اپنے سوال کا جواب سننے کے لیے میں بے چین ہو گیا تھا۔ پیٹرسن نے سر جھکا لیا اور نظر چراتے ہوئے افسردگی سےکہا، “تم امید اور حوصلہ مت ہارنا! پہلے ‘اُفا’ سٹوڈیو میں چل کرہم لوگ پرنٹ دیکھتے ہیں۔ ‘اُفا’ کے کلرکیمیکل روم کے ہیڈ ڈاکٹر ولف وہاں ہمارا انتظار کر رہے ہیں۔” انہوں نے پھر میرے کندھوں پر ہاتھ رکھا اور دھیرے سے تھپتھپا دیا۔
میں کسی کٹھ پتلی کی طرح باہر کھڑی کار میں جا کر بیٹھ گیا۔ موٹر بیبلسبرگ کی جانب تیز دوڑنے لگی۔ رنگین پرنٹ دیکھنے کے لیے میں اتنا بےچین ہو رہا تھا کہ میں نے ڈرائیور کو گاڑی اور تیز چلانے کے لیےکہا۔ سپیڈ انڈیکیٹر سوئی سو کے ہندسے کو چھونے لگی۔ پورے سفر میں ہم دونوں ایک دم خاموش بیٹھے تھے۔
آخر سائیں سائیں کرتی ہوئی کار صفائی سے موڑ لے کر اُفا سٹوڈیو کے داخلی دروازے سے صحن میں جا کر رکی۔ ڈاکٹر ولف ہماری راہ ہی دیکھ رہے تھے۔
ہم تینوں ایک چھوٹے تجرباتی سنیماگھر میں گئے۔ ‘سیرندھری’ کا پہلا حصہ پردے پر دکھائی دینے لگا اور پردے پر جو کچھ دِکھ رہا تھا، وہ تو میرے تصور سے بھی بدتر تھا! رنگ میں بھنگ ہو گیا تھا۔ فلم میں سارے رنگ ایسے لگ رہے تھے جیسے پوت دیےگئے ہوں۔
دس منٹ میں پہلا حصہ ختم ہوا۔ میرے تو لفظ ہی جیسے کھو گئے تھے!
ڈاکٹر ولف کو صرف جرمن زبان ہی آتی تھی۔ وہ اور پیٹرسن آپس میں جرمن زبان میں بول رہے تھے۔ بیچ بیچ میں پیٹرسن ولف کی بات مجھےانگریزی میں سمجھاتے تھے۔ ان کی رائے تھی کہ ہم لوگوں نے شوٹنگ کے وقت رنگ کے نقطہ نظر سے کیمرے کے لینز کے لیے مناسب فلٹرز نہیں لگائے تھے۔ نتیجتاً ساری شوٹنگ کسی نوسِکھیے کی کی ہوئی لگتی تھی۔ میں نے ساری ہمت اکٹھی کر کے پیٹرسن سے پوچھا، ” کیا اس نیگیٹو کے اچھے پرنٹ نہیں بنیں گے؟”
میرے اس سوال پر پیٹرسن اور ولف آپس میں پھر بحث کرنے لگے۔ یہ جاننے کے لیے کہ آخر ان کی بحث سے کیا نتیجہ اخذ ہونے والا ہے، میں باری باری ان کے چہرے دیکھتا رہا۔
کچھ سمے بعد پیٹرسن نے بتایا، “ہم لوگ بائی پیک سسٹم کی فلم تیار کرنے والی آگفا فیکٹری کے ٹیکنیشنوں سے مشورہ کرتے ہیں۔ تمہاری اس خراب نیگیٹو کے اچھے پرنٹ بنیں، اس لیے خاص نئے املشن کی پازیٹو فلم بنانا کہاں تک ممکن ہے، دیکھتے ہیں۔‘‘
میرے چہرے پر ہوائیاں اڑتی دیکھ کر ڈاکٹر ولف نے پیٹرسن سے کہا، “شانتارام کو کہو کہ فکر کرنے کی کوئی بات نہیں ہے۔ اچھے پرنٹ بنانے کی ہم اپنی طرف سے پوری کوشش کریں گے۔ خاص نئی پازیٹو فلم بننے میں پندرہ بیس دن لگ جائیں گے۔ کہنا کہ تب تک اپنی فلم کی آگے کی گراریاں تیار کرو۔”
ولف کی یہ ہمت بندھانے والی باتیں سن کر کچھ تو جان میں جان آ گئی۔
ہم واپس برلن جانے کو نکلے۔ کار میں مَیں تو ایک دم چپ بیٹھا تھا۔ میرا دکھ جان کر پیٹرسن بھی چپ تھے۔ دماغ میں وچاروں کا طوفان اٹھا تھا: جھک ماری جو اس رنگین فلم کی جھنجھٹ میں پڑے۔ ولف نے ٹھیک ہی تو کہا کہ شوٹنگ کسی نوسکھیے کی کی ہوئی لگتی ہے۔ صرف جانکاری کی کتابیں پڑھ پڑھ کر ہی تو ہم لوگوں نے شوٹنگ کی تھی۔ یہ تو ایسا ہی ہوا کہ گرامر کی کتاب پڑھ کر کوئی ناول لکھ مارے!
