فاطمہ بے جان سی ہاتھ پاؤں چھوڑے پلنگ پر پڑی تھی۔ ’’ٹھیک ہو جائے گا سب۔ ہمت کرو۔ آپ کے سامنے شہباز کی مثال ہے۔ دوبارہ کیموتھراپی کرائی۔ اب اچھا بھلا چلا پھرتا ہے‘‘۔ چھوٹی بہن مریم نے اپنے کسی کزن کا حوالہ تسلی کے واسطے دیا۔
فاطمہ خاموشی سے مریم کو دیکھتی رہی۔ اِن آنکھوں کا دیکھنا عجب تھا۔ دیکھ رہی تھیں لیکن ان میں منظر کوئی نہ تھا۔ سرگوشی میں بولی۔ ’’تمہارے سیل کی گیلری میں میوزک تو ہو گا‘‘۔ مریم نے جواب دیا ’’ہاں، نظمیں بھی ہیں کلام شاعر بزبان شاعر بھی‘‘۔ ’’اچھا تو کوئی گلزار کی نظم سناؤ نا‘‘۔ فاطمہ کے لہجے میں بچوں سا اشتیاق تھا۔ آرٹ اور میوزک کے شوق نے ایسے سر اٹھایا جیسے مرتے سمے سانپ تڑپ کر پھن اٹھاتا ہے اور پھر آخری لاٹھی کا وار سہتے ڈھیر ہو جاتا ہے۔
باریش شوہر عبد الکریم خاموشی اور پریشانی اوڑھے دبے پاؤں کمرے کے کئی چکر لگا گیا تھا۔
اوپر تلے کی چار بیٹیاں سکول کالج میں زیر تعلیم تھیں۔ ابھی تو دنیا اپنی ماں کی آنکھوں ہی سے دیکھ رہی تھیں۔ غم اور احساسِ بے بسی کا سامنا پہلی بار ہوا تھا، نہ تو سہا جا رہا تھا، نہ ہی اظہار کرنا آ رہا تھا۔ بس آنکھوں میں حیرت اور خوف لیے ماں کو تک رہی تھیں۔
ڈاکٹر نے بتایا کہ کینسر نے جگر لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اب بس چند دن ہیں۔ چند دن؟۔ چند دنوں میں کتنے دن آ سکتے ہیں، چار، پانچ، چھ، سات۔
’’مومو! اور کوئی گیت‘‘۔۔ فاطمہ میں تو جیسے ایک اور فاطمہ جی اٹھی تھی۔ وہ فاطمہ جسے فاطمہ نے اپنے ہاتھوں مار دفنایا تھا۔ مریم نے اُس فاطمہ کو جی بھر کر دیکھ رکھا تھا۔
شانوں تک کٹے ہلکے براؤن ریشمی بال، نیلی جینز پر سفید کرتی زیب تن کیے ہوئے، ہاتھ کینوس بورڈ سنبھالے، مختلف سائز کے برش اور رنگوں سے بھرا ایک چھوٹا سا تھیلا کندھوں پر تھا۔
مریم جسے سب مومو کہتے ابھی آٹھویں جماعت میں تھی۔ اس کی آنکھوں میں ہمیشہ اپنی یونیورسٹی شعبہ فائن آرٹس کی طالبہ بہن کے لیے ستائش رہتی تھی۔
فاطمہ ست رنگی تھی۔ اسے میوزک، رنگ، خوشبو، کتابیں اور نِت نئے ڈیزائن کے کپڑے بھاتے تھے۔ فاطمہ یونیورسٹی کیمپس میں سایہ دار اونچے درختوں کی راہداری میں کھڑی منظر کینوس پہ اتار رہی تھی۔ پھر وہی گٹھیلے بدن، کلین شیو، گھنی سیاہ بھنوؤں کے نیچے سے گھورتی آنکھوں والا لڑکا اس کے آس پاس منڈلا نے لگا۔
فاطمہ بوکھلا سی گئی۔ گھبراہٹ میں کانپتے ہاتھ الٹے سیدھے سٹروک لگاتے گئے۔ ان لرزاں ہاتھوں نے لینڈ سکیپ میں زندگی سی بھر دی۔
