وہ ایک ریسٹورنٹ میں کونے والے میز پر بیٹھا بار بار گھڑی دیکھ رہا تھا۔ انتظار کی صورت اسے مجبوراً دو دفعہ کافی آرڈر کرنی پڑی۔ ڈیڑھ گھنٹہ انتظار کر لینے کے بعد اس نے سامنے سے سوٹ بوٹ میں ملبوس بال پیچے ٹکائے کالا چشمہ پہنے پروفیشنل انداز میں چلتے جوان کو آتے دیکھا۔ آس پاس ملاتشی نظروں سے دیکھتے ہوئے نشت سنبھالی اور گاگلز اتار کر ٹیبل پر رکھی۔
“سوری۔۔۔۔۔ آنے میں تھوڑی دیر ہوگئی۔” روحان نے بزنس مین انداز میں ترچا مسکراتے ہوئے کہا۔
سادہ پینٹ شرٹ میں ملبوس وہ پہلے ہی انتظار کر کر کے تپ چکا تھا اور اب روحان کا بے پرواہ انداز اسے اور چڑا رہا تھا۔
“کہیے روحان صاحب۔۔۔۔۔۔ اتنی عجلت میں صرف 2 جوڑے کپڑے اور بنا موبائل فون کے گاوں سے اس طرح چوری چپے ملنے اس ریسٹورنٹ میں کیوں بلا لیا۔” آرین نے اسی بے رخی سے کہا اور تھیکی نظریں روحان پر جمائے رکھی۔
اس کی بات پر روحان محظوظ ہوتا ہوا کھل کر مسکرایا۔
” تمہارے لیے ایک کام ہے۔۔۔۔۔ کرو گے۔” اس نے ٹیبل پر آگے ہو کر کہا۔
آرین طنزیہ ہنسا اور ٹیک لگا کر بازو کرسی کے پشت پر پھیلایا۔
“شاید آپ بھول گئے ہے۔۔۔۔۔۔ آپ کے معزز بھائی نے میری کُوٹ لگا کر۔۔۔۔۔۔۔ ذلیل و بےعزت کر کے مجھے آفس سے دھکے مار کر نکالا ہے۔۔۔۔” اس نے تپے ہوئے انداز میں منہ بھسورتے ہوئے کہا۔
روحان نے مسرور ہوتے ہوئے آبرو اچکائے اور مسکراہٹ دبائی۔
“اور ویسے بھی۔۔۔۔۔۔ میں حساب کا اچھا نہیں ہوں۔۔۔۔
اس لئے فائنانشل کام میں، میں آپ کی کوئی مدد نہیں کر سکتا۔” اس نے رخ موڑ کر دوسرے جانب دیکھتے ہوئے کہا۔ وہ اسی انداز میں روحان سے بات کر رہا تھا جس میں روحان نے اسے جھڑکا تھا اور آج وہ پورا بدلہ وصول کرنے پر تُلا ہوا تھا۔
روحان کو ہر حد اپنے آپ پر قابو رکھنا تھا وہ یہاں اس سے لڑنے نہیں اسے ساتھ کام کرنے پر قانع کرنے آیا تھا۔
” آرین مجھے تم سے پروفیشنل نہیں بلکہ پرسنل کام ہے۔۔۔۔۔ کرن کے لیے۔۔۔۔۔” روحان اب حس و مزاح چھوڑ کر سنجیدہ ہوگیا اور بنا تہمید باندھے پوائنٹ کی بات پر آیا۔
کرن کا نام سن کر آرین کے بھی تاثرات سپاٹ ہوگئے بس روحان کے سامنے اپنے جذبات ضبط کئے ہوئے تھا۔ اسے خاموش دیکھ کر روحان پھر سے گویا ہوا اب کی بار اس کی آواز میں افسردگی تھی رنج تھا اپنا خاندان اجڑ جانے کا ملال تھا لیکن کرن کے لیے ہمدردی تھی انسانیت تھی نیکی تھی اس کی زندگی محفوظ کرنے کا جذبہ تھا رانا بھائی کو بڑے طوفان سے بجانے کی فکر تھی
“مجھے افسوس ہے کہ میں نے تمہاری بات نہیں مانی۔۔۔۔۔۔ مان لیتا تو شاید حالات اس نتیجہ پر نہ پہنچتے۔” اس نے سرد آہ بھرتے ہوئے کہا۔
“کرن رانا بھائی سے خلا لینا چاہتی ہے۔۔۔۔۔ اور اس کام میں مجھے تمہاری مدد کی ضرورت ہے آرین۔۔۔” روحان نے التجائی انداز میں کہا۔
