کتاب مشاہدے
گوئٹے کا خیال یہ تھا کہ بڑی شاعری کا نقطہ نظر خارجی ہوتا ہے۔ داخلیت آ جانے سے شعری کاوش میں تنزل جیسی تصویر بنتی چلی جاتی ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ شاعر جب تک صرف اپنے ذاتی اور داخلی محسوسات کی تصویریں بناتا رہتا ہے اس کا شعری محور اس کی اپنی ذات ہی رہتی ہے۔ پس ایسے شاعر کو کوئی معقول مقام نہیں دیا جا سکتا۔
رئیس فروغ کا خارجی نقطۂ نظر پوری پوری خوش آہنگی سے آراستہ ہے۔ انہوں نے کہا ہے:
دنیا پہ کبھی عجز کے منتر نہ چلیں گے
بات اس کی چلے گی جو حریفانہ چلے گا
جس ہاتھ میں تیشہ ہے وہی ہاتھ ہمارا
زلفوں میں الجھ کر صفتِ شانہ چلے گا
رئیس فروغ کی اس فکری سطح سے ا تھاہ پہنائی تک جو ولولہ، خود اعتمادی اور جواں عزمی ہے اس میں احساسِ کمتری کو مہمیز کر کے سینہ تانے کھڑے رہنے اور توانائی کے ساتھ چلتے رہنے کا اعلان ملتا ہے۔ مندرجہ بالا دوسرے شعر میں ’’تیشہ‘‘ کا استعارہ بھی اسی حوصلے کی نشاندہی کر رہا ہے۔ تیشہ دراصل اس جدوجہد اور انتھک جہادِ عمل کا نام ہے جو پہاڑوں میں سرنگیں بناتا چلا جاتا ہے۔ لیکن اس استعارے سے ’’تیشہ‘‘ کے علاوہ کنگھی کا کام بھی لیا جا سکتا ہے۔ یہی رئیس فروغ کی اس فکر کی تہہ دار نمود ہے جو سخت کوشی کے ساتھ گیسو نوازی کی لطافت کے ہنر سے بھی آگاہ ہے۔ ورڈز ورتھ نے کہا ہے کہ کوئی قابلِ قدر شاعری، خواہ وہ کسی موضوع پر ہو آج تک کسی بھی شاعر نے نہ تو کی ہے اور نہ لکھی ہے کہ جسے قدرت کی جانب سے احساس اور شعور کا وافر حصہ عطا نہ ہوا ہو اور جس نے لمبی مدت تک غور و خوض نہ کیا ہو۔
رئیس فروغؔ کی شعری دنیا ہم دیکھتے ہیں کہ ورڈز ورتھ کی اس رائے کے ترازو میں پوری اترتی ہے۔ چنانچہ ’’عظمت آدم‘‘ کے عنوان سے انہوں نے احساسِ شعور کو کرید کرید کر جو گلستاں تخلیق کیا ہے وہ ایک طرف تو اپنے قاری کا شعور بیدار کرتا ہے اور دوسری طرف غور و فکر کی دعوت بھی دیتا ہے اور یوں محسوس ہونے لگتا ہے کہ وہ اپنے عہد کے ایک شہزادہ شعور و فکر تھے۔
’’عظمتِ آدم‘‘ بیان کرتے ہوئے وہ ایک آفاقی شخصیت کا روپ اختیار کر لیتے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں۔
عظمتِ آدم
راہ پیما ہے کاروانِ حیات
جادے آباد ہیں زمانوں کے
منتشر ہیں سوادِ صحرا میں
ابدی گیت ساربانوں کے
اجنبی وادیوں میں گام بگام
نقش ہیں نام بے نشانوں کے
قلعۂ کوہ پر چمکتے ہیں
حوصلے بے جگر جوانوں کے
یہ چٹانیں ہیں کچھ کہ پھیلے ہیں
چند اوراق داستانوں کے
کج ہے پیشانی جنوں پہ کلاہ
با ہزاراں ہزار زیبائی
فکر کے نیم وا دریچوں میں
زندگی لے رہی ہے انگڑائی
تیرگی ہے کھلی فضاؤں میں
گرمی سینۂ مسیحائی
بڑھ گیا وزن ہیچ مقداراں
پربتوں پر گراں ہوئی رائی
آسماں گیر آفتاب شکار
ذرہِ خاک کی توانائی
نغمہ پیرا ہے مغرب ایام
لب کونین پر قصیدہ ہے
سر کون و مکاں خمیدہ ہے
عظمت آدمِ عظیم سلام
رئیس فروغ ذاتی زندگی میں اپنی روایات اور اپنے خاندانی ماحول کے پاسدار تھے۔ لیکن اپنے خارج میں وہ وقت کا ساتھ دینے والے شاعر تھے۔ ان کی فکر اور لہجے میں اپنی عصری توانائی اور رنگینی موجود ہے۔ میرے اس تجزیے کو انہیں دیکھنے والوں نے دیکھا بھی ہے اور برتا بھی ہے۔ ان کی مندرجہ ذیل پر فکر اور، خیز نظم میرے تجزیے کی تصدیق کرتی ہے۔
آشوب آگہی
بستیوں کی حدود سے باہر
رنگ و نیرنگ شام و صبح سے دور
شورِ تکرار حسن و قبح سے دور
کسی آواز کا گزر ہی نہیں
خامشی کی اجارہ داری ہے
اور اس خامشی کے دامن میں
ایک گلزار ہے خزاں دیدہ
خشک، خاموش، خفتہ، خوابیدہ
زندگی کا کوئی شرر ہی نہیں
صرف مرگ سکوت طاری ہے
اور اس دشت رنگ گلشن کے
ایک گوشے میں اک شکستہ مزار
خستہ بوسیدہ منہدم مسمار
جس کی قسمت میں نوح گر ہی نہیں
سوگواری ہی سوگواری ہے
اور اس مرقد مہیب میں ہے
ایک طاؤس سر جھکائے ہوئے
تیر آغوش میں چھپائے ہوئے
بال و پر جس کے بال و پر ہی نہیں
خون جاری ہے رخم کاری ہے
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس گلزار عالم کے ایک گورستان میں جب ان کا گزر ہوا تو وہ جس قبر کے لیے جانتے تھے کہ یہ شہید ہے اور اس شہید کے مزار کو جب انہوں نے خستگی سے مسمار ہوتے دیکھا تو وہ بلبلا اٹھے۔ انہوں نے اسی شہید کو ’’طاؤس‘‘ سے تشبیہہ دی ہے۔ طاؤس ایک رنگا رنگ حسین جانور ہوتا ہے۔ شہید بھی اپنے جمالِ باطن میں طاؤس کے دلکش رنگوں سے زیادہ حسین ہوتا ہے۔ ’’خون جاری ہے زخم کاری ہے‘‘ میں سارا پس منظر پیش منظر بن جاتا ہے۔ اہل اسلام کے دینی عقیدے کے مطابق ’’شہید‘‘ مرتے نہیں ہیں۔ اس لیے ان کو لگائے گئے سارے زخم بھی تا قیامت تازہ رہیں گے۔ ان سے خون بہتا ہو گا۔ اس تمام دینی فکر کو انہوں نے اس قدر رمزیہ بنا کر پیش کیا ہے کہ اس پر بڑا غور و خوض کرنا پڑتا ہے۔ ’’بستیوں کی حدود سے باہر‘‘ نظم کے پہلے مصرع میں کہہ کر وہ اپنے قاری کو اس کے مزار پر لے جاتے ہیں اور ’’مرقد مہیب‘‘ کی تشبیہہ سے انہوں نے اس دردناک منظر کی طرف اپنے قاری کو متوجہ کیا ہے کہ ایک شہید کے مرقد کی یہ تباہی ایک مجلس عزا کی متقاضی ہے۔ انہوں نے اس احساس کو ’’آشوب آگہی‘‘ کا عنوان دے کر خود اپنے آپ کو یقیناً مفکر پایا ہے۔ اس نظم کا انیسواں مصرع ان کی اس رمز کو جس کا ذکر میں نے ’’شہید‘‘ کے زاویے سے کیا ہے اس خیال کو در و بست اس مصرع سے کر دیا گیا ہے۔ ’’شہید‘‘ (طاؤس) زندہ ہوتا ہے۔ لیکن
’’بال و پر جس کے بال و پر ہی نہیں‘‘
وہ بظاہر زندہ لوگوں جیسی نقل و حرکت نہیں کر سکتے۔ ہر چند کہ وہ زندہ ہوتے ہیں۔ مگر بقول شاعر:
’’بال و پر جس کے بال و پر ہی نہیں‘‘
بھی ایک استعارہ ہے۔ اس حقیقت کا کہ ’’شہید‘‘ جسے طاؤس کہا گیا ہے۔ واقعی زندہ ہوتا ہے۔ مگر ظاہری زندگی رکھنے والے ہم لوگوں کی طرح وہ نقل و حرکت ایسے نہیں کرتے کہ ہمیں بھی نظر آئے۔ قرآن کریم میں واشگاف الفاظ میں ہمیں انتباہ فرمایا گیا ہے کہ ولا تقولوا لمن یقتل فی سبیل اللہ اموات بل احیاء ولکن لا تشعرون۔ (یعنی اللہ کی راہ میں قتل ہو جانے والوں کو مردہ ہرگز نہ کہو۔ بلکہ وہ تو زندہ ہیں۔ لیکن تمہیں شعور نہیں ہے)۔ اس مسئلے کو بیان کرنے کے لیے رئیس فروغ نے ایک دانشور، ایک فلسفی اور ایک خوش عقیدہ مفکر کی حیثیت سے اپنے وجود کا خوبصورت ثبوت دے دیا ہے اور اس نظم کا عنوان آشوب آگہی رکھ کر میرے خیال کی تصدیق کی ہے۔ لفظ ’’طاؤس‘‘ کو انہوں نے اپنی ایک نظم ’’خود آزادی‘‘ میں بھی استعمال کیا ہے۔ لیکن اس نظم میں ’’طاؤس‘‘ انہوں نے خود کو بنایا ہے اور اپنے باطنی حسن کو دیکھ لیا ہے۔ نیز سوسائٹی اور اجتماعی ماحول سے اس ’’طاؤس‘‘ نے شاید ساز کر لیا ہے اور اس حادثے کو ’’خود آزادی‘‘ بہت صحیح کہا ہے۔