ہم لوگ برلن کب پہنچے، پتا ہی نہ چلا۔ پیٹرسن سُرنگی ریل کے اسٹیشن پر اتر گئے اور میں سیدھے اپنے کمرے میں آ گیا۔
کھانے کی کوئی چاہ نہیں تھی۔ آج کے سارے واقعے کا بیان تفصیل کے ساتھ اپنے ساتھیوں کو لکھ بھیجنا میرا فرض تھا۔ بیٹھا، لیکن لکھتے لکھتے رک گیا۔ ایسی کیا خوش خبری ہو گئی ہے، جس کی خبر اپنے ساتھیوں کو دینے بیٹھا ہوں؟ جو لکھ رہا ہوں، کوئی مبارک خبر تو ہے نہیں۔ یہ دکھی خبر آج ہی انہیں معلوم ہو جائے، تو انہیں بھی اسی ناامیدی کی حالت میں رہنا پڑےگا جس میں آج میں رہ رہا ہوں۔ اور کل کو خوش قسمتی سے نئی پازیٹو پر اچھا پرنٹ بن آیا، تب تو سارا جھنجھٹ ختم ہو جائے گا۔
ادھورا لکھا پتر میں نے پھاڑ کر پھینک دیا۔
دوسرے دن میں افیفا میں اپنے ایڈیٹنگ روم میں پہنچا۔ جینی کے چہرے پر سوال صاف دکھائی دیا۔ میں نے اسے کل کا سارا واقعہ سنایا۔ سن کر اسے بھی بہت دکھ ہوا۔
جینی اپنی ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں ہمت بندھانے لگی۔ یہ جان کر کہ اس پردیس میں میرے من پر چند مدُھر لفظوں کی مرہم پٹی کرنے والا کوئی تو ہے، میں نے کافی راحت محسوس کی۔ پھر، سواے جینی کے ایسا کام کر سکنے والا اور کون تھا؟ دوسرے دن سے جینی طے شدہ وقت سے کافی پہلے دفتر آ کر کام کرنے لگی۔ اس کے لیے وہ اوورٹائم کا پیسہ نہیں لیتی تھی۔ زیادہ وقت کام تو وہ صرف اس لیے کر رہی تھی کہ ایڈیٹنگ روم کے کرائے میں میری کچھ بچت ہو سکے۔
آٹھ دن بعد پیٹرسن آفس میں ملے۔ انہوں نے بتایا کہ آگفا فیکٹری کے ٹیکنیشن ہماری نگیٹو کا معائنہ کر کےاس کے لیے مناسب قسم کے ایملشن کی پازیٹو نمونے کے طور پر بنا رہے ہیں۔ یہ خبر کافی دلاسا دینے والی تھی۔
پیٹرسن کے چلے جانے کے بعد جینی بتانے لگی، “اب تم فکر نہ کرو، سب کچھ ٹھیک ہو جائےگا۔”
ہم دونوں پھر نئے جوش سے کام میں جُٹ گئے۔ کھانے کا وقت بیت گیا۔ جینی نے یاد نہیں دلایا۔ کچھ دیر بعد میرا دھیان گھڑی کی طرف گیا۔ کام کی دُھن میں مَیں اس طرح کھو گیا تھا کہ بچاری جینی کو بھی بھوکا رہنا پڑا تھا۔ میں اسے وہاں سے پاس کے کسی ریستوران میں لے گیا۔ کافی اصرار کرتے ہوئے اسے میں نے بھرپیٹ لنچ کرایا۔ وہ ایک دم خوش ہو گئی۔
دوسرے دن میں آفس پہنچا تو پایا کہ جینی مجھ سے بھی پہلے آ کر کام میں لگ گئی ہے۔ مجھے دیکھتے ہی وہ اٹھی اور اس نے مجھے چوم لیا۔ میں آنکھیں پھاڑ کر دیکھتا ہی رہ گیا۔ پس وپیش میں مَیں نے اس سے پوچھا، “یہ کیا کِیا تم نے؟”
