زندگی معمول پر آگئی تھی۔ کرن کا وہی روٹین چل پڑا تھا یونیورسٹی سے گھر پھر گھر کے کام کاج۔ رانا صاحب دفتر سے گھر اور کبھی بزنس کے سلسلے میں سفر کرنا ہوتا۔
روحان اور نور بھی معمول جیسے رابطے اور میل جول کرتے۔ اب فرق یہ تھا کہ روحان بنا بتائے بھی آجاتا اور نگار بیگم کوئی اعتراض نہیں کرتی۔
حادی صرف ایک ہفتہ کی چھٹی پر آیا تھا اور کل رات کی فلائٹ سے واپس مانچیسٹر چلا گیا تھا۔
کچھ دن پہلے جب روحان ملنے آیا تھا تو رانا صاحب کی جانب سے دیا گیا موبائل فون بھی کرن کو دیا جسے رانا صاحب نے اپنی منگیتر سے رابطہ کرنے کے نسبت سے بھجوایا تھا۔
فون پہلے سے متحرک کر کے دیا گیا تھا۔ اس دن وہ یونیورسٹی سے پہنچ کر کپڑے تبدیل کر رہی تھی جب موبائل بجا۔ اس نے آج سے پہلے کبھی فون کا استعمال نہیں کیا تھا اس لیے کال اٹھانے میں شرم محسوس ہورہی تھی۔
” اا۔۔۔ اسلام علیکم۔۔” اس نے کپکپاتی زبان سے کہا
“وعلیکم اسلام۔۔۔۔ کیسی ہے آپ۔” رانا صاحب نے با اعتماد لہجے میں کہا
وہ ابھی ابھی آفس سے نکلے تھے اور کار میں بیٹھے گھر کی جانب رواں تھے جب ان کا کرن سے بات کرنے کا دل کیا اور انہوں نے اسے کال ملائی۔
“میں ٹھیک ہوں۔۔۔۔ آپ کیسے ہیں۔” کرن نے خود کو نارمل کرتے ہوئے جواب دیا
“میں بھی ٹھیک۔۔۔ کیا کر رہی تھی” وہ اسے گویا کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ انہیں کرن کی آواز مسرور کر رہی تھی۔
“کچھ نہیں بس ابھی گھر پہنچی ہوں۔۔۔۔ اور۔۔۔۔۔ اور آپ۔” کرن کو ان سے پوچھنے میں ہچکچاہٹ محسوس ہوئی لیکن وہ خود کو اپنے محرم کے ساتھ دوستانہ بنانے کی مشقت کرتی رہی۔
“میں بھی گھر جا رہا ہوں۔۔۔۔ تمہاری بہت یاد آرہی تھی تو سوچا کال کر لوں۔” انہوں نے دل کے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔
کرن ان کے اظہار پر شرما گئی اور بلش کرنے لگی۔ کچھ دیر اور بات کر کے کال کاٹی اور وہ فون کے خالی سکرین کو دیکھنے لگی۔
پیار سے انسان پتھر کو بھی بدل سکتا ہے اگر وہ بدلنے کی چاہ رکھتا ہو۔ کرن میں یہ چاہ ہمیشہ سے تھی اور اب اسے بدلنے کا احساس ہورہا تھا۔ اس کے دل میں رانا صاحب کے لیے جذبات بدلنے لگے تھے کچھ دن پہلے کی نفرت پگل رہی تھی۔ اس کی اب رانا صاحب سے حال احوال دریافت کرنے کی حد تک اکثر بات ہوجایا کرتی تھی۔
اس دن نور اور روحان کے ملنے کا پلان بنا تھا تو نور اپنے ساتھ کرن کو بھی لے گئی۔ کرن کا بلکل بھی دل نہیں تھا لیکن نور کے ضد پر اسے جانا پڑا۔ وہی دوسری جانب روحان بھی رانا بھائی کو دفتر کے بریک میں اپنے ساتھ لے آئیں تھے۔ ایک دوسرے کے آنے سے انجان کرن اور رانا صاحب نے ایک دوسرے کو دیکھا تو ٹھٹک گئے۔
