سپاہی کو اپنی لال پگڑی پر، عورت کو اپنے گہنوں پر، اور طبیب کو اپنے پاس بیٹھے ہوئے مریضوں پر جو ناز ہوتا ہے وہی کسان کو اپنے لہلہاتے ہوئے کھیت دیکھ کر ہوتا ہے۔ جھینگر اپنے ایکھ کے کھیتوں کو دیکھتا تو اس پر نشہ سا چھا جاتا ہے۔ تین بیگھے زمین تھی۔ اس کے چھ سو تو آپ ہی مل جائیں گے، اور جو کہیں بھگوان نے ڈنڈی تیز کر دی۔ (مراد نرخ سے ) تو پھر کیا پوچھنا، دونوں بیل بوڑھے ہو گئے۔ اب کی نئی گوئیں بٹیسر کے میلہ سے لے آوے گا۔ کہیں دو بیگھے کھیت اور مل گئے تو لکھا لے گا۔ روپیوں کی کیا فکر ہے، بنئے ابھی سے خوشامد کرنے لگے تھے۔ ایسا کوئی نہ تھا جس سے اس نے گاؤں میں لڑائی نہ کی ہو۔ وہ اپنے آگے کسی کو کچھ سمجھتا ہی نہ تھا۔
ایک روز شام کے وقت وہ اپنے بیٹے کو گود میں لیے مٹر کی پھلیاں توڑ رہا تھا۔ اتنے میں اس کوا بھیڑوں کا ایک جھنڈ اپنی طرف آتا دکھائی دیا۔ وہ اپنے دل میں کہنے لگا، ادھر سے بھیڑوں کے نکلنے کا راستہ نہ تھا کیا کھیت کی مینڈ پر سے بھیڑوں کا جھنڈ نہیں جا سکتا تھا؟ بھیڑوں کو ادھر سے لانے کی کیا ضرورت؟ یہ کھیت کو کچلیں گی، چریں گی۔ اس کا دام کون دے گا؟ معلوم ہوتا ہے بدّھو گڈریا ہے۔ بچہ کو گھمنڈ ہو گیا ہے جبھی تو کھیتوں کے بیچ میں سے بھیڑیں لیے جا رہا ہے۔ ذرا اس کی ڈھٹائی تو دیکھو۔ دیکھ رہا ہے کہ میں کھڑا ہوں اور پھر بھی بھیڑوں کو لوٹاتا نہیں۔ کون میرے ساتھ کبھی سلوک کیا ہے کہ میں اس کی مروّت کروں۔ ابھی ایک بھیڑا مول مانگوں تو پانچ روپے سنا دیگا۔ ساری دنیا میں چار روپے کے کمبل بکتے ہیں پر یہ پانچ روپے سے کم بات نہیں کرتا۔
اتنے میں بھیڑیں کھیت کے پاس آ گئیں۔ جھینگر نے للکار کر کہا ارے یہ بھیڑیں کہاں لیے آتے ہو۔ کچھ سوجھتا ہے کہ نہیں؟
بدھو۔ انکسار سے بولا۔ موپا۔ ڈانڈ پر سے نکل جائیں گی، گھوم کر جاؤں گا۔ تو کوس بھرکا چکر پڑے گا۔
جھینگر۔ تو تمھارا چکر بچانے کے لیے میں اپنا کھیت کیوں کچلاؤں ڈانڈ ہی پر سے لے جانا ہے تو اور کھیتوں کے ڈانڈے سے کیوں نہیں لے گئے؟ کیا مجھے کوئی چمار بھنگی سمجھ لیا ہے یا روپیہ کا گھمنڈ ہو گیا ہے؟ لوٹاؤ ان کو۔
بدھو۔ مہتو آج نکل جانے دو۔ پھر کبھی ادھر سے آؤں تو جو ڈند(سزا) چاہے دینا۔
جھینگر۔ کہہ دیا کہ لوٹاؤ انھیں۔ اگر ایک بھیڑ بھی مینڈ پر چڑھ آئی تمھاری کسل نہیں۔
بدھو۔ مہتو، اگر تمھاری ایک بیل بھی کسی بھیڑ کے پیروں کے نیچے آ جائے تو مجھے بٹھا کر سوگالیاں دینا۔
بدھو باتیں تو بڑی لجاجت سے کر رہا تھا۔ مگر لوٹنے میں اپنی کسر شان سمجھتا تھا۔ اس نے دل میں سوچا کہ اسی طرح ذرا ذرا سی دھمکیوں پر بھیڑوں کو لوٹانے لگا تو پھر میں بھیڑیں چرا چکا۔ آج لوٹ جاؤں گا تو کل کو کہیں نکلنے کا راستہ ہی نہ ملے گا۔ سبھی رعب جمانے لگیں گے۔
