اس دن میں بس اچانک ہی مر گیا۔ دن اور تاریخ تو اب مجھے یاد نہیں اور یاد رکھنے کا فائدہ بھی کیا۔ احساسِ وقت تو زندگی میں بھی ایک فریب تھا اب مرنے کے بعد میں دوبارہ اس جھمیلے میں گرفتار نہیں ہونا چاہتا۔ وہ بھی کوئی طریقہ تھا جینے کا۔ وقت کو مہ و سال میں تقسیم کر کے ہر پل آنے والے پل کے خوف میں یا بیتے پل کے ذکر میں بتایا تھا۔ وقت کے جال میں ایسے پھنسا رہا جیسے کوئی مکھی ایک مکڑی کے جال کے عین وسط میں گرفتار ہو جائے۔ بس اتنا یاد ہے کہ عید کا دوسرا دن تھا۔ ہمیشہ کی طرح اس دن بھی میرے گھر والے ابھی خوشیوں بھرا دن پوری طرح گذار بھی نہیں پائے تھے کہ میرے غم نے انہیں آ لیا ہو گا۔ ساری زندگی بس یہی داستان رہی۔ ایسے ہی خوشی اور غم سے آنکھ مچولی رہی، کبھی خوشی آگے تو غم پیچھے اور کبھی غم آگے تو خوشی اس کے تعاقب میں۔ عجیب گورکھ دھندا تھا نہ کبھی چین سے خوشی منائی نہ ہی غم کو پوری طرح اوڑھ سکے۔
تو بس اس دن میں اچانک مر گیا۔ صبح سو کر اٹھا تو طبیعت کچھ بھاری تھی۔ میں نے سوچا ذرا سی دیر کے لئے Treadmill پر دوڑ لوں تو رگوں کے جالے اتر جائیں۔ ساری زندگی یہی وطیرہ رہا کہ جس صبح ورزش کر لی اس دن خون رگوں میں ایسے دوڑتا کہ تھکنے کا موقع ہی نہیں ملتا۔ Treadmill پر چڑھے ابھی بمشکل دو منٹ ہوئے ہوں گے کہ آنکھوں کے سامنے ایک تیز روشنی کا جھماکہ ہوا۔ میں نے موت کی بابت بہت سی کتابوں میں پڑھ رکھا تھا۔ کچھ لوگ جو موت کے منہ سے ہو کر واپس آ گئے تھے ان سب نے یہی بیان کیا کہ ایک سفید تیز روشنی کا احساس ہوتا ہے۔ غالباً مرتے وقت ان کی مت ماری جاتی ہے۔ روشنی سفید نہ ہو گی تو کیا کالی ہوتی۔ مجھے تو Treadmill سے اترنے کا موقع بھی نہیں ملا۔ مشین کی بیلٹ چلتی رہی، میرا جسم سمٹ کر ایک بوری کی مانند بیلٹ پر جمع ہو گیا تھا۔ پل بھر میں زندگی کا شیرازہ یوں بکھر گیا جیسے اکثرPIA سے سفر کرنے والوں کا سامان لتر لتر کر کے بیلٹ پر آ رہا ہوتا ہے۔ دوسرے ہی پل اپنے جسم سے علیحدہ ہو کر میں اوپر کی سمت اٹھ رہا تھا اور حیرت سے اپنے بوری نماجسم کو دیکھ رہا تھا۔ کیا واقعی یہ میرا ہی جسم تھا، اتنا بے ڈول۔ شاید میرا ڈاکٹر سچ ہی کہتا تھا ؛ اتنا مت کھاؤ، وزن کم کر لو ورنہ وقت سے پہلے وقت آ جائے گا۔ خیر میں چاہتا بھی یہی تھا کہ اچانک مروں۔ اتنے عرصے ہسپتال میں کام کرتے کرتے میں نے کتنے ہی جسم دیکھے تھے جو مر چکے تھے لیکن زندہ تھے۔ مرنا چاہتے تھے لیکن مر نہیں پاتے تھے۔ انسانی رشتوں کی ناپائداری اور کمزوریاں وہیں کھلتی تھی جہاں کوئی اپنا عزیز کسی طویل بیماری میں مبتلا ہو کر معذور ہو جائے اور خود سے اپنا کوئی کام نہ کر سکے۔ میری خواہش یہی تھی کہ نہ کسی پر بوجھ بنوں اور نہ ہی کسی کو تکلیف دوں۔ اور ہوا بھی ایسا ہی تھا۔ کسی کو تکلیف دئیے بغیر میں اس طرح نکل لیا کہ جب بیوی کمرے میں داخل ہوئی تو سمجھی شاید میں بیلٹ پر گر پڑا ہوں۔ یہ تو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ جو اسے آواز دئیے بغیر ہل کر پانی بھی نہیں پیتا تھا اس نے اتنا بڑا قدم خاموشی سے اکیلے ہی اٹھا لیا۔ پل بھر میں آسمان میرے پاؤں کے نیچے تھا۔ میں بس اوپر ہی اوپر اٹھ رہا تھا۔ ہوائیں مجھے چھو کر نہیں بلکہ گویا میرے اندر سے گذر کر جا رہی تھیں۔ ابھی اس بے وزنی کی عادت نہیں ہوئی تھی اس لئے روح ادھر سے ادھر ڈولتی پھر رہی تھی۔ کٹی پتنگ ہواؤں کے رحم و کرم پر ہوتی ہے، جس سمت ہوا چلے یہ پتنگ اسی جانب اڑ جائے۔ کہیں ایسا نہ ہو میں بھی اسی ہوا خوری میں جنت کی بجائے جہنم کی سمت نکل لوں۔ یہ سوچ کر میں نے چاہا کہ اپنی روح کو سنبھالا دوں اور ابھی پھریری سی لی ہی تھی کہ ایسا لگا جیسے کسی نے روح پر گرفت مضبوط کر لی ہو۔ یا اللہ کیا نیک بخت کو یہاں بھی ساتھ کر دیا ہے۔ ا سے پہلے کہ کوئی سرگرانی ہوتی دائیں بائیں سے دو فرشتے بلند ہو کر ہم پرواز ہو گئے۔
“یہاں بھی فرار کے منصوبے بن رہے ہیں ” ایک فرشتے نے ڈپٹ کر کہا۔ “ساری زندگی اپنی من مانی کی اب آسمانوں پر تو خدا کی مرضی چلنے دو”۔
“نہیں میں تو صرف اپنا پہلو بدل رہا تھا بھاگ نہیں رہا تھا، میری بات پر اعتبار کرو”
’ انسان اپنا اعتبار بہت پہلے کھو بیٹھا تھا۔ اب ہم نیت کو نہیں عمل کو دیکھتے ہیں۔ جو پکڑا جائے کہہ دیتا ہے نیت تو اچھی تھی، جو نہیں پکڑا جائے وہ سمجھتا ہے عمل پکڑا نہیں گیا تو آسمانوں سے بھی مخفی رہے گا، خاموشی سے اڑتے رہو، قبلہ درست کرنے کا وقت اب گذر چکا ہے ‘۔
ان کے دھمکانے سے میں ڈرا تو نہیں، مردہ آدمی بھلا کیا خوفزدہ ہوتا۔ مگر جبلت میں جو خود غرضی شامل تھی وہ صرف رگوں میں ہی نہیں دوڑ رہی تھی، وہ مرنے کے بعد بھی مجھ سے جدا نہیں ہوئی تھی۔ بہتری اس میں سمجھی کہ یہاں جد و جہد نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے، لہذا جس سمت فرشتوں نے باگ موڑی وہیں بے وزنی سے بڑھتا چلا گیا۔ چند میل بھی نہ اڑے ہوں گے کہ سامنے ایک بھیانک منظر کھُل گیا۔ دور دور تک آگ کے شعلے بھڑک رہے تھے۔ درجۂ حرارت اتنا گرم کہ مجھے خوف ہوا کہیں میری روح ہی نہ پگھل جائے۔ دور سے ہی نظر آ رہا تھا کہ اس منظر میں بہت سے لوگ عذاب میں گرفتار ہیں۔ کچھ درختوں سے الٹے لٹک رہے تھے، کچھ کو اژدہوں نے اپنی گرفت میں لے رکھا تھا۔ ایک سمت کچھ لوگ ٹکٹکی پر بندھے تھے اور ان کو کوڑے مارے جا رہے تھے۔
