سائیرہ کے ساتھ چلتی ترتیل ہائیسم کی گاڑی اپنے کالج کے باہر دیکھ کر چونکی ۔وہ ہمیشہ سے ہی ڈرائیور یا فودیل کے ساتھ آتی جاتی تھی ۔مگر آج پہلی بار ہائیسم کو دیکھ چوکنا تو بنتا تھا ۔وہ بھی اس کو حیرت میں کھڑے دیکھ چکا تھا تبھی گاڑی آگے بڑھا کر بالکل اس کے قریب ہی روک دی ۔۔
” اور کتنی دیر یہاں کھڑے ہونے کا ارادہ ہے ۔اندر آکر بیٹھو۔”
اس کی یہ ہی سنجیدگی ہمیشہ سے اس کو خائیف رکھتی تھی ۔تبھی وہ اس سے دور ہی رہا کرتی ۔
” آپ ۔۔آپ کیوں آئے ہیں لینے ؟؟ رحیم انکل کیوں نہیں آئے؟؟”
آہستہ سے گاڑی کا دروزہ کھول بیٹھتی کچھ کبھرا کر پوچھا جانے کیوں اس کو ہائیسم کی سنجیدگی اچھی نا لگتی تھی ۔
” بات کرنی تھی تم سے اس لیئے آنا پڑا ۔شادی سے انکار کی وجہ کیا ہے ؟؟اگر تو تم وجہ ہمدردی یا ترس سمجھ رہی ہو تمہارا انکار بالکل ہی بے وجہ ہے اس لیئے گھر جاکر تم سیدھا بابا کے پاس جاو گی اور ان کو اپنی رضامندی سے آگاہ کرو گی گوٹ اٹ۔۔”
اس نے حکم کے انداز میں کہا ۔۔ترتیل کو اس ہی انداز سے چڑ تھی ۔اس کو جلیس جیسے ہنس منکھ لڑکے کی خواہش تھی نا کے ہائیسم جیسے حد درجہ بدزوق انسان کی ۔۔
” اور میں ایسے کیوں کروں گی ؟؟؟”
” شادی تو تمہاری ہر حال میں مجھ سے ہی ہونی ہے چاہے اپنی منشا سے کرو یا پھر زبردستی ۔۔اگر مرضی سے کرو گی تو ہمیشہ اپنے بھائی کی نظروں کے سامنے رہو گی اور اگر زبردستی ہوئی تو میں تمہیں لے کر اسلام آباد شیفٹ ہو جاوں گا ۔پھر مجھ سے امید مت رکھنا کہ میں فودیل کو تم سے ملنے دوں گا ۔۔”
اس کے سرد انداز پر ترتیل نے شاکی نظروں سے اس کی جانب دیکھا یہ یقین کرنا مشکل تھا کہ آیا یہ الفاظ ہائیسم نے ہی کہے ہیں ۔۔
” آپ کیوں ایسا کر رہے ہیں میرے ساتھ ۔۔آخر کیوں ایک معذور لڑکی کے ساتھ اپنی اچھی بھلی زندگی خراب کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔۔میں کہیں سے بھی آپ جیسے مکمل انسان کے لائیق نہیں ہوں ۔۔”
وہ کچھ تلخ ہو گئی ۔۔معذور لفظ تیر کی طرح ہائیسم کو چبھا تھا ۔۔وہ زخمی نگاہوں سے اس کے تیکھے نقوش کو دیکھنے لگا ۔۔اس کا تیکھا ناک ہمیشہ سے اس کی توجہ کا مرکز رہا تھا ۔۔
” تم کس کے لائیق ہو کس کے نہیں یہ بات میں دو دن بعد تمہیں بتاوں گا ۔خود کو بلاوجہ خودترسی کا شکار مت کرو ۔۔جو کہا ہے ویسا ہی کرو نہیں تو انجام کی آگاہی میں دے ہی چکا ہوں ۔۔”
” آپ میرے ساتھ زبردستی کرکے ہم دونوں کے ساتھ ناانصافی نہیں کر سکتے ۔۔”