آرین نے تعجب سے آبرو اچکائے۔
“کچھ عرصہ پہلے تک تو کرن رانا صاحب کو چھوڑنے پر تیار نہیں تھی۔۔۔۔۔ اسی لیے اس نے میرا پروپوزل ٹھکرایا تھا۔۔۔۔۔ پھر اب ایسا کیا ہوگیا۔” اس نے دل میں سوچا
“پر یہ تو آپ کا پرسنل میٹر ہے۔۔۔۔ مجھے کیا ملے گا مدد کر کے” آرین نے جعلی خفگی سے کہا۔
“ویل۔۔۔۔۔ بلفرض تم پکڑے گئے۔۔۔۔۔ اور رانا مبشر نے پھر سے تمہاری کُوٹ لگا دی۔۔۔۔۔۔ تو اس دفعہ علاج کے پیسے میں دوں گا۔۔۔۔۔ پکا۔” روحان نے محظوظ ہوتے ہوئے ہوا میں ہاتھ اٹھائے اور خوش مزاجی سے کہا۔
آرین نے منہ بھسورتے ہوئے رخ موڑ لیا۔
“کرنا کیا ہے مجھے۔۔” اس نے میز پر ہاتھ رکھے اور آگے ہو کر آگے کا لائحہ عمل طے کرتے ہوئے کہا
روحان اس کے راضی ہونے پر خوش ہوگیا۔
“سب سے پہلا کام تو تمہیں اپنی یہاں موجودگی خفیہ رکھنی ہوگی۔۔۔۔۔۔ تم صرف میرے کام کے وقت نکلو گے۔۔۔۔۔۔ باقی وقت underground رہو گے۔۔۔۔۔ اور یہ موبائل استعمال کرو گے وہ بھی صرف مجھ سے رابطہ کرنے کے لیے۔” روحان نے سنجیدگی سے کہتے ہوئے ایک موبائل فون اسے پیش کیا۔
“پر یہ سب کس لیے۔۔۔۔” آرین نے موبائل فون پکڑتے ہوئے تشویش سے کہا۔
“جب divorce کی بات سامنے آئے گی۔۔۔۔۔تو رانا بھائی کا شک سب سے پہلے تم پر جائے گا۔۔۔۔۔ کیونکہ کرن سے ملنے پر ہی انہوں نے تمہیں پیٹا تھا۔۔۔۔۔۔ اور وہ تمہیں ٹریس کرنے اپنی ٹیم ضرور بھیجے گے۔۔۔۔۔ اس لیے تمہیں محتاط رہنا ہے” روحان نے سپاٹ انداز میں کہا۔
آرین نظریں جھکا گیا اور چہرہ سرخ پڑنے لگا۔
“تہماری travel history میں مٹا دوں گا اور موبائل ہسٹری کے مطابق تم اب بھی گاوں میں ہو۔۔۔۔۔جس سے رانا بھائی کو یہ ثابت ہوجائے گا کہ اس کیس میں تمہارا کوئی ہاتھ نہیں ہے” روحان ایک ماہر جاسوسی انداز میں اسے سمجھا رہا تھا۔ آرین تھیوری مٹھیوں پر ٹکائے غور سے اسے دیکھ رہا تھا۔
“دوسرا ضروری کام۔۔۔۔۔۔ تمہیں رانا بھائی کے لیپ ٹاپ کا سرور (server) میرے لیپ ٹاپ سے جوڑنا پڑے گا۔۔۔۔۔ تا کہ میں وہاں سے ثبوت اکٹھا کر سکوں۔” اس نے ہتمی انداز میں کہا اور گھور کر آرین کو دیکھا۔
آرین کے چہرے پر ایک رنگ چڑھنے اور دوسرا اترنے لگا۔
پھر اپنے تاثرات نارمل کئے۔
“لیپ ٹاپ کب ملے گا۔” آرین نے کمپوز انداز میں پوچھا۔
“میرے اگلے کال پر” روحان نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔ آرین بھی ساتھ کھڑا ہوگیا اور دونوں نے مصافحہ کرتے ہوئے الوداعی کلمات کہے اور اپنے اپنے راستے روانہ ہوگئے۔
اگلے دو دن بعد روحان نے صبح صبح ہی آرین کو کال کر کے اپنے کمرے کے پیچے ٹیرس پر بلایا۔ جب تک وہ روحان کے لیپ ٹاپ پر اپنے جوہر دکھا رہا تھا روحان دبے پاؤں رانا بھائی کے کمرے میں آیا۔
