(Last Updated On: )
شادی کی رونقیں اپنے عروج پر تھیں جب دلہن بنی عجوہ کو اشہاب کے برابر سٹیج پر لا کر بٹھایا گیا کھلتے لال رنگ کے عروسی جوڑے میں عجوہ پرستان کی پری لگ رہی تھی اور بلیک پینٹ کوٹ میں اشہاب بھی کسی سلطنت کا شہزادہ ہی تو لگ رہا تھا حبیبہ صاحبہ تو جوڑی کی نظر اتارتے نہیں تھک رہی تھیں اشہاب نے بھی اک چور نظر سے عجوہ کو دیکھا تو دل نظر ہٹانے سے انکاری ہو گیا پر اتنی بِھیڑ میں اشہاب زیادہ دیر عجوہ کو دیکھ بھی نہیں سکتا تھا نہیں تو سب کزنز نے چھیڑ چھاڑ شروع کر دینی تھی مجبورًا اشہاب نے مچلے دل کو سمجھا بجھا کر نظر ہٹائی عجوہ سے ۔
مہمانوں نے گفٹس دینے شروع کئے تو سب گفٹس اشہاب نے ہی پکڑے آخری گفٹ ہال کے گارڈ نے اشہاب کو پکڑایا اور بتایا کہ کوئی ہال کے گیٹ پر میڈم کے لئے دے گیا ہے اشہاب کو یہ بات تھوڑی عجیب لگی تو نہ چاہتے ہوئے بھی اس کارڈ کو کھول کر دیکھنے لگا جس پر صدا خوش رہنے کی دعاء لکھی تھی گفٹ کھولا تو اس میں شیشے کا بنا تاج محل تھا اشہاب کو نہ چاہتے ہوئے بھی اس انجان مہمان سے جلن ہوئی اور اپنے غصے پر قابو کرتا وہ ہال سے باہر آگیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رخصتی کا وقت تھا اور دلہا ہال سے غائب تھا سماویہ نے بیٹے کو کال کی تو اس نے ضروری کام آگیا کہہ کر کال کاٹ دی مجبوری میں سب سے معذرت کرتی سماویہ اپنی فیملی کے ساتھ اکیلی ہی عجوہ کو رخصت کروا کے لے آئیں سب کو اشہاب کا اچانک غائب ہونا عجیب تو لگا پر سب اشہاب کو جانتے تھے کہ کتنا اچھا لڑکا ہے اس لئے سب نے مان بھی لیا کہ کچھ بہت ضروری کام ہی ہوگا جو وہ اپنی شادی سے اٹھ کر گیا ہے اسی لئے کسی نے کوئی خاص اعتراض نہیں کیا یوں عجوہ رخصت ہو کر اشہاب کے گھر آگئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اپنے گھر سے نکلا تھا اپنی منہ بھولی بہن کی شادی میں تحفہ دینے کے لئے اور جیسے ہی گارڈ کو تحفہ پکڑا کر وہ واپسی کے لئے مڑا تو سامنے اک آدمی کی ٹرک سے ٹکر ہوتی دیکھ کر اس طرف کو بھاگا پر جب تک وہ وہاں پہنچتا ٹرک والا فرار ہو چکا تھا اور وہ انسان بری طرح زخمی حالت میں سڑک کے بیچ و بیچ پڑا تھا سردیوں کی رات ہونے کی وجہ سے ٹریفک بھی بہت کم تھی اس لئے دور دور تک مدد کرنے والا کوئی نہ تھا ۔وہ فورًا آگے بڑھا اور اس آدمی کی نبض دیکھی جو چل رہی تھی تب اس نے فوری ایمبولینس کو کال کی اور اسے لے کر ہسپتال پہنچا۔
ہسپتال پہنچ کر پتہ چلا کہ اس شخص کا بلڈ گروپ او نیگٹیو ہے اس نے زندگی میں پہلی بار اپنا بلڈ ٹیسٹ کروایا تو پتہ چلا کہ اس کا بلڈ گروپ بھی او نیگیٹو ہے اس نے اسی وقت اس انسان کو اپنا بلڈ دیا اور آپریشن تھیٹر کے باہر بیٹھا ساری رات اس انجان انسان کی زندگی کی دعائیں مانگتا رہا ۔تہجد کے قریب ڈاکٹر آپریشن تھیٹر سے باہر آیا اور بتایا کے بہت کوشش کی بعد اس زخمی شخص کو بچا لیا گیا ہے ۔