“کل تم نے جو لنچ دیا تھا نا، اس کے لیے شکریہ!” یوں کہہ کر وہ ہنستے ہنستے پھر کام میں جُٹ گئی۔ میں نے سوچا کہ شاید یہاں کسی کے اس طرح کھانا کھلانے پر اس کا شکریہ کرنے کا یہی طریقہ ہو گا۔
‘سیرندھری’ کا پرنٹ پتا نہیں اچھا بنتا ہے یا نہیں، اس کی فکر میں تھا، تبھی ایک بات سوجھی کہ اس کے گیتوں کے فونوگراف بنا لیے جائیں۔ اپنا تو یہ فطری دھرم ہی رہا ہے کہ چِنتا میں ڈوبا ہوں یا پریشانیوں سے گَھر جاؤں تو من نئی امنگوں کی اونچی اونچی اڑان بھرنے لگتا ہے۔ فونوگراف بنانے کا خیال اسی فطری دھرم کے مطابق من میں آیا تھا۔ فلم کی اوریجنل ساؤنڈ پٹی سے اس طرح گیتوں کا فونوگراف بنانا کہاں تک ممکن ہے، اس کی پوچھ تاچھ میں نے پیٹرسن سے کی تھی۔ پیڑسن نے محتاط انداز سے کہا تھا کہ برلن کی مشہور سیمنز کمپنی سے معلوم کرتے ہیں۔ آج دوپہر اس کام کے لیے سیمنز کمپنی میں جانا تھا۔
میں نے اپنا خیال سیمنز والوں کے سامنے رکھا۔ کمپنی کے ٹیکنیشینوں کو وہ جنچ گیا، لیکن اس کی کامیابی کے بارے میں انہیں بھی شبہ تھا۔ انہوں نے مجھے کوشش کرنے کی یقین دہانی کرائی۔
دوسرے دن ہمیشہ کی طرح افیفا میں گیا اور کام میں کھو گیا۔ دوپہر کی چھٹی کا وقت ہو گیا۔ جینی میرے پاس آئی۔ اس نے مجھے کس کر پکڑ لیا اور پھر چوم لیا۔
میں نے اس سے پوچھا، “آج پھر کیا ہو گیا؟”
“آج میں نے تمھیں لنچ دیا ہے!” کہتی ہوئی شوخ بھری ہنسی ہنستے ہنستے وہ وہاں سے بھاگ گئی۔
اب تو مجھے یقین ہو گیا کہ یہ صرف آداب کا رسمی معاملہ نہیں ہے۔ لیکن جینی کا اس طرح پیش آنا مجھے قطعی پسند نہیں آیا۔ ایک بارسوچا، اُسے اُس کے ایسے طرز عمل پر اچھی پھٹکار سنا دوں۔ افیفا کے ڈائریکٹر کو بھی اس طرح کے عجیب طرزعمل کی بات بتا کر اپنے لیےکوئی اور مددگار دینےکی مانگ کروں۔ لیکن جینی کی طرح من لگا کر مہارت سے کام کرنے والی دوسری لڑکی ملنا مشکل تھا۔ پھر یہ بھی تو ممکن تھا کہ اس کا اس طرح پیش آنا سطحی ہو، کھلنڈرےپن کا اشارہ ہو۔ میں اس سے جواب طلب کروں اور اُس کے من میں ویسی کوئی بھاؤنا ہی نہ ہو، تو سُبکی کیا میری ہی نہیں ہو گی؟ جو بھی ہو، میں نے طے کیا کہ یہ معاملہ یہیں ختم کیا جائے، اور بات کو آگے قطعی بڑھنے نہ دیا جائے۔
جینی لوٹ آئی تو میں نے کہا، “میں تم سے کچھ بات کرنا چاہتا ہوں۔”
“تو کرو نا!” جینی نے کہا۔
”ابھی نہیں، شام کو کام ختم ہونے کے بعد،” اس کی طرف نہ دیکھتے ہوئے میں نے کہا اورکام میں جُٹ گیا۔
