رفیق سندیلوی(اسلام آباد)
جیسے کوزہ نہیں جانتا
جیسے کوزے پہ
جھک کر
کبھی روشنی کی مرصع صراحی نے
دو گھونٹ امرت انڈیلا نہیں
جیسے کوزہ نہیں جانتا
اک جھری
نوکِ سوزن سی پتلی لکیر
اُس کے پیندے پہ ہے
کیسے محفوظ رکھے گا پانی
جو اندھے کنویں سے
ہَوا کھانستی ٹونٹیوں
بے نمو گھاٹیوں سے
چٹانوں کی باریک درزوں
تڑختی زمیں کی دراڑوں سے
قطرہ بہ قطرہ
اکٹھا ہوا
جیسے کوزہ نہیں جانتا
آبِ زر
منبعء نور سے
اک تسلسل کے عالم میں
بوندوں کی صورت
ٹپکتا ہے
تَر کرتا رہتا ہے
پیاسوں کے لب
پَربجھاتا نہیں ایک دم تشنگی
ایک میقات ہوتی ہے
کوزے کی
بھرنے کے، رسنے کے مابین
اک رات ہوتی ہے!
۔۔۔۔۔۔
رفیق سندیلوی
کیک کا ایک ٹکڑا
کہنہ تر زین بدلی گئی
پھر نئی نعل بندی ہوئی
اور فرس ہنہنایا
سوار اب سواری پر مجبور تھا
میں اکیلا عزادار
کتنے یگوں سے ؍اٹھائے ہوئے
جسم کا تعزیہ
خود ہی اپنے جنم دن پہ مسرور تھا
کپکپاتی چھری
کیک کو وسط تک
چیر کر رک گئی
دل لرزنے لگا
ضعف کی ماری پھونکوں نے
ایک ایک کر کے
بھڑکتی لووں کو بجھایا
عزیزوں نے؍بچّوں نے
تالی بجائی
مبارک مبارک ہوئی
کیک کا ایک ٹکڑا
مرے منہ میں ٹھونسا گیا
نعل کی شکل کا!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رفیق سندیلوی
اک مائع آتش گیر
اک روغن دھندلے رنگ کا
اک مائع آتش گیر
بالائی تہوں پر بہتا ہے
ازلوں سے پیرافین
سوراخ کیا
خود سینہء سنگ میں
برمے سے
اُمڈ آئی ہے
تیل کی لہر
یہ تیل چراغ جلائے گا
فوّارہ تازہ خون کا
شادابی لائے گا
یہ آنسو
ڈھل کر ایندھن میں
پہیّوں کو اور گھمائے گا
وہ پہلی کہانی اور تھی
اب نئی کہانی اور ہے
وہ صخرہ دانی اور تھی
یہ صخرہ دانی اور ہے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رفیق سندیلوی
پَروں کے تلے
خول بیضیے کا ٹوٹا
جو اندر سے
اک چونچ نے ٹھونگ ماری
رطوبت سی تھی
جس میں چوزے کا
سارا بدن تربہ تر تھا
پروں کے تلے
سخت گرمی تھی
نرمی تھی
وہ خواب میں جاگتی تھی
دبے پاؤں
درد اور اینٹھن کا کابوس
کمرے سے باہر کہیں جا چکا تھا
اسی لمحے
بچے کو رکھا گیا
انکیوبیٹر میں
چھاتی میں سانس اس کا اٹکا تھا
نیلی رگوں میں لہو کم تھا
جیسے وہ آنکھیں پرندے کی تھیں
جن کے گوشوں میں نم تھا
یہی چاہتی تھی
کہ پانی میں تیرے
تو پہلومیں بچّہ ہو
شاید کبھی انکیوبیٹر کا ڈھکنا کھلے
اس کا یہ خواب سچّا ہو
ٹھونگیں لگیں
ایک اک کر کے
بیضوں کو
آنکھوں کو
براّق سایہ میسّر ہو
کانوں کو
قیں قیں کی آواز
آنگن کے چھوٹے سے تالاب میں
خواب میں
وہ ابھی سو رہی تھی
پروں میں دبائے ہوئے چونچ اپنی
ابھی جاگتی تھی!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رفیق سندیلوی
کنبے کے ہمراہ
چلچلاتی ہوئی دوپہر میں
لچکدار چھڑیوں کی قوسوں پہ
کپڑے سے آراستہ ،نیم آراستہ
آسماں جیسی چھت کے تلے
آل اولاد
