نعیمہ میں سوچ رہی تھی کہ اب ماہا کی شادی کر دوں۔۔ تم دیکھو کوئی رشتہ ہے تمہاری نظر میں تو بتاؤ۔۔ آج ان کے گھر میں ان کی ہمسائی نعیمہ آئی تھی جب سے وہ اس محلے میں آئے نعیمہ نے ان کا قدم قدم پہ ساتھ دیا تھا اب بھی ساجدہ چاہتی تھی کہ ماہا کی شادی ہو جائے آخر کو وہ اب ایم ایس سی کر چکی تھی تعلیم اس کی مکمل ہو چکی تھی اسی لیے اب چاہتی تگی کہ ایک بیٹی کو رخصت کر کے کم از کم اپنی آدھی زمہ داری سے تو فارغ ہو ہی جاتی اور اس سب کے لیے انہیں نعیمہ سے بہتر کوئی نہیں ملا تھا۔۔
ارے تم نے تو میری دل کی بات کہہ دی۔۔ میں بھی آج اسی مقصد کے لیے آئی تھی۔۔ نعیمہ بھی اب چائے کا خالی کپ رکھ کر سیدھی ہوئی۔۔
کیسی بات۔۔
عائزہ کے سسرال میں ان کے کسی رشتہ داروں میں سے کسی نے بات کی ہے مجھ سے اپنی ماہا کے بارے میں۔۔ عائزہ کی منگنی میں شاید دیکھا تھا انہوں نے اپنی ماہا کو۔۔ مجھے بھی کل پرسوں ہی انہوں نے مجھ سے رابطہ کیا ہے۔۔ ہائے قسم سے ساجدہ میں بتا رہی ہو میں۔۔ لڑکے کا اپنا بزنس مین ہے اپنا کماتا کھاتا ہے۔۔ اور فیملی بھی چھوٹی سی ہے۔۔ ایک بیٹا اور ایک بیٹی۔۔ بیٹی ابھی کالج میں پڑھتی ہے۔۔ اور چھوٹی بھی ہے۔۔ اپنی ماہا خوش رہے گی۔۔
نعیمہ نے ساری روداد الف سے یے تک ایک ہی سانس میں بیان کر دی تھی۔۔ عائزہ ان کی بیٹی تھی جس کی منگنی ابھی مہینہ قبل ہی ہوئی تھی۔۔ اور اسی کے سسرال میں سے کوئی رشتہ دار تھے۔۔
ارے واہ نعیمہ یہ تو بہت کمال کی بات کہی تم نے۔۔ میں تو پریشان ہو رہی تھی کہ کیسے ڈھونڈو گی۔۔ لیکن دیکھو میرے اللہ کی کرنی اس نے پہلے ہی کوئی سبب بنا دیا۔۔ تشکر کے احساس سے ہی ساجدہ کی آنکھیں نم ہو گئی تھی۔۔
لیکن ایک بات ہے ساجدہ۔۔
کیا۔۔
لڑکا رنگ میں مار کھاتا ہے۔۔ اب وہ اصل بات کہ طرف آئیں تھی جس کی وجہ سے وہ پرسوں سے بات کرتے ہوئے کترا رہی تھی۔۔
تو کیا ہوا نعیمہ۔۔ اب لڑکے کی جیب دیکھی جاتی ہے۔۔ اور جہاں اتنا سکھ چین ہے۔۔ وہاں کیا رنگوں کا امتیاز۔۔ ساجدہ کو یہ بات بلکل بھی قابل اعتراض نہ لگی تھی۔۔
بس پھر۔۔ کل ہی چلتے ہیں۔۔ نعیمہ تو ہتھیلی پہ سرسوں جمانا چاہتی تھی۔۔
نعیمہ کل ہی؟۔۔ اتنی جلدی؟۔۔
ہاں تو اور کیا۔۔ وہ تو چاہتی تھی آج ہی چلی جاؤ تم۔۔ لیکن میں نے سوچا آج بات کر لوں تو کل آ جائے گئے۔۔ اور ویسے بھی نیک کام میں دیری کیسی۔۔ نعیمہ کی بات نے ساجدہ لو سوچنے پہ مجبور کر دیا۔۔
