(Last Updated On: )
شاعر : بشر نواز
ناشر: دکن پبلشر، تاج آفسیٹ پریس، اورنگ آباد۔
صفحات: ۱۰۰ صفحات، قیمت: چار روپے
رائگاں کے لیے یہی کہہ دینا کافی ہو گا کہ یہ بشر نواز کا مجموعۂ کلام ہے جس میں ان کی نظمیں بھی ہیں غزلیں بھی۔ بشرنواز کا یہ مجموعہ نئے ادب کے اہم صحیفوں میں شمار کیا جائے گا اس لیے کہ اس سے نئی شاعری کی سمتوں کے تعین میں بڑی مدد مل سکتی ہے۔ ادب کا انسان سے بہت گہرا رشتہ ہے اور ادب انفرادی اظہار کا موثر ترین آلہ ہے۔ بشر کی نظموں میں ایک شاعر کا خود اپنا اظہار ہے اور اس اظہار میں شاعر نے علامتی وسیلے کو منتخب کیا ہے جو کہ خیالات کو منجمد انداز میں پیش کرنے کا بہترین وسیلہ ہے اور اس علامتی انجماد سے معنوی تفصیل پیدا ہوتی ہے۔ رائے گاں کی نظمیں فطری علامات سے تزئین ہیں مثلاً ہوا، جنگل، ساحل، سمندر، موجیں، ندی، پتی، جھیل، آگ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بشر نواز کوئی مصنوعی ماحول یا مصنوعی نظام کی تخلیق کی بجائے ذہن اور قدرت کی اصل نشانیوں پر زیادہ اعتماد رکھتے ہیں اور یہی ان کی نظموں کی علامتوں کو واضح تر ہونے کی وجہ ہے۔ خصوصاً بشر نواز کو ہوا سے بڑی محبت ہے وہ کروٹیں لیتی ہوئی ہوا، بہکتی الھڑ ہوا، ہوا کے جھونکے، نئے موسموں کی ہوا، ہواؤں کی پوشاک جیسی علامتی شکلوں کی تشکیل کرتے ہیں۔ یہ علامتیں استعاروں سے بہت قریب ہیں۔ اکثر بلکہ بیش تر نظمیں ٹوٹتی آرزوؤں اور تمناؤں کا دکھ ہیں۔ ان کی نظمیں کہتی ہیں کہ وقت دھیرے دھیرے ہماری تمناؤں کو زنگ آلود کر دے گا، زندگی ایک رزم ہے اور اس رزم کا مقصد کچھ نہیں مثلاً:
صرف لڑتے رہو
لڑتے رہو، اک ایسی لڑائی، جس کا کوئی حاصل نہیں جز درد تھکن
کوئی مصرف نہیں جز سانس کی موجوں کا شمار
(’’تنہا، رات، سمندر‘‘)
بشر نواز اپنی تمناؤں اور اپنے سپنوں کو شکل دینے اور ان کے مطالب پیدا کرنے کے لیے کوشاں ہیں، انھیں اس کوشش کا انجام بھی معلوم ہے، لیکن اس کے باوجود وہ اپنے خیالات کو اس مرکز پر رکھتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ جب سارے اصول و براہین ہم پر لادے جاتے ہیں، ہم سے کئی امیدیں منسلک کی جاتی ہیں۔ ایک نظام میں ہماری حیثیت ایک پرزے کی کر دی جاتی ہے تو پھر ہمارا ذہنی ورثہ یعنی وہ آرزوئیں اور وہ خواب جو انسان ہمیشہ دیکھتا آیا ہے پوری طرح تعبیر کیوں نہیں کر دیا جاتا؟ اصل میں صداقتیں بدل گئی ہیں، اصول ٹوٹ چکے ہیں اور رشتے صرف علم الانساب کے رشتے رہ گئے ہیں ان میں وہ لوچ نہیں، وہ گرمی نہیں، وہ انجذاب نہیں۔ بشر نواز نے الہامی انداز کو اپنی باتوں کے اظہار کے لیے استعمال کیا ہے۔ میں اسے پیغمبرانہ کلام تو نہیں بلکہ آسمانی مکالمہ ضرور کہوں گا کیوں کہ اس کلام میں متکلم و حاضر دونوں ہیں۔ متکلم کی حیثیت قوانین زندگی و مذہب اور اصول و براہین کے وکیل کی ہے وہ داعی ہے اور حاضر سادہ لوح ہے وہ میٹھے شبدوں میں پوشیدہ اوامر اور باتوں کو سنتا ہے، متاثر ہوتا ہے اور پھر عمل کرتا ہے لیکن حاصل۔۔ ۔
انگلیوں سے یہ زمیں
کھودتے کھودتے تھک ہار گئے
کچھ تمنائیں، مسرت کے دواک لمحے،
دو اک خوابِ حسیں
تھے سو اس کھیل میں بیکار گئے!
(’’دیدہ و شنیدہ‘‘)
بشر نواز کی نظمیں بڑی حرکت قوت رکھتی ہیں مثلاً ’’ایک نظم‘‘ کے لیے ’’وصال‘‘، ’’جھوٹ‘‘، ’’تقدس رشتوں کا‘‘، ’’اس کا قتل‘‘، ’’بڑے شہر کا دن‘‘ ان نظموں میں بھی بشر نواز کی منتخبہ علامتیں وہی ہیں لیکن انھوں نے علامتوں میں داخلی رنگ و رس کو شریک کر دیا ہے اور جذبات کی شدت اور آہنگ کی لرزش کو پیشِ نظر رکھا ہے۔
ان کی غزلوں کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں کہوں گا اس لیے کہ ان میں نئے اظہار کا معتدل یا کچھ کم ہی سایہ پڑا ہے اور ان غزلوں میں آسان پسندی اور سلاست کو راہ دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ ان کی چند غزلیں ایسی ہیں کہ سینے سے لگائی جائیں اس لیے کہ ان میں معنی کی گہرائی بھی ہے، الفاظ کی خوب صورتی بھی، غزلوں میں اپنی آواز پیدا کرنا ایک بہت مشکل امر ہے لیکن نئی خصوصیات پیدا کرنا ایک اچھے شاعر کی پہچان ہے۔ مجھے بشر نواز سے یہ شکایت ہے کہ انھوں نے بہت سی غزلیں تو اس مجموعہ میں شریک کر لی ہیں لیکن ان کو چاہیے یہ تھا کہ وہ صرف نمائندہ غزلیں چن لیتے جس سے ان کے اعلیٰ ذہن اور فنی صلاحیت کا صحیح تصور قاری کے سامنے آتا۔ ان کے کچھ اشعار ملاحظہ ہیں:
اک درد خون کی طرح رگ و پے میں بس گیا
مجھ کو مری وفا کا حسیں ناگ ڈس گیا
پھر یوں ہوا کہ کانپتے ہونٹوں کے لمس سے
دونوں پہ جیسے آگ کا بادل برس گیا
ریت میں پھول کھلائے تھے نتیجہ دیکھا
ایک ہی موج یہ سمجھا گئی دریا کیا ہے؟
خواب کے نشے میں تعبیر کو جھٹلاؤں نہیں
اب یہ سوچا ہے فریب اور کوئی کھاؤں نہیں
بہ حیثیت مجموعی ’’رائے گاں‘‘ ایک عمدہ ادبی کتاب ہے اور اس کی تزئین، ترتیب، طباعت بھی بہت اچھی ہے، قیمت بھی مناسب ہے۔ (’’برگ آوارہ‘‘، ۱۹۷۳ء)
٭٭٭