“کرن۔۔۔۔ رانا بھائی فریش ہو کر آفس کے لئے تیار ہونے میں کتنا وقت لیتے ہے۔” روحان نے سرگوشی کرتے ہوئے کہا۔
کرن نے سوچتے ہوئے اندازہ لگایا اور وقت بتایا۔ روحان نے ایر پوڈ پر وہ بات دہرائی۔
“آرین۔۔۔۔۔ ایک گھنٹہ۔” اس نے سرگوشی کرتے ہوئے بتایا۔
آرین کا جواب سن کر اس نے سر کو جنبش دیا۔
“کرن۔۔۔۔ کچھ بھی ہوجائے۔۔۔۔۔ رانا بھائی ایک گھنٹہ سے پہلے باہر نہیں آنا چاہیئے۔” اس نے کرن کو سختی سے تنبیہہ کرتے ہوئے کہا اور بھاگ کر واپس نیچے آیا۔ سکیورٹی گارڈ اور باڈی مین سے چپتے چپاتے وہ رانا صاحب کی کار تک آیا اور لیپ ٹاپ اٹھا کر اپنے کمرے کو لپکا۔ نور کو ہدایت تھی کہ وہ کمرے کے باہر پیرا دیتی رہے جیسے ہی کرن کا اشارہ ملے وہ انہیں جلدی سے آگاہ کریں۔
کرن کمرے میں ٹہلتے ہوئے رانا صاحب کے حرکات مشاہدہ کر رہی تھی۔ دل میں دعائیں کرتی وہ ناخن کاٹتی رہی کہ رانا صاحب جلدی تیار نہ ہوجائے وہ بار بار گھڑی دیکھتی ان کے سامنے آئی اور ان کا وقت ضائع کرنے باتیں کرنے لگی۔
“رانا صاحب۔۔۔۔۔ جو ہوا۔۔۔۔۔ سو ہوگیا۔۔۔۔۔۔ سب کچھ بھول کر نئی شروعات کرتے ہے۔۔۔۔۔” وہ رک رک کر بات کرتی ان کے بازو کو تھام کر خوشگوار مزاجی سے بات کر رہی تھی۔ رانا صاحب سپاٹ انداز میں اسے دیکھ رہے تھے۔
“نہ میری غلطی نہ آپ کی غلطی۔۔۔۔۔۔ درگزر کرتے ہے۔۔۔۔ آخر ہمارا رشتہ ہے ایسا ہے۔” اس نے نرم لہجے میں کہا۔
وہی دوسری جانب نور کی نظریں کمرے کے دروازے پر ٹکی تھی اور روحان آرین کے ساتھ لیپ ٹاپ پر لگا تھا جب اس نے دستک سنی۔ آرین کی keyboard پر مہارت سے چلتی انگلیاں رک گئی۔ روحان دروازے پر گیا اور آوٹ سے باہر جھانکا۔
“روحان۔۔۔۔۔ جلدی کرو۔۔۔۔۔۔ ایک گھنٹہ پورا ہوگیا ہے۔” نور نے تشویش سے سرگوشی کی۔
روحان نے مڑ کر آرین کو دیکھا اس نے دو انگلیاں اٹھا کر دو منٹ کا اشارہ کیا تو روحان نے سر کو جنبش دی اور واپس اپنی جگہ پر آگیا۔
رانا صاحب نے کرن کی باتوں سے متاثر ہوئے بغیر سپاٹ انداز میں اس کا ہاتھ سے پرے ہٹایا۔
“مجھے آفس کے لیے دیر ہورہی ہے۔ “وہ کہتے ہوئے آگے بڑھے۔
کرن کا دل ڈوبنے لگا جیسے رانا صاحب نے دروازہ کھولا نور سامنے کھڑی دکھائی دی۔
“رانا بھائی۔۔۔۔۔۔۔۔ میری اور کرن کی یونیورسٹی فرینڈ کی سالگرہ ہے کل۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے کرن کو خاص لانے کے لیے کہا ہے۔۔۔۔۔۔ کرن بھی میرے ساتھ پارٹی میں چلے۔” نور نے جھجکتے ہوئے انہیں کل کے پلان کے بارے میں بتانا شروع کیا۔ اسی وقت روحان پھر سے دبے پاؤں باہر گیا اور رانا مبشر کا لیپ ٹاپ اپنی جگہ پر رکھ دیا۔
رانا بھائی نے سوچ کر فیصلہ بتانے کا کہا اور تیزی سے آگے بڑھ گئے۔ ان کے جانے کے بعد نور اور کرن بھی روحان کے کمرے میں آئی۔ کرن تین سے چار مہینے بعد آرین کے رو بہ رو ہوئی تھی لیکن اسے نظرانداز کرتی وہ روحان کی طرف متوجہ کھڑی تھی۔