’ ارے کہاں لئے جا رہے ہو، میں نے تو ساری عمر نماز روزے میں گذاری ہے، شاید حساب میں کوئی غلطی ہو گئی یا فرشتے راستہ بھول گئے ہیں ‘ بلا ارادہ ایک لمحے کے لئے ذہن میں آیا کہ کچھ دے دلا کر معاملہ اپنی سمت میں کروا لوں، مگر وہاں نہ جیب کا پتہ نہ ہاتھ ہی موجود۔ خیر ہوئی فرشتے یہ سوچ نہ بھانپ سکے۔
’یہ تمھاری جگہ نہیں ہے۔ سب علاقے دیکھ لو تاکہ تمھیں اپنی جگہ کی قدر ہو۔ اپنے سے برے حال والا تصور میں رہے تو ہوس کو لگام دہنے میں آسانی رہتی ہے۔ باقی رہیں تمھاری نمازیں اور روزے تو ابھی اوپر سے آرڈر نہیں آیا ہے کہ یہ درخواستیں قبول ہوئی ہیں یا نہیں۔ پھر تم نے تو ساری عمر حکمِ امتناعی میں گزاری ہے، فیصلہ آنے تک ضمانت قبل از وقت کروا لو، کچھ وقت کے لئے ہی محفوظ ہو جاؤ گے ‘ ایک فرشتے نے میرا مذاق اڑایا۔
’ یہ فرشتے انسان کے ہاتھوں اپنی توہین بھولے نہیں ہیں۔ بدلہ لینے کے چکر میں مجھے جہنم میں ہی نہ جھونک دیں ‘ یہ سوچ کر میں نے اپنی روح کو پھر ڈھیلا چھوڑ دیا۔
’ ارے اس عورت کو کیوں کوڑے لگ رہے ہیں، یقیناً کوئی بہت ہی گناہ گار ہو گی؟‘
’ہاں اس کا نام مدر ٹریسا ہے۔ ساری عمر بے دینی میں رہی۔ صاف صاف واضح احکامات تھے، مگر اس نے ایسے آنکھیں بند کر رکھی تھیں جیسے یہ دن آئے گا ہی نہیں۔ بس اس کا خمیازہ اب ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بھگتے گی‘۔ میں نے بہت سمجھداری سے سر ہلا دیا۔ مرنے سے پہلے زندگی کے آخری دو تین سالوں میں، میں نے یہ فن خوب سیکھ لیا تھا۔ دین کے معاملے میں بحث مت کرو۔ سیاہ سیاہ ہے اور سفید سفید۔ درمیانہ راستہ دین کا راستہ نہیں۔ پانچ فیصد انتہا پسندی نے پچانوے فیصد میانہ روی کی روح قبض کر رکھی تھی۔ تو یہاں تو سچ مچ کے قابضینِ روح سے واسطہ تھا۔ میں نے ایسے سر ہلایا کہ وہ مطمئن ہو گئے۔
’ ارے اور یہ زرد رنگ کے عجیب سے لباس میں کون ہے، جس کے گرد اتنا بڑا اژدہا لپٹا ہوا ہے، لگتا ہے یہ بھکشو بہت تکلیف میں ہے ‘۔
’ ہاں یہ دلائی لامہ ہے۔ ساری عمر اہنسا اور برہمچاری پر ہی تکیہ کئے بیٹھا رہا، اب بھگتے گا۔ گوتم بدھ تو لاعلمی کا بہانہ کر کے بچ نکلا، مگر یہ کمینہ کیا بہانہ کر سکتا تھا۔ اب اپنے کئے کی سزا بھگت رہا ہے یا یوں سمجھئے نہ کئے کی سزا بھگت رہا ہے ‘۔