چھوٹی بڑی گٹھڑیاں
زنگ آلود باسن
پھپھوندی لگے دیگچے
چارپائی کے پائے سے
لٹکی ہوئی لالٹین
اپنے اطراف سے بے خبر
جو کی روٹی چباتا
غنودہ مسافر
تحیـّر کے عالم میں
اُڑتاہُوا
گرد کاسست ہالہ
ازل سے
خود اپنی ہی رفتار میں مست
سوتے میں چلتا ہوا بیل
سینگوں پہ دھرتی اُٹھائے ہوئے
کتنی صدیوں سے میں
اپنے کنبے کے ہمراہ رہتا ہوں
سہتا ہوں
خانہ بدوشی کے دکھ
رات دن چرچراتے ہیں
کمزور،بے ڈول پہییے
لچکدار چھڑیوں کی
سانسوں کی قوسیں اُکھڑتی ہیں
ہچکولے آتے ہیں
باسن لرز جاتے ہیں
بیل پاؤں کی مٹّی نہیں چھوڑتا
اپنی گاڑی سے ناطہ نہیں توڑتا!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رفیق سندیلوی
غسلخانے کی حکایت
سخت لُوتھی
حبس تھا
اک آگ تن من میں لگی تھی
آسماں تک
گَرد کی دھندلی سی اک چادر تنی تھی
طائروں کی ٹولیاں چپ تھیں
ہوا گم تھی
شجر ساکن تھے
بجلی شہر بھر کی جا چکی تھی
میں یکایک ایک وحشت کے اثر میں
غسل خانے میں چلا آیا
چٹخنی بند کی
کپڑے اُتارے اور نہانے لگ گیا
شاور کی دھاریں
میرے سر پرگر کے
کاندھوں سے پھسل کے
پیٹ سے ہُوتی ہُوئی صدیاں
مرے پیروں کے تلووں سے نکل کے
فرش پر بہنے لگیں
سرگوشیوں میں
جانے کیا کہنے لگیں
بکھری ہوئی بوندوں کی پیچیدہ زباں میں
غسل خانے کی حکایت
ایک اَ ن دیکھے تقاطر کی کہانی
غسل خانے کی فضا میں
اب سکوں تھا
نیم تاریکی تھی
اک گہرا فسوں تھا
اک صدائے تھی
سانسو ں کی لَے تھی
کوئی شَے تھی
کوئی شَے تھی جس نے میرے کاٹھ جیسے جسم کو
پگھلا دیا تھا
اور میں پانی میں گُھل کر بہہ رہا تھا
بھیگتی آنکھوں سے
اپنے منقلب ہو نے کا منظر دیکھتا تھا
تولیہ،صابون،شیمپو
ساری چیزیں اپنی جگہوں پر پڑی تھیں
میرے کپڑے
ایک کھونٹی پر ٹنگے تھے
لا تعلق،بے خبر مجھ سے
چٹخنی بند تھی
شاور کا پانی
اپنے ہی عالم میں بہتا جا رہا تھا
اور دروازے پہ دستک ہو رہی تھی!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رفیق سندیلوی
مگر مچھ نے مجھے نگلا ہوا ہے
مگر مچھ نے مجھے نگلا ہوا ہے
اک جنینِ ناتواں ہوں
جس گھڑی رکھّی گئی بنیاد میری
اُس گھڑی سے
تیرگی کے پیٹ میں ہوں
خون کی ترسیل
آنول سے
غذا جاری ہے
کچّی آنکھ کے آگے تنی
موہوم سی جھلّی ہٹا کر
دیکھتا ہوں
دیکھتا ہوں
گرم گہرے لیس کے دریامیں
کچھووں،مینڈکوں
جل کیکڑوں کے پارچوں میں
اـوجھڑی کے کھردرے ریشوں میں
سالم ہوں
نبودوبود کے تاریک اندیشوں میں
باہر کون ہے
جو ذات کے اِس خیمہء خاکستری کے
پیٹ کے پھولے ہوئے
گدلے غبارے پر
ازل سے کان رکھ کر
سُن رہا ہے
ہاتھ پاؤں مارنے
کروٹ بدلنے کی صدا
پانی کا گہرا شور ہے
اندر بھی باہر بھی
برہنہ جسم سے چمٹے ہوئے ہیں
کائی کے ریزے
مجھے پھر سے جنم دینے کی خاطر
زچّگی کے اک کلاوے نے
اگلنے کے کسی وعدے نے
صدیوں سے
مجھے جکڑا ہوا ہے
ماں
مگر مچھ نے مجھے نگلا ہوا ہے