رئیس فروغ کے ذاتی محسوسات اور داخلی کیفیات کی ایک کہکشاں۔ ان کی ایک نظم ’’اجنبی خوشبو‘‘ میں نظر آتی ہے۔ یہ ایک معریٰ نظم ہے۔ جو اشاراتی نظم کہی جا سکتی ہے۔ خوبصورت لفظوں سے خوبصورت منظر کشی کی گئی ہے۔ یہی نظم اگر بطور مثنوی کہی جاتی تو زیادہ بہتر کوشش کہی جا سکتی تھی۔
اس نظم میں یہ تراکیب وضع کی گئی ہیں۔ ملاحظہ ہو:
آسماں کی تماشہ گاہوں۔ مصورانِ بہار۔ چاند عنابی۔ زمرد کے خوشنما خوشے۔ اس نظم کے آخری شعر سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف اس شعری خیال یا اشاراتی قوت شامہ نے باقی معریٰ مصارع بھی کہلوائے ہیں۔ آخری شعر اور اس کی ایک خوب تر تراش بہت صاف اور سادہ ہے۔ وہ آخری شعر یہ ہے۔
کچھ دنوں سے اک اجنبی خوشبو
کیوں مرے ساتھ ساتھ رہتی ہے
اس نظم سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ یہ کوئی لمسیاتی احساس ہے یا کوئی روحانی لطافت ہے۔ بہر نوع خوبصورت لفظوں اور لفظی تراکیب کے لحاظ سے یہ اچھی نظم ہے۔
رئیس فروغ کی مختصر سی زندگی میں بہت سی تبدیلیاں آتی رہیں۔ وہ اپنی ملازمت کے آخری دور میں جن صحبتوں میں رہے اور جب قمر جمیل سے ان کا ساتھ ہوا تو ان کی سوچ اور ان کے اظہار میں بڑے انقلاب آئے وہ ایک پختہ اور اعلیٰ اقدار کے ماحول کے علاوہ قدیم روایات میں پلے بڑھے انسان تھے۔ لیکن ان کی عمر کی آخری دو دہائیوں میں ان کی قربت ایسے حلقے سے ہو گئی جو ’’نثری شاعری‘‘ کا بہت بڑا علم بردار تھا۔
رئیس فروغ میں تمام شاعرانہ صلاحیتیں موجود تھیں اور خوش فکر، تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے بہت اچھے غزل گو تھے۔ وہ اپنی پرواز فکر میں گوناگوں صلاحیتِ اظہار کی قدرت رکھتے تھے۔ وہ جس ماحول اور مدارسِ فکر میں صبح و شام گزار رہے تھے، وہ دو مدارسِ فکر میں تقسیم تھا۔ اس میں ایک مدرسۂ فکر سلیم احمد کا تھا۔ جس کی پشت پر پروفیسر حسن عسکری جیسی عظیم شخصیت کی تعلیم و تربیت تھی اور دوسرا مدرسۂ فکر قمر جمیل کا تھا۔ جس کے افکار کی بنیاد تمام مغربی شعراء ڈرامہ نگار اور نقادوں پر تھی۔ قمر جمیل جس تعلیمی اور علمی دنیا کی نذر اپنے آپ کو کر چکے تھے وہ تھی کولرج، ملٹن، شیکسپئر، ورڈزورتھ، ٹینی سن، اسکاٹ جیمز، جانسن، ڈرائیڈین، لانجائینس، روسو اور میتھو آرنلڈ کی تعلیم و تنقید اور شاعری کے لیے مغربی افکار کی ترویج، جس کی وجہ سے وہ مشرقی طریقِ اظہار اور افکار عالیہ کی شاہراہ سے پھسل گئے تھے۔ رئیس فروغ کے خیالات اور طریقِ اظہار نے قمر جمیل سے متاثر ہو کر مشرقی افکار سے آراستہ غزل گوئی سے کچھ کچھ کنارہ سا کر لیا تھا۔ حالانکہ وہ بہت اچھے غزل گو اور زیادہ غور و فکر کرنے والے فرد تھے۔
رئیس فروغؔ کی غزلوں میں غالب، جگر اور حسرت موہانی کی شعری دھڑکن شامل تھی اور اسے واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔
غالب اور جگر کے وہ کتنے شیدائی اور ان کی فنی عظمت کے کس قدر معترف تھے اس کا اندازہ ان دو نظموں سے لگایا جا سکتا ہے، ہر چند کہ جوش کا ذکر بھی ان کی ایک چھوٹی سی معریٰ نظم میں موجود ہے۔ مگر اس نظم میں جوش کے فن، ان کی لفظیات، ان کی قدرتِ بیان، ان کی جزئیات، ان کی انفرادیت اور ان کی عادات و خواص کا کوئی ذکر نہیں ہے، بلکہ صرف جوشؔ کے کافر ہونے کی وکالت کی ہے:
جوش کافر
جوش کافر کو گنہگار کہو گے
تو میاں
اپنے گناہوں میں اضافہ ہی کرو گے
سمجھے
جوش انسان تھا
بیداریِ انساں کی قسم
اس کو دیکھا گیا تا مرگ خمیدہ نہ کہیں
نہ بکا اس کا قلم
جوش اعلان تھا جھوٹوں کے خلاف
اس کی مقراضِ خیالات جو چلتی
تو اترتے ہی چلے جاتے تھے
زہادِ ریاکار کے جسموں سے غلاف
زندگی کے لیے بے کار ہو تم
یار اگر
جوش کافر کے گنہگار ہو تم
کفر یا جوش کی حمایت کے بعد ان کی نظم ’’غالب‘‘ کو دیکھئے۔
غالب
اتفاقاً کہیں صدیوں میں گزر کرتا ہے
سوئے گیتی کوئی صیقل گر آئینۂ سنگ
مدتوں بعد کوئی مست بتاتا ہے کہ ہے
مایۂ عقل ترازوئے جنوں کا پاسنگ
روز لگتا نہیں دارائے سخن کا دربار
جس کی سرکار میں کرتی ہے گدائی فرہنگ
بند پاتا ہے تو آزادہ روی میں مسرور
مردِ خود بیں درِ کعبہ سے پلٹ جاتا ہے
دل کو رہنِ طلبِ جامِ سفالیں کر کے شوکتِ ساغرِ جمشید کو ٹھکراتا ہے
برق سے شمع سیہ خانہ جلانے والا
آبگینہ کو مئے تند سے پگھلاتا ہے
شیوۂ عشق تنک ظرفیِ منصور نہیں
ورنہ ہر قطرہ میں دجلہ تو نظر آتا ہے
کچھ نہ پانے پہ بھی عالم کو دلِ رمز شناس
شاہدِ ہستی مطلق کی کمر پاتا ہے
فن پہ چلتا نہیں قزاقِ اجل کا سوفار
جل کے بجھتا ہی نہیں سوز تمنا کا چراغ
رنگ نیرنگیِ دوراں میں نہیں کھو سکتا خونِ یک مجمع جذبات سے سینچا ہوا باغ
آیۂ لوحِ ابد، دستِ جنوں کی تحریر شمع محراب بقا سینۂ فنکار کا داغ
رئیس فروغ کی ایک دسترس اور فنکاری یہ بھی ہے کہ غالب کو جو ہدیہ عقیدت انہوں نے ادا کیا ہے اس کی گیرائی غالب کے لہجے اور لفظیات کے در و بست کا نمونہ ہے۔ ان کے ہاں عجز بیان کا گمان بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح انہوں نے جگر مرادآبادی سے متعلق اپنی محبت کا اظہار بھی غزل مسلسل کے اہتمام سے کر کے یہ جتا دیا ہے کہ غزل کے روایتی اہتمام اور فنی چلن کا پیروکار رہنے میں بھی عاجز نہیں ہیں اور مسلسل غزلوں میں نوحے کا ٹھاٹھ بھی موجود ہے جو ان کے دل کی آواز ہے۔ چنانچہ ’’بیاد جگر‘‘ کے عنوان سے جو نظم انہوں نے تحریر کی ہے اس میں ان کا قلبی درد بخوبی محسوس کیا جا سکتا ہے۔
ماتم ہے حلقہ ہائے ادب میں جگرؔ گئے
اردو زباں کے دوش پہ گیسو بکھر گئے
سچ ہے کہ ان کے ساتھ ہوا ختم ایک دور
سچ ہے وہ ایک دور کا آغاز کر گئے
