جب سے آئی تھی وہ رو رہی تھی اور نجانے کتنی دیر روتی رہتی جب اسے دروازہ کھلنے کی آواز آئی۔۔
وہ جو گٹنوں میں سر دیے رونے میں مصروف تھی۔۔ سر اٹھا کر دروازے کی طرف آنے والے کو دیکھا۔۔
اور اماں کو دیکھ کر اس کو لگا جیسے سکون آ گیا ہو۔۔ وہ بھاھ کر ان کے گلے لگی تھی۔۔ آنسو پہلے ہی کب رکے تھے اب تو مزید روانی آ گئی تھی۔۔
وہ تو سوچ رہی تھی کہ وہ اس کا دکھ سمیٹ لیں گی۔۔ لیکن جو کچھ وہ آگے جاننے والی تھی وہ سب اسے الگ ہی دنیا سے واقف کروانے والا تھا۔۔ ایک ایسی حقیقیت جس سے وہ ہمیشہ انجان رہی تھی۔۔
تو یہ ہے میری شادی کا دن۔۔ نہ شہنائی نہ مہندی نہ رنگ و بو کا سیلاب اور نہ ہی کوئی خوشبو۔۔ بلکہ ایک انتقام کا نتیجہ۔۔ کیا اوقات ہے میری۔۔ محض ایک بدلے کی بھینٹ چڑھنا۔۔ خود کو کمرے کے آئینے میں دیکھتی وہ جیسے خود سے مخاطب تھی۔۔
آنسو بھی خشک ہو چکے تھے بلکہ اس کی تو آنکھیں بھی بنجر تھی۔۔ آنسو بہاتی بھی تو کس کے لیے۔۔ سارے رشتوں نے ہی منہ موڑ لیا تھا۔۔ کیونکہ اب اسے ان سے ملنے کی تو اجازت تھی ہی نہیں۔۔ آج اس کا کوئی بھی نہ رہا تھا۔۔ نہ کوئی رشتہ نہ کوئی ٹھکانہ۔۔ یہ تو بس ایک جیل تھی جس میں اس کو تا عمر قید کر دیا گیا تھا
اب اس کی نظر اپنے عام سے سرخ جوڑے پہ پڑی تھی جو اسپیشل بنوایا تو نہ گیا تھا پر ماں کے کہنے پہ اس نے اپنی کپ برڈ میں پڑا سرخ جوڑا ہی پہنا تھا۔۔ کیونکہ یہ بھی جرگے کی ایک روایت تھی۔۔
اگر اس کا تن اس جرگے کی بھینٹ چڑھ گیا تھا تو یہ سوٹ کیا چیز تھا۔۔
خود کو آئینے میں دیکھتے اسے آج احساس ہوا تھا کہ کفن صرف سفید لباس میں نہیں ہوتے۔۔ کیونکہ آج اس کا خود کا جنازہ نکلا تھا وہ بھی سرخ جوڑے میں۔۔ اماں نے اسے سب سچ بتا دیا تھا۔۔ کیسے ان ظالم لوگوں نے اسے ماں باپ دونوں کے سائے سے محروم کر دیا تھا۔۔
اس کا بس نہیں چل۔رہا تھا وہ یہاں موجود ہر شخص سے اپنے ماں باپ کی موت کا حساب مانگے۔۔ وہ خود بھی تو قید ہو گئی تھی یہاں۔۔ آنسوؤں کی ایک لکیر پھر سے اس کے گالوں پہ لڑھکی۔۔
تبھی دروازہ کھلنے کی آواز آئی وہ جانتی تو تھی کہ کون ہو گا نکاح کے وقت جب مولوی صاحب نے اس کا نام کیا تھا تب ایک لمحے کو وہ شاکڈ تو ہوئی تھی جس کے ساتھ وہ ایک لمحہ بھی نہ رہنا چاہتی تھی اسی کی ونی بن کر اب اسے ساری زندگی بسر کرنا تھا۔۔ اسے بن دیکھے ہی آنسو صاف کرنے لگی۔۔
ارے استانی صاحبہ۔۔ کیا ہوا اس اکڑ اور غرور کا جو آپ کو میری طرف دیکھنے بھی نہ دیتا۔۔ اب ٹسوے کس چیز کے۔۔ اپنی مونچھوں کو تاؤ دیتا وہ اسکے زخموں پہ نمک چھڑک رہا تھا۔۔ جبکہ روشم اپنے جبڑوں کو بھینچتی چاہ کر بھی کچھ غلط نہیں کہہ پائی تھی۔۔