آرین نے روحان کے لیپ ٹاپ پر کچھ بٹن دبائے اور اس کی صبح سے اب تک کی کارروائی ڈیلیٹ کر دی تا کہ رانا مبشر دیکھ نہ سکے۔
**************&&&&*****************
اگلی صبح نور، کرن کو اپنے ساتھ پارٹی میں جانے کے بہانے گھر سے لے گئی۔ رانا صاحب نے یہ سوچ کر اجازت دی کہ وہ اپنے بڑے شاک سے گزری ہے تھوڑا باہر جائے گی تو دل بہل جائے گا۔
پارٹی میں جانے کے بجائے نور اسے روحان کے بتائے ایڈریس پر لے گئی۔ وہاں آرین انتظار میں کھڑا تھا اسے آرین کے ساتھ کچہری پہنچنا تھا جہاں روحان پہلے سے موجود تھا۔ بے دلی سے وہ آرین کی کار میں بیٹھی جو روحان نے اسے اس مشن کے لیے مہیا کی تھی۔
“کیسی ہو کرن۔” کافی دیر خاموشی سے ڈرایو کرنے کر بعد اس نے کرن کو مخاطب کیا۔
“ٹھیک ہوں۔” کرن صرف اتنا ہی جواب دے سکی۔
“مجھے اچھا لگا آخر تم نے اپنے بارے میں سوچا۔۔۔۔۔۔۔ اپنے لیے قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا۔۔۔۔۔۔” آرین نرمی سے اس کی حوصلہ افزائی کر رہا تھا۔ وقفے وقفے سے وہ رخ موڑ کر کرن کو بھی دیکھتا لیکن کرن ونڈ اسکرین کے باہر شہر کو دیکھتی رہی۔
“تم نہیں جانتے آرین۔۔۔۔۔۔ یہ قدم اٹھانے کے لیے میں نے کیا قربانی دی ہے” اس نے سنجیدگی سے دل میں سوچا پر کہا کچھ نہیں۔ آرین کو اس کی بے رخی سے دکھ ہو رہا تھا۔
“کیا تم۔۔۔۔۔ اس فیصلے سے خوش نہیں ہو۔” آرین نے تشویش سے پوچھا
“خوش ہوں” کرن نے اب بھی صرف دو لفظوں میں جواب دیا اور پھر سے خاموش ہوگئی۔ نظریں مسلسل ونڈ اسکرین کے باہر نظر آتی عمارت پر جمی تھی۔
آرین بد مزہ ہوگیا تھا اس کا اور زبردستی کرن کو گویا کروانے کا دل نہیں چاہ رہا تھا تو وہ بھی خاموش ہوگیا۔ کچہری پہنچ کر کار سے اترتے ہوئے کرن نے چادر سر پر ڈالی اور چہرے پر نقاب کیا تا کہ اگر کوئی میڈیا والا موجود ہو تو اسے پہچان نہ سکے۔
روحان وہی کوریڈور میں ہی فون پر کسی سے گفتگو کرنے میں مصروف تھا ان کو آتے دیکھا تو فون پر الوداع کرتے ہوئے ان کے سامنے آیا اور ان کو ساتھ لئے ایک کمرے کے جانب بڑھ گیا۔
کمرے کے اندر صرف روحان اور کرن گئے جبکہ آرین باہر کھڑا ہوگیا۔
وکیل کے کیبن میں کرن نے خُلا کی درخواست درج کی اور ساتھ میں وہ ویڈیو کی لسٹ پیش کی جو کل رات بھر روحان نے گھر کے کیمروں کے history سے نکالی تھی۔
” درخواست دائر کرنے کے لیے تو یہ ثبوت ٹھیک ہے لیکن۔۔۔۔۔ یہ کافی نہیں ہے۔۔۔۔۔ اس سے تو رانا مبشر فوٹوشاپ ویڈیو قرار دے کر دو منٹ میں منسوخ کر دے گے۔۔۔۔ ہمیں کچھ عینی شاہدین کی بھی ضرورت پڑے گی۔۔۔۔۔ کچھ ایسے دستاویزات جو ایک ہی دفعہ میں خلا کی منظوری کے ساتھ ساتھ ان کی گرفتاری کے بھی آرڈرز جاری کریں۔” وکیل صاحب نے پروفیشنل انداز میں وضاحت دی۔
