راجیو چکرورتی ناداںؔ
’’رنگ و خوشبو، شباب و رعنائی‘‘
کیوں نہ ہو ان کا کوئی شیدائی
کثرتِ جلوہ گاہِ فطرت میں
دیکھ! مضمر ہے رمزِ یکتائی
اس سرابِ جہانِ فانی میں
خود تماشاہوں یا تماشائی؟
بحرِ ہستی کا اک حباب ہوں میں
وائے! قسمت کی کارفرمائی!
بے وفاہیں وہ، بے وفا میں ہوں
رسم الفت سمجھ میں اب آئی!
ان سے امّید وصل ہے یارو!
شاید اب ہو گیا ہوں سودائی!
حق شناسی کا در کھلا مجھ پر
خود سے جب ہو گئی شناسائی
اک نظر اور ادھر ! میرے ساقی!
بادہ نوشی بہ قدرِ پیمائی!!
کیا بتاؤں کہ قلبِ مضطر پر
کس قدر ہے گراں یہ تنہائی
دل ہے بے چین ، چشم پر نم ہے
اور غم کی ہے اک گھٹا چھائی
ان کی فرقت میں یہ ہوا معلوم
کتنی دشوار ہے شکیبائی
کنجِ خلوت میں گرچہ بیٹھا ہوں
یاد کی گونجتی ہے شہنائی
ناز و انداز ان کا، اف توبہ!
اس کو کہتے ہیں عالم آرائی
عشق کرتے ہیں وہ ، نہ پیتے ہیں
شیخ صاحب میں کیا ہے دانائی؟
بھول کر آ گیا ہوں محفل میں
اب بھری بزم میں ہے رسوائی
روزِ محشر کا خوف ہے لیکن
کیوں اسی کا ہے دل تمنائی؟
قبرِ ناداںؔ پہ پھول بکھرے ہیں
حیف !آئی تو اب بہار آئی!!