شام کو ہم دونوں پہلے ایک جرمن فلم دیکھنے گئے۔ بعد میں اسے میں برلن کے بڑے ہوٹل ‘کیمپینسکی’ میں کھانا کھلانے کے لیے لے گیا۔ کھاتے وقت میں نے اس سے پوچھا، “جینی، تم میرے ساتھ اس طرح کیوں پیش آئیں؟ مجھے کیوں چومتی ہو؟”
’’اس لیے کہ تم مجھے بھا گئے ہو!‘‘ اس نے آزادروی سے ہنستے ہوئے کہا۔
’’تو میں نے ٹھیک ہی سوچا تھا کہ تمھارے من میں یہ احساس جاگا ہے۔ لیکن دھیان سے سنو، میری شادی ہو چکی ہے۔”
اس پر اس نے فوراً کہا، ’’اس میں کیا ہرج ہو سکتا ہے؟ میں نے تمھارے دیس کے بارے میں، انڈین لوگوں کے بارے میں کافی پڑھا ہے۔ تم لوگ دو دو، تین تین عورتوں سے شادی کرتے ہو، تمھاری کتنی عورتیں ہیں؟”
میں نے کہا، “صرف ایک۔”
“تو ٹھیک ہے، میں تمھاری دوسری بیوی بنوں گی۔”
میرا نوالہ منھ میں ہی دھرا رہ گیا۔ پانی کا بڑا سا گھونٹ نگل کر میں نے کہا، “میرے دو بچے بھی ہیں۔”
“مجھ سے بھی تمھارے اور بچے ہوں گے۔” اس نے اپنے ہمیشہ سے آزاد انداز میں، بنا کسی جھجک کے کہا۔ “میں بھی بہت چاہتی ہوں کہ تمھارے جیسا براؤن رنگ کا میرے بھی ایک بچہ ہو۔”
عورت اور مرد میں ایسے موضوع پر اتنی بےجھجک باتیں ہوں، اس سے میں تو پورا لاعلم تھا۔ کیا جواب دوں، سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ جینی کی حوصلہ شکنی کے لیے میں نے یوں ہی مذاق میں کہا، “اور وہ بچہ میرے جیسا براؤن نہ ہو کر تمھارے جیسا سفید پیدا ہو گیا، تو؟”
“تو ہم پھر کوشش کریں گے، باربار کوشش کرتے رہیں گے!”
میں تو بالکل ٹھنڈا پڑ گیا سن کر۔ ایسے جواب کے بعد پھر کبھی اس سے بحث کرنے کی جھنجھٹ میں نہ پڑنے کا فیصلہ میں نے کیا۔
کھانا ختم ہوا۔ جینی کو اس کے گھر چھوڑنے کے لیے ہم کار میں بیٹھے۔ گاڑی اس کے گھر کے پاس آئی۔ گاڑی کا دروازہ کھولنے کے لیے میں نے ہینڈل کے پاس ہاتھ بڑھایا۔ جینی نےاپنا ہاتھ میرے ہاتھ پر رکھا اور بولی: “آف ویڈرزہن!”
میں نے دل سے کہا، “آف ویڈرزہن!” پھر اس نے خود ہی پھرتی سے گاڑی کا دروازہ کھولا اور نیچے اتر گئی۔
‘سیرندھری’ کے رنگین پرنٹ برابر بنتے ہیں یا نہیں، اِس کی فکر میں مَیں تھا اور ادھر یہ ایک اور سنگین معاملہ کھڑا ہو گیا تھا!
دوسرے دن ‘اُفا’ سٹوڈیو سے پیغام آیا کہ “نئی ایملشن کی پازیٹو پر ‘سیرندھری’ کے پرنٹس بنائے جا چکے ہیں اور وہ کافی تسلی بخش ہیں۔ دیکھنے کے لیے آؤ۔”
جینی کو بھی سن کر بہت خوشی ہوئی۔ وہ میری طرف دوڑتی ہوئی آئی۔ اسے ہاتھوں سے روک کر دور ہی کھڑی کرتے ہوئے میں نے ہدایت دی، “پہلا کام! دوسری گراری تیار کرنا شروع کرو!”