لیجئے انہوں نے ایک نیا شوشہ چھوڑ دیا۔ کیا امر زیادہ خطرناک ہے، وہ امر جو ہم کرتے ہیں یا وہ امر جو ہم نہیں کرتے۔ میرے معاملے میں تو اب بہت تاخیر ہو چکی ہے۔ کاش یہ فرشتے مجھے ایک پل کے لئے واپس جانے دیں تو میں اپنے پیاروں کو خبردار کر سکوں، یہ قیامت خیز منظر ان کے سامنے کھینچ سکوں، ہر قدم سوچ کر اٹھائیں۔ جو کام وہ کر رہے ہیں اس کے اثرات کیا ہو سکتے ہیں اور جو وہ نہیں کر رہے، کیا کرنا اس سے بہتر ہو گا۔ مگر فرشتے تو جیسے میری سوچ کی لہروں کو بھی پڑھ رہے تھے، فوراً میری روح پر ان کی گرفت مضبوط ہو گئی۔ ایسا نہیں تھا کہ میں اپنی روح ان کی گرفت سے آزاد نہیں کروا سکتا تھا، زندگی بھر یہی کھیل کھیلتا رہا۔ نادیدہ فرشتوں سے کبھی روح مقید اور کبھی آزاد کراتا رہا۔ مگر اب فیصلے کی گھڑی تھی، اب کوئی رسک لینا بالکل مناسب نہیں تھا، میں نے اپنی روح کو پھر ڈھیلا چھوڑ دیا۔ کیا بتاؤں اس عقوبت خانے میں تو سب ہی سر پھروں سے مل لیا۔ کیا نیلسن منڈیلا تو کیا جون آف آرک۔ میں نے دل ہی دل میں ان ناعاقبت اندیشوں پر لعنت بھیجی اور شکر ادا کیا کہ میں بھلائی کے راستے پر رہا۔ یہ وہی کاٹ رہے تھے جو خود انہوں نے بویا تھا۔ ذرا اور اوپر اٹھے تو میں نے سکون کی پھریری لی۔ جہنم کے اطراف میں پھریریاں تو آئیں گی۔ اب درجہ حرارت رفتہ رفتہ کم ہونے لگا۔ آگ کے قد آور شعلے کم ہو کر راکھ اور چنگاری میں بدل گئے تھے۔ اژدہوں کی جگہ نچلے درجہ کے سانپوں اور بچھوؤں نے لے لی۔ ابھی سکون کا ایک لمحہ بھی نہ گذرا تھا کہ اچانک ایک بڑا میدان نظر میں ایسے نمودار ہو گیا جیسے کسی نے پردہ ہٹا دیا ہو۔ اس میدان میں کچھ مانوس قسم کی شکلیں نظر آئیں۔ یہاں کچھ پاجامے والے بھی تھے اور عبا چغا والے بھی۔ یہ گروہ بھی درد کی شدت سے چیخ رہا تھا مجھے ایسا لگا جیسے مجھ پر نگاہ پڑتے ہی ان سے کئی کے چہروں پر اس تکلیف میں بھی ہلکی سی مسکراہٹ دوڑ گئی ہو۔ مجھے حیرت کیوں ہوتی۔ ان کے لباس خراش سے ہی سمجھ لینا چاہئیے تھا کہ ان کی مسرت کے پیچھے یہ امکان تھا کہ شاید میں بھی اس مشکل میں گرفتار ہونے والا ہوں۔ اس سے پہلے کہ میں کوئی سوال کرتا، ایک فرشتہ خود ہی بول پڑا۔
’ان میں سے کچھ قہاری ہیں، کچھ غفاری، کچھ قدوسی تو کچھ جبروت‘
’ تو پھر انہیں بھلا کس بات کی سزا مل رہی ہے۔ کیا انہی عناصر کا حکم نہیں تھا، یہ شاید غلطی سے یہاں آ گئے ہیں ‘
’غلطی آسمانوں پر نہیں ہوتی‘ فرشتے نے گرج کر جواب دیا۔ ’غلطی زمین پر ہوتی ہے۔ آسمان سے تو مٹھی بند بھیجے جاتے ہو، یہاں واپس آتے آتے ہاتھ کھلے اور خالی ہو جاتے ہیں، اور بہانہ یہ ہے کہ شاید آسمانوں پر غلطی ہو گئی۔ اگر زمین پر ہی غلطیوں کو ڈھونڈ کر درست کر لو تو یہاں کوئی الجھن نہ رہے ‘۔
