ہمیشہ کسی طرح آج پھر امّاں اپنی رام راج کی با توں میں مشغول تھیں اور آج بھی ہمیشہ کی طرح دل برداشتہ نظر آ رہی تھیں۔ کئی بار انھوں نے یادوں کی بو چھار میں بھیگ بھیگ کر اپنی حویلی کے بلند دالانوں اور طویل کمروں کی باتیں دہرائیں کئی بار جب اپنی ذاتی ملازمہ کو یاد کیا جس نے انھیں اپنی ہتھیلی کا چھالا بنا کر رکھا تھا اور امّاں جب بولنے پر آتیں تو بولے ہی جاتیں وہ ہندوستان میں تھیں تو انھوں نے کیا کیا آرام کیے کتنی بے فکر زندگی گزاری اور پھر یہ پاکستان کا محض چار کمروں کا گھر جہاں سانس لینے میں بھی دم گھٹتا تھا انکا۔ اختر میاں سر جھکائے ان کی باتیں سنتے رہے انہیں کبھی کبھی ایسا لگتا کہ جیسے وہ خود ہندوستان کی اس عظیم الشان حویلی میں پہنچ گئے ہیں اپنے نانا کے پاس مسند و گاؤ تکیہ لگائے بیٹھے ہیں، سامنے ملازم نے حُقّہ تازہ کر کے رکھ دیا ہے اور وہ قصبہ کے غریبوں کی کتھا سن ہے ہیں ان کا تصفیہ کروا رہے ہیں۔ اور پھر خواب ٹوٹ جاتا، وہ نانا کی شاندار حویلی سے واپس اپنے کراچی کے گنجان علاقے میں پہنچ جاتے جہان ان کا چار کمروں کا ایک چھوٹا سا مکان تھا۔
امّاں کہتی تھیں اختر میاں کے ابّا بے چارے کو ہندوستان کی اتنی بڑی جاگیر کے عیوض بس یہ چھوٹا سا مکان ہی ملا اور وہ اللہ کا شکر کر کے بیٹھ گئے یہ نہیں کہ کوشش کرتے لوگوں نے کیسے کیسے مکانات ہتھیا لئیے کیسی کیسی حویلیاں الاٹ کروا لیں مگر وہ بہت سیدھے سادے تھے نا؟ اختر میاں تو اس وقت صرف 2 برس کے تھے انھیں کیا معلوم کہ ان کے خاندان والوں نے کیا کیا عذاب سہے کیسی کیسی مصیبتیں اٹھائیں تب جا کے سر چھپانے کو یہ آسرا ملا مگر ان کو افسوس ضرور ہوتا کہ کاش ابّا بھی کوئی حویلی یا بنگلے کے لئیے کوشش کرتے امّاں کے دکھڑے تو ختم ہوتے۔
خیر اللہ کی مرضی وہ تو ہر طرح خوش رہنے والوں میں تھے، ان سے جو ہو پاتا وہ امّاں کی خدمت کرتے حتّی المقدور ان کی خواہشات پوری کرتے مگر امّاں ہر آنے جانے والے کے سامنے اپنی حویلی کا احوال اور اپنا اقتدار جتانا بھولتیں۔ اختر میاں اور ان کی معصوم سی بیوی ثریّا کو کبھی کبھی بہت کوفت کا سامنا کرنا پڑتا کہ اب امّاں بھول کیوں نہیں جاتیں جو بیت گیا سو بات گئی اب گزرے ہوئے وقت کے لیے اپنا اور بہو بیٹے کا دل کیوں جلاتی ہیں انھیں صبر کیوں نہیں آتا۔ یہاں بھی تو اپنا گھر ہے، چاہنے والا بیٹا، خیال رکھنے والی بہو ہے دونوں پوتے پوتی بھی ہر وقت اُن سے لپٹے رہتے پھر بھی۔ محلّے میں بہت عزت تھی سارے ہی لوگ دکھ سکھ کے ساتھی تھے پھر کیوں سب کو پرانی داستان سنا کر اداس ہوتی ہیں، ہمدردیاں سمیٹتی ہیں اور اختر میاں اور ثریّا کی دکھتی رگ کو چھیڑتی ہیں۔ مگر ان سے کون کہتا۔