اپنے سخن سے عہدِ گذشتہ کے سامنے
اس بیسویں صدی کو سرفراز کر گئے
اے شعر تیرے خاکۂ بے رنگ میں جگرؔ
اک رنگ بھرنے آئے تھے اک رنگ بھر گئے
رندی ہو، عاشقی ہو، ادب ہو کہ اتقا
ہر اک مقام سے وہ غزل خواں گزر گئے
جس طرح ان کے ہر رگ و پے میں تھا ان کا فن
وہ اپنے فن کی ہر رگ و پے میں اتر گئے
اک رندِ بادہ مست کے عکس خیال سے
فکر و نظر کے آئینہ خانے سنور گئے
برحق ہے موت، موت کا شکوہ نہیں ہمیں
ہاں یہ ملال ہے کہ وہ کچھ پیشتر گئے
افسوس رسم و راہ نہ پیدا ہوئی فروغؔ
جب محفلِ ادب میں ہم آئے جگرؔ گئے
علمائے ادب کا کہنا ہے کہ جذبے کی شدت سے فن کو رفعت ملتی ہے اور جذبے کی شدت مشروط ہے رفعتِ خیال سے۔ یہ بھی واقعہ ہے کہ جذبے کی شدت کے بغیر، رفعتِ خیال، یقین کے ساتھ فن کی عظمت کو نہیں پا سکتی۔ رئیس فروغؔ کی تصویر اس فریم میں پوری طرح سجی ہوئی نظر آتی ہے۔
جگر صاحب کے انتقال کی خبر نے کس طرح رئیس فروغ کے جذبے اور ایک بڑے شاعر کی جدائی کو محسوس کیا۔ یہ ان کے جذبۂ محبت اور ان کے اذیتِ احساس کی ترجمان ہے۔ یہ وہ نظم ہے جو انہوں نے پورے اخلاص اور کربِ احساس سے لکھی ہے۔ اس نظم (غزل مسلسل) میں نغمگی کا جوہر بھی ہے اور اسلامی نظریۂ فنا و بقاء کا رچاؤ بھی موجود ہے۔ اس غزلِ مسلسل کا مطالعہ ادب کے رمز شناسوں کے لیے مہمیزِ فکر مہیا کرے گا۔
جگرؔ مرادآبادی
ادب کی آستیں ہے تر
غزل کی زلف منتشر
یہ کیا ہے تیر یا خبر
فنا کی سرد راہ پر
جگر کا آخری سفر
عجب خبر ہے بے خبر
دروغ و کذب سر بسر
کہاں فنا کہاں جگرؔ
جگر تو ہیں غزل غزل
غزل غزل ہے بے بدل
زباں امر، بیاں اٹل
درائے پنجۂ اجل
بلند تر عظیم تر
وہ نغمگی سخن سخن
شگفتگی چمن چمن
وہ سادگی وہ بانکپن
وہ فن کہ آبروئے فن
ہنر کہ نازشِ ہنر
تخیلات برق رو
نگارشات نو بہ نو
جمال و رنگ و نور و ضو
لگی ہوئی کسی سے لو
جمی ہوئی کہیں نظر
جو پی تو قید تھی نہ حد
نہ پی تو جامِ جم بھی رد
وہ فیصلوں میں شد و مد
جنوں سند، خرد سند
وہ کوہ کن وہ تیشہ گر
وہ شخصیت ڈھلی بنی
وہ شیوہ ہائے گفتنی
نہ برہمی نہ بد ظنی
نظر کشادہ، دل غنی
شریف اور معتبر
اجل پہ ہے ہمیں یقیں
بدن امانتِ زمیں
مگر کلام دل نشیں
وہ مر گئے نہیں نہیں
ابھی حیات ہیں جگر
رئیس فروغ کی یہ پیش گوئی ’’ابھی حیات ہیں جگر‘‘ وہ حقیقت ہے جو اس وقت تک ثابت ہوتی رہے گی جب تک اردو ادب زندہ ہے اور غزل بھی اس وقت تک زندہ رہے گی۔ جب تک ادب زندہ ہے۔
رئیس فروغ نے ’’غالب‘‘ پر بھی اپنے جذبوں اور قلبی کرب کو خوبصورت استعاروں اور تشبیہوں سے حسین الفاظ میں استعمال کیا ہے۔ استعارہ محض ادب عالیہ کی زبان ہی نہیں، بلکہ عام انسانی زندگی میں استعاروں اور تشبیہوں کا استعمال قریب قریب عام ہے۔ جیسے کشمیر کے ذکر میں ’’جنت نظیر‘‘ کی تشبیہہ اور کہیں کہیں استعاروں اور بعض باتوں میں تلمیح بھی آ جاتی ہے۔ جوش کشمیر گئے تھے، کشمیر کے سحر انگیز اور سحر آمیز مناظر کو دیکھ کر انہیں آدم علیہ السلام کی جنت سے نکال دینے والی بات یاد آئی تو انہوں نے بے ساختہ کہہ دیا تھا کہ جوش کشمیر میں آ پہنچا ہے۔ ’’اللہ سے انتقامِ آدم لینے۔ یا زلفوں کے لیے ’’واللیل‘‘ اور چہرے کے لیے ’’والشمس‘‘ کی تشبیہہ یا استعارہ کسی ماں کا اپنے کالے کلوٹے بچے کو ’’میرا چندا‘‘ کہنا، یا کسی تندرست بچے کو اس کی ماں کہہ دیتی ہے ’’میرا شیر‘‘ وغیرہ۔ یہ چند عام مثالیں ہیں، جذبات کی شدت میں پڑھے لکھے اور بالکل ان پڑھ لوگ، اپنی اپنی صلاحیت، اپنے اپنے تخیل کی پرواز، اپنے اپنے جذبات کی شدت اور قدرتِ کلام کے مطابق استعاروں کا استعمال بر محل کرتے ہیں۔ لیکن عام لوگوں اور بڑے شعراء کا تخیل، ان کی فکر، ان کے جذبے کی سطحیں قطعی مختلف اور ممتاز ہوتی ہیں۔
عوام کے استعارے بار بار استعمال کی وجہ سے عوام میں کچھ نہ کچھ بے اثر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ شاعر نئے نئے استعارے تخلیق کرتا ہے۔ شاعر کا مشاہدہ اور احساس بہت سی ایسی چیزوں سے شدت اختیار کر لیتا ہے جو عوام الناس کے لیے عام ہوتی ہیں۔
سہل ممتنع، کنایوں، اشاروں، تشبیہوں، استعاروں، تلمیحوں اور دیگر صنائع بدائع کے خزانے، ماضی قریب کے اساتذہ کے کلام میں مدفون ہیں۔ استاد داغؔ کے نورتنوں میں سے ایک نامور رتن سید عبد الوحید فداؔ گلاؤٹھوی بھی تھے۔ جنہوں نے داغؔ اسکول میں مضامینِ تصوف کی داغ بیل ڈالی۔ پھر ان کے جانشین حضرت قابلؔ گلاؤٹھوی نے استاد کے فنِ شعر کو بامِ عروج پر پہنچایا۔ اس وقت محاسنِ کلام کے ضمن میں مجھے ایک شعر سید عبد الوحید گلاؤٹھوی کا یاد آ رہا ہے، جو ہدیۂ قارئین ہے:
ہوا ہے کون سرگرم تبسم
کہ پھولوں کو پسینہ آ رہا ہے
اللہ اکبر کیا شعر کہا ہے، ان بزرگوں نے۔ رئیس فروغؔ نے ان اساتذہ کو خوب خوب پڑھا ہے اور پھر ان سب بزرگوں کی بساطِ شعر پر طرح طرح سے اپنے مہرے چلائے ہیں۔ چنانچہ استعاروں، تلمیحوں اور تشبیہوں کا خوبصورت استعمال رئیس فروغؔ کے ہاں ملتا چلا جاتا ہے۔ اب ان کی ایک اور نظم ’’چاند رات‘‘ کے کچھ مصرعے ملاحظہ فرمائیں:
چاند بولا کہ جو کہنا ہے کہو جلد کہو
فرصتِ شوق بہت کم ہے بہت ہی کم ہے
کسی آواز پہ جلتے ہوئے لب رکھے تھے
روشنی کو کبھی بستر میں لٹا کر دیکھو
تشنگی عاقبت اندیش نہیں ہوتی ہے
ذائقہ ہو کہ نہ ہو خشک زباں تر ہو جائے
یہ نظم رئیس فروغ کی ایک داخلی لمسیاتی محرومی کی اشاراتی تصویر ہے اور طہارتِ خیال سے محرومی کا اعلا ن کر رہی ہے۔ ’’چاند رات‘‘ پڑھ کر احتیاطاً یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس کا محور ’’جنس‘‘ سے آگے نہیں گھوم سکا ہے۔ اس نظم کے علاوہ استعاروں، تشبیہوں اور اشاروں ہی اشاروں میں ایک واضح رمزِ اتصال کو اس قدر حسن سے دو متخالف جنسوں کی یکجائی دکھائی ہے کہ بے ساختہ ’’واہ‘‘ نمودار ہو جاتی ہے۔
بہار
سرِ انگشت سے بنا کے صلیب
درِ معبد سے نصف شب کے قریب
اک جواں سال راہبہ نکلی