اس کے تاثرات شیشے میں دیکھتا وہ دھیمی چال چلتا اس کے قریب آیا۔۔
دیکھو زرا مجھ پہ بد کرداری کا الزام لگانے والی اب میرے پاس ہے۔۔ میرے رحم و کرم پہ۔۔ دیکھو یہ آج کا دن۔۔ اس کے بالوں کو اپنے ہاتھ کے شکنجے میں لے کر دوسرے ہاتھ سے اس کے منہ کو زور سے پکڑتا وہ بولا نہیں غرایا تھا۔۔
جبکہ واقعی آج روشم کی زبان کنگ ہو گئی تھی۔۔ اس کی زبان کا غرور اس کی ذات کا اعتماد سب خاک میں مل گیا تھا آج۔۔ شدید تکلیف کے باوجود۔۔ چاہ کر بھی وہ خود کو اس کی پکڑ سے آذاد نہ کروا پائی۔۔
عرش میر تمہیں غلط فمہمی۔۔ درد کے باوجود وہ بولنا چاہ رہی تھی۔۔
خاموش۔۔ وہ اتنی زور سے چلایا کہ روشم کی روح کانپ گئی۔۔ اس کی گردن پکڑ کر وہ اس کو دیوار سے لگا چکا تھا۔۔
وہ وقت گیا جب تمہاری یہ گز بھر زبان میرے آگے چلتی تھی۔۔ اب تم مسز عرش میر خان ہو۔۔ اور تمہاری زبان کو اس وجہ سے اب ہمیشہ بند رہنا ہے۔۔ سمجھی۔۔ وہ دہاڑا۔۔
عرش میر مجھے معاف۔۔ گلے میں درد کے با وجود اس نے پھر سے بولنے کی کوشش کی۔۔
معافی؟؟ کس بات کی معافی؟؟۔۔ تمہاری سوچ ہی تمہاری زبان پہ آئی تھی نا کل۔۔ تم میری قربت چاہتی تھی نا۔۔ تو اب جب میری قربت تمہیں مل رہی ہے تو یہ آنسو کیوں۔۔
اسے بازوئوں سے پکڑ کر جھنجھوڑتا وہ اتنی زور سے بولا کہ روشم کو لگا اس کے کان پھٹ جائیں گئے۔۔ آنسوئوں میں اب مزید روانی آ گئی تھی۔۔
جانتی ہو ہوس کیا ہے؟؟ کبھی دیکھی ہے مرد کی ہوس؟؟۔۔ عرش میر کی بات پہ وہ سہم گئی۔۔
اس کی باتوں سے لگ رہا تھا وہ اپنے حواس میں نہیں ہے۔۔ اور کیسے ہوتا وہ اپنے حواس میں۔۔ کل سے اب تک زندگی نے اسے دھچکے دیے کہ وہ حواس میں رہ ہی نہ سکا تھا۔۔
تمہیں میں دکھاتا ہوں ہوس کیا ہوتی ہے۔۔ جو انگلیاں اس کے بازوئوں میں کبھ رہی تھی انہی سے اس نے اس کے سائڈ کی شرٹ پھاڑ دی۔۔
روشم کے تو سانس خشک ہو گئے اسے لگ رہا تھا کہ آج اس کی روح کی موت لکھی جا چکی ہے۔۔ وہ اسے روکنا چاہتی تھی پر ایک تو وہ طاقتور مرد دوسرا وہ جاتی بھی تو کہاں۔۔ اس کے پاس دوسرا کوئی جائے پناہ تو تھا ہی نہیں۔۔
عرش میر نے اسے گردن سے پکڑ کر صوفے پہ پھینکا۔۔ پھر اس کے اوپر جھکا۔۔ روشم کی آنکھوں میں خوف وہ واضح محسوس کر سکتا تھا۔۔
فکر مت کرو۔۔ آج ہی انتہا نہیں کروں۔۔ تمہیں روز مرد کی ہوس کی ایک جھلک دکھائوں گا۔۔ اور تم روز اس جھلک کو دیکھ کر محسوس کرنا کہ میں نے تمہیں کلاس میں کتنی ہوس دکھائی تھی۔۔ تمہارے روز روز مرنے سے مجھے روز روز زندگی ملے گی۔۔ تمہارے مرنے کے لیے یہی بات کافی ہے کہ تم ونی میں آئی لڑکی ہو جس کی میری نظر میں کیا یہاں کسی کی بھی نظر میں کوئی اوقات نہیں ہے۔۔