اس انجان انسان کے بچ جانے کی اسے اتنی خوشی ہوئی کہ وہ اسی وقت شکرانے کے نوافل ادا کرنے چل دیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ یونہی ساری رات گاڑی سڑکوں پر دوڑاتا رہا بار بار اس کے ذہن میں وہ بات آرہی تھی کہ عجوہ ضد کر کے اکیلی کسی دوست سے ملنے گئی ہے حالانکہ اس کی کوئی خاص دوست تھی ہی نہیں جس کی خاطر وہ گھر کی رسم توڑ کہ جاتی اور آج کسی کا یوں چھپ کر تحفہ دے کر جانا اشہاب کو بے چین کئے دے رہا تھا وہ جانتا تھا کہ عجوہ اک نیک سیرت لڑکی ہے پھر بھی ان سب باتوں کے بعد اس کے اندر کا روایتی مرد جاگ گیا تھا اور وہ نہ چاہتے ہوئے بھی عجوہ پر شک کر رہا تھا۔ ساری رات سڑکوں پر بنا مقصد گاڑی گھما کر جب وہ گھر پہنچا تو تھوڑا جھجکتے ہوئے اپنے کمرے میں داخل ہوا اور جیسے ہی اس کی نظر دائیں طرف جائے نماز پر بیٹھی عجوہ پر پڑی تو اسے اپنی سوچ پر تھوڑی شرمندگی ہوئی کہ وہ اپنی نیک سیرت بیوی کے بارے میں کیوں بد گمان ہو رہا تھا اور وہ ادھر اپنے رب کو سجدہ کر رہی تھی وہ یوں ہی بیٹھا کتنی ہی دیر عجوہ کو دیکھتا رہا جب تک عجوہ نے سلام پھیر کر دعاء نہیں مانگ لی۔
اشہاب شرمندہ تھا کہ اس نے اپنی معصوم سی بیوی پے شک کیوں کیا اس لئے اب وہ عجوہ کو خوش رکھنے کی ہر ممکن کوشش کررہا تھا کبھی اس کی پسند کی کوئی چیز لا کر اس کو خوش کرنے کی کوشش کرتا تو کبھی کوئی آج بھی کمرے میں ہر طرف پھول ہی پھول بکھیر کر وہ خوش خوش سا عجوہ کا کمرے میں آنے کا انتظار کر رہا تھا کیوں کہ عجوہ کو پھول بہت پسند تھے
کافی دیر اتنظار کے بعد تنگ آ کر اشہاب خود ہی عجوہ کو دیکھنے کچن میں چل پڑا کیوں کہ گھر کی ملازمہ نے بتایا تھا کہ وہ کچن میں کھانا بنا رہی ہے ۔وہ کمرے سے نکل کر سیدھا کچن میں آیا تو دیکھا کچن خالی تھا ایسے ہی اس نے پورا گھر چھان مارا پر عجوہ اسے کہیں نہ ملی تنگ آکر اشہاب اپنی ماما کے کمرے میں پوچھنے گیا تو ان سے پتہ چلا کہ عجوہ کسی سہیلی سے ملنے کا بول کر شام سے گھر سے گئی ہے اور اب تو 9 بجنے والے تھے اور عجوہ ابھی تک نہیں لوٹی تھی
اشہاب جو یہ سوچ رہا تھا کہ اسنے عجوہ پر شک کر کے غلط کیا اب تو اسے یقین ہو چلا تھا کہ دال میں کچھ تو کالا ہے وہ غصے میں گھر سے باہر نکلا تو دیر رات کو ہی لوٹا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تہجد کے نوافل ادا کرکے وہ لوٹا تو نرس نے بتایا کہ پیشنٹ کو ہوش آگیا ہے وہ خوشی سے اندر کی جانب بڑھا اندر جا کہ اس نے سلام لیا تو اس شخص نے مسکرا کر ہلکا سا سر ہلا دیا بولنا ابھی اس کے بس کی بات نہیں تھی کیونکہ ان کا سارا جسم پٹیوں میں جکڑا تھا ان کے چہرے سے لگ رہا تھا کہ وہ اس کے شکر گزار ہیں ۔نرس نے سمیر رحمان کا موبائل اس کو دیا جس میں سے اس نے ان کے گھر کا نمبر لیا اور ان کو سمیر رحمان کے ایکسیڈنٹ کی خبر دی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ انہیں تنگ گلیوں سے گزرتی ہوئی اس کے گھر پہنچی تو دیکھا کہ اس کے گھر کے باہر بڑا سا تالا لگا ہے ۔ارے یہ بھائی کدھر گئے ۔چلو یہیں بیٹھ کر انتظار کر لیتی ہوں وہ کافی دیر وہاں بیٹھی رہی پر جب اتنے گھنٹے بعد بھی وہ واپس نہ آیا تو وہ پریشان ہوئی کہ اشہاب آفس سے لوٹ آئے ہوں گے میں کب سے گھر سے باہر چلو پھر کبھی مل لوں گی بھائی سے ابھی گھر جانا چاہیے یہ سوچ کر اس نے واپسی کی راہ لی ۔