“ہم نے سوچا آپ خود تو کبھی ملنے سے رہے۔۔۔۔۔ اس لیے یہ نیک کام ہم سر انجام دیتے ہیں” روحان نے باری باری دونوں کو دیکھتے ہوئے کہا۔ نور بھی کرن کو دیکھ کر شرارتی انداز میں مسکرائی۔
“او c’mon رانا بھائی۔۔۔۔ آپ اپنے کالج دور کے سب سے رومانٹیک جوان رہے ہو۔۔۔۔ تو اب کچھ جوہر کرن کو بھی دیکھائیے۔۔۔۔ اسے امپریس کرے” روحان نے شوخی سے رانا بھائی کو اشارے سے سمجھایا۔
رانا بھائی موچھوں کی آڑ میں ہلکا مسکرائے اور پلکیں جھپکا دی۔ روحان نے ان کی ہامی کا اشارہ سمجھ کر جوشیلے انداز میں ہاتھ باہم مسلے اور نور کو وہاں سے چلنے کا اشارہ کیا۔ نور نے سر کو خم دیا اور آگے بڑھ گئی۔
کرن نے نور کو روکنے کی کوشش کی لیکن وہ نہیں رکی۔ مجبوراً کرن کو رانا صاحب کے ساتھ چہل قدمی کرنی پڑی
آج دس دن بعد وہ مل رہے تھے اور وہ بھی ایسے بنا پلان کئے۔ کرن فیروزی رنگ کے کرتے پاجامے میں تھی بال پونی میں باندھے تھے اور ہلکی گلابی لپ سٹک لگائی تھی اور رانا صاحب حسب معمول بلیک سوٹ میں ملبوس تھے۔ وہ عام طور پر بنا مینیجر اور باڈی مین کے نہیں نکلتے تھے آج روحان انہیں سرپرائز دینے باہر لے آیا تھا۔
“روحان کو سرپرائز دینے کا بہت شوق ہے۔۔۔ i hope۔۔۔۔ تمہیں برا نہیں لگا ہوگا۔” رانا صاحب نے نظریں گھماتے ہوئے ریسٹورنٹ کا جائزہ لیتے ہوئے کہا۔
“نہیں کوئی بات نہیں۔۔۔۔ نور بھی بنا بتائے مجھے لے آئی۔” کرن نے ان کے چال کی پیروی کرتے ہوئے کہا۔
رانا صاحب نے اس بات پر صرف اسے دیکھا اور ڈائننگ ہال میں داخل ہوگئے۔ کرن بھی ان کے پیچے در آئی۔ ہال میں اکے دکے میزوں پر لوگ بیٹھے کھانا کھاتے نظر آرہے تھے۔ ریسٹورنٹ کے مینیجر نے رانا صاحب کو پہچان لیا اور ان کی آمد کو اپنے لیے مہربانی کا باعث سمجھتے ہوئے انہیں سب سے خاص ٹیبل پر لے گیا۔ وہاں موجود لوگ تنقیدی نظروں سے ان کی جانب دیکھ رہے تھے۔ امیر لوگ اور ان کی تفریحات جیسے القابات سے ان کی بارے میں تبصرہ کرنے لگے۔ سب سے زیادہ نقصان کرن کو اٹھانا پڑ رہا تھا اس کے ہاتھ میں مہنگی الماس کی انگھوٹی اور آئی فون 12 دیکھ کر سب کو وہ سکیم گرل لگی جو ایسے تحائف بٹورنے اپنے سے بڑی عمر کے امیر مردوں کی بستر کی زیبائش بنتی ہے۔
نشست سنبھال لینے کے بعد رانا صاحب نے سنجیدہ انداز میں آس پاس دیکھا تو سب نے نظریں پھیر لی اور اپنے کھانے پینے میں مشغول ہوگئے۔
