کھٹمل مارنے کے بعد میں ٹرنک میں پرانے کاغذات دیکھ رہا تھا کہ سعید بھائی جان کی تصویر مل گئی۔ میز پر ایک خالی فریم پڑا تھا۔۔۔ میں نے اس تصویر سے اس کو پُر کر دیا اور کرسی پر بیٹھ کر دھوبی کا انتظار کرنے لگا۔
ہر اتوار کو مجھے اسی طرح انتظار کرنا پڑتا تھا کیونکہ ہفتے کی شام کو میرے دھلے ہوئے کپڑوں کا اسٹاک ختم ہو جاتا تھا۔۔۔ مجھے اسٹاک تو نہیں کہنا چاہیے اس لیے کہ مفلسی کے اس زمانے میں میرے صرف اتنے کپڑے تھے جو بمشکل چھ سات دن تک میری وضعداری قائم رکھ سکتے تھے۔
میری شادی کی بات چیت ہو رہی تھی اور اس سلسلے میں پچھلے دو تین اتواروں سے میں ماہم جا رہا ہے۔ دھوبی شریف آدمی تھا۔ یعنی دھلائی نہ ملنے کے باوجود ہر اتوار کو باقاعدگی کے ساتھ پورے دس بجے میری کپڑے لے آتا تھا، لیکن پھر پھر بھی مجھے کھٹکا تھا کہ ایسا نہ ہو میری نادہندگی سے تنگ آ کر کسی روز میرے کپڑے چور بازار میں فروخت کر دے اور مجھے اپنی شادی کی بات چیت میں بغیر کپڑوں کے حصہ لینا پڑے جو کہ ظاہر ہے بہت ہی معیوب بات ہوتی۔
کھولی میں مرے ہوئے کھٹملوں کی نہایت ہی مکروہ بُو پھیلی ہوئی تھی۔ میں سوچ رہا تھا کہ اسے کس طرح دباؤں کہ دھوبی آ گیا۔ ’’ساب سلام۔‘‘ کر کے اس نے اپنی گٹھڑی کھولی اور میرے گنتی کے کپڑے میز پر رکھ دیے۔ ایسا کرتے ہوئے اس کی نظر سعید بھائی جان کی تصویر پر پڑی۔ ایک دم چونک کر اس نے اس کو غور سے دیکھنا شروع کر دیا۔ اور ایک عجیب اور غریب آواز حلق سے نکالی۔ ’’ہے ہے ہے ہیں؟‘‘
میں نے اس سے پوچھا۔ ’’کیا بات ہے دھوبی؟‘‘
دھوبی کی نظریں اس تصویر پر جمی رہیں۔ ’’یہ تو ساعید شالیم بالشٹر ہے؟‘‘
’’کون؟‘‘
دھوبی نے میری طرف دیکھا اور بڑے وثوق سے کہا۔ ’’ساعید شالیم بالشٹر۔‘‘
’’تم جانتے ہو انھیں؟‘‘
دھوبی نے زور سے سر ہلایا۔ ’’ہاں۔۔۔ دو بھائی ہوتا۔۔۔ ادھر کولابا میں ان کا کوٹھی ہوتا۔۔۔ ساعید شالیم بالشٹر۔۔۔ میں ان کا کپڑا دھوتا ہوتا۔‘‘
میں نے سوچا یہ دو برس پہلے کی بات ہو گی کیونکہ سعید حسن اور محمد حسن بھائی جان نے فجی آئی لینڈ جانے سے پہلے تقریباً ایک بمبے میں پریکٹس کی تھی۔ چنانچہ میں نے اس سے کہا۔ ’’دو برس پہلے کی بات کرتے ہوتم۔‘‘