اختر میاں تو امّاں کے دیوانے تھے، ثریّا بھی بس گھٹ کر رہ جاتیں۔ زندگی ایسے ہی گذر رہی تھی اچانک اختر میاں کو ہندوستان جانے کا موقع مل جاتا ہے ان کے کسی بہت عزیز دوست کے بیٹے کی شادی تھی وہ پیچھے پڑ گیا کہ چلنا ہی پڑے گا اور اختر میاں کی دلی مراد پوی ہوئی وہ اس دن بہت خوش گھر ائے اور امّاں سے لپٹ گئے۔
’’امّاں میں ہندوستان جا رہا ہوں۔ اب میں اپنے پرانے گھر ضرور جاؤں گا سب سے ملوں گا سب کتنے خوش ہو نگے۔ امّاں میں بھی بہت خوش ہوں۔ آپ بھی خوش ہیں نا؟‘‘
اور امّاں ہکا بکا سی ان کی شکل دیکھے گئیں پھر بڑی مشکل سے کھنکھار کے بولیں۔
’’ائے ہئے اب وہاں کیا دھرا ہے ادھے پاکستان آ گئے ادھے مر کھپ گئے اب وہاں کون ہے جس کے پاس جاؤ گے ہاں میری چھوٹی بہن، ارے تیری مہرو خالا، جو لکھنؤ میں رہتی ہے اس کے پاس جائیو اور کچھ سامان بھی دوں گی وہ بھی مہرو کو پنہوچا دیجیو۔ دہلی میں شادی ہے تو بس جلدی واپس آئیو یہاں میری صحت خراب، ثریّا اکیلی۔ ‘‘ وہ پلّو سے آنکھیں پوچھنے لگیں۔
’’ارے امّاں اب پہلی بار جا رہے ہیں تو کچھ گھومیں گے پھریں گے۔ آپ یہاں کی فکر مت کیجئے میں امین بھائی سے کہہ جاؤں گا وہ خیال رکھیں گے۔ ‘‘
اختر میاں سدھارے تو پہلی بار گھر میں تنہائیوں نے ڈیرا ڈالا دونوں بچّے صبح اسکول چلے جاتے ثریّا اپنے کاموں میں مصروف ہو جاتی امّاں کو نا جانے کیا ہو گیا تھا وہ لیٹی رہتیں ثریّا کئی بار انھیں آوازیں دیتی باتیں کرنے کی کوشش کرتی مگر وہ خاموش لیٹی نا جانے کیاسوچا کرتیں۔ امّاں کی طبیعت دیکھ کر ثریا پریشان ہو گئی وہ کھانا بھی برائے نام ہی کھاتیں ثریا سوچتی انھیں کچھ ہو گیا تو وہ اختر کو کیا جواب دے گی۔ دہلی پہنچ کر اختر میاں نے اپنی خیریت بتا دی تھی اور پھر وہ لکھنؤ کے لئے روانہ ہو گئے۔ مہرو خالا سے مل کر انھیں بہت اچھا لگا وہ بہت دیر تک انھیں گلے سے لگائے روتی رہیں ان کے آنسو بھی بالکل امّاں کی طرح تھے کئی دن اختر میاں وہاں رہے پھر انھوں نے اپنے وطن مرادآباد جانے کی ٹھان لی اور نکل پڑے۔ حدّ نگاہ تک سبزہ بکھرا تھا سرسوں کے پیلے پیلے پھولوں سے کھیت سجے ہوئے تھے۔ وہ ٹیکسی میں بیٹھے خواب دیکھتے رہے۔ ان کے پہنچنے پر گھر میں کیا ہنگامہ ہو جائے گا، سب کتنے خوش ہوں گے، اور نا جانے کیا کیا جس محلّے کا نام اماں بتاتی تھیں وہاں پہونچتے پہنچتے شام اتر آئی تھی وہاں پر بنے ہوئے تمام گھروں میں افلاس کی چادر تنی تھی۔ مطلوبہ گھر کا دروازہ چوپٹ کھلا تھا اور اس پر ایک میلا کچیلا سا پردا پھڑ پھڑا رہا تھا۔ انھوں نے سراسیمہ ہو کر دروازہ بجایا تو ایک کرخت اواز سنائی دی۔
’’کون ہے۔ ۔ ۔ ؟‘‘
’’میں ہوں اختر پاکستان سے آیا ہوں۔ ‘‘
اندر کچھ کھٹ پٹ ہوئی پھر ایک کمزور سے وجود نے باہر جھانکا اس آدمی کے جسم پر ایک میلی بنیان اور پھٹی سی تہمد تھی اس نے آنکھوں پر انگلیوں کا چھجا سا بنا کر باہر دیکھا اور ڈانٹ کر پوچھا۔ ۔
’’کون اختر؟؟؟‘‘
’’جی میں پاکستان سے آیا ہوں، عطیہ بیگم کا بیٹا‘‘۔ ۔
تب وہ صاحب باہر آئے اور انھیں اندر آنے کی جگہ دی۔ ۔