’ لیکن علامہ نے تو کہا تھا قہاری و غفاری۔۔ ‘
’ ہاں کہا ضرور تھا، لیکن چاروں عناصر ہونا لازم قرار دئیے تھے۔ تم لوگوں نے اس کے ساتھ یہ سلوک کیا کہ جو چاہا رکھ لیا اور جو مزاج کو موافق نہ ہوا چھوڑ دیا۔ جو اچھائیاں سہل معلوم ہوئیں یا ان سے ذاتی منفعت کا امکان ہوا صرف انہیں اپنا کر باقی کو ترک کر دیا۔ اس کا یہ انجام تو ہونا ہی تھا‘ اف، کس قدر سخت لہجہ تھا اس فرشتے کا، بھلا کوئی ایسا سلوک کرتا ہے سہمی ہوئی روحوں سے۔ یہاں پہلے ہی خوف سے مرے جا رہے ہیں کہ ہمارا دورہ کب ختم ہو جائے اور کہا جائے کہ لو تمھاری قیام گاہ آ گئی ہے۔ ذرا جو خوفِ خدا ہو ان فرشتوں کو۔ انہیں تو معلوم ہے کہ انہیں تو حساب دینا نہیں ہے اسی لئے اتنا اکڑ اکڑ کر مصلح بن رہے ہیں۔ ہمارا ذاتی تجربہ تھا کہ خود را فضیحت دیگر را نصیحت ایک دلچسپ اور بہت کارآمد رویہ ہے۔
’چلیں نکلیں یہاں سے ‘ ہم نے امید بھرے لہجے میں التجا کی۔ جیسے اسکول میں کوئی بچہ پہلے دن ماں کی انگلی پکڑے امیدوار ہوتا ہے کہ شاید دروازے سے واپس گھر لوٹ جائیں گے۔
’ہاں چل رہے ہیں، ابھی تو بہت کچھ دیکھنا ہے ‘ فرشتوں کو کوئی جلدی نہیں تھی۔ لیکن میرے کہنے سننے سے یہ ضرور ہوا کہ ہم پھر مائل بہ پرواز ہو گئے۔
’یہاں دائیں کو ہولیں ‘ میرے دائیں ہاتھ پر ایستادہ فرشتے نے ذرا شوخی سے کہا
’نہیں، نہیں اسے آخری نظارہ رکھو، بائیں ہاتھ والے فرشتے کا لہجہ معنی خیز تھا۔ میں کچھ الجھ سا گیا۔ یہ داہنی ہاتھ پر یقیناً کوئی خاص زندان تھا۔ اپنی روح کو بلند کر کے بہت چاہا کہ جھانک لوں، مگر کچھ پردے ایسے دبیز ہو تے ہیں کہ روح بلند کرنے کے باوجود مستور رہتے ہیں۔ دکھانے والا نہ دکھانا چاہے تو لاکھ کوشش کر لو بیکار ہے۔ کوئی صرف اتنا ہی دیکھ سکتا ہے کہ جتنا اسے دکھایا جائے میں یہ تجربہ دنیا میں بھی کر چکا تھا۔ ساری زندگی جن لوگوں کی بابت میں سمجھتا رہا کہ انہیں جان گیا ہوں، در حقیقت میں ان کے بارے میں صرف اتنی ہی معلومات رکھتا تھا، جتنی وہ فراہم کرتے تھے۔
’ اتنی جلدی بھی کیا ہے، آخر میں یہ داہنے ہاتھ والی جگہ بھی دکھا دیں گے۔ ہائے رے انسان تیری بے صبری‘ فرشتے نے مجھے چھیڑا
ایک لمحے کو مجھے شبہ ہوا کہ شاید یہاں مینا کماری، نرگس، ایشوریا رائے اور الزبتھ ٹیلر وغیرہ رکھی گئی ہیں۔
’ایک جھلک ہی دکھا دو‘ شکر ہے اب میں بے منہ کا تھا ورنہ رال ٹپکتی نظر آ جاتی
