ظفر اقبال
کتاب: لا تنقید
صفحہ نمبر: ۲۲۶
سال: 2014ء
شاعری، ظاہر ہے کہ سب سے پہلے خود شاعر کا مسئلہ ہوتا ہے اور اس کے بعد کہیں جا کر وہ قاری، یا نقّاد کا مسئلہ بنتی ہے، کیوں کہ شاعر کے سامنے بھی اصل سوال یہ ہوتا ہے کہ وہ جو شاعری تخلیق کرنے جا رہا ہے، وہ کس طرح ہونی چاہئیے، بالکل ایسی جیسی کہ اُس کے دل سے اُٹھ رہی ہے، یا جیسی اُس کے قارئین کو پسند آسکتی ہو۔ ’ از دل خیزد و بر دل ریزد طرح کی شاعری تو اب ویسے بھی تخلیق کرنا ممکن نہیں رہا، کیونکہ لوگوں کے ذوقِ سخن میں خاصا تغیّر اور تنوّع پیدا ہو چکا ہے۔ جب کہ دل سے اُٹھنے والی آواز کے بارے بھی شاعر سب سے پہلے خود اپنے آپ کو مطمئن کرنا ضروری سمجھتا ہے۔ کہ وہ اُس کے اُس معیار پر پوری اُتر رہی ہے یا نہیں، جو اُس نے اپنے لیے طے کر رکھا ہے، یا جس کی اُس سے عام طور پر توقع کی جاتی ہے۔
اسے انفرادیت کہا جا سکتا ہو یا نہیں، لیکن دوسروں سے مختلف ہونا، یعنی جس حد تک بھی ممکن ہو، شاعر اس لیے بھی ضروری سمجھتا ہے کہ وہ شعرا کے ہجوم میں ایک تو صاف پہچانا جا سکے اور دوسرے اس طریقِ واردات سے اُس کے کلام میں ایک طرح کی تازگی بھی پیدا ہونے کا مکان بڑھ جاتا ہے جو ہر شاعر کی منزل مقصود بھی ٹھہرتی ہے کہ شاعری میں تازہ کاری ہی وہ اِسمِ اعظم ہے جو بند دروازوں کو کھولنے کا حُکم رکھتی ہے، جبکہ اس تازہ کاری کا حصول بھی جُوئے شِیر لانے سے کسی طور کم نہیں ہوتا، اور، یہ ہرگز گوہرِ مراد حاصل کرنے کے لیے شاعر کو سو طرح کے پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں۔ بعض لوگ تو اپنے لیے راستہ ہی الگ نکالنے کا جتن کرتے ہیں، بے شک اس میں سُرخروئی ایک قلیل تعداد ہی کو حاصل ہو۔ چناں چہ اس مقصدِ عزیز کے حصول کی خاطر وہ اپنے تئیں جان کی بازی لگانے کو بھی تیار ہو جاتے ہیں، اور بہت سے خطرات بھی مول لینے کے لیے مستعد۔
چناں چہ مبارک ہیں وہ لوگ جو اِس ضمن میں اپنے لیے ایک بالکل نئی اور انوکھی ہی دنیا آباد کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ لیکن ان میں سے بھی کئی ایسے ہوتے ہیں، عمر جن کے ساتھ وفا نہیں کرتی۔ اس ضِمن بہت سی افسوسناک مثالیں موجود ہیں۔ لیکن شکیب جلالی، جمال احسانی، ثروت حسین اور رئیس فروغؔ تو جیسے کل ہی کی بات لگتی ہے۔ اگر یہ لوگ دس بیس سال بھی مزید رہتے تو بے مثال شاعری تخلیق کرنے پر یہ لوگ ہر طرح سے قادر تھے۔ ان میں سے شکیب اور ثروت تو ایسے ہیں کہ اُنھوں نے اپنی زندگی کا چراغ خود ہی پھونک مارکر گُل کر دیا جب کہ جمال احسانی کو کثرت مَے نوشی لے ڈوبی۔ البتہ رئیس فروغؔ نے غالباً بیماری کے ہاتھوں لاچار ہو کر داعیِ اجل کو لبیک کہا۔