سر سے سینہ کی طرف اور دہنے کاندھے سے بائیں کاندھے کی طرف انگلی کے پہلے پوروے سے نشان صلیب بن جاتا ہے۔ اس طرح صلیب کا یہ نشان ممکن ہے کہ مسلمانوں کے ’’لاحول ولا قوت الہ باللہ العلی العظیم‘‘ کی طرح استعمال میں لایا جاتا ہو اور ایک حسین جوان راہبہ یہ نشان مسیح کی پناہ میں پاک، صاف رہنے کی دعائیہ طلب کے بطور استعمال کر رہی ہو۔ لیکن اس منظر کے ساتھ دوسرا تاریک منظر وہ ہے، جب وہ کہتے ہیں:
دو نئے قہقہوں سے پہلی بار
مدت العمر میں ہوئے بیدار
تیرہ قسمت صنوبروں کے نصیب
اس کے بعد جسمانی قرب کو اشارے سے بتاتے ہیں:
روئے مہتاب کے لیے آنچل
بن گیا اک سحاب آوارہ
دورِ تخلیق میں ہے فن پارہ
یعنی وہاں چاندنی پھیلی ہوئی تھی جو اس ’’قربت‘‘ کی پول کھول سکتی تھی، مگر بادل کا ایک ٹکڑا ادھر آ نکلا تھا، تاریکی ہوئی اور ’’دورِ تخلیق‘‘ کا عمل شروع ہو گیا، اس کارِ تخلیق کے لیے ’’فن پارہ‘‘ کا برقع اڑھا کر رئیس فروغ نے اپنے فنی کمال کو صاف دکھا دیا ہے۔ پھر اگلے بند کے تین مصرعوں میں انہوں نے ساری بات کے چہرے سے نقاب پلٹ دی ہے۔
صبح جب مائل نزول ہوئی
جلوہ فرماتھا شہ پارۂ فن
ریشمی ڈور اور گداز بدن
آخری بند کے آخری چار مصرعوں میں اس جنسی منظر نامے کی تکمیل کر دی ہے۔ ملاحظہ فرمائیں
جو کلی جس جگہ تھی پھول ہوئی
اور اس دن سے پھول کھلنے کی
فصل ہر سال آئے جاتی ہے
راہبہ مسکرائے جاتی ہے
راہبائیں حضرت مسیح کی کنواریاں کہلاتی ہیں اور ان کے مرجھائے ہوئے چہرے اور انسانی جسم کے داعیوں کی آگ اندر ہی اندر انہیں پھونکے دیتی ہے۔ لیکن ریشمی ڈور جو راہباؤں کی کمر میں بائیں جانب دو خوبصورت پھندنوں سے آراستہ ہوتی ہے۔ وہ جس گداز بدن کو اپنی پناہ میں لیے ہوتی ہے، اس دن وہ ’’ریشمی ڈور‘‘ حفاظت نہ کر سکی اور ’’گداز بدن‘‘ نے اپنا جنسی داعیہ پورا کر لیا، میں کہہ سکتا ہوں کہ اپنی داخلیت کو بڑے ہی حسن کے ساتھ رئیس فروغ نے ایک خارجی مشاہدہ بنا کر اپنی فنکاری کا لوہا اپنے قارئین سے منوا لیا۔
رئیس فروغ کے ہاں جذبے، استعارے اور تشابیہ کی قطعی منفرد فراوانی ملتی ہے اور وہ اپنے نئے معاصرین سے بہت آگے نکلے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان کی غزلوں میں جدید اندازِ فکر و بیان کے ساتھ ہماری مشرقی روایات اور غزل کے آداب کا اہتمام ملتا ہے۔ مثلاً
نظر آتی ہے اکثر دھوپ شب کو سائبانوں میں
ہمارے ساتھ کچھ آسیب رہتے ہیں مکانوں میں
ہمیں دیکھو کئی ایذا طلب ایسے بھی ہوتے ہیں
کہ اپنا نام بھی لیتے ہیں اپنے مہربانوں میں
کئی سودے ہیں اشیائے ضرورت کے علاوہ بھی
کہو تو اپنے خوابوں کو سجا دیں ان دکانوں میں
رئیس فروغ کے جذبوں میں ایک سلامت روی مسلسل نظر آتی ہے۔ ان میں کہیں استعارے ملتے ہیں۔ کہیں تشبیہیں سجی ملتی ہیں اور کہیں رجائیت کی لہریں ہیں، کہیں وہ ایک درد مند مفکر نظر آتے ہیں اور کہیں وہ اس خانوادے کے نظریاتی اور فکری مقلد کے طور پر ملتے ہیں جو ان کا موروثی حصہ ہے۔ غزل کی روایات کے مطابق انہیں ان کے آئینے میں دیکھا جا سکتا ہے۔ میری یہ رائے اگر تصدیق طلب نظر آئے تو اس کے ثبوت کے لیے ان کی ایک غزل ان کی فکری، جذباتی اور روحانی کیفیات کی نمائندگی کے لیے کافی ہے۔
نمایاں کم سے کم اتنا تو حسنِ یار ہو جائے
کہ تمیئز تجلی و نظر دشوار ہو جائے
کوئی شیخ حرم بن جائے یا میخوار ہو جائے
مگر انسان میں انسانیت بیدار ہو جائے
ہم ایسی کیفیت کو اعتراف کیفیت کہتے ہیں
کہ لب ساکت ہوں اور روئے حسیں گلنار ہو جائے
اگر پردہ ہی لازم ہے تو اتنے پاس آ جاؤ
کہ آخر کار تم کو دیکھنا دشوار ہو جائے
شرف انسانی کی تمام تر پاسداری کے ساتھ وہ ایک جارح مصلح و مفکر کے طور پر اسی غزل میں یہ شعر بھی کہتے ہیں
مناسب ہی نہیں، لازم ہے اس کو غرق کر دینا
کہ جس کو غرق کر دینے سے کشتی پار ہو جائے
اس کے فوراً بعد وہ رجائیت کی کیفیت میں پہنچے ہوئے ملتے ہیں۔
ہوا کا رخ بدلنے میں کہیں کچھ دیر لگتی ہے
جہاں صحرا ہے، کیا معلوم کل گلزار ہو جائے
وقت کے مبصر وہ اس کے بعد والے شعر میں ہو جاتے ہیں (اور یہی غزل کی اصل صورت ہے):
یہ دنیا ہے یہاں تو انقلاب آتے ہی رہتے ہیں
نہ جانے کون سی تعمیر کب مسمار ہو جائے
رئیس فروغ دراصل مرادآباد کے ایک معروف اور محترم خانوادہ تصوف کے چشم و چراغ تھے۔ ہجرت کے بعد کراچی میں انہیں جس ماحول میں اپنے آزوقہ حیات کی مجبوریوں کی وجہ سے رہنا پڑا اسے جاننے والے بخوبی جانتے ہیں کہ اسی وجہ سے وہ پروفیسر محمد حسن عسکری کے مدرسہ فکر کی طرف نہ جا سکے۔ لیکن ان کی عہد طفلی سے عہد جوانی تک جس گود میں پرورش و تربیت ہوئی وہ ان کے مزاجی خمیر میں رچی بسی ہوئی تھی، اسی لیے وہ ادھر ادھر دوڑتے دوڑتے کہیں نہ کہیں اپنی پختہ ماحولی اور تربیتی فضا میں لوٹ لوٹ آتے تھے مثلاً
تباہیِ دلِ ناکامیاب کام آئی
کہ زندگی کو مٹایا تو زندگی پائی
جہاں جہاں بھی محبت نے دی انہیں آواز
وہیں وہیں چمنستاں کھلے بہار آئی
جنونِ عشق کے بھی مختلف مدارج ہیں
نہ بن سکا جو تماشہ بنا تماشائی
فروغؔ کشمکشِ جستجو نہیں جاتی
اب اس کو پا لیا میں نے تو اپنی یاد آئی
تصوف کی دنیا میں ایک مرحلہ جب خود شناسی کا آتا ہے تو اس مقام پر تصویر کشی انہوں نے یوں کی ہے
تو آفتاب ہے، میں ذرہ ہوں زمانے میں
ترا جواب تو کیا ہو مرا جواب نہیں
دل میں گداز کیسے حاصل ہو سکتا ہے، وہ صرف مدرسۂ تصوف ہے، یہی بات انہوں نے برے حتمی لہجے میں کہی ہے۔
گداز دل نہیں حاصل اگر فروغؔ تو دل
وہ آئینہ ہے کہ جس آئینہ میں آب نہیں
بابا ذہین شاہ تاجی کا ایک شعر ہے
جمالیات کا کوئی مرقعِ رنگیں
وہ جس سے آئینۂ بزم دامنِ گلچیں
رئیس فروغ اس بات کو اپنے انداز میں اس طرح بیان کرتے ہیں:
ایک رنگیں فکر میں ڈوبا ہوا رہتا ہوں میں
اپنے جھرمٹ میں لیے رہتی ہیں تنویریں مجھے
اندازِ بیان اور رنگینیِ فکر ہر چند کہ جداگانہ ہے، لیکن بات کا نقطۂ فکر ایک ہی ہے۔ اسی طرح ایک شعر سید رفیق عزیزی کا ہے، ملاحظہ ہو
ہے ہمارے ہی کیف کی تصویر
حسنِ محفل بھی میرِ محفل بھی
رئیس فروغ نے اسی مضمون کو پوری سچائی کے جذبے کے ساتھ بیان کیا ہے، وہ کہتے ہیں۔
آ جائے کوئی دور نہ بدلے کا یہ قانون
میکش ہی چلائیں گے تو میخانہ چلے گا
ایک مسلمہ مقولہ ہے ’’یک در گری، محکم بہ گیر‘‘ رئیس نے اس بات کو غزل میں کہا ہے، وہ کہتے ہیں
بنا لے کوئی مقصد زندگی کا