رانا صاحب نے ویٹر کو بلایا اور آرڈر دینے لگے۔ اپنے لیے فرینچ سلاد کا کہا اور کرن نے ایٹالین پاستہ منگوایا۔ آرڈر نوٹ کرتے ہوئے وہ ویٹر بار بار کرن کو گھور رہا تھا۔ اس کے اس حرکت پر رانا صاحب کے آبرو تن گئے لیکن ضبط کر گئے۔ ویٹر کے جانے کے بعد کرن تسکین سے مسکراتے ہوئے رانا صاحب کی باتوں کا جواب دیتی کبھی اس عالی شان ریسٹورنٹ کی عمارت پر نظر دوڑاتی۔ اس کے لیے یہ سارے احساس خوشگوار تھے وہ آج سے پہلے ایسے کبھی ہوٹل میں نہیں گئی تھی اور آج پہلی دفعہ آکر وہ مسرور ہو رہی تھی۔
آرڈر بن کر آیا تو اب کی بار سروو کرتے ہوئے بھی اس نوجوان لڑکے کی نظریں کبھی رانا صاحب اور کبھی کرن پر گڑھ جاتی۔ رانا صاحب آپے سے باہر ہوگئے ان کا غصہ پروان چڑھ گیا۔ اس سے پہلے کرن کچھ سمجھ پاتی رانا صاحب اپنی سیٹ سے اٹھے اور لڑکے کو گردن سے جھڑپ لیا اور دھڑام کر کے اس کا سر میز پر ٹھکرادیا۔
” گھور کیا رہے ہو۔۔۔۔۔ کبھی کوئی لڑکی نہیں دیکھی کیا۔” رانا صاحب نے اس پر جھڑپے ہوئے غراتے ہوئے کہا۔
رانا صاحب کا یہ رویہ دیکھ کر کرن سہم کر کھڑی ہوگئی اس کی سانس رکنے لگی دھڑکن تیز ہوگئی وہ کبھی رانا صاحب کے دہشت سے سرخ پڑتے چہرے کو دیکھتی کبھی اس 17 سالہ لڑکے کو جو مسلسل خود کو آذاد کروانے کے جتن کر رہا تھا۔
ہنگامی صورت حال دیکھ کر وہاں موجود لوگ بھی اکٹھا ہوگئے اور باقی کے ویٹرز بھی جمع ہو کر اپنے ساتھی ویٹر کو چھڑانے کی کوشش کرنے لگے۔
کرن حواس باختہ ہو کر شاک کھڑی تھی اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ رانا صاحب کو کیسے روکے۔ اس کے موبائل میں صرف income کال کی سہولت موجود تھی نا کہ outgoing کال کی اس لیے فون کر کے روحان کو بھی بلانے سے قاصر رہی۔
ان کی آوازیں سن کر مینیجر بھی باہر آیا۔
“سر۔۔۔ سوری سر۔۔۔۔۔ یہ یہاں نیا ہے۔۔۔۔ اسے آپ کے بارے میں معلوم نہیں تھا۔۔۔۔ سر اس کی طرف سے میں معذرت خواہ ہوں۔۔۔۔۔ اسے چھوڑ دیں۔۔۔۔ سر بیچارہ مر جائے گا یتیم ہے۔” مینیجر اپنی ہر حد اسے رانا صاحب کے ظلم سے نجات دلانے کی کوشش کر رہا تھا
“ہمت کیسے ہوئی اسے کسی لڑکی کو تاڑنے کی۔۔۔ اور وہ بھی میری منگیتر کو۔” رانا صاحب نے طیش میں اس پر پورا زور ڈالتے ہوئے کہا۔
کرن کو ان کی جھڑپ کی وجہ سمجھ آگئی تھی وہ رانا صاحب کو روکنا چاہتی تھی۔
” رانا صاحب۔۔۔۔ اس نے انہیں پکارنے کی کوشش کی لیکن اسے محسوس ہوا کہ اس کے صرف ہونٹ جنبش کر رہے تھے حلق سے آواز نہیں نکل رہی تھی۔
“میڈم اب آپ ہی کچھ کیجئے۔” مینیجر نے کرن کی طرف دیکھ کر التجائی انداز میں کہا۔
