1 رمضان المبارک۔۔۔۔۔23.03.23
رمضان شریف کی وجہ سے حمدونعت سننے کی طرف طبیعت مائل ہے۔میں نے مظفر وارثی کی حمد “کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے، وہی خدا ہے” کو اہتمام کے ساتھ سنا۔نصرت فتح علی خان کی آواز میں نہیں بلکہ حمد کے اصل تخلیق کار مظفر وارثی کی آواز میں سنا اور یہ سننا بہت اچھا لگا. قصیدہ بردہ شریف پی ٹی وی والا جس میں عربی کے ساتھ اردو،فارسی،سرائیکی اور انگریزی ترجمہ بھی گایا جاتا ہے،وہ بھی سنا اور بار بار سنا۔اس کا مزید ذکر شاید کبھی اگلے دنوں میں کرسکوں۔
مختلف ویڈیوز سنتے ہوئے جب فلم ” نورِ اسلام” کی نعت آئی تو دیر تک اسے بار بار سنتا رہا۔یہ نعت ہے”شاہِ مدینہ یثرب کے والی سارے نبی تیرے در کے سوالی”…اسے بعد میں بے شمار اچھے اچھے پروفیشنل سنگرز سے لے کر سٹریٹ سنگرز تک نے خوبصورتی کے ساتھ گایا ہے لیکن فلمی گائیکی کی اپنی ہی انوکھی لذت ہے۔اس نعت کو فلم کے لئے سلیم رضا اور آئرن پروین نے گایا تھا۔یہ بہت ہی خاص سعادت تھی جو ان دونوں گلوکاروں کو نصیب ہوئی۔یہ دونوں گلوکار مسیحی تھے۔ فلم انڈسٹری میں متعدد مسلم گلوکاروں کے ہوتے ہوئے سلیم رضا اور آئرن پروین کو یہ شاندار نعت گانے کی توفیق ملنا بڑے نصیب کی بات تھی۔
سلیم رضا اور آئرن پروین کی گائی ہوئی نعت کے علاوہ بہت سے گلوکاروں کی آواز میں بھی یہی نعت سنی۔سب نے حسبِ توفیق اچھی گائی۔مجھے سائرہ نسیم کی گائی ہوئی نعت نے بہت مزہ دیا،بہت زیادہ۔۔۔۔۔ ایک سٹریٹ سنگر کی 4.59 دورانیے کی ویڈیو بھی زبردست ہے۔اس میں اس نے بڑے موزوں اشعار دوہے کی طرح جوڑ کر انوکھا سرور پیدا کردیا ہے۔ویڈیو ریکارڈنگ مکمل نہیں ہے لیکن جتنی بھی ہے پورا مزہ دیتی ہے۔۔۔۔شاہدہ منی نے بھی یہ نعت بڑی خوبصورتی سے گائی ہے لیکن مجھ جیسے بندوں کو آزمائش میں بھی ڈال دیا ہے۔ایک تو کم بخت اتنی خوبصورت اوپر سے نعت گانے میں بھی اداؤں سے کام۔۔۔۔ بے شک ادائیں عقیدت سے بھری ہیں لیکن مجھ جیسے بندے کو تو ابتلا میں ڈال دیا۔بہر حال یہ پل صراط بھی پار کر لیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
2 رمضان المبارک۔۔۔۔۔ 24.03.23
آج نجی طور پر بہت سارے احباب نے کل کی پوسٹ پر پسندیدگی کا اظہار کیا۔ آج دن کا آغاز نصرت فتح علی خان کی اللہ ہو۔۔۔اللہ ہو۔۔۔۔ سے کیا۔پھر خورشید احمد کی آواز میں
“کوئی سلیقہ ہے آرزو کا نہ بندگی میری بندگی ہے
یہ سب تمہارا کرم ہے آقا کہ بات اب تک بنی ہوئی ہے”
بعض لوگ دوسرے مصرع میں آقا کی جگہ مولا لکھتے ہیں۔مجھے وہ بھی اچھا لگتا ہے۔ دونوں صورتوں میں اختلاف والی کوئی بات نہیں۔دونوں کا اپنا اپنا مزہ ہے۔