خدا کا مستقل ہو یا خودی کا
ایک معروف مصرع ہے ’’جو چاہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا‘‘
رئیس فروغ اس بڑے مضمون کو نہایت ہی چھوٹی بحر میں اس انداز اور چابکدستی کے ساتھ بیان کرتے ہیں کہ یہ ان کا فنی کمال بن جاتا ہے:
ابتدا آپ نے کی مجھ پہ الزام رہا
ہر نفس آخرِ کار ان کا پیغام رہا
یہ آخری شعر صوفیوں کے ایک شغل ’’پاسِ انفاس‘‘ کا عکاس ہے۔ ’’پاس انفاس‘‘ ایک اصطلاحِ تصوف ہے اور اس کے معنی سمجھنے کے لیے میں سید رفیق عزیزی کی غزل کا مطلع پیش کر رہا ہوں۔ جس سے اس اصطلاح کے معنی سمجھ میں آ جائیں گے:
للہ الحمد کے تو پاس تو ہے
کچھ نگہ داریِ انفاس تو ہے
رئیس فروغ پر ان کی گھریلو تربیت کا اثر اس قدر گہرا ہو چکا تھا اور ان کی سوچ ان کی عقل و فہم کو اتنا سدھا چکی تھی کہ وہ بے لگام نہ ہو سکے۔ چنانچہ جب انہوں نے وقت کے گرداب میں اپنے خارج کو ڈوبتے دیکھا اور پھر وہ غرقابی سے بچتا ہوا نظر آ گیا تو بے ساختہ بول اٹھے:
جب چڑھتے طوفاں میں کشتی ساحل سے کنارا کرتی ہے
بے نام سی اک طاقت بڑھ کر اُس پار اتارا کرتی ہے
صنائع بدائع سے بھی یہ شعر آراستہ ہے اور زمین سے آسمان کی خبر دے گیا ہے، فکر آفاقی ہو تو اس کے نتائج ایسے اشعار ہوا کرتے ہیں، دیکھئے:
آج ان سے اعتراف عجز کر آیا ہوں میں
آج حاصل ہیں زمانے بھر کی توقیریں مجھے
آئینہ ہو چلا جمالِ حیات
کیا کہیں کس کی بارگاہ میں ہیں
شدت ہوش تو دیوانہ بنائے جیسے
سنگ میں مجھ کو شوالہ نظر آئے جیسے
کون اس ندرتِ احساس کو سمجھے کہ مجھے
تیری آواز میں خوشبو نظر آئے جیسے
رئیس فروغ تشبیہوں اور استعاروں کو حیران کن انداز میں برتتے ہیں، اچھوتا پن، عمیق معنویت ان کے فکر و خیال کی ہمرکاب رہتی ہے۔
یہ کہکشاں ہے کہ اجزائے شعلۂ آواز
کسی نے وادیِ مہتاب سے پکارا ہے
کتنی عزیز کتنی پرائی ہے زندگی
جیسے کسی حسیں کا جنازہ ہے دوش پر
یہ بھی ہے ایک دور کہ بس پی گئے فروغ
تھی تلخ گفتگو لبِ صہبا فروش پر
صناع بدائع کا تلازمہ کیسا حسین ہے، اس شعر میں ملاحظہ فرمائیں۔
سیاروں کے پیروں میں ہیں زنجیروں کو کیا ادراک
مہتابوں کو قید کیا ہے زندانوں کو کیا معلوم
سماجی اور سیاسی مطالعہ سے بھی وہ غافل نہیں رہے۔ انہوں نے اپنی ذات میں ہی مبتلا رہنے کی عادت نہیں ڈالی، اور ان کے باہر جو ہوتا رہا، وہ ان کے پیشِ نظر رہا۔
ایک دورِ آشوب تھا لیکن کیا دورِ آشوب فروغ
جو گزری جمہور پہ گزری سلطانوں کو کیا معلوم
جمہور کو بھی نہ راس آیا
یہ عہدِ زوالِ شہرِ یاراں
تشبیہہ کو وہ جس حسن و خوبی سے مہیا کرتے ہیں اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے
امید اک کنیزِ خوش الحان کی طرح
خوابوں کی وادیوں میں غزل گائے جاتی ہے
ان کے مشاہدے کا کینوس اس قدر وسیع و عریض ہے کہ اس میں جو کچھ آ جاتا ہے وہ ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو جاتا ہے۔
بہت کرے گی تو پھولوں کو گدگدا لے گی
نسیمِ صبح کا اقدامِ جارحانہ کیا
کسی کے ہاتھ نہ آئے تو شاخ گل کیسی
کوئی اماں ہی نہ پائے تو آشیانہ کیا
خامہ کسی مقصد سے اٹھا لیتا ہوں جس وقت
محسوس یہ ہوتا ہے کہ کونین بکف ہوں
بدلی ہوئی اقدار فروغ اپنی جگہ ہیں
ہر چند پرستارِ روایاتِ سلف ہوں
چلی بادِ صبا تو کیا چلی، جلی شمعِ مہر تو کیا جلی
کہ لٹی لٹی ہے کلی کلی، کہ بجھی بھی ہے کرن کرن
سرِ حلقہ ہائے بلا کشاں نظر آ گئی مجھے ناگہاں
کبھی ایک حرف میں داستاں کبھی ایک شخص میں انجمن
تپتے ہوئے ماحول میں آئی ہے یکایک
بہتے ہوئے پانی کی یہ آواز کدھر سے
جدید تر طرزِ اظہار اور گوناگوں معنویت کی طرف جب ان کا ذہن مڑتا ہے تو ان کی کلکاری اپنی نزاکتِ بیان کی معراج تک پہنچ جاتی ہے۔
فرق مصروفیتِ بادِ صبا میں نہ پڑے
درِ گلزار کی زنجیر لگا دے کوئی
میرے آوارہ خیالات کے شہزادوں کو
تیرے خوابوں کے جزیرے میں بسا دے کوئی
مغربی نقادوں نے جو پیمانے شاعری کی ناپ تول کے لیے بنائے ہیں، میں فی الحال صرف انہیں مغربی نقادوں اور دانشوروں کے شعری جائزوں کی آراء پیش کر رہا ہوں اور اپنے قارئین پر یہ بات چھوڑے دیتا ہوں کہ وہ ان مفکروں کے فریم میں رئیس فروغؔ کی تصویر کہاں جڑتے ہیں۔
ڈرائیڈن نے کہا ہے کہ شاعر کا کام آدمی کی فطرت کی عکاسی کرنا ہے۔ لیکن جانسن نے آدمی کی فطرت کے ساتھ ’’عمومی‘‘ کا اضافہ کر دیا ہے، مقصد اس کا یہ نظر آتا ہے کہ شاعر اگر صرف اپنے زمانے یا کسی بھی خاص ملک، اپنے یا باہری علاقوں کے ماحول، وہاں کی رسموں اور رواجوں کی ہی عکاسی میں لگ گیا تو، وہ محدود ہو کر رہ جائے گا۔ پھر دوسری ملتوں، دوسری قوموں اور مختلف زمانوں کے لوگ اس کے فن سے لطف اندوز نہیں ہو سکیں گے۔
جانسن کا کہنا ہے کہ شاعر کے لیے بہتر ہے کہ اپنے مفرد تجربوں اور حقیقتوں کو اپنے شعروں میں اس طور پر اہم جان کر بیان کرے کہ ان پر انفرادی تجربات اور ذاتی خیالات کی چھاپ نہ لگ سکے۔ آگے چل کر جانسنؔ اور ڈرائیڈن قریب قریب متفق الرائے ہو گئے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ شاعر کے انکار سے وہ حقیقتیں سامنے آنا چاہئیں جو عام انسانی فطرت ہے، تاکہ اس سے تمام عالمِ انسانیت لطف اندوز ہو سکے۔
ادبی ناقدین کی رائے ہے کہ جانسن نے کوئی نئی اور کارآمد بات نہیں کہی ہے، بلکہ ارسطو ’’نظریہ امکان‘‘ کو اس سے بہت کم سطح کے لفظوں میں پیش کرتا ہوا نظر آتا ہے۔
اشعار کے جوہریوں نے حیرت کا اظہار کیا ہے کہ آخر جانسن یہ توقع کس طرح کرتا ہے کہ افسانوی رنگ کے تخیل کی کارفرمائی، استعارہ کے استعمال اور تمثیل کی مدد کے بغیر کوئی شاعر انفرادی تجربہ کو عمومی رنگ چڑھانے پر قادر ہو؟
آئیے پھر رئیس فروغ کی طرف چلتے ہیں، اس کے بعد میں مشرق کے ناقدین ادب کی طرف آپ کو لے چلوں گا۔ رئیس فروغ کہتے ہیں:
دانا تھے نادان نہیں تھے پھر بھی دھوکا کھا بیٹھے
زنجیروں کے کاٹنے والے اپنے ہاتھ کٹا بیٹھے
ہم سے کیسی بھول ہوئی ہے، سوچتے ہیں پچھتاتے ہیں
شمع جلانا سیکھ رہے تھے گھر کو آگ لگا بیٹھے