اس کے دوٹوک انداز پر آنکھوں میں نمی سی اتری تھی اپنے اکلوتے بھائی سے دوری وہ کبھی برداشت نہیں کرتی ۔۔
” اب کوئی بحث نہیں ترتیل ۔گھر جانے کے پندرہ منٹ بعد مجھے بابا کی طرف سے تمہاری رضامندی کی اطلاع مل جانی چائیے ”
تھوڑے سخت انداز میں کہہ کر گاڑی سٹارٹ کی ۔۔ترتیل کو وہ دنیا کا سب سے بے رحم شخص لگا ۔ وہ خاموشی سے کھڑکی کی جانب رخ موڑ گئی ۔۔
” ایم سوری میری زندگی ۔۔مگر میں تمہیں ایک ایسے انسان کے لیئے خود کو خوار نہیں ہونے دوں گا جس پر تمہارا کوئی حق نہیں ۔۔تم پر ازل سے ہائیسم کا حق تھا اور ابد تک اس کا ہی رہے گا ۔۔”
دل میں سوچتے پوری توجہ سے گاڑی ڈرائیو کرنے لگا اس کی جانب دیکھ کر خود کو موم نہیں کر سکتا تھا ۔ورنہ وہ کبھی راضی نہیں ہوتی ۔۔
کتاب کے ورقے الٹ پلٹ کرتے اس کے ہاتھ دستک کی آواز سے رکے تھے ۔۔رات کے دس کا ٹائیم تھا وہ کھانا کھا کر تھوڑی دیر پہلے ہی کمرے میں آئی تھی شادی میں دو دن ہی بچے تھے ۔۔آج کل فضا اور اس کی خالہ حرا ہر وقت بازاروں کے چکر لگانے میں مصروف ہوتی تھیں ۔۔
ترتیل کی شادی کے حوالے سے رضامندی کے بعد وہ بھی ان کے ساتھ جانے لگی تھی مگر روفہ نے پڑھائی کا بہانہ کرکے انکار کر دیا تھا ۔۔
عالم یا پھر ہائیسم کا سوچ کر اس نے اندر آنے کی اجازت دی ۔۔
” بات کرنی ہے تم سے ۔۔۔نیچے گاڑی میں انتظار کر رہا ہوں دو منٹ میں آو ۔۔”
اس وقت وہ ڈوپٹے سے ندارد بالوں کو جوڑے میں قید کیے بے فکری سے بیٹھی تھی مگر فودیل کی آمد سے جلدی سے ڈوپٹا شانوں پر اوڑھا مگر اس کا حکم جمانے والا انداز اس کو ایک آنکھ نا بھایا تھا ۔۔
” جو بھی کہنا ہے یہاں ہی کہیں رات کے اس پہر میں کہیں نہیں جارہی ۔۔”
” میں تمہیں کھا نہیں جاوں گا جو یوں بول رہی ہو ۔۔بھولو مت منگیتر ہوں تمہارا ۔۔”
روفہ کا انکار اس کے غصے کو ہوا دے گیا ۔۔۔
” کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ آپ مدعے کی بات پر آئیں میرا صبح ٹیسٹ ہے اور یہ میرا پڑھنے کا وقت ہے ۔۔”
گھڑی پر نظر ڈال کر پرسکون ہو کر جتانے والے انداز میں کہا ۔۔فودیل کا بس چلتا تو اس لڑکی کی کبھی شکل بھی نا دیکھتا ۔۔
” تم اس شادی کے لیے انکار کر دو چاچو کو۔۔میں تم جیسی لڑکی سے کبھی بھی شادی نہیں کروں گا جو رتی بھر بھی میری پسند کے معیار پر نا اترے ۔”
اس کے بیڈ کے قریب کھڑے ہوکر ناگواری سے بولا ۔۔روفہ کا دماغ ” تم جیسی ” اور” معیار ” پر اٹک کر رہ گیا ۔