اس کا منہ ہاتھ میں دبوچ کر اس کے جھٹک کر ٹیبل پہ پھینکا نتیجتا وہ ساءڈ ٹیبل پہ زور سے لگا تھا۔۔
خون تو نہ نکلا پر روشم کے چودہ طبق ضرور روشن ہو گئے۔۔
اپنی بات کہہ کر وہ رکا نہیں بلکہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا کمرے سے باہر چلا گیا۔۔ اس وقت وہ اس فضا میں سانس نہیں لینا چاہتا تھا جہاں اس کا وجود ہو۔۔
اس کے جانے کے بعد روشم نے اپنی پھٹی شرٹ کو دیکھا جہاں سے اس کی سڈول سفید بازو جھلک دکھا رہی تھی۔۔ عرش میر کی انگلیوں کی وجہ سے وہ جگہ سرخ ہو چکی تھی۔۔
اس پہ دوپٹہ رکھ کر اس نے اسے چھپایا اور پھر پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔۔ جو غلطی اس نے کی تھی اس کی سزا اسے عمر بھر اب بھگتنی تھی کیونکہ عرش میر تو اس کی شکل دیکھنے کا روادار نہ تھا کجا اس کی بات سنتا۔۔
وہ جو سمجھ چکا تھا اب وہ ازل تھا۔۔ اور اسے سمجھانا کم از کم اب روشم کے بس کی بات نہیں تھی۔۔
***
یہ روشم کی بچی کہاں مر گئی ہے۔۔ کہا بھی تھا گھر جا کر کال لازمی کرے لیکن نہیں اسے تو سمجھ ہی نہیں آتا کہ اگلا بندہ پریشان بھی ہو سکتا ہے۔۔ اب فون بند کیے بیٹھی ہے۔۔
وہ دوپہر میں ہی واپس آئی تھی اور تب سے روشم کو کال کر رہی تھی لیکن اس کا فون مسلسل بند جا رہا تھا۔۔ نیلم کو پریشانی ہو رہی تھی کہ پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا تھا۔۔
اپنی پریشانی میں وہ تب سے ٹہل رہی تھی۔۔ ابھی بیڈ پہ آ کر بیٹھی کہ ایک ان نائون نمبر سے کال آنے لگی۔۔ یہ سوچ کر کہ شاید روشم اسے کسی اور سے کال کر رہی ہو اس نے فون اٹھا لیا۔۔
ہیلو اسلام علیکم۔۔
وعلیکم اسلام ۔۔ پہنچ گئی آپ خیریت سے۔۔ وہ جو روشم کو سوچے بیٹھی تھی آگے ایک مردانہ گھمبیر آواز سن کر وہ ٹھٹھکی۔۔
آپ کون۔۔ لہجہ میں پہچان کا کوئی عنصر نہ تھا۔۔
نہیں پہچانا آپ نے مجھے؟؟ حیرت ہے۔۔ مجھے تو لگا تھا جیسے اس ٹکرائو کے بعد میں آپ کو نہیں بھولا آپ بھی مجھے نہیں بھولی ہوں گی۔۔
وجدان کو تھوڑا دکھ ہوا تھا اس کے نہ پہچاننے پہ۔۔
آپ۔۔ نیلم کو لگ رہا تھا کہ یہ وہی ہے۔۔ لیکن اس کا نام تو اس نے تب پوچھا ہی نہیں تھا تو شیورٹی نہیں تھی۔۔۔
میں کیا۔۔ اس کے رک جانے پہ وہ بولا۔۔
آپ وہی ہے جنہوں نے میری ہیلپ کی تھی اور ڈاکٹر کے پاس لے کر گئے تھے۔۔ اپنے شک کو وہ زبان پہ لے آئی۔۔
ہاہاہاہا۔۔ اس کی بات پہ وجدان کا قہقہہ بے اختیار تھا۔۔
جی جی۔۔ میں وہی بندہ خاکسار ہوں جو آپ کو اٹھا کر ڈاکٹر کے پاس لے کر گیا تھا۔۔ وجدان نے اٹھا کر پر خاص زور دیا۔۔
اس کی بات پہ نیلم کے گال خودبخود سرخ ہوئے۔۔ پھر بات چینج کرنے کو بولی۔۔
