(Last Updated On: )
ڈاکٹر اسفند آپ سے کچھ بات کرنا چاہتی ہوں ۔
اس کے ساتھ کوریڑور چلتے آہستہ سے کہا وہ ایک مہنے سے اس ازیت سے گزر رہی تھی نجات پانا چاہتی تھی
بات تو مجھے بھی آپ سے کرنی ہے وہ اپنے کمرے کے سامنے رکا بغر چونک بولا وہ جلدی سے سوچنے لگی انہوں نے کیا بات کرنی ہے ۔
اگر آپ برا نہ مانے تو پہلے میں بات کر لوں؟ وہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا وہ بھی پیچھے پیچھے ابھی بات شروع نہیں ہوئی اس کی ہارٹ بیٹ تیز ہو گئی ۔کتنی مشکل سے اس نے ہمت جمع کی تھی اب وہ پتہ نہیں کیا کہنے والا ہے پتہ نہیں اس کی بات کے بعد بولنے کی ہمت رہے گی کے نہیں ۔اس نے بیٹھنے کا، اشارہ کیا بیٹھ گئی ۔
بی جان پوچھ رہی تھی کے آپ کی یہ پھر کب آئے گی وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا
جی ؟اس کی بات اس کے سر سے گزر گئی تھی
سنا ہے آپ ان سے پھر کبھی انے کا وعدہ کر کے آئی تھی وہی پھر کب آئے گی پوچھ رہی تھی ۔
وہ اتنی حیران ہوئی کہ کچھ بول نہیں پائی۔ہسپتال میں گھریلو بات وہ بھی جونیئر سے
اتنی حیران کیوں ہو رہی ہو آپ کہہ کر آئی تھی نا اس کے بے وقوفوں کی طرح گردن ہلا دینے پر بولا
ٹھیک ہے پھر آج آپ وہاں آ رہی ہیں آٹھ بجے آپ کی ڈیوٹی آف ہو گئی میں ڈرائیوز بھیجوں گا ۔
وہ انٹر کام اٹھا، کر ڈاکٹر شہاب کو اندر آنے کا کہنے لگااسے بیٹھا دیکھ کر حیرانی سے بولا
اب آپ جائیں اپنا کام کیجئیے
ڈاکٹر اسفند، یہ رہی ساری رپورٹیں ڈاکٹر شہاب اندر داخل ہوتے ہوئے بولے۔وہ خاموشی سے اٹھ کھڑی ہوئی انہیں پتہ نہیں میں نے بھی بات کرنی تھی شاید اسی لیے گھر بلوایا ہے یہاں وہ بات کسی کو نہیں بتائی یقینا چھپانا چاہتے ہیں اسی لیے گھر کا بولا
ٹھیک آٹھ بجے ڈرائیور اسے لینے آ، گیا ملازم کے ساتھ اندر داخل ہوئی گیتی آرا نے استقبال کیا
اسفی نے تمارے آنے کا بتایا تو بہت خوشی ہوئی کشمالہ تو اسفی سے جھگڑا کر چکی کے آپ کی وجہ سے ہماری زوبیہ آپی یہاں نہیں آتی۔اس نے شرمندگی سے سر جھکا لیا ۔
تھوڑی دیر میں بی جا بھی آ گئی ان کی گفتگو کا موضوع کشمالہ صائم اور اسفند تھے
آرام سے بیٹھو سردی تو نہیں لگ رہی؟ اسے بلا کر خود پتہ نہیں کدھر گم ہو گیا ۔وہ اسکی غیر موجودگی سے بدمزہ ہوئی۔ملازم نے کھانا لگ جانے کی اطلاع دی
گیتی بولی اسفی کو بھی بلا لو اس پر نظر پڑی تو وضاحت دینے لگی کے اسکے کچھ مہمان آئے تھے وہی کمپیوٹر پر بیٹھ گیا کہہ رہا تھا کھانا لگ جائے تو بلا لینا ۔
وہ اندر داخل ہوا زوبیہ نے اسے سلام دیا وہ کھانے کے ٹیبل پر کرسی کھنچے ہوئے سلام کا جواب دیا۔وہ کھانے میں ایسے مگن ہوا جیسے دن بھر کچھ کھایا نہیں تھا بی جان اور گیتی اس کی تواضع میں مصروف تھیں ۔