وہ سہم گئی۔ اس کی طرف کوئی دھیان نہ دے کر میں فوراً لیبارٹری سے باہر آ گیا۔ کار میں جا بیٹھا اور ڈرائیور سے کہا، “بیبلسبرگ، اُفا سٹوڈیو۔”
عام راستہ پیچھے رہ گیا، اب کاروں کے لیے مخصوص سڑک پر ہماری کار دوڑ رہی تھی۔ میں بہت ہی خوشی میں تھا۔ میں نے ڈرائیور کو گاڑی روکنے کے لیے کہا۔ اس کی جگہ پر جا بیٹھا اور خود کار چلانا شروع کیا۔ بیبلسبرگ پہنچنے کی مجھے اتنی جلدی تھی کہ میں کار کی رفتار بڑھاتا ہی گیا، سو، ایک سو بیس، ایک سو چالیس، ڈیڑھ سو، سپیڈ انڈیکٹر سوئی چڑھتی جھکتی جا رہی تھی۔۔۔
تھوڑی دیر بعد میری سیٹ کے نیچے کچھ گرم گرم لگنے لگا۔ پہلے تو میں نے اس کی طرف کوئی دھیان نہیں دیا، لیکن جب سیٹ بہت زیادہ گرم ہو کر جلانے لگی تو میں نے گاڑی روکنے کی کوشش کی۔ لیکن گاڑی اتنی تیز رفتار سے بھاگی جا رہی تھی کہ اسے روکتے روکتے کچھ سمے تو لگ ہی گیا۔ دروازہ کھول کر باہر چھلانگ لگائی اور اس کے ساتھ ہی میری سیٹ کے نیچے سے آگ کی لپٹیں لپلپاتی اٹھیں۔ ڈرائیور نے پھرتی دکھا کر جلتی سیٹ نکال باہر پھینکی اور کار میں رکھا کپڑا ریڈئیٹر کی ٹنکی کے پانی میں بھگو کر آگ بجھا دی۔
گاڑی میں کیا نقص پیدا ہو گیا، اس کی چھان بین ڈرائیور کرنے لگا۔ ڈرائیور کی سیٹ کے نیچے ایگزاسٹ جام ہو گیا تھا۔ اس کی نلی صاف کروانے میں لگ بھگ ایک گھنٹہ لگ گیا۔
اُفا سٹوڈیو پہنچا تو وہاں ولف اور پیٹرسن میری راہ دیکھ رہے تھے۔ ہم نے فوراً نیا پرنٹ دیکھا۔ رنگ کی نظر سے وہ سو فیصد تو نہیں آیا تھا، لیکن کافی تسلی بخش لگ رہا تھا۔ ولف نے کہا، “نگیٹو کی جو بھی گراریاں تیار ہیں، کل یہاں لیتے آنا۔ اور ہاں، ہر روز دوپہر لنچ کے بعد پرنٹ دیکھنے کے لیے آتے رہنا۔”
میں نے ولف کو بہت بہت شکریہ کہا۔
کمرے میں آتے ہی میں نے کولہاپور کے اپنے ساتھیوں کو خط لکھا کہ پرنٹ اچھے بننے والے ہیں۔ بمبئی میں فلم ریلیز کی تاریخ پکی کرنے کے لیے بھی لکھ دیا۔
کافی دنوں بعد من پر سے سارا تناؤ ہٹ گیا تھا۔ لہٰذا اس رات میں جیسے گھوڑے بیچ کر سو گیا۔ سویرے دس بجے جاگا۔ نہانے دھونے سے نبٹ کر باہر نکلا، لنچ کے بعد مجھے اُفا سٹوڈیو میں پہنچنا تھا۔ پہلے میں افیفا گیا۔ نیا پرنٹ بہت ہی تسلی بخش آنے کی خبر جینی کو دی، وہ خوشی سے اچھل پڑی، میری طرف بڑھنے لگی۔ پوری طرح سے معلوم ہو گیا تھا کہ ایسے موقع پر وہ اب کیا کرےگی۔ لہٰذا میں تھوڑا سا ایک طرف ہٹ گیا اور جینی سے کہا، “تم آگے کی گراریاں تیار کرو۔کل گیارہ بجے میں انہیں لے کر جاؤں گا۔” اتنا کہہ کر تیار گراریوں کےکچھ ڈبے اٹھا کر میں وہاں سے چل پڑا۔ جینی میرے ساتھ ایڈیٹنگ روم کے دروازے تک آئی اور بولی، “بیبلسبرگ جانے سے پہلے لنچ کر کے جانا۔ بھوکے نہ رہنا۔”
اس کے کہنے پر عمل کرتا تو مجھے دیر ہو جاتی، لہٰذا راستے میں پھلوں کی ایک دکان سے میں نے کچھ سیب خرید لیے۔ کار میں دو تین سیب میں کھا گیا۔ آگے چل کر یہی سلسلہ میں نے چار پانچ ہفتے تک جاری رکھا۔ اس طرح روز روز سیب کھا کر میں اتنا اوب چکا تھا کہ پھر دس پندرہ سالوں تک سیبوں کو چھوا تک نہیں۔
آخر ’سیرندھری’ کا ایک پورا پرنٹ تیار ہو گیا۔ ولف نے کہہ دیا کہ اب اس سے بہتر پرنٹ نکالنا ممکن نہیں۔ چلو، یہ بھی کیا کم تھا کہ جہاں کوئی بھی پرنٹ بننے کی امید نہیں رہی تھی، کم سے کم کچھ تو تسلی بخش پرنٹ بن سکا۔ مجھے اسی کی خوشی ہو رہی تھی۔ میں نے پہلی بار ‘سیرندھری’ فلم پوری دیکھی۔ ہماری دوسری فلموں کے مقابلے میں وہ مجھے اثردار معلوم نہیں ہوئی۔ یہ پتا نہیں رنگ اتنے اچھے ابھر نہ پانے کی وجہ سے تھا یا کسی اور کارن سے۔ رہ رہ کر ایک خیال ستاتا تھا کہ پتا نہیں ناظرین اس فلم کے ساتھ ہم آہنگی محسوس کریں گے بھی یا نہیں۔ لیکن اب سوچتے رہنے سے بھی کیا ہونے والا تھا!