آپ کو میرا نمبر کہاں سے ملا؟؟۔۔
ڈھونڈنے سے تو خدا بھی مل جاتا ہے مس نیلم۔۔ یہ تو پھر آپ کا نمبر تھا۔۔ فون کان سے لگائے وہ دلکشی سے گویا ہوا۔۔ وہ آج کتنا خوش تھا اس بات کا اندازہ اس کی آواز سے لگایا جا سکتا تھا۔۔
لگتا ہے کافی انفارمیشن جمع کر رکھی ہے آپ نے میرے بارے میں۔۔ اب کچھ اپنے بارے میں بھی بتائیے۔۔
پہلے اس کے واپسی کی اطلاع پھر نمبر پھر نام۔۔ اس سب سے نیلم کو اندازہ لہوا تھا کہ اس نے اس کا سارا بائیو ڈاٹا نکلوایا ہے۔۔
اس کی بات پہ وہ مسکرایا۔۔ اور نیلم کو لگا اتنی خوبصورت مسکراہٹ اس نے شاید ہی کبھی سنی ہو۔۔
مجھے لگتا ہے کہ میں اپنا بائیو ڈاٹا آپ کے سامنے آ کر دوں تو ذیادہ بہتر ہے۔۔ کیا خیال ہے جو آپ کا دل کیجیے گا پوچھ لیجیے گا۔۔
کرسی کی ٹیک چھوڑ کر وہ سر کھجاتا بولا۔۔ اپنی تیس سالہ زندگی میں یہ اس کی کسی لڑکی سے پہلی پرسنل ملاقات تھی۔۔
میرا خیال ہے کہ مجھے آپ کے بارے میں جاننے کا اتنا بھی شوق نہیں ہے کہ میں اکیلی آپ سے ملنے چلی آئوں۔۔ اس لیے شب خیر۔۔
کہتے ساتھ ہی اس نے فون کاٹ دیا۔۔
فون بند ہونے پہ وجدان نے گھور کر ایک نظر فون کو دیکھا۔۔ جو اب بند ہو چکا تھا۔۔
ٹھیک ہے مس نیلم اگر آپ نہیں ملنا چاہتی تو میں ملنے آ جائوں گا کہ یہ تو اس نادان دل کی خواہش ہے نا۔۔
اتنی میچور عمر کے باوجود وہ ٹین ایجرز جیسی باتیں کر رہا تھا۔۔ کیونکہ محبت تو ہے ہی عقل سے دور کی بات۔۔ جس میں عقل آ جائے وہ عقل کہاں کی۔۔
دوسری طرف فون بند کر کے نیلم سکون سے لیٹی۔۔ دل تو تین دن پہلے ہی کسی اور لے پہ دھڑک اٹھا تھا لیکن آج وجدان کی کال نے اسے تقویت بخشی تھی۔۔ سرشاری سے اس نے اپنی آنکھیں موند لیں ۔۔
***
وہ گاؤں کا چکر لگا کر جب کمرے میں آیا تو وہ سو رہی تھی۔۔ ساری رات ہی اس کی رو رو کر گزری تھی اب کہیں جا کر اس کی آنکھ لگی تھی۔۔
وہ خود بھی ساری رات نہ سویا تھا۔۔ اس کی سوچیں مفلوج ہو چکی تھی اور بے سکونی حد سے سوا تھا اس حالت میں نیند آنا تو نا ممکن ہی تھا۔۔ سامنے اسے سویا پڑا دیکھ کر اس کا میٹر پھر سے گھوما۔۔
اوئے اٹھو۔۔ وہ اتنی گہری نیند سوئی تھی کہ عرش میر کی گرجدار آواز سے بھی ٹس سے مس جہ ہوئی۔۔
اسے یوں ہی سوتا دیکھ کر عرش میر کو غصہ آ گیا اس نے پاس سائڈ ٹیبل پہ پڑا پانی کا جگ اٹھا کر سارا اس کے اوپر انڈیل دیا۔۔ وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی۔۔
یہ کیا بد تمیزی ہے۔۔ ہوش میں آتے ہی وہ چلائی۔۔ پانی انڈیلنے والے کو اس نے دیکھا نہ تھا۔۔ کچھ اتنی اچانک اٹھنے پہ وہ بھول بھی چکی تھی کہ کل اس کی زندگی مکمل بدل چکی ہے۔۔
