سلیم شہزاد (انڈیا)
بیسویں صدی کی ساتویں دہائی میں ادبی افق پر طلوع ہونے والے جدید افسانے کو صنفی ،لسانی ،تکنیکی اور اظہاری جہات سے آشنا کرانے والے فنکاروں میں حمید سہروردی کا نام اپنی ایک انفرادی شناخت رکھتا ہے ۔’’ریت ریت لفظ ‘‘،’’عقب کا دروازہ ‘‘اور’’بے منظری کا منظر نامہ ‘‘جیسے افسانوی مجموعوں کی اشاعت سے انھوں نے نہ صرف اس صنف کی قدرو منزلت بڑھائی ہے بلکہ اپنے منفر د اسلوب ،فنی برتاؤاور بیانیہ میں روایت و جدت کے امتزاج سے جدید افسانوی روایت کو تازہ کا رفکروفن کی آئینہ دار ہونے کی مثال بھی بنادیا ہے ۔جدیدیت کے موضوعات ، انھیں فن میں برتنے کے طریقے اور ان کا فکری اور فلسفیانہ اظہار اپنے مخصوص رنگوں میں حمید سہروردی کے افسانوں کا وصف بنا ہواہے ۔افسانے کے روایتی تصورات کو توڑ کر واقع کے زبان و مکاں سے گزر جانے کی سعی جدید افسانے کا اہم وصف رہی ہے ۔اس ذیل میں صنفی تقاضوں اور زبان و بیان کے قواعد سے انحراف اور بیانیہ کے مختلف زاویوں کی یکجائی یا ان کا انتشار وغیر ہ جدیدافسانے کو ماضی کی سکہ بندی روایت سے الگ کرنے والے عوامل کی طرح ابھرے۔
حمید سہروردی کے افسانوں کا لسانی برتاؤ،نظم و نثر کی حد بندیوں کو توڑ کر داستانی اسلوب میں خیال کے مختلف پہلوؤں کو ایک مرکزی نقطے سے ملانے کے متراد ف ہے ان کا افسانہ کثیر جہت بیان کی مثال ہے کہ جہاں سمندر کی لہریں ساحلوں سے ٹکرارہی ہیں ،وہیں منظر کا حصہ ایک میدان بھی ہے جس میں خو د رو پودے لہک لہک کر ایک دوسرے سے کچھ کہہ رہے ہیں ۔ابھی آسمان میں بے رنگ شکلوں میں ایک دھندلی سی شبیہ نظر آرہی ہے اور ابھی بے چین جانور شانتی کے متلاشی نظر آرہے ہیں ۔
بیان جو متعدد لسانی تعملات سے افسانے کی بی کات تشکیل دیتا ہے ۔
حمید سہروردی کے افسانوں میں نثر کے ایک نقطے پر ٹھہرے نہ رہتے ہوئے شعریت اور نظم کی طرف بھی لپکتا رہتا ہے ۔اسی پر بس نہ کرتے ہوئے حمید سہروردی کا بیان نثر کی خارج اور ظاہری ہیئت سے دامن چھڑا کر نظم کی خارجی شکل بھی اختیا رکرلیتا اور اسی طرح افسانے کا خیال اپنی کثیر رنگی میں منظروں سے ڈوبتی اُبھرتی ایک کہانی میں بدل جاتا ہے ۔
حمید سہروردی کی پہلی کتاب ’’ریت ریت لفظ ‘‘میں شامل ’’منظروں سے ڈوبتی اُبھرتی کہانی ‘‘کبھی کے زمانے کی ایک تجریدی علامتی تمثیلی وغیر ہ وغیرہ کہانی ہے ۔سمندر ،میدان ،پہاڑ ،صحرا،سراب ،ندی ،تالاب اور دلدل وغیرہ اس کہانی کے کردار ہیں (یہ اسماے مکانی کو باشعور کرداروں میں تحویل کرنے کی عمدہ مثا ل ہے )ان سب کی بہت کچھ علامتی معنویتیں ہوسکتی ہیں لیکن اب وقت گزرچکا یا پانی سر سے اونچا ہوچکا ہے کہ ان علامتوں کی پرتوں میں جھانک کر گہر ہاے معنی تلاش کیے جائیں ۔اس کہانی کی مجموعی معنویت یہ ہے کہ سمندر اپنی راہ میں آنے والی ہر شئے کو ،ہر وجود کو نگل جاتا ہے ۔اسے تصوف کی رو سے جز و کل کی وحدت بھی قرار دیا جاسکتا ہے لیکن یہ وحدت بیک لمحہ واقع نہیں ہوتی ۔اس وقوع کے ساتھ تالاب ندی سے ملنا چاہتا ہے جس کے بظاہر روایتی رومانی بیان کو حمید سہروردی نے اس کہانی کا منظر یوں بنایا ہے :