کیا وہ اتنی ہی گئی گزری تھی کہ کوئی یوں منہ پر ریجیکشن کا دھبہ لگائے ۔۔
” کر سکتی ہوتی تو ضرور کر دیتی ۔۔مگر میں نافرمان اولاد نہیں ہوں ۔۔اگر میں آپ کو اس قدر ہی پست معیار کی لگتی ہوں تو آپ بصدشوق بابا کو انکار کریں۔”
اس کے انداز سے فودیل کو کہیں سے بھی نا لگا کہ روفہ کو الفاظ برے لگے ہیں ۔۔اس نے جان بوجھ کر ایسا کہا تھا تاکہ وہ بھی بھڑک کر چاچو کو انکار کردے ۔پتا نہیں کیسی عجیب احساس سے عاری لڑکی تھی ۔۔
” کیا تھا ان کے پوچھنے پر ایک بار نہیں سو بار انکار کر چکا ہوں مگر وہ تو دھمکیوں اور سیاست پر اتر آئے ہیں ۔۔جان بوجھ کر وٹا سٹا کروا رہے ہیں تاکہ تمہاری سیکورٹی ہو سکے مگر یہ سب میں ہونے نہیں دوں گا ۔”
اس کے یوں بھڑکنے پر روفہ نے لب بھینج لیئے جس سے اس کی تھوڑی کا خم مزید واضح ہونے لگا ۔۔شاید نہیں یقینا وہ ترتیل کے حوالے سے ہائیسم کے جذبات سے ناواقف تھا ۔۔وہ سمجھ گئی تھی ۔
” یہ آپ چاچا بھتیجے کا معاملے ہے ۔میں کیا کر سکتی ہوں میں تو خود سمجھوتا کر رہی ہوں ۔۔”
ایک ہاتھ سے کتاب بند کرکے پورے اعتماد سے بولی ۔فودیل کے ماتھے پر بل پڑے ۔
” تو ایسی کیا مجبوری ہے جو تم سمجھوتا کر رہی ہو ۔خیر میری بلا سے جو بھی تم کرو مگر خدا کا واسطہ ہے میرا اور میری بہن کا پیچھا تم دونوں بھائی بہن چھوڑ دو ۔۔”
اس وقدر تیز لہجے پر توہین سے روفہ کے چہرے کا رنگ ایک پل کو بدلا ۔۔۔فودیل اب بھی اس کو دیکھ رہا تھا مگر اس کے رنگ بدلنے پر حیرت سے دیکھنے لگا ۔۔
آج تک کسی لڑکی کو یوں رنگ بدلتے ہوئے پہلے کبھی دیکھا نا تھا ۔۔اس کا چہرہ تو کیا گردن ہاتھوں کی ہتھلیاں اور آنکھیں تک سرخ ہوئی تھیں فودیل تعجب سے دیکھے گیا ۔۔
” میری آپ سے کوئی پسند کی شادی نہیں جو میں انکار نا
کرو۔اگر جلیس کا نکاح نا ہو چکا ہوتا تو یقینا اس وقت آپ یہاں موجود نا ہوتے ۔۔بابا میری شادی چاہے چوکیدار یا پھر مزدور سے کیوں نا کر دیں میں افف تک نہیں کروں گی ۔آپ نے بلاوجہ یہاں آکر خود کا اور میرا وقت برباد کیا ۔۔میں کسی قیمت پر انکار نہیں کرنے والی ۔۔اگر آپ کو شادی نہیں کرنی تو بے شک موقع پر غائیب ہوجائیے گا ۔مجھے اس چیز سے ہر گز بھی فرق نہیں پڑتا میرا ہمسفر کون ہو گا مگر اس کو میرے ماں باپ چنیں اس بات سے بالکل فرق پڑتا ہے ۔”
وہ اب بھی غصے سے نہیں بالکہ دھیمے لہجے میں پرسکون ہو کر بولی ۔۔جانے اس لڑکی کو غصہ آتا نہیں تھا یا پھر وہ جان کر یہ سب کر رہی تھی وہ سمجھ نا سکا ۔۔