سو آج ہمارے پیش نظر رئیس فروغ ہی کا واحد مجموعہ کلام ہے جو 1982ء میں ’’رات بہت ہوا چلی‘‘ کے نام سے شمیم نوید نے مرتّب کر کے پیش کیا۔ اس مجموعے میں درج شاعری جو نظموں اور غزلوں پر مشتمل ہے، اپنی تازگی اور دوسروں سے بہت حد تک مختلف ہونے کی بنا پر تا دیر یاد رکھی جائے گی۔ حتیّٰ کہ اگر وہ چند برس اور زندہ رہ جاتا تو اس کے متعدد پیروکار اس کا نام زندہ رکھنے کے لیے معرض وجود میں آ چکے ہوتے۔ فیض صاحب نے بھی ایک بار انٹر ویو میں کہا تھا کہ شعر کو تازہ ہونا چاہئیے۔ میری دانست میں غالبؔ اپنی جس غیر معمولی خوبی کی بنا پر آج تک شعری ماحول پر چھایا ہوا ہے، اُسے تازگی کے علاوہ اور کوئی نام شاید ہی دیا جا سکتا ہو۔ اور تازگی بھی وقتی نہیں بل کہ وہ جو تا دیر باقی رہنے والی ہو۔ میرؔ صاحب خدائے سخن ضرور ہیں لیکن غالب کی تازہ کاری شاید انھیں بھی نصیب نہ ہو سکی۔ ممتاز نقاد شمس الرحمٰن فاروقی کی رائے میں میرؔ کلیات کے شاعر ہیں تو غالب انتخاب کے۔
اسی تناظر میں، مجھے یہ بات کہنے میں کوئی باک نہیں کہ قریباً ربع صدی گذر جانے کے باوجود رئیس فروغؔ کا کلام آج بھی روزِ اوّل ہی کی طرح تر و تازہ محسوس ہوتا ہے، ورنہ دیکھا تو یہی گیا ہے کہ ایک شاعر دس سال کے بعد ہی ’’کھڑک‘‘ جاتا ہے۔ وہ اس لیے بھی کہ شاعری بھی کم و بیش دس برس کے بعد اپنا پیرہن اور فیشن تبدیل کر لیتی ہے اور جس میں بنیادی فرق اس بات سے پڑتا ہے کہ پیرایۂ اظہار خود وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ اپنی شکلیں تبدیل کرتا رہتا ہے، اور ایک مخصوص مدّت کے بعد پرانے کی جگہ نیا طرزِ اظہر اپنی جگہ لینے کے لیے آن موجود ہوتا ہے۔ اور، یہ تبدیلی اس حد تک غیر محسوس ہوتی ہے کہ اکثر تخلیق کار اس سے بے خبر ہی رہتے ہیں۔ البتہ جو لوگ اپنے آپ کو اپ ڈیٹ کرتے رہتے ہیں، اُن کی شاعری میں مطلوبہ تبدیلی از خود ہی بروئے کار آتی رہتی ہے۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ بعض مستقبل بیں شعرا کا پیرایۂ اظہار ایک طویل عرصے تک نیا ہی رہتا ہے اور وہ ایسی تبدیلیوں سے متاثر نہیں ہوتا۔ رئیس فروغؔ ایک ایسے ہی شاعر تھے۔ چناں چہ رئیس فروغ جیسے لوگ غیر معمولی صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں، اور مکھی پر مکھی مارکہ طرز اُسلوب سے اپنے آپ کو بطور خاص بچا کر رکھتے ہیں، خواہ انھیں اس ضمن کیسا ہی پِتّہ پانی کرنا پڑے۔ ایسا شاعر یا تو اپنے عہد میں یگانہ و یکتا ہوتا ہے، یا اُس جیسے یا اُس کے ہمسفر اُس عہد میں دوچار ہی ہوتے ہیں۔ بات بے شک نئی نہ ہو، لیکن بات کہنے کا طریقہ اگر نیا ہو تو شاعری کے میدان میں ایک تہلکہ تب بھی پیدا کیا جا سکتا ہے۔ رئیس فروغؔ نے زبان اور اس کے استعمال کے ضِمن میں کوئی انحرافی یا انقلابی پیش رفت نہیں کہ بل کہ مروّج زبان ہی کے بل بوتے پر بے حد عمدہ شاعری کا ایک نمونہ پیش کرنے میں سُرخرو ہوا۔ حال آں کہ اُس زمانے میں لسانی تجربات بڑے زور و شور سے روبہ عمل تھے، بل کہ ایک تحریک کی صورت اختیار کر چکے تھے، اور ایسے تجربات سے عاری شاعری کو اہلِ فن کا ایک طبقہ رجعت پسندی کا نمونہ قرار دینے میں خاصا مستعد ہو چکا تھا۔ لیکن رئیس فروغؔ کے اندر جدّت اور تازگی کا جو وفور موجزن تھا، اُس کے لیے وہی کافی تھا جس کے ذریعے وہ اپنی جملہ سحر کاری برپا کرنے میں کامیاب ہوا۔