بات تو وہ ٹھیک کہہ رہی تھی۔۔ کچھ دیر سوچنے کے بعد ساجدہ نے بھی ہاں کہہ دی۔۔
چلو ٹھیک ہے۔۔ کل دوپہر کے بعد کا وقت سے دو انکو۔۔ ایک گہرا سانس لے کر انہوں نھ سب اللہ کے حوالے کر دیا تھا۔۔
@@@
کیسے ہو برو۔۔ وہ ریسٹورنٹ میں بیٹھا تھا جب فائق نے اچانک اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔۔
ہاں۔۔ وہ اپنی سوچ میں اتنا غرق تھا کہ فائق کے ہاتھ رکھنے سے ایکدم چونکا۔۔
کیا ہوا ایسے کیا ڈر گئے ہو۔۔ میں نے پوچھا کیا کر رہے ہو۔۔ فائق بھی سب جانتا تھا کہ وہ اس ریسٹورنٹ میں روزانہ کیوں آتا ہے لیکن پھر بھی وہ آہان کے منہ سے سننا چاہتا تھا۔۔ اقرار تو وہ سن چکا تھا اب وہ بے تابیوں کے قصے سننے کا متمنی تھا۔۔
کچھ نہیں کیا ہونا ہے۔۔ چھٹیاں ختم ہونے والی ہیں تو سوچ رہا ہوں یادیں بنا جاؤ۔۔ بات کرتے کرتے بے اختیار اس کی نظر اس ٹیبل پہ گئی تھی جہاں وہ بیٹھتی تھی جو کہ افسوس پچھلے چار روز سے خالی ہی تھی۔۔ شاید وہ یہاں روز نہیں آتی تھی جبھی آہان کو مسلسل مایوسی ہو رہی تھی۔۔
اوہو۔۔ کیسی یادیں۔۔ اب وہ اسکی بے تابی کے مزے لے رہا تھا جس پہ آہان نے سنجیدہ اور سپاٹ نظروں سے اسے دیکھا۔۔
تجھے جیسے پتہ ہی نہیں ہے نا خبیث۔۔ اب بھی نظریں سپاٹ اس پہ گڑھی تھی جانتا تھا اپنے عزیَز از جان دوست کی خباثت کو۔۔
اوئے۔۔ یہ اس کے نہ آنے کا غصہ مجھ معصوم پہ مت نکال۔۔ فائق کہاں اپنی غلطی ماننے والا تھا الٹا اس پہ چڑھ دوڑا۔۔
بیٹا میں جس کا غصہ ہے اسی پہ نکال رہا ہوں اور تو۔۔ اور اس سے پہلے کے وہ اور کچھ کہتا ہے دائیں سائڈ پہ نسوانی ہنسی کی آواز گونجی تھی اور اس ہنسی کو تو وہ لاکھوں میں پہچان سکتا تھا۔۔ بے اختیار اس کی نظر اسی ٹیبل پہ گئی اور وہی تھم سی گئی تھی۔۔
وہ وہی پہ بیٹھی تھی۔۔ آج کتنے دنوں بعد وہ اسے دیکھ کر اپنی آنکھوں کی پیاس بجھا رہا تھا۔۔ اسے سچ میں محسوس ہو رہا تھا جیسے وقت رک تو نہیں پر شاید بہت سست رفتار سے بڑھ رہا ہے۔۔ وہ بھول گیا تھا کہ وہ ابھی کچھ دیر پہلے کتنا فرسٹیٹڈ تھا جو فائق پہ غصہ کر رہا تھا۔۔