” تمہاری زندگی میرے ساتھ بدترین ہوجائے گی ۔نا تم خوش رہو گی نا میں ۔کانٹوں بھرے راستے پر چل کر کیوں خود کو لہولہان کرنا چاہتی ہوں۔”
کچھ پل تو وہ روفہ کی بات پر چپ ہی رہا ۔۔پھر اپنے گردن تک آئے بالوں میں ہاتھ پھیر کر مونچھوں کو ہاتھ سے سنوار کر دھمکانے والے انداز میں باور کرایا۔۔
” آپ سے امید بھی یہی ہے ۔۔”
اس کی آنکھوں میں اپنی چشمے لگی براون آنکھوں سے دیکھ کر کہتی کتاب پر جھک گئی مطلب صاف تھا وہ پڑھنا چاہتی ہے ۔۔
فودیل ایک قہر برساتی نظر اس پر ڈال کر باہر نکل گیا ۔۔اس کے نکلتے ہی روفہ کتاب چھوڑ کر بستر پر گر گئی ۔جانے اب یہ شخص کون کون سے طوفان اٹھانے والا تھا ۔۔
کمرے میں پہنچ کر فودیل نے دونوں ہاتھوں میں سر تھام کر خود کو صوفے پر ڈھیر کر لیا ۔۔ہر طرف سے چاچو نے بری طرح پھنسایا تھا ۔۔نانا سے بھی وہ بات کر چکا تھا وہ تو سدا کے چاچو کے فین تھے الٹا اسے ہی اس فیصلے پر قائل کرنے لگے فودیل بے دلی سے ان کے پاس سے بھی واپس آگیا ۔۔
پتا نہیں کیا سوچ کر چاچو نے یہ پلاننگ کی تھی مگر شاید وہ ایک بات بھول گئے تھے وہ بہت سے طریقوں سے روفہ کو تکلیف اور بے زار کرکے اس رشتے سے جان چھڑا سکتا ہے ۔۔مگر اس سے پہلے ترتیل کے حوالے سے خود کو مطمئین کرنا تھا جب تک اس بات کی یقین دہانی نہیں ہوجاتی کہ ترتیل ہائیسم کے ساتھ خوش ہے بس تب تک روفہ کو برداشت کرنا تھا اس کے بعد وہ خود اس سے اپنا پیچھا چھڑا لے گا ۔۔۔
جانے یہ سب سوچتے سوچتے کب اس کی گہری کالی آنکھیں نیند سے بوجھل ہوئیں ۔۔۔مگر دماغ اس وقت بھی بے سکون تھا ۔۔وجہ کا نام روفہ عالم تھا ۔۔
پورے عالم ولا کو پیلی لائیٹوں سے سجا دیا گیا ۔۔گھر کے سب بچوں کی شادی ایک ساتھ کی جارہی تھی ۔۔بہت بڑے پیمانے پر انتظامات تھے ۔۔جن کی سب ذمہ داری جلیس اور ہائیسم کے کندھوں پر تھی ۔۔فودیل صبح سے غائیب تھا جبکہ ایک گھنٹے میں مہندی کا فنکشن شروع ہونے والا تھا جو کہ گھر کے لان میں رکھا گیا تھا ۔۔
روفہ اور ترتیل بالکل تیار فضا کے کمرے مین بیٹھیں تھیں ۔۔
دونوں کے کپڑے ملتے جلتے تھے ۔۔روفہ نے ملٹی گرارے کے ساتھ پرپل شرٹ اور سر پر پیلا کام دار بھاری ڈوپٹا سجایا ہوا تھا جبکہ ترتیل نے ویسے ہی ملٹی رنگ کے گرارے کے ساتھ گرین شرٹ اور پیلا ڈوپٹہ لے رکھا تھا ۔۔
