میں اک ازلی راہی
ساتھ نہ ہو یونہی
پھر سوچ لے چن ماہی
سب ہو گئے سودائی
عشق کی پانہ سکے
وسعت اور گہرائی
کنڈلیاں دستاروں کی
اہلِ محبت ہیں
زد میں پھنکاروں کی
آنکھوں سے گماں تک کا
اپنا سفر سارا
تھا جسم سے جاں تک کا
ہر خواہش جل گئی ہے
اب کیوں آئے ہو
جب عمر ہی ڈھل گئی ہے
دُکھ، سکھ کو نکھار آئے
بجھتے، چمکتے ہوئے
جیون کو گذار آئے
بادل ہیں گھنیرے سے
چہرہ کوئی اُبھرا
یادوں کے بنیرے سے
دکھ اپنا تو کہہ جاتے
کاجل بن کے تری
آنکھوں سے جو بہہ جاتے
جتنے بے تاب ہوئے
آپ کی چاہت میں
ہم اُتنے خراب ہوئے
کیا اُن کو بتائیں ہم
اُن کی محبت تو
خود سے بھی چھپائیں ہم
پھر رقص میں بادل ہے
چھم چھم بجنے لگی
پھر بوندوں کی پائل ہے
سورج ہو کہ خود تُو ہو
رات کے سینے میں
کوئی تِیر تراز و ہو
سرسبز سماں ہوگا
جل گئے خواب اگر
آنکھوں میں دھواں ہوگا
بے دوش چناروں پر
پھل کیسے آتے
تقدیر کے ماروں پر
آسان سفر کر لو
آنکھوں کو دریا
اور دشت کو گھر کر لو
کشکولِ نظر بھر دے
اپنے کرم کی نظر
اے میرے سخی کر دے
کہاں آنکھ مٹکی ہے
پیس کے رکھ دے گی
پتھر کی وہ چکی ہے
قصوں کا بہانہ تھا
دو جے حوالوں سے
دکھ اپنا سنانا تھا
سلور کی وہ تھالی ہے
رنگ کی گوری ہے
پر قسمت کا لی ہے
دکھ درد کی دولت کے
یونہی رہیں روشن
یہ داغ محبت کے
بے کار کے رونے سے
کچھ بھی نہیں ملتا
پانی کو بلونے سے
یہ دل بھی لگا کھلنے
لہنگا ہرا پہنے
آیا ہے کوئی ملنے
چاہت کی گواہی تھے
ہم بھی کبھی یارو
اک ہیر کے ماہی تھے
مہکار ہے کلیوں کی
جیسے دعا کوئی
دھرتی پہ ہو ولیوں کی
جب ماہیے کی بات آئی
ساتھ ہی سکھیوں کے
پیتل کی پرات آئی
جھجھری بھی بجاتے ہیں
تال پہ تالی کے
جب ماہیے گاتے ہیں
کلیاں سی چٹک جائیں
پھول محبت کے
ہر دل میں مہک جائیں