بدھو بھی گھر کا مضبوط آدمی تھا۔ بارہ کوڑی بھیڑیں تھیں۔ انھیں کھیتوں میں بٹھانے کے لیے فی شب آٹھ آنے کوڑی مزدوری ملتی تھی۔ اس کے علاوہ دودھ بھی فروخت کرتا تھا۔ اون کے کمبل بناتا تھا۔ سوچنے لگا۔‘‘ اتنے گرم ہو رہے ہیں، میرا کر ہی کیا لیں گے؟ کچھ ان کا دبیل تو ہوں نہیں۔‘‘ بھیڑوں نے جو ہری پتّیاں دیکھیں تو بے کل ہو گئیں۔ کھیت میں گھس پڑیں۔ بدھو انھیں ڈنڈوں سے مار مار کر کھیت کے کنارے سے ہٹاتا تھا۔ اور وہ ادھر ادھر سے نکل کر کھیت میں جا گھستی تھیں۔ جھینگر نے گرم ہو کر کہا۔ تم مجھے ہینکڑی جتانے چلے ہو تو تمھاری ہینکڑی بھلا دوں گا۔
بدھو۔ تمھیں دیکھ کر بھڑکتی ہیں، تم ہٹ جاؤ تو میں سب نکال لے جاؤں۔‘‘
جھینگر نے لڑکے کو گودی سے اتار دیا اور اپنا ڈنڈا سنبھال کر بھیڑوں کے سر پر گیا۔ دھوبی بھی اتنی بے دردی سے اپنے گدھوں کو نہ مارتا ہو گا، کسی بھیڑ کی ٹانگ ٹوٹی کسی کی کمر ٹوٹی۔ سب نے زور سے ممیانا شروع کیا۔ بدھو خاموش کھڑا ہوا اپنی فوج کی تباہی، اپنی آنکھوں سے دیکھتا رہا وہ نہ بھیڑوں کو ہانکتا تھا، اور نہ جھینگر سے کچھ کہتا تھا۔ بس کھڑا ہوا تماشا دیکھتا رہا۔ دو منٹ میں جھینگر نے اس فوج کو اپنی حیوانی طاقت سے مار بھگایا۔ بھیڑوں کی فوج کو تباہ کر کے فاتحانہ غرورسے بولا۔ اب سیدھے چلے جاؤ، پھر ادھر سے آنے کا نام نہ لینا۔
بدھو نے چوٹ کھائی ہوئی بھیڑوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا جھینگر، تم نے یہ اچھا کام نہیں کیا۔ پچھتاؤ گے۔
کیلے کو کاٹنا بھی اتنا آسان نہیں، جتنا کسان سے بدلا لینا۔ ان کی ساری کمائی کھیتوں میں رہتی ہے یا کھلیانوں میں، کتنی ارضی و سماوی آفات کے بعد اناج گھر میں آتا ہے اور جو کہیں آفات کے ساتھ عداوت نے میل کر لیا تو بے چارہ کسان کا نہیں رہتا۔ جھینگر نے گھر آ کر اور لوگوں سے اس لڑائی کا حال کہا تو لوگ سمجھانے لگے۔ ’’جھینگر تم نے بڑا برا کیا۔ جان کر انجان بنتے ہو۔ بدھو کو جانتے نہیں کہ کتنا جھگڑا لو آدمی ہے۔ ابھی کچھ نہیں بگڑا، جا کر اسے منا لو نہیں تو تمھارے ساتھ گاؤں پر آفت آ جائے گی‘‘۔ جھینگر کے سمجھ میں بات آئی، پچھتانے لگا کہ میں نے کہاں سے کہاں اسے روکا۔ اگر بھیڑیں تھوڑا بہت چرہی جاتیں تو کون میں اجڑا جاتا تھا۔ اصل میں ہم کسانوں کا بھلا دب کر رہنے ہی میں ہے۔ بھگوان کو بھی ہمارا سر اٹھا کر چلنا اچھا نہیں لگتا۔ جی تو بدھو کے یہاں جانے کو نہ چاہتا تھا، مگر دوسروں کے اصرار سے مجبور ہو کر چلا۔ اگہن کا مہینہ تھا۔ کہرا پڑ رہ تھا۔ چاروں طرف تاریکی چھائی ہوئی تھی۔ گاؤں سے باہر نکلا ہی تھا۔ کہ یکایک اپنے ایکھ کے کھیت کی طرف آگ کے شعلے دیکھ کر چونک پڑا دل دھڑکنے لگا۔ کھیت میں آگ لگی ہوئی تھی بے تحاشا دوڑا۔ مناتا جاتا تھا کہ میرے کھیت میں نہ ہو۔ مگر جیوں جیوں قریب پہنچتا تھا۔ یہ پر امید وہم دور ہوتا جاتا تھا۔ وہ غضب ہی ہو گیا جسے روکنے کے لیے وہ گھر سے چلا تھا۔ ہتھیارے نے آگ لگا دی اور میرے پیچھے سارے گاؤں کو چوپٹ کر دیا۔ اسے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ کھیت آج بہت قریب آ گیا ہے گویا درمیان کے پرتی کھیتوں کو وجود ہی نہیں رہا۔ آخر جب وہ کھیت پر پہنچا تو آگ خوب بھڑک چکی تھی۔ جھینگر نے ہائے ہائے کرنا شروع کیا۔ گاؤں کے لوگ دوڑ پڑے اور کھیتوں سے ارہر کے پودے اکھاڑ کر آگ کو پیٹنے لگے۔ انسان و آتش کی باہمی جنگ کا منظر پیش ہو گیا۔ ایک پہر تک کہرام برپا رہا۔ کبھی ایک فریق غالب آتا، کبھی دوسرا۔ آتشی جانباز مر کر جی اٹھتے تھے اور دوگنی طاقت سے لڑائی میں مستعد ہو کر ہتھیار چلانے لگتے تھے۔ انسانی فوج میں جس سپاہی کی مستعدی سب سے زیادہ روشن تھی وہ بدھو تھا۔ بدھو کمر تک دھوتی چڑھائے اور جان کو ہتھیلی پر رکھے آگ کے شعلوں میں کود پڑتا تھا۔ اور دشمنوں کو شکست دیتے ہوئے بال بال بچ کر نکل آتا تھا۔ بالآخر انسانی فوج فتحیاب ہوئی مگر ایسی فتح جس پر شکست بھی خندہ زن تھی گاؤں بھر کی ایکھ جل کر راکھ ہو گئی اور ایکھ کے ساتھ ساری تمنائیں بھی جل بھن گئیں۔
آگ کس نے لگائی۔ یہ کھلا ہو راز تھا مگر کسی کو کہنے کی ہمّت نہ تھی کوئی ثبوت نہیں اور بلا ثبوت کے بحث کی وقعت ہی کیا؟ جھینگر کو گھر سے نکلنا محال ہو گیا۔ جدھر جاتا طعن و تشنیع کی بوچھار ہوتی۔ لوگ اعلانیہ کہتے کہ یہ آگ تم نے لگوائی تمھیں نے ہمارا ستیاناس کیا۔ تمھیں مارے گھمنڈ کے دھرتی پر پاؤں نہ رکھتے تھے۔ آپ کے آپ گئے اور اپنے ساتھ گاؤں بھر کو بھی لے ڈوبے بدھو کو نہ چھیڑتے تو آج کیوں یہ دن دیکھنا پڑتا؟ جھینگر کو اپنی بربادی کو اتنا رنج نہ تھا۔ جتنا ان جلی کٹی باتوں کا۔ تمام دن گھر میں بیٹھتا رہتا۔ پوس کا مہینہ آیا۔ جہاں ساری رات کولھو چلا کرتے تھے وہاں سناٹا تھا۔ جاڑوں کے سبب لوگ شام ہی سے کواڑ بند کر کے پڑ رہتے اور جھینگر کو کوستے تھے۔ راکھ اور بھی تکلیف دہ تھا۔ ایکھ صرف دولت دینے والی نہیں بلکہ کسانوں کے لیے زندگی بخش بھی ہے اسی کے سہارے کسانوں کا جاڑا پار ہوتا ہے۔ گرم رس پیتے ہیں، ایکھ کی پتّیاں جلاتے ہیں اور اس کے اگوڑے جانوروں کو کھلاتے ہیں۔ گاؤں کے سارے کتّے جو رات کو بھٹیوں کی راکھ میں سویا کرتے تھے، سردی سے مر گئے۔ کتنے ہی جانور چارے کی قلّت سے ختم ہو گئے۔ سردی کی زیادتی ہوئی اور کل گاؤں کھانسی بخار میں مبتلا ہو گیا اور یہ ساری مصیبت جھینگر کی کرنی تھی۔ ابھاگے ہتھیارے جھینگر کی۔
جھینگر نے سوچتے سوچتے قصد کر لیا کہ بدھو کی حالت بھی اپنی ہی سی بناؤں گا۔ اس کے کارن میراستیاناس ہو گیا اور وہ چین کی بانسری بجا رہا ہے۔ میں اس کا ستیاناس کر دوں گا۔