ان اشعار کی روشنی میں اگر ہم اپنے سیاسی منظر نامے کا مطالعہ کریں تو اندازہ ہوتا ہے کہ شاعر کیسی گہری دانشورانہ بصیرت کا مالک ہے اور وہ اپنی عالی ہمتی، ارادے اور مظہر خیر جذبے کا خون ہوتا دیکھ کر کیسا تلملاتا ہے اور کس قدر خوبی سے ان دو شعروں میں ایک تاریخی حقیقت کو کس قدرت کے ساتھ نظم کر دیتا ہے۔ ان دو شعروں میں اس نے ایک تاریخی کتاب کو پوشیدہ کر دیا ہے۔ جو آنے والا مورخ اس سانحے کے چہرے پر سے نقاب اٹھائے بغیر آگے نہیں بڑھے گا۔
رئیس فروغ نے سامنے کی باتیں کیسے کیسے انوکھے اہتمام سے کی ہیں۔ ذرا انہیں بھی سمیٹتے چلئے:
کس کو خبر کہ اور کہاں تک سفر چلے
ممکن ہے جب قدم نہ چلیں رہ گزر چلے
آئی تھی ایک ساعت برہم گرفت میں
حالات کروٹیں سی بدلتے چلے گئے
مرے راستوں کے چراغ کیا، مری منزلوں کے سراغ کیا
کسی حادثہ کا دہن کہیں، کسی سانحہ کی جبیں کہیں
رات کو جاگے سارے دن کے نظارے کی چوٹ
زخمی آنکھیں نیند کو ترسیں خواب کہاں سے لائیں
ہاں فروغ اس گلی میں ہمیں بھی ملے
غور کرتے ہوئے نقشِ پا ہر طرف
تراشتا ہے کوئی لمحہ کوئی جادۂ نو
پھر اس طرف سے زمانے گزرتے رہتے ہیں
کچھ پھول بھیج دو لب و عارض پہ وار کے
بے رنگ ہو چلے ہیں کنول انتظار کے
بکھرے پڑے ہیں صحن تمنا میں آج بھی
ٹکرے تمام آئینۂ اعتبار کے
ہم کشتگان فن سے تعارف کو موت بھی
آئی کبھی تو آئے گی زلفیں سنوار کے
رات کی گود میں سوئی ہوئی راہوں پہ ابھی
دن کے روندے ہوئے کچھ نقش قدم جاگتے ہیں
یہ کسی شہر کی خوشبو سے مہکتے جھونکے
ان ہواؤں کے سلائے ہوئے کم جاگتے ہیں
اک حرف زیر لب نے شعور و خیال کی
ویرانیوں میں شہر سے آباد کر دئیے
خواب میں خواب پرونا کوئی ہم سے سیکھے
شہر کے شہر تو دم بھر میں سجا لیتے ہیں
گرد کہتی ہے گیا ہے کوئی لغزیدہ خرام
پاؤں مجروح تھے نقشِ کفِ پا کہتے ہیں
ضرب مضراب سے آگاہ نہیں ہیں جو لوگ
ساز کی موج تبسم کو صدا کہتے ہیں
ہم اپنے قریب ترین ماضی قریب کو اگر بغیر غور کیے بھی دیکھیں تو جو تکلیف دہ حقیقت نظر آتی ہے، اس پر بھی ایک مجلسِ عزا برپا کی جا سکتی ہے۔ رئیس فروغ کا کمالِ سخن یہ ہے کہ اس منظر نامے کو بھی انہوں نے غزل کے شعروں کی ہئیت میں بیان کیا ہے اور نہایت جدید ترکیب و آہنگ سے بیان کیا ہے۔
منزل ریگ رواں پوچھ رہے تھے ہم سے
اس ہوا سے جو گزرتی نہیں ویرانے سے
سیاسیات ہماری زندگی کے حقائق سے کوئی الگ شے نہیں۔ لیکن مزا تو اس کے بیان میں یہ ہے کہ اسے خالص غزل کہئے تو بھی درست اور اس ٹیس کی طرح اسے محسوس کیجئے، جس پر آہ بھی منہ سے ادا نہ کی جا سکے تب بھی ٹھیک۔
صبح کی منزل گل پوش ملے یا نہ ملے
رات کے سینہ فگاروں کا سفر جاری ہے
نزاکت خیال اور انوکھی تشبیہیں وضع کرنا رئیس فروغ کا وطیرہ کمال ہے، جو اس قدر کثرت سے ان کی شاعری میں رچا ہوا ہے کہ اسے محسوسات کی کھلی آنکھوں سے ہی دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ بات بلا تردد کہی جا سکتی ہے کہ رئیس فروغ اپنی دو دہائیوں میں مجتہدِ شاعری کہلا سکتے ہیں۔
اس کی باتوں میں تیرتے ہیں کنول
اس کا لہجہ ہے چاندنی کی طرح
جو شعاعوں کے جادو سے آگاہ تھے
اپنی تصویر میں رنگ بھرتے رہے
آپ کہہ سکتے ہیں کہ وزیریؔ! یہ تمھارے ذاتی ذوق کی بات ہے۔ لیکن میں اصرار کروں گا اس نکتہ پر کہ ہم اہلِ مشرق، اپنے مشرقی ادب کو مغربی مفکرین، سخنوران یا دانشوران کے پیمانوں سے ناپتے پھریں، آج کل کے مغرب زدہ ہمارے ناقدین کی پسند کو اگر سامنے رکھ کر بات کی جائے، تو میں نے یہ خدمت بھی یہاں تک انجام دے دی ہے۔ اس کے با وصف میں کہوں گا یہی کہ مشرقی شاعری کو مشرقی ناقدینِ ادب کی آراء کے سائے میں رہ کر ہی اپنے تجزیے پیش کرنا چاہئیں۔ چنانچہ اب میں مشرقی تنقید کے اکابرینِ اول سر سید، مولانا محمد حسین آزاد، مولانا الطاف حسین حالی اور مولانا شبلی نعمانی کی میزان میں بھی رئیس فروغؔ کے جواہرات ادب کو لوں گا۔
سر سید احمد خان مسلمانانِ برِّ کوچک ہند کے سب سے بڑے تعلیمی محسن ہیں۔ انہوں نے مسلمانوں کو تعلیمی پسماندگی اور فرنگیوں اور ہندوؤں کے پھیلائے ہوئے جال سے نجات دلانے کے لیے جو خدمات کی ہیں وہ تاریخ میں محفوظ ہیں، سر سید نے ادب کی اصلاح اور اس کے لیے اچھی تدابیر تلاش کرنے کی جو علمی تحریک شروع کی تھی اس سے ہر چند کہ مولانا محمد حسین آزاد وابستہ نہیں ہوئے۔ لیکن اس تحریک نے جو فکری فضا پیدا کر دی تھی وہ اُس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ انہوں نے اپنے ڈھب سے اردو ادب اور تنقید پر جدید طریقہ سے کام شروع کر دیا تھا۔ اور وہ اپنی استعداد کی حدود میں کامیاب بھی ہوئے۔ ان کی تنقید نگاری پر قدیم مشرقیت کا رنگ غالب رہا۔
۱۵ اگست ۱۸۶۷ء کو ’’انجمن پنجاب‘‘ کے ایک مشاعرہ میں انہوں نے اپنی پہلی علمی تقریر میں اپنے تنقیدی خیالات کو بیان کیا تھا۔ اس تقریر یا خطاب کے علاوہ ان کے کچھ تنقیدی مضامین دیوان ذوقؔ کے ’’مقدمہ‘‘ کے علاوہ ’’سخندانِ فارس‘‘ اور نگارستان میں شائع ہوئے ہیں۔ لیکن اس حوالے سے ان کی بہت ہی اہم تصنیف ’’آبِ حیات‘‘ ہے۔
مولانا محمد حسین آزاد نے انگریزی تعلیم اس دور میں حاصل کی جب ان کے کالج ’’دہلی کالج‘‘ میں دو پروفیسر انگریز بھی تھے۔ ان کی تنقیدی کاوشوں پر کلیم الدین احمد اور ڈاکٹر احسن فاروقی نے بڑے اعتراضات کیے ہیں۔ لیکن ڈاکٹر سید عبد اللہ نے ان کے خیالات سے اتفاق نہیں کیا اور کہا کہ آزاد ایک خاص تہذیبی ماحول کی روشنی میں کسی خاص زمانے کی شاعری کے خصائص کو سمجھانے میں انہیں جو کمال حاصل تھا وہ بہت کم لوگوں کے حصہ میں آیا ہے۔ ان کے اندازِ تنقید میں تاثراتی اور ذاتی معیاروں کے ساتھ ساتھ تہذیبی ماحول بھی موجود رہتا ہے۔
ڈاکٹر عبادت بریلوی نے کہا ہے کہ ان کا خیال تھا کہ شعر ایک پرتوِ روح القدس ہے اور ’’فیضان رحمت الٰہی ہے‘‘۔ ڈاکٹر عبادت بریلوی نے اپنی تصنیف ’’اردو کا تنقیدی ارتقاء‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’آزاد اردو کے پہلے نقاد ہیں جن کے ہاتھوں نظریاتی مباحث کا چراغ روشن ہوا۔‘‘
مولانا محمد حسین آزاد ۱۸۳۷ء میں دہلی کے ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ وہ بہت اچھے شاعر بھی تھے۔ نمونتاً یہاں ان کی قدرت سخن آرائی پیش کرنا ضروری ہے۔ ان کی ایک نظم ’’ابرِ کرم‘‘ ہے، جس کا جستہ جستہ مطالعہ ضروری ہے، تاکہ یہ بات سمجھی جا سکے کہ شعر کا جوہری شاعر ہو تو شعر اور شاعر کے جوہر پرکھے جا سکتے ہیں۔