کرن کی آنکھیں بھیگنے لگی وہ تھوک نگل کر گلا تر کرتی میز کے اوٹ سے نکل کر رانا صاحب کے سایئڈ پر آئی اور ان کو بازو سے تھام لیا۔
“رررر رانا صاحب۔۔۔۔۔۔ جججج جانے دیجیئے۔۔۔۔۔ چچچ چھوڑ دیجیئے اسے” اس نے کپکپاتی زبان سے کہا۔
رانا صاحب کو اپنے بازو پر نازک لمس کا احساس ہوا تو رخ موڑ کر پہلے اس نسوانی ہاتھ کو دیکھا پھر کرن کو وہ ہیبت زدہ سی بھیگی آنکھوں سے انہیں دیکھ رہی تھی۔
کرن نے رانا صاحب کی انگارہ پڑتی نظریں خود پر پائی تو خوفزدہ ہو کر ان کا بازو چھوڑ دیا اور سر جھکا دیا۔
رانا صاحب نے کرن کے چہرے پر مایوسی دیکھی تو اس لڑکے پر سے ہٹ گئے وہ کرن کو اپنے آپ پر سے بدگمان نہیں کرنا چاہتے تھے۔ وہ لڑکا کراہتا ہوا ناک سے بہتا خون صاف کرتا وہاں سے بھاگ گیا۔ رانا صاحب کے اعصاب ڈھیلے پڑ گئے اور ماتھے پر بکھرے بالوں کو انگلیوں سے پیچے کیا۔ کوٹ کی شکن درست کرتے ہوئے واپس کمپوز ہوئے اور سنجیدگی سے چارو طرف دیکھتے ہوئے بیٹھ گئے۔ جمکٹھا بنائے لوگوں میں سے کچھ منہ بھسورتے ہوئے باہر نکل گئے اور کچھ واپس اپنے جگہ پر تشریف لے گئے۔
کرن نے معاملہ رفع دفع ہوتے دیکھا تو آنسو صاف کرتی اپنی سیٹ پر بیٹھ گئی۔ پریشانی کے باعث اس کے سر میں درد شروع ہو گیا تھا۔ اس کی بھوک مر گئی تھی اس کا کچھ کھانے کا دل نہیں چاہ رہا تھا
رانا صاحب خاموشی سے سلاد کھانے لگے اور کرن بے دلی سے پاستہ میں کانٹا چلاتی ادھر اُدھر دیکھنے لگی۔ سلاد کھاتے ہوئے رانا صاحب نے نگاہیں اٹھا کر کرن کو دیکھا تو ان کا چلتا ہوا جبڑا رک گیا۔ وہ بغور کرن کے تاثرات مشاہدہ کر رہے تھے جب کرن کو ان کی نظریں خود پر جمی محسوس ہوئی۔ اس نے ہڑبڑا کر کانٹے میں کچھ پاستہ پھنسایا اور تیزی سے منہ میں ڈالا پھر پلکیں جھپکا کر تیزی سے پاستہ چبانے لگی۔ رانا صاحب واپس سلاد کی طرف متوجہ ہوئے تو کرن کی سانس بحال ہوئی۔
کھانا ختم کرنے کے بعد رانا صاحب نے روحان کو کال ملائی۔
“ہاں بچہ۔۔۔۔۔ تم نور اور کرن کو ان کے گھر ڈراپ کرو۔۔۔۔ مجھے واپس آفس جانا ہے” انہوں نے گھڑی دیکھتے ہوئے کہا۔
روحان ان کے ہدایت کی تکمیل کرتے ہوئے ان کے پاس آیا۔ رانا صاحب کرن سے الوداع لیتے پہلے نکل گئے۔ کرن انہیں رخصت کرتی سست روی سے روحان اور نور کے ہمراہ روانہ ہوگئی۔ وہ پوری طرح اداس ہوگئی تھی۔ بجھی بجھی سی کار میں بیٹھی وہ غائب دماغی سے باہر دیکھتی رہی۔ نور اس سے ڈیٹ کے بارے میں پوچھتی رہی لیکن وہ کچھ نہ بولی۔