دھوبی نے زور سے سرہلایا۔ ’’ہاں۔۔۔ ساعید شالیم بالشٹر جب گیا تو ہم کو ایک پگڑی دیا۔۔۔ ایک دھوتی دیا۔۔۔ ایک کرتہ دیا۔۔۔ نیا۔۔۔ بہت اچھا لوگ ہوتا۔۔۔ ایک کا داڑھی ہوتا۔۔۔ یہ بڑا۔‘‘ اس نے ہاتھ سے داڑھی کی لمبائی بتائی اور سعید بھائی جان کی تصویر کی طرف اشارہ کر کے کہا: ’’یہ چھوٹا ہوتا۔۔۔ اس کا تین بلوا لوگ ہوتا۔۔۔ دو لڑکا، ایک لڑکی۔۔۔ ہمارے سنگ بہت کھیلتا ہوتا۔۔۔ کولابے میں کوٹھی ہوتا۔۔۔ بہت بڑا۔۔۔ ‘‘
میں نے کہا۔ ’’دھوبی یہ میرے بھائی ہیں۔‘‘
دھوبی نے حلق سے عجیب و غریب آواز نکالی۔ ’’ہے ہے ہے ہیں؟۔۔۔ ساعید شالیم بالشٹر؟؟‘‘
میں نے اس کی حیرت دور کرنے کی کوشش کی اور کہا۔ ’’یہ تصویر سعید حسن بھائی جان کی ہے۔۔۔ داڑھی والے محمد حسن ہیں۔۔۔ ہم سب سے بڑے۔‘‘
دھوبی نے میری طرف گھور کے دیکھا، پھر میری کھولی کی غلاظت کا جائزہ لیا۔۔۔ ایک چھوٹی سی کوٹھڑی تھی بجلی لائٹ سے محروم۔ ایک میز تھا۔ ایک کرسی اور ایک ٹاٹ کی کوٹ جس میں ہزارہا کھٹمل تھے۔ دھوبی کو یقین نہیں آتا تھا کہ میں ساعید شالیم بالشٹر کا بھائی ہوں۔ لیکن جب میں نے اس کو ان کی بہت سی باتیں بتائیں تو اس نے سر کو عجیب طریقے سے جنبش دی اور کہا۔ ’’ساعید شالیم بالشٹر کولابے میں رہتا اور تم اس کھولی میں!‘‘
میں نے بڑے فلسفیانہ انداز میں کہا۔ ’’دنیا کے یہی رنگ ہیں دھوبی۔۔۔ کہیں دھوپ کہیں چھاؤں۔۔۔ پانچ انگلیاں ایک جیسی نہیں ہوتیں۔‘‘
’’ہاں ساب۔۔۔ تم بروبر کہتا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر دھوبی نے گٹھڑی اٹھائی اور باہر جانے لگا۔ مجھے اس کے حساب کا خیال آیا۔ جیب میں صرف آٹھ آنے تھے جو شادی کی بات چیت کے سلسلے میں ماہم تک آنے جانے کے لیے بمشکل کافی تھے۔ صرف یہ بتانے کے لیے میری نیت صاف ہے میں نے اسے ٹھہرایا اور کہا۔ ’’دھوبی۔۔۔ کپڑوں کا حساب یاد رکھنا۔۔۔ خدا معلوم کتنی دھلائیاں ہو چکی ہیں۔‘‘
دھوبی نے اپنی دھوتی کا لانگ درست کیا اور کہا۔ ’’ساب ہم حساب نہیں رکھتے۔۔۔ ساعید شالیم بالشٹر کا ایک برس کام کیا۔۔۔ جو دے دیا، لے لیا۔۔۔ ہم حساب جانتے ہی نا ہیں۔‘‘
یہ کہہ وہ چلا گیا اور میں شادی کی بات چیت کے سلسلے میں ماہم جانے کے لیے تیار ہونے لگا۔
بات چیت کامیاب رہی۔۔۔ میری شادی ہو گئی۔ حالات بھی بہتر ہو گئے اور میں سکینڈ پیر خان اسٹریٹ کی کھولی سے جس کا کرایہ نو روپے ماہوار تھا کلیئر روڈ کے ایک فلیٹ میں جس کا کرایہ پینتیس روپے ماہوار تھا، اٹھ آیا اور دھوبی کو ماہ بماہ باقاعدگی سے اس کی دھلائیوں کے دام ملنے لگے۔