گلوکار محمد رفیع صاحب میرے انتہائی پسندیدہ گلوکار ہیں۔ مجھے ان کے اندر ایک ولی بھی محسوس ہوا ہے لیکن وہ ایک الگ قصہ ہے، کبھی توفیق ملی تو کچھ وضاحت کر دوں گا۔فلمی دنیا میں لتا جی نے بھی بعض نعتیں گائی ہوئی ہیں۔ رفیع صاحب نے ایک گانا رمضان کے حوالے سے اور ایک” پروردگارِ عالم تیرا ہی ہے سہارا” گا رکھا ہے۔لیکن اب جو حمدیہ، نعتیہ کی تلاش میں نکلا تو رفیع صاحب کا ایک نہایت خوبصورت سلام مل گیا۔ YA NABI SALAM ALAYKA BY MOHAMMAD RAFI لکھ کر اس نایاب سلام تک پہنچ سکتے ہیں “یا نبیﷺ! سلام علیک “.آج میں نے اس سلام کو بار بار سنا اور مزہ لیا۔۔۔۔۔سلام سے پھر اپنے بچپن میں بارہا سنا ہوا ایک سلام یاد آ گیا۔
سلام اس پر کہ جس نے بے کسوں کی دستگیری کی
سلام اس پر کہ جس نے بادشاہی میں فقیری کی
بہت سے لوگوں نے یہ سلام پڑھا لیکن مجھے اس طرز کی تلاش تھی جو میں بچپن میں سنتا رہا تھا۔آخرکار ایک دس بارہ سال کے بچے حسن افضال صدیقی کی آواز میں وہی طرز سننے کو مل گئی۔سو جی بھر کے سنتا رہا۔۔۔ سنتا کیا رہا اپنے بچپن کے رحیم یارخان والے گھر میں امی،ابو اور اپنے آپ سے ملتا رہا۔
کل قصیدہ بردہ شریف کا ذکر کیا تھا۔اس میں سارے ترجمہ گانے والوں نے اپنی اپنی آواز میں کلام سے انصاف کیا ہے۔اردو ترجمہ فریحہ پرویز نے گایا۔باقیوں کی طرح اچھا گایا لیکن یہ کچی کچی سی فریحہ پرویز تھی۔اس کی دھوم تو پتنگ بازوں میں مچی تھی اور ایسی دھوم مچی کہ پتنگ بازی پر ہی پابندی لگ گئی۔اس کے بعد فریحہ کے فن کے مظاہرے دیکھتے رہے۔اسے اوج پر تب دیکھا جب اس نے پی ٹی وی پر گایا “وے میں تیرے لڑ لگیاں وے رانجھنا”….یہ سب کچھ اس لئے یاد آیا کہ آج سائیں خاور کے ساتھ فریحہ پرویز کا گایا ہوا صوفیانہ کلام سننے کا موقعہ ملا۔
“میری ڈاچی دے گل وچ ٹلیاں
نی میں پِیر مناون چلیاں”.
اس میں پِیر کی جگہ یار ہوتا تو زیادہ اچھا تھا۔بہر حال پیر صاحب کی برکت سے رمضان شریف میں فریحہ پرویز کی زیارت کی توفیق مل گئی۔ اس کے بعد میں نے صوفیانہ کلام سے کچھ احتیاط کی کہ اس کلام کے تو پنجاب میں ہی سات سمندر موجود ہیں۔کے پی کے،سندھ اور بلوچستان کے صوفیائے کرام کے الگ سے اپنے اپنے جہان ہیں۔
رفیع صاحب اور بارہ سالہ حسن دونوں کے سلام سننے کے بعد پروفیسر عبدالرؤف روفی کی “میٹھا میٹھا ہے میرے محمد کا نام” سننے لگا اور سنتا رہا۔۔۔بار بار سنتا رہا۔۔۔۔ابھی تک سن رہا ہوں۔جیسے ہی نعت مکمل.ہوتی ہے اسی کو دوبارہ لگا لیتا ہوں۔
لیکن اب جو میں یہ تحریر لکھ رہا ہوں تو اس دوران اس نعت کے بعد عبدالرؤف روفی کا سلام شروع ہوگیاہے یا نبیﷺ سلام علیک۔۔۔۔یا رسولﷺ سلام علیک۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
3 رمضان المبارک۔۔۔۔۔25.03.23