“گرفتاری کیوں۔۔۔۔۔ ہمیں صرف خلا کروانا ہے نا۔” روحان گرفتاری کا سن کر روہانسی ہوگیا۔ وہ اپنے دل عزیز رانا بھائی کو جیل میں کیسے ڈال سکتا تھا۔ اس نے بے یقینی سے کرن کو دیکھا وہ ساکت بیٹھی تھی۔
“روحان۔۔۔۔۔۔ میں آپ کے جذبات سمجھ سکتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔ لیکن مجھ سے زیادہ آپ رانا مبشر کے مزاج سے واقف ہیں۔۔۔۔۔۔ اگر وہ آزاد رہے تو وہ ایک لاکھ طریقے آزمائے گے لیکن خلا منسوخ کروا دینگے۔۔۔۔۔۔۔ اور بلفرض ایسا نہ بھی کر سکے تو کرن کی جان لینے پر ضرور آجائے گے۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر جب انہیں معلوم پڑے گا کہ ان سب میں آپ بھی شامل ہے تو۔۔۔۔۔ آپ تو ان کے بیٹے جیسے ہے آپ کو تو وہ کچھ نہیں کہے گے لیکن آپ کی شادی شدہ زندگی خطرے میں پڑ جائے گی۔۔۔۔۔۔ میں کوئی رسک نہیں لے سکتا۔۔۔۔۔۔ اس لیے ان کی گرفتاری لازمی ہے روحان۔” وکیل صاحب نے نرم لہجے میں سمجھایا۔
روحان اب بھی اضطراب میں تھا اس کا ضمیر اس قدم پر راضی نہیں ہو پا رہا تھا۔
کرن کو روحان پر شدید ترس آنے لگا نا چاہتے ہوئے بھی وہ اسے تکلیف سے دو چار کر رہی تھی۔ مجبوری میں وہ لب کاٹنے لگی۔ ماحول میں تناو بڑھنے لگا تو وکیل کنکارے
“فلحال آپ صرف عینی شاہدین اور دستاویزی ثبوت کا انتظام کرے روحان۔۔۔۔۔۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں جیسے ہی معاملہ نپٹ جائے گا میں خود رانا صاحب کی قید کی مدت کم سے کم کرواو گا۔۔۔۔۔۔۔ یہ وعدہ ہے میرا۔” انہوں نے ہمدردی سے ہاتھ بڑھا روحان کا ہاتھ تھپتھپایا۔ روحان پھیکا مسکرایا اور سر کو جنبش دیتے ہوئے آگے کی پلاننگ طے کرنے لگا۔ کرن نے سرد سانس خارج کی اور غور سے ان کی گفتگو سننے لگی۔
**************&&&&****************
وہی دوسری جانب نور اس وقت اپنے گھر پر موجود تھی اور غصیلے انداز میں سرد مہری سے نگار بیگم کی آہ و بکا سن رہی تھی۔ جب سے اسے ماما کے فریب کا پتا چلا تھا اس نے نگار بیگم سے قط روابط کر لیا تھا۔
آج وہ ان کے بہت منت سماجت پر منہ پھلائے آئی تھی اور ہاتھ باندھے منہ بھسورتے ہوئے پیر ہلاتی بے زاری سے بیٹھی نگار بیگم کی دہائیاں سن رہی تھی۔
” وہ ایسے کیسے کر سکتا ہے۔۔۔۔۔ میں نے کیا کچھ نہیں کیا اس کے لیے۔۔۔۔۔ اس نے ایک دفعہ بھی میرا نہیں سوچا۔۔۔۔۔ اپنی ماما کو بے سہارا چھوڑ دیا۔” نگار بیگم نے بہتے آنسوؤں سے کہا۔
حادی نے وہی مانچیسٹر میں ایک انگریز لڑکی سے شادی کر لی تھی اور اسی کے ساتھ وہی سیٹل ہوگیا تھا جس کی خبر سن کر نگار بیگم نے آج گھر سر پر اٹھا لیا تھا۔ انہوں نے نور کے ساتھ اپنا غم بانٹنے اسے بلایا تھا لیکن الٹا نور ان ہی کو ملامت کر رہی تھی۔