بدتمیزی؟۔۔ دن چڑھے سونا یہاں کا رواج نہیں ہیں۔۔ یہ تمہارے باپ کا گھر نہیں ہے جو تم جب تک چاہو گی سو گی۔۔ یہ لاسٹ وارننگ دے رہا ہوں۔۔ آئندہ میرے اٹھنے سے پہلے تم اٹھو گی اور میرے سونے کے بعد سو گی۔۔ سمجھی۔۔
ایک پاؤں بیڈ کی سائڈ پہ رکھ کر گٹنے پہ کہنی رکھتا وہ اسے باور کروا رہا تھا۔۔ اس کی بات سن کر وہ منہ میں ہاتھ پھیر کر اٹھ بیٹھی۔۔
تمہی نے کہا تھا میں یہاں ونی میں آئی ہوں۔۔ تمہاری نظر میں میری اوقات نہیں تو تمہارے حکم کی تابعداری کیوں کروں میں۔۔ آنکھیں رونے کی وجہ سے پہلے ہی سوجی تھی ابھی بھی کچی نیند سے اٹھنے سے لال ڈوریں ابھرے ہوئے تھے۔۔ نجانے کیوں اسے غصہ آ گیا تھا حالانکہ وہ اپنی اوقات جانتی تھی۔۔ شاید رات کا غبار تھا۔۔
اس کی بات پہ اس نے اس کا منہ اپنے ہاتھ میں دبوچا۔۔
تمہاتی اوقات میری نظر میں واقعی کچھ نہیں ہے مسز روشم عرش میر خان۔۔ میں تمہیں یہ حکم بیوی سمجھ کر نہیں بلکہ اپنی نوکرانی سمجھ کر دے رہا ہوں۔۔ اور ہاں مجھے خان جی کہو۔۔ آئندہ تم کا لفظ استعمال کیا تو تمہاری زبان کاٹنے میں وقت نہیں لگاؤں گا۔۔
اس کا منہ اس نے اتنے زور سے پکڑا تھا کہ روشم کے جبڑے درد کرنے لگے تھے۔۔ درد کی شدت سے آنکھوں سے آنسو نکل آئے جب عرش میر نے جھٹکے سے اس کا منہ چھوڑا اور وہ اوندھے منہ بیڈ پہ گری۔۔
یہ رونے دھونے کی ضرورت نہیں ہے اب۔۔ میں واش روم جا رہا ہوں۔۔ فریش ہو کر باہر آؤں تو میرا ناشتہ اس ٹیبل پہ ہو۔۔ پاس پڑے کاؤچ اور ٹیبل پہ اشارہ کرتا وہ واش روم میں گیا اور دروازہ زوردار آواز سے بند ہوا۔۔
ٹھک کی آواز سے روشم نے دروازے کی جانب دیکھا جہاں وہ بند ہو گیا تھا۔۔ اپنے آنسو صاف کرتی وہ پہلے دن کی دلہن اپنے کپڑے جھاڑتی باہر کی جانب بڑھی۔۔ ابھی تو اس کی نا کردہ گناہ کی سزا شروع ہوئی تھی۔۔ جسے اس کو نجانے کب تک سہنا تھا۔۔
وہ یونی سے باہر ابھی کلاسز لے کر نکلی تھی۔۔ ارادہ اس کا اب ہوسٹل کی طرف جانے کا تھا کیونکہ لاسٹ لیکچر فری تھی۔۔ روشم کو وہ کل سے لا تعداد کالز کر چکی تھی پر اس کا کوئی اتا پتا نہ تھا۔۔
ابھی بھی اد نے نمبر ڈائل کیا پر وہی گھسا پٹا سا جملہ سن سن کر اب اس کے کان درد کرنے لگے تھے۔۔
کہاں ہو تم روشم۔۔ کچھ تو بتائو۔۔ نیلم کو اس کی پریشانی کھائے جا رہی تھی۔۔ ایسا تو کبھی بھی نہ ہوا تھا۔۔ اور اب پیپرز شروع ہونے والے تھے اور وہ ندارد تھی۔۔
ابھی وہ اپنی ہی سوچوں میں گم تھی جب ایک بلیک نیو ماڈل کرولا اس کے آگے آ کر رکی۔۔ اور اندر سے نکلنے واالی ہستی نے یقینا نیلم کو چونکا دیا تھا۔۔
آپ۔۔ یہاں۔۔ وجدان کو سوٹڈ بوٹد دیکھ کر وہ یقینا حیران ہوئی۔۔