قاری وحید ظفر قاسمی کا حمدیہ “اللہ ہو۔۔۔۔اللہ ہو۔۔۔۔اللہ ہو۔۔اللہ “…جس میں عربی اشعار اور ساتھ ان کا اردو ترجمہ وحید ظفر خود ہی گاتے ہیں۔یہ حمدیہ ایک زمانے میں بہت مقبول ہوا تھا۔اس کی تاثیر ابھی بھی قائم ہے۔آج دن کا آغاز اسے سننے سے کیا۔۔۔۔اس کے بعد بچپن میں سنا ہوا ایک دعائیہ،التجائیہ یاد آگیا۔فلم “داتا” کا یہ گانا اپنے وقت کا سپرہٹ تھا۔بعد میں بھی شوق سے سنا جاتا رہا ہے ۔بول ہیں “کر ساری خطائیں معاف مری تیرے در پہ میں آن گرا”…اسے سلیم رضا نے گایا تھا۔”شاہِ مدینہ” والی نعت گانے کے ساتھ یہ التجا اور فریاد بھرا گیت گانے کی سعادت بھی سلیم رضا کو ہی نصیب ہوئی۔اس گیت کے بعد درمیان میں اور بہت سارے دعا اور التجا بھرے گیت آئے لیکن سلیم رضا والے دعائیہ گیت کے بعد پھر ساحر بگا نے پنجابی میں اس سے آگے کا کمال دکھایا۔یہ دعا اور فریاد بھرا گیت بس سننے سے تعلق رکھتا ہے۔
ماف کریں تو مولا ماف کریں تو بس معاف کریں
عدل کریں،نہ انصاف کریں تو بس معاف کریں
نعت خواں فصیح الدین سہروردی کی مشہور نعت میں بھی انوکھا سرور ہے۔
حضور ایسا کوئی انتظام ہو جائے
سلام کے لئے حاضر غلام ہو جائے
آج یہ نعت اہتمام کے ساتھ سنی ہے۔اس دوران یہ خیال بھی آیا کہ اب تو لوگ سعودی عرب کا ویزا جاب کے لئے ڈھونڈنے لگے ہیں۔ویزے کے خیال کے ساتھ وحید ظفر قاسمی کی مشہور نعت یاد آگئی اور پھر اسے سننا شروع کردیا۔
فاصلوں کو تکلف ہے ہم سے اگر
ہم بھی بے بس نہیں بے سہارا نہیں
ہم مدینے میں تنہا نکل جائیں گے
اور گلیوں میں قصداً بھٹک جائیں گے
ہم وہاں جا کے واپس نہیں آ ئیں گے
ڈھونڈتے ڈھونڈتے لوگ تھک جائیں گے
جب یہاں پہنچا تو عقیدت اور زمینی حقائق کا فرق واضح ہونے لگا۔جو سعودی حکومت روضے کی جالی چومنے پر بھی پہرے لگائے ہوئے ہے،وہ آپ کو مدینے کی گلیوں سے بھی ڈھونڈ نکالے گی۔ پھر پہلے جیل اور جرمانہ اور پھر ڈی پورٹ۔۔۔۔تنویر نقوی کی مشہورفلمی نعت ہے۔جو نہ ہوتا تیرا جمال ہی۔۔ یہ جہاں تھا خواب و خیال ہی۔۔ صَلّْوعَلیہِ وَآلہ
یہ نعت فلم “ایاز” کے لئے زبیدہ خانم اور ساتھیوں نے گائی تھی اور کیا سماں باندھ دیا تھا۔اصلاً یہ شیخ سعدی کی نعت بلغ العلی بکمالہ حسنت جمیع خصالہ کی تضمین کرکے اردو میں نئی نعت لکھی گئی تھی۔ یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ “شاہِ مدینہ۔۔۔۔” والی نعت بھی تنویر نقوی نے لکھی تھی۔تنویر نقوی 1938 سے فلمی گیت لکھ رہے تھے اور ان کے دامن میں بہت سارے تاریخی اور شاندار گیت موجود ہیں۔لیکن “شاہِ مدینہ۔۔۔۔” اور “صلو علیہ و آلہ” ان کی ایسی خوبصورت نعتیں ہیں جو آج بھی تروتازہ ہیں اور نئے گلوکار اور نعت خواں آج بھی یہ نعتیں ذوق و شوق سے پڑھتے ہیں۔تنویر نقوی ملکۂ ترنم نورجہاں کے بہنوئی تھے۔نورجہاں کی بڑی بہن عیدن سے انہوں نے شادی کی تھی۔زبیدہ خانم نے جہاں بڑے شاندار اور سدا بہار گیت گائے ہیں وہیں اس نعت نے بھی انہیں زندہ جاوید کردیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