’’کبھی شام کو چلیے کسی ریسٹورنٹ میں چائے پیتے ہیں‘‘۔ کسی کی آواز نزدیک ہی سے آئی۔ دھڑکتے دل نے پلٹ کر دیکھنے بھی نہ دیا۔ بچپن کی سنی کہانیوں کی سرسراہٹ چاروں اَور تھی کہ پلٹ کر دیکھنے سے انسان پتھر کے ہو جاتے ہیں۔
ایزل اٹھایا، برش ہولڈر میں رکھے، فاطمہ تیز قدموں سے چلتی ہوئی نزدیک ہی ساتھی لڑکیوں کے گروپ میں شامل ہو گئی۔ دوستانہ مزاج رکھنے والی، بے پرواہ سی چار پانچ لڑکیاں تھیں۔ ان کے ساتھ فاطمہ اپنا آپ محفوظ تصور کرتی۔ لیکن یہ شعبہ میں کبھی کبھار نظر آتی تھیں۔ سب کے اپنے اپنے مشاغل تھے۔ کچھ ماڈلنگ کرتیں اور چند ایک کے ڈرامے آن ائیر جاتے تھے۔ انہیں تو چائے پی لینے کی پیش کش پر گھبرا جانا سمجھ نہ آیا۔ ’’بھئی کیا مسئلہ ہے۔ چاہے ہی تو ہے۔ پی لینا، شام اچھی گزر جائے گی‘‘۔
فاطمہ کی تو سانس ہی رکنے لگی کہ ماں جان گئی تو یونیورسٹی آنا ہی بند ہو جائے گا۔ ایک ہی تو دریچہ تھا جہاں زندگی سانس لیتے محسوس ہوتی تھی۔
باپ کی انگلی تھام کر اچھلتا چہکتا ہوا بچپن چند لمحے ہی تھا۔ شوہر کے مرنے کے بعد تو ماں مکیں کے بغیر ویران بھوت بنگلے کی طرح ہو گئی تھی۔ جس میں اب ان گنت خوف خدشے واہمے سرگراں تھے۔ یہ خدشے واہمے ماں کے ساتھ رہنے والوں کو بھی اپنی گھمن گیریوں میں لے لیتے۔
’’لوگ کیا کہیں گے، لوگ کیا سوچیں گے‘‘ ذہن تو یہ ہی سوچ سوچ کر ماؤف ہو گئے تھے۔ دل کی دھڑکن ہر نگاہ پہ تھم سی جاتی۔ یہ ارمان بھی ماں کے جی کو روگ کی طرح لگا ہوا تھا۔ کاش ان لڑکیوں کا بھی کوئی بھائی ہوتا رکھوالی تو کرتا۔
رکھوالی کی کبھی سمجھ نہیں آتی تھی۔ ہمسائے ہی میں اس کی بچپن کی سہیلی انعم رہتی تھی۔ سات بہنوں کے بعد تقدیر نے بھی شاید زچ ہو کر انہیں بھائی سے نواز دیا تھا۔
انعم نے اپنے سے پندرہ سال چھوٹے بھائی کو ماں بن کر پالا تھا۔ جب بھی انعم فاطمہ کے گھر آتی تو ساتھ میں انگلی تھامے بھائی بھی ہوتا۔ ہنستے ہوئے بتاتی ’’ماں نے گارڈ ساتھ کر دیا ہے۔ ایسا نکما گارڈ ہے کہ اس کی ناک بھی مجھے ہی صاف کرنا پڑتی ہے‘‘۔
فاطمہ کی ماں ہنسی نظر انداز کرتے ہوئے کہتی ’’کاش میری بیٹیوں کا بھی بھائی ہوتا۔ فاطمہ کو موٹرسائیکل پر یونیورسٹی ہی چھوڑ آتا۔ اب گھنٹہ بھر تو بس سٹاپ کھڑی رہتی ہے‘‘۔
مریم بھنویں اچکا کر بولی ’’اماں آپی کو بھی سکوٹی لے دو، مسئلہ ختم!‘‘۔