جی بلکل۔۔ اب آپ نے تو منع کر دیا تھا پر مجھے تو ملنا تھا تو سوچا خود ہی آ جائوں۔۔ کار سے ٹیک لگا کر وہ اس سے مخاطب تھا۔۔ آنے جانے والے کئی سٹوڈنٹس اس ہینڈسم انسان کو دیکھ رہے تھے۔۔
پر مجھے تو آپ سے نہیں ملنا نا۔۔ آس پاس گزرنے والوں کی نظروں سے وہ خود کو کافی آکورڈ فیل کر رہی تھی۔۔
کیا واقع نہیں ملنا چاہتی آپ مجھ سے؟؟ کیا واقع نہیں جاننا چاہتی آپ میرے بارے میں۔۔ آنکھوں سے ایک انگلی سے گلاسز نیچے کر کے اب وہ اسے دیکھ رہا تھا۔۔ آنکھوں اور اس کے چہرے کے درمیان جو رکاوٹ تھی اسے اس نے دور کر دیا۔۔
نہیں۔۔ روشم نے ارد گرد دیکھ کر جواب دیا۔۔ یوں جیسے وہ اس کی آنکھوں میں نہ دیکھنا چاہتی ہو۔۔ اسے لگا تھا وہ اس کی آنکھوں میں دیکھے گی تو فیصلہ بدل دے گی۔۔
میں آخری بار پوچھ رہا ہوں مس نیلم۔۔ یقین کریں اگر آپ نے اب انکار کیا تو عمر بھر آپ کو اپنی شکل نہیں دکھائوں گا۔۔
سامنے بھی وجدان گیلانی تھا طرب کا پتا کب اور کیسے پھینکنا ہے یہ اسے اچھی طرح پتہ تھا۔۔
اس کی بات پہ نیلم کا دل ڈوبا۔۔ ٹھیک ہے وہ تھوڑا نخرہ دکجھا رہی تھی جو اس کا حق بھی تھا پر وہ تو سیریس ہی ہو گیا تھا۔۔
اس نے ایک نظر وجدان کی طرف دیکھا اور بنا کچھ کہے گاڑی کی طرف بڑھی۔۔ وجدان نے اس بڑھتے ساتھ ہی پسینجر سیٹ کا دروازہ کھول دیا۔۔
اپنی چالاکی پہ اس کے لب آپ و آپ ہی مسکرا اٹھے۔۔ بھلا ایسا ہو سکتا تھا کہ وجدان اس کو چھوڑ دیتے چاہے وہ خود بھی کتنا ہی انکار کیوں نہ کرتی وہ وجدان کی زندگی تھی اب۔۔ وہ نیلم کو خود مجبور کر دیتا خود سے محبت کرنے پہ۔۔
اسے بٹھا کر وہ گھوم کر ڈرائیونگ سیٹ پہ آیا اور گاڑی سٹارٹ کر دی۔۔
***
عرش میر کے کہنے پہ وہ نیچے آ تو گئی تھی پر اب کچن کس طرف تھا یہ تو اسے پتہ ہی نہیں تھا۔۔ اسی شش وپنج میں وہ آگے بڑھ رہی تھی جب اسے دائیں سائڈ سے کھٹ پٹ کی آوقزیں آنا شروع ہو گئی۔۔
اندازہ لگاتی وہ اس طرف بڑھی۔۔ سامنے ہی بے جی سب کے صبح کے ناشتے کی تیاری کر رہی تھی۔۔ دہلیز پہ آہٹ سن خر وہ مڑی۔۔
ارے یہاں کیا کر رہی ہو۔۔ کچھ چاہیئے تھا؟؟۔۔ کپڑے سے ہاتھ صاف کر کے وہ اس کی طرف بڑھی۔۔
ہاں وہ عرش میر میرا مطلب ہے خان جی کے لیے ناشتہ بنانے آئی تھی میں۔۔ انگلیوں کو مروڑتے وہ اتنی خوفزدہ تھی کہ بے جی کے لہجے کی نرماہٹ محسوس ہی نہ کر پائی۔۔
ارے تو بیٹھو نا بیٹا۔۔ میں بنا دیتی ہوں۔۔ اس کا ہاتھ پکڑ کر انہوں نے اسے پاس پڑی چئیر پہ بٹھا دیا۔۔
روشم کا تو ان کا رویہ دیکھ کر حیران تھی۔۔ وہ جو سوچ رہی تھی کہ اب روز کی لعن طعن اس کا مقدر ہے اتنے نرم رویے پہ چونکنا اس کا فطری تھا۔۔