’’ندی سے تالاب نے بڑی لجاجت سے کہا ،’’میں کسی صحرا کی اڑتی ہوئی ریت کا ایک سراب ہوں ۔تم اپنے لب کھولو اور میرے قریب آجاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تم مجھ میں سماجاؤ۔میں تمھاری پھیلی ہوئی وادی ِحسن میں خود کو پہچان لینا چاہتا ہوں ۔۔۔۔
غرورِحسن کی مانی ہوئی ندی کا جواب ایک نظم کی صورت میں نمود کرتا ہے :
میں ہوں آپ اپنی پہچان
کہاں تو اور کہاں میں
۔۔۔۔۔میں صاف اور شفاف پانی سے نتھری ہوئی
تبھی کہانی سے ایک نیا منظر یوں اُبھرتا ہے کہ
سمندر چنگھاڑتا ہوااپنے ساحلوں کو توڑ کر دلدل ،ندی اور تالاب کی طرف بڑھنے لگا۔۔۔
کئی مناظر اُبھرے اور ڈوبے اور بالآخر سمندر نے اپنی راہ میں آنے والے ہر وجود کو نگل لیا اور تمام مناظر ڈوبتے چلے گئے ۔
یہاں کہانی کے مناظر کا ڈوبنا ابھرنا بیان میں لسانی تعملات کی تکرار سے متعدد حرکی پیکروں کی تشکیل کرتا ہے ۔کہانی پر ابہام کی پُراسرار دھند بھی چھائی ہوئی ہے جو داستانی جمالیات کا ایک اہم حصہ ہے اور حمید سہروردی کے افسانوی بیان کو جدیدیت اور جدت کے ساتھ روایت اور قدامت سے بھی مربوط کرتی ہے ۔
’’عقب کادروازہ ‘‘(افسانہ نگار موصوف کا دوسرامجموعہ )میں شامل ’’وہ ایک کہانی ‘‘بھی ’’منظروں سے ڈوبتی اُبھرتی کہانی ‘‘ہے جس کی ابتداء کہانی کار کو کہانی لکھنے کی مختلف ہدایات سے ہوتی ہے :
’’ایک صاف کاغذ لو ۔ایک ایسا پین لو جس میں سیاہی کے آخری قطرے جی رہے ہوں ۔ لکھو ایک کہانی ۔۔۔کچھ اس طرح لکھو کہ تمھاری کہانی ہم سب کی کہانی بن جائے ۔‘‘
اسی لیے مذکورہ افسانوی مجموعے کے پیش لفظ میں ڈاکٹر ارتکاز افضل نے کہا ہے کہ
افسانہ حمید سہروردی کے لیے ایک ایسا میڈیم ہے جس کے ذریعے وہ ذات کے وسیلے سے کائنات کی دریافت کرتا ہے ۔۔۔۔وہ زندگی کو مختلف ابعاد میں دیکھنے اور برتنے کا قائل ہے ۔۔۔زندگی کی ہرواردات اس کے لیے ایک کہانی پن رکھتی ہے ۔
وغیرہ وغیرہ باتوں سے قطع نظر جب ہدایت دینے والوں کی باتوں میں اگر حمید سہروردی کہانی سناتے ہیں (اور یہ ھدایت دینے والا افسانہ نگار کے ضمیر متکلم کے سو ا کوئی اور نہیں )تو کچھ ایسی کہانیاں جنم لیتی ہیں :
۱۔ایک درخت تھا ۔درخت کے نیچے ایک آدمی خاموش بیٹھا ایک لمبی کہانی سوچ رہاتھا۔
۲۔ایک غار تھا ۔غار میں گھپ اندھیرا تھا۔۔شاید وہاں ایک سانپ بھی تھا۔
۳۔ایک کہانی سقراط کی ہے جو کہانی لکھتا نہیں سناتا ہے ۔آخر اس نے زہر پی لیا اور ایک نئی کہانی پیدا ہوئی ۔
۴۔ہاں تو ایک مرتبہ ایک آدمی دنیا میں آیا ۔
۵۔ہاں ،تو کچھ یوں ہوا۔۔۔۔
۶۔تو سنو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ نصف درجن جملے اور فقرے پھانسی کے تختے ،ہجرت کے مسئلے اور غارنشینی وغیرہ کی کہانیوں سے جڑے ہوئے ہیں اور حمید سہروردی نامی فنکار ہر کہانی بڑے انہماک سے سنارہاہے ،ویسے اس کے سامعین کی رائے یہ بھی ہے کہ
’’تم بکواس کررہے ہو،کہانی سناؤ‘‘
تب فنکار یوں گویا ہوتا ہے کہ
’’میری طرف دیکھو۔کیا دیکھ رہے ہو؟دنیا کی سب سے بڑی کہانی !‘‘