4 رمضان المبارک۔۔۔۔۔26.03.23
پیغام صبا لائی ہے گلزارِ نبی سے
آیا ہے بلاوا مجھے دربارِ نبی سے
شمشاد بیگم نے یہ نعت 1935 میں ریکارڈ کرائی تھی۔ اور اسے آج بھی نئی نسل کے نعت خواں اور گلوکار اسی دْھن میں گا رہے ہیں۔میں نے یہ نعت شریف اپنے بچپن میں بابا جی کی گراموفون مشین پر سنی تھی۔بابا جی کے پرانے زمانے کے ریکارڈز کی کلیکشن میں یہ نعت بھی شامل تھی۔اس نعت کے ساتھ ایک اور نعت یاد آ گئی۔لائی صبا خوشبوئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم۔ ’’صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ ردیف کے ساتھ کیا کمال کی نعت ہے۔یہ نعت لڑکپن اور جوانی میں ریڈیو پاکستان سے بہت سنی ہے۔اسے بہت تلاش کیا ہے لیکن ابھی تک یہ نعت مل نہیں سکی۔اس کا ایک شعر ذہن پر نقش ہو کر رہ گیا ہے۔
ہم سب کا قبلہ سوئے کعبہ،سوئے محمدروئے کعبہ
کعبے کا کعبہ روئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم
اس شعر کے ساتھ مجھے ہمیشہ ایک روایت یاد آتی ہے۔فتح مکہ کے موقعہ پر حضرت بلال کعبہ کی چھت پر چڑھ کر اذان دینے لگے تھے۔تب انہوں نے حضورﷺسے کہا کہ زمین پر تو قبلہ رو ہو کر اذان دیتے ہیں اب کعبہ کی چھت سے کس طرف منہ کرکے اذان دوں؟…حضورﷺ نے فرمایا میری طرف منہ کرکے اذان دو۔چنانچہ حضرت بلال نے ایسا ہی کیا۔یہی بات اس شعر میں بیان کی گئی ہے ” سوئے محمدﷺ روئے کعبہ” کیونکہ ” کعبے کا کعبہ روئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔یہ نعت احمد رضا خان بریلوی کی لکھی ہوئی تھی۔انہیں کی لکھی ہوئی ایک اور نعت بھی کمال کی تھی۔
لم یاتی نظیرک فی نظر مثل تو نہ شد پیدا جانا
احمد رضا بریلوی کی یہ نعت عربی،فارسی،اردو ،بھوجپوری، چار زبانوں کی آمیزش سے لکھی گئی ہے۔اسے بعد میں بعض اہم نعت خوانوں نے بھی پڑھا ہے لیکن اس کا پہلا ریکارڈ نعت خواں سعید ہاشمی کی آواز میں تھا۔ بعد میں عبدالرؤف روفی نے بھی اسے مزید خوبصورتی کے ساتھ گایا ہے۔بچیوں کی شرکت سے یہ کورس کی شکل بھی اختیار کر گئی ہے اور سنتے ہوئے ایک سرور سا محسوس ہوتا ہے۔
مولانا جامی کا کلام “گل از رخت آموختہ نازک بدنی را بدنی را بدنی را” ، ایک طرف الفاظ کی جگمگاہٹ اور دوسری طرف امِ حبیبہ کی لہراتی ہوئی آواز کے اتار چڑھاؤ نے اس نعت میں عجیب سی کشش پیدا کردی ہے۔آنکھیں موند کر سنتے جائیں اور آواز کی لہروں میں بہتے جائیں۔ امِ حبیبہ نے بہت پیاری پیاری نعتیں پڑھی ہیں۔آج ان کی اسی نعت کا ذکر کافی ہے۔زبیدہ خانم کی ایک نعت صلو علیہ وآلہ کا ذکر کل کرچکا ہوں۔آج ان کی گائی ہوئی ایک اور خوبصورت نعت یاد آئی ہوئی ہے۔فلم “زہر عشق” میں فلمائی گئی اس نعت کے بول ہیں ” سنو عرض میری کملی والے “….اس کی مقبولیت کا بھی یہ عالم ہے کہ ابھی تک متعدد خواتین اسے گا چکی ہیں۔گا رہی ہیں۔ میں ابھی تک یہ نعت چار پانچ مرتبہ سن چکا ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