*************&&&&&************
جب سے وہ لوٹی تھی چپ سی ہوگئی تھی۔ اندر ہی اندر ایک کشمکش میں مبتلا ہوگئی تھی۔ اپنے کمرے میں بیٹھے سر گھٹنوں پر ٹکائے وہ اپنی انگیجمینٹ رنگ دیکھ رہی تھی۔ آنکھوں کے آگے بار بار رانا صاحب کا غضب ناک چہرہ آتا اور اس کا دل دھڑک جاتا۔
“کیا وہ اچھے انسان ہے۔۔۔۔۔ یا۔۔۔۔۔ میں اب تک ان کی حقیقت سمجھ نہیں پائی ہوں۔” کرن غیر مروی نقطہ کو گھورتی گہرے سوچ میں پڑ گئی تھی۔
“اتنی بے رحمی سے اس لڑکے کو دبوچے رکھنا۔۔۔۔۔۔ اگر اسے واقعی کچھ ہوجاتا تو۔۔۔۔” اس کا دل رانا صاحب سے مطمئن نہیں ہورہا تھا۔
“شاید یہ میرا وہم ہے۔۔۔۔ انہوں نے اس لڑکے کو مجھے تاڑنے پر جھکڑا تھا۔۔۔۔۔ اتنے مظبوط ہے وہ۔۔۔۔۔ میری کتنی پروا ہے انہیں۔” وہ خود کو دلاسہ دیتے ہوئے سوچ رہی تھی۔
“لیکن اگر وہ۔۔۔۔۔۔ اگر میرے سامنے میرے ہونے والے شوہر کے ہاتھوں وہ لڑکا مر جاتا تو۔۔۔۔۔۔ تو رانا صاحب قاتل۔۔۔۔۔۔ ایک مجرم۔” وہ اس کے آگے سوچ نہ سکی۔ اس کی سانس بے ترتیب ہونے لگی۔
“افففففف۔۔۔۔۔۔۔ یہ سب کیوں ہورہا ہے میرے ساتھ” اس نے سر پکڑ لیا۔ بے یقینی۔۔۔۔ بے چینی۔۔۔۔ بے سکونی۔۔۔۔۔ ہر طرف سے اضطراب نے اسے جھکڑ لیا تھا۔
وہ دبے قدموں سے چچی کے کمرے میں داخل ہوئی۔ چچی اپنے بیڈ پر نیم دراز بیٹھی ٹی وی پر کوئی پراگرام دیکھ رہی تھی۔
“آو کرن۔۔۔۔۔ کیسی رہی تمہاری ڈیٹ۔” چچی نے شرارتی انداز میں آبرو اچکا کر پوچھا۔
کرن پژمردہ چہرہ بنائے ان کی پہلو میں بیٹھ گئی۔
“چچی۔۔۔۔۔ مجھے رانا صاحب سے شادی نہیں کرنی۔۔۔۔ اب تو روحان اور نور۔۔۔۔۔” اس نے چچی کے تبصرے کو نظر انداز کر کے اپنا نظریہ بیان کرنے کی کوشش کی۔
چچی اس کی بات پر چونک گئی اور ٹی وی بند کر کے سیدھے بیٹھی۔
“دماغ خراب ہوگیا ہے تمہارا۔۔۔۔ پتہ بھی ہے تم کیا کہہ رہی ہو۔۔۔۔۔۔ تم نے ایسا سوچ بھی کیسے لیا۔۔۔۔۔ رانا صاحب کو پتا چلا تو جان سے مار دینگے تمہیں بھی اور۔۔۔۔۔ پھر مجھے بھی۔” چچی نے اس کی بات کاٹتے ہوئے غصیلی آواز میں کہا
“لیکن چچی۔۔۔۔۔۔ میں ان کے ساتھ نہیں رہ سکتی۔۔۔۔۔۔ آج مجھ سے 5 منٹ بھی ان کے ساتھ بیٹھا نہیں جا رہا تھا تو زندگی بھر کیسے رہوں گی۔” کرن نے اپنا خدشہ ظاہر کیا۔
“ارے تو وہ ہر وقت تم سے چپکے تھوڑی رہے گے۔۔۔۔۔ ان کو بزنس بھی دیکھنا ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ آفس جانا ہوتا ہے۔۔۔۔۔ سفر پر جانا ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔ تم بیکار اپنا فالتو کا دماغ مت چلاو” چچی نے تنے ہوئے اعصاب سے اسے جھڑکا۔
“لیکن چچی۔۔۔۔۔۔ اب تو روحان اور نور کی انگیجمینٹ ہوچکی ہے تو۔۔” اس نے منت سماجت کرتے ہوئے کہا لیکن چچی نے پھر اس کی بات کاٹ دی۔