’’مومو! تجھے عقل کب آئے گی؟۔ جوان لڑکی کو سکوٹی پر بٹھا دوں اور زمانے بھر کی باتیں سنوں‘‘۔ ماں غصے سے بولی۔
فاطمہ سوچتی رہی کہ غلط کیا ہے: جوان ہونا یا پھر سکوٹی چلانا؟۔ خود تو خاموش ہی رہتی لیکن اس کے ہاتھ بولتے رہتے۔ ہمیشہ بے چین رہتے۔ کبھی انگلیاں ایک دوسرے کے ساتھ الجھتیں تو کبھی میز بجانے لگتیں۔ تو کبھی صوفے پر لگے کپڑے کے دھاگے نوچنا شروع ہو جاتیں۔ یہ ہاتھ صرف اُس لمحے شانت ہوتے جب خالی کینوس پر رنگ بکھیرتے تھے۔ ’’تب تو آپی کی انگلیاں رقص کرتی ہیں‘‘ مریم نے سوچا۔
فاطمہ اڑتے پرندوں کی تصویریں بناتی۔ دیواروں میں سے جھانکتے چہرے، نقش پا اور صحرا، کیکٹس، ڈاچیوں کے گلے میں پڑی گھنٹیاں۔ مریم کو منظر اور پس منظر کی تو سمجھ نہیں آتی تھی۔ پھر بھی اس کی فرمائش ہوتی۔ ’’آپی اپنی ڈائری سے کوئی نظم پڑھ کر سناؤ‘‘۔ وہ فاطمہ کی کتابیں پڑھنے کی بھی کوشش کرتی۔ ’’اف! مومو یہ کتابیں جو تم پڑھتی ہو۔ سمجھ بھی آتی ہیں؟‘‘
پڑھنے لکھنے میں ہشیار مریم فرفر پڑھنا شروع ہو جاتی۔
’’آپی! سمجھ آئے یا نہ آئے پڑھ تو لیتی ہوں نا۔‘‘
فاطمہ دھیرج سے کہتی۔ ’’پڑھتی رہو ایک دن سمجھ بھی آ جائیں گی‘‘۔
’’آپی! آپ ساری کتابیں سمجھ بھی لیتی ہیں؟‘‘ مریم نے پوچھا۔ فاطمہ نے چہچہاتی مینا جیسی مومو کو دیکھا اور بے بسی سے کہا۔
’’مومو! مجھے سمجھنے سے ڈر لگتا ہے۔ مجھ سے تو پڑھا بھی نہیں جاتا۔ سارے لفظ آپسی گتھم گتھا ہو جاتے ہیں‘‘۔
’’پھر سارا دن گود میں کتاب رکھے، اس پر نظریں جمائے کیا کرتی ہو؟ آپ تو صفحہ بھی نہیں پلٹتیں‘‘۔ مریم نے فاطمہ کی طرف حیران نظروں سے دیکھا۔ پھر فاطمہ کو تسلی دیتے ہوئے بولی۔ ’’میری آپی کو رنگ بھرنے تو خوب آتے ہیں‘‘۔
ذرا رک کر مریم پھر بولی۔ ’’آپ کی تصویریں دیکھ کر تو ڈر لگتا ہے۔ اندھیری رات، اکیلا درخت اور گھنی جھاڑیوں میں جانے کس بلا کی چمکتی ہوئی آنکھیں!‘‘
فاطمہ نے کہا۔ ’’ڈر ہی تو پینٹ کیا تھا۔ تم ڈر گئی تو جانو تصویر سچی ہے‘‘۔
یونیورسٹی جاتے ہوئے فاطمہ سہمی ہوئی چڑیا نظر آتی۔ اس کی صورت پر نگاہ پڑتے ہی گدھ بھی شکرے بن کر اس کے گرد منڈ لانے لگتے۔ فاطمہ کی دور کی کزن یونیورسٹی ہاسٹل رہتی تھی۔ فاطمہ نے سوچا اس کے پاس جاتی ہوں۔ شاید گھورتی آنکھوں سے بچاؤ کا کوئی طریقہ بتا دے۔ کزن نے تسلی دی۔ ’’میرے بھائی کے رابطے یونیورسٹی کے با اثر گروپ سے ہیں۔ وہ تمہارا مسئلہ چٹکی بجاتے ہی حل کر دے گا‘‘۔ بھائی عبد الکریم ہلکی ہلکی داڑھی کے ساتھ ایک صالح نوجوان تھا۔ اس نے ایسا بندو بست کیا کہ وہ گھورتی آنکھوں والا دوبارہ نظر نہ آیا۔ ایسے ہی رہ چلتے فاطمہ کی آنکھیں بیقراری سے اسے تلاش کرنے لگتیں تو فاطمہ ہی کی سرزنش پلکیں گرا دیتی۔ دل کملا ہر آہٹ کو اسی کی آواز یا سمجھتا رہا۔۔۔۔۔۔