جس روز اس مہلک عناد کی ابتدا ہوئی اسی روز سے بدھو نے اس طرف آنا ترک کر دیا تھا۔ جھینگر نے اس سے ربط ضبط بڑھانا شروع کیا۔ وہ بدھو کو دکھلانا چاہتا تھا کہ تم پر مجھے ذرا بھی شک نہیں ہے۔ ایک روز کمبل لینے کے بہانے گیا، پھر دودھ لینے کے بہانے جانے لگا۔ بدھو اس کی خوب آؤ بھگت کرتا۔ چلم تو آدمی دشمن کو بھی پلا دیتا ہے۔ وہ اسے بلا دودھ اور شربت پلائے نہ جانے دیتا۔ جھینگر آج کل ایک سن لپیٹنے والی مشین میں مزدوری کرنے جایا کرتا تھا۔ اکثر کئی روز کی اجرت یکجائی ملتی تھی۔ بدھو ہی کی مدد سے جھینگر کا روزانہ خرچ چلتا تھا۔ بس جھینگر نے خوب میل جول پیدا کر لیا۔ ایک روز بدّھو نے پوچھا۔ کیوں جھینگر، اگر اپنی ایکھ جلانے والے کو پا جاؤ تو کیا کرو، سچ کہنا۔
جھینگر نے متانت سے کہا۔ میں اس سے کہوں کہ بھیّا ‘ تم نے جو کچھ کیا بہت اچھا کیا۔ میرا گھمنڈ تو توڑ دیا مجھے آدمی بنا دیا۔
بدھو۔ میں جو تمھاری جگہ ہوتا تو اس کا گھر جلائے بغیر نہ مانتا۔
جھینگر۔ چار دن کی جندگانی میں بیر بڑھانے سے کون فائدہ؟ میں تو برباد ہی ہوا، اب اسے برباد کر کے کیا پاؤں گا۔؟
بدھو۔ بس یہی تو آدمی کا دھرم ہے۔ مگر بھائی کرودھ (غصّہ) کے بس میں ہو کر بدھی الٹی ہو جاتی ہے۔
پھاگن کا مہینہ تھا۔ کسان ایکھ بونے کے لیے کھیتوں کو تیار کر رہے تھے، بدھو کا بازار گرم تھا۔ بھیڑوں کی لوٹ مچی ہوئی تھی۔ دو چار آدمی روزانہ دروازہ پر کھڑے خوشامد کیا کرتے۔ بدھو کسی سے سیدھے منہ بات نہ کرتا۔ بھیڑ بٹھانے کی اجرت دوگنی کر دی تھی۔ اگر کوئی اعتراض کرتا تو بے لاگ کہتا ’’بھیا، بھیڑیں تمھارے گلے تو نہیں لگاتا ہوں۔ جی نہ چاہے تو نہ بٹھلاؤ لیکن میں نے جو کہہ دیا ہے اس سے ایک کوڑی بھی کم نہیں ہو سکتی۔‘‘ غرض تھی لوگ اس کی بے مروّتی پر بھی اسے گھیرے ہی رہتے تھے، جیسے پنڈے کسی جاتری کے پیچھے پڑے ہوں۔
لکشمی کا جسم تو بہت بڑا نہیں اور وہ بھی وقت کے مطابق چھوٹا بڑا ہوتا رہتا ہے۔ حتیٰ کہ کبھی وہ اپنی قد و قامت کو سمیٹ کر چند کاغذی الفاظ ہی میں چھپا لیتی ہے۔ کبھی کبھی تو انسان کی زبان پر جا بیٹھتی ہے۔ جسم غائب ہو جاتا ہے۔ مگر ان کے رہنے کے لیے وسیع جگہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ آئیں اور گھر بڑھنے لگا چھوٹے چھوٹے مکان میں ان سے نہیں رہا جاتا۔ بدّھو کا گھر بھی بڑھنے لگا۔ دروازہ پر برآمدے کی تعمیر ہوئی، دو کی جگہ چھ کوٹھریاں بنوائی گئیں۔ یوں کہئے کہ مکان از سر نو بننے لگا۔ کسی کسان سے لکڑی مانگی، کسی سے کھرپل کا آنوا لگانے کے لیے اپلے، کسی سے بانس اور کسی سے سرکنڈے۔ دیوار بنانے کی اجرت دینی پڑی۔ وہ بھی نقد نہیں، بھیڑ کے بچّوں کی شکل میں لکشمی کا یہ اقبال ہے، سارا کام بیگار میں ہو گیا مفت میں اچھا خاصا مکان تیار ہو گیا داخلہ کے جشن کی تیاریاں ہونے لگیں۔