دھوبی خوش تھا کہ میرے حالات پہلے کی بہ نسبت بہتر ہیں چنانچہ اس نے میری بیوی سے کہا۔ ’’بیگم ساب۔۔۔ ساب کا بھائی ساعید شالیم بالشٹر بہت بڑا آدمی ہوتا۔۔۔ ادھر کولابہ میں رہتا ہوتا۔۔۔ جب گیا تو ہم کو ایک پگڑی، ایک دھوتی، ایک کرتا دیا ہوتا۔۔۔ تمہارا ساب بھی ایک دن بڑا آدمی بنتا ہوا۔‘‘
میں اپنی بیوی کو تصویر والا قصہ سنا چکا تھا اور اس کو یہ بھی بتا چکا تھا کہ مفلسی کے زمانے میں کتنی دریا دلی سے دھوبی نے میرا ساتھ دیا تھا۔۔۔ جب دے دیا، جو دے دیا۔ اس نے کبھی شکایت کی ہی نہ تھی۔۔۔ لیکن میری بیوی کو تھوڑے عرصے کے بعد ہی اس سے یہ شکایت پیدا ہو گئی کہ وہ حساب نہیں کرتا۔ میں نے اس سے کہا۔ ’’چار برس میرا کام کرتا رہا۔۔۔ اس نے کبھی حساب نہیں کیا۔‘‘
جواب یہ ملا۔ ’’حساب کیوں کرتا۔۔۔ ویسے دوگنے چوکنے وصول کر لیتا ہو گا۔‘‘
’’وہ کیسے؟‘‘
’’آپ نہیں جانتے۔۔۔ جن کے گھروں میں بیویاں نہیں ہوتیں ان کو ایسے لوگ بے وقوف بنانا جانتے ہیں۔‘‘
قریب قریب ہر مہینے دھوبی سے میری بیوی کی چخ چخ ہوتی تھی کہ وہ کپڑوں کا حساب الگ اپنے پاس کیوں نہیں رکھتا۔ وہ بڑی سادگی سے صرف اتنا کہہ دیتا۔ ’’بیگم ساب۔۔۔ ہم حساب جانت ناہیں۔ تم جھوٹ ناہیں بولتے گا۔۔۔ ساعید شالیم بالشٹر جو تمہارے ساب کا بھائی ہوتا۔۔۔ ہم ایک برس اس کا کام کیا ہوتا۔۔۔ بیگم ساب بولتا دھوبی تمہارا اتنا پیسہ ہوا۔۔۔ ہم بولتا، ٹھیک ہے!‘‘
ایک مہینے ڈھائی سو کپڑے دھلائی میں گئے۔ میری بیوی نے آزمانے کے لیے اس سے کہا۔ ’’دھوبی اس مہینے ساٹھ کپڑے ہوئے۔‘‘
اس نے کہا۔ ’’ٹھیک ہے۔۔۔ بیگم ساب، تم جھوٹ ناہیں بولے گا۔‘‘
میری بوی نے ساٹھ کپڑوں کے حساب سے جب اس کو دام دیے تو اس نے ماتھے کے ساتھ روپے چھوا کر سلام کیا اور چلا گیا۔
شادی کے دو برس بعد میں دلی چلا گیا۔ ڈیڑھ سال وہاں رہا، پھر واپس بمبئی آ گیا اور ماہم میں رہنے لگا۔ تین مہینے کے دوران میں ہم نے چار دھوبی تبدیل کیے کیونکہ بے حد ایمان اور جھگڑالو تھے۔ ہر دھلائی پر جھگڑا کھڑا ہو جاتا تھا۔ کبھی کپڑے کم نکلتے تھے، کبھی دلائی نہایت ذلیل ہوتی تھی۔ ہمیں اپنا پرانی دھوبی یاد آنے لگا۔ ایک روز جب کہ ہم بالکل بغیر دھوبی کے رہ گئے تھے وہ اچانک آ گیا اور کہنے لگا۔ ساب کو ہم نے تک دن بس میں دیکھا۔۔۔ ہم بولا، ایسا کیسا۔۔۔ ساب تو دلی چلا گیا تھا۔۔۔ ہم نے ادھر بائی کلہ میں تپاس کیا۔ چھاپہ والا بولا، اُدھر ماہم میں تپاس کرو۔۔۔ باجو والی چالی میں ساب کا دوست ہوتا۔۔۔ اس سے پوچھا اور آ گیا۔‘‘