چلنا وہ بادلوں کا زمیں چوم چوم کر
اور اٹھنا آسماں کی طرف جھوم جھوم کر
آتی ادھر صبا ہے، ادھر سے نسیم بھی
اور ان کے ساتھ ساتھ ہے آتی شمیم بھی
بوندوں میں جھومتیں وہ درختوں کی ڈالیاں
اور سبز کیاریوں میں وہ پھولوں کی لالیاں
وہ ٹہنیوں میں پانی کے قطرے ڈھلک رہے
وہ کھاڑیاں بھری ہوئیں تھالے چھلک رہے
جل تھل ہیں کوہ دشت میں تالاب گلاب کے
کوئل کا دور دور درختوں پہ بولنا
اور دل میں اہل درد کے نشتر گھنگھولنا
املی کے اک درخت میں جھولا پڑا ہوا
اور ساتھ اس کے آم کا ٹپکا لگا ہوا
جھولوں میں نوجوان ہیں پینگیں چڑھا رہے
اور بچے آم کے ہیں پپیہے بجا رہے
یہ نظم میں نے نمونتاً اس لیے پیش کی ہے، تاکہ ان کی لفظیات، غائر مطالعۂ فطرت، حسنِ بیان، جذبے کی سچائی، تصنع سے پرہیز اور مہمل تراکیب کے مقابلے میں ادب کے مسلمہ اصولوں کی پاسداری کا اندازہ ہو سکے۔
جدید عہد کے بڑے بڑے ادبی ڈگریاں لئے ہوئے شعراء اور انشا پردازوں کی علمی صلاحیتوں کا عالم یہ ہے کہ ان کو اپنا تلفظ سنبھالنے کی خبر تک نہیں ہے۔ لفظوں کے صحیح معنی نہیں جانتے، کس لفظ کی جمع کیا ہے اور کون سی جمع یا واحد کو وہ بول اور لکھ رہے ہیں، وہ صحیح یا غلط، اپنی دانست میں لفظ کے معنی بزعمِ خویش مقرر کر لیتے ہیں، ان حالات کو پوری لگن کے ساتھ اگر صحیح سمت میں نہ چلایا گیا اور ان کا قبلہ درست نہ کیا گیا تو اردو شاعری کی حسین دیوی جان سے جاتی رہے گی۔
آزاد نے اپنی اس نظم میں اردو زبان و ادب کے جو لفظ جن چیزوں اور کاموں یا مشاغل کے متعلق لکھے ہیں ان میں سے ان الفاظ ’’کھاڑیاں‘‘ ’’تھالے‘‘ ’’گھنگھولنا‘‘ ’’آم کا ٹپکا لگا ہوا اور آم کے پپیہے کا مطلب آج کا شاعر کتنا جانتا ہے؟ عالم آج یہ ہے کہ اچھے پڑھے لکھے اور پڑھانے والے، خاصہ اور خاصّہ، مادہ اور مادّہ، بری اور برّی، جبلی اور جبلّی کے فرق سے آگاہ نہیں ہیں اور بلا تردد بڑے دھڑلے سے ’’خاصّہ‘‘ کی جگہ خاصہ اور مادّہ کی مادہ اور بری کی جگہ برّی بولتے ہیں۔ فیّاض کو فیاض، ایاز کی جگہ ایّاز بولتے ہیں۔ اس تلفظ کو بگاڑنے میں سب سے بڑا کام ٹی وی اور کھیلوں کی کامنٹری کرنے والے انجام دیتے ہیں۔
بہر حال عالم جب یہ ہو تو تنقید آزاد، تنقید حالی اور تنقید شبلی سے کیونکر استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ مولانا الطاف حسین حالی کے نزدیک شاعری کا وظیفہ اثر آفرینی ہے۔ پس شعراء کے کلام کو تاثیر سے محروم نہیں ہونا چاہئیے۔ مولانا حالی جس عہد کے شاعر ہیں اور وہ جس تحریک سے وابستہ تھے، اس تحریک کا مقصد ادب اور زندگی کے مابین مضبوط رشتے قائم کرنا تھا۔ قوم پر نیند طاری تھی۔ اس کی بیداری کی ضرورت آ پڑی تھی۔ معاشرتی اور اخلاقی اصلاح کی اولین ضرورت تھی، قوم کو قصرِ زوال سے نکال کر بامِ عروج پر پہچانا، اس تحریک کا منشور تھا۔
جدید ناقدین ادب کا خیال ہے کہ ان کی تصنیف ’’مقدمہ شعر و شاعری‘‘ جس میں مولانا حالی کے تنقیدی افکار ہیں، یہ افکار بہت حد تک تشنہ ہیں اور تنقیدِ جدید کے اکثر تقاضوں کو پورا نہیں کرتے۔ لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ حالی کے تنقیدی افکار نہ صرف یہ کہ جدید تنقید کی مضبوط اساس ہیں بلکہ اردو تنقید میں اسے تنقید کا سب سے بڑا کارنامہ سمجھا جاتا ہے۔ حالی کا کہنا ہے کہ شاعری رب تعالیٰ کا عطیہ ہے اور جو انسانی فطرت میں مختلف مقاصد حاصل کرنے کے لیے تفویض ہوتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ شعر و شاعری کے فطری ملکہ کا بھی کوئی نہ کوئی مفید مقصد ہو گا وہ ’’فن برائے فن‘‘ کے قائل نہیں تھے۔ بلکہ ’’فن برائے زندگی‘‘ ان کے پیشِ نظر تھا۔ جو ایک صحت مند تصور ہے۔ ہمارے بعض ناقدینِ ادب نے کہا ہے کہ حالی کا یہ تصور فن کے متعلق بہت سے ضروری حقائق کو اپنی آغوش میں نہیں لیتا۔ اس سے فن کی ماہئیت کے متعلق کچھ اہم سوال، جواب طلب رہ جاتے ہیں۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ حالی کے زمانے میں ملت مسلمہ اور ملک کی قوت مقتدرہ کے جو حالات تھے ان کے پیش نظر شاعری کے لیے یہ لازم ہو گیا تھا کہ شاعری کو حیات کا تابع بنا دیا جائے اور ادب سے ملی و ملکی، سیاسی، معاشرتی، اخلاقی، اصلاحی، وسیع مقاصد کو بروئے کار لایا جائے۔
ناقدین نے اسی رویے کے سبب مولانا حالی کی تنقید کو ایک کارنامہ بھی قرار دیا ہے اور اس کی کمزوری بھی بتائی ہے، چنانچہ ڈاکٹر عبد القیوم نے لکھا ہے کہ اردو زبان میں باقاعدہ تنقید کا آغاز حالی کے ’’مقدمہ شعر و شاعری‘‘ سے ہوا ہے۔ جو ان کے دیوان کے ساتھ ۱۸۹۳ء میں اشاعت پذیر ہوا تھا۔ سر سید نے اپنے رسالہ ’’تہذیب الاخلاق‘‘ میں جن تنقیدی نکات کو بیان کیا تھا، خود حالی نے بھی اپنے مسدس میں قدیم طرز کی شاعری سے ناپسندیدگی ظاہر کی ہے۔
حالی نے باقاعدہ اصولِ تنقید مرتب کیے اور اردو شاعری کو جدید آہنگ اور جدید رجحانات کی طرف ڈال دیا، اور اسی اساس پر تنقید اور شاعری کی عمارت تعمیر کرنے کا کام شروع کر دیا۔ چنانچہ کلیم الدین احمد نے لکھا ہے کہ حالی سے اردو تنقید کی ابتداء ہوتی ہے۔ آگے چل کر لکھتے ہیں کہ حالی نے سب سے پہلے جزئیات سے قطع نظر کیا اور بنیادی اصولوں پر غور و فکر کیا اور اس کی دعوت بھی دی۔ حالی اردو تنقید کے بانی بھی ہیں اور اس کے بہترین نقاد بھی۔
ڈاکٹر سید عبداللہ نے لکھا ہے کہ ’’مقدمہ شعر و شاعری‘‘ حالی کی اردو میں نئی تنقید کی اولین باضابطہ کتاب الاصول ہے۔
ڈاکٹر احسن فاروقی نے لکھا ہے کہ جب ہم دیکھتے ہیں کہ آج کل کے نقاد باوجود ڈگریوں کے، جو ان کے علم کی اسناد ہیں، ادب اور زندگی کے تعلق کو واضح کرنے میں کسی طرح سے حالی سے آگے نہیں بڑھ سکے، تو ہمارے دل میں حالی کی عظمت بڑھتی ہے۔ حالی نے ادب اور زندگی کے باہمی رشتہ پر غور کرنے والوں کے لیے اس راستے کے پہلے نقوش بنائے ہیں۔