” آج اگر اماں ابوجی ہوتے تو سب کچھ کتنا مختلف ہوتا ۔۔شاید تب میں یہاں نا ہوتی ۔ہوسکتا ہے نیوز چینل کے اینکر پرسن کی بجائے کوئی عام سا انسان میرا ہاتھ تھام رہا ہوتا ۔کاش میرا نام فودیل زکی کی بجائے کسی سادہ سے شخص کے ساتھ جڑتا ۔۔کیا فائیدہ ان آسائیشوں کا جب میری زندگی میں سکون نہیں ہوگا ۔۔یہ جاننے کے بعد کہ میرا شوہر کس حد تک میری لیے نا پسندیدگی رکھتا ہے میں کیسے اپنی پوری زندگی اس کے جیوں گی ۔۔یااللہ مجھے صبر دے ۔مجھے اتنا صبر دے کہ فودیل زکی ایک دن اپنے خیالات اور الفاظ پر پچھتائے ۔۔”
شیشے میں اپنے سجے سنورے روپ کو دیکھتی وہ اللہ سے مخاطب ہوئی ۔ آج زندگی میں پہلی بار اتنا میک آپ کیا تھا مہندی لگائی تھی مگر کس لیئے صرف دنیا دکھاوے کے لیئے ۔۔۔فودیل کے دوپہر میں بولے گئے الفاظ ایک بار پھر بے ساختہ یاد آئے جو وہ اپنے نانا کو بول رہا تھا ۔۔
” نانا آپ کچھ بھی کہہ لیں میں اس لڑکی کو بیوی تسلیم کر ہی نہیں سکتا اب معاملہ میری انا کا ہے چاچو نے ترتیل کو بیچ میں لا کر اپنی اور اپنی بیٹی کے ساتھ نا انصافی کی ہے ۔۔جیسے ہی مجھے لگا ترتیل اور ہائیسم ایک ساتھ خوش ہیں اس ہی پل روفہ کو اپنی زندگی سے پھینک دوں گا یہ فودیل زکی کا وعدہ ہے ۔۔ اس سب میں میرا ہی فائیدہ ہوا ترتیل کو ایک محفوظ تحفظ مل جائے گا وہ خود کو مکمل محسوس کرے گی ۔جانے انجانے اپنا نقصان اور میرا نفع کردیا ۔”
نانا ساکت سے کچھ بول ہی نا پائے ۔۔ساکت تو وہاں سے گزرتی روفہ بھی ہوئی تھی ۔۔مگر وہ صبر کر گئی ۔۔جاہلوں کی طرح بین تو کر نہیں سکتی تھی نا ہی اپنے باپ کی عزت کو داو پر لگا کر انکار کر سکتی تھی ۔۔
” روفہ ترتیل بچوں مولوی صاحب آگئے ہیں ۔۔”
اچانک سے منظر بدلا تھا تو کیا وہ واپس آگیا تھا ۔۔ہاں اس کو آنا ہی تھا اپنی بہن کا مستقبل جو محفوظ کرنا تھا ایک پل کو اس کا دل کیا فودیل کی ساری پلیننگ عالم کو بتا دے مگر اس سے کیا نکاح تو تب بھی باپ کی عزت کی خاطر کرنا ہی پڑتا ۔۔
نکاح کی تقریب ہو چکی تھی ۔۔سرخ ڈوپٹے کے سائے تلے جس پر چوڑیوں کو اس طرح سے پرویا گیا تھا جیسے وہ کانچ کی ہری اور سرخ چوڑیوں سے بنی چادر ہو ۔۔
سامنے نگاہ اٹھانے پر روفہ بے یقینی سے دیکھنے لگی جلیس کے پہلو میں ہدی اس کی بچپن کی ہمراز دوست بہن خوشی سے سرشار شرم سے لجھائے چہرے کے ساتھ بیٹھی تھی ۔۔
آج کا دن بڑا ہی عجیب تھا ۔۔
جلیس کی طرح ہائیسم نے بھی ہاتھ آگے بڑھا کر ترتیل کو سیڑھیاں چڑھنے میں مدد دی ۔۔اس کے ہاتھ کے لمس سے ایک پل کو ترتیل نے آنکھیں میچی تھیں ۔جلیس اور ہدی کی طرف دیکھنے کی اس کی ہمت نا ہوئی ۔دل میں درد کے بل پڑے تھے ۔۔وہ تو خوش تھا ہدی کے ساتھ کی چمک اس کے انگ انگ سے واضع تھی ۔۔۔