ہم بہت خوش ہوئے اور ہمارے کپڑوں کے دن ہنسی خوشی گزرنے لگے۔
کانگرس برسر اقتدار آئی تو امتناعِ شراب کا حکم نافذ ہو گیا۔ انگریزی شراب ملتی تھی لیکن دیسی شراب کی کشید اور فروخت بالکل بند ہو گئی۔ ننانوے فی صدی دھوبی شراب کے عادی تھے۔۔۔ دن بھر پانی میں رہنے کے بعد شام کو پاؤ آدھ پاؤ شراب ان کی زندگی کا جزو بن چکی تھی۔۔۔ ہمارا دھوبی بیمار ہو گیا۔ اس بیماری کا علاج اس نے اس زہریلی شراب سے کیا جو ناجائز طور پر کشید کر کے چھپے چوری بکتی تھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس کے معدے میں خطرناک گڑ بڑ پیدا ہو گئی جس نے اس کو موت کے دروازے تک پہنچا دیا۔
میں بے حد مصروف تھا۔ صبح چھ بجے گھر سے نکلتا تھا اور رات کو دس ساڑھے دس بجے لوٹتا تھا۔ میری بیوی کو جب اس کی خطرناک بیماری کا علم ہوا تو وہ ٹیکسی لے کر اس کے گھر گئی۔ نوکر اور شوفر کی مدد سے اس کو گاڑی میں بٹھایا اور ڈاکٹر کے پاس لے گئی۔ ڈاکٹر بہت متاثر ہوا چنانچہ اس نے فیس لینے سے انکار کر دیا۔ لیکن میری بیوی نے کہا۔ ’’ڈاکٹر صاحب، آپ سارا ثواب حاصل نہیں کر سکتے۔‘‘
ڈاکٹر مسکرایا۔ ’’تو آدھا آدھا کر لیجیے۔‘‘
ڈاکٹر نے آدھی فیس قبول کر لی۔
دھوبی کا باقاعدہ علاج ہوا۔ معدے کی تکلیف چند انجکشنوں ہی سے دور ہو گئی۔ نقاہت تھی، وہ آہستہ آہستہ مقوی دواؤں کے استعمال سے ختم ہو گئی۔ چند مہینوں کے بعد وہ بالکل ٹھیک ٹھاک تھا اور اٹھتے بیٹھتے ہمیں دعائیں دیتا تھا۔ بھگوان ساب کو ساعید شالیم بالشٹر بنائے۔۔۔ ادھر کولابے میں ساب رہنے کو جائے۔۔۔ باوا لوگ ہیں۔۔۔ بہت بہت پیسہ ہو۔۔۔ بیگم ساب دھوبی کو لینے آیا۔۔۔ موٹر میں۔۔۔ ادھر کِلے (قلعے ) میں بہت بڑے ڈاکٹر کے پاس لے گیا جس کے پاس میم ہوتا۔۔۔ بھگوان بیگم ساب کو خُس رکھے۔۔۔ ‘‘
کئی برس گزر گئے۔ اس دوران میں کئی سیاسی انقلاب آئے۔ دھوبی بلاناغہ اتوار کو آتا رہا۔ اس کی صحت اب بہت اچھی تھی۔ اتنا عرصہ گزرنے پر بھی وہ ہمارا سلوک نہیں بھولا تھا۔ ہمیشہ دعائیں دیتا تھا۔ شراب قطعی طور پر چھوٹ چکی تھی۔ شروع میں وہ کبھی کبھی اسے یاد کیا کرتا تھا۔ پر اب نام تک نہ لیتا تھا۔ سارا دن پانی میں رہنے کے بعد تھکن دور کرنے کے لیے اب اسے دارو کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی تھی۔