یہ چکن ٹرائی کرو اسفسی کو بہت پسند ہے میرے ہاتھ کی۔
یہ فروٹ سلاد
اسفند نے کھانے کے دوران ایک دو بار سرا اٹھایا وہ بھی بی جان کی بات کا جواب دینے کے لیے۔ اس کا یہ رویہ اسے بہت برا لگا
_________
خود بلا کر اسے ظاہر کر رہا ہے جیسے میں منہ اٹھا کر خود چلی آئی ہوں۔کھانے سے فارغ ہو کر سب لاونچ میں آ گئے کافی ختم کرتے ہی وہ جانے کو کھڑی ہو گئی ۔وہ فون میں کسی سے بات کر رہا تھا ۔اسے جاتا دیکھ کر ایک دم خدا حافظ کر کے ریسیور رکھ دیا۔
آئیں میں آپ کو باہر تک چھوڑ دوں بی جان روکنے کا اصرار کر رہی تھی اور بیٹا بھجنے پر تیار تھا ۔ان سے دو بارہ آنے کا بول کر اس کے ساتھ باہر نکل آ ئی۔چپ چاپ دونوں مرکزی گیٹ سے باہر آئے۔آپ کیا کہنا چاہتی تھی؟ دونوں ہاتھ پینٹ کی جیب میں ڈالے لاپرواہ انداز میں بولا
وہ جو اب تک مکمل مایوس ہو چکی تھی ایک دم چونکی۔
میں وہ اس دن کے بارے میں بڑی مشکل سے الفاظ ڈھونڈ رہی تھی آپ پتہ نہیں کیا سمجھے کیا سوچا کیا ہو گا
وہ رک کر اس کی آنکھوں میں دیکھنے لگاوہ اسکی طرف دیکھنے سے گریز کر رہی تھی ۔
میں تو ہر وقت ہی کچھ نہ کچھ سوچتا رہتا ہوں ہر نارمل آدمی سوچتا ہے۔
پلیز ڈاکٹر اسفند وہ کچھ دیر اسے خاموشی سے دیکھتا رہا ۔
آپ بہت اچھی ہیں زوبیہ آپ کو کوئی بات ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہے ہم سب آپ کو جانتے ہیں اچھی کو کسی گواہی کی ضرورت نہیں ہوتی سنجیدگی کے ساتھ نامحسوس اپنائیت تھی لہجے میں ۔آپ کو یہاں اپائیٹ کا فیصلہ میرا تھا میں اپنے فیصلے سے مطمئن ہوں وہ آنسو بھری نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھی جو اس کے سامنے کھڑا ہمیشہ سے مختلف تھا ۔ڈاکٹر آصفہ اور ڈاکٹر شہزور آپ کے مقابلے میں ایک اور کو چن رہے تھے مگر آج وہ میرے فیصلے کو دار دیتے ہیں ۔
آپ میں مجھے ہمددر اچھا انسان نظر آیا تھا جیسا سوچا آپ ویسی ہی ہوآپ میں کچھ خامیاں تھی ادھر مریض کی حالت بگڑی ادھر آپ کے ہاتھ کانپ رہے مگر یہ وقت کے ساتھ ٹھیک ہو جاتا ہے مگر آپ کی خوبیاں آپ کے بہت کام آئیں گی۔آپ کا خلوص بھر رویہ آپ کے کامیاب ہیتھار ہیں ۔وہ اتنے کھلے دل سے تعریف کر رہا تھا جو بڑے سے بڑوں کو خاطر میں نہیں لاتا تھا ۔آپ اچھی ڈاکٹر اچھی انسان اور اچھی کک بھی ہیں گلاب جامن قورمہ بہت اچھا بناتی ہیں دونوں بہت آہستہ چل قدمی کر رہے تھے وہ حیران ظاہری بات ہے الله نے مکمل کسی کو نہیں بنایا سب میں کچھ نا کچھ کمی ہے