’وہ نہیں ہے جو تم سمجھ رہے ہو‘ فرشتے نے حقارت سے مجھے جھڑکا۔ آگے بڑھے تو سامنے جو منظر تھا اسے دیکھ کر میرے دیوتا کوچ کر گئے۔ بہت ہولناک منظر تھا، ایسا لگتا تھا جیسے پچھلے تینوں عقوبت خانوں کا سارا عذاب جمع کر کے یہاں لکھ دیا گیا ہے۔ سانپ بچھو بھی تھے اور اژدھے بھی۔ گرم گرم لاوہ زمین پر بہہ کر معتوبین کے جسموں پر آبلے ڈال رہا تھا مارے خوف کے میں ایک فرشتے سے چمٹ گیا۔
’ ڈرو مت تمھیں یہاں نہیں چھوڑیں گے ‘ اس نے مجھے تسلی دی
’ یہ کون لوگ ہیں، مجھ سے رہا نہیں گیا‘
’ یہ بد بخت خدا پرست بن کر اس کے لوگوں کو گمراہ کر تے رہے۔ بھیڑ کی کھال میں بھیڑئیے ہیں۔ ایسا نہیں کہ انہیں معلوم نہیں تھا۔ بس اپنے مفاد کے لئے حقائق اور احکامات کو توڑ مروڑ کر گمراہی پھیلاتے رہے، جو سیدھے راستے پر چلنے کے متمنی تھے ان کے لئے سیدھے رستے کی تختی بدل دی‘۔
’ کیا مطلب میں سمجھا نہیں کہ یہ کون سا گروہ ہے ‘
’مسئلہ یہی ہے، شروع میں پہچانے نہیں جاتے، اپنے اپنے سے لگتے ہیں۔ جب تک پہچان میں آئیں بہت دیر ہو چکی ہو تی ہے۔ ان کی سانس میں زہر ہے، جہاں سانس لیتے ہیں وہاں زہر پھیل جاتا ہے ‘ لگتا تھا فرشتہ بھی ان سے ڈر رہا تھا کہ گول مول سا ہی جواب دیتا رہا۔ میں نے بھی اسی میں بہتری جانی کہ ایسے سر ہلا دوں جیسے سمجھ گیا ہوں۔
’نکلو یہاں سے ‘ فرشتے نے میری روح کو ٹھہوکا دیا۔
’دائیں طرف چلیں ‘ میں نے تجویز پیش کی۔
’بتایا تھا ناں کہ وہاں وہ نہیں جو تم سمجھ رہے ہو، لے چلیں گے لیکن آخر میں ‘ دائیں ہاتھ والے فرشتے نے میری روح اوپر کی جانب بلند کر دی۔ اچانک چاروں سمت سے جیسے بہار کی آمد کی نوید ملنے لگی۔ پھول نظر آنے لگے، ندیاں بہتی نظر آئیں۔ درختوں پر پھل ایسے لدے ہوئے تھے کہ درخت ان کے بوجھ سے سجدہ بوس ہوئے جاتے تھے۔ دیکھا تو ایک بلند ٹیلے پر ایک فرشتہ ہاتھ میں کچھ پرچیاں لئے شاید کچھ اعلان کر رہا ہے۔ اس کے سامنے نورانی شکلوں والے، اونچی شلواروں میں ملبوس لوگوں کا ہجوم تھا۔
’یہ کیا ہو رہا ہے ‘ میں نے حیرت سے پوچھا
’یہ جنت کا ڈیفنس ہے اور یہ یہاں کا قبضہ گروپ‘
’ جنت کا ڈیفنس؟‘
ہاں کراچی ڈیفنس کی کامیابی دیکھ دیکھ کر فرشتوں نے یہاں بھی پلاٹ نکال دئیے ہیں۔ یہ قبضہ گروپ اپنی اپنی نیکیوں کی بولی لگا کر فیز ایک میں پلاٹ حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ کچھ سبق ہم نے بھی سیکھے ہیں انسانوں سے۔ اس طرح پلاٹوں کے بدلے زیادہ سے زیادہ نیکیاں خرچ کروائیں گے ‘
’مجھے بھی یہیں رہنا ہے ‘