“جو دوسروں کے اولاد پر ظلم ڈھاتے ہے۔۔۔۔۔ ان کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے ماما۔۔۔۔۔۔۔ آپ نے کبھی بھی یہ سوچا جو آپ اپنے لالچ کے لیے کرن کے ساتھ کر رہی ہے وہ کبھی آپ پر بھی پلٹ کر آئے گا۔۔۔۔۔ کبھی اس کا حساب چکانا پڑے گا۔” نور نے اٹھتے ہوئے کہا۔
نگار بیگم کے پاس اس کے کسی سوال کا جواب نہیں تھا وہ پچھتاوے سے سر جھکا گئی۔
“سوری ماما۔۔۔۔۔۔ میں آپ کی کوئی مدد نہیں کر سکتی۔۔۔۔۔۔۔ آپ کو آپ کے کرموں کی بھرپائی خود کرنا پڑے گا۔” ہمدردی سے کہتی وہ باہر چلی گئی اور نگار بیگم ہاتھ مسلتے روتی رہ گئی۔
*************&&&&***************
کچہری سے واپسی آرین نے کرن کو وہی ڈراپ کیا جہاں سے اٹھایا تھا۔ نور پہلے ہی پارکنگ میں کھڑی تھی۔ آرین سے بائے کہتی وہ اس کے کار سے اتری اور نور کی کار میں جا بیٹھی۔
آرین واپسی مڑا تھا کہ روحان نے اسے کال کیا۔
“آرین۔۔۔۔۔ ایک ایڈریس میسج کر رہا ہوں۔۔۔۔۔ وہاں جا کر شمائلہ نامی عورت کو ہمارے میٹینگ پلیس پر لے کر آو۔” اس نے روحان کی ہدایت دیتی آواز سنی۔
“وہ آجائے گی میرے ساتھ” آرین نے تجسس سوال سے پوچھا
“نہیں آئی تو اٹھا کر لے آنا۔” روحان نے مصروف انداز میں مسکراہٹ دبائے ہوئے جواب دیا۔
آرین روحان کی بات سن کر شاک ہوا۔
“اووو ہیلو۔۔۔۔۔ روحان صاحب۔۔۔۔۔ اچھے خاصے computer editor کو جاسوس تو بنا دیا ہے اب کیا اغوا کار بھی بناو گے۔” اس نے کار روک کر منہ بناتے ہوئے کہا۔
جواب میں اس نے روحان کا قہقہہ سنا۔
“اس سے مل کر پہلے اس سے میری بات کرواو۔۔۔۔۔ میری بات سن کر وہ آجائے گی۔” روحان نے ہنستے ہوئے کہا اور فون بند کیا۔
میسج ملتے ہی آرین نے ایڈریس پڑھا اور کار کا رخ گھما دیا۔
**************&&&&**************
گھر میں وہ تینوں نارمل انداز میں ہوتے کوئی کسی سے اس موضوع پر بات نہیں کرتا اور کرنا بھی ہوتا تو روحان کے کمرے میں بات ہوتی اس لیے رانا مبشر کو ان کے کسی کارروائی کا اندیشہ نہیں ہوا۔
کرن کو ہر گرزتے دن کے ساتھ اپنے رہائی کا انتظار ہونے لگا۔
اس رات روحان وکیل کے ہدایت کے مطابق کچھ اور ثبوت ڈھونڈنے لگا تھا۔ عینی شاہد کے طور اس نے ان کے پرانی ملازمہ شمائلہ کو عدالت میں حاضر ہونے پر قائل کر لیا تھا لیکن اب تک اسے کوئی کاغذی دستاویز ہاتھ نہیں لگے تھے۔ رات دیر گئے رانا صاحب کے سوجانے کے بعد اس نے اپنے لیپ ٹاپ سے ان کے لیپ ٹاپ پر نظر گردانی شروع کی اور کافی جتن کے بعد اسے ایک secret folder ملا۔ روحان نے تعجب سے آبرو اچکا کر فولڈر کھولا تو سامنے 12 سال پہلے کی ان کی اور بیلا کی کچھ خاص ویڈیوز موجود تھی جس میں اس کی خودکشی کا سانحہ بھی تھا۔