آپ میں دو بڑی خامیاں ہیں جو خوبیوں پر بھاری پڑ جاتی ہیں وہ یہ ہیں ایک عقل سے کام نہیں لیتی دوسرا جلد بازی سے کام لیتی ہو۔ان پر قابو پا لو تو آپ جیسا انسان ڈھونڈنے سے نہیں ملے گا ۔ڈرائیور نے ان کو آتا دیکھ کر گاڑی کا دروازہ کھول دیا۔آپ دوبارہ مجھے رات کو اکیلی مردوں کے وارڈ میں نظر آئی تو میں بھی عقل سائیڈ رکھ دوں گا ڈرائیور کو گاڑی اسٹاٹ کا اشارہ کر کے اسے بیٹھنے کا کیا ۔آپ بہت اچھی ہیں زوبیہ سب جانتے ہیں کتنے پرانے زخموں کو مرہم لگ گئی اس الفاط سے کتنے سالوں بعد کسی نے اسے اچھا کہا تھا کتنے عرصے بعد آج سکون سے سوئی جیسے بوجھ اتر گیا ہو۔صبع اچھل کر اٹھی کمبل پھینکتے ہوئے آئینے کے سامنے آپ بہت اچھی ہیں زوبیہ اپنی حرکت پر خود ہی ہنس پڑی۔
جلدی سے تیار ہو کر نکلی تو شہباز نے گھاس کاٹنا چھوڑ کر اس سے مخاطب ہوا امی کے جوڑوں میں درد تھا وہ شہباز سے بات کر کے اندر داخل ہوئی تو ڈاکٹر آسفہ ڈاکٹر شہزور اور اسفندوہاں موجود تھے وہ دس منٹ لیٹ تھی اس پر اسفند نے اچھی خاصی کلاس لی وہ بھی ان دونوں کے سامنے ڈانٹ کر وہ کمرے میں چلا گیا
شہاب ڈاکٹر نے حیران ہو کر پوچھا آج آپ ڈانٹ کھا کر پرسکون ہیں پہلے تو کئ گھنٹے موڈ آف رہتا تھا لگتا ہے آپ کو بھی اب عادت ہو گئی ہے ۔
وہ ہنس پڑی۔
____________
خالہ امی کا خط آیا تھا شہلا کی شادی ہو رہی ہے لڑکے کی دبئ جاب ہے اسے شادی کا سن کر بہت خوشی ہوئی ۔کتنی فکر مند تھی خالہ انہوں نے شادی میں شرکت کی دعوت دی۔وہ اوپر سے لکھ تو دیا مگر دل میں ہو گا نہ آئے بہو بیٹے کے رویے کی وجہ سے یہ سب سوچ کر جواب میں اس نے رقم بھجوا دی اس کا اور تھا کون جس پر خرچ کرتی۔
ڈاکٹر آصفہ اور ان کے شوہر امریکہ بیٹی سے ملنے چلے گئے ۔وہ آئے تو اسفند امریکہ چلا گیا ۔
________________
اس روز صائم کا فون آیا وہ خوش کے ساتھ حیران بھی ہوئی۔ کہاں سے فون کر رہے ہو؟
جناب یہی سے بات کر رہا ہوں اگزمیز کے بعد لمبی چھٹی آیا ہوں
اس نے صائم سے تو کچھ نہیں کہا ڈیوٹی ختم ہوتے ہی ان کے گھر آ گی۔کشمالہ کے بغیر عجیب سا لگ رہا تھا ۔وہ بی جان اور گیتی کے پاس بیٹھنے لگی تو صائم اسے اپنا میوزک سسٹم دکھانے اپنے کمرے لے گیا ۔لالہ نے گفٹ کیا ہے برتھ ڈے کا کشمالہ بھی جلد نازل ہونے والی ہے بول رہی تھی جلد آئے گی۔یہ تمارے پاپا کی تصویر ہے دیوار پر لگی فہملی فوٹو میں پوچھا وہ مختصر بولا ۔۔جی۔۔
دیوار پر ایک اور تصویر تھی اسفند اور شیر خان کی دونوں بھائی ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرا رہے تھے زوبیہ اپی لالہ اور پاپا میں بہت پیار تھا پاپا پولو کھلتے تھے لالہ اب مجھے بھی سکھا رہے ہیں میں بالکل لالہ جیسا بننا چاہتا ہوں ان کی طرح بے خوف پر اعتماد نڈر