حالات بہت زیادہ بگڑ گئے تھے۔ بٹوارہ ہوا تو ہندو مسلم فسادات شروع ہو گئے۔ ہندوؤں کے علاقوں میں مسلمان اور مسلمانوں کے علاقوں میں ہندو دن کی روشنی اور رات کی تاریکی میں ہلاک کیے جانے لگے۔ میری بیوی لاہور چلی گئی۔
جب حالات اور زیادہ خراب ہوئے تو میں نے دھوبی سے کہا۔ ’’دیکھو دھوبی اب تم کام بند کر دو۔۔۔ یہ مسلمانوں کا محلّہ ہے، ایسا نہ ہو کوئی تمہیں مار ڈالے۔‘‘
دھوبی مسکرایا۔ ’’ساب اپن کو کوئی نہیں مارتا۔‘‘
ہمارے محلے میں کئی وارداتیں ہوئیں مگر دھوبی برابر آتا رہا۔
ایک اتوار میں گھر میں بیٹھا اخبار پڑھ رہا تھا۔ کھیلوں کے صفحے پر کرکٹ کے میچوں کا اسکور درج تھا اور پہلے صفحات پر فسادات کے شکار ہندوؤں اور مسلمانوں کے اعداد و شمار۔۔۔ میں ان دونوں کی خوفناک مماثلت پر غور کر رہا تھا کہ دھوبی آ گیا۔ کاپی نکال کر میں نے کپڑوں کی پڑتال شروع کر دی تو دھوبی نے ہنس ہنس کے باتیں شروع کر دیں۔ ساعید شالیم بالشٹر بہت اچھا آدمی ہوتا۔۔۔ یہاں سے جاتا تو ہم کو ایک پگڑی، ایک دھوتی، ایک کرتہ دیا ہوتا۔۔۔ تمہارا بیگم ساب بھی ایک دم اچھا آدمی ہوتا۔۔۔ باہر گام گیا ہے نا؟۔۔۔ اپنے ملک میں؟۔۔۔ ادھر کاگج لکھو تو ہمارا سلام بولو۔۔۔ موٹر لے کر آیا ہماری کھولی میں۔۔۔ ہم کو اتنا جلاب آنا ہوتا۔۔۔ ڈاکٹر نے سوئی لگایا۔۔۔ ایک دم ٹھیک ہو گیا۔۔۔ ادھر کاگج لکھو تو ہمارا سلام بولو۔۔۔ بولو رام کھلاون بولتا ہے، ہم کو بھی کاگج لکھو۔۔۔ ‘‘
میں نے اس کی بات کاٹ کر ذرا تیزی سے کہا۔ ’’دھوبی۔۔۔ دارو شروع کر دی؟‘‘
دھوبی ہنسا ’’دارو؟۔۔۔ دارو کہاں سے ملتی ہے ساب؟‘‘
میں نے اور کچھ کہنا مناسب نہ سمجھا۔ اس نے میلے کپڑوں کی گٹھڑی بنائی اور سلام کر کے چلا گیا۔
چند دنوں میں حالات بہت ہی زیادہ خراب ہو گئے۔ لاہور سے تار پر تار آنے لگے کہ سب کچھ چھوڑو اور جلدی چلے آؤ۔ میں نے ہفتے کے روز ارادہ کر لیا کہ اتوار کو چل دوں گا۔ لیکن مجھے صبح سویرے نکل جانا تھا۔ کپڑے دھوبی کے پاس تھے۔ میں نے سوچا کرفیو سے پہلے پہلے اس کے ہاں جا کر لے آؤں، چنانچہ شام کو وکٹوریہ لے کر مہاکشمی روانہ ہو گیا۔