گھر پہنچی تو سب رات کا کھانا کھا کر اپنے اپنے کمروں میں جا چکے تھے سماویہ صاحبہ کے گھر ویسے بھی سب جلدی رات کا کھا نا کھا لیتے تھے ۔عجوہ کمرے میں گئی تو اشہاب کہیں بھی نظر نہ آیا تو اس نے ملازمہ سے پوچھا اشہاب کہاں ہے تو ملازمہ نے بتایا کہ وہ گھر آنے کی کچھ دیر بعد ہی باہر چلا گیا تھا عجوہ واپس کمرے میں آئی تو اس نے کمرے کو غور سے دیکھا ہر طرف پھول ہی پھول بکھرے تھے وہ اشہاب اس سرپرائز پر بہت خوش ہوئی اوووو تو میرے ہیرو نے میرے لئے اتنا کچھ کیا تو اب میرا بھی کچھ کرنا بنتا ہے عجوہ نے یہ سوچ کر اپنی ساس کی دی ہوئی لال ساڑھی نکالی اور پہن کر خوب دل سے تیار ہوئی اس نے زندگی میں کبھی ساڑھی نہیں پہنی تھی کیونکہ وہ حجاب کرتی تھی آج پہلی بار اپنے شوہر کے لئے اس نے اتنی تیاری کی تھی نہیں تو وہ اک سادہ سی لڑکی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شہیر رحمان اور حارث بھاگتےہوئے ہسپتال کے اندر آئے تو سب سے پہلے اس مسیحا سے ٹکرائے جس نے ان کے بھائی کو بروقت ہسپتال پہنچا کر ان کی جان بچائی تھی ارے سوری بیٹا آپ کو لگی تو نہیں؟؟؟ نہیں میں ٹھیک ہوں اس نے مسکرا کر کہا اور آگے بڑھ گیا اور وہ لوگ پرائویٹ روم میں داخل ہو گئے جہاں سمہر رحمان کو رکھا گیا تھا وہ باہر کھڑا دیکھ رہا تھا اس لئے سمجھ گیا کہ یہ اسی زخمی شخص کی فیملی میمبر ہیں اس لئے خاموشی سے واپس گھر کی جانب چل دیا کیونکہ اسے اپنی ناظرہ پڑھانے والی رخصانہ خالہ کی اک بات آج بھی یاد تھی کہ بیٹا نیکی کر دریا میں ڈال ۔۔۔اور اگر نیکی کر کے اس کی واہ واہی ہی لینی ہو تو نیکی کا کوئی فائدہ نہیں اسی لئے وہ چپ چاپ اپنے گھر کی جانب چل دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شادی کی پہلی رات کی طرح ساری رات سڑکوں پر مارا مارا پھرنے کے بعد اشہاب جب واپس لوٹا تب تک عجوہ انتظار کرتے کرتے بھوکی ہی سو گئی تھی ۔اشہاب کمرے میں داخل ہوا تو سامنے کا منظر دیکھ کر دنگ رہ گیا کیونکہ سامنے بیڈ پر کھلے بالوں مین نکھری نکھری عجوہ لال ساڑھی میں سو رہی تھی ۔اشہاب کا دماغ چونکہ منفی سوچیں سوچ رہا تھا اس لئے اس نے یہ نہیں سوچا کہ یہ سب اس کی بیوی نے اس کے لئے کیا ہے الٹا اسکا شک یقین میں بدل گیا کہ عجوہ کسی اور کو پسند کرتی ہے اور چھپ چھپ کر اتنا تیار ہو کر اسی سے ملتی ہے ۔عجوہ جو کھٹ کھٹ کی آواز سے اٹھ گئی تھی اشہاب کو دیکھ کر مسکرا دی ۔
اشہاب کھانا لاؤں آپ کے لئے ؟؟؟ آپ کے انتظار میں ,میں نے بھی نہیں کھایا کھانا اس نے معصومیت سے کہا ۔
عجوہ کے بولنے کی دیر تھی کہ اشہاب پھٹ پڑا ارے واہ جس سے چھپ چھپ کہ ملتی ہو اسی کے ساتھ کھانا بھی کھا لیتی میرے لئے کیوں رہی بھوکی ہاں