وہ اسے دیکھنے لگی پاپا اچھے تھے مگر لالہ جیسے بہادر نہیں تھے میں لالہ جیسا بہادر بننا چاہتا ہوں ۔ایسا لگ رہا تھا کہ صائم اپنے باپ سے کسی بات سے خفا ہے وہ پوچھ کر اسے دکھی نہیں کرنا چاہتی تھی ۔اچھا غصہ میں بھی ان کی طرح بننا چاہتے ہو وہ بولا ہاں
پھر تو ہماری دوستی کچھ ہی عرصہ چلے گی۔پھر تو صائم صاحب غصے والے ہوں گے وہاں جا کر بنا کھانے کے واپس سوال نہیں پیدا ہوتا بی جان کے اسرار پر کھانا کھا کر اس بار اس کے دل میں ڈر نہیں تھا کوئی بھی ۔۔۔
حجت اور اس کی ساس اسپتال ان کا چیک اپ کر کے فارغ ہوئی تو ڈاکٹر آصفہ وہی آ گئی پتہ نہیں اس کی کس بات سے انہیں لگا کہ وہ خوش ہے ۔آپ کو کیسے پتہ ۔؟تمہارے چہرے کی مسکراہٹ بتا رہی ہے ۔صیحع پہچانا آپ نے اصل میں حجت کی وجہ سے خوش ہوں ابھی چیک اپ کیا وہ امید سے ہے ساس بھی اب اس کا خیال کر رہی تھی تو تم اس کی خوشی میں خوش ہو۔اس کی ساس کو سمجھایا تو وعدہ کر گئی کے اب بیٹے کو بھی نہیں مارنے دے گی۔وہ اپنی کوشش سے اس کی ساس کو موم کرنے میں کامیاب ہوئی تھی اپنی کامیابی پر خوش تھی ۔
اسفندیار واپس آ گیا تھا اس کے ساتھ ڈاکٹر کی ایک ٹیم بھی تھی ۔انکو اسفندیار نے اپنے گھر مہمان رکھا وہ اتے ہی لوگوں کی معلومات اکھٹی کرنی شروع کر دی ۔یہ معزور بندہ میری کلاس سے ایک سال اگے تھا ہیلینا نے خود ہی اسکی حیرت دور کر دی وہ اس کو علاقے کی عورتوں سے ملوانے لےگی جبھی رستے میں اس نے بتایا ۔
بہت لڑکیاں مرتی تھی مگر مجال ہے کسی کو منہ لگائے۔اب ہینڈسم اوپر سے پراوڑ لڑکیاں پاگل تو ہوں گی ۔اسکی ایک کلاس فیلو اس کے لیے مسلمان ہونے کو تیار تھی جب اس نے پاکستان آنے کا فیصلہ کیا اس نے مارے دکھ کے نیند کی گولیاں کھا، لی تھی ۔قسمت اچھی تھی بچ گئی ۔ہماری لڑکیاں مشرقی لڑکے پسند کرتی ہیں اور اسفند کی طرح ہو تو کیا ہی بات ہے مگر یہ میرے علاوہ کسی سے بات نہیں کرتا مگر حیرت ہے اسکی ابھی تک شادی نہیں ہوئی اس وقت تک تو انگیجمنٹ ہوئی تھی ۔اس نے مجھے بتایا تھا اس کی منگنی ہو چکی ہے اپنی کزن سے اسے پسند بھی کرتا ہے اور یہ کے اسے کسی فارنر لڑکی میں کوئی دلچسپی نہیں پھر میں پڑھائی کے بعد سوئزرلینڈ چلی گئی پھر رابطہ نہیں ہوااب پوچھا تو ٹال گیا۔
وہ چپکر کے اس کی باتیں سن رہی تھی اسفندیار کا زکرکرتے اس کے چہرے پر جو رنگ آ رہے تھے اس کا بے ساختہ دل چاہا اس سے پوچھے
ڈاکٹر ہیلینا آپ نے اب تک کیوں نہیں کی شادی؟
