رئیس فروغ کی غزل اُس تازگی اور شگفتگی کی حامل ہے جس کے بغیر آج غزل نہ قاری کو متاثر کر سکتی ہے اور نہ خود شاعر کو مطمئن۔ آج کا قاری یا شاعر اگر اردو غزل کے قدیم و جدید سرمائے کا علم رکھتا ہے تو وہ محض روایتی مضامین بندھے ٹکے روایتی اسالیب میں نہ تو قبول کر سکتا ہے اور نہ تخلیق کر کے انہیں محفوظ کر لینے کا حوصلہ آسانی سے پیدا کر سکتا ہے اگر قاری یا شاعر غزل کے اس سرمائے کا سرے سے علم ہی نہیں رکھتا تو اس سے غزل کے معیار کو قائم رکھنے، اسے جانچنے اور اس میں اضافہ کرنے کی توقع عبث ہے۔ غزل میں تکمیل کی کوئی منزل نہیں ہے، کوئی غزل مکمل طور سے بالکل نئی نہیں ہو سکتی۔ لیکن ذہین شاعر اپنی تخلیق میں اس حد تک نیا پن (جسے اوپر تازگی اور شگفتگی کہا گیا ہے) ضرور پیدا کر لیتا ہے جو اسے دوسرے شعراء سے ممکن حد تک الگ اور مختلف کر دے۔ یہی انفرادیت کا نقطہ آغاز ہے، انفرادیت مکمل انقلاب یا مسلسل روایت شکنی کا نام نہیں، بلکہ آخری سانس لیتی ہوئی بعض روایات کو نیا خون دے کر تازہ دم کر دینے یا انہیں ختم کر کے انہی میں سے کسی نئی روایت، کسی نئے لہجے کی تخلیق کا نام ہے، رئیس فروغ لازمی حد تک نیا پن پیدا کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔
رئیس فروغ کے مزاج کی بنیادی خصوصیت، زندگی سے والہانہ لیکن دانشمندانہ پیار ہے، انہیں زندگی ہر رنگ میں عزیز رہی ہے اور اس کی خوشیوں اور خوبصورتیوں کے ساتھ ساتھ انہوں نے اس کے دکھوں، عذابوں اور بد صورتیوں کو بھی قبول کیا ہے اور ممکن حد تک زندگی کی دلکشی میں اضافے کی تمنا اور کوشش بھی کی ہے، زندگی کو قبول کرنے کے سلسلے میں ان کا رویہ غالب والا رویہ ہے، ان کے ہاں سنجیدگی، دل لگی، محبت، وارفتگی اور بے نیازی کے پہلو، ساتھ ساتھ مخصوص فطری انداز میں موجود ہیں، اس لیے فن کے ساتھ ساتھ ان کا رشتہ، زندگی کے تمام پیچیدہ عوامل اور مظاہر سے قائم نظر آتا ہے۔ اس رویے نے انہیں زندگی کے عذاب برداشت کرنے اور تخلیقی عمل کو آخری سانس تک جاری رکھنے کا حوصلہ عطا کیا تھا۔
رئیس فروغ نے محض بڑی بڑی باتوں یا اہم واقعات یا شدید جذبات کو ہی اپنی شاعری کا موضوع نہیں بنایا بلکہ انہوں نے روز مرّہ زندگی کے چھوٹے چھوٹے واقعات اور بظاہر معمولی باتوں کو بھی اہمیت دی ہے جو ان کے زندگی کو ہر رنگ میں قبول کرنے کا ایک ثبوت ہے۔ وہ ہر موضوع کو نہایت بے تکلّفی کے ساتھ غزل میں سمو لیتے ہیں، بے جا شکوہ و شکایت ان کا شیوہ کبھی نہیں رہا۔ دکھوں اور غموں پر محض گریہ و زاری بھی انہیں مرغوب نہیں۔ ان کے ہاں دلآویز کشادہ ذہنی اور وسعتِ قلبی کی فضا ملتی ہے۔ وہ زندگی کو محض ایک زاویے سے دیکھنے کے عادی نہیں۔ یہی رویہ انہوں نے انتخابِ الفاظ، تراکیب اور اسالیب کے استعمال میں اپنایا ہے اور تمام عمل ایک کھلی فضا میں خوش دلی کے ساتھ جاری رہتا ہے، ان کے ہاں اظہار میں جو بے تکلفی اور بے ساختگی پائی جاتی ہے وہ اسی عمل کا نتیجہ ہے۔
انہوں نے قافیوں، ردیفوں اور بحروں کے انتخاب میں بھی اسی کشادہ ذہنی اور وسعتِ قلبی کا ثبوت دیا ہے، انہوں نے چھوٹی بڑی دونوں طرح کی بحروں کو یکساں روانی، آسانی اور کامیابی کے ساتھ استعمال کیا ہے۔ ان کی بیشتر غزلوں کی زمینیں، قافیے اور ردیفوں کا نیا پن بے مثال ہے اور انہیں ان کی تلاش میں قطعاً کوئی دشواری پیش نہیں آئی جتنے نئے قافیے اور نئی ردیفیں انہوں نے استعمال کی ہیں شاید ہی اور کسی ہم عصر نے استعمال کی ہوں، ایک بڑا کمال یہ ہے کہ یہ ردیفیں اور قافیے بے جان نہیں ہیں اور نہ کسی طرح کی نامانوسیت کا احساس پیدا کرتے ہیں۔ ان کی کھنک میکدے کے جاموں اور چاندی کے نئے سکّوں ایسی ہے۔ ان کی نغمگی، حسن اور تازگی کا احساس کبھی ماند نہیں پڑتا۔
مجموعی طور پر رئیس فروغ نے غزل کو اس باسی پن اور تعفن سے پاک کیا ہے جو مردہ پرستی، روایت پرستی اور اظہار پر ناروا پابندیوں کا لازمی نتیجہ ہوتا ہے، انہوں نے ثابت کیاہے کہ غزل کی ہیئت میں بنیادی تبدیلیوں کے امکانات نہ ہونے کے باوجود غزل میں نیاپن اور انفرادیت پیدا کی جا سکتی ہے، بشرطیکہ فنکار جامد روایات کی غلامی سے نجات حاصل کر لے۔
٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...