کہانی کا ہدایت کا ر اور کہانی کہنے سنانے والا آپ ہی کہانی بھی ہوتو اس نقطے سے حمید سہروردی معاشرہ ،معاشرے کا فرد اور معاشرے سےُاگتی کہانی آپ بن جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’ریت ریت لفظ ‘‘کے پیش لفظ میں مہدی جعفر نے لکھا ہے :
’’حمید سہروردی کا طریقہ پرانی قدروں کے کھنڈروں میں رہتے ہوئے نئی تعمیر کا خواب دیکھنا ۔۔وہ اپنے اسلوب میں بھی قدیم طرز کو منقلب کرکے تو تعمیری سلسلہ شروع کردیتے ہیں ۔۔۔۔حمیدسہروردی کے یہاں نیا اسٹرکچر بنانے کی کوشش تیز ہے ۔‘‘
نیا اسڑکچر بنانے کی یہ کوشش ،جیسا کہ کہا گیا ،زبان و بیان کی نئی ساختیاتی تعمیر و تعبیر کے مترادف ہے ۔خارجی سطح پر نظم و نثر کاادغام ،کہانی کے مختلف اسالیب یعنی داستان ،حکایت اور تمثیل وغیرہ کی تکنیکوں کا استعمال اور بعض افسانوں میں ڈرامے کی ہیئت اختیار کرنا اور داخلی سطح پر اقدار کی کشمکش ،تصوف اور سریت سے لگاؤ،مذہب اور اخلاق اور تہذیبی روایات کی پاسداری یا ان کی سمت مراجعت ،یہ ایسے واضح آثار و عوامل ہیں جن کیDesigning سے حمید سہروردی کی ڈوبتی ابھرتی ایک سے دوسرے میں نموکرتی کہانی تشکیل پاتی ہے ۔اسی رجحان کی اچھی مثال ’’کہانی در کہانی ‘‘نامی تخلیق (مشمولہ ’’ریت ریت لفظ ‘‘)ہے جس کی تجریدی ماورائی اور داستانی تکنیک آگے چل کر افسانہ نگار کے تیسرے مجموعے ’’بے منظری کا منظر نامہ ‘‘میں موضوعات اور لسانی تعملات کی یکسانیت میں اُجاگر ہوتی ہے مثلاَ اسی کتا ب میں شامل نو افسانے جن کے عنوانات میں سابقہ ’’بے ‘‘استعمال کیا گیاہے :بے بضاعتی ،بے اعتنائی ،بے ربطی ،بے چہرگی ،بے منظری وغیرہ اسی طرح ایک موضوعی افسانوی تاثرا ت کی ان افسانوں میں تخلیقی تشکیل جن کے عنوانات میں لفظ ’’رات ‘‘ شامل ہے مثلاَ
رات ایک مکالمہ ،آدھی رات تک ،اترتی رات ،اور ایک اور رات ۔فن اور اظہار فن کا یہ رویہ جدیدیت کے بعد کا فنی رویہ ہے ۔
مابعد جدیدیت سے متعلق کثیر معنویت کا نظریہ بھی گزشتہ دس برسوں سے بالعموم شاعری کی کثیر معنویت دریافت کرنے میں مصرو ف رہا ہے ۔افسانے میں خیال اور موضوع کے فنی لسانی اظہارات اس نظریے کے تحت حمید سہروردی کے فن سے گہر ا تعلق رکھتے ہیں ۔مثالوں میں پیش کیے گئے افسانوں کے نام سابقے ’بے ‘کی منفیت کا اظہار کرتے ہیں اور یہ معنویت اپنے عنوانات یعنی موضوعات کے ساتھ تمام افسانوں کو محیط کرتی ہوئی ہے ۔اسی طرح اسم زماں ’’رات ‘‘اپنی سیاہی ،خوف ،اسرار ،جنس اور وصل کی معنویتوں کا حامل ہونے کے سبب حمید سہروردی کے ’’رات کے سلسلے ‘‘کے افسانوں میں نہ صرف زمانی ماحولی رات بلکہ کردارو ضمیر پر اُتری ہوئی رات کے اظہار کا بھی حامل ہوگیاہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نئی نسلیں در اصل بنی نوع انسان کی بزرگ تر عمر اور سوجھ بوجھ کی نمائندہ ہوتی ہیں۔اسی لئے میں اس سے نا امید نہیں ہوں کہ ان برتر نسلوں کے لکھنے والوں کی کہانیاں ہر دور میں زندگی کی نت نئی رہائش کی تخلیقی ٹوہیں بہم پہنچاتی رہیں گی۔دیوانوں میں کمی واقع نہ ہو تو ریگ زار بھی جھیلیں اگلنے لگتے ہیں۔
جوگندر پال کے مضمون اردو افسانے کا منظر نامہ سے اقتباس