5 رمضان المبارک۔۔۔۔۔۔27.03.23
آج دن کا آغاز صبیح رحمانی کی حمد سے کیا۔بہت خوبصورت اور پر جوش کلام ہے۔کعبے کی رونق،کعبے کا منظر. اللہ اکبر اللہ اکبر
اس کے بعد شفقت امانت علی اور صنم ماروی کی آوازوں میں کلامِ اقبال سنا۔خودی کا سرِ نہاں لاالہ الااللہ لا الہ الا اللہ
علامہ اقبال کے نواسے میاں یوسف صلاح الدین کی حویلی میں “ورثہ” کے تحت ہونے والی محفل میں یہ کلام ریکارڈ کیا گیا تھا۔میاں صلی کے بیان کے مطابق اس کی مسحور کن دھن موسیقار استاد نتھو خان نے بنائی تھی۔ شفقت اور صنم کی اس مشترکہ پیش کش کے بعد کسی بھی اور گلوکار کی آواز میں یہ کلام دل پر نہیں پڑتا۔شفقت اور صنم نے الگ الگ بھی اسے گایا ہے لیکن دونوں کی مشترکہ پیش کش ان سنگلز پر بھی حاوی رہی۔ صنم ماروی جب یہ شعر پڑھ رہی تھیں۔
یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں لا الہ الا اللہ ‘
تو میں اردو غزل والے صنم کا سوچ کر صنم ماروی کو دیکھ رہا تھا۔مجھے وہ اکیلی ہی صنم کدہ لگ رہی تھیں لیکن اردو غزل والے صنم کا۔۔۔۔۔اللہ معاف کرے نعتیہ اور عارفانہ کلام سنتے ہوئے بھی (اپنے اندر کا) شیطان کیسے کیسے بھٹکا دیتا ہے۔ اللہ صنم ماروی کو سلامت رکھے۔کلامِ اقبال کے بعد آج یہ تین نعتیں بہت سنی ہیں۔۔۔تینوں کا اپنا اپنا رنگ ہے اور اپنا اپنا مزہ۔
زہے مقدر حضورِ حق سے سلام آیا پیام آیا
جھکاؤ نظریں،بچھاؤ پلکیں ادب کا اعلیٰ مقام آیا
(قاری وحید ظفر)
نہ کلیم کا تصور نہ خیال طور سینا.
میری آرزو محمد میری جستجو مدینہ
(خورشید احمد )
کاش میں دورِ پیمبر میں اٹھایا جاتا
بخدا قدموں میں سرکار کے پایا جاتا.
(فرحان علی وارث)
پرانی نعتوں کو ڈھونڈتے ہوئے یو ٹیوب پر ایک لنک ملا. 1964 ko parrhi gai naat/ old naatیہ کلپ پیش کرتے ہوئے جعلسازی کی گئی ہے۔یہ 1964 کی نہیں انڈیا میں 1947 میں بنی فلم “درد” کا گیت ہے…اس میں ایک گانا تھا ” ہم درد کا افسانہ دنیا کو سنادیں گے”… یہ گانا بہت مقبول ہوا تھا۔ابھی بھی سننے والوں کو بھلا لگتا ہے۔اس کے اندر 1.40 پر یہ بول آتے ہیں۔
سرکارِ دوعالم کی امت پہ ستم کیوں ہو
اللہ کے بندوں کو منجدھار کا غم کیوں ہو
اسلام کی کشتی کو ہم پار لگا دیں گے.
ہم درد کا افسانہ دنیا کو سنا دیں گے
اس کے ایک منٹ کے حصے کو نعت بنا کر الگ کلپ لگا دیا گیاہے۔بہر حال یہ گیت شمشاد بیگم کی آواز میں تھا۔گیت یتیموں،غریبوں کے حق میں تھا اور اس میں دعا اور نعت کا رنگ بھی تھا۔اسے رمضان شریف کے مہینے میں ویسے بھی سننے کا مزہ ہے۔کسی بہانے سہی مجھے یہ گیت سن کر اچھا لگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...