشنری ٹی۔ بی۔ اسپتال’ میں بھرتی کرایا گیا۔ اس کی پتنی لیلا اُس کی دیکھ بھال کے لیے اسپتال میں رہی۔ اس کی حالت بہت ہی گمبھیر ہونے کی خبر ملتے ہی میں اسے دیکھنے کے لیے مِرج گیا۔
رام بے ہوشی میں بھی ویسے ہی ہاتھ چلا رہا تھا جیسے پرنٹنگ مشین میں فلم بھرتے سمے چلاتا تھا۔ کم سے کم اِس رام کو تو بچا ہی لیا جائے، اس کے لیے کافی کوشش کی گئی۔ خوب خرچ کیا، لیکن اُسے بچایا نہ جا سکا۔
اکلوتا بھائی گزر جانے کے کارن وِمل کو بہت ہی دکھ ہوا۔
رام کرشن کی اچانک موت، اس پر وِمل کے بھائی کی وہ لمبی بیماری اور آخر میں موت کے کارن ہمارے پورے خاندان پر ڈیپریشن کے بادل چھا گئے۔ میں بھی اس سے اَچھوتا نہ رہ سکا۔
لیکن اس بار بھی دھیرج کے ساتھ مَیں پھر کھڑا ہو گیا۔ سخت رپٹیلی (پھسلن بھری) راہوں پر چلتے ہی رہنے، لگاتار آگے ہی بڑھتے رہنے کی اکھڑ فطرت کے کارن میں پھر جیون راہ پر رواں دواں ہو گیا۔