کرفیو کے وقت میں بھی ایک گھنٹہ باقی تھا۔ اس لیے آمدورفت جاری تھیں۔ ٹریمیں چل رہی تھیں۔ میری وکٹوریہ پل کے پاس پہنچی تو ایک دم شور برپا ہوا۔ لوگ اندھا دھند بھاگنے لگے۔ ایسا معلوم ہوا جیسے سانڈوں کی لڑائی ہو رہی ہے۔۔۔ ہجوم چھدرا ہوا تو دیکھا، دو بھینسوں کے پاس بہت سے دھوبی لاٹھیاں ہاتھ میں لیے ناچ رہے ہیں اور طرح طرح کی آوازیں نکال رہے ہیں۔ مجھے ادھر ہی جانا تھا مگر وکٹوریہ والے نے انکار کر دیا۔ میں نے اس کو کرایہ ادا کیا اور پیدل چل پڑا۔۔۔ جب دھوبیوں کے پاس پہنچا تو وہ مجھے دیکھ کر خاموش ہو گئے۔
میں نے آگے بڑھ کر ایک دھوبی سے پوچھا۔ ’’رام کھلاون کہاں رہتا ہے؟‘‘
ایک دھوبی جس کے ہاتھ میں لاٹھی تھی جھومتا ہوا اس دھوبی کے پاس آیا جس سے میں نے سوال کیا۔ ’’کیا پوچھت ہے؟‘‘
’’پوچھت ہے رام کھلاون کہاں رہتا ہے؟‘‘
شراب سے دھت دھوبی نے قریب قریب میرے اوپر چڑھ کر پوچھا۔ ’’تم کون ہے؟‘‘
’’میں؟۔۔۔ ر ام کھلاون میرا دھوبی ہے۔‘‘
’’رام کھلاون تہار دھوبی ہے۔۔۔ تو کس دھوبی کا بچہ ہے۔‘‘
ایک چلایا۔ ’’ہندو دھوبی یا مسلمین دھوبی کا۔‘‘
تمام دھوبی جو شراب کے نشے میں چور تھے مکے تانتے اور لاٹھیاں گھماتے میرے اردگرد جمع ہو گئے۔ مجھے ان کے صرف ایک سوال کا جواب دینا تھا۔ مسلمان ہوں یا ہندو؟۔۔۔ میں بے حد خوفزدہ ہو گیا۔ بھاگنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ کیونکہ میں ان میں گھرا ہوا تھا۔ نزدیک کوئی پولیس والا بھی نہیں تھا۔ جس کو مدد کیلیے پکارتا۔۔۔ اور کچھ سمجھ میں نہ آیا تو بے جوڑ الفاظ میں ان سے گفتگو شروع کر دی۔ رام کھلاون ہندو ہے۔۔۔ ہم پوچھتا ہے وہ کدھر رہتا ہے۔۔۔ اس کی کھولی کہاں ہے۔۔۔ دس برس سے وہ ہمارا دھوبی ہے۔۔۔ بہت بیمار تھا۔۔۔ ہم نے اس کا علاج کرایا تھا۔۔۔ ہماری بیگم۔۔۔ ہماری میم صاحب یہاں موٹر لے کر آئی تھی۔۔۔ یہاں تک میں نے کہا کہ تو مجھے اپنے اوپر بہت ترس آیا۔ دل ہی دل میں بہت خفیف ہوا کہ انسان اپنی جان بچانے کے لیے کتنی نیچی سطح پر اتر آتا ہے اس احساس نے جرأت پیدا کر دی چنانچہ میں نے ان سے کہا ’’میں مسلمین ہوں۔‘‘
’’مار ڈالو۔۔۔ مار ڈالو‘‘ کا شور بلند ہوا۔
دھوبی جو کہ شراب کے نشے میں دھت تھا ایک طرف دیکھ کر چلایا۔ ’’ٹھہرو۔۔۔ اسے رام کھلاون مارے گا۔‘‘
میں نے پلٹ کر دیکھا۔ رام کھلاون موٹا ڈنڈا ہاتھ میں لیے لڑکھڑا رہا تھا۔ اس نے میری طرف دیکھا اور مسلمانوں کو اپنی زبان میں گالیاں دینا شروع کر دیں۔ ڈنڈا سر تک اٹھا کر گالیاں دیتا ہوا وہ میری طرف بڑھا۔ میں نے تحکمانہ لہجے میں کہا۔ ’’رام کھلاون۔‘‘
رام کھلاون دہاڑا۔ ’’چپ کر بے رام کھلاون کے۔۔۔‘‘