ممتاز حسین لکھتے ہیں ’’اعلیٰ تنقید کی ابتداء وہاں سے ہوتی ہے، جہاں سے ادبی اقدار کی تنقید کی ابتدا ہوتی ہے اور یہ شرف حالی ہی کو پہنچتا ہے۔ حالی نے سب سے پہلے ہمارے تنقیدی ادب میں، ادب اور سوسائٹی کے رشتے کو بھی معلوم کرنے کی کوشش کی۔‘‘
ڈاکٹر عبادت بریلوی رقم طراز ہیں کہ ’’اردو تنقید کی روایت میں حالی کی شخصیت اتنی نمایاں ہے کہ ایک کے بغیر دوسرے کا تصور نا ممکن ہے۔ اردو کی نظریاتی تنقید میں حالی کے تنقیدی نظریات کو ایک نمایاں جگہ حاصل ہے۔ انہوں نے سب سے پہلے ان نظریات کو پیش کیا ہے، ان سے پہلے تنقید باقاعدگی کے ساتھ موجود نہیں تھی۔ حالی کے ہاتھوں نظریاتی تنقید کا آغاز ہوا، انہوں نے ایسے نظریات پیش کیے جو اس وقت اردو کے لیے نئے نئے تھے اور جن کی بنیاد عقل و شعور پر استوار تھی۔ حالی کے نظریات اپنی ایک حکیمانہ اور سائنٹیفک بنیاد رکھتے ہیں۔
ڈاکٹر شوکت سبزواری نے فرمایا ہے کہ ’’حالی کے تنقیدی کارناموں کو سمجھنے کے لیے اس زمانے کے سیاسی اور سماجی ماحول پر نظر رہنی چاہئیے۔‘‘
مولانا شبلی نعمانی تحریک آزادی ۱۸۵۷ء کے دوران ہندوستان کے صوبہ یوپی کے ایک ضلع اعظم گڑھ کے گاؤں بندول میں پیدا ہوئے۔ وہیں عربی فارسی کی تعلیم حاصل کی اور لگ بھگ ۲۵ سال کی عمر میں مزید تعلیم کے لیے علی گڑھ گئے۔ وہاں انہیں سر سید کی سرپرستی حاصل ہو گئی۔ اس وقت مسلم یونیورسٹی کا قیام عمل میں نہیں آیا تھا۔ سر سید نے وہاں ’’محمڈن کالج‘‘ قائم کر رکھا تھا۔ مولانا شبلی کو اس کالج میں پروفیسر مقرر کر دیا۔ یہیں مولانا کو تصنیف و تالیف کا شوق پیدا ہوا۔ مولانا شبلی کی مشہور عالم تصنیف ’’سیر النبی‘‘ ان کا نام زندہ رکھنے کے لیے کافی ہے۔ ان کی تاریخی کتب میں ’’الفاروق‘‘ ’’المامون‘‘ بہت مشہور ہیں۔ اور تاریخ کی اعلیٰ کتب میں شامل ہیں۔ مولانا شبلی کی سب سے اہم تنقیدی تصنیف ’’شعر العجم‘‘ ہے۔ جس کی تمام جلدوں میں تنقید کا پہلو غالب ہے۔ چوتھی جلد میں تنقیدی نظریات پیش کیے ہیں۔ ’’موازنہ انیس و دبیر‘‘ اور ’’سوانح مولانا روم‘‘ ان کے تجزیوں، تبصروں اور جائزوں کی مشہور تصانیف ہیں۔ شبلی نہایت ہی اعلیٰ شعری ذوق کے مالک تھے۔
ڈاکٹر عبادت بریلوی نے مولانا شبلی کے تنقیدی نظریات کو غور و فکر کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ اور مولانا شبلی نے لکھا ہے کہ شعر کے دو بنیادی عناصر ہیں محاکات اور تخیل۔ ان کے خیالات میں محاکات اور تخیل میں سے اگر ایک بھی شعر میں پائی جائے تو وہ شعر، شعر کہلانے کا مستحق ہو گا۔ شبلی نے تخیل کو قوتِ اختراع کا نام دیا ہے جو ایک ہی شے کو سو سو طرح دیکھتی ہے اور یہ بات انہوں نے شاید انیس کے اس مصرع سے متاثر ہو کر کہی ہے۔
اک رنگ کا مضموں ہو تو سو رنگ سے باندھوں
شبلی عالم دین تھے، عربی، فارسی پر مہارتِ تامّہ رکھتے تھے اور مورخ و محقق تھے۔ اس کے باوجود انہوں نے اردو زبان میں جو شاعری کی ہے اسے عربی اور فارسی الفاظ اور ان کی تراکیب سے دور رکھا ہے، اس امر کا اندازہ کرنے کے لیے ان کی نظم ایثار بطور نمونہ پیش کی جاتی ہے۔ ملاحظہ ہو
’’ایثار‘‘
کافروں نے یہ کیا جنگِ احد میں مشہور
کہ پیمبر ؐ بھی ہوئے کشتۂ شمشیر دو دم
ہو کے مشہور مدینہ میں جو پہنچی یہ خبر
ہر گلی کوچہ تھا ماتم کدۂ حسرت و غم
ہوکے بیتاب گھروں سے نکل آئے باہر
کودک و پیر و جوان و خدم و خیل و حشم
وہ بھی نکلیں کہ جو تھیں پردہ نشینان عفاف
جن میں تھیں سیدۂ پاک بھی با دیدۂ نم
ایک خاتون کہ انصار نکو نام سے تھیں
سخت مضطر تھیں، نہ تھے ہوش و حواس ان کے بہم
موقعِ جنگ پہ پہنچیں تو یہ لوگوں نے کہا
کیا کہیں تجھ سے کہ کہتے ہوئے شرماتے ہیں ہم
تیرے بھائی نے لڑائی میں شہادت پائی
تیرے والد بھی ہوئے کشتۂ شمشیر ستم
سب سے بڑھ کر یہ کہ شوہر بھی ہوا تیرا شہید
گھر کا گھر صاف ہوا ٹوٹ پڑا کوہِ الم
اس عفیفہ نے یہ سب سن کے کہا تو یہ کہا
یہ تو بتلاؤ کہ کیسے ہیں شہنشاہِ امم
سب نے دی اس کو بشارت کہ سلامت ہیں حضورؐ
گرچہ زخمی ہے سر و سینہ و پہلو و شکم
بڑھ کے اس نے رخِ اقدس کو جو دیکھا تو کہا
تو سلامت ہے تو پھر ہیچ ہیں سب رنج و الم
میں بھی اور باپ بھی، شوہر بھی برادر بھی فدا
اے شہِ دیں ترے ہوتے ہوئے کیا چیز ہیں ہم
آزادی، حالی اور شبلی کے تنقیدی خیالات کو میں نے اس مقالے میں اس لیے پیش کیا ہے کہ ہم اپنی مشرقی تنقید کی روشنی میں بھی رئیس فروغؔ کی شاعری کا تجزیہ کر سکیں۔ ان تینوں بزرگ شعرا و ناقدینِ ادب نے جو پیمانے ہمیں شعری جائزوں کے لیے دئیے ہیں، ان میں رئیس فروغؔ کا کلام اصلی سونے کی طرح سو فی صد کھرا ملتا ہے۔ ہر چند کہ لہجہ اور تراکیب اس کی اپنی ہیں۔ استعارے اور تشبیہیں بھی اس نے خود وضع کی ہیں، مگر اس کے ہاں ابہام کا الجھاوا نہیں ہے اور اہمال کو اس نے اپنے پاس آنے نہیں دیا ہے اور اس نے مشرقی روایات سے بغاوت کی ہے۔ اس کے دکھ کو ذرا پرکھ کر ملاحظہ فرمائیے:
شانوں پر انجانے چہرے سینوں میں انجانے دل
شہر اپنا باشندے اپنے، لیکن یہ بے گانے دل
ویرانوں سے شہر بھرے ہیں دھوپ سے بادل آگ سے پھول
جاگتی آنکھوں دیکھ رہا ہے کیا کیا خواب سہانے دل
سادہ رنگیں نازک سنگیں حسن کا ہر مظہر ہے فروغؔ
تارے موتی شبنم غنچے پھول آنسو پیمانے دل
پھر یاد آ رہی ہیں اک شہر کی فضائیں
مریم مزاج خوشبو، عیسیٰ نفس ہوائیں
محدود ہے بصارت مسدود ہے فراست
ایسا نہ ہو تو دریا قطرے میں ڈوب جائیں
میں اس کی گفتگو کا انداز کیا بتاؤں
لفظوں میں چاند سورج لہجے میں کہکشائیں
کیا یاد کرو گے کہ کوئی آبلہ پا تھا
جی بھر کے مری راہ میں کانٹے بھی بچھا دو
تم کو تو اگر آج بھی اے اہلِ زمانہ
عیسیٰ کوئی مل جائے تو سولی پہ چڑھا دو
ہر منظر ہستی کو نئے رنگ میں دیکھا
اے حسنِ نظر تو نے بڑا ساتھ دیا ہے
ساغر و لب کے درمیاں بھی کئی
مرحلے صبر آزما گزرے
فریادوں کے سائے سائے پیار کے نغمے ڈھلتے ہیں
پھولوں کو دل دینے والے انگاروں پر چلتے ہیں
رئیس فروغؔ کی عمر نے وفا نہیں کی اور یہ نقصان ہمارے ادب کا بڑا نقصان ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایسے سلجھے ہوئے ذہن کے شعراء کم ہوتے چلے جا رہے ہیں اور جو باقی بچے کھچے رہ گئے ہیں ان کی خبر نہ جانے کیوں لوگوں کو نہیں ہے۔
٭٭٭