لیکن اب ہر شام بھائی صاحب خالہ جان کو ملنے گھر پہنچے ہوتے۔ فاطمہ کی شادی دنوں ہی میں طے ہو گئی۔ فاطمہ کی ماں تو ظالم زمانے کے باوجود اپنی بیٹیوں کو اعلیٰ تعلیم یافتہ دیکھنا چاہتی تھی۔ اس خواب کو کسی بھیانک تعبیر کی تصویر کشی نے کما دیا تھا۔ عبد الکریم کوئی کام نہیں کرتا تھا۔ یعنی کہ جاب۔ اس لیے بغیر کسی رسم، شور شرابے کے شادی ہو گئی۔
مریم کئی دن منہ پھلائے پھرتی رہی کہ شادیاں ایسے ہوتی ہیں؟۔ ’’ذرا ڈھولک ہی بجا لیتے‘‘ عبد الکریم بولا ’’شادی تو ڈھولک بجائے بغیر بھی ہو جاتی ہے۔ یہ تو ہندوؤں کا رواج ہے‘‘۔
’’اچھا جو میری بیوہ ماں نے اپنا سارا جمع جتھا بیٹی سمیت آپ کے حوالے کر دیا۔ وہ ہندوؤں کا رواج نہیں‘‘۔
فاطمہ نے لب تو سی لیے تھے۔ لیکن دماغ ابھی سوچنے سے باز نہیں آتا تھا۔
شادی کے ساتھ ہی کانٹ چھانٹ کا عمل بھی جاری ہو گیا۔ عبد الکریم کا یہ احسان کیا کم ہے۔ ’’میری یتیم بچی کو اُس بدمعاش سے بچا یا‘‘۔ امکانات کا سوچ کر ماں کا دل ہول اٹھتا ’’فاطمہ جو ہوا۔ سو ہوا۔ اب تم نے اچھی عورت بن کر رہنا ہے۔ تمہارے مرے باپ کی عزت پر حرف نہیں آنا چاہیے‘‘۔ فاطمہ آنکھوں میں سوال لیے ماں کی طرف دیکھتی رہی ’’کیا ہوا؟؟؟‘‘ اس نے سوچا۔ زبان تو جیسے شل ہو کر رہ گئی تھی۔
’’سہاگن وہی جو پیا من بھائے، بیٹی میری بات پلّے سے باندھ لو۔ ان مردوں کے سامنے ’’جی جی‘‘ ہی کہنا چاہیے کوئی دوسرا لفظ ان کے لیے بار ہوتا ہے۔ تھکا ہارا مرد شام کو گھر آئے تو اُسے اطمینان کا احساس دلاؤ‘‘
’’لیکن ماں! سکون اطمینان لاؤں کہاں سے؟ جو احساس دلاؤں؟‘‘۔
ماں نے ڈانٹ کر چپ کروا دیا ’’اگر تیرا یہی حال رہا تو تُو نے گھر بسا لیا‘‘۔
فاطمہ ہر صورت گھر بسانے کی ہدایات کے کانٹوں پر پاؤں دھرتی واپس سسرال چلی گئی۔ مشترکہ خاندانی نظام میں ہر کوئی کسی دوسرے کا ماسک چہرے پر چڑھائے ہوتا ہے۔ رشتے آپس میں ایسے اُلجھ جاتے ہیں کہ انہیں الگ الگ کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ فاطمہ کا اپنا آپ تو کسی گمشدہ کھلونے کی طرح پرانے کپڑوں میں الماری میں لا وارث پڑا رہ گیا۔