روحان کا خوف سے منہ کھل گیا اسے یاد آیا کہ اس وقت تو اسے بیلا کی موت کی کوئی اور وجہ بتائی گئی تھی۔ اس نے افففف کرتے آنکھیں موند لی اور افسوس سے پیشانی مٹھی پر پٹخی گیلی سانس اندر کھینچ کر خود کو کمپوز کرتے ہوئے اس نے وہ ویڈیوز کاپی کی اور سونے کے لیے لیٹ گیا۔
***************&&&&***************
صبح اس کا رانا مبشر کے سامنے جانے کا دل نہیں کیا نور اس کا ناشتہ کمرے میں ہی لے آئی تھی۔ کرن بھی حال دریافت کرنے اس کے کمرے میں داخل ہوئی۔
“روحان آپ ٹھیک تو ہے۔۔۔۔۔۔ اتنا تشویش مت کرے۔۔۔۔۔۔۔۔ سب ٹھیک ہوجائے گا” اس نے متفکر سے کہا۔
اسی لمحے رانا صاحب بھی کمرے میں در آئے۔
“اare you okay روحان۔۔۔۔۔” انہوں نے اس کے پیشانی پر ہاتھ رکھے ہوئے پوچھا۔”
“ہاں رانا بھائی۔۔۔۔۔۔ میں ٹھیک ہوں۔۔۔۔۔۔ تھوڑا سر میں درد ہو رہا ہے۔۔۔۔۔”اس نے خوشگوار مزاجی سے کہا۔
“ہمممم۔۔۔۔۔ تم آج ریسٹ کرو۔۔۔۔۔۔ آفس سے چھٹی کرو” انہوں نے پیار سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
روحان نے احترام سے سر کو جنبش دیا اور ان کی ہدایت قبول کی۔
ان کے کمرے سے جانے کے ساتھ کرن بھی ساتھ میں نکل گئی۔ اس نے سوچا اب تو روحان گھر پر ہے وہ بعد میں مسئلہ پوچھ لے گی۔
کوئی دو گھنٹے بعد وہ واپس ان کے کمرے میں آئی تو روحان شرٹ اور جینز پہنے کہی جانے کے لیے تیار تھا۔
“روحان آپ کی تو طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔۔۔۔۔۔۔ آج آرام کر لیتے۔۔۔۔۔” کرن نے بے بسی سے کہا۔
“نہیں کرن۔۔۔۔۔۔ آج تو سب سے اہم کام ہے۔۔۔۔۔۔ سمجھو یہ کام ہوگیا تو خلا اپروول ہونے میں دو منٹ نہیں لگے گا۔”اس نے پر امید انداز میں کہا۔
“ایسا کونسا کام ہے۔”کرن نے حیرت سے پوچھا۔ نور بھی کمرا سمیٹتے اس کی بات سننے رک گئی۔
“بیلا کی خودکشی کو ناگہانی طور پر حادثہ قرار دینے کے ثبوت” روحان نے زخمی آواز میں کہا۔
ان دونوں کی آنکھیں پھیل گئی اور منہ کھل گیا۔ اس سے آگے ان دونوں کے پاس کچھ ردعمل نہیں تھا روحان افسردگی سے مسکرایا اور باہر نکل گیا۔
**************&&&&&&**************
وہ ایک بڑے بنگلے کے داخلی گیٹ پر کار پارک کر کے اترا اور چوکیدار کو اپنا تعارف بتایا وہ سر کو خم دیتے اسے ساتھ لیئے اندر گیا اور صوفے کے جانب اشارہ کر کے اسے بیٹھنے کا کہا۔ روحان بیٹھنے کے بجائے چاروں اطراف کا جائزہ لینے لگا اور ایک بڑی فیملی فوٹو کے سامنے رک گیا جہاں میاں بیوی اور ان کے دو teenage بچے مسکراتے ہوئے کھڑے تھے۔
روحان کے دل میں ٹھیس اٹھی۔
“رانا بھائی انسانوں جیسی زندگی جیتے تو آج ان کی بھی ایسی فیملی ہوتی۔”اس نے دل میں سوچا اور اداسی سے سر جھٹکا تب ہی اسے بھاری بوٹوں کی چھاپ سنائی دی وہ ایڑیوں کے بل مڑا اور خوشگوار انداز میں ان صاحب سے سلام کیا۔
