چونکہ صاحب جی صاحبہ (مہتاب کنور بائی) محل احتشام جنگ رکن الدولہ بہادر کے بطن سے کوئی اولاد نرینہ موجود نہ تھی، اس لیے راج کنور بائی نے چندا بی بی کو صاحب جی صاحبہ کی آغوش فرزندی میں دے دیا اور خود عبادت و خدا طلبی میں مشغول ہوئی۔ اگرچہ میدا بی بی (راج کنور بائی) کا نام بحسب سرنوشت، کسبیوں کی فہرست میں شامل ہو گیا تھا، لیکن والا گہری اور نجابت فطری کے باعث ہمیشہ نجیب پروری اور قدر دانی کرتی رہتی تھی اور مُدام اپنا وقت نماز پنچگانہ، وظائف و اوراد، تسبیح و تہلیل میں گزارتی تھی۔ مشائخین کرام اور علمائے علّام سے کمال اعتقاد تھا۔ آخر اہل سلوک و اہل باطن کی صحبت نے اپنا رنگ جمایا، چنانچہ اکثر کشف باطنی و مراقبہ و تصور میں محنت کرتی اور آخر شب سے یک پہر دن تک وظیفہ میں مشغول رہتی تھی۔ اس درمیان میں کسی سے بات چیت نہ کرتی تھی۔
راج کنور بائی کی فیاضی
اکثر مشائخین و فقرا کو بقدر مراتب اس فیاض عورت نے فی کس ایک ایک ہزار اور بعض اوقات دو دو ہزار روپیہ تک نقد بخشش و تواضع کرتی تھی۔ چنانچہ اس کی فیاضی کی شہرت بہت دور دور تک تمام ہند و دکن میں مشہور ہو گئی تھی۔ بعض اوقات ہندوستان اور اس کے اطراف و اکناف سے قوال کلاونت، گویے بھی آتے تھے جن کو میدا بی بی (راج کنور بائی) کے خوان کرم سے بمقتضائے قدر دانی و نیک نامی دس دس ہزار روپیہ تک نقد اور خلعت ہائے مکلّل و زرّیں دو شالہ ہائے بیش قیمت، زنجیر ہائے فیل، جواہر وغیرہ مرحمت ہوتے تھے۔ بہر حال کوئی سائل اس کے دروازے سے محروم نہیں گیا۔ کچھ نہ کچھ حسب مقدور ہر ایک کو مل ہی جاتا تھا۔
راج کنور بائی کے تصرفات
اب زہد و تقوی کے تصرفات و کمالات ملاحظہ ہوں۔ ایک دفعہ لشکر فیروزی دریائے کشنا سے گنگا کو عبور کر رہا تھا اور دریا نہایت طغیانی پر ہونے کے باعث سوائے ہاتھی کے عبور مشکل تھا۔ چنانچہ تمام محلات و لشکر بمشقت مالا کلام گھوڑے اور ہاتھیوں پر سوار شناوری کرتے ہوئے عبور کر رہے تھے۔ راج کنور بائی حسب معمول پالکی میں سوار تھیں اور پالکی کی سواری میں دریا کا عبور ناممکن تھا۔ لہذا راج کنور بائی نے رکن الدولہ بہادر کو کہلا بھجوایا کہ ہمارے عبور کے لیے ہاتھی روانہ کیا جائے۔ اتفاقاً ہاتھی کے پہنچنے میں ایک گھڑی کی دیر ہو گئی۔ چونکہ راج کنور بائی کا مزاج بہت تیز تھا، اس لیے برآشفتہ ہو کر اپنے ہمراہیوں کی سواری کا رتھ منگا کر سوار ہوئی اور بلا پس و پیش اس دریائے پرجوش و پر خروش میں رتھ کو ڈال دیا۔ حالانکہ دریا کا پانی اس قدر عمیق تھا کہ ہاتھیوں کی گدیاں تر ہوتی تھیں۔ مگر تعجب اور حیرت کا مقام ہے کہ راج کنور بائی کے رتھ کے پایوں سے ایک انچ بھی پانی اونچا نہ ہوا۔ چنانچہ رتھ مع الخیر دریا کے پار ہو گیا۔ اس ماجرائے عجیب و غریب سے نواب رکن الدولہ بہادر کمال متاثر ہوئے۔ گو اس کے آگے بھی راج کنور بائی کی عزت و احترام بلحاظ صاحب جی صاحبہ (مہتاب کنور بائی) کی ماں ہونے کے بہت کچھ کرتے تھے لیکن اس تصرف کے معائنہ سے اور بھی عظمت و بزرگی راج کنور بائی کی آپ کے دل میں جاگزیں ہو گئی۔