اسے کچھ ہوش نہیں تھا کہ ارد گرد کون بیٹھا ہے۔۔ اور فائق اب اسے کیسے مسکرا کر اسکی دیوانگی دیکھ رہا ہے۔۔ اس کے لیے تو جیسے سب کچھ رک گیا تھا۔۔ پاز ہو گیا تھا۔۔ سائڈ سے سب کچھ وینش ہو گیا تھا۔۔ ایک سفید دھویں میں اب صرف وہ تھا اور اسکی حور۔۔
آہان۔۔۔ آہان۔۔ فائق جو تب سے آہان کو آوازیں دے رہا تھا لیکن وہ صمُٗ بکمُٗ بنا یک ٹک ایک ہی جگہ لو دیکھ رہا تھا مجبوراً فائق قدرے اونچی آواز میں بول کر اسکا کندھا ہلایا۔۔ وہ جو اپنی فینٹسی میں کھویا ہوا تھا فائق کے کندھا ہلانے پہ چونکا۔۔
کیا ہے۔۔ جنجھلا کر جواب آیا۔۔ کیونکہ وہ اس وقت تو کم از کم خلل نہ چاہتا تھا۔۔
کچھ تو خیال کر یار اردگرد لوگ ہیں۔۔ تیری دیوانگی تیرے لیے اچھی نہیں خوامخاں لوگوں سے کٹ کھائے گا۔۔ فائق اسے سمجھا رہا تھا جو شاید ابھی سمجھنے سے قاصر تھا
ہاں۔۔ ایویں کٹ کھاؤں گا۔۔ اتنے سال جان ماری ہے فوج میں۔۔ اب کٹ کھاؤں گا نہیں کھلاؤں گا۔۔ آہان نے فخریہ انداز میں کالر جھاڑے۔۔
ارے جلدی جاؤ وہ اٹھنے لگی ہے۔۔ انکو اٹھتا دیکھ کر فائق نے اسے متوجہ کیا۔۔
کہاں جاؤں۔۔
دل کی بات دل میں ہی رکھو گے۔۔ جاؤ جا کر بولو۔۔ فائق کا دل کیا اسکی عقل پہ ماتم کرے۔۔
یار میں کیا بولوں گا۔۔
یہی بہن جی کہ آپکی شادی پہ ٹینٹنگ کا کام ہو تو بتائیے گا میں سر انجام دوں گا۔۔ فائق کا دل کیا سامنے بیٹھے شخص کا سر پھاڑ دے۔۔
ابے الو کے پٹھے۔۔ جا جا کر بول اس سے کہ تو اس سے شادی کرنا چاہتا تھا اور دیوانگی کی حد تک چاہتا ہے۔۔ اگر اب نہیں بولو گے نا تو چھٹیوں کے بعد جب اگلی چھٹیوں پہ آؤ گے تو تیار رہنا اس کے بچوں کے ماموں بننے کے لیے۔۔ فائق کا دل کر رہا تھا آہان کو ایک لگا ہی دے۔۔ کہیں سے نہیں لگ رہا تھا اسے سوارڈ آف انر ملا ہوا ہے۔۔
لیکن یار۔۔ وہ ابھی بھی کنفیوزڈ تھا۔۔
اٹھ۔۔ اٹھ۔۔ اتنی موٹیویشن کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا تو فائق نے بمشکل اسے اٹھا کر کھڑا کر کے اس کے سامنے کیا۔۔ وہ جو مینٹلی طور پہ بلکل بھی پریپیئرڈ نہیں تھا یوں اچانک کھڑے ہونے پہ گھبرا گیا۔۔ سامنے سے ہی وہ فون پہ ٹائپ کرتی آ رہی تھی۔۔
اسکے قریب آنے پہ اس نے اپنا گلا کھنکھارا۔۔ چہرے پہ ہوائیاں صاف اڑی ہوئی تھی۔۔
اسلام علیکم میں آرمی میں ہوں۔۔ اس کے قریب آنے پہ وہ کنفیوزڈ سا اتنا ہی بولا۔۔ آجر اس کا پہلا پروپوزل بلکہ پہلی بار کسی لڑکی سے ملاقات تھی اور وہ اللہ کا نیک بندہ پہلی ہی ملاقات میں سیدھا پیشے پہ آ گیا تھا۔۔ پیچھے بیٹھے فائق نے اپنے سر پہ ہاتھ مارا۔۔