“پر تم خود دیکھ چکی ہو۔۔۔۔۔ روحان اپنے رانا بھائی کا کتنا فرمانبردار ہے۔۔۔۔۔۔ وہ ایک سیکنڈ نہیں سوچے گا انگیجمینٹ توڑنے میں۔۔۔۔۔ تمہاری رانا صاحب سے ہی شادی ہوگی۔۔۔۔۔ یہ رشتہ توڑنے کا تو تم سوچنا بھی مت۔۔۔۔ ہمارے خاندان میں ایک مرتبہ لڑکی کا رشتہ ہوجائے پھر آخری سانس تک اسی کی رہتی چچی نے اسے ڈانٹ لگائی
وہ اپنی وضاحت دینا چاہتی تھی پر چچی نے ہاتھ اٹھا کر اسے چپ کروا دیا۔
” جا جا کر اپنی اوقات پر آجاتی ہو۔۔۔۔۔۔ تمہاری ماں کا خون ہے نا تم میں بھی۔۔۔۔ وہی حرکت کرو گی جو تمہاری ماں نے جمیل بھائی سے شادی کرتے ہوئے کی تھی۔۔۔۔ اپنے بچپن کا رشتہ توڑ کر تمہارے باپ سے شادی کی۔” چچی نے منہ بناتے ہوئے بات اس کے والدین تک لادی جس کے آگے کرن نہ کل تک کچھ بول سکی تھی نہ آج۔
چچی ہمشیہ بحث میں اس کی ماں کے کردار اور باپ کی شخصیت پر کیچڑ اچھالنے تیار رہتی اور کرن کو چپ ہونا پڑتا۔ چپ چاپ چچی کے تانے سننے پڑتے۔
“عزت کی زندگی راس نہیں ہے تمہیں۔۔۔۔۔ یہاں میں عزت سے تمہیں رخصت کروانا چاہتی ہوں اور تم۔۔۔۔۔۔ تم مجھے ہی رسوا کرنے پر تلی ہو۔۔۔۔۔ اپنی نہ صحیح میری عزت کا تو سوچ لیں۔۔۔۔۔ سب میری ہی پرورش پر سوال اٹھائے گے۔” کرن لب کاٹتے ہوئے اپنے جذبات دل میں دفناتی وہاں سے بھاگ گئی۔
***************&&&&&***************
رانا مبشر اس رات اپنے گھر آکر بہت طیش میں تھا اس نے سرد مہری سے کوٹ اتار کر ایک طرف اچھالا اور ٹائی دوسری طرف۔ غصہ اس بات کا نہیں تھا کہ اس نے بے وجہ اس لڑکے پر جھڑپ کر بات کو بڑھا دیا تھا بلکہ غم اس بات کا تھا کہ وہ کرن کے سامنے آپے سے باہر ہوگیا۔ اس نے کرن کو اپنے آپ سے خوفزدہ کر دیا تھا اور یہ بات رانا مبشر کو کھائی جا رہی تھی۔
اگلی صبح انہوں نے سب سے پہلے کرن کو کال ملائی لیکن اس نے نہیں اٹھائی۔ خود کو نارمل کرتے ہوئے تحمل سے کام لے رہے تھے آفس کے لئے تیار ہونے کے بعد پھر کال ملائی اب کی بار دو رنگ جانے پر فون اٹھا لیا گیا تھا۔
“پہلے بھی کال کیا لیکن تم نے اٹھایا نہیں۔” رانا صاحب نے سلام دعا کرتے ساتھ ہی اپنا شکوہ ظاہر کیا۔
“جی۔۔۔۔ میں کچن میں تھی اور موبائل کمرے میں تھا۔۔۔۔۔ تو سنا نہیں۔” کرن نے کمرے میں چکر کاٹتے ہوئے مصروف انداز میں جواب دیا۔
“کچھ بھی ہوجائے۔۔۔۔۔ فون اپنے پاس رکھا کرو۔۔۔۔۔ اور میری ایک ہی کال پر تمہارا جواب موصول ہوجانا چاہیے۔” رانا صاحب نے انگلی اٹھا کر سختی سے تنبیہہ کرتے ہوئے کہا۔