اس کے چہرے کے اتار چڑھائو سے ہی بے جی جان گئی تھی کہ وہ کیا سوچ رہی ہے۔۔
لگتا ہے میرا رویہ تمہاری سوچ سے الٹ نکل آیا ہے۔۔ وہ مسکراتے ہوئے گویا ہوئی۔۔ ساتھ ساتھ روٹی کو بیلنے کا عمل بھی جاری تھا۔۔
ہاں۔۔ میرا مطلب ہے نن۔۔نہیں ۔۔ ایکدم ان کے پوچھنے پہ وہ خود بھی گھبرا گئی۔۔ ایسے سوال کہ توقع جو نہیں تھی۔۔
دیکھو میری جان۔۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ میرے بیٹے کی موت کا تم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔۔ جو بھی ہوا میں جانتی ہوں اس میں تمہارا قصور نہیں ہے۔۔ تم تو خود اس فرسودہ رسم کی بھینٹ چڑھ گئی۔۔ اور دوسری بات۔۔ عرشمان میرا بیٹا تھا لیکن میں جانتی نہیں تھی کہ وہ اتنی لڑکیوں کی زندگی برباد کر چکا ہے۔۔ جب جسم کا حصہ ناسور بن کر پورے جسم میں پھیلنے لگے تو اسے کاٹ کر پھینک دینا ہی عقلمندی ہے۔۔ لہذا تم کم از کم میری طرف سے نرم رویہ ہی پائو گی۔۔
باقی میں کسی کا کچھ کہہ نہیں سکتی کہ یہاں سب اپنے اعمال کے جوابدہ خود ہیں۔۔
باتوں ہی باتوں میں وہ روٹیاں بنا چکی تھی اور روشم انہیں مسمرائز ہو کر دیکھ رہی تھی۔۔
اتنے جاہل اور قدامت پرست گائوں میں کوئی ایسی سوچ کا بھی بستا ہے؟؟۔۔ یہ سوچ اس کے لیے باعث حیرت تھی۔۔
اب کیا سوچ رہی ہو؟؟۔۔ وہ جو اپنی سوچ میں غیر ارادی طور پہ ان کے چہرے کی طرف دیکھتی جا رہی تھی۔۔ ان کے پکارنے پہ چونکی۔۔
کچھ نہیں۔۔ لائیں میں آپ کی ہیلپ کر دوں۔۔ وہ فورا اٹھ کر ان کی طرف بڑھی۔۔ اس سے پہلے کہ وہ ان کے ہاتھ سے پیاز لیتی انہوں نے اس کا ہاتھ وہی پکڑ لیا۔۔
تم یہ ٹرے اوپر لے جائو۔۔ اور عرش میر کے بعد خود بھی اچھے سے ناشتہ کر کے ہی نہچے آنا۔۔ کیونکہ جو کچھ ابھی ہونے والا ہے اس کو برداشت کرنے کے لیے تمہیں طاقت کی بہت ضرورت ہے۔۔
اس کے ہاتھ میں ٹرے تھما کر انہوں نے اسے اوپر کی طرف بھیجا۔۔ وہجانتی تھی کہ آنے والا وقت بہت مشکل ہونے والا ہے کیونکہ ابھی اس کی ملاقات وڈی اماں اور بائو جی سے ہونی تھی۔۔
***
ہم کیوں آئے ہیں یہاں۔۔ وہ اس وقت سالٹ اینڈ پیپر میں بیٹھے تھے۔۔ ویٹر کو آرڈر دینےکے بعد اسی نے بات کا آغاز کیا ۔۔
ایکدوسرے کو جاننے۔۔ سادہ سا جواب حاضر تھا۔۔
تو شروع مجھ سے ہی کرتے ہیں۔۔ بتائیے کیا کیا جان گئے ہیں آپ میرے بارے میں۔۔ ٹیبل پہ بازو رکھ کر وہ آگے کو ہوئی۔۔
سب کچھ۔۔ ان شورٹ آپ کی پیدائش سے لے کر اب تک کی ساری انفارمیشن ہے میرے پاس۔۔ اس کی بات سے نیلم اس کے اثرورسوخ کا اندازہ لگا سکتی تھی اور اس کے سٹیٹس کااندازہ تو اسے اس کی کار اور اس کے تن پہ پہنی ہر چیز سے بخوبی ہو رہا تھا۔۔