“ویکلم چھوٹے رانا۔۔۔۔۔۔ ویلکم” محمود شاہد نے گرم جوشی سے اسے آغوش میں بھرتے ہوئے کہا۔ ان کے گلے مل کر الگ ہوتے ہوئے روحان کھل کر مسکرایا۔
“میں روحان ہی ٹھیک ہوں محمود بھائی۔۔۔۔۔ یہ رانا کا لقب مجھے نہیں جچتا۔” اس نے سرد آہ بھری اور صوفے پر بیٹھ گیا۔
“سب خیریت تو ہے روحان۔۔۔۔۔۔۔ تم نے ایسے ایمرجنسی میں خاص طور پر گھر پر ہی ملنے کا کیوں کہا۔” محمود شاہد اس کے سامنے صوفے پر ہاتھ پھیلاتے بیٹھے اور غور سے روحان کے حرکات مشاہدہ کرنے لگے۔ انہوں نے ملازم کو آہو بگت کرنے بلایا جو روحان نے ہاتھ اٹھا کر منع کر دیا اور عجلت میں صاف صاف مودع بیان کرنے لگا۔
“محمود بھائی۔۔۔۔۔۔۔ میں کرن کو رانا بھائی خلا دلوانے میں مدد کر رہا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس میں مجھے آپ کی مدد بھی درکار ہے” روحان نے سنجیدگی سے کہا۔
محمود شاہد نے محظوظ ہوتے ہوئے آبرو اچکائے اور تھیوری پر ہاتھ رکھ کر دلچسپی سے روحان کی گفتگو سننے لگے۔
“جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ بیلا کی وفات کے بعد آپ رانا بھائی پر کیس کر رہے تھے۔۔۔۔۔ انہیں ڈائریکٹ یا انڈائریکٹ بیلا کا قاتل ثابت کرنا چاہتے تھے۔۔۔۔۔۔ لیکن کر نا سکے۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے وہ سب ڈاکیومینٹز چاہیئے محمود بھائی” روحان نے دل گرفتگی سے آخری فقرہ ادا کیا اور محمود صاحب کے ردعمل کا انتظار کرنے لگا۔
“ہمممم۔۔۔۔۔۔ ایک چھوٹا بھائی۔۔۔۔۔۔ اپنے بڑے بھائی کے خلاف اتنی بڑی سازش رچ رہا ہے۔۔۔۔۔۔ وہ بھی ایک کل کی آئی لڑکی کے لیے۔۔۔۔۔۔۔ یہ بات کچھ ہضم نہیں ہوئی” محمود شاہد نے استحزیہ مسکرا کر چمکتی آنکھوں سے کہا۔
روحان بے بسی سے ہنسا۔
“رانا بھائی کا دماغی توازن دن بہ دن بگڑتا جا رہا ہے۔۔۔۔۔۔ انہیں بروقت نہیں روکا۔۔۔۔۔۔ تو تباہی مچا دینگے۔۔۔۔۔۔ اور میں نہیں چاہتا۔۔۔۔۔۔ میرے گھر تیسرے مظلوم کی بھی جان چلی جائے” اس نے سرد آہ بھرتے ہوئے کہا۔
“تیسری۔۔۔۔” محمود صاحب نے حیرانگی سے آبرو اچکا کر پوچھا۔ جواب میں روحان نے انہیں کرن کے miscarriage کے مختصر رو داد سنائی۔
“ہممممم۔۔۔۔۔ لیکن تمہاری مدد کر کے مجھے کیا ملے گا۔۔۔۔” محمود شاہد نے بزنسمین کے انداز میں پیر جھلاتے ہوئے کہا۔
وہ اپنی آنکھوں سے رانا مبشر کی زوال کا آغاز دیکھ کر مسرور ہو رہے تھے۔
“بیلا کے لیے انصاف۔۔۔۔۔۔ جو آپ اتنے سالوں سے نہیں دلا پائے۔۔۔۔۔۔ ” روحان نے فخریہ مسکراتے ہوئے اور با اعتماد لہجے میں محمود شاہد کی آنکھوں میں دیکھ کر کہا۔
محمود شاہد کے آبرو پھیل گئے انہیں روحان کے باتوں میں سنجیدگی اور پر عزم ارادے چھلکتے دکھائی دیئے۔
***********&&&&&************
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...