وہ اس وقت لاؤنج کے سیڑھیوں پر کھڑے تھے۔ آنکھوں پر گلاسس لگائے نفاست سے آفس جانے کے لئے تیار تھے۔
“ہمممم سوری۔۔۔۔۔ آئیندہ نہیں ہوگا ایسا۔” اس نے بے دلی سے معذرت کی اور فون بند کر کے اپنے بیڈ پر لیٹ گئی۔
اس کا یونیورسٹی جانے کا بھی دل نہیں کر رہا تھا۔ رانا صاحب سے اس کا دل اچھاٹ ہوگیا تھا وہ بس اکیلے ہی رہنا چاہتی تھی۔
امید اور توقعات اکثر انسان کو تکلیف میں مبتلا کر دیتی ہے۔ اسے امید تھی کہ اب اس کی زندگی سنور جائے گی۔ اس کی رانا مبشر سے توقعات وابستہ تھی کہ وہ بھلے جیسے بھی ہو وہ اسے چچی کے قید سے آزاد کر دینگے لیکن اس وقت اسے اپنا آپ وہ پرندہ لگ رہا تھا جو ایک پنجرے سے دوسرے پنجرے میں منتقل ہوتا ہے اور ایک مالک سے دوسرے مالک کی غلامی میں آتا ہے۔ حالات اب بھی ویسی تھے صرف پنجرہ اور مالک بدلنے والا تھا۔
****************&&&&&&****************
رانا صاحب کو ایک ہفتہ کے لئے بزنس کے سلسلے میں ترکی جانا پڑا تھا۔ ان کی کرن سے دو سے تین دن بعد بات ہوجاتی۔ دن گزرنے کے ساتھ ساتھ کرن کی تلخی بھی مٹ گئی تھی۔ شادی کے دن سر پر تھے اس لیے ادھر نگار بیگم کے گھر تیاریاں زور و شور سے چل رہی تھی۔ نور روز کرن کو ساتھ شاپنگ پر چلنے کی ضد کرتی لیکن وہ منع کر دیتی۔
“نور۔۔۔ میں نے کیا کرنا ہے جا کر۔۔۔۔۔ ویسے بھی جو تم میرے لیے پسند کرو گی میں وہی لوں گی نا۔۔۔۔۔۔ تو تم خود ہی لے آنا۔” اس نے جعلی خوشی ظاہر کرتے ہوئے بہانہ بنایا۔
شادی کا الگ ہی خوشگوار احساس ہوتا ہے لیکن کرن چاہ کر بھی خوش نہیں ہو پا رہی تھی۔ پچپن سے اداسی برداشت کرتے کرتے اب جیسے اس کی خوش ہونے والی حس ختم ہوچکی تھی۔ ان کی شادی میں شریک ہونے اس کے ددھیال کے طرف سے اور نگار بیگم کے میکے کے کچھ رشتہ دار بھی پہنچنے والے تھے کرن دن بھر اسی مصروفیات میں لگی رہی۔ رانا صاحب کے ہدایت پر عمل درآمد کرتے ہوئے وہ فون ہر وقت اپنے پاس رکھتی اور جیسے ہی ان کی کال آتی وہ فوراً سے اٹھا لیتی۔ مہمان آپہنچے تو گھر میں رونک لگ گئی کرن کے کام بھی اب باقی کی کزنز کر لیتی اور اسے دلہن ہو کہہ کر بیٹھائے رکھتی۔ اس آہ و بگت اور موج مستیوں میں کرن کا دل بہلنے لگا۔ وہ پچھلے چند دنوں سے رانا صاحب کے بارے میں وہم و گمان گھڑنا بھول گئی تھی۔
روحان کے بھی ماموں زاد آگئے تو وہ ان کے ساتھ گھومنے پھرنے اور پارٹیز کرنے میں لگا رہا۔ رانا صاحب کی آنے والے ویک اینڈ پر واپسی متوقع تھی۔۔
**************&&&&&***************
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...