اوہ تو یعنی جانتے ہیں کہ میں ایک یتیم خانے سے بی لونگ کرتی ہوں۔۔جہاں میرے ماں باپ کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔۔ پھر بھی اتنی مہربانی۔۔ مطلب سمجھ نہیں آ رہا کیا قسمت مجھ پہ واقعی اتنی مربان ہو گئی ہے یا آپ مجھے ایسی ویسی لڑکی سمجھ بیٹھے ہیں۔۔
اپنے خدشے اسے نے خعودی شیئر کر دیے تھے جس میں وجدان اس کے نا آنے کی ریزن کو بھی سمجھ گیا تھا۔۔
آپ کو کیا لگتا ہے۔۔ ہاتھ کی پشت پہ ٹھوڑی ٹکائے وہ مسلسل اس کے اتار چڑھائو دیکھ رہا تھا۔۔
مجھے کچھ نہیں لگتا اسی وجہ سے آپ سے پوچھ رہی ہوں۔۔ بے شک وجدان اس کے دل میں گھر کر گیا تھا مگر یہ حقیقت تھی کہ اس کے پاس سوائے شکل و صورت کے کچھ بھی وجدان کے معیار کا نہ تھا۔۔
مس نیلم۔۔ اگر میں آپ کعو ایسی ویسی کڑکی سمجھتا تو اس وقت ہم پبلک ایریا کی بجائے ایک ہوٹل کے روم میں ہوتے۔۔ اور یقین کریں مجھے کوئی پوچھنے والا بھی نہ تھا۔۔ لیکن میری تربیت مجھے اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ میں خسی بھی لڑکی کو میلی نظر سے دیکھوں چاہے اس کے پیچھے کوئی بیخ گرائونڈ ہے یا نہیں۔۔
ختنی خوبصورتی سے وہ اسے اپنا مدعا بیان کر گیا تھا ۔۔ نیلم نے ایک نظر اس کے چہرے کی طرف دیکھا ۔۔ اسے لگا تھا کہ اس کے چہرے میں کوئی غصے کے ایثار یا ماتھے پہ شکن ہو گی مگر وہ بلکل نرم تاثرات کے ساتھ نیلم کو ہی دیکھ رہا تھا۔۔
آئم سوری۔۔ میرا وہ مطلب نہیں تھا۔۔ بس ایک ڈر سا تھا۔۔ پہلے بات کہہ دی تھی اب جب سب کلئیر ہوا تھا تو نیلم کو شرمندگی ہو رہی تھی۔۔
مس نیلم آپ نے ایسا کچھ نہیں کہا جس پہ شرمندہ ہو رہی ہے۔۔ بلکہ مجھے خوشی ہے کہ آپ اپنی وقعت کو جانتی ہیں۔۔ طس اپنی ذات میں ذرا سا اعتماد پیدا کریں۔۔
اس کی شرمندگی کو بھی وجدان نے ایسے ختم کیا کہ نیلم خود کو ہلکا پھلکا محسوس کرنے لگی۔۔
تھینک یو۔۔ وہ مسکرائی۔۔
اب آپ اس سوری تھینک یو سے نکل کر کچھ میرے بارے میں بھی پوچھ لیں۔۔ بچپن سے ہی مجھے اس طرح کے انٹرویوز دینے کا بہت شوق رہا ہے۔۔ اور اب جب موقع مل گیا ہے تو مجھے لگتا ہے کہ آپ کے اس فارمل بی ہیویر میں ہی نکل جائے گا ۔۔
اس نے ہلکی چوٹ کر کے نیلم کو یاد دلایا کہ وہ یہاں کس مقصد کے لیے آئے ہیں۔۔
اب آپ میرے بارے میں اتنا سب جانتے ہیں تو یہ بھی جانتے ہوں گئے کہ میں بھوک کی کچی ہوں۔۔ اس لیے اپنے انٹرویو کو میرے کھانا کھانے تک پینڈنگ پہ رکھے۔۔ نیلم نے بھی ہنستے ہوئے جوابی کاروائی کی جس پہ وجدان مسکرا اٹھا۔۔ اسے یقین تھا کہ یہ ان کی پہلی اور آخری فارمل ملاقات ہونے والی ہے۔۔
***
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...