ادھر جھینگر دن بھر مزدوری کرتا تو کہیں آدھا اناج ملتا۔ بدھو کے گھر میں کنچن برس رہا تھا۔ جھینگر جلتا تھا تو کیا بُرا کرتا تھا؟ یہ انیائے کس سے سہا جائے گا۔
ایک روز وہ ٹہلتا ہوا چماروں کے ٹولے کی طرف چلا گیا۔ ہری ہر کو پکارا۔ ہری ہر نے آ کر رام رام کی اور چلم بھری، دونوں پینے لگے۔ یہ چماروں کا مکھیا بڑا بدمعاش آدمی تھا۔ سب کسان اس سے تھر تھر کانپتے تھے۔
جھینگر نے چلم پیتے پیتے کہا۔ آج کل بھاگ واگ نہیں ہوتا کیا؟ کہو، تمھاری آج کل کیسی کٹتی ہے؟‘‘
جھینگر۔ کیا کٹتی ہے۔ نکٹا جیا برے حال؟ دن بھر کارخانے میں مجوری کرتے ہیں تو چولھا جلتا ہے۔ چاندی تو آج کل بدّھو کی ہے۔ رکھنے کی جگہ نہیں ملتی۔ نیا گھر بنا۔ بھیڑیں اور لی ہیں۔ اب گرہ پرویش (داخلہ مکان) کی دھوم ہے۔ ساتوں گاؤں میں نیوتنے کی سپاری جائے گی۔
ہری ہر لچھمی میّا آتی ہیں تو آدمی کی آنکھوں میں سیل (مروت) آ جاتی ہے۔ مگر اس کو دیکھو دھرتی پر پاؤں نہیں دھرتا۔ بولتا ہے تو اینٹھ کر بولتا ہے۔
جھینگر کیوں نہ اینٹھے؟ اس گاؤں میں کون ہے اس کے ٹکّر کا؟ پر یار یہ انیائے تو نہیں دیکھا جاتا۔ جب بھگوان دیں تو سر جھکا کر چلنا چاہیے یہ نہیں کہ اپنے برابر کسی کو سمجھے ہی نہیں۔ اس کو موینگ سنتا ہوں تو بدن میں آگ لگ جاتی ہے اکل کا بانی آج کا سیٹھ۔ چلا ہے ہمیں سے اکڑنے ابھی لنگوٹی لگائے کھیتوں میں کوّے ہانکا کرتا تھا، آج اس کا آسمان میں دِیا جلتا ہے۔
ہری ہر۔ کہو تو کچھ جوگ جاگ کروں۔
جھینگر۔ کیا کرو گے؟ اسی ڈر سے تو وہ گائے بھینس نہیں پالتا۔
ہری ہر۔ بھیڑیں تو ہیں۔
جھینگر۔ کیا بگلا مارے پکھنا ہاتھ۔
ہری ہری۔ پھر تمھیں سوچو۔
جھینگر۔ ایسی جگت نکالو کہ پھر پنپنے نہ پائے۔
اس کے بعد دونوں میں کانا پھوسی ہونے لگی۔ یہ ایک عجیب بات ہے کہ نیکی میں جتنی نفرت ہوتی ہے، بدی میں اتنی ہی رغبت۔ عالم عالم کو دیکھ کر، سادھو سادھو کو دیکھ کر، شاعر شاعر کو دیکھ کر جلتا ہے۔ ایک دوسرے کی صورت نہیں دیکھنا چاہتا۔ مگر جواری جواری کو دیکھ کر، شرابی شرابی کو دیکھ کر، چور چور کو دیکھ کر، ہمدردی جتاتا ہے، مدد کرتا ہے۔ ایک پنڈت جی اگر اندھیرے میں ٹھوکر کھا کر گر پڑیں تو دوسرے پنڈت جی انھیں اٹھانے کے بجائے دو ٹھوکریں اور لگائے کہ وہ پھر اٹھ ہی نہ سکیں۔ مگر ایک چور پر آفت آتے دیکھ کر دوسرا چور اس کی آڑ کر لیتا ہے۔ بدی سے سب نفرت کرتے ہیں اس لیے بدوں میں باہمی محبت ہوتی ہے۔ نیکی کی ساری دنیا تعریف کرتی ہے، اس لئے نیکوں میں مخالفت ہوتی ہے۔ چور کو مار کر چور کیا پائے گا؟ نفرت۔ عالم کی توہین کر کے عالم کیا پائے گا؟ نیک نامی۔