الو کا۔۔ ہونٹوں سے گالی نکلنے کو بے تاب جسے اس نے مشکل سے ہی روکا۔۔
وہ جو سیدھی اپنے دھیان میں چل رہی تھی یوں اچانک کسی کے سامنے آ جانے پہ اگر اپنے قدم نہ روکتی تو اس کے سینے سےایک دھماکے دار تصادم متوقع تھا۔۔ ابھی وہ اس کے سامنے یوں اچانک آ جانے کے شاک سے نہ نکل تھی کہ سامنے سے ایسی بکواس۔۔ حور کا تو سن کر میٹر گھوم گیا۔۔
تو کیا چاہتے ہیں آپ۔۔ اکیس توپوں کی سلامی دوں آپ کو یا سلیوٹ پیش کروں؟۔۔ وہ جو اس کی خاموشی سے ہمت باندھتا بولنے کو مزید الفاظ ڈھونڈ رہا تھا اسکی بات سن کر پہلے حیران اور پھر مزید کنفیوز ہو گیا تھا۔۔
نہیں نہیں وہ۔۔ ابھی وہ ہکلاہٹ میں کچھ بولنے ہی لگا تھا حور نے اس کی بات پھر سے کاٹ دی۔۔
وہ وہ کیا۔۔ ماشاءاللہ سے ایسے معتبر پیشے سے تعلق ہے آپ کا لیکن مجال ہے جو اپنے ٹھرک پن میں آپ نے اسکا بھی لحاظ کیا ہو۔۔ ماتھے پہ تیوری چڑھائی وہ اسے گھور رہی تھی۔۔
آئندہ میرے راستے میں یوں مت آنا۔۔ میں اینا ٹینا نہیں جو تم جیسے لوگوں کی راہ میں بچھی جاتی ہے۔۔ خبیث نہ ہو تو اپنے پیشے کا بھی خیال نہیں کرتے تم لوگ۔۔ ابھی منہ سے بتا رہی ہو۔۔ اگلی بار ایسا سبق سکھاؤں گی کہ یاد رکھو گئے۔۔ اسے انگلی سے وارن کرتی وہ سائڈ سے نکلتی چلی گئی تھی۔۔ مشعل اور ردا تو پہلے ہی جا چکی تھی۔۔ جبکہ وہ ہکا بکا سا پیچھے کھڑا ریسٹورنٹ میں بیٹھے لوگوں سے نظریں چرا رہا تھا۔۔
@@@
سب تیرا قصور ہے۔۔ وہ گاڑی میں بیٹھے تھے جب آہان نے لبوں کو جنبش دی۔۔ نظریں سامنے روڈ پہ تھی۔۔
کیا مطلب۔۔
نہ تو مجھے آگے کرتا نہ میرا ایمج اسکے سامنے برا بنتا نہ وہ مجھے یوں ذلیل کر کے جاتی۔۔ آہان کو تو رہ رہ کر اپنی عزت محسوس ہو رہی تھی جو وہ بھرے مجمع میں کر کے گئی تھی وہ تو سوچ بیٹھا تھا دوبارہ اس ریسٹورنٹ میں نہیں جائے گا۔۔ اور اس سب کا قصوروار اسکی نظر میں صرف فائق تھا۔۔
میری غلطی۔۔ فائق کو شاک ہی تو لگا تھا۔۔
اوہ بھائی۔۔ تیری اپنی غلطی تھی۔۔ تجھے کس بے وقوف نے کہا تھا پہلی ہی ملاقات میں بلکہ پہلی ہی بات پیشے کی کر۔۔ اور وہ بھی وہ پیشہ جس کو وہ ایز آ ہزبنڈ پسند نہیں کرتی۔۔ ساری تیری زبان کی غلطی ہے۔۔ فائق کو بھی کہاں گوارہ تھا خود پہ بات لینا۔۔