’نام لکھواد دو وقت آنے پر دیکھیں گے ‘ چلو اب تمھیں وہ داہنا حصہ بھی دکھا دیں جسے دیکھنے کے تم بے چین تھے ‘ یہ کہہ کر فرشتے نے میری روح کو داہنی سمت میں دھکیلا۔ میں جو پچھلی رہائش گاہوں سے بھاگنے کو تیار تھا یہاں سے بالکل نہیں جانا چاہتا تھا۔ مگر کیا کرتا۔ پاؤں تو تھے نہیں کہ گاڑ کر کھڑا ہو جاتا۔
’اب تیار ہو جاؤ۔ پہلے سے بتائے دے رہے ہیں یہ سب سے خوفناک علاقہ ہے ‘ ایک فرشتے نے مجھے ایسے خبردار کیا جیسے کسی ڈراؤنی فلم سے پہلے کم عمر بچوں کو بتایا جاتا ہے۔
واقعی فرشتوں نے جھوٹ نہیں کہا تھا۔ یہ دوزخ کا وہ علاقہ تھا کہ جس سے خود فرشتے بھی گھبرا جائیں۔ یہاں کوئی فرشتہ نگرانی پر بھی معمور نہیں تھا کہ یہ امر نگران فرشتوں کے لئے باعثِ زحمت بنتا۔ آگ، دلدل، جنگلی جانور، بھوت، چڑیل کیا تھا جو یہاں نہیں تھا۔ معتوبین بے دم تھے یقیناً یہ بہت بڑے مجرم تھے، غالباً قاتل ہوں گے۔ میں نے چاہا کہ مڑ کر فرشتے سے ان کے جرم کی بابت دریافت کروں۔
’ نہیں یہ قاتل نہیں ہیں۔ انہوں نے سر قلم نہیں کئے، انہوں نے دل توڑے ہیں ‘
’دل توڑے ہیں ؟‘
’ہاں دل توڑنے والوں کے لئے سب سے کڑی سزا رکھی ہے، یہاں کی آبادی سب سے زیادہ ہے ‘ فرشتے کی آواز کانپ رہی تھی۔ چلو اب نکلو یہاں سے، ہو گیا تمھارا شوق پورا گیا۔ میں نے ڈر کے جو بائیں دیکھا تو ایک بالکل ہی نیا نظارہ تھا۔ ایک چھپر تنا تھا جس کے نیچے لوگ لباس شاہی میں تھے لیکن مختلف قسم کی سزاؤں کو جھیل رہے تھے۔
’یہ کیا قصہ ہے ‘ میں اپنی حیرت نہ چھپا سکا
’یہ حکمران طبقہ ہے اپنے انجام کو بھگت رہا ہے ‘
’تو کیا حکمرانوں کا بھی حساب ہو گا‘
’یہ تو یہی سمجھتے رہے کہ یہ ماورائے حساب ہیں ‘ فرشتے نے ہنس کر جواب دیا۔
’تو تم فرشتے نیچے جا کر انہیں زندگی میں ہی خبردار کیوں نہیں کرتے، خلقِ خدا کا بھی بھلا ہو اور یہ بھی عذاب سے بچیں ‘
’کئی بار کوشش کی مگر ان کے نائب ملاقات کے اتنے پیسے مانگتے ہیں جو ہماری دسترس سے باہر ہیں ‘ فرشتے نے مایوسی سے کہا۔ میں نے بے یقینی سے اس کی جانب دیکھنا چاہا تو وہاں تو صرف نور کا ایک ہالہ سا تھا کیا نظر آتا۔ مگر کیا دیکھتا ہوں اس کے عقب میں شاندار چغے میں ملبوس ایک بادشاہ مسلسل پٹ رہا ہے۔
’یہ کون ہے ‘
’ہارون رشید، بہلول اور ملکہ زبیدہ کے بارے میں تو معلوم ہو گا‘ فرشتے نے استفسار کیا
’یاد تو نہیں پڑتا کہ نام سنا ہو‘
’تم کیا کام کرتے تھے ‘ فرشتے کو یقیناً معلوم رہا ہو گا پھر بھی کرید رہا تھا۔
’لکھتا تھا‘
’لکھتے تھے تو کیا پڑھتے نہیں تھے ؟‘ فرشتے نے حیرت سے پوچھا
’لکھنے کے لئے پڑھنے کی کیا ضرورت ہے بھلا؟‘ مجھے اس کی منطق سمجھ نہیں آئی۔