’’عطیہ کے بیٹے ہو؟‘‘
تھوڑا جھجھک کر انھوں نے گلے لگا لیا کھپریل کے ٹوٹے پھوٹے گھر میں دو بو سیدہ چار پائیوں کے سوا کچھ نہ تھا
’’بیٹھو میاں۔ ۔ ۔ ‘‘
وہ دھم سے چار پائی پر بیٹھ گئے
’’کیسی ہے عطیہ؟؟‘‘
’’آپ۔ ۔ میرا مطلب آپ امّی کے کون ہیں ؟؟‘‘ اختر میاں نے ڈرتے پوچھا۔
’’بتایا نہیں تمہاری امّاں نے ؟؟ میں ان کا چچازاد بھائی، شاکر ہوں تمہارا ماموں۔ ۔ کیسی ہے عطیہ؟؟‘‘
’’جی ٹھیک ہیں بس۔ ۔ آپ سب کو یاد کرتی ہیں۔ ۔ ‘‘
’’ارے یہاں یاد کرنے والی کیا بات ہے ! اللہ کا شکر ہے عیش سے رہ رہی ہے، یہاں کیا تھا جو وہ یاد کرنے کو چھوڑ گئی۔ ۔ ‘‘
ان کی آواز میں ٹوٹے کانچ کی چبھن تھی۔
’’پھر بھی سب لوگ۔ ۔ ابّا کی حویلی؟؟‘‘ اختر میاں اٹک اٹک کر بولے۔
’’حویلی؟؟؟‘‘ کون سی حویلی۔ ۔ کس کی حویلی؟۔ ۔ میاں ہم پشتینی قلعی گرہیں، ہمارے سر پر جو چھت ہے وہ غنیمت ہے۔ اب تو کوئی قلعی بھی نہیں کرواتا، ایسے ایسے برتن آ گئے ہیں بازار میں کہ قلعی کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ عطیہ کے ابّا تو بہت غریبی میں مرے۔ ۔ کوئی پوچھنے والا نہ تھا ہم ہی کبھی روٹی پانی دیتے تھے اور اس کے سسر تو غدر میں ہی مارے گئے۔ کون پوچھنے والا تھا۔ وہ بھی یہی کام کرتے تھے ان کا تو چھپر بھی نہیں بچا۔ اب آج کل ہماری امّاں پڑی ہیں۔ جاؤ سلام کر آؤ تمہاری تو نانی ہوئیں۔ ۔ ‘‘
میلی سی گٹھری میں حرکت ہوئی
’’کون ہے شاکر؟؟‘‘
گھر کے ایک ایک ذرّے سے غربت ٹپک رہی تھی۔ ہر طرف افلاس اور بیچارگی تڑپ رہی تھی۔
’’ماموں ایک گلاس پانی ملے گا؟‘‘
’’ہاں ابھی لو‘‘ انہوں نے المونیم کے گندے پچکے سے گلاس میں گھڑے سے پانی انڈیل کر میری طرف بڑھایا۔
’’۔ ۔ اچھا اب اجازت دیجے۔ ۔ اختر میاں کھڑے ہو گئے ‘‘ ٹیکسی کھڑی ہے ‘‘۔ ۔
’’گاڑی سے آئے ہو؟؟؟‘‘
ماموں بے اختیار باہر آئے۔ ۔ اختر میاں ان کو سلام کر کے ٹیکسی میں بیٹھ گئے۔
’’مگر صاحب آپ تو ٹھہرنے والے تھے ؟‘‘ ٹیکسیڈرائیور نے دل دکھانے والا سوال کر ہی دیا۔ ۔
’’جن صاحب سے ملنا تھا وہ نہیں ملے چلو واپس‘‘۔ ۔
جس وقت اختر میاں واپس پاکستان پہونچے سورج ڈوب رہا تھا، اک اداسی سی چھائی ہوئی تھی مگر ان کے گھر آنے سے ایک دم چہل پہل سی ہو گئی بچّے دوڑ کر لپٹ گئے۔ امّاں خاموش خاموش سی انھیں دیکھے گئیں، ان کے چہرے پر ایک ہی سوال تھا۔ ۔
’’کیا تم وہاں گئے تھے ؟؟۔ ۔ کیا تم؟؟۔ ۔ ‘‘
اور تبھی اختر میاں آ کر ان سے لپٹ گئے۔ ۔ ۔
’’کیسی ہیں امّاں آپ؟؟۔ ۔ ارے میرے پیچھے تو آپ دبلی ہو گئی امّاں۔ میں تو اپنے کاموں میں اتنا مصروف ہو گیا کہ مراد آباد جا ہی نہیں سکا۔ ہاں مہرو خالہ، نے یہ سامان بھیجا ہے وہ بہت یاد کرتی ہیں آپ کو۔ ‘‘
امّاں نے ایک گہری سی اطمینان کی سانس لی اور اٹھ کر مہرو خالا کا بھیجا ہوا سامان کھولنے لگیں۔
٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...