جھینگر اور ہری ہر نے صلاح کر لی۔ سازش کی تدبیر سوچی گئی اس کا نقشہ، وقت اور طریقہ طے کیا گیا۔ جھینگر چلا تو اکڑا جاتا تھا۔ مار لیا دشمن کو اب تو کہاں جاتا ہے۔
دوسرے روز جھینگر کام پر جانے لگا تو پہلے بدّھو کے گھر پہنچا۔ بدّھو نے پوچھا کیوں آج نہیں گئے؟ جھینگر۔ جا تو رہا ہوں، تم سے یہی کہنے آیا تھا کہ میری بچھیا کو اپنی بھیڑوں کے ساتھ کیوں نہیں چرا دیا کرتے؟ بے چاری کھونٹے پر بندھی مری جاتی ہے۔ ’’نہ گھاس، نہ چارا، کیا کھلاویں‘‘؟
بدّھو؟ بھیّا میں گائے بھینس نہیں رکھتا۔ چماروں کو جانتے ہوں یہ ایک ہی ہتھیارے ہوتے ہیں۔ اسی ہری ہر نے میری دو گائیں مار ڈالیں۔ نہ جانے کیا کھلا دیتا ہے۔ تب سے کان پکڑے کہ اب گائے بھینس نہ پالوں گا۔ لیکن تمھاری ایک ہی بچھیا ہے، اس کا کوئی کیا کرے گا؟ جب چاہو پہنچا دو۔
یہ کہہ کر بدّھو اپنے مکان والی دعوت کا سامان اسے دکھانے لگا۔ گھی، شکر، میدہ، ترکاری سب منگا کر رکھا تھا۔ صرف ست نرائن کی کتھا کی دیر تھی۔ جھینگر کی آنکھیں کھل گئیں۔ ایسی تیاری نہ اس نے خود کبھی کی تھی اور نہ کسی کو کرتے دیکھی تھی۔ مزدوری کر گھر کو لوٹا تو سب سے پہلا کام جو اس نے کیا وہ اپنی بچھیا کو بدھو کے گھر پہچانا تھا اسی رات کو بدّھو کے یہاں ست نرائن کی کتھا ہوئی ’’وبرمہ بھوج‘‘ بھی کیا گیا، ساری رات برہمنوں کی تواضع و تکریم میں گذری۔ بھیڑوں کے گلہ میں جانے کا موقع ہی نہ مِلا علی الصباح کھانا کھا کر اٹھا ہی تھا (کیوں کہ رات کا کھانا صبح ملا) کہ ایک آدمی نے آ کر خبر دی۔ بدّھو تم یہاں بیٹھے ہو۔ ادھر بھیڑوں میں بچھیا مری پڑی ہے۔ بھلے آدمی، اس کی پگھیا بھی نہیں کھولی تھی۔
بدّھو نے سنا اور گویا ٹھوکر لگ گئی۔ جھینگر بھی کھانا کھا کر وہیں بیٹھا تھا۔ بولا ہائے میری بچھیا۔ چلو ذرا دیکھوں تو، میں نے تو پگھیا نہیں لگائی تھی۔ اسے بھیڑوں میں پہنچا کر اپنے گھر چلا گیا تھا۔ تم نے یہ پگھیا کب لگا دی۔
بدّھو۔ بھگوان جانے جو میں نے اس کی پگھیا دیکھی بھی ہو، میں تو تب سے بھیڑوں میں گیا ہی نہیں۔
جھینگر۔ جاتے نہ تو پگھیا کون لگا دیتا؟ گئے ہو گے، یاد نہ آتی ہو گی۔
ایک برہمن۔ مری تو بھیڑوں ہی میں نا؟ دنیا تو یہی کہے گی کہ بدّھو کی غفلت سے اس کی موت ہوئی، چاہے پگھیا کسی کی ہو۔
ہری ہر۔ میں نے کل سانجھ کو انھیں بھیڑوں میں بچھیا کو باندھتے دیکھا تھا۔
بدّھو۔ مجھے؟
ہری ہر۔ تم نہیں لاٹھی کندھے پر رکھے، بچھیا کو باندھ رہے تھے؟
بدّھو۔ بڑا سچّا ہے تو، تو نے مجھے بچھیا کو باندھتے دیکھا تھا؟
ہری ہر۔ تو مجھ پر کا ہے کو بگڑتے ہو بھائی؟ تم نے نہیں باندھی تو نہیں سہی۔
برہمن۔ اس کا نشچے کرنا ہو گا گو ہتھیا کو پراشچت کرنا پڑے گا، کچھ ہنسی ٹھٹھا ہے۔