اچھا بس۔۔ آئندہ میں اس کے پاس جاؤں گا ہی نہیں۔۔
نہایت ہی بزدلانہ فیصلہ ہے۔۔ بجائت تو اسے ایز آ چیلنج ایکسپٹ کر۔۔ ابھی وہ بات کر ہی رہا تھا جب اسکی نات کو آہان نے بیچ میں ہی ٹوکا۔۔
Shut up Faiq۔۔ She is my love not a challenge۔۔
وہ غصے سے اسے گھور رہا تھا۔۔ اور وہی فائق کو اس کی شدت کا اندازہ ہو گیا۔۔
اوکے ریلیکس۔۔ آئم سوری۔۔ اپنے کانوں کو ہاتھ لگاتا وہ واقعی نادم تھا جبکہ آہان نے غصے منہ موڑلیا تھا۔۔ ابھی وہ فائق سے کوئی بھی بات نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔
@@@
اماں کہاں جا رہی ہیں۔۔ وہ یونی سے واپس آئی تھی آج بھی تھوڑی لیٹ ہو گئی تھی اس لیے جو گرج چمک وہ اماں کے نادلوں سے متوقع کر رہی تھی۔۔ وہ آج دروازے پہ اسے نہ ملا تھا۔۔ بلکہ الٹا وہ اسے تیار ہوتی نظر آ رہی تھی۔۔ وہ سوائے نعیمہ خالی کے علاوہ کسی کے گھر نہیں جاتی تھی اور ان کے گھر جانےکےلیے ایسا اہتمام۔ بھی کبھی نہیں ہوا تھا اس لیے حور کا متجسس ہونا لازم تھا۔۔
لو میں تمہارا ہی انتظار کر رہی تھی۔۔ حور کی آنے پہ انہوں نے بڑے پیار سے اس سے بات کی
۔ حور تو ایکدم حیران ہو گئی۔۔ اماں کا یہ روپ کہاں دیکھا تھا اس نے۔۔
اچھا میری جان میں ذرا نعیمہ کے ساتھ جا رہی ہوں۔۔ ماہاکے لیے رشتہ دیکھنے۔۔ تم پیچھے اپنا اور ماہا کا خیال رکھنا۔۔ اور بہن لو تنگ نہیں کرنا۔۔ ٹھیک ہے نا۔۔ واپسی پہ کوئی شکایت نہ سنوں۔۔ ٹھیک ہےنا۔۔ اسکی ٹھوڑی کو پیار سے چھوتی وہ دروازے کی جانب بڑھ گئی۔۔ اقر وہ جو اماں کے طرز مخاطب پہ حیران ہو رہی تھی رشتے والی بات سن کر ایکدم خوش ہو گئی۔۔
یہ بھی یاد نہ رہا کہ اماں نے ابھی اسکی ٹھوڑی بھی پیار سے چھوئی ہے۔۔ پہلے ماہا کی طرف دیکھا جس کےچہرے پہ شرمیلی اور دھیمی مسکراہٹ سجی تھی۔۔ پھر اچانک اس کے گلے آ لگی۔۔
ارے میری پیاری بہنا۔۔ بنے گی دلہنیا۔۔ ماہا جو حور کے چہرے کے اتار چڑھاؤ کو دیکھ رہی تھی اچانک اس کے گلے لگنے سے گرتے گرتےبچی۔۔ لیک وہاں پرواہ کسے تھی وہ مسلسل خوشی سے اپنا بے سرا راگ الاپ رہی تھی اور ماہا کی مسکراہٹ پہلے ہنسی میں اور پھر قہقہے میں تبدیل ہو گئی۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...