ان لوگوں کے آنے سے سب روٹین بدل گئیں تھی وہ جو شوق سے کام کرتی اب بوجھ لگنے لگ گیا تھا ۔ان لوگوں کے جانے کے آخری روز سب کو ڈنر پر اہتمام کیا جس میں سب ڈاکٹربھی تھے وہ پچھلی بار کی طرح خاص ان وائیٹ کی منتظر نہیں تھی اس سے ایسی امید نہیں کی جا سکتی مگر اسے حیرت کا جھٹکا تب لگا جب اسفند خود اس کے کمرے میں آیا رات کو ہونے والی دعوت کا بلاوا دیا۔سنا ہے آپ میری انواہیٹیشن پر آنا چاہتی چاہئے بی جان کی نہ ہو آپ بیمار پڑ جاتی ہیں ۔وہ دیکھتی رہ گئی وہ کمرے سے چلا گیا
وہ ڈاکٹر تاجدار اور راضیہ سسٹر کے ساتھ ان کے گھر آئی تھی ۔سب سے سلام دعا کے بعد وہ ایک کونے میں بیٹھ گئی ۔سب خوش گپیوں میں لگے وہ بے دلی سے کھانا کھا رہی تھی ۔
آپ بہت خاموش ہیں لگتا ہے بور ہو رہی ہیں ۔وہ اچانک ہی اس کے پاس آ گیا ۔شاید میزبانی نبھانے کی خاطر۔
نہیں بور نہیں ہو رہی۔وہ بہت غور سے اسکی طرف دیکھ رہا تھا ۔
کچھ پریشان ہیں؟
وہ اس بات پر بے اختیار چونک گئی اب جواب میں کچھ بول بھی نہیں پائی تھی کہ ڈاکٹر آصفہ وہاں آ گئی ۔بی جان کے کھانوں کی تعریف شروع کر دی۔گفتگو کا رخ خودبخود بدل گیا ۔ان لوگوں کے جانے کے بعد بھی وہ الجھی ہوئی تھی ۔کوئی بات تھی جو اسے مسلسل ڈسٹرب کر رہی تھی ۔
________________
صبع وہ ہاسٹل سے تیز رفتاری سے نکلی باغ سے گزرتی ہوئی جیسے ہی وہ دروازے میں داخل ہونے والی تھی کے کسی چیز سے ٹھوکر کھا کر گر پڑی اور سر پکڑ کر بیٹھ گئی ہاتھ سے خون بہتا دیکھ کر جلدی اٹھ گئی ۔کشمالہ کی پہنائی چوڑیاں اسے خاصا زخمی کر چکی تھی۔اس کا دل رکھنے کے لئے پہنی تھی اب تقریباً ساری ٹوٹ چکی تھی ۔
کوریڈ میں ڈاکٹر اسفندیار اور ڈاکٹر شہزور باتیں کر رہے تھے وہ اپنی کلائی تھامے چلتے چلتے انہیں سلام کیا۔ڈاکٹر شہزور تو مگن تھے مگر اسفند کی نظر اس کی کلائی پر پڑ گئی ۔معاف کیجئیے گا میں ابھی اتا ہوں ۔
وہ اس کے پیچھے آیا وہ جلدی فرسٹ ایڈ کا سامان جمع کر رہی تھی ۔
کیا ہوا ہے ہاتھ میں؟
اس نے ایک دم ہاتھ نیچے کر لیا
ادھر آئیں مجھے دکھائیں کیا ہوا ہے وہ اس کے سامنے رکھی کرسی پر بیٹھ گئی ۔
کہاں سے چوٹ لگی ہے؟
کلائی کی بڑی فکر مندی سے دیکھتے ہوئے پوچھا
پیر سلپ ہو گیا تھا اس کے جواب سن کر کاٹن سے صاف کرنے لگا۔اور کانچ بھی چھبے ہوئے نکال رہا تھا تکلیف کی شدت سے آنکھوں سے آنسو نکل آئے تھے ۔دانت دبا کر برداشت کرنے کی کوشش کر رہی تھی ۔
شکر ہے زخم گہرا نہیں ہے ۔اسکی طرف دیکھ کر بولا بہت تکلیف ہو رہی ہے ۔آنکھوں میں آنسو دیکھ کر پوچھااس نے تکلیف کے باوجود نفی میں سر ہلا دیا۔وہ اس کے سر ہلانے پر ہنس پڑا۔
اس کے اس طرح آ جانے پر حیرت ہو رہی تھی ۔وہ اس کے جھکے سر کو دیکھے جا رہی تھی ۔وہ بینڈیج کر کے سنجیدگی سے پوچھنے لگا اور تو کہیں چوٹ نہیں لگی۔؟