جھینگر۔ مہاراج، کچھ جان بوجھ کر تو باندھی نہیں۔
برہمن۔ اس سے کیا ہوتا؟ ہتھیا اسی طرح لگتی ہے کوئی گؤ کو مارنے نہیں جاتا۔
جھینگر۔ ہاں۔ گؤوں کو کھولنا باندھنا ہے تو جوکھم کا کام۔
برہمن۔ شاستروں میں اسے مہا پاپ کہا ہے۔ گؤ کی ہتھیا برہمن کی ہتھیا سے کم نہیں۔
جھینگر۔ ہاں، پھر گؤ تو ٹھہری ہی اسی سے نہ ان کا مان (اور) ہے۔ جو ماتا سو گؤ۔ لیکن مہاراج۔ چوک ہو گئی۔ کچھ ایساکیجئے کہ بے چارہ تھوڑے میں نپٹ جائے۔
بدّھو کھڑا سن رہا تھا کہ خواہ مخواہ میرے سر گؤ ہتھیا کا الزام تھوپا جا رہا ہے۔ جھینگر کی چالاکی بھی سمجھ رہا تھا، میں لاکھ کہوں کہ میں نے بچھیا نہیں باندھی پر مانے گا کون؟ لوگ یہی کہیں گے کہ پراشچت سے بچنے کے لیے ایسا کہہ رہا ہے۔
برہمن دیوتا کا بھی اس کے پراشچت کرانے میں فائدہ تھا۔ بھلا ایسے موقع پر کب چوکنے والے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بدّھو کو ہتھیا لگ گئی۔ برہمن بھی اس سے جل رہے تھے۔ کسر نکالنے کا موقع ملا۔ تین ماہ تک بھیک مانگنے کی سزا دی گئی۔ پھر سات تیرتھوں کی جاترا، اس پر پانچ سو برہمنوں کا کھلانا اور پانچ گایوں کا دان۔ بدّھو نے سنا تو ہوش اڑ گئے۔ رونے پیٹنے لگا، تو سزا گھٹا کر دو ماہ کر دی گئی۔ اس کے سوا کوئی رعایت نہ ہو سکی۔ نہ کہیں اپیل، نہ کہیں فریاد، بے چارے کو یہ سزا قبول کرنی پڑی۔
بدّھو نے بھیڑیں۔ ایشور کو سونپیں۔ لڑکے چھوٹے تھے۔ عورت اکیلی کیا کرتی۔ غریب جا کر دروازوں پر کھڑا ہوتا اور منہ چھپاتے ہوئے کہتا گائے کی باچھی دیو بن باس، بھیک تو مل جاتی مگر بھیک کے ساتھ دو چار سخت اور توہین آمیز فقرے بھی سننے کو پڑتے۔ دن کو جو کچھ پاتا اسی کو شام کے وقت کسی درخت کے نیچے پکا کر کھا لیتا اور وہیں پر رہتا۔ تکلیف کی تو اس کو پرواہ نہ تھی۔ بھیڑوں کے ساتھ تمام دن چلتا ہی تھا، درخت کے نیچے سوتا ہی تھا، کھانا بھی اس سے کچھ بہتر ہی ملتا تھا، مگر شرم تھی بھیک مانگنے کی۔ خصوصاً جب کوئی بدمزاج عورت یہ طعنے دیتی کہ روٹی کمانے کا اچھا ڈھنگ نکالا ہے، تو اسے دلی قلق ہوتا تھا مگر کرے کیا۔
دو ماہ بعد وہ گھر واپس آیا۔ بال بڑھے ہوئے تھے، کمزور اس قدر کہ گویا ساٹھ سال کا بوڑھا ہو۔ تیرتھ جانے کے لیے روپیوں کا بندوبست کرنا تھا۔ گدڑیوں کو کون مہاجن قرض دے۔ بھیڑوں کا بھروسہ کیا؟ کبھی کبھی وبا پھیلتی ہے تو رات بھرمیں گلّہ کا گلّہ صاف ہو جاتا ہے۔ اس پر جیٹھ کا مہینہ جب بھیڑوں سے کوئی آمدنی ہونے کی امید نہیں، ایک تیلی راضی بھی ہوا، تو دو فی روپیہ سود پر آٹھ ماہ میں سود اصل کے برابر ہو جائے گا۔ یہاں قرض لینے کی ہمّت نہ پڑی۔ ادھر دو مہینوں میں کتنی ہی بھیڑیں چوری چلی گئیں۔ لڑکے چرانے لے جاتے تھے دوسرے گاؤں والے چپکے سے دو ایک بھیڑیں کسی کھیت یا گھر میں چھپا دیتے اور بعد کو مار کر کھا جاتے۔ لڑکے بے چارے ایک تو نہ پکڑ سکتے اور جو کچھ بھی لیتے تو لڑیں کیسے۔ سارا گاؤں ایک ہو جاتا تھا۔ ایک ماہ میں بھیڑیں آدھی بھی نہ رہ جائیں گی۔ بڑا مشکل مسئلہ تھا۔ مجبوراً بدّھو نے ایک قصاب کو بلایا اور سب بھیڑیں اس کے ہاتھ فروخت کر ڈالیں۔ پانچ سو روپیہ ہے ان میں سے دو سو لے کر وہ تیرتھ یاترا کرنے گیا۔ بقیہ روپیہ برمہہ بھوج کے لیے چھوڑ گیا۔
بدھو کے جانے پر اس کے مکان میں دو بار نقب ہوئی مگر یہ خیریت ہوئی کہ جاگ پڑنے کی وجہ سے روپے بچ گئے۔
ساون کا مہینہ تھا چاروں طرف ہریالی پھیلی ہوئی تھی۔ جھینگر کے بیل نہ تھے، کھیت بٹائی پر دے دیے تھے۔ بدھو پراشچت سے فارغ ہو گیا تھا اور اس کے ساتھ ہی مایا کے پھندے سے بھی آزاد ہو گیا تھا۔ نہ جھینگر کے پاس کچھ تھا، نہ بدّھو کے پاس۔ کون کس سے جلتا اور کس لیے جلتا؟
سن کی کل بند ہو جانے کے سبب جھینگر اب بیلداری کا کام کرتا تھا۔ شہر میں ایک بڑا دھرم شالہ بن رہا تھا۔ ہزاروں مزدور کام کرتے تھے۔ جھینگر بھی انھیں میں تھا، ساتویں روز مزدوری کے پیسے لے کر گھر آتا تھا اور رات بھر رہ کر سویرے پھر چلا جاتا تھا۔
بدّھو بھی مزدوری کی تلاش میں یہیں پہنچا۔ جمعدار نے دیکھا کہ کمزور آدمی ہے۔ سخت کام تو اس سے ہو نہ سکے گا۔ کاری گروں کا گارا پہنچا نے کے لیے رکھ لیا، بدّھو سر پر طاش رکھے گا را لینے گیا، تو جھینگر کو دیکھا۔ رام رام ہوئی۔ جھینگر نے گارا بھر دیا۔ بدّھو نے اٹھا لیا۔ دن بھر دونوں اپنا کام کرتے رہے۔
شام کو جھینگر نے پوچھا۔ کچھ بناؤ گے نا؟
بدّھو۔ نہیں تو کھاؤں گا کیا؟
جھینگر۔ میں تو ایک جون جینا کر لیتا ہوں۔ اس جوں ستو کھاتا ہوں کون جھنجھٹ کرے؟
بدّھو۔ ادھر ادھر لکڑیاں پڑی ہوئی ہیں۔ بٹور لاؤ۔ آ ٹاگھرسے لیتا آیا ہوں گھر ہی میں پسوا لیا تھا۔ یہاں تو بڑا مہنگا ملتا ہے۔ اسی پتھر والی چٹان پر آٹا گوندھے لیتا ہوں۔ تم تو میرا بنایا کھاؤ گے نہیں۔ اس لیے تمھیں روٹیاں سینکو میں روٹیاں بناتا جاؤں گا۔
جھینگر۔ تو ا، بھی نہیں ہے۔
بدّھو۔ توے بہت ہیں یہی گارے کا تسلہ مانجے لیتا ہوں۔
آگ جلی، آٹا گوندھا گیا۔ جھینگر نے کچّی پکّی روٹیاں تیاری کیں۔ بدّھو پانی لایا۔ دونوں نے نمک مرچ کے ساتھ روٹیاں کھائیں۔ پھر چلم بھری گئی دونوں پتّھر کی سلوں پر لیٹے اور چلم پینے لگے۔
بدّھو نے کہا۔ تمھاری اوکھ میں آگ میں نے لگائی تھی۔
جھینگر نے مذاق آمیز لہجہ میں کہا۔ جانتا ہوں۔
ذرا دیر بعد جھینگر بولا۔ بچھیا میں نے ہی باندھی تھی اور ہری ہر نے اسے کچھ کھلا دیا تھا بدّھو نے بھی اسی لہجہ میں کہا جانتا ہوں۔
پھر دونوں سوگئے۔
٭٭٭
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...