روفہ بھی سٹیج کے قریب ہی پہنچ چکی تھی ۔مگر فودیل بڑی مشکل سے خود کو راضی کرکے محض کھڑا ہو پایا تھا ہاتھ آگے بڑھا کر اس کو مدد دینے کا اس کا کوئی ارادہ نا تھا ۔
شرمندگی اور توہین کے زیر اثر روفہ کو سمجھ نا آیا وہ کس طرح اس قدر بھاری گرارے کو تھام کر اوپر چڑھے ۔۔
ہائیسم کی نظریں ان دونوں پر ہی تھیں ۔۔اپنے غصے کو قابو کیئے ہائیسم نے ترتیل کے پہلو سے اٹھ کر روفہ کو دونوں ہاتھوں سے تھام کر سٹیج پر چڑھایا ۔
روفہ کے چہرے پر توہین بھرے تاثرات فودیل کی نظروں سے مخفی نا رہے تھے ۔۔جانے کیوں اب اس کو اپنے عمل پر شرم سی محسوس ہوئی کیا ہو جاتا اگر وہ خود ہاتھ تھام اس کو چڑھا دیتا ۔۔
اس کی حرکت وہاں کسی کو بھی پسند نا آئی تھی عالم کے چہرے پر غیض و غضب کے تاثرات تھے تو فضا کی آنکھوں میں تکلیف واضح تھی ۔۔
ہائیسم نے فودیل کے پہلو میں اس کو کھڑا کرکے آگے بڑھ کر محبت اور نرمی سے ماتھا چوم لیا ۔۔روفہ کا دل بھر آیا مگر ستم یہ کہ وہ رو بھی نہیں سکتی تھی ۔۔
ترتیل فودیل کو دیکھنے لگی جو لب بھینجے بھائی بہن کا پیار دیکھ رہا تھا ۔یہ بات سچ تھی وہ روفہ کو نا تو خاص پسند کرتی تھی نا اس سے زیادہ مخاطب ہوتی مگر آج فودیل کی حرکت اس کو بھی بہت نا زیبا لگی تھی ۔۔
تینوں جوڑیاں اپنی اپنی جگہ پر بیٹھ گئی تھیں ۔۔فودیل کی نظریں بھٹک بھٹک کر روفہ کی جانب جاتیں جس کو اس نے ایک سال میں پہلی بار اتنا تیار دیکھا تھا بلاشبہ وہ دلکش لگ رہی تھی ۔مگر وہ چہرے جھکائے اپنے کلچ پر لگے موتیوں کو ایک ایک کرکے ناخن سے اکھاڑ رہی تھی ۔۔
ہائیسم نے آہستہ سے ترتیل کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر تھام لیا ۔۔ترتیل اپنے تیکھے نقوش کے ساتھ روفہ سے زیادہ حیسین لگ رہی تھی مگر روفہ جیسی کشش اس میں نا تھی ۔۔
” نکاح مبارک ہو ترتیل ہائیسم ”
بھاری گھمبیر لہجے میں کہہ کر اس کا ہاتھ آہستہ سے چھوڑ دیا ۔۔اس کی چہرے کی گبھراہٹ پر ہائیسم کے دل کی دھڑکنیں تیز ہوئی تھیں ۔۔
جلیس ہر تھوڑی دیر بعد کوئی نا کوئی سرگوشی ہدی کے کان میں کر دیتا جس سے اس کا چہرہ مزید جھک جاتا ۔۔
تاروں بھری رات کے سائے میں ہر جگہ خوشی قہقہے رنگ و بو کا سیلاب تھا ۔۔کسی کی دل کی دنیا ویران تھی تو کوئی محبت کو پا کر دل کی دھن کر رقص کر رہا تھا ۔۔