اسی قبیل کا ایک اور واقعہ یہ ہے کہ جس زمانہ میں رکن الدولہ بہادر نے قلعہ گوپال پیٹھ کا محاصرہ کیا تھا تو پانی ہر روز علی الاتصال بلا فاصلہ افراط و شدت سے ایسا برستا تھا کہ قلعہ مذکور کی تسخیر لشکریوں کو ناممکن الوقوع ہو گئی تھی۔ چنانچہ اس موقع پر رکن الدولہ نے راج کنور بھائی کو کہلا بھیجا کہ بارش کی زیادتی سے قلعہ کی تسخیر دشوار ہو گئی ہے۔ چونکہ آپ شاغل و کا سب ہیں، لہذا دعا کیجیے کہ بارش میں تخفیف ہو۔ اس پیام کے سنتے ہی راج کنور بائی نے اول تو عجز و انکساری کے ساتھ عذر کیا اور بعد میں کہا کہ اچھا جاؤ رکن الدولہ بہادر کو مژدہ دو کہ آئندہ پروردگار عالم کی قدرت کاملہ سے ہر روز صبح سے تین بجے تک مطلع صاف رہے گا اور مطلق بارش نہ ہو گی؛ اس عرصہ میں قلعہ گیری کا سامان کر لیا جائے۔ چنانچہ اس کے بعد حسب قول راج کنور بائی بارش نے صبح سے تین بجے تک برابر فرصت دی اور بہ فضل فتاح حقیقی قلعہ فتح ہو گیا۔
اسی طرح اور بہت سے خرق عادات اور تصرفات اس خجستہ صفات سے اکثر ظاہر ہوئے ہیں جو بلحاظ طوالت نظر انداز کیے جاتے ہیں۔
راج کنور بائی کا انتقال
افسوس ہے کہ یہ عفیفۂ دوراں، خجستہ خصال، عابدہ و زاہدہ کلمہ گویاں، شاداں و فرحاں 19؍ محرم الحرام کو راہی روضۂ رضوان ہوئی اور اپنے حسن نیت کے باعث کوہ فلک شکوہ مرتضوی علیہ السلام کے پائیں باغ میں دفن کی گئی۔ چنانچہ ہر سال ماہ لقا بائی نہایت تکلف و اہتمام سے عرس کرتی تھیں اور عرس کےموقع پر کمال تجمل و احتشام رہتا تھا۔ ہزار ہا مساکین و فقرا دو وقتہ بریانی اور زردہ کھاتے تھے۔ کلام مجید کا ختم ہوتا، چراغوں کی روشنی بکثرت ہوتی۔ ناچ رنگ کا بھی عمدہ تھاٹ رہتا تھا۔ مشاعروں کی بھی ترتیب ہوتی تھی۔
الحاصل چندا بی بی (ماہ لقا بائی) صاحب بی صاحبہ کی آغوش محبت میں بہت کچھ ناز و نعم سے پرورش پائی اور ہر ایک علم و فن میں کمال حاصل کیا۔ علم موسیقی میں یکتائے روزگار تھی۔ چہرہ سے امارت کے آثار ہویدا تھے۔ امرائے نامدار اور بارگاہ شاہی میں ہمیشہ باریابی کا فخر حاصل رہتا تھا۔ کوئی مجلس بزم و طرب کی ایسی نہیں ہوتی تھی کہ جس میں ماہ لقا بائی شریک نہ ہوتی ہو۔ بندگان حضرت کے الطاف و عنایات بے حد مبذول رہتے تھے اور اکثر سیر و شکار و مہمات میں بھی ماہ لقا بائی کی یاد ہوا کرتی تھی۔ چنانچہ 1196ھ میں سفر کولاس اور 1197ھ میں تسخیر قلعہ نرمل اور 1217ھ میں مہم قلعہ پانگل میں یہ پری پیکر ہاتھی پر سوار حضرت غفران مآب کے ہمراہ رکاب تھی۔