اس نے نفی میں سر ہلا دیا
آپ اتنی ویک کیوں ہو رہی ہیں؟
لگتا ہے کھانا پینا ٹھیک سے نہیں کھا رہی ۔
ناشتہ کیا تھا؟
اگر سچ بول دیتی تو مزید شامت آجاتی ناشتے کے نام پر ایک کپ چائے پیا ہو گا وہ اس کے بولنے سے پہلے بول پڑا۔
پڑھے لکھے جاہل ایسے ہی ہوتے اس پتہ نہیں کیسے پتہ چل گیا کے ناشتہ خاص نہیں کر کے آئی۔
کیا خانساماں کھانا اچھا نہیں بناتا؟
نہیں کھانا اچھا ہوتا ہے ۔وہ جلدی سے سر اٹھا کر بولی کے بے چارے خانساماں کی کھنچائی نہ ہو جائے ۔
اگر کچھ اچھا نہیں لگتا تو مرضی سے بنوا کر الگ کھا لیا کرو۔اپنے پسند کے حساب سے اسے سمجھا دو۔وہ اس کے اسطرح بولے جانے پر بہت حیران تھی ۔اس نے اتنی دیر سے ابھی تک اس کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا ۔اسے عجیب سی گھبراہٹ محسوس ہو رہی تھی ۔گھبراہٹ میں اپنا ہاتھ گیسٹا تو اس نے فورا چھوڑ دیا۔
آپ آرام کو مگر پہلے کچھ کھا لو ۔
میں ٹھیک ہوں بالکل وہ اسکی آنکھوں میں دیکھنے سے گریز کرتے ہوئے بولی۔آپ کو بہت شوق ہے ہسپتال کا بوجھ کندھوں پر اٹھانے کا ہم سب ظالم ہیں بیماری تکلیف میں بھی کام کروانے لگے ہیں ۔
یا الله آج ان کو کیا ہوا ہے دل تیز دھڑکتا محسوس ہو رہا تھا ۔
__________
جا کر اپنے کمرے میں آرام کریں ۔لیٹ کر اچھا سا میوزک سنے۔اور آنکھیں بند کر کے وہ سوچیں جس سے آپ کو خوشی ملتی ہے ۔میں جب بھی ٹینشن میں ہوتا ہوں یہی کرتا ہوں۔ساری ٹینس مینٹوں میں غائب ہو جاتا ہے ۔کبھی کبھی خواب دیکھنے میں حرج نہیں ۔وہ چوٹ کا تعلق کیا ہے ٹینشن سے وہ سوچ رہی تھی ۔اس کا دل چاہ رہا تھا جلدی سے بھاگ جائے ۔
کہاں رہ گئے اسفند؟ ڈاکٹر شہزور کی طرف سے آنے والی آواز غیبی مدد لگی تھی ۔وہ اتنی نروس پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی ۔جیسے آج ہوئی۔
وہ بغیر کسی گھبراہٹ کے بولا ڈاکٹر زوبیہ کو چوٹ لگ گی تھی۔وہی دیکھ رہا تھا چلیں۔
چوٹ سن کر انہوں نے اس کے ہاتھ کی طرف دیکھا اور خیریت دریافت کی۔وہ شرمندہ ہوئے جا رہی تھی ۔معمولی چوٹ ہے وہ گھبرا کر بولی۔اسفند ڈاکٹر شہزور سے بھی پہلے نکل گیا وہ بھی دھڑکن سنبھالتی ہوئی ہاسٹل میں آ گئی ۔بیڈ پر گرتے ہوئے اس کے کانوں میں آواز گونجی آنکھیں بند کر کے ایسا سوچیں جو آپ کو خوشی دے۔کبھی کبھی خواب دیکھنے میں حرج نہیں ۔وہ جاکتی آنکھوں سے خواب دیکھنے لگی تو اٹھ بیٹھی مجھے ایسی بات سوچتے بھی شرم آنی چاہیے ۔لیکن ڈاکٹر اسفند کو آج ہوا کیا تھا ۔انہیں کیسے پتہ چلا میں الجھن کا شکار ہوں۔وہ بات جان گئے جو وہ خود سے کہتے ڈرتی تھی ۔