میں نے تار دے کر بابوراؤ پینڈھارکر (ڈسٹری بیوٹر) کو مطلع کیا کہ پرنٹ تیار ہو گیا ہے اور اسے ہوائی ڈاک کے ذریعے بمبئی بھجوا رہا ہوں۔
رنگین فلم کا پرنٹ اُفا سٹوڈیو میں جب بن رہا تھا، رنگوں کا کیمیائی عمل کس طریقہ کار سے کیا جاتا ہے، اس کا مجھے بہت تجسس تھا۔ میں نے ولف سے درخواست کی کہ وہ جانکاری مجھے دی جائے اور ساری مشینری بھی دیکھنے دی جائے۔ لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔ انہوں نے صاف لفظوں میں کہا، “یہ تحقیق ہم نے بہت محنت اور پیسہ خرچ کر کے کی ہے۔ اس کا راز ہم اور کسی کو کبھی نہیں بتائیں گے۔” میں بہت نااُمید ہو گیا۔
لیکن ہماری یہ باتیں ولف کے ایک معاون نے سن لی تھیں۔ ایک بار ولف کی غیرحاضری میں اس نے نہ صرف مجھے پورا کیمیکل روم دکھایا، بلکہ سارا اُفا سٹوڈیو اور وہاں کے ہر ڈپارٹمنٹ میں کون سا کام کس طرح ہوتا ہے، یہ بھی دکھایا۔ اُفا سٹوڈیو بہت بڑا تھا اور بےشمار جدید آلات اور سہولیات پر مشتمل بھی۔ فلم میکنگ کے ڈپارٹمنٹ میں کافی سال بِتا چکنے کے کارن میں فوراً سمجھ لیتا کہ کون سا کام کرتے سمے کیا کٹھنائی آتی ہے، اور اسے یہ لوگ یہاں کس طرح دور کر لیتے ہیں۔
ڈاکٹر ولف کے اس معاون نے سبھی ڈپارٹمنٹ ہیڈز سے میرا تعارف بھی کرایا۔ لہٰذا کبھی ‘سیرندھری’ کے کسی پارٹ کا پرنٹ تیار ہونے میں دیر ہوتی تو میں سٹوڈیو کے احاطے میں آزاد روپ سے کہیں بھی آتا جاتا تھا۔ نتیجتاً کافی باتیں سیکھنے کا موقع مجھے ملتا گیا۔ ہم لوگوں کا تجربہ یہ تھا کہ مشکل سے مشکل معلوم ہونے والی باتوں کو بنانے کے لیے ہمیں بہت زیادہ دَھن اور محنت لگانی پڑتی تھی اور پھر بھی متوقع نتیجہ ہاتھ آتا ہے، ایسا نہیں ہوتا تھا۔ لیکن یہاں اس سے کہیں کم محنت اور دَھن لگا کر معمولی چیزوں کی مدد سے اس سے بھی بہتر نتیجہ یہ لوگ حاصل کرتے تھے۔ یہ گُن سیکھنے لائق تھا۔ ہر روز سونے سے پہلے میں دن میں دیکھی ہر بات کی مجموعی جانکاری اپنی ڈائری میں نوٹ کر رکھتا تھا۔ آگے چل کر اسی ڈائری میں درج کئی نئی نئی کھوجوں کو میں پُونا میں بنے ہمارے نئے سٹوڈیو میں عمل میں لایا۔ نتیجتاً ہماری سبھی فلموں کی سطح سسٹم کے نقطہ نظر سے کافی بہترین ہو گئی تھی۔
اس بیچ سیمنز سے پیغام آیا کہ آزمائشی فونوگراف تیار ہیں۔ انہیں دیکھ کر اور سن کر میرا تن من کِھل اٹھا۔ میرا خیال سچ اور کامیاب ہو گیا تھا۔ میں نے فوراً ہر فونوگراف کی ایک ایک ہزار کاپیاں بنانے کا آرڈر دیا۔
‘سیرندھری’ کی فونوگراف پر ہر گانےکا پہلا مصرع دیوناگری میں لکھنا ضروری تھا۔ اس لیے میں نے اپنے ہاتھ سے وہ مصرع لکھ دیا اور پھر لیبلوں کے لیے ان کا بلاک بنوایا۔