اس کے لیے نیک پروین ہر فن مولا گوں گی بہری کا سانچہ تیز آنچ پر تیار ہو رہا تھا۔ قدم قدم پر کتر بیونت ہوتی کہ ’’شریف زادیوں کے ایسے چلن نہیں ہوتے‘‘۔
عبد الکریم کی زنبیل میں ہمیشہ کوئی نہ کوئی معتبر حوالہ ہوتا تھا۔ ’’حامد کی بیوی ایم اے پاس گورنمنٹ کالج میں لیکچرار ہے، شکل و صورت کی ایسی کہ ہاتھ لگانے سے میلی ہو‘‘ فاطمہ کی نگاہ آئینہ پر گئی۔ ’’میں تو نہا دھو کر بھی میلی ہی لگتی ہوں‘‘۔
چلتے چلتے کسی نے لقمہ دیا۔ ’’ساس پاگل ہے روز پیٹ کر رکھ دیتی مجال ہے کبھی ہاتھ روکا ہو یا پلٹ کر جواب دیا ہو‘‘۔
فاطمہ کا ہاتھ توے پر سے روٹی پلٹتے جل گیا۔ اُف کیے بنا سنک پر لگی ٹوٹی کھول کر ٹھنڈے پانی کی دھار نیچے ہاتھ رکھ دیا۔ روز سوچ کے ہتھوڑے، سکریو، اٹھائے اپنی ذات کے کس بل نکالتی، روز اک نیا نقص نکل آتا۔
’’تمہاری گردن میں تو سریا ہے کیسے سر اٹھا کر بات کرتی ہے‘‘ عبد الکریم کا طنز روح میں ایک اور چھید ڈال دیتا۔
وقت تو پنچھی ہے۔ پر لگائے اڑتا ہے۔ اب فاطمہ چار بیٹوں کی ماں، سلیقے سے آنچل سر پر جمائے آنکھوں پر دبیز شیشوں کی عینک چڑھائے، بے رنگ زندگی میں برکت کے لیے تسبیح کے دانے گراتی رہتی۔
کٹھالی میں سے ایک اور فاطمہ نکل آئی تھی۔ عبد الکریم تو اب بھی خفا ہی رہتا۔ فاطمہ سے تو کبھی کوئی کام ڈھنگ سے نہیں ہوا۔ ایک بیٹا ہی ہو جاتا تو باپ دادا کا نام تو چلتا۔ چاہے دنیا میں جتنی بھی چیخ و پکار ہو فاطمہ کے اندر تو ایک سکوت طاری تھا۔
پانچ وقت نماز، دو وقت تازہ کھانا بنانا۔ گھر کے ہر فرد کی ضرورت کا خیال رکھنا ہی تو کام تھا۔ لیکن اس پر ہر وقت تھکاوٹ طاری رہتی۔ عبد الکریم کا خیال تھا کہ زیادہ آرام سے بھی انسان تھک جاتا ہے۔ اس لیے فاطمہ نے سویرے باقاعدگی سے سیر پر جانا شروع کر دیا۔ سیر کے دوران درود شریف پڑھتی رہتی۔
گھر آ کر پانی پر دم کر کے پی لیتی۔ بے شک اللہ ہی شفا دینے والا ہے۔
لیکن جب فاطمہ کا چلنا پھر نا ہی دوبھر ہو گیا تو بیٹی ڈاکٹر کے پاس لے گئی۔ رپورٹس آئیں۔ ڈاکٹر نے مایوسی سے سر ہلایا۔ فاطمہ نے بیٹی کے چہرے پر دکھ کے سائے اترتے محسوس کیے۔ ڈاکٹر اور عبد الکریم کی گفتگو لاتعلقی سے سنتی رہی۔
واپس گھر آ کر فون ریسیور اٹھایا۔ نمبر ملا کر بس ایک فقرہ کہہ کر دوبارہ کریڈل پر رکھ دیا۔
’’مومو! بس کچھ دن ہیں۔ خدا حافظ ہی کہنے آ جاؤ‘‘۔
٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...