ایک تو رئیس کو اپنے ہمعصروں میں یہ امتیاز حاصل تھا کہ اُس کے پاس نئے اور تازہ موضوعات کی کمی نہیں تھی، اور، دوسرے اُس کا ڈکشن دوسروں کی نسبت جدید تر تھا۔ جب کہ انگریزی الفاظ اُس نے کمال خوب صورتی کے ساتھ اُردو میں سمو دیے تھے۔ اُس کی نظمیں زیادہ تر مختصر ہیں، اور، شاید اسی لیے اثر انگیز بھی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ اس راز کو پا چکا تھا کہ اب اُکتا دینے والی طویل نظم کا زمانہ نہیں ہے۔ اُس کی ایک نظم جو ایک بار پڑھنے پر بھی مجھے یاد ہو گئی تھی۔ بند کمرا کے زیرِ عنوان ہے اور جو اس طرح سے ہے
مجھے نہ کھولو
مرے اندھیرے میں
ایک لڑکی
لباس تبدیل کر رہی ہے
اُس کی بعض نظمیں تو باقاعدہ حیران کر دینے والی ہیں، مثلاً نظم ’’انکوائری‘‘ دیکھیے:
کیوں گھومنے والی کرسی پر
اڑتا ہوا بادل جا بیٹھا
کیوں کمپیوٹر کے کیبن میں
پھیلا ہوا جنگل جا بیٹھا
چھوٹے چھوٹے چالاکوں میں
کیوں بڑا سا پاگل جا بیٹھا
نظمیں ملی جُلی ہیں۔ یعنی آزاد بھی اور نثری بھی۔ نثری نظم کا زوردار ہونا تو سیے ہی بہت ضروری ہے کہ اس میں فالتو لفظ کی گنجائش ہوتی نہیں کیوں کہ ضرورتِ شعری نام کی چیز اس میں مفقود ہوتی ہے۔ ایک خوبصورت نثری نظم بہ عنوان ’’نئے شہروں کی بنیاد‘‘
اُن کی بارگاہ میں
جنگل کے شیر
جارُوب کشی کرتے ہیں
موت نے اُن سے وعدہ کیا تھا
آگ نہیں جلائے گی
ساتویں نسل تک
لیکن میں ہوں آٹھویں نسل میں
میں نے اُن کی سفید خوشبو کو محسوس کیا ہے
اُن کی دستار کا
ایک سِرا مشرق میں گُم ہے
ایک اور سِرا ایک اور مشرق میں گُم ہے
وہ سورج کے آگے آگے قبا پہن کر چلتے ہیں
ہم اپنی حدوں میں سِمٹے ہوئے
انھیں دیکھتے ہیں
اور کہتے ہیں
نئے شہروں کی بنیاد وہی رکھتے ہیں
جو جنگل کے شیروں کو
جارُوب کشی پر مجبور کر دیں
ہم تو
اپنے گھوڑوں کی گردن پر
باگ بھی نہیں چھوڑ سکتے
اب ’’لیڈی ڈُفرن‘‘ کے عنوان سے پابند نظم دیکھیں :
ہمیشہ پھولتا پھلتا ترا وجود رہے
جو آج کل تری باتوں میں سرسراتی ہے
وہ آگ وقت گذرنے کے باوجود رہے
میں چاہتا ہوں تِری مامتا کی بانہوں میں
ہر ایک سال نئے پھول کی بہار آئے
تمام عمر تِری چھاتیوں میں دودھ رہے
اسی طرح ’’بوچر‘‘، ’’ریت کا شہر‘‘، ’’سانپ والی‘‘، ’’جنریشن گیپ‘‘، ’’ایکسیڈنٹ‘‘، ’’نئے پرندے‘‘، ’’سگِ ہم سفر اور میں‘‘، ’’زہر بھری‘‘ اور ’’رازیا کا بھائی رافی‘‘ اپنے استحقاق میں بہت عمدہ نظمیں ہیں۔ اب اُس کی غزلوں سے چند شعر
تیرے کرم سے یا رب سب کو اپنی اپنی مراد ملے
جس نے ہمارا دل توڑا ہے اُس کو بھی بیٹا دینا
وہ لمحہ جیسے خدا کے بغیر بیت گیا
اُسے گزار کے میں نے خدا سے کچھ نہ کہا
عشق وہ کارِ مسلسل ہے کہ ہم اپنے لیے
ایک لمحہ بھی پس انداز نہیں کر سکتے
دریچے تو سب کھُل چکے ہیں مگر
دھواں ہے کہ گھر سے نکلتا نہیں
دھوپ نے اور جلایا تو فروغؔ
اور کچھ پیڑ لگائے میں نے
سڑکوں پہ گھومنے کو نکلتے ہیں شام سے
آسیب اپنے کام سے ہم اپنے کام سے
نشّے میں ڈگمگا کے نہ چل سیٹیاں بجا
شاید کوئی چراغ اُتر آئے بام سے
کچھ اِتنے پاس سے ہو کر وہ روشنی گذری
کہ آج تک در و دیوار کو ملال سا ہے
سامنے کچھ دیر لہراتے رہے
پھر وہ ساحل بہہ گئے دریاؤں میں
٭٭٭