اگلے دن دنیا کا مشکل کام اس کو ڈاکٹر اسفند کا سامنا کرنا لگ رہا تھا ۔وہ ہر اس جگہ سے بچ رہی تھی جہاں اسکی موجودگی کا امکان ہو۔ایک جگہ رہتے سامنا نہ ہو ممکن نہیں وہ ایک بچے کو بہلا کر کیپسول کھا رہی تھی جو کسی سے نہیں کھا رہا تھا ۔تب اسفند وہی داخل ہوئے وہ اسے نظر انداز کیے اپنے کام میں لگا ہوا تھا وہ جلدی سے نکل گئی وہ وہی تھا دوبارہ بھی سامنا ہوا وہ اس بدلے شخص کو سمجھ نہیں پا رہی تھی ۔
ڈاکٹر آصفہ نے ہاسٹل فون کر کے اسے اور ڈاکٹر تاجدار کو اپنے گھر دعوت دی تھی ۔
حلیم پکا رہی ہوں تم لوگ بھی آ جاؤ ۔
کوئی ایمرجنسی نہیں ہوتی تو وہ دونوں میاں بیوی گھر میں اتوار کا دن آرام کرتے ۔جب وہ کو وہاں پہنچے تو ڈاکٹر شہاب پہلے سے موجود تھے ڈاکٹر آصفہ ان کی جلدی واپسی کا سوچ کر جلدی کھانا لگانے لگی۔انہیں واپس ڈیوٹی جوائن کرنی تھی ۔وہ ابھی سوچ ہی رہی تھی کہ ان سب کو بلایا اسفند کو نہیں اتنی دیر میں گیٹ کی بیل ہوئی۔اسفند اندر داخل ہوا میں کام سے جا رہا تھا ڈاکٹر آصفہ کا مسیج ملا تو چلا آیا ۔
جب بھی یہ لوگ ایک ساتھ ہوتے تو شاعری مقابلہ کرتے اب بھی جاری تھا ڈاکٹر شہزور اور ڈاکٹر شہاب آپس میں کر رہے تھے اور ر سے شہاب کو نہیں مل رہا تھا ۔ڈاکٹر شہزور نے کہا بس اب ہار مان لو اتنے میں صوفے پر بیٹھے اسفند نے شہاب کی مشکل آسان کر دی ر سے شعر پڑھ کر
رنگ پیراہن کا خوشبو زلف لہرےکا نام
موسم گل ہے تمارے بام پر آنے کا نام
ارے آپ کی یہ خوبی تو آج پتہ چلی آپ بھی دلچسپی رکھتے ہو۔ڈاکٹر شہاب خوشی کے ساتھ حیران بھی ہوا۔
ڈاکٹر شہروز اسے بغور دیکھ رہے تھے اس نے محسوس کر کے بولا اگر آپ کو پسند نہیں آیا تو میں شعر واپس لے لیتا ہوں ۔نہیں بھئ ایسی بات نہیں وہ خوش دلی سے بولے۔اسی وقت ڈاکٹر آصفہ نے کھانا لگنے کی اطلاع دیسب کھانا کھانے چل پڑے وہاں کھانے کے دوران ڈاکٹر شہزور نے ایک شعر اسفند کی طرف دیکھ کر بولا
وہ لڑکی اچھی لڑکی ہے تم نام نہ لو ہم جان گئے
وہ جس کے لائبے گیسو ہیں پہچان گئے پہچان گئے
وہ جن نظروں سے اسفند سے جواب مانگ رہے تھے آنکھوں کے اشارے سے کہا
کیسا؟؟؟
بہت اچھا وہ تعریف کرتا بولا
اچھا نہیں اچھی ڈاکٹر شہزور نے اسے ٹوکا
لیکن آپ تو شعر کی بات کر رہے ہیں وہ پر اعتماد مسکراہٹ سے بولا
یہ آپ لوگ کیا کوڈ ورڈز میں بات کر رہے ہیں اچھا اچھی کیا ہے ۔ڈاکٹر آصفہ نے مداخلت کی۔
کچھ نہیں یہ ہماری آپس کی بات ہے ۔وہ ہنستے ہوئے بولے۔
انہوں نہیں سر اٹھا کر اسفند کو دیکھا جو بڑے سکون سے بیٹھا مسکرا رہا تھا ۔اتنے میں شہاب شعر سنانے لگے سب ان کی طرف متوجہ ہو گئے ۔آج ہمیشہ سنجیدہ رہنے والے اسفند کے چہرے پر دلفریب مسکراہٹ تھی آنکھیں شرارت اور شوخ نظر آئیں