عجوہ جس نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ اشہاب اس پر اتنا گندا الزام لگائے گا اشہاب کے منہ سے ایسے الفاظ سن کے دنگ رہ گئی
عجوہ کو اشہاب کی بات نے ایسی چوٹ پہنچائی کہ اپنی صفائی دینا تو دور اس نے اس سے بات تک کرنا بند کردی یوں نئے بیاہے جوڑے کے بیچ ملن سے پہلے ہی دوری آگئی
ریت سے بت نا بنا اے میرے اچھے فنکار
اک لمحے کو ٹھہر میں تجھے پتھر لادوں
میں تیرے سامنے انبار لگا دوں لیکن
کونسے رنگ کا پتھر تیرے کام آئے گا ؟؟؟
سُرخ پتھر ؟؟؟جسے تِل کہتی ہے
بے دِل دنیا ۔۔۔۔
یا وہ پتھرائی ہوئی آنکھ کا نیلا پتھر
جس میں صدیوں کے تخیل کے پڑے ہوں ڈورے
یا تجھے روح کے پتھر کی ضرورت ہوگی
جس پر حق بات بھی پتھر کی طرح گِرتی ہے
اِک انصاف کا پتھر بھی تو ہوتا ہے نہ
ہاتھ میں تیشہء ذر ہو تو وہ ہاتھ آتا ہے
جتنے معیار ہیں اس دور کے سب پتھر ہیں
شہر بھی رقص بھی تصویر و غناء بھی پتھر
اس زمانے میں ہر فن کا نشاں پتھر ہے
ریت سے بت نا بنا اے میرے اچھے فنکار
اک لمحے کوٹھہر میں تجھے پتھر لادوں
ریت سے بت نا بنا اے میرے اچھے فنکار
ریت سے بت نا بنا اے میرے اچھے فنکار۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارے واہ بھائی آپ تو کمال کی شاعری کرتے ہیں عجوہ جو اس سے ملنے آئی تھی دروازہ کھلا دیکھ کر اندر آگئی تھی اور چپ چاپ اس کے پیچھے کھڑی اس شعر کہتا سن رہی تھی۔
ہا ہا ہا یہ میری شاعری نہیں کسی اور کی ہے میں تو اک بار اک کتاب میں پڑھا تھا بس پھر یاد رہ گئی اور اکثر اکیلا بیٹھ کر اداسی کے لمحوں میں یہی بول پڑھ کے خود کو تسلی دے لیتا ہوں ۔
اداس کیوں ہوتے ہیں ؟؟؟ عجوہ نے سوال کیا
بس زندگی بہت سے دکھ تحفے میں دیتی ہے کیا کیا پوچھو گی کیا کیا بتاؤں ؟؟؟
سب کچھ اگر بہن سمجھتے ہیں تو سب کچھ بتا دیں عجوہ نے افسردہ لہجے میں کہا
میری داستان سننے کے لئے بہت حوصلہ چاہیے
اس نے جھکے سر کے ساتھ کہا ۔
آپ بس بولیں میں سن رہی ہوں عجوہ نے ہمت سے کہا ۔
میں نہیں جانتا میں کس باپ کی اولاد ہوں اور کس ماں کی کوکھ میں 9 ماہ سانس لیتا رہا ہوں پر اتنا پتہ ہے کہ جب میں نے ہوش سنبھالی اور میں 5 سال کا ہوا تو پنکی خالہ کی گود کی گرمی ملی اور انہیں کو ماں سمجھنے لگا۔
ہمارا گھر کرائے کا تھا پنکی خالہ زویا خالہ اور گرو جی اکثر شام کے وقت چمکیلے کپڑوں میں تیار ہو کر کہیں جاتے تھے میں پوچھتا تو پنکی خالہ کہتی دعاء ہے جیسے ہم در بدر دو روٹیوں کے لئے پھرتے ہیں تم کبھی نہ پھرو ۔ہماری گلی میں ہی کچھ گھر چھوڑ کے باجی رخصانہ رہتی تھیں جو سب گلی کے بچوں کو ناظرہ کرواتی تھیں ۔پنکی خالہ نے مجھے ان کے پاس شام کے وقت سپارہ پڑھنے ڈال دیا میرا دماغ بہت اچھا تھا اس لئے دو سال میں ناظرہ کے ساتھ ساتھ حافظِ قُرآن بھی بن گیا ۔