آج تک بھارتی فلم کے گیتوں کا فونوگراف کسی نے نہیں بنایا تھا۔ میں نے سوچا تھا کہ یہ فونوگراف بازار میں دستیاب ہو جاتے ہیں تو ان گیتوں کے ساتھ فلم کی بھی مقبولیت بڑھےگی۔ یہی سوچ کر بھارتی فلم سنگیت کا ایک نیا جہاں میں نے کھول دیا۔ فلمی سنگیت کو آج حاصل مقبولیت، اس میں لگائی جانے والی پونجی، اور اس کا فلم انڈسٹری کو مل رہا نفع وغیرہ باتوں کا آج خیال کرنے پر لگتا ہے کہ ضرور ہی جس سمے مجھے یہ خیال سوجھا، وہ بہت ہی خوش قسمت لمحہ ہو گا!
“سیرندھری” کے گیتوں کے فونوگراف بہت زیادہ کامیاب رہے۔ پھر بھی کئی سالوں تک گراموفون کمپنیاں اوریجنل ساؤنڈ پٹی پر سے گیتوں کے گراموفون بنانے سے گریز کرتی تھیں۔ انہی گیتوں کے فونوگراف کے لیے وہ ان کلاکاروں سے دوبارہ گراموفون کمپنی میں گوا لیتی تھیں اور اس گائیکی سے فونوگراف بناتی تھیں۔ لیکن آج فلموں کے سبھی فونوگراف سیدھے فلم کی ساؤنڈپٹی سے ہی بنائے جاتے ہیں۔ اسی لیے اوریجنل ساؤنڈپٹی سے سیدھے فونوگراف بنانے کے اُن دنوں معجزاتی اور تجرباتی ظاہر ہونے والے میرے خیال پر آج مجھے سچ میں بڑا ناز ہے۔
کچھ دنوں بعد رنگین عمل اور خاص روپ سے بنائے اس پازیٹو کے بِل اُفا سٹوڈیو اور آگفا کمپنی کی طرف سے آئے۔ انہوں نے ہماری نگیٹو کی خرابیوں کا فائدہ اٹھا کر من چاہا بِل بنایا تھا۔ بِل میں موٹی رقمیں پڑھ کر میں تو بالکل ہی حیران ہو گیا۔ میرے پاس اتنے جرمن مارک نہیں تھے۔ لیکن پرنٹ تیار ہو گئے تھے اور بِلوں کی ادائیگی کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ میں نے بمبئی تار دے کر اور مارک بھجوانے کو کہا۔
اُفا سٹوڈیو میں جا کر میں نے ڈاکٹر ولف کے ساتھ ان بِلوں کے بارے میں بات کی۔ اس سمے ولف میرے ساتھ بہت ہی روکھےپن سے پیش آئے۔ لیکن میں کیا کر سکتا تھا! میں وہاں جلابُھنا بیٹھا تھا، تو ولف نے میرے بارے میں شاید کچھ کہا۔ سن کر وہاں بیٹھے اور سبھی لوگ زور سے قہقہے لگانے لگے۔
میں نے ولف کے معاون سے سب کے ہنسنےکا کارن جاننا چاہا۔ اس نے ولف کی اجازت سے جرمن زبان میں کہے گئے اُس جملے کا مطلب مجھے بتایا: ’’ولف کہہ رہے ہیں کہ بھارت میں کلمونہے بندروں کی بہتات جو ہے۔” ولف کی اس پھبتی کا ٹارگٹ میں ہی تھا۔ میں آگ بگولا ہو گیا، لیکن چہرے پر ذرا بھی شکن نہ دکھاتے ہوئے میں نے ہنستے ہنستے کہا، “اِدھر جرمنی آنے سے پہلے میرا بھی خیال یہی تھا۔ لیکن یہاں پہنچنے پر میں نے پایا کہ بھارت میں کلمونہے بندروں کی نسبت جرمنی میں سفید مونہے بندروں کی تعداد کہیں زیادہ ہے!”