میری آخری امید بھی ڈوب گئی۔ جب وہ میرے قریب آ پہنچا تو میں نے خشک گلے سے ہولے سے کہا۔ ’’مجھے پہچانتے نہیں رام کھلاون؟‘‘
رام کھلاون نے وار کرنے کے لیے ڈنڈا اٹھایا۔۔۔ ایک دم اس کی آنکھیں سکڑیں، پھر پھیلیں، پھر سکڑیں۔ ڈنڈا ہاتھ سے گرا کر اس نے قریب آ کر مجھے غور سے دیکھا اور پکارا۔ ’’ساب!‘‘ پھر وہ اپنے ساتھیوں سے مخاطب ہوا ’’یہ مسلمین نہیں۔۔۔ ساب ہے۔۔۔ بیگم ساب کا ساب۔۔۔ وہ موٹر لے کر آیا تھا۔۔۔ ڈاکٹر کے پاس لے گیا تھا۔۔۔ نے میرا جلاب ٹھیک کیا تھا۔‘‘
رام کھلاون نے اپنے ساتھیوں کو بہت سمجھایا مگر وہ نہ مانے۔۔۔ سب شرابی تھے۔ تُوتُو میں میں شرع ہو گئی۔ کچھ دھوبی رام کھلاون کی طرف ہو گئے اور ہا تھا پائی پر نوبت آ گئی۔ میں نے موقع غنیمت سمجھا اور وہاں سے کھسک گیا۔
دوسرے روز صبح نو بجے کے قریب میرا سامان تیار تھا۔ صرف جہاز کے ٹکٹوں کا انتظار تھا جو ایک دوست بلیک مارکیٹ سے حاصل کرنے گیا تھا۔
میں بہت بے قرار تھا۔ دل میں طرح طرح کے جذبات ابل رہے تھے۔ جی چاہتا تھا کہ جلدی ٹکٹ آ جائیں اور میں بندرگاہ کی طرف چل دوں۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اگر دیر ہو گئی تو میرا فلیٹ مجھے اپنے اندر قید کر لے گا۔
دروازہ پر دستک ہوئی۔ میں نے سوچا ٹکٹ آ گئے۔ دروازہ کھولا تو باہر دھوبی کھڑا تھا۔
’’ساب سلام!‘‘
’’سلام‘‘
’’میں اندر آ جاؤں؟‘‘
’’آؤ‘‘
وہ خاموشی سے اندر داخل ہوا۔ گٹھڑی کھول کر اس نے کپڑے نکال پلنگ پر رکھے۔ دھوتی سے اپنی آنکھیں پونچھیں اور گلو گیر آواز میں کہا۔ ’’آپ جا رہے ہیں ساب؟‘‘
’’ہاں‘‘
اس نے رونا شروع کر دیا۔ ساب، مجھے ماف کر دو۔۔۔ یہ سب دارو کا قصور تھا۔۔۔ اور دارو۔۔۔ دارو آج کل مفت ملتی ہے۔۔۔ سیٹھ لوگ بانٹتا ہے کہ پی کر مسلمین کو مارو۔۔۔ مفت کی دارو کون چھوڑتا ہے ساب۔۔۔ ہم کو ماف کر دو۔۔۔ ہم پئے لا تھا۔۔۔ ساعید شالیم بالشٹر ہمارا بہت مہربان ہوتا۔۔۔ ہم کو ایک پگڑی، ایک دھوتی، ایک کرتا دیا ہوتا۔۔۔ تمہارا بیگم ساب ہمارا جان بچایا ہوتا۔۔۔ جلاب سے ہم مرتا ہوتا۔۔۔ وہ موٹر لے کر آتا۔ ڈاکٹر کے پاس لے جاتا۔ اتنا پیسہ خرچ کرتا۔۔۔ ملک ملک جاتا۔۔۔ بیگم صاب سے مت بولنا۔ رام کھلاون۔۔۔ ‘‘
اس کی آواز گلے میں رُندھ گئی۔ گٹھڑی کی چادر کاندھے پر ڈال کر چلنے لگا تو میں نے روکا ’’ٹھہرو رام کھلاون۔‘‘
لیکن وہ دھوتی کا لانگ سنبھالتا تیزی سے باہر نکل گیا۔
٭٭٭