تھوڑا بڑا ہوا تو مجھے اک بار گرو جی کے کہنے پر وہیں لے گئے جہاں اکثر شام کو سب تیار ہو کر جاتے تھے وہاں جا کر مجھے بہت ذہنی تکلیف کا سامنا ہوا کیونکہ پنکی خالہ زویا خالہ اور سب وہاں کسی کی شادی میں ناچ کر پیسے اکٹھے کر رہے تھے اور لوگ ان کو ایسے دیکھ رہے تھے جیسے کوئی تماشا ہو ۔اس دن گرو جی نے گھر آکر بتایا کہ اب سے مجھے بھی ان کے ساتھ جانا ہوگا اور اسی طرح ہی پیسے کما سکتے ہیں ہم جیسے لوگ میں نے جب کہا کہ میں پڑھ لکھ کے کچھ بن کہ کما لوں گا جیسے سب لوگ کماتے ہیں تو گرو جی نے مجھے میری زندگی کی اس تلخ حقیقت کے بارے میں بتایا جس سے میں لاعلم تھا۔میرے تو پیروں کے نیچے سے زمین نکل گئی اپنی زندگی کی حقیقت سن کے جب میں نے اپنے ماں باپ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ میرے بابا نے مجھے ان کے سپرد کر کے کہا تھا دوبارہ کبھی اس کی شکل نہ دکھے نہ کسی کو پتہ چلے کہ میں ان کی اولاد ہوں وہ سب باتیں مجھے اندر تک توڑ گئیں میں جیتے جی مر گیا یہ سن کے کہ میرے اپنے بابا نے بولا تھا کہ وہ میری شکل نہیں دیکھنا چاہتے کبھی۔
خیر ساری رات روتے ہوئے گزری تو تہجد کے وقت پنکی خالہ نے میرا ہاتھ پکڑا اور چپ رہنے کا اشارہ کر کے اپنے ساتھ خالہ رخصانہ کے گھر تک لے آئیں دروازہ کھکھٹایا تو رخصانہ خالہ نے دروازہ کھول دیا پنکی خالہ نے ان سے الگ کمرے میں جا کر کچھ بات کی اور مجھے ان کے حوالے کر کے جاتے ہوئے بولی بیٹا میں نے تجھے آزادی دینے کے لئے جانے کتنوں سے دشمنی لی ہے بس اب تو اپنی زندگی اللّہ پاک کا شکر کرتے اور اسکی عبادت کرتے گزارنا آج سے رخصانہ باجی ہی تیری ماں ہے ۔
رخصانہ خالہ کے ماں باپ فوت ہو چکے تھے محنت کر کے چھوٹے بہن بھائیوں کو پڑھاتے اور شادی کرتے ان کی اپنی شادی کی عمر گزر گئی اور خود غرض بہن بھائی اپنے پیروں پے کھڑے ہو کر بڑی بہن کو اکیلا چھوڑ گئے اور جب پنکی خالہ نے میری کفالت ان کو دی تو اس لئے بھی انہوں نے ہنسی خوشی مجھے گود لے لیا کیونکہ وہ خود بھی دنیا میں اکیلی رہ گئیں تھیں وہ مجھے لے کر وہاں سے دور آگئیں اور وہیں ہم رہنے لگے وہ دن میں سکول پڑھانے جاتی اور رات میں مجھے پڑھاتیں اس طرح میں کچھ پڑھ لکھ گیا۔
کچھ سال پہلے ان کا انتقال ہو گیا اور میں اک بار پھر اکیلا رہ گیا اس بے درد دنیا میں ۔
آپ اکیلے نہیں میں ہوں نہ آپکی بہن عجوہ نے بمشکل اپنے آنسو پونچھ کر کہا ۔ جانے کیوں ہر بار وہ انجان شخص اسے اپنا اپنا سا لگتا تھا۔
عجوہ کی بات سن کر وہ پھیکی سی ہنسی ہنس دیا ۔
آپ کو پتہ ہے عجوہ میں آج تک ہر نماز کے بعد ہر لمحہ ہر پل کیا دعاء مانگی ہے
کیا ؟؟؟ عجوہ نے پوچھا
یہی کہ اللّہ مجھے بہت لمبی زندگی نہیں چاہیے بس اس دن تک سانسیں دینا جب تک میرے بابا میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہیں خوش رہو اور ماں سر پر پیار دے کر دعائیں دے بس تب تک جینے کی خواہش ہے پھر بھلے ہی سجدے کی حالت میں ملکُ الموت روح نکال لے ۔
عجوہ کے اس کی بات پر آنسو بہہ نکلے
بھائی آپ نے کبھی اپنا نام نہیں بتایا ۔۔۔
مجھے پنکی خالہ سونو کہتی تھیں اور رخصانہ خالہ چاند آپ جو کہنا چاہو کہہ لو بہنا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