’یہ بات سمجھ آ جاتی تو لکھنے اور پڑھنے والے دونوں اب تک حقیقت زمان و مکان کو نہ پالیتے۔ خیر رہنے دو۔ بہلول نے ہارون رشید کے قہر سے بچنے کے لئے پاگل پن کا ناٹک رچایا تھا۔ ایک دن وہ ہارون کے تخت پر جا بیٹھا۔ جب درباریوں نے اس کی درگت بنائی تو اس نے ہنس کر پوچھا، میں چند لمحے اس تخت پر بیٹھ کر اتنا پٹا ہوں تو ہارون تیرا کیا ہو گا؟‘
’ اور یہ زبیدہ کا کیا قصہ ہے ‘
’ایک دن بہلول دریا کے کنارے بیٹھا کاغذ کے ٹکڑے پھاڑ پھاڑ کر دریا میں بہا رہا تھا۔ ملکہ زبیدہ کا جلوس وہاں سے گذرا تو ملکہ نے پوچھا بہلول یہ کیا کر رہے ہو۔ جس پر جواب ملا کہ جنت کے ٹکڑے بانٹ رہا ہوں۔ ملکہ کے پاس اس وقت اور تو کچھ نہیں تھا صرف ہارون کا دیا قیمتی نولکھا ہار گلے کی زینت تھا وہی اتار کر اس نے بہلول کو دیا اور جنت کا ایک ٹکڑا مانگ لیا۔ ہارون کو پتہ چلا تو اس نے ملکہ کا بہت مذاق اڑایا۔ لیکن اسی رات اس نے خواب میں ملکہ کو جنت میں دیکھا۔ جب اس نے بھی جنت میں ملکہ کی قیام گاہ میں گھسنا چاہا تو فرشتوں نے اسے مار بھگایا، کہ شوہر تو زمین پر تھا، یہاں سب اپنا کمایا کھاتے ہیں۔ صبح ہونے پر اس نے بہلول کو طلب کیا اور جواہرات کا ایک ڈھیر لگا دیا کہ جو چاہے لے لو مگر ایک ٹکڑا مجھے بھی لکھ دو۔ بہلول بہت ہنسا کہ ملکہ نے بغیر دیکھے اپنا نولکھا لٹا دیا تھا تو دیکھ آیا تب بھی صرف یہی قیمت لگا سکا ہے ‘۔
فرشتے کے منہ سے یہ داستان سن کر میں ابھی حیران بھی نہیں ہو پایا تھا کہ اس کے اگلے جملے نے تو واقعی ایک میری روح کو ہلا کر رکھ دیا۔
’چلو اب تمھیں واپس چھوڑ آئیں ‘۔
’واپس چھوڑ آئیں ‘ میں نے حیرت سے پوچھا
’ہاں تم نے پچھلے ہفتے جو افسانہ لکھا تھا وہ اتنا پسند کیا گیا کہ ہمیں حکم ملا کہ تمھیں ایک جھلک دکھا دیں شاید فلاح کے راستے پر آ جاؤ‘۔ مجھے لگا فرشتوں نے یہ کہہ کر مجھے نیچے کی جانب دھکیلنا شروع کر دیا۔ جتنی دیر میں آپ پلک جھپکائیں میں زمین پر آ چکا تھا۔ دونوں فرشتے یہاں تک مجھے چھوڑنے آئے تھے۔
’ ایک منٹ ٹھہرو میں اندر سے کچھ رقم لے آؤں ‘ مجھے ڈیفنس کا پلاٹ یاد آ گیا
’کتے کی دم‘ فرشتے نے مایوسی سے کہا اور اڑنچھو ہو گیا۔ اب میرے ہاتھوں میں تسبیح رہتی ہے۔ جب کبھی بادل گرجیں اور بجلی کڑکے تو میرے ہاتھ دانوں پر اور زیادہ تیزی سے چلنے لگتے ہیں، کیا خبر اوپر والا فوٹو کھینچ رہا ہو تو میری تصویر تسبیح کے دانوں کو گھماتے ہوئے آ جائے، جنت میں فیز ایک کا پلاٹ میری نگاہ کے سامنے گھومتا رہتا ہے۔
٭٭٭
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...