ولف کے معاون نے میری بات کا بھی جرمن زبان میں ترجمہ کر انہیں سنایا۔ لیکن چونکہ یہ طنز میں نے ہنستے ہنستے لوٹایا تھا، انہیں بھی اسے ہنس کر ہی ٹالنا پڑا۔
لیکن اس کے بعد ولف میرے ساتھ ایک دم ٹھیک طرح سے پیش آنے لگے۔
ان فونوگراف کے بنانے کے سمے میں نے سیمنز کمپنی کے پتا نہیں کتنے چکر لگائے تھے۔ وہاں میں نے ایک اچھی بات دیکھی۔ کمپنی کے ایک ڈپارٹمنٹ کے آدمی کو دوسرے ڈپارٹمنٹ میں کام کر رہے آدمی سے کوئی بات چیت کرنی ہو تو وہ انٹرکام پر بات کر لیتا تھا۔ اس سے سمے کی کافی بچت ہوتی تھی۔ اس کے علاوہ ہر کارخانے کے باہر سٹول پر بیٹھے اونگھنے والے آفس بوائے کی ضرورت نہیں رہتی تھی۔ اب ہماری ‘پربھات’ کمپنی پُونا جانے والی تھی۔ ہمارا احاطہ بھی کافی وسیع ہونے جا رہا تھا۔ ایسی حالت میں اپنی کمپنی کو جدید بنانے کے لیے ایسے ہی انٹرکام فون سسٹم کا بڑا استعمال ہونے والا تھا۔ یہی سب سوچ کر میں نے فوراً سیمنز کمپنی کو خودکار فون مشینری کا آرڈر دے دیا اور اسے جتنی جلدی ہو سکے بھارت بھجوا دینے کی ہدایات دے دیں۔
یہ سب کر کے میں اپنے پانسیوں پر واپس آیا تو وہاں گھر سے آیا ایک پتر میرا انتطار کر رہا تھا۔ پتر وِمل کا تھا۔ لکھا تھا، ‘پتاجی کی صحت پھر خراب ہے۔ حالت پریشان کن ہو گئی ہے۔ آپ جلدی لوٹ آئیے۔” میں نے خط پر لکھی تاریخ دیکھی۔ وہ تین چار ہفتے پہلےکی تھی۔ من میں طرح طرح کے خدشات اٹھنے لگے۔ باپو کے لفظ یاد آنے لگے: “شانتارام، ہم لوگوں کا سارا جیون کرائے کے مکان میں ہی گزر چکا ہے۔ من بہت چاہتا ہے کہ مرنے سے پہلے ہمارا اپنا کوئی مکان ہو۔ اب تو ایک ہی خواہش رہ گئی ہے کہ دم نکلے تو ہماری اپنی چھت کے نیچے۔۔۔” میں فوراً ڈاک گھر گیا اور بمبئی میں بابوراؤ پینڈھارکر کو تار دیا : “پُونا کے اپنے سٹوڈیو کے قریب ہی کہیں ماں اور باپو کے لیے ایک بنگلہ بنانا چاہتا ہوں، جگہ خرید لیجیے۔”
ڈاک گھر سے کمرے پر لوٹا ہی تھا کہ کسی نے دروازے پر دستک دی۔ دروازہ کھول کر دیکھا، تو پانسیوں کی مالکن ہاتھ میں تار کا ایک موٹا لفافہ لیے کھڑی تھیں۔ جرمن بھاشا میں اس کو شکریہ کہہ کر میں نے تار لے لیا۔ تار پورے دو صفحوں کا تھا اور کولہاپور سے آیا تھا۔ لکھا تھا کہ میرے لیے ضرورت سے زیادہ مارک امیریکن ایکسپریس بینک بھجوا دیے ہیں۔ پڑھ کر اچھا لگا۔ راحت بھی محسوس کی۔
تار کا پہلا صفحہ پڑھ کر پلٹ دیا۔ دوسرا پنّا پڑھنے لگا اور بجلی کا بھیانک دھچکا لگنے کا سا احساس ہوا! میں دھڑام سے پیچھے